• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سترہویں دلیل:
مرزا صاحب نے ازالہ اوہام ص۶۲۴،۲۵۵ پر وفات مسیح علیہ السلام کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی ہے:
''مَا اتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نٰھٰکُمْ عَنْہُ فَا انْتَھُوْا۔ یعنی رسول جو کچھ تمہیں علم و معرفت عطا کرے وہ لے لو اور جس سے منع کرے چھوڑ دو۔ لہٰذا اب ہم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ممات یا حیات مسیح) کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔''(۱۵۴)
---------------------------------------------------
(۱۵۴) ازالہ اوہام ص ۶۲۳ و روحانی ص ۴۳۶، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ثبوت حیات مسیح علیہ السلام از احادیث نبویہ

پہلی حدیث:
عَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ عُرِضَ عَلَیَّ الْاَنْبِیَائِ فَاِذَا مُوْسٰٓی ضَرْبٌ مِّنَ الرِّجَالِ کَانَّہٗ مِنْ رِّجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَاَیْتُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَأَیْتُ بِہٖ شَبَھَا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ۔(۱۵۵)
''حضرت جابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ معراج کی رات انبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ موسیٰ علیہ السلام تو دبلے پتلے تھے گویا قبیلہ شنوہ کے مردوں سے ملتے ہیں۔ اور عیسیٰ مشابہ تھے ساتھ عروہ بن مسعود کے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم رسول اللہ جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا ہوا ہے۔ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مشابہ ہیں اسے ملحوظ رکھ کر دوسری حدیث ملاحظہ ہو:
دوسری حدیث:
اسی مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکلے گا دجال پس رہے گا (زمین پر) چالیس (راوی حدیث کہتا ہے) نہیں جانتا ہوں میں کہ چالیس کے لفظ سے سال مراد ہیں یا مہینے یا دن۔ فرمایا آنحضرت نے فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ کَاَنَّہٗ عُرْوۃُ بْنُ مَسعود فیطبلہ فیھلکہ۔ پس بھیجے گا اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو گویا وہ عروہ بن مسعود ہے پس وہ ڈھونڈیں گے دجال کو پس ہلاک کریں گے اس کو۔(۱۵۶) (مشکوٰۃ باب لاتقوم الساعۃ)
پہلی حدیث میں جس مسیح ابن مریم کو آسمان پر دیکھا دوسری میں اسی کا نزول بتایا پس ثابت ہوا کہ وہی حضرت مسیح ابن مریم رسول اللہ تشریف لائیں گے نہ کہ کوئی دیہاتی مولود۔
-------------------------------------------
(۱۵۵) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۹۵ ج۱ کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللہ ﷺ و مشکوٰۃ ص ۵۰۸
(۱۵۶) الف: ایضاً ج ۲ کتاب الفتن باب ذکر الدجال واحمد فی مسندہ ص۱۶۶ ج۲ و مشکوٰۃ ص۴۸۱ باب الا تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس
(۱۵۶) ب: اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۴۲۱ ج۵ والترمذی مع تحفہ ص۱۶۶، ج۲ کتاب النکاح باب ماجاء فی فضل التزویج والحث علیہ وقال حدیث حسن غریب، و مشکوٰۃ ص۴۴ باب السواک
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری حدیث:
ہم ثبوت حیات مسیح از قرآن میں بآیت ثابت کر آئے ہیں کہ آنحضرت سے پہلے تمام انبیاء کے لیے ازواج و اولاد مقدر تھی حالانکہ حضرت مسیح کی نہ بیوی تھی نہ اولاد۔ جیسا کہ مرزا صاحب کے بھی اس پر دستخط ہیں پس لازمی ہے کہ مسیح دوبارہ آئیں اور آکر شادی کریں۔ اسی امر کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے:
'' حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا انبیاء کی چار سنتیں مشترکہ ہیں (۱) حیا (۲) ختنہ کرنا (۳) خوشبو لگانی اور مسواک کرنی (۴) والنکاح۔'' (۱۵۶)
چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت ضروریہ کا یوں اثبات فرمایا کہ:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ وَیَمْکُتُ خَمْسًا وَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیَ فِی قَبْرِیْ۔(۱۵۷)
'' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ زمانہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے اور نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس سال دنیا میں رہیں گے اور پھر فوت ہوں گے پس میرے پاس میرے مقبرے میں دفن ہوں گے۔''
