• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری تحریف:
مَاکَانَ اللّٰہ لیذر الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یمیز الخبیث مِنَ الطَّیِّبِ۔ (اٰل عمران: رکوع۱۷)
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر کہ اے مومنو! تم اس وقت ہو یہاں تک کہ پاک اور ناپاک میں تمیز کردے اور خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو غیب پر اطلاع نہیں دے گا کہ (فلاں پاک ہے اور فلاں ناپاک) بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گا بھیجے گا (اور ان کے ذریعہ سے پاک اور ناپاک کی تمیز ہوگی) پس اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ سورہ آل عمران مدنی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کم از کم تیرہ سال بعد نازل ہوئی جبکہ پاک اور ناپاک میں کافی تمیز ہوچکی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں میں پھر ایک دفعہ تمیز کرے گا مگر اس طور سے نہیں کہ ہر مومن کو الہاماً بتا دے کہ فلاں مومن اور فلاں منافق ہے بلکہ فرمایا کہ رسول بھیج کر ہم پھر ایک دفعہ یہ تمیز کردیں گے پس سلسلہ نبوت ثابت ہے۔'' (۱۹۹)
الجواب :
اس آیت میں بھی وہی صیغہ مضارع کا ہے یَجْتَبِیْ مِنْ رُسُلِہٖ من یَّشَآئُ(۲۰۰) یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور ناپاک میں تمیز کرنے کو رسول چنتا ہے۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے۔ مگر مرزائی صاحب نے یَجْتَبِیْ کا ترجمہ کیا ہے کہ ''بھیجے گا'' اس پر دلیل یہ کہ پاک ناپاک میں اس وقت سے پہلے تمیز ہوچکی تھی۔
پاک ناپاک میں تمیز تو اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا اور آخری دم تک ہوتی رہی۔ مگر جس خاص تمیز کا اس جگہ ذکر ہے وہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہے کہ :
'' فلاں مومن اور فلاں منافق ہے۔'' (۲۰۱)
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس آیت کے نزول کے وقت مومن منافق میں امتیاز ہوچکا تھا۔ جو اب اسی آیت میں موجود ہے کہ کلی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا بہت سے منافق مسلمانوں میں ملے جلے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر اے مومنو! تم اس وقت ہو۔''(۲۰۲)
اس کے علاوہ اسی صورت میں پہلی آیات میں صاف ملتا ہے واذا لقوکم قالوا اٰمنا واذا خَلَوْ عَضُّوْ علیکم الانامل من الغیظ۔(۲۰۳)جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے جب علیحدہ ہوتے ہیں تو مارے غیظ کے تم پر انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔
اور سنو! مرزائی محرف کو قرار ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور مدنی حالت کا نقشہ دوسری جگہ خدا نے یوں بیان فرمایا ہے کہ وَمِنْ اَھْلِ المدینۃ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تعلمُھُمْ نَحَنُ نَعْلَمُھُمْ۔ (۲۰۴)اور مدینہ میں کئی منافق تمہارے اردگرد موجود ہیں جنہیں تم نہیں جانتے ہو ہم جانتے ہیں۔ اسی طرح سورہ منافقون میں بھی جو مدنی ہے منافقوں میں کی موجودگی کا ذکر ہے پس مرزائی محرف کا یہ کہنا کہ اس وقت مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہ آیت کسی آئندہ رسول کے متعلق ہے۔ سراسر جہالت بلکہ یہودیانہ تحریف ہے کہ ختم نبوت کی صریح اور واضح آیات کے ہوتے ہوئے اس طرح گمراہی کے سمندر میں مرزائیوں کو غوطے دے رہا ہے۔
