• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عجیب تائید الٰہی:
مرزائیوں نے اس روایت کو وفاتِ مسیح کی دلیل ٹھہرایا تھا۔ خدا کی قدرت یہی حیاتِ مسیح کی مثبت ہوگئی۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزا صاحب کاذب تھے۔ دلیل یہ کہ اس روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات صاف مذکور ہے۔ حالانکہ مرزا جی انہیں زندہ مانتے ہیں۔ (۳۴۴)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ
ایسا ہی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ پر افترا کیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ دلیل یہ کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ جس میں وفاتِ مسیح مذکور ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت متوفیک ، ممیتک کو بخاری میں نقل کیا ہے۔ (۳۴۵)
الجواب:
ہم ثابت کر آئے ہیں کہ صحابہ کرام خاص کر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کو قائلین وفات مسیح قرار دینا قطعاً جھوٹ ہے۔ ان کی روایات سے وفات ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ دیگر بیسیوں روایات سے حیات ثابت ہے پس اس بودی دلیل پر بنیاد قائم کرکے امام بخاری رحمہ اللہ کو قائلِ وفات کہنا یقینا پرلے سرے کی جہالت ہے۔ سنو! امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں نزول مسیح کا ذکر اور ان کے ابھی تک زندہ ہونے کا تذکرہ اور آخر زمانہ میں نازل ہونے کا اظہار موجود ہے یعنی وہ روایت جس میں آیت { اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَیْلَ مَوْتِہٖ} سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسیح علیہ السلام کے حیات ہونے پر دلیل بنایا ہے۔ (۳۴۶)اور مرزا صاحب نے غصہ میں آکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غبی فہم، قرآن میں ناقص۔ درایت سے حصہ نہ رکھنے والا قرار دیا ہے (۳۴۷)کو نقل کرکے اور اسی طرح دیگر صحابہ کی روایات جن میں نزولِ مسیح کا ذکر ہے۔ بخاری شریف میں نقل کرکے ان پر کوئی جرح یا انکار نہ کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی حیاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ اور کیوں نہ ہوتے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم کھا کر نزولِ مسیح کا اظہار فرماتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آیت قرآن کے ساتھ اُس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں اور امام بخاری خود اس روایت کو بخاری شریف میں درج فرماتے ہیں۔
-------------
(۳۴۴) نور الحق ص۵۰، ج۱و روحانی ص ۶۹، ج۸ ؍ ۳۴۵احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۸
(۳۴۶) صحیح بخاری ص۴۸۰، ج۱کتاب الانبیاء باب نزول عیٰسی بن مریم
(۳۴۷) براھین احمدیہ ص۲۳۴و روحانی ص ۴۱۰، ج۲۱و تفسیر مرزا ص۳۶۲، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک اور طرز سے:
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر نزول تک کے واقعات کو صحیح بخاری میں نقل کیا ہے اور مختلف باب باندھے ہیں۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم۔ الآیۃ
۲۔ باب واذ قالت الملٰئکۃ الایۃ۔
۳۔ باب واذ قالت الملٰئکۃ یا مریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ السمیح عیسیٰ ابن مریم الآیۃ۔
۴۔ باب قولہ یا اہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم الآیۃ۔
۵۔ باب واذکر فی الکتاب مریم الآیۃ۔
۶۔ باب نزول عیسیٰ ابن مریم ۔ (۳۴۸)
پھر ہر ایک باب کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لائے ہیں۔ آخری باب کے شروع پر کوئی آیتِ قرآن نہیں لکھی۔ کیونکہ اس باب میں جو حدیث لائے اس کے اندر خود آیت وان من اہل الکتاب سے تمسک کیا ہوا ہے۔
حضرات! غور فرمائیے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اسی مسیح ابن مریم علیہ السلام کی آمد کے قائل ہیں جس کا ذکر مختلف ابواب میں کیا ہے یا کسی اور شخص کے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تو کیا ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ ان احادیث نبویہ میں سوائے مسیح ابن مریم کے کسی آئندہ پیدا ہونے والے پنجابی شخص مریض مراقی کی آمد کا تذکرہ ہے۔ حاصل یہ کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ حیاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
اس پر مزید تشفی کے لیے ہم ان کی تاریخ سے ان کا فرمان نقل کرتے ہیں:
یُدْفَنُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَصَاحِبَیْہِ فَیَکُوْنُ قَبْرُہٗ رَابِعًا۔ (۳۴۹)
’’ فرمایا حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عیسیٰ علیہ السلام بن مریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصاحبین کے پاس دفن ہوں گے، حجرہ نبویہ میں ان کی چوتھی قبر ہوگی۔‘‘
----------------
(۳۴۸) صحیح بخاری ص۴۸۸، ج۱تا ۴۹۰، کتاب الانبیاء
(۳۴۹) اخرجہ البخاری فی التاریخ الکبیر ص۲۶۳، ج۱ق نمبر ۱فی ترجمۃ محمد بن یوسف ابن عبداللہ بن سلام والطبرانی فی معجمہ کذافی مجمع الزوائد ص۲۰۹کتاب ذکر الانبیاء باب ذکر عیٰسی بن مریم واوردہ السیوطی فی الدرالمنثور ص۲۴۵ج۲وابن عبدالبر فی التمھید ص۲۰۲، ج۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام مالک رحمہ اللہ
ایسا ہی امام مالک رحمہ اللہ پر جھوٹ باندھا ہے کہ وہ بھی وفات کے قائل تھے اس پر مجمع البحار وشرح اکمال الاکمال سے نقل کیا ہے کہ قال مالک مَاتَ عیسیٰ ۔ (۳۵۰)

الجواب:

اول تو یہ قول بے سند ہے کوئی سند اس کی بیان نہیں کی گئی۔ پس کیسے سمجھا جائے کہ اس جگہ مالک سے مراد امام مالک رحمہ اللہ ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔
بعض سلف کا یہ بھی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے جانے سے قبل سلائے گئے تھے چنانچہ لفظ توفی کے یہ بھی ایک معنے ہیں وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللیل وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ۔ (۳۵۱) اللہ وہ ذات ہے جو رات کو تمہیں سلا دیتا ہے اور جانتا ہے جو تم دن میں کماتے ہو۔ پس اگر یہ فی الواقع امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے تو اس سے مراد سلاتا ہے ’’ کیونکہ مات کے معنے لغت میں نام بھی ہیں۔ دیکھو قاموس۔‘‘ (۳۵۲)
وفی العتبیۃ قال مالک بین الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشا ھم غمامۃ فاذا نزل عیسی (ص۲۶۶جلد اول شرح اکمال الاکمال) ۔(۳۵۳) عتبیہ میں ہے کہ کہا مالک نے لوگ نماز کے لیے تکبیر کہہ رہے ہوں گے کہ ایک بدلی چھا جائے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے الغرض امام الک حیات مسیح و نزول فی آخر الزمان کے قائل تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقلدین معتقد ہیں حیاتِ مسیح علیہ السلام کے۔ علامہ زرقانی مالکی لکھتے ہیں: رفع عیسیٰ وھو حی علی الصحیح۔ (۳۵۴)(شرح مواہب لدنیہ)
نوٹ: اور واضح ہو کہ کتاب عتبیہ امام مالک رحمہ اللہ کی نہیں ہے بلکہ امام عبدالعزیز اندلسی قرطبی کی ہے۔ جس کی وفات ۲۵۴میں ہوئی۔ (۳۵۵)
---------------------
(۳۵۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۸طبعہ ۱۹۴۵
(۳۵۱) پ۷الانعام ۶۰ ؍ ۳۵۲ازالہ اوہام ص۶۴۰و روحانی ص۴۴۵ج۳
(۳۵۳)
(۳۵۴) شرح مواھب للدنیہ ص اسی طرح امام ابن عبدالبر رحمۃ اللّٰہ علیہ ، التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید ص۲۰۳، ج۱۴، میں پرزور الفاظ میں حیات مسیح کا ذکر کیا ہے، ابو صہیب
(۳۵۵) کشف الظنون ص۱۰۶تا ۱۰۷، ج۱ ؍ ۳۵۶احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابوحنیفہ و احمد بن حنبل رحمہ اللہ
مذکورہ بالا ائمہ کرام کے متعلق تھی بلا ثبوت افترا کیا ہے کہ یہ سب اس مسئلہ میں خاموش تھے لہٰذا وفاتِ مسیح کے قائل تھے۔ (۳۵۶)
الجواب:
نزول عیسٰی علیہ السلام من السماء حق کائن۔(۳۵۷) (فقہ اکبر مؤلفہ امام اعظم رحمہ اللہ )
امام احمد بن حنبل کی مسند میں تو بیسیوں احادیث حیات مسیح کی موجود ہیں۔ لہٰذا ان کو قائل وفات گرداننا انتہائی ڈھٹائی ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ
امام ابن حزم کے ذمہ بھی غیروں کی کتابوں کی بنا پر اتہام باندھا ہے حالانکہ وہ برابر حیاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ ان عیسی ابن مریم سینزل (۳۵۸)(ص۹ج۱)فکیف یستجیز لمسلم ان یثبت بعدہ علیہ السلام نبیا فی الارض حاشا ما استثناہ رسول اللّٰہ ﷺ فی الاٰثار المسندۃ الثابتۃ فی نزول عیسی ابن مریم فی اٰخر الزمان۔ (۳۵۹) یعنی کسی مسلمان سے کس طرح جائز ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمین میں کسی نبی کو ثابت کرے۔ الا اسے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث صحیحہ ثابتہ میں مستثنیٰ کردیا ہو۔ عیسیٰ بن مریم کے آخری زمانہ میں نازل ہونے کے بارے میں۔
واما من قال ان بعد محمدا ﷺ نبیا غیر عیسی ابن مریم فانہ لا یختلف اثنان فی تکفیرہ۔(۳۶۰)
جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوائے عیسیٰ ابن مریم کے کوئی اور نبی