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملحق ہوگی اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہوں گے۔ اس کی مثال مرزا صاحب کی تحریر میں بھی ہے۔ حضرت ابوبکر و عمرw کی قبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ ان کے متعلق مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ملحق ہو کر دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے۔'' (۱۵۸)
جو مطلب و مراد اس تحریر کی ہے وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے فقرہ یدفن معی فی قبری کے اصلی معنی یہ ہیں کہ وہ میرے ساتھ ایک ہی روضہ میں دفن ہوگا۔ جو حضرات عربی ادب سے ذوق رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ '' فی '' سے مراد کبھی قرب بھی ہوتا ہے جیسے بورک من فی النار(۱۵۹) یعنی موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھے نہ کہ اندر۔
مرزا صاحب بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں اور لکھتے ہیں'' اس حدیث کے معنی ظاہر پر ہی عمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔(۱۶۰)
ایسا ہی مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین فصل ثانی میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا۔ تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت میں یہ مرقوم ہے کہ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ یُدْفَنَ مَعَہٗ قَالَ اَبُوْ مَوْدُوْدٍ قَدْ بَقِیَ فِی الْبَیْتِ مَوضِعُ قَبْرٍ(۱۶۱)۔ عیسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوگا ابو مودود راوی حدیث جو صلحاء و فضلاے مدینہ شریف میں سے تھے فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں ابھی ایک قبر کی جگہ باقی ہے، یونہی تفسیر ابن کثیر میں ص۲۴۵، ج۳ زیر آیت ان من اھل الکتب بروایت طبرانی ابن عساکر تاریخ بخاری حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کی ہے کہ حضرت مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں دفن ہوں گے اور ان کی قبر چوتھی ہوگی۔ فیکون قبرہ رابعا ۔ (۱۶۲)
ان احادیث صحیحہ سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں جو زمین پر اُتریں گے چالیس سال گزار کر پھر وفات پائیں گے اور حجرہ نبویہ میں مدفون ہوں گے۔ یہ روایت بالکل صحیح ہے چنانچہ مرزا صاحب نے بھی اسے مانا ہے بلکہ نکاح محمدی بیگم کے لیے اور لڑکے بشیر کے حق میں اسے دلیل قرار دیا ہے۔ (۱۶۳)
اس حدیث پر مصنف مرزائی پاکٹ نے بہت ہی پیچ و تاب کھایا ہے۔ مگر چونکہ اس کا سارا زور صرف اسی بات پر صرف ہوا کہ قبر سے مراد روحانی قبر ہے۔ اس لیے ہم اگر جواب نہ بھی دیں تو ہمارے موجودہ استدلال کو مضر نہیں۔ ہمارا استدلال یہ ہے کہ مسیح ابھی زندہ ہے جو زمین پر اُترے گا۔
-------------------------------------
(۱۵۷) کتاب الوفاء ومشکوٰۃ ص ۴۸۰ وعسل مصفٰی ص۴۴۱ ج۲
(۱۵۸) نزول المسیح ص۴۷ و روحانی ص۴۲۵، ج۱۸
(۱۵۹) پ ۱۹ النمل ۱۶۰ ازالہ اوہام ص۴۷۰ و روحانی ص۳۵۲ ج۳
(۱۶۱) اخرجہ الترمذی مع تحفہ ص۲۹۵، ج۴ کتاب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی ﷺ و مشکوٰۃ ص ۵۱۵
(۱۶۲) اخرجہ البخاری فی التاریخ الکبیر ص۲۶۳، ج۱ فی ۱ فی ترجمۃ محمد یوسف بن عبداللّٰہ بن سلام و الطبرانی فی معجمہٖ کزافی مجمع الزوائد ص۲۰۹، ج۸ کتاب الانبیاء باب زکر المسیح عیٰسی بن مریم وقد اوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص ۲۴۵ ج۲ وابن عبداللہ فی التمھید ص۲۰۲ ج۱۴۔
(۱۶۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص ۳۳۷، ج۱۱ حاشیہ ؍ ۱۶۴ ازالہ اوہام ص۴۷۰ و روحانی ص۳۵۲، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اب سنیے قبر کی تاویل کا جواب۔ قبر سے مراد اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقبرہ ہے روحانی قبر نہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ کا وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگنا اور حضور کا یہ کہہ کر انکار کرنا کہ سوائے چار قبروں کے پانچویں کی گنجائش ہی نہیں۔ صاف اس امر پر دلیل ہے کہ قبر سے مراد مقبرہ اور حقیقی مقبرہ ہے۔ روحانی مقبرہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ قبر سے مراد مقبرہ ہے اور لطف یہ کہ ان معنوں کو تاویلی نہیں بلکہ ظاہری معنے لکھتے ہیں:
'' اس (حدیث) کے معنی ظاہر پر ہی حمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔'' (۱۶۴)
اس پر بھی مصنف پاکٹ بک کی رگ الحاد پھڑکنے سے نہ رُکے تو اسے اپنی پاکٹ بک کا ص۴۸۲ ملاحظہ کرنا چاہیے جہاں ''حدیث'' لکھی ہے کہ مسیح حجرہ نبویہ میں دفن ہوگا۔ (۱۶۵)
اعتراض:
