• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا اعتراض:
حدیث میں لا نفی جنس نہی بلکہ نفی کمال ہے یعنی میرے جیسا کامل نبی نہ ہوگا۔ (۱۱۱)
الجواب:
اس اعتراض کی رو سے مطلب یہ نکلا کہ اے علی تو میرے جیسا کامل نبی نہیں ہوگا مگر گھٹیا نبی ہوگا۔ ما شاء اللہ کیا علمیت ہے پھر اس جواب میں یہ بھی قباحت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر قسم کے نبی آئے تھے صاحب کتاب بھی اور بغیر کتاب کے بھی۔ جیسا کہ مرزا و مرزائیوں کو مسلم ہے۔(۱۱۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو جملہ انبیاء کا ختم کرنے والا فرمایا ہے۔ اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بغیر کتاب کے نبی آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کیسے ہوئے اور فضیلت کیا ہوئی؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کوئی نبی بنی اسرائیل میں ان کے بعد آیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یقین نہ ہو تو اپنے نبی کی کتاب شہادۃ القرآن ص۲۶ نکال کر پڑھ لو کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد سب کے سب نبی شریعت موسوی کے حامی خادم وغیرہ تے۔(۱۱۳) حاصل مطلب یہ کہ یہ جواب بھی سراسر لغو، لچر، بے ہودہ اور جاہلانہ ہے۔
مزید برآں مرزا صاحب کو مسلّم ہے کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ نفی عام ہے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں (لا) نفی عام ہے پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے۔ (۱۱۴)
لہٰذا ثابت ہوا کہ لا نفی کمال نہیں بلکہ عام ہے جو کہ مرزا صاحب کو بھی مسلم ہے۔
---------------------------------------
(۱۱۱) ایضاً
(۱۱۲) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷، ج۵
(۱۱۳) شھادۃ القران علی نزول المسیح الموعود آخر الزمان ص۴۶ و روحانی ص۳۴۲، ج۶
(۱۱۴) ایام الصلح و روحانی ص۳۹۳،ج۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا۔ اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو کوئی تاجدار ایران میں کسریٰ جیسا نہیں ہوگا ایسے ہی قیصر روم کے بعد قیصر روم ہرقل جیسا نہ ہوگا۔(۱۱۵)
الجواب:
قیصر و کسریٰ سے مراد دونوں کی سلطنتیں ہیں۔ واقعات شاہد میں کہ جب سے کسریٰ کی سلطنت تباہ ہوئی اس وقت تک ایران کے کسی بادشاہ کا نام کسریٰ نہیں ہوا۔ جب سے قیصر کی اقلیم زیر و زبر ہوئی ہے روم کا کوئی بادشاہ ملقب بہ قیصر نہیں ہوا اور یہ پیشگوئی بالکل پوری ہوئی۔ مزید برآں جب آپ کے حکم (مرزا صاحب) نے فیصلہ کردیا ہے کہ نفی کمال نہیں بلکہ عام ہے تو پھر اس قسم کی مثالیں دینا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
---------------------------
(۱۱۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں لفظ بَعْدِیْ بھی مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہَ وَاٰیَتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ (جاثیہ رکوع۱) اللہ اور اس کی آیات کے بعد کون سی بات پر وہ ایمان لائیں گے۔ اللہ کے بعد سے کیا مقصد ہے؟ کیا اللہ کے فوت ہو جانے کے بعد؟ (معاذ اللہ ۔ ناقل) یا اللہ کی غیر حاضری میں؟ ظاہر ہے کہ دونوں معنی باطل ہیں۔ پس بعد اللہ کا مطلب ہوگا کہ اللہ کے خلاف اللہ کو چھوڑ کر ۔ پس یہی معنی ہیں لَا نَبِیِّ بَعْدِیْ کے۔ یعنی مجھ کو چھوڑ کر یا میرے خلاف رہ کر کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاولتھما کذابین لیخرجان بَعْدِیْ اَحَدَھُمَا الغسی والاخر مسیلمَۃ (بخاری: کتاب المغازی وفد بنی تمیم جلد۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خواب میں میں نے سونے کے کنگن جو دیکھے اور ان کو پھونک مار کر اڑا دیا تو اس کی تعبیر میں نے یہ کی اس سے مراد دو کذاب ہیں جو میرے بعد نکلیں گے۔ پہلا اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ، یہاں بعد سے مراد غیر حاضری یا وفات نہیں بلکہ مخالفت ہے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مدعی نبوت ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کھڑے ہوگئے تھے۔
الجواب:
بعد کا ترجمہ '' مخالفت'' خلافِ عربیت ہے۔ لغتِ عربی کی کسی کتاب میں بعد کے معنی مغائرت و مخالفت کے نہیں لکھے ہیں۔ نہ اہل زبان سے اس کی کوئی نظیر موجود ہے حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے معنی دوسری حدیثیں خود واضح کرتی ہیں۔ صحیح بخاری میں لَمْ یبق من النبوۃ (۱۱۷) یہاں بعد کا لفظ موجود نہیں اور ہر قسم کی نبوت کی نفی ہے۔ کوئی نیا نبی نہ موافق آئے گا نہ مخالف۔ صحیح مسلم میں ہے انی اٰخِرُ الانبیاء ۔(۱۱۸) پس اگر کوئی نیا ہی نبی کو موافق سہی آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخریت باقی نہیں رہتی۔ ابوداؤد اور ترمذی میں ہے اَنَا خَاتِمُ النَّبِیّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ(۱۱۹) (مشکوٰۃ ص۴۵۷) یہاں لَا نَبِیَّ بَعْدیْ کے ساتھ وصف خاتم النبیین بھی مذکور ہے جو بعد کے معنی ''مخالفت'' کے لینے کی تردید کرتا ہے کیونکہ نئے موافق نبی کا آنا ختم نبوت کے منافی ہے مسند احمد اور ترمذی میں ہے۔ ان الرسالۃ والنبوۃ انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (۱۲۰) (ابن کثیر ص۸۹، جلد۸) یہاں بعد کے معنی مخالفت کے لینے کی تردید انقطعت سے ہو رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (موافق و مخالف) ہر قسم کی رسالت و نبوت بند ہوگئی ہے۔ پس میری رسالت و نبوت کے بعد نہ تو کوئی رسول ہی ہوگا اور نہ نبی۔
اب سورۂ جاثیہ کی آیت مذکورہ کی تحقیق سنئے قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ عربی زبان جاننے کے لیے بہت سے فنون جو قرآن کے خادم میں حاصل کرنے کی ضرورت ہے منجملہ ان کے ایک فن علم معانی کا ہے۔ اس علم میں ایک باب ایجاز کا ہے جس میں لفظ اصل مراد سے کم لیکن کافی ہوتا ہے۔ اس کی دوسری قسم ایجاز حذف ہے جس میں کچھ محذوف ہوتا ہے۔ آیت مذکورہ اس قبیل سے ہے اور بَعْدَ اللّٰہ میں بعد کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ چنانچہ تفسیر معالم و خازن میں ہے اَیْ بَعْدَ کتابِ اللّٰہ اور تفسیر جلالین و بیضاوی و کشاف و سراج المنیر و ابو السعود و فتح البیان وابن جریر میں ہے اَیْ بعد حدیث اللّٰہ وھو القراٰن(۱۲۱) اس کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے سورہ اعراف و مرسلات میں ہے فبای حدیث بعدہ یومنون (پ۹،پ۲۹)کی ضمیر مجرور راجع ہے حدیث کی طرف یعنی کس بات پر اس بات کے بعد ایمان لائیں گے؟ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں جو حدیثوں میں آئی ہیں ان میں بھی ایجاز حذف ہے۔ دعائے نوم میں وارد ہے اَنْتَ الاخر فلیس بعدک شی(۱۲۲) ای بعد اخریتک(۱۲۳) فلاشی بعدہ(۱۲۴) ای امرہ بالفناء اسی طرح حدیث لا نبوۃ بعدی(۱۲۵)کے معنی میں لا نبوۃ بعد نبوتی یعنی میری پیغمبری کے بعد کوئی پیغمبری نہیں ہے۔
-----------------------------------
(۱۱۶) ایضاً ص۵۴۴
(۱۱۷) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۱۰۳۵، ج۲ کتاب الرویا باب ماجاء فی الرویا من روایۃ ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ و مسلم فی الصحیح ص۱۹۱، ج۱ کتاب الصلاۃ باب النھی عن قراۃ فی الرکوع والسجود عن ابن عباس رضی اللہ عنھما
(۱۱۸) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۴۶ کتاب الحج باب فضل الصلاۃ بمسجد مکۃ و مدینۃ
(۱۱۹) دیکھئے نمبر ۴۱ باب ھذا
(۱۲۰) دیکھئے نمبر ۴۹ باب ھذا
(۱۲۱) علی الترتیب دیکھئے، تفسیر معالم ص۱۵۷ وخازن ص۱۳۴، ج۴ وجلالین علی ہاشم بیضاوی ص۳۷۹،ج۲ و بیضاوی ص۳۷۹ ج۲ وکشاف ص۲۸۵ ج۴ و سراج المنیر ص۵۹۳، ج۳ وابو السعود ص۶۸،ج۸ وفتح البیان ص۲۳۹، ج۴ وابن جریر ص۱۴۰، ج۱۵ زیر آیت نمبر ۶ سورہ الجاثیہ یہی معنٰی حکیم نور جانشین اول مرزا قادیانی نے کیا ہے (دیکھئے حقائق القران ص۵۷۱،ج۳) اور مرزے محمود (جانشین ثانی مرزا قادیانی) نے تفسیر صغیر ص۶۶۰ میں مولوی محمد علی لاھوری نے بیان القران ص۱۶۹۸ ج۳ میں کیے ہیں۔ علاوہ ازیں بعد کا لغوی معنی ہی آخر ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ما تعبدون من بعدی پ۱ ، البقرہ آیت نمبر۱۳۳ مولوی نور الدین نے فصل الخطاب ص۴،ج۱ و حقائق الفرقان ص۲۴۶،ج۱۔ میں مرزے محمود نے تفسیر صغیر ص۲۹ و کبیر ص۲۰۲، ج۲ میں مولوی محمد علی لاہوری نے، بیان القران ص۱۲۳،ج۱ میں میر محمد اسحاق (مرزے محمود کا مامو) نے ترجمہ قران ص۲۹ میں پیر صلاح الدین نے، اپنی تفسیر قران ص۱۲۴ میں مرزائی غلام حسن نے (اپنی تفسیر) حسن بیان ص۲۳ میں مذکورہ آیت کا معنیٰ تم کیا پوجو کے میرے پیچھے، واللفظ لہ، کیے ہیں۔ چنانچہ ائمہ لغت نے لکھا ہے کہ بعد ضد قبل، لسان العرب ص۹۲،ج۳ یعنی بعد پہلے کی ضد ہے، اسی طرح منجد ص۲۰۶ میں ہے مرزا کا الہام ہے، بعد العسر یسر، اور خود ہی آنجہانی نے اس کا معنیٰ تنگی کے بعد فراخی ہے، کیا ہے۔ براھین احمدیہ ص۵۱۶ج۴۔ الغرض اگر بعد کا لغوی معنیٰ ہی مخالفت و مغائدت ہے تو اس کا معنیٰ تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ تنگی کی مخالفت فراخی ہے حالانکہ مذکورہ الہام میں مرزا کو یہ خوش خبری دی جا رہی ہے کہ عسر (تنگی) کا زمانہ ختم ہونے والا ہے اور اس کے بعد (پیچھے) تیسرے پریسر (فراخی) کا زمانہ آرہا ہے، خلاصہ کلام یہ کہ قرآن، لغت اور خود مرزا کے الہامات سے بعد کا معنیٰ پیچھے ثابت ہے۔ ابو صہیب
(۱۲۲) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۴۸ ، ج۲ کتاب الذکر باب ما یقول عند النوم واحمد فی مسندہٖ ص۳۸۱،ج۲ وابوداؤد فی السنن ص۳۳۲، ج۲ کتاب الادب باب ما یقول عند النوم والترمذی مع تحفہ ص۲۳۰،ج۴ کتاب الدعوات باب مما یلی باب ما جاء فی الدعاء اذا أوی الی فراشہٖ وابن ماجہ فی السنن ص۲۸۴ کتاب الدعاء باب ماید عوبہ اذا اوی الی فراشہ من روایت ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنھا
(۱۲۳) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص۱۸۷،ج۵ باب ما یقول عند الصباح والمساء والمنام
(۱۲۴) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۵۰،ج۲ کتاب الذکر والدعاء باب فی الادعیۃ
(۱۲۵) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۲۷۸،ج۲ کتاب الفضائل باب فضائل علی ابن ابی طالب والترمذی مع تحفہ ص۳۳۰، ج۴ ابواب المناقب باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی دوسری دلیل (اسود اور مسیلمہ) کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی ایجاز محذوف ہے اور بعد کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی یَخْرُجَان بعد نبوتی(۱۲۶) مطلب یہ ہے کہ اب جبکہ نبوت مجھے مل چکی ہے اس مل جانے کے بعد ان دونوں کا ظہور ہوگا۔ چنانچہ مسیلمہ اور اسوعنسی کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہوچکنے کے بعد ہی ہوا ہے نہ قبل۔ اس محذوف پر قرینہ صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلْکَذَّاَ بَیْنَ الَّذِیْنَ انا بَیْنَھُمَا(۱۲۷) یعنی وہ دونوں جھوٹے مدعی نبوت کہ ان دونوں کے درمیان میں موجود ہوں۔ اسی معنی کو واضح کرنے کے لیے امام بخاری نے حدیث یخرجان بعدی کے متصل ہی اَن بینھما کی روایت ذکر کی ہے۔ (دیکھو کتاب المغازی)
اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بات بنانے پر تل جائے تو پھر کوئی پروا نہیں کرتا کہ بات بنی بھی ہے یا نہیں، قرآن کی مخالفت ہو یا حدیث کی مخالفت اور عربی زبان کی مخالفت اسے کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب اور ان کی ''امت'' کا یہی حال ہے۔
حاصل کلام یہ کہ کتاب و سنت و لغت و عرب میں لفظ بعد بمعنی ''مخالفت'' نہیں آیا: وھو المراد
نوٹ: مرزا صاحب نے بھی اس کی تائید کی ہے اور انہوں نے بھی لا نبی بعدی کے معنے خود یہی کئے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا چنانچہ فرماتے ہیں
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ ولکن رسول اللہ وخاتم الخ سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔'' (۱۲۸)
---------------------------------------------------
(۱۲۶) فتح الباری ص۳۵۷،ج۱۲ کتاب التعبیر باب النفخ فی المنام
(۱۲۷) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۶۲۸،ج۲ کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفۃ وایضاً ص۱۰۴۲،ج۲ کتاب التعبیر باب النفخ فی المنام ومسلم فی الصحیح ص۲۴۴،ج۲ کتاب الرویا باب رؤیا النبی ﷺ
(۱۲۸) حاشیہ کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۷،ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۸ ج۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری طرز سے:
اس جواب میں بھی وہی بے دینی ٹپک رہی ہے کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ان کو یہ جواب دینا کہ گو تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کو تھی مگر میرے مخالف بن کر تم نبی نہیں ہوسکتے کیا مطلب ہے؟ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبوت کا عہدہ مانگا تھا جو یہ جواب دیا گیا ہے؟