اس آیت میں بھی یَجْتَبِیْ زمانہ مستقبل کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں بھی حکایت ہے حال ماضی کی۔ دلیل اس پر دوسری آیات ہیں جن میں ان مجتبی رسولوں کا نام لے لے کر بیان کردیا گیا ہے۔ فرداً فرداً بھی اور ایک جائی طور سے بھی۔ فرداً فرداً ملاحظہ ہو: حضرت آدم علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۵)سورۃ طہ میں آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اجتباہ (۲۰۶)سورہ نحل میں آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۷) سورہ قلم میں آیا ہے یکجائی طور سے دیکھئے سورہ مریم میں دس پیغمبروں (زکریا علیہ السلام ، یحییٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام کے ذکر کے بعد آیا ہے مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجتبینا(۲۰۸)۔ اور سورہ انعام میں اٹھارہ پیغمبروں کا تذکرہ کرکے فرمایا اجتبیناھم وھدینا ھم الی صراط المستقیم(۲۰۹)۔ انہی رسولوں کا تذکرہ اجمالاً لکن اللہ یجتبی من رسلہ میں آیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا خالی کرگئے تلک امۃ قد خلت (۲۰۰) کوئی آسمان پر اٹھا لیا گیا اور کوئی زیر زمین دفن کردئیے گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی جدید نبی نہیں آنے کا اور مرزا صاحب ہماری تصدیق کرتے ہیں:
'' کوئی شخص بہ حیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا۔'' (۲۱۱)
----------------------------------------------
(۱۹۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۰
(۲۰۰) پ۴ اٰل عمران:۱۷۹
(۲۰۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۱
(۲۰۲) ایضاً ص۴۵۰
(۲۰۳) پ۴ اٰل عمران:۱۱۹
(۲۰۴) پ۱۱ توبہ:۱۰۱
(۲۰۵) پ۱۶ طٰہٰ:۱۲۳
(۲۰۶) پ۱۴ النحل:۱۲۹
(۲۰۷) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۰۸) پ۱۶ مریم:۵۸
(۲۰۹) پ۷ الانعام:۸۷
(۲۱۰) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۱۱) ازالہ اوہام ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۲،ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری تحریف:
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ الایۃ (سورۂ نساء)۔جو لوگ اطاعت کریں گے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پس وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی، صدیق، شہید اور صالح، اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کرکے نبوت کے مقام تک پہنچتا ہے۔ (۲۱۲)
الجواب:
(۱) اس آیت میں دنیا کے اندر نبوت وغیرہ کے مقام ملنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ یہ ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ آخرت میں انبیاء، صدیق و شہداء و الصالحین کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ اگلے الفاظ حسن اولٰئک رفیقا رفاقت پردال ہیں۔ اور آیت میں مَعَ کالفظ بھی موجود ہے۔ جس کے معنی میں ساتھ خود مرزائی مانتا ہے کہ:
''مع'' کے معنی ساتھ کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ ان اللہ مع المتقین کہ خدا نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔'' (۲۱۳)
پس مطلب ظاہر ہے۔ قادیانی محرف اس جگہ مَعَ کے معنی ساتھ نہ ہونے پر یہ عذر کرتا ہے کہ پھر جب ساتھ ہوئے تو درجہ کوئی بھی نہ ملا نہ نبوت کا، نہ صدیقیت کا نہ شہادت کا وغیرہ۔