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں دفن ہونا صحیح ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تین چاند کیوں دکھائے گئے؟ پھر تو چار چاند دکھائے جانے چاہیے تھے۔
الجواب:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں تین چاند اس لیے دکھائے کہ ان کی زندگی میں صرف تین چاند ہی ان کے حجرے میں دفن ہونے والے تھے اور وہ صرف تینوں ہی کو دیکھنے والی تھیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باقی رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دفن ہونے والے نہ تھے اس لیے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ دکھائے گئے۔ مزید برآں حدیث نبوی اگر کسی امتی کے خواب کے خلاف یا قول کے خلاف ہونے سے غلط ہو جائے تو آج حدیث کا سارا دفتر مردود ہو جائے گا اور اسلام دنیا سے رخصت۔
-------------------------------------------
(۱۶۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۸۲ طبعہ ۱۹۳۲ و ۱۰۷۹ طبعہ ۱۹۴۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھی حدیث:
ہم ثبوت حیات مسیح از قرآن کے ضمن میں ساتویں دلیل کے اندر مسند احمد و ابن ماجہ کی حدیث درج کر آئے ہیں کہ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب مسیح نے آخری زمانہ میں نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں وہی زمین پر اُتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ (۱۶۶)
پانچویں حدیث:
مشکوٰۃ باب قصہ ابن صیاد میں مذکور ہے حضور علیہ السلام بمعہ صحابہ ابن صیاد کو دیکھنے گئے۔ ابن صیاد کے بارے میں صحابہ کو شبہ تھا کہ یہ ہی دجال نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ائذن لی یا رسول اللّٰہ فاقتلہ فَقَال رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنْ یَکُنْ ھُوَ فَلَسْتَ صَاحِبَہٗ اِنَّمَا صَاحِبُہٗ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ(۱۶۷)۔ اجازت دو مجھ کو یا رسول اللہ کہ میں ابھی اسے قتل کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ابن صیاد دجال ہے تو پھر تو اُسے قتل نہ کرسکے گا۔ کیونکہ اس کا قتل عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کے ہاتھوں ہوگا۔ مرزا جی بھی یہی لکھتے ہیں:
'' آنحضرت نے عمر کو قتل کرنے سے منع (کیا اور فرمایا) اگر یہی دجال ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا۔ ہم اسے قتل نہیں کرسکے۔'' (۱۶۸)
ثابت ہوا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں جو زمین پر اتر کر دجال کو قتل کریں گے جیسا کہ حدیث معراج میں اس کی مزید تائید ہے۔
نیز اس حدیث سے بھی یہ بھی ثابت ہوا کہ قتل دجال سے مراد جیسا مرزائی کہتے ہیں دلائل سے قتل مطلوب نہیں بلکہ ظاہری و جسمانی قتل ہے چنانچہ جناب عمر رضی اللہ عنہ کا آمادہ قتل ہونا اور حضور کا بھی اس خیال کی تردید نہ کرنا بلکہ دجال کا قتل مسیح کے ہاتھوں مقدر فرمانا۔ اس پر صاف و صریح دلیل ہے۔
چھٹی حدیث:
مسلم شریف کی ایک طویل حدیث مشکوٰۃ باب علامات بین یدے الساعۃ فصل اول میں ہے کہ دجال اپنا فتنہ و فساد برپا کر رہا ہوگا کہ اِذْ بَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیَّ دِمْشِقَ بَیْنَ مھْزُوْدَتَیْنِ وَاضِعًا کَفَّیْہِ عَلَی اَجْنِحٰۃِ مَلَکَیْنَ الْحَدِیْثِ فَیَطُلبُہٗ حَتّٰی یُدْرِکَہٗ بِبَابٍ لُدٍّ فَیَقْتُلُہٗ(۱۶۹)۔ پس نازل کرے گا اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو منارہ سفید دمشق کے شرقی طرف:
'' پھر فرمایا جس وقت وہ اترے گا اس کی زرد پوشاک ہوگی۔ دونون ہتھیلی اس کی دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہوں گی۔ پھر حضرت مسیح ابن مریم دجال کی تلاش میں نکلیں گے اور لدکے دروازہ پر جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے اس کو جا پکڑیں گے اور قتل کر ڈالیں گے۔'' (۱۷۰)
حدیث معراج سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم قاتل دجال ہیں لہٰذا اس جگہ نزول مسیح سے سوائے نزول از آسمان کے اور کوئی معنی لینا خلاف منشاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مرزا صاحب بھی یہی مانتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
'' صحیح مسلم کی حدیث میں یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو اُن کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔'' (۱۷۱)
الغرض اس حدیث سے حیات مسیح کا ثبوت ہے۔
-----------------------------------
(۱۶۶) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ ۹۳
(۱۶۷) اخرجہ احمد فی مسندہِ ص ۳۶۸ ج۳ و مشکوٰۃ ص۴۷۹ باب قصۃ ابن صیاد وعزاہ الٰی شرح السنہ