ناظرین کرام! غور فرمائیے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کو تشریف لے جا رہے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ جناب علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا ملال ہے کہ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے علی رضی اللہ عنہ میں تجھے کسی مغائرت کی خاطر چھوڑ کر نہیں جا رہا بلکہ اپنے بعد اپنا جانشین کرکے جا رہا ہوں۔ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنا گئے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے تم نبی نہیں اور تیرا نبی نہ ہونا بھی ہارون علیہ السلام سے کم استعدادی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ امر مقدریوں ہی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
نیز صحیح مسلم غزوہ تبوک میں حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں لا نبی بعدی کے بجائے لا نبوۃ بعدی کے الفاظ موجود ہیں (باب فضائل علی رضی اللہ عنہ ) جس کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد نبوت نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لا نبی بعدی اور لا نبوۃ بعدی کے ایک ہی معنی ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہ دی جائے گی۔
آگے چل کر بعض علمائے متقدمین کی تحریرات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لا نبی بعدی سے مراد صرف صاحب شریعت نبی کی نفی ہے بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے۔ (۱۲۹)
الجواب:
جبکہ لا نبی بعدی کے معنی بقول شما مسیلمہ کذاب وغیرہ مخالفین سے نبوت کی نفی ہے مسلمانوں سے نہیں۔ تو پھر تشریعی اور غیر تشریعی شرط کے کیا معنی؟ کیا مخالفین یعنی مسیلمہ کذاب وغیرہ کے گروہ ہیں غیر تشریعی نبی کا امکان ہے؟ پھر تو مرزا صاحب ایسا ہی دعویٰ کرتے تھے۔(۱۳۰) احمدی دوستو! غور کرو تمہاری بد دیانتی تمہیں کہاں کہاں دھکے دلوا رہی ہے۔ ہاں جناب جب صرف شریعت والے انبیاء کی نفی ہے اور مرزا صاحب نے جو کہا ہے کہ وہ '' لانفی عام ہے'' یہ جھوٹ اور افترا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کیا ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بقول شما آئندہ کے نہ سہی) سابقہ انبیاء جن میں ''صدہا بغیر کتاب'' کے تھے، ان کے خاتم کیسے ہوئے؟ صاحبان! انصاف فرمائیے ! کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر شریعت والے نبیوں کے خاتم ہی نہیں ہیں تو پھر مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سب نبیوں کے خاتم تھے۔'' (۱۳۱) کیا معنی رکھتا ہے؟ الغرض یہ عذر باطل ہے۔
''خدا نے اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا۔''(۱۳۲)
جن علماء نے شریعت کی قید لگائی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کو ملحوظ رکھ کر لگائی ہے یعنی وہ چونکہ حسب احادیث آنے والے ہیں اور ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اس لیے انہوں نے تخصیص کردی کہ شریعت والی نبوت ختم ہے اور عیسیٰ علیہ السلام بغیر شریعت کے ایک خادم کی طرح کام کریں گے۔
حالانکہ ختم نبوت کے یہ معنی ہی نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص عہدۂ نبوت نہ پائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام تو پہلے سے نبی ہیں لا نبی بعدی لاینبا احد بعدہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی بنایا ہی نہ جائے گا۔
---------------------------
(۱۲۹) احمدیہ پاکٹ بک ۵۲۶ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۱۳۰) تجلیات الٰھیہ ص۲۵ و روحانی ص۴۱۲، ج۲۰