جواباً گزارش ہے، اس آیات میں درجات ملنے کا ذکر نہیں اور نہ ان درجات کی نفی ہے۔ یہاں تو صرف قیامت میں نیک رفاقت کی خوشخبری ہے۔ مگر جہاں درجات دنیوی کا ذکر ہے وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں باقی سب درجات مذکور ہیں۔ سنو! ہم تمہاری طرح یہودیانہ تاویل و تحریف سے کام نہیں لیں گے بلکہ صاف الفاظ بتاتے ہیں:
''وَالذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصَّالحِیَنَ(۲۱۴)۔جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے وہ صالحین میں داخل کئے جائیں گے۔''
اسی طرح سورہ حدید میں ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق ہیں شہید ہیں اور مرزائی خود مانتا ہے کہ واقعی آیت سورہ حدید میں صرف صدیقیت (اور شہادت) کے مقام تک پہنچنے کا ہی ذکر ہے۔ اس سے آگے نہیں۔ مگر وہاں دوسری تحریف کی ہے کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعداروں کے متعلق نہیں بلکہ پچھلے نبیوں کے متبعین کے بارے میں ہے۔
اس کے جواب میں ہم وہ آیات پیش کردیتے ہیں اور جملہ مرزائیوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ اس آیت پر انگلی رکھیں جس میں یہ تخصیص مذکور ہے خدا فرماتا ہے:
اِِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرَضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضَاعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیمٌ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیقُوْنَ وَالشُّہَدَائُ عِنْدَ رَبِّہِمْ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔ اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَّفِی الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنْ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا اِِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔ سَابِقُوْا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔(۲۱۵)
'' لا ریب جو مرد و عورتیں خیرات کرنے والے ہیں یہ خیرات ان کی گویا قرض ہے جو اللہ تعالیٰ کو دے رہے ہیں اور خدا انہیں دو گنا دے گا اس کے عوض بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر کریم ان کو ملے گا۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لیے ان کا اجر اور نور مقرر ہے اور جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیات کو انہوں نے جھٹلایا۔ وہی ہیں جہنم میں جانے والے اے لوگو! جان لو کہ سوا اس کے کچھ نہیں کہ یہ دنیا کا جینا صرف کھیل تماشہ ہے (اسے چھوڑو) اور خدا کی رحمت و مغفرت کی طرف دوڑو اور اس کی جنت کی طرف بھاگو جس کی وسعت زمین و آسمان کی مانند ہیں جس کی حد تم نہیں جان سکتے یہ جنت انہی لوگوں کے حصے میں ہے جو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔''
برادران ملاحظہ فرمائیے ان آیات میں سابقہ لوگوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ صاف صاف طور پر مومنین، صحابہ کرام اور مخیرات اہل ایمان کا ذکر موجود ہے۔ والحمد للہ علی ذلک
----------------------------
(۲۱۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۱ طبعہ ۱۹۴۵
(۲۱۳) ایضاً ص۴۵۳
(۲۱۴) پ۲۰ العنکبوت ۹
(۲۱۵) پ۲۷ الحدید ۱۸،۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح سورہ حجرات کے آخر میں محاربین فی سبیل اللہ کو اُوٰلئِک ھُمُ الصّٰدِقُون(۲۱۶) کا خطاب و لقب عطا ہوچکا ہے اور دیگر بہت سی آیات میں شہداء کے فضائل موجود ہیں۔ حاصل یہ کہ آیت زیر نظر میں جو انبیاء و شہداء وغیرہ سے رفاقت کا ذکر ہے اس میں درجات ملنے کا تذکرہ نہیں۔ جیسا کہ مرزائی محرف دجالوں کی نبوت ثابت کرنے کو کہتے ہیں۔