(۱۶۸) ازالہ اوہام ص۲۲۵ و روحانی ص ۲۱۳ ج۳
(۱۶۹) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۱، ج۲ کتاب الفتن باب ذکر الدجال و ابوداؤد ص۲۳۷، ج۲ کتاب الملاحم باب ذکر الدجال والترمذی مع تحفہ ص۲۳۶ ج۳ کتاب الفتن باب ماجاء فی فتنۃ الدجال وابن ماجہ ص۳۰۶ ابواب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عینی واحمد فی مسندہ ص۱۸۱، ج۴ والحاکم فی المستدرک ص۴۹۲، ج۴ واللفظ لہ
(۱۷۰) ازالہ اوہام ص۲۰۰ و روحانی ص ۳۰۹، ج۳ ؍ ۱۷۱ ایضاً ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲ ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساتویں حدیث:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذْ نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ فِیْکُمْ وَاِمَا مُکُمْ مِنْکُمْ۔(۱۷۲) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا۔ اس وقت جب کہ تم میں عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہونگے اور تمہارا ایک امام بھی اس وقت موجود ہوگا۔
اعتراض مرزائی:
امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کرکے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے حالانکہ بخاری میں مِنَ السَّمَآئِ کا لفظ نہیں۔ (۱۷۳)
الجواب:
حدیث کی کتاب بیہقی مخرج نہیں ہے بلکہ مسند ہے یعنی ایسی کتاب نہیں ہے کہ دوسروں سے نقل کرکے ذخیرہ اکٹھا کرے جیسا کہ کنز العمال وغیرہ ہے بلکہ امام بیہقی اپنی سند سے راویوں کے ذریعہ روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری کا حوالہ صرف اس لحاظ سے دیا گیا ہے کہ بخاری میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ لفظ مِنَ السَّمَآئِ نہیں۔ مگر مراد نزول سے مِنَ السَّمَآئِ ہی ہے۔ چنانچہ امام بیہقی خود لکھتے ہیں:
'' اِنَّمَا اَرَادَ نَزُوْلَہٗ مِنَ السَّمَائِ بَعْدَ الرَّفْعِ۔''(۱۷۴)
یعنی سوائے اس کے نہیں کہ اس کو روایت کرنے والے کا ارادہ نزول من السماء ہی ہے۔ کیونکہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔
پس معاملہ صاف ہے کہ بخاری میں من السماء نہ ہونا اس حدیث کے جو صحیح سے امام بیہقی نے روایت کی ہے خلاف نہیں۔ دیکھو مرزا صاحب نے بھی تو ازالہ اوہام ص۸۱، ۳۴ کی عبارت جو ہم حدیث نمبر۶ میں نقل کر آئے ہیں مسلم شریف کی طرف من السماء کا لفظ منسوب کیا ہے۔(۱۷۵) حالانکہ مسلم میں نہیں ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جائے گا کہ امام مسلم کا ارادہ آسمان سے نزول کا ہی ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات متعددہ اور احادیث نبویہ سے ان کا رفع آسمانی عیاں ہے۔ فافہم
اعتراض دوم:
امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو امام بیہقی کی کتاب سے نقل کیا ہے مگر اس میں لفظ من السماء نہیں لکھا۔ پس معلوم ہوا کہ بیہقی میں موجود ہی نہیں یا امام بیہقی کی ذاتی تشریح ہے۔(۱۷۶)
الجواب:
یہ اعتراض احمقانہ ہے بھلے مانسو! جب کہ حدیث کی کتاب میں جو اصل ہے یہ لفظ موجود ہے اور تم اسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو اگر کسی ناقل نے غلطی سے اسے نقل نہ کیا ہو تو اس سے اصل کتاب کیسے مشکوک ہو جائے گی۔
دیکھئے تمہارے '' حضرت نبی اللہ'' مرزا صاحب نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی سو کے قریب آیات غلط الفاظ میں نقل کی ہیں۔ کہیں لفظ کم کردیا۔ کہیں زیادہ کیا۔ اس سے کوئی تمہارے جیسا احمق یہ نتیجہ نکال لے کہ قرآن مشکوک ہے صحیح آیات وہی ہیں جو مرزا صاحب نے لکھی ہے۔ تو وہ صحیح الدماغ انسان کہلانے کا حق دار ہے؟ بطور مثال ایک آیت درج کرتا ہوں۔ قرآن پاک کی آیت ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔(۱۷۷)
اس آیت کو مرزا جی نے نور الحق حصہ اول ص۴۶ تبلیغ رسالت جلد ۳ ص ۱۹۴، ۱۹۵ و جلد ۷ ص۳۹ کتاب فریاد دو البلاغ ص۸ و ص۱۰ و ص۱۷ و ص۲۳ پر بایں الفاظ نقل کیا ہے:
جَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمُوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔(۱۷۸)
مرزائیو! اب خواہ تم اس منہ کالک کو کاتب کے سر ہی تھوپو۔ مگر آیت تو بہرحال غلط ہے۔ حالانکہ قرآن میں اس طرح نہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ کسی ناقل کی غلطی اصل کتاب پر کوئی اثر نہیں کرسکتی۔
محدثین کا طرزِ عمل:
جن لوگوں کو فن حدیث میں ادنیٰ ملکہ بھی ہے ان سے پوشیدہ نہیں کہ محدثین کی حالتیں اور غرضیں بیان حدیث کے وقت مختلف ہوتی ہیں۔ حالتوں کی بابت امام مسلم مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کَانَتْ لَھُمْ تَارَاتٌ یُرْسِلَوْنَ فِیْھَا الْحَدِیْثَ اِرْسَالاً وَّلَا یَذْکُرُوْنَ مَنْ سَمِعُوْہُ مِنْہُ وَتَارَاتٌ یُنْشِطُوْنَ فِیْھَا۔ (۱۷۹)