(۱۳۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۴۱ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۱۳۲) مکتوب مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ بنام نواب محمد علی خاں مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ ص۶ و مکتوبات احمدیہ ص۱۰۳،ج۵ نمبر۴ و مجدد اعظم ص۸۰۲،ج۲ والنبوۃ فی الاسلام ص۳۴۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باقی رہا ابن عربی وغیرہ کی تحریروں میں نبوت کے جاری رہنے کا ذکر سو اول تو مرزائیوں کو خاص طور پر شرم کرنی چاہیے کہ جس شخص کو مرزا صاحب نے وحدت الوجود کا بڑا حامی قرار دیا اور ''رسالہ تقریر اور خط'' میں وحدت و جودیوں کو ملحد، زندیق وغیرہ قرار دیا ہے۔(۱۳۳) آج اسی کی تحریروں کو دلیل بنایا جاتا ہے وہ بھی نصوص قرآن اور احادیث رسول علیہ السلام کے مقابلہ پر اس پر مزید لطف یہ کہ ان کی تحریرات میں بھی خیانت معنوی کی جاتی ہے۔ ابن عربی وغیرہ صوفیاءکی اصطلاح میں مرزائیوں کی طرح نبی دو قسم کے نہیں۔ ایک شریعت والے اور دوسرے بغیر شریعت کے بلکہ ان کے نزدیک جملہ نبی سب کے سب صاحبِ شریعت ہیں۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ وہ جملہ انبیاء کرام کو رسول کہتے ہیں اور غیر نبی اولیاء کو تشریعی بنی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں رسول جس کو تبلیغ احکام شرعیہ کا حکم ہو جو اس پر نازل ہوتے ہیں اور نبی جس کو الہام تو ہو مگر وہ اس کی تبلیغ کے لیے مامور نہ ہو۔
اَلْفَرْقُ بَیْنَھُمَا ھُوَ اَنَّ النَّبِیَّ اِذَا اُلْقَیَ اِلَیْہِ الرُّوْحُ شَیْئَانِ اقْتَصَرَ بِہٖ ذٰلِکَ النَّبِیُّ عَلٰی نَفْسِہٖ خَاصَّۃً وَیَحْرُمُ عَلَیْہِ اَنْ یُبَلِّغَ غَیْرَہٗ ثُمَّ اِنْ قِیْلَ لَہٗ بَلِّغْ مَآ اُنِزُلَ اَلَیْکَ اِمَّا لِطَائفۃٍ مَخْصُوْصَۃٍ کَسَائِرِ الْاَنبیَائِ اَوْ عَامَّۃً لَمْ یَکُنُ ذٰلِکَ اِلاَّ لِمُحمدٍ سُمِّیَ بِھٰذَا الْوَجْہِ رَسُوْلاً وَاِنْ لَمْ یخصَّ فِیْ نَفْسِہ بِحُکْمِ لَا یکُوْنَ لِمَنْ اَلَیْھِمْ فَھُوَ رَسُوْلاً لَانَبِیِّ وَاَعْنِیْ بِھَا النبَّوۃَ التَشَرِیْعِ الَّتِیْ لَا یَکُوْنُ لِلْاَوْلِیَائِ۔(۱۳۴) (الیواقیت والجواھر، ص۲۵)
نبی وہ ہے جس پر وحی خاص اس کی ذات کے لیے نازل ہو وہ اس کی تبلیغ پر مامور نہ ہو پھر اگر اس کو ایسا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کی تبلیغ پر مامور ہوا ہے خواہ کسی خاص قوم کی طرف جیسا جملہ انبیاء کرام یا تمام دنیا کی طرف تو وہ رسول ہے مگر تمام دنیا کی طرف رسول سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں ہوا۔ اور ہم نے جو نبوت تشریعی کا ذکر کیا ہے وہ یہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی یہ نبوت اولیاء کے لیے نہیں ہے۔
قد ختم اللّٰہ تعالیٰ بشرع محمد ﷺ جمیع الشرائع ولا رسول بعدہ یشرع ولا نبی بعدہ یرسل الیہ یشرع یتعبد بہ فی نفسہ انما یتعبد الناس بشریعتہٖ الی یوم القیمۃ۔(۱۳۵) (الیواقیت جلد۲، ص۳۷)
خدا تعالیٰ نے جملہ شرائع کو شریعت محمدیہ پر ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہی آئے گا جس پر خاص اس کی ذات کے لیے وحی ہو اور نہ رسول ہی آئے گا جو تبلیغ کے لیے مامور ہوتا ہے:
الذی اختص بہ النبی من ھذا دون الولی الوحی بالتشریع ولا یشرع الا النبی ولا یشرع الا الرسول۔(۱۳۶) (فتوحات مکیۃ)
یہ وہ خصوصیت ہے جو ولی میں نہیں پائی جاتی صرف نبی میں پائی جاتی ہے یعنی وحی تشریعی شرع نہیں مگر نبی کے لیے اور رسول کے لیے۔
ان تحریرات سے صوفیاء کا مطلب ظاہر ہے۔ یعنی وہ جملہ انبیاء کو تو تشریعی نبی کہتے ہیں اور اولیاء امت کا نام انہوں نے غیر تشریعی نبوت رکھا ہے
-----------------------------------------------------------
(۱۳۳) لم اجدہ
(۱۳۴) الیواقیت والجوھر ص۳۵
(۱۳۵) ایضاً ص۳۷،ج۲
(۱۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
حدیث اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ ہوتا کا جواب ہے کہ یہ حدیث غریب ہے لہٰذا حجت نہیں۔ (۱۳۷)
الجواب:
کیا غریب حدیث ضعیف یا غلط ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں صحیح ہوتی ہے چنانچہ خود مرزا صاحب نے بھی اس کو مانا ہے جیسا کہ ہم بحوالہ ازالہ اوہام (ص۲۳۶) کی عبارت درج کر آئے ہیں اگر یہ حدیث غیر معتبر ہوتی تو مرزا اس کو ازالہ اوہام میں ہرگز درج نہ کرتے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ:
'' لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں زید و عمر سے ڈھونڈتے ہیں اور میں بلا انتظار آپ کے منہ سے سنتا ہوں۔''(۱۳۸) (وافع الوساوس ص۲۵)
------------------------------------------------
(۱۳۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۲۸
(۱۳۸) آئینہ کمالات اسلام ص۲۵ ترجمہ از فارسی اشعار
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