(۲) اس آیت میں عطاء نبوت کا ذکر نہ ہونے پر یہ بھی دلیل ہے کہ یہ وعدہ جملہ مومنین سے ہے اور صحابہ کرام سے بڑھ کر اور کون مومن ہوسکتا ہے جن کی تعریف قرآن میں موجود ہے کیا ان کے ساتھ یہ وعدہ پورا ہوا؟ پھر ان کے بعد تابعین ، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، فقہائے کرام اور محدثینs غرض کروڑہا صلحاء، اتقیا امت محمدیہ میں ہوئے ہیں کیا ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کا کامل تابعدار نہ تھا؟ اگر تھا اور ضرور تھا تو پھر ان کے ساتھ یہ وعدہ الٰہی کیوں پورا نہ ہوا؟ سوا اس کے اور کیا مطلب ہے کہ اس میں ہرگز ہرگز مقامِ نبوت وغیرہ ملنے نہ ملنے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
(۳) اس آیت میں پہلا لفظ مَنْ عورت اور مرد دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب عورتیں بھی نماز میں اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم(۲۱۷) پڑھتی ہیں تو ان میں سے کوئی نبیہ کیوں نہ ہوئی۔ ان کو کس وجہ سے محروم کردیا گیا اگر مرزائی کہیں گے کہ پہلے بھی کوئی عورت نبی نہیں ہوئی اس لیے اب بھی نہیں ہوسکتی اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلے کبھی کسی نبی کی تابعداری سے کوئی شخص نبی نہیں بنا بلکہ براہ راست بغیر تابعداری کسی نبی کے ہوتے رہے لہٰذا اب بھی کوئی آدمی کسی نبی کی تابعداری سے نبوت حاصل نہیں کرسکتا۔
(۴) ترمذی میں حدیث ہے کہ اَلتَّاجِرُ الصَّدُوُقْ الامین مع النبین والصَّدِیْقِیْنَ وَالشَّھُدَائَ(۲۱۸) (سچا امانت دار تاجر، نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا) مرزائی طرز استدلال سے تاجر بھی نبی ہوسکتا ہے۔ آج تک کتنے لوگ تجارت کی وجہ سے نبوت حاصل کرچکے ہیں؟
---------------------------
(۲۱۶) پ۲۶ الحجرات ۱۵
(۲۱۷) پ۱ الفاتحہ
(۲۱۸) اخرجہ الترمذی فی السنن مع تحفہ ص۲۲۷،ج۲ کتاب البیوع باب ماجاء فی التجارۃ والدارمی فی السنن ص۳۲۲،ج۲ کتاب البیوع باب التاجر الصدوق والدارقطنی فی السنن ص۷، ج۳ کتاب البیوع والحاکم فی المستدرک ص۶،ج۲ کتاب البیوع باب التاجر الصدوق
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض :
یہ رفاقت کہاں ہوگی؟
الجواب:
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر ایک فرمانبردار کو نبیوں، صدیقوں اور شہداء کی معیت و رفاقت بخشے گا جیسا آیت مذکورہ کے آخر میں خود صراحت فرما دی ہے وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا یہ معیت محض رفاقت ہے لاغیر اور یہ قیامت کے روز ہوگی جیسا کہ دیگر احادیث میں بتصریح مذکور ہے مسند احمد میں ہے عَنَ معاذ ابن انس قال قال النبی ﷺ مَنْ قرء اَلْفَ ایۃ فِی سبیل اللّٰہ کتب یوم القیمۃ مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین الصالحین۔(۲۱۹) یعنی جو شخص فی سبیل اللہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے قیامت کے دن اسے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین کی معیت و رفاقت نصیب ہوگی۔
وعن عمر بن مرۃ الجھنی قَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلی النبی ﷺ فقالَ یَا رَسُول اللّٰہ شھدت ان لا الہ الا اللّٰہ وانک رسول اللّٰہ وصلیت الخمس وادیت زکوٰۃ مالی وصمت رمضان فقال ﷺ من مات علی ھذا کان مع النبیین والصدیقین والشھداء یوم القیمۃ ھکذا ونَصَبَ اصبعیہ۔(۲۲۰) (مسند احمد)