یعنی رواۃ حدیث کبھی حالت غیر نشاط میں ہوتے ہیں تو حدیث سے کچھ چھوڑ دیتے ہیں کبھی نشاط میں ہوتے ہیں تو سب کچھ بیان کردیتے ہیں۔ نیز فرماتے ہیں:
مَذْھَبُھُمْ فِیْ قَبُوْلِ مَا یتَّفَرَّدُ بِہِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدِیْثِ اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ شَاَرَکَ الثِّقَاتَ مِنْ اَھْلِ الحِفْظِ فِیْ بَعْضِ مَا رَوَوْا وَاَمْعَنَ فِیْ ذَالِکَ عَلَی الْمَوَافِقَۃِ لَھُمْ فَاِذَا وُجِدَ کَذَالِکَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَالِکَ شَیْئًا لَیْسَ عِنْدَ اَصْحَابِہٖ قُبِلَتْ زِیَادَتُہٗ(۱۸۰) (ص۴) لِاَنَّ الْمَعْنَی الزَّائِدَ فِی الْحَدِیْثِ الْمُحْتَاجِ اِلَیْہِ یَقُوْمُ مَقَامَ حَدِیْثٍ تَامٍ۔(۱۸۱)
یعنی کوئی محدث حدیث کے کسی لفظ (مثلاً من السماء) کے بیان کرنے میں منفرد ہے تو اس کی قبولیت کے بارے میں محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس محدث کی مشارکت ثقہ حافظین کی بعض روایت (متن) میں ثابت ہو اور وہ دیگر رواۃِ حدیث کی موافقت میں کوشش بھی کرتا ہو۔ پھر اگر اس کے بیان کردہ متن میں لفظ زیادہ مذکور ہو (جیسے بیہقی میں من السماء کی زیادتی) تو اس کی یہ زیادتی مقبول ہوگی اس لیے کہ حدیث میں کوئی زائد معنی جس کی ضرورت بھی ہے وہ پوری حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے۔
اس اصل کو یاد رکھو اور امثلہ ذیل ملاحظہ کرو:
رَفْعُ نَظْرٍ اِلَی السَّمَآء فِی الصَّلٰوۃِ۔
(۱) صحیح بخاری میں حدیث ممانعت رَفْعُ نَظْرٍ فِی السَّمَآئِ کی مطلق ہے(۱۸۲)۔ صحیح مسلم میں ''عند الدعاء'' زیادہ ہے۔(۱۸۳) (مصری ص۱۷۱ جلد اول) یعنی نماز میں دعا کرنے کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھاؤ۔
(۲) بخاری میں ہے لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیِحْ الْمِسْکِ(۱۸۴)۔ صحیح مسلم میں یوم القیامہ زیادہ ہے۔(۱۸۵) یعنی روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے روز اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ ہوگی (شاید بقول مرزائی حضرت امام مسلم نے یا کسی کاتب نے یا ہندوستانی مولوی نے عند الدعاء والیوم القیامۃ بڑھایا ہوگا)۔
(۳) صحیح مسلم میں ہے ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری(۱۸۶)۔ صحیح ابن خزیمہ میں عَلِی صَدْرِہٖ زیادہ ہے(۱۸۷) (بلوغ المرام) راوی ایک سند ایک لیکن آج تک کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہوا کہ یہ '' آنحضرت پر افتراء ہے۔''
----------------------------------
(۱۷۲) اخرجہ البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶ ج۲
باب ماجاء فی العرش والکرسی
(۱۷۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۰ طبعہ ۱۹۴۵
(۱۷۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۶ وکتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶، ج۲
(۱۷۵) ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳؍ ۱۷۶ احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۱
(۱۷۷) پ۱۴ النمل ۱۲۵؍ ۱۷۸ (الف) نور الحق ص۴۶، ج۱ و روحانی ص ۶۳ج۸ و تبلیغ رسالت ۱۹۴، ج۳ و ص ۳۹، ج۷
(۱۷۸) ب: نور الحق ص۴۶ ج ۱ ورحانی ص۶۳ ج۸ و اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ تبلیغ رسالت ص ۱۹۴ ج ۳ تا ۱۹۵ و حاشیہ مجموعہ اشتہارات ص۱۲۵ و ۱۲۶، ج۲ و اشتہار، مسمّٰی میموریل، مرزا مورخہ ۴ مئی ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالت ص۳۹، ج۷ و مجموعہ اشتہارات ص۴۳، ج۳ و ملحقہ آخر، کتاب البریہ ص۳ و البلاغ ، المعروف فریاد درد، ص ۸،۱۰ و۱۷و ۲۳ طبعہ ۱۹۲۳۔
(۱۷۹) مقدمہ صحیح مسلم ص۲۳؍ ۱۸۰ ایضاً ص ۵ ؍ ۱۸۱ ایضاً ص۳
(۱۸۲) صحیح بخاری ص۱۰۴ کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلوٰۃ
(۱۸۳) صحیح مسلم ص۲۸۱، ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب النھی عن رفع البصر الٰی السماء فی الصلوٰۃ
(۱۸۴) صحیح بخاری ص۲۵۴، ج۱ کتاب الصوم باب فضل صوم
(۱۸۵) صحیح مسلم ص۳۶۳ ج۱ کتاب الصوم
(۱۸۶) ایضاً ص۱۷۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیر الاحرام تحت صدرہ
(۱۸۷) صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع الیمنٰی علی الشمال فی الصلوٰۃ قبل افتتاح القراۃ ، نوٹ :اولاً مولانا معمار رحمہ اللہ کا کہنا کہ صحیح مسلم اور صحیح ابن خزیمہ کی سند کے راوی ایک ہی ہیں درست نہیں جبکہ دونوں کی اسناد اس طرح ہیں کہ