لَوْلَمْ اُبْعَثْ لَبُعِثْتَ یَا عُمَرُ (مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ ص۵۱۹ وبر حاشیہ مشکوٰۃ مجتبانی باب مناقب عمر رضی اللّٰہ عنہ)
یعنی اگر میں معبوث نہ ہوتا تو اے عمر تو معبوث ہوتا۔
لَولَمْ اُبْعَثْ فِیْکُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ فِیْکُمْ۔ (کنوز الحقائق ص۵۳)
اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر تم میں مبعوث ہو جاتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر کا مطلب یہ ہے اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو تم میں عمر مبعوث ہو جاتا۔ کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوگئے لہٰذا حضرت عمر نبی نہ ہوسکے۔ (۱۳۹)
الجواب:
ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں تحت حدیث لَوْکَانَ بَعْدَی نبی لکان عمرؓ لکھا ہے وَفِیْ بعض طوق ھذا الحدیث لو لم ابعث لبعثت یا عمر ۔ (۱۴۰) لیکن ملا صحب نے نہ راوی حدیث کا نام لیا ہے نہ مخرج کا پتہ دیا ہے نہ الفاظ مذکورہ حدیث کی کسی معتبر یا غیر معتبر کتاب میں ملتے ہیں البتہ حافظ مناوی نے کنوز الحقائق میں اس کے ہم معنی روایت دو طریق سے نقل کی ہے ایک تو ابن عدی کے حوالہ سے جس کے الفاظ یوں ہیں لَوْ لَمْ ابعث فیکم لبعث عمر فیکم۔(۱۴۱) دوسری فردوس ویلمی کے حوالے سے جس کے الفاظ یوں ہیں لولم ابعث لبعث بعدی عمر رضی اللہ عنہ (حوالہ مذکور) ملا علی قاری نے غالباً اسی روایت کو مرقاۃ میں بالمعنی نقل کردیا ہے۔ محدثین کے نزدیک ہر دو روایات باطل، جھوٹی اور موضوع ہیں ابن جوزی نے اپنی موضوعات میں ابن عدی والی روایت کو دو سندوں سے نقل کیا ہے اور چونکہ دونوں میں راوی وضاع ہیں اس لیے دونوں کو موضوع کہا ہے چنانچہ سلسلہ اسناد ملاحظہ ہو ابن عدی کہتے ہیں حدثنا علی بن الحسین ابن قدید حدثنا زکریا بن یحیی الوقار حدثنا بشر بن بکر عن ابی بکر بن عبداللہ ابن ابی مریم الغسانی عن ضمرۃ عن غضیف بن الحارث عن بلال بن ریاح قال قال النبی ﷺ لو لم ابعث فیکم لَبُعِثَ عمر رضی اللّٰہ عنہ(۱۴۲) (۲) حدثنا عمر ابن الحسن بن نصر الحلبی حدثنا مصعب بن سعید ابو خیثمۃ حدثنا عبداللّٰہ بن واقد الحرانی حدثنا حیوۃ بن شریح عن بکر بن عمرو عن مشرح بن ہامان عن عقبۃ بن عامر قال قال ﷺ لو لم ابعث فیکم لبعث عمر فیکم۔(۱۴۳) ابن جوزی نے اس کے بعد فرمایا ہے زکریا کذاب یضع وابن واقد الحرانی متروک ذہبی نے میزان میں خود ابن عدی سے، جس نے روایت مذکورہ اپنی کتاب کامل میں درج کی ہے، نقل کیا ہے قال ابن عدی یضع الحدیث وقال صالح کان من الکذابین الکبار (۱۴۴) یعنی پہلی سند کا راوی زکریا وقار حدیثیں بناتا تھا۔ زکریا بہت بڑے جھوٹوں میں سے ہے دوسری سند کا راوی ابن واقد حرانی متروک ہے جیسا کہ ابن جوزی اور جوز جانی نے کہا ہے بلکہ میزان میں یعقوب بن اسماعیل کا قول ابن واقد حرانی کے بارے میں یکذب بھی موجود ہے یعنی یہ بھی جھوٹا ہے۔ چنانچہ اس نے ترمذی وغیرہ کی سند رجال اپنی جھوٹی روایت پر لگالی ہے۔ (۱۴۵)
کنوز الحقائق کی دوسری حدیث جو بحوالہ فردوس ویلمی منقول ہے اس کی سندیوں ہے: قال الدیلمی انبأنا ابی انبأنا عد الملک بن عبدالغفار انبأنا عبد الد بن عیسی بن ھارون انبأنا عیٰسی بن مروان حدثنا الحسین بن عبدالرحمن بن حمران حدثنا اسحق بن نجیع الملطی عن عطاء بن میسرۃ الخراسای عن ابی ھریرۃؓ عن النبی ﷺ انہ قال لولم ابعث فیکم الخ ۔(۱۴۶) یہ حدیث بھی موضوع اور باطل ہے۔ اس کی سند میں اسحق ملطی و ضاع و کذاب ہے۔ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں قَالَ احمد ھُوَ من اکذب الناس وقال یحیی معروف للکذب ووضع الحدیث ۔ (۱۴۷) یعنی اسحق بڑا جھوٹا ہے۔ جھوٹی حدیثوں کے بنانے میں مشہور ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی بھی ایسا ہی ہے۔ تہذیب میں سعید بن مسیب کا قول منقول ہے کذب عطا (۱۴۷) امام بخاری نے بھی تاریخ صغیر میں سعید کا قول کذب نقل کیا ہے(۱۴۹) (۱۵۷) یعنی عطاء جھوٹا ہے خود امام بخاری فرماتے ہیں عَامَۃُ احادیثہ مقلوبۃ (۱۵۰) یعنی عطاء خراسانی کی حدیثیں الٹی پلٹی غلط ہوتی ہیں۔ امام بیہقی اسے کثیر الغلط کہتے ہیں (۱۵۱)حاصل کلام یہ کہ کنوز الحقائق کی دونوں روایتیں باطل اور جھوٹی ہیں اور یہ کچھ ان دونوں روایتوں پر ہی موقوف نہیں ہے۔ بلکہ کامل ابن عدی اور فردوس ویلمی کی تمام روایات کا یہی حال ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی عجالہ نافعہ میں طبقۂ رابعہ کا بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں احادیثے کہ نام و نشان آنہا کہ در قرون سابقہ معلوم نبود (تا)ایں احادیث قابل اعتماد نیستند پھر ان کے نقل کرنے والوں میں کتاب الکامل لابن عدی اور فردوس ویلمی کا بھی نام گنایا ہے۔(۱۵۲) اور بستان المحدثین میں ویلمی کی کتاب الفردوس کے تذکرہ میں لکھتے ہیں '' در سقیم و صحیح احادیث تمیز می کند و لہٰذا دریں کتاب و موضوعات و واہیات تودہ تودہ مندرج ۔(۱۵۳) یہی حال فردوس ویلمی کی اس روایت کا بھی ہے جسے مرزائیوں نے اپنی ڈائری کے ص۵۱۸ میں کنوز الحقائق کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر افضل ھذہ الامۃ الا ان یکون نبی(۱۵۴) اور اس سے امکان نبوت کی دلیل پکڑی ہے۔ حالانکہ یہ روایت، باطل، موضوع اور جھوٹی ہے۔ اور اس کے ثبوت کے لیے اس کے حوالہ میں فردوس ویلمی کا نام کافی ہے۔ حافظ منادی نے کنوز الحقائق میں فردوس ویلمی کے حوالہ سے ہی نقل کیا ہے۔ ولعل فیہ کفایۃ
------------------------------------------------
(۱۳۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۲۹
(۱۴۰) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص۳۰۲،ج۱۱ باب مناقب عمر
(۱۴۱) کنوز الحقائق ص۱۵۱،ج۲
(۱۴۲) الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ص۱۰۷۱،ج۳
(۱۴۳) ایضاً ص۱۵۱۱،ج۴
(۱۴۴) میزان الاعتدال ص۷۷،ج۲ والکامل لابن عدی ص۱۰۷۱، ج۳
(۱۴۵) میزان الاعتدال ص۵۱۷،ج۲
(۱۴۶) تسدید القوس علی مسند فردوس الاخبار للدیلمی ص۴۱۷،ج۳ ، نوٹ: دیلمی کی سند اس طرح ہے کہ اخبرنا الامام والدی رحمہ اللہ اخبرنا ابو القاسم عن الملک بن عبدالغفار الحافظ اخبرنا ابو منصور عبداللّٰہ بن عیسٰی بن ابراھیم اخبرنا الفضل بن الفضل الکندی اخبر عیسی بن ھارون الفرج حدثنا الحسین بن عبداللّٰہ بن حمران الرقی حدثنا اسحاق بن نجیع الملطی عن عطاء بن مسیرۃ الخر اسانی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ الخ، ابو صھیب
(۱۴۷) میزان الاعتدال ص۲۰۰،ج۱
(۱۴۸) تھذیب ص۲۱۵،ج۷
(۱۴۹) تاریخ صغیر للبخاری ص۳۶،ج۲ و تھذیب التھذیب ص۲۱۵،ج۷
(۱۵۰) میزان الاعتدال ص۷۵،ج۳
(۱۵۱) اولاً مذکورہ جرح امام بیھقی کی نہیں بلکہ امام ابن حبان کی ہے ، دیکھئے، تھذیب التھذیب ص۲۱۵،۷ و میزان الاعتدال ص۷۴، ج۳ ثانیاً عطاء صدوق ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے، تقریب ص۱۷۹ یعنی جان بوجھ کر غلط بیانی نہیں کرتا بلکہ کمزور حافظ کی وجہ سے غلطی کر جاتا ہے۔ ثالثاً عطاء مرسل روایات بیان کرتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یرسل ویدلس تقریب ص۱۷۹، یعنی مرسل روایات بیان کرتا ہے اور تدلیس کرتا ہے۔ اور عطاء کی حضرت ابوہریرہt سے ملاقات ثابت نہیں جیسا کہ تہذیب ص۲۱۲، ج۷ میں اس کی صراحت ہے گویا مذکورہ روایت مرسل ہے جو کہ ضعیف کی ایک قسم ہے جیسا کہ جمہور محدثین کا مذہب و مسلک ہے۔ رابعاً مذکورہ روایت کے من گھڑت ہونے کے لیے اسحاق ملطی کا وضاع و کذاب ہونا ہی کافی ہے۔ ابو صہیب
(۱۵۲) عجالہ نافعہ ص۸۷۷
(۱۵۳) بستان المحدثین ص۶۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
بنی اسرائیل میں نبی سیاست کرتے رہے مگر میرے بعد خلفاء ہوں گے کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں سیکون کا لفظ دارد ہے جس کے معنی ہیں عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے۔(۱۵۵)
الجواب:
معلوم نہیں کہ اس سے معترض کا مطلب کیا ہے ہاں صاحب خلافت کے معاً بعد شروع ہونے کا ذکر ہے پھر لکھا ہے:
'' اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت میں خلافت اور نبوت جمع نہ ہوگی۔''
مطلب یہ کہ جو بادشاہ خلیفہ ہوگا وہ نبی نہ ہوگا اور جو نبی ہوگا وہ بادشاہ نہ ہوگا۔ کیا کہنے ہیں اس یہودیانہ تحریف کے۔
حدیث شریف کے الفاظ صاف ہیں کہ بنی اسرائیل کے بادشاہ نبی ہوتے تھے۔ جب ایک فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا قائم مقام بادشاہ ہوتا۔ اب اس تقریر سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی بادشاہ نبی ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین بھی نبی ہونا چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو یوں حل کیا کہ چونکہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہونا اس لیے میرے بعد میرے جانشین صرف خلفاء ہوں گے۔ جو عنقریب عنان خلافت سنبھالیں گے پھر بکثرت ہوں گے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت بند اور انتظام ملکی کے لیے خلافت جاری۔