یعنی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں کلمہ پڑھ چکا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں، زکوٰۃ دیتا ہوں، روزے رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اعمال پر جس کو موت آجائے وہ قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی معیت اور صحبت میں اس طرح ہوگا اپنی دونوں انگلیوں کو کھڑی کرکے دکھلایا اس لیے مفسروں نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں لکھا ہے۔ یَجْعَلَہٗ مُرَافِقًا لھم (ابن کثیر) مُرَافقۃ اکرم الخلائق (بیضاوی) مرافقۃ اقرب عباد اللّٰہ (کشاف) الحضور معھم (جلالین) ان سب لوگوں نے مع کے معنی رفاقت اور حضور کے لیے ہیں۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اذا ارادوا الزیارۃ والتلاقی قدروا علیہ فَھٰذَا ھوالمراد من ھٰذِہٖ المعیۃ۔(۲۲۱) یعنی مطیعین جب نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں سے ملنا چاہیں گے تو مل سکیں گے مَعَ سے مراد یہی ہے۔
--------------------------
(۲۱۹) اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۴۳۷،ج۳ (وطبعہ جدید ص۴۶۱،ج۴، رقم ۱۵۱۸۴) والحاکم فی المستدرک ص۸۷،ج۲ وابو یعلی فی مسندہٖ ص۱۷۹،ج۲ و در منثور ص۱۸۲،ج۲ وابن کثیر ص۳۱۱،ج۱
(۲۲۰) مسند احمد وطبرانی کذافی مجمع الزوائد ص۱۵۰،ج۸ کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی العقوق وکنز العمال ص۸۳،ج۱ رقم ۳۴۲، والدر منثور ص۱۸۲،ج۲ وابن اکثیر ص۵۲۳،ج۱ ، زیر آیت النساء:۶۹
(۲۲۱) علی الترتیب دیکھئے، تفسیر ابن کثیر ص۵۲۲،ج۱ وبیضاوی وکشاف ص۵۳۱،ج۱ وجلالین و کبیر وابی السعود زیر آیت مذکورہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
جنت میں انبیاء کے درجے بہت بلند ہوں گے۔ خاص کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ تو سب سے اعلیٰ و بالا ہوگا۔ صدیق اپنے درجوں میں ہوں گے، شہداء اپنے درجوں میں اور غریب مومن جنت کے کسی نچلے درجے میں ہوں گے تو معیت و رفاقت کہاں ہوئی؟
الجواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ یہی سوال سب سے پہلے حضرت ثوبان صحابی نے کیا تھا۔ انہی کے جواب میں آیت مذکورہ اتری تھی۔ حدیث میں ہے:
انہ قال للنبی ﷺ لا نراک یوم القیامۃ لانک فی الجنۃ فی الدرجات العلی فقال ﷺ اَنْتَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ۔(۲۲۲)
انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے بلند درجوں میں ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں جنت میں مری معیت ملے گی قال حبشی للنبی ﷺ اراء یت ان امنت وعملت انی لکائن معک فی الجنۃ قال نعم(۲۲۳)یعنی ایک حبشی نے پوچھا یا رسول اللہ اگر میرا ایمان صحیح ہو اور عمل صالح ہو، کیا جنت میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب ہوگی؟ فرمایا، ہاں ہوگی قال رجل انی احب اللّٰہ ورسولہ فقال ﷺ انت مع من احببت(۲۲۴) وفی الترمذی عن انس قال من احبنی کان معی فی الجنۃ یعنی ایک صحابی نے کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس سے تو محبت کرتا ہے اس کی معیت میں تو ہوگا۔ اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جو مجھ سے محبت رکھے گا جنت میں میری معیت میں ہوگا۔