(۱) '' صحیح مسلم کی سند'' حدثنا زھیر بن حرب قال حدثنا عفان قال ناھمام قال نا محمد بن حجادۃ قال حدثنی عبدالجبار بن وائل عن علقمۃ بن وائل و مولی لھم انھما حدثاہ عن ابیہ وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہ ، صحیح مسلم ص۱۷۳، ج۱)
(۲) '' صحیح ابن خزیمہ کی سند اخبرنا ابو طاھرنا ابوبکر نا ابو موسٰی نا مؤمل نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہٖ عن وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہ صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳، ج۱''
دونوں اسناد کو مکرر دیکھ لیجیے۔ ان میںہر ایک علیحدہ اور مستقل سند ہے، غالباً مولانا معمار مرحوم کو حافظ ابن حجر کی تالیف، بلوغ المرام، سے وہم ہوا ہے جبکہ معمار صاحب کی زندگی میں ابن خزیمہ ثانیاً ایک ہی سند میں الفاظ کے زیادت کی بہترین مثال حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی حسب ذیل ہے:
قال صلی رسول اللّٰہ ﷺ ثم اقبل بوجھہ فقال اتقرؤن والامام یقرأ فسکتو فسألھم ثلٰثا فقالوا انا لنفعل قال فلا تفعلوا شرح معانی الاثار للطحاوی ص۱۵۰، ج۱۔ جبکہ اسی سندسے مروی اسی حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ولیقرأ احدکم بفاتحۃ الکتاب فی نفسہٖ صحیح ابن حبان ص ۱۶۰ ج ۴ رقم الحدیث ۱۸۴۱ والسنن الکبرٰی للبیھقی ص۱۶۶ ج۲ وطبرانی اوسط بحوالہ مجمع الزوائد ص۱۱۳ ج ۲ وسنن دارقطنی ص ۳۴۰ ج۱
ظاہر ہے کہ طحاوی کی روایت کے جو الفاظ ہیں ان سے یہ فاتحہ خلف الامام کے ترک کی دلیل ہے مگر پوری روایت میں قراۃ فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے (مزید تفصیل کے لیے راقم کی کتاب دین الحق کی فی تنقید جاء الحق ص۳۰۰ جلد اوّل کا مطالعہ کریں) مگر آج تک کسی اناڑی نے بھی یہ نہیں کہا کہ آخری الفاظ من گھڑت اور اہل حدیث کی ایجاد ہیں۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام سیوطی کا تساہل:
سیوطی کا تساہل اور زلت فہم مشہور ہے تفسیر جلالین میں بحوالہ صحیح مسلم حدیث اِبْدَئُ وْا بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بصیغۂ امر نقل کرکے سعی کی فرضیت ثابت کرتے ہیں (۱۸۸)حالانکہ صحیح مسلم میں اس طرح (بصیغۂ امر) نہیں ہے۔(۱۸۹) اسی طرح آیت کلالہ کے بارے میں سیوطی صاحب تحریر فرماتے ہیں نَزَلَتْ فِیْ جَابِرٍ وَقَدْ مَاتَ عَنْ اَخَوَاتٍ(۱۹۰)۔ یہ اُن کی بھول ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ عہد نبوی میں آیت کلالہ کے نزول کے وقت نہیں فوت ہوئے تھے۔ بلکہ مدینہ طیبہ کے تمام صحابیوں کے بعد حجاج کے زمانہ میں فوت ہوئے (۱۹۱)۔ اسی طرح سیوطی سے بہت سی غلطیاں ہر فن میں واقع ہوئی ہیں تفصیل کے لیے حافظ سخاوی کی کتاب اَلضَّوْئُ الاَّوح دیکھنی چاہیے۔ اسی طرح ان سے حدیث بیہقی کے نقل کرنے میں تساہل ہوگیا ہوگا اور من السماء کا لفظ ان کو یاد نہ رہا ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی نظر بخاری و مسلم کے متن پر ہو اور بیہقی کا نام انہوں نے بِوَجْہِ تَوَافُقِ لِاَکْثَرِ الْمَتْنِ کے لکھ دیا ہو۔ جس طرح کہ خود امام بیہقی نے حدیث مذکور نقل کرکے رواہ البخاری واخرجہ مسلم کہہ دیا ہے، لانہ ربما یعز یعزوا لبعض المحدثین اذا اخرجھا باکثر کلماتہ ولا یشترط استیعاب الفاظ الروایۃ یعنی امام بیہقی نسبت کردیتے ہیں حدیث کو بعض محدثوں کی طرف۔ جبکہ اس محدث نے اس حدیث کو اس کے اکثر کلمات سے نقل کیا ہو۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس حدیث کے پورے الفاظ اُس محدث نے نقل کئے ہیں۔ فَاِذَا قَالَ الْمُحَدّث رَوَاہُ الْبُخَارِی کَانَ مُرَادُہٗ اَنَّ اَصْلَ الْحَدِیْثِ اَخْرَجَہُ البخاری(۱۹۲)۔ پس جب کوئی محدث کہتا ہے کہ اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس حدیث کی اصل جامع بخاری میں ہے (نہ پورے الفاظ)۔
ایک نکتہ:
سلف میں ایک بڑا فتنہ ''فرقہ جہمیہ'' کے نام سے اسی طرح سے پیدا ہوا جس طرح آج کل فتنہ مرزائیہ ہے۔ '' فرقہ جہمیہ'' اسماء وصفات باری میں طرح طرح کی تاویلیں بلکہ تحریفیں کرتا تھا۔ اس لیے علمائے اسلام نے عموماً اور محدثین کرام نے خصوصاً اس فرقہ کی تردید میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہمیہ کے عقاید باطلہ میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ان اللّٰہ لیس فی السماء(۱۹۳)۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب مذکور میں اس کی تردید میں کئی باب منعقد کئے ہیں اور اللّٰہ فی السماء کو بہت سی حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (۱۹۴)میں باب ئَ اَمِنْتُمْ من فِی السَّمَآئِ کا منعقد فرماتے ہیں اور مختلف احادیث نبویہ سے مسئلہ مذکورہ ثابت کرتے ہیں اس کے (ص۱۶۶) میں باب رَافِعُکَ اِلَیَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیِّبُ کا لائے ہیں اور مختلف حدیثوں سے فرشتوں، کلموں اور عملوں کا آسمان پر خدا کی طرف جانا ثابت کرتے ہیں مثلاً عروج الملئکۃ الی السماء (۱۹۶)۔ اسی باب میں پہلی حدیث حضرت عیسیٰ کی بابت بھی لائے ہیں کیف انتم اذا انزل ابن مریم من السماء فیکم(۳۰۱) پس انصاف کرنا چاہیے کہ جب مصنف کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس باب میں خصوصیت سے الی السماء فی السماء من السماء، ثابت کیا جائے تو یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اصل بیہقی میں من السماء کا لفظ نہیں ہے حالانکہ امام موصوف اسی چیز کے ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
-----------------------------------------
(۱۸۸) تفسیر جلالین ص زیر آیت البقرہ ۱۵۸
(۱۸۹) صحیح مسلم ص ۳۹۵، ج۱ کتاب باب حجۃ النبی ﷺ و ابوداؤد ص۲۶۲ ج۱ کتاب المناسک باب صفۃ حجۃ النبی ﷺ وابن ماجہ ص ۲۲۸ ابواب الحج باب حجۃ رسول اللّٰہ ﷺ وسنن دارمی ص۶۸، ج۲ کتاب الحج باب سنۃ الحاج
(۱۹۰) تفیسر جلالین
(۱۹۱) اصابہ ترجمہ جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ ، حافظ ابن حجر، تقریب التھذیب ص۴۰ میں فرماتے ہیں کہ آپؓ نے ص۹۴ سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ۷۰ھ کے بعد وفات پائی (انتھی)
امام سخاوی سیوطی نے ہمارے بہت سے اساتذہ کی کتابیں چپکے سے چرا لیں پھر انہیں مسخ و محرف کرکے اپنے نام سے شائع کردیں افسوس کہ اگر سیوطی اہل علم کی کتابوں کو چرا کر مسخ و محرف کیے بغیر اپنے نام سے شائع کردیتے تو کم از کم ان سے لوگ دھوکہ میں نہ پڑتے بغیر مستفید ہوسکتے مگر اس کی تحریف کاری کے سبب یہ کتابیں بے فائدہ ہوگئیں سیوطی بکثرت جھوٹ بولتے تھے ایک مرتبہ میرے پاس آکر کہنے لگے کہ میں نے امام قصمی سے مسند شافعی پڑھی ہے اتنے میں قصمی آگئے اور انہوں نے بتایا کہ سیوطی جھوٹا ہے اسی طرح سیوطی کے ایک اور استاذ جلال الدین محلی نے بھی جھوٹا بتایا ہے اور قاضی بدر حنبلی نے بھی ، امام سخاوی فرماتے ہیںکہ سیوطی نے بغیر کسی علم و فن میں پختگی حاصل کیے دعویٰ ہمہ دانی کردیا، تفصیل کے لیے دیکھیے الضوء اللامع ص ۶۵ تا ۷۱ ج۴ طبعہ قاہرہ ۱۳۰۴ھ ابو صہیب
(۱۹۲) التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص ۹۹
(۱۹۳) کتاب العلو ص۳۷۷ وبیھقی فی الاسماء والصفات ص۱۷۰ ج۲
(۱۹۴) کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۲، ج۲ باب قول عزوجل، وھو القاھر فوق عبادہٖ وقولہ یخافون ربھم من فوفھم و یفعلون ما یومرون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھویں حدیث:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْزِلُ اَخِیْ عَیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ عَلٰی جَبَلٍ اَفِیْقٍ اِمَامًا ھَادِیًا وَّحَکَمًا عَادِلاً۔(۱۹۷) (کنز العمال جلد۷ ص۲۶۷ و منتخب کنز جلد ۶ص۶۵)
نوٹ: اس حدیث کو مرزا صاحب نے بھی حمامۃ البشریٰ ص۸۷،۲۷ پر نقل کیا ہے مگر لفظ سماء نہیں لکھا اور خیانت کی ہے اور نبی خائن نہیں ہوتا۔ (۱۹۸)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت یہ یہ باتیں ہونگی مسیح ابن مریم آسمان سے جبل افیق پر نازل ہوگا۔ مطلب ظاہر ہے کہ مسیح زندہ ہے۔
نوٹ: اس حدیث کی رُو سے وہ دوبارہ آنے کے وقت آسمان سے اتریں گے تو معلوم ہوا کہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ لیجئے اس پر مرزا صاحب کے دستخط بھی کروا دوں۔ آپ براہین میں فرماتے ہیں:
'' حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔'' (۱۹۹)
دیگر یہ مرزا صاحب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں '' صحیح مسلم میں ہے کہ مسیح جب آسمان سے اُترے گا تو اس کا لباس زرد چادریں ہوں گی۔ (۲۰۰)
اسی طرح رسالہ تشحیذ الاذہان میں مرزا صاحب کا قول ہے:
'' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہونگی۔ سو اس طرح مجھے دو بیماریاں ہیں۔'' (۲۰۱)
زرد لباس سے مراد اصل لباس ہو یا مرزا صاحب والی بیماریاں ہوں مقصد سے باہر ہے۔ استدلال الفاظ '' آسمان پر سے اترے گا'' سے یہ ہے کہ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے آسمان سے اترنے کو مانتے رہے اور یہ آپ کے اس وقت کے مسلمات ہیں جب آپ نے مثیل مسیح کا دعویٰ بھی کردیا تھا۔
------------------
(۱۹۵) ایضاً ص۱۶۶، ج۲، ب؍ ۱۹۶ ایضاً