اس خلافت کے مسئلہ کو دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ:


تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰہ ... ثم تکون۔
خلافۃ علی منہاج النبوۃ ماشاء اللّٰہ ... ثم تکون۔
ملکاً عاضا فیکون ما شاء اللّٰہ ... ثم تکون۔
خلافۃ علی منھاج النبوۃ ۔

(۱۵۶)
رہے گی میری نبوت تمہارے اندر جبتک خدا چاہے پھر ہوگی خلافت منہاج نبوت پر اس کے بعد بادشاہی ہو جائے گی پھر خلافت منہاج نبوت پر ہوگی یعنی امام مہدی کے زمانہ میں یعنی جس طریق پر امور سیاسیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چلایا اسی طرح مطابق آپ کی سنت کے آخری زمانہ میں امام مہدی چلائے گا۔
اور ایک روایت بیہقی میں ہے کہ اس کے بعد پھر فساد پھیل جائے گا۔ حتیّٰ یلقو اللّٰہ یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔(۱۵۷) (مشکوٰۃ کتاب الفتن)
حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے لیے سوائے درجۂ ولایت و خلافت وغیرہ کے نبوت کا اجرا نہیں ہوگا۔
بطرز دیگر سین تحقیق و قوع کے لیے ہے جیسے سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔(۱۵۸) یعنی جس چیز کا وہ سوال کرتے تھے وہ قیامت کے دن ضرور بالضرور ان کے گلوں میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ نبوت منقطع ہوچکی ہے اور اس انقطاع نبوت کے بعد ایک چیز یقینا باقی ہے اور وہ ہے خلافت۔
-----------------------------------------------------------------------
(۱۵۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۸۶
(۱۵۵) ایضاً ص۵۳۰
(۱۵۶) اخرجہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ص۶۹۱،ج۶ باب ماجاء فی اخبارہٖ ﷺ بالشر الذی یکون بعد الخیر واحمد فی مسندہٖ ص۴۰۴، ج۵ واوردہ مرزا محمود فی تفسیرہٖ الکبیر ص۴۴۷،ج۱۰
(۱۵۷) اخرجہ من حدیث ابی عبیدۃ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ الدارمی فی السنن ص۱۱۴،ج۲ کتاب الاشربۃ باب ما قیل فی المسکر والبزار فی مسندہٖ اوردہ الھیثمی فی کشف الاستار ص۲۳۲،ج۲ کتاب الامارۃ باب براۃ ھذا الامروما یصیر الیہ، ومن حدیث ابی عبیدۃ ومعاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنھما، اخرجہ ابویعلی الموصلی فی مسندہٖ ص۱۷۷،ج۲ فی مسند ابی عبیدۃ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ الحدیث (۴؍۸۷۳) والطبرانی فی المعجم الکبیر ص۵۳، ج۲۰، فی مسند معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ الحدیث (۹۱،۹۲) و عزاء للبیھقی فی، شعب الایمان، الخطیب التبریزی فی مشکوٰۃ المصابیح ص۲۶۰،ج۲ کتاب الدقاق باب الانزار و التحزیر
(۱۵۸) پ۴ اٰل عمران آیت نمبر ۱۸۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
حدیث تیس دجال والی کا یہ جواب ہے کہ تیس دجال کی تعیین بتاتی ہے کہ بعد میں کچھ سچے بھی آئیں گے۔ (۱۵۹)
جواب:
تیس کی تعیین اس لیے ہے کہ کذاب و دجال صرف تیس ہی ہوں گے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلثون دجالون کلھم یزعمُ انَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہ(۱۶۰) (ابوداؤد) (قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال و کذاب پیدا نہ ہولیں)صاف دال ہیں کہ قیامت تک تیس ہی ایسے ہونے والے ہیں ان سے زیادہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ یہ قیامت تک کی شرط ہے:
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک تیس کے قریب دجال پیدا ہوں گے۔''(۱۶۱)
باقی رہا یہ کہ کچھ سچے بھی ہوں گے سو اس کے جواب میں وہی الفاظ کافی ہیں۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دجالوں کی تردید میں ساتھ ہی اس حدیث میں فرمائے ہیں لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
------------------------------
(۱۵۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۳۱
(۱۶۰) تخریج گزر چکی ہے دیکھئے ۴۱
(۱۶۱) ازالہ اوہام ص۱۹۹ و روحانی ص۱۹۷،ج۳
 
Top