عَنْ سَھْلٍ قال قال النبی ﷺ اَنَا وَکَافِل الیتیم فی الجنۃ ھکذا واشار بالسبابۃ وَالْوُسْطیٰ۔(۲۲۵) (رواہ البخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں (اشارہ سے دونوں کو اکٹھی کرکے بتلایا)۔''
وَعَنَ رَبِیْعَۃَ بن کعب قلت یا رَسُوْل اللّٰہ ﷺ اسئلُکَ مُرَا فقتک فی الجنۃ قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود۔(۲۲۶)
ربیعہ نے کہا کہ میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا خواہاں ہوں فرمایا، نفل بہت پڑھا کرو تم کو میری رفاقت ملے گی۔
ان حدیثوں اور ان جیسی بہت سی حدیثوں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ غریب مومن جنت میں خواہ کیسے ہی نچلے درجہ میں ہوگا اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت نصیب ہوگی۔
----------------------------------------
(۲۲۲) اخرجہ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم مرسل اوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص۱۸۲،ج۲
(۲۲۳) اخرجہ الطبرانی فی معجم الکبیر اوردہ ابن کثیر فی تفسیرہٖ ص۵۲۴،ج۱
(۲۲۴) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۹۱۱،ج۲ من حدیث انس رضی اللّٰہ عنہ کتاب الادب باب ماجاء فی قول الرجل ویلک ومسلم فی الصحیح ص۳۳۱،ج۲ کتاب البر والصلۃ والادب باب المرء مع من احب واللفظ لہ و اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۱۵۰،ج۳ وابوداؤد فی السنن ص۲۴۲،ج۲ کتاب الادب باب اخبار الرجل بمحبتہ والحاکم فی المستدرک ص۱۷۱،ج۴ کتاب البر باب اذا احب احدکم اخاہ وقال صحیح الاسناد وافقہ الذھبی والبغوی فی شرح السنۃ ص۶۶،ج۱۳ واخرجہ الترمذی فی السنن مع تحفہ ص۲۸۱،ج۳ بلفظ المرء مع من احب ولہ ما اکتسب واخرج نحوہ احمد فی مسندہٖ ص۲۲۸، ج۳ و اوردہ المصنف (ای محمدیہ پاکٹ بک) من المشکوٰۃ ص۲۲، ۴۱۸ بلفظ من احبنی کان معی فی الجنۃ، لم اجدہ ھکذا، ابو صہیب
(۲۲۵) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۸۸۸،ج۲ کتاب الادب باب فضل من یعول یتیمًا واخرجہ من روایت ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ مسلم فی الصحیح ص۴۱۱،ج۲ کتاب الزھد باب الاحسان الٰی الارملۃ والمسکین ومشکوٰۃ ص۴۲۲
(۲۲۶) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۱۹۳،ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود ومشکوٰۃ ص۸۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
مع بمعنی من بھی ہوسکتے ہیں۔ (۲۲۷)
الجواب:
کلام عرب میں مَعَ بمعنی مِنْ مستعمل نہیں ہوتا۔ اور نہ ان آیتوں میں مع بمعنی مِنْ ہے جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ اگر مع بمعنی مِنْ آتا ہوتا تو مع پر من داخل حالانکہ کلام عرب میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ لغت کی مشہور کتاب مصباح منیر میں مَعَ کیے بیان میں ہے وَدَخُوْلُ مِنْ عَلیہ نحو جئت من معہ(۲۲۸) (میں اس کے ساتھ آیا) یعنی عرب جِئت من القوم بولتے ہیں پس مع پر من کا داخل ہونا مشعر ہے کہ خود مع کبھی من کے معنی میں نہیں ہوتا۔ اب مرزائیوں کی دلیل والی آیات ملاحظہ ہوں:
شیطان کے متعلق سورۂ حجر میں وارد ہے اَبٰی اَنْ یَّکُوَنَ مَعَ السَّاجِدِین (پ۱۴) اور سورہ اعراف میں لَمْ یکن مِنَ السَّاجِدِیْنَ (پ۸) دیکھو دونوں جگہ لفظ ساجد آیا ہے لیکن دوسری آیت میں بجائے مَع کے مِنْ ہے پس ثابت ہوا کہ مَعَ بمعنی مِنْ ہوتا ہے۔ (۲۲۹)
------------------------
(۲۲۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۳
(۲۲۸) مصباح المنیر ص۵۷۶،ج۲ مادہ مع