(۱۹۷) کنز العمال ص۲۶۸، ج۷، طبع قدیم ومنتخب کنز العمال علی ہامش مسند احمد ص۵۶ ج۶
(۱۹۸) حمامۃ البشرٰی ص۸۷ و روحانی ص ۳۱۲، ج۷ ؍ ۱۹۹ براھین احمدیہ ص۳۶۱، ج۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۱
(۲۰۰) ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نویں حدیث:
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا اَنْزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمَ۔(۲۰۲) تم کیسے ہوگے جب مسیح تم میں نازل ہوگا اس حال میں کہ تم سے ایک امام موجود ہوگا۔
اس حدیث سے بھی حضرت عیسیٰ کا آنا ثابت ہے اگرچہ لفظ سماء نہیں مگر بقرنیہ نصوص قرآن و حدیث جن میں مسیح کا رفع سماوی و نزول من السماء وارد ہے۔ مطلب اس کا یہی ہے۔
اعتراض مرزائی:
اس حدیث میں اما مکم منکم سے مراد وہ عیسیٰ ہے جو مسلمانوں میں سے ایک ہوگا۔(۲۰۳)
الجواب:
قرآن و حدیث بلکہ کل دنیا بھر کے اہل اسلام کی کتابوں میں حضرت عیسیٰ ابن مریم جس کا نزول مذکور ہے سوائے مسیح رسول اللہ کے اور کوئی شخص نہیں یہ افترا ہے۔ اور ازسر تا پا یہودیانہ تحریف ہے جو بیسیوں آیات و صدہا احادیث کے خلاف ہے۔ حدیث میں مسیح کے نزول کے وقت ایک دوسرے امام کا ذکر ہے جو باتفاق جملہ مفسرین و محدثین و مجددین غیر از مسیح ہے۔ جو یقینا امام مہدی ہیں جن کے متعلق آنحضرت کی صحیح حدیث ہے کہ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ بَیْتِیْ یُؤَاطِیٔ اِسْمُہٗ اِسْمِیْ وَاِسْمُ اَبِیْہِ اِسْمَ اَبِیْ ۔(۲۰۴)''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی میں فرماتے ہیں۔ مہدی خلق اور خلق میں میری مانند ہوگا میرے نام جیسا اس کا نام ہوگا، میرے باپ کے نام کی طرح اس کے باپ کا نام۔''(۲۰۵)
اس کے علاوہ خود مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ امامکم منکم میں مسلمانوں کے امام الصلوٰۃ غیر از مسیح کا ذکر ہے۔
چنانچہ ایک شخص نے مرزا جی سے سوال کیا کہ آپ خود امام بن کر نماز کیوں نہیں پڑھایا کرتے کہا:
'' حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا۔'' (۲۰۶)
الغرض یہ غلط ہے کہ مسیح امامکم منکم کا مشار'' الیہ ہے اس کی مزید تشریح جو مرزائیوں کے تمام شبہات کو زائل کرتی ہے وہ حدیث ذیل ہے:
------------------------------
(۲۰۱) بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مؤرخہ ۷؍ جون ۱۹۰۶ء و تشحیذ الاذہان جلد ۱نمبر۲ بابت جون ۱۹۰۶و ملفوظات مرزا ص ۳۳، ج۵
(۲۰۲) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰، ج۱ کتاب الانبیاء باب نزول عیٰسی بن مریم و مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم
(۲۰۳) احمدیہ پاکٹ بک ص ۴۰۷
(۲۰۴) اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۳۷۶، ج۱ وہ ۳۳ و ۴۴۸ و ابوداؤد فی السنن ص۲۳۲، ج۲ کتاب الفتن باب المھدی والترمذی مع تحفہ ص۲۳۲، ج۳ کتاب الفتن باب ماجاء فی المھدی والحاکم فی المستدرک ص۲۴۲، ج۴ کتاب الفتن باب لا یزاد الامر الا شدۃ و مشکوٰۃ ص۴۷۰
(۲۰۵) ازالہ اوہام ص ۱۴۷ و روحانی ص۱۷۵، ج۳
(۲۰۶) البدر جلد ۲ نمبر۴۱، ۴۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳، ص۳۲۲ و ملفوظات مرزا ص ۴۴۴، ج۳ بیان فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء و فتاوٰی احمدیہ ص ۸۲، ج۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دسویں حدیث:
مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: فَیَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَقُوْلُ اَمِیْرُھُمْ تعالَ صَلِّ لَنَا فَیَقُوْلُ لَا اِنَّ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ اُمَرَائُ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ۔ (۲۰۷)(نزول عیسیٰ علیہ السلام )پس نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم۔ مسلمانوں کا امیر انہیں کہے گا۔ آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ فرمائیں گے نہیں۔ یہ شرف اُمت محمدی کو ہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے امیر و امام ہوں۔
اللہ اکبر! حضرت مسیح ابن مریم بھی محمدی امت کا شرف تسلیم کرتے ہیں وہ بھی اس قدر بلند کہ ایک نبی اللہ بھی ان کا حقیقی رنگ میں بالاستقلال امام و امیر نہیں ہوسکتا اس حدیث مقدسہ نے مرزائیوں کی جملہ تاویلاتِ واہیہ اور خیالاتِ باطلہ کا بخوبی قلع قمع کردیا ہے اور روز روشن کی مانند واضح کردیا ہے کہ مسیح آنے والا وہی اسرائیلی بھی ہے نہ کہ اس امت کا کوئی شخص۔
----------------------------
(۲۰۷) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم واحمد فی مسندہٖ ص۳۴۵، ج۳ و ۳۸۴ و مشکوٰۃ ص ۴۸۰
 
Top