(۲۲۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الجواب:
اگر یہ استدلال درست ہے تو خطرہ ہے کہ کوئی مجنون یہ بھی نہ کہہ دے کہ سورہ صٓ میں آیا ہے کنت من العالین۔(۲۳۰) (پ۲۳)
کیونکہ اس آیت میں بجائے '' ساجدین'' کے ''عالین'' ہے پس ثابت ہوا کہ ساجدین بمعنی عالین بھی ہوتا ہے۔
استغفر اللہ
قرآن مجید عربی زبان میں ہے اس کے متکلم کا اسلوب بیان عجیب و دل نشین ہے ایک ہی واقعہ متعدد مقامات میں بیان ہوتا ہے لیکن طریق بیان مختلف ہوتا ہے جس میں متکلم کی ایک خاص غرض اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ابلیس مردود نے ایک جرم میں تین گناہ کئے تھے (۱) اس نے تکبر کیا تھا اس کا ذکر سورہ ص کی آیت { کُنْتَ من العالین}(۲۳۱) میں کیا گیا ہے (۲) اس نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اس کا بیان سورۂ اعراف کی آیت { لَمْ یَکُنْ مِّنَ السَّاجِدِیْنَ}(۲۳۲) میں ہوا ہے (۳) اس نے جماعت سے مفارقت کی تھی۔ اس کا بیان آیت سورہ حجر {اَنْ یکون مع الساجدین} (۲۳۳)میں مذکور ہے (تفسیر فتح البیان) (۲۳۴)۔ پس مَع ہرگز مِنْ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور دونوں جداگانہ امر کے بیان کے لیے آئے ہیں۔(۲۳۵)
---------------------------
(۲۳۰) پ۲۳ صٓ:۷۵
(۲۳۱) ایضاً
(۲۳۲) پ۸ اعراف:۱۱
(۲۳۳) پ۱۴ حجر:۳۱
(۲۳۴) گیا ہے ابو صھیب
(۲۳۵) تفسیر فتح البیان
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
منافقین کے توبہ کی بابت سورۂ نساء میں مذکور ہے الا الذین تابوا ... فاولئک مع المومنین۔ کیا یہ توبہ کرنے والے خود مومن نہیں ہیں بلکہ مومنوں کے ''ساتھ'' ہیں، نہیں بلکہ وہ مومنوں سے ہیں پس ثابت ہوا کہ مع بمعنی من آتا ہے۔(۲۳۶)
الجواب:
بات یہ ہے کہ المومنین پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شروع ہی سے خالص مومن ہیں۔ کبھی ان سے نفاق سرزد نہیں ہوا ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میں ہونگے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کرکے مخلص مومن بنے... تفسیر ابو السعود و جمل میں ہے:
مع المومنین المعھودین الذین لم یصدر عنھم نفاق اصلا منذ امنوا معھم فی الدرجات العالیہ من الجنۃ۔
(ترجمہ اس کا بیان ہوچکا ہے) تفسیر ابن جریر میں ہے:
یدخل مع المومنین محل الکرامۃ یسکنھم معھم مساکنھم فی الْجَنَّۃَ۔
یعنی اللہ داخل کرے گا ان تائبین کو خالص مومنوں کے ساتھ جنت میں ان کے مسکنوں میں، فتح البیان میں ہے اولئک مصاحبون للمومنین اور مدارک اور کشاف میں ہے۔ فھم اصحاب المومنین ور فاقھم یعنی یہ تائبین لوگ مومنوں کی صحبت اور رفاقت میں ہونگے۔ معلوم ہوا کہ مع اپنے اصل مصاحبت کے لیے آیا ہے نہ بمعنی من۔(۲۳۷)
-----------------
(۲۳۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۳
(۲۳۷) علی الترتیب دیکھئے، ابی السعود وجمل وکبیر وفتح البیان ومدارک ص۳۷۱،ج۱ وکشاف ص۵۸۱،ج۱ زیر آیت سورہ النساء:۱۶۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
وَتَوَّفَنَا مع الابرار (پ۴، اٰل عمران) میں مَعْ کو اگر مِنْ کے معنے میں نہ لو گے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جب نیکوں کی جان نکلے تو ان کے ساتھ یا اللہ ہماری جان بھی نکال لینا وھو کما تری حالانکہ اصل مطلب یہ ہے کہ ہم کو نیک بنا کے مار۔ ہم کو نیکوں سے کر پس ثابت ہوا کہ مع بمعنی مِنْ ہے۔(۲۳۸)
الجواب:
اس کا جواب امام رازی رحمہ اللہ نے خوب دیا ہے سنیے!
وفاتھم معھم ھی ان یموتوا علی مثلھم اعمالھم حتی یکونوا فی درجاتھم یوم القیمۃ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذہ المسئلۃ ویرید بہ کونہ مساویًا لہ فِیْ ذلک الاعتقاد۔(۲۳۹)
یعنی ابرار کے ساتھ وفات کے یہ معنی ہیں کہ ان کے عملوں جیسے عمل پر موت آئے تاکہ روزِ قیامت ان کے سے درجوں میں ہوں مرد عالم آج بھی بولتا ہے کہ اس مسئلہ میں میں امام شافعی کے ساتھ ہوں اور اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا اور ان کا عقیدہ ایک ہے (نہ یہ کہ میں ان کے ساتھ پیدا ہوا یا بڑھتا رہا) اس لیے جملہ محققین مفسرین نے مع کو یہاں مصاحبت کے لیے ہی تحریر کیا ہے۔ بیضاوی، مدارک، کشاف اسراج المنیر اور ابو السعود میں ہے مخصوصین بصحبتھم ابن جریر لکھتے ہیں اَیْ اُحْشُرنا محشرھم ومعھم ابن کثیر فرماتے ہیں ای الحقنا بالصالحین جمل میں ہے محشورین مع الابرار خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمارا حشران نیک لوگوں کی صحبت اور معیت میں کیجئو۔ (۲۴۰)
پس ثابت ہوا کہ یہاں بھی مَعْ بمعنے مِنْ نہیں ہے۔
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول نہ بنایا جائے گا قرآن پاک پکار پکار کر کہتا ہے کہ:
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین۔
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ختم کرنے والا نبیوں کا، یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ اب وحی رسالت تا بقیامت منقطع ہے۔(۲۴۱)
---------------------
(۲۳۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۳
(۲۳۹) تفسیر کبیر
(۲۴۰) علی الترتیب دیکھئے، بیضاوی ومدارک وکشاف وسراج المنیر وابو السعود وابن جریر ابن کثیر ص۴۳۹،ج۱ زیر آیت توفنا مع الابرار، اٰل عمران ۳،۱
(۲۴۱) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱،ج۳ وتفسیر مرزا ص۵۳،ج۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھی تحریف:
یَا بَنِیٓ آدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ فمن اتقی واصلح فَلَاخَرْفُ عَلَیھم وَلَا ھُم یحزنون۔ (اعراف:رکوع۴)
'' اے بنی آدم علیہ السلام البتہ ضرور آئیں گے تمہارے پاس رسول یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے یہاں یہ نہیں لکھا کہ ہم نے گذشتہ زمانہ میں یہ کہا تھا سب جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں۔'' (۲۴۲)
جواب سے پہلے آیت کا صحیح ترجمہ ملاحظہ ہو '' اے بنی آدم علیہ السلام اگر تمہارے پاس تم میں سے میری طرف سے رسول آئیں میری آیات تم پر پڑھیں پس جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صلاحیت کو عمل میں لائے تو ایسے لوگوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ کسی طرح کا حزن و غم پائیں گے۔
الزامی جواب اقوال مرزا سے
رسول سے ہر جگہ مراد خدا کا رسول نہیں کیونکہ اس لفظ میں محدث اور مجدد بھی شامل ہے مرزا صاحب فرماتے ہیں:
۱۔ وَلَا یُطْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔ (۲۴۳)
۲۔ کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا۔ رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ نبی ہوں یا رسول یا محدث یا مجدد ہوں۔ (۲۴۴)
۳۔ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا اور ایسا ہی محدثین کا نام بھی مرسل رکھا اسی اشارہ کی غرض قرآن شریف میں وقفینا من بعدہ بالرسل آیا ہے۔ اور یہ نہیں آیا وقفینا من بعدہ بالانبیاء پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔ (۲۴۵)
۴۔ جبرائیل امین علیہ السلام کو بھی '' رسول رب'' کہا گیا۔ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ(۲۴۶) اور اسی طرح دیگر فرشتوں کو رسول کہا گیا ہے۔ اِنَّا رُسُلُ ربک لَنْ یصلو الیک۔(۲۴۷)
-----------------------------
(۲۴۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۲
(۲۴۳) آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۲ و تفسیر مرزا ص۲۳۳،ج۸
(۲۴۴) حاشیہ ایام الصلح ص۱۷۱ و روحانی ص۴۱۹،ج۱۴ و تفسیر مرزا ص۲۳۴،ج۸
(۲۴۵) شھادۃ القران علی نزول المسیح الموعود فی آخر الزمان ص۲۷،۲۸و روحانی ص۳۲۳،۳۲۴،ج۲
(۲۴۶) پ۱۶ مریم ۱۹
(۲۴۷) پ۱۲ ھود :۸۱
 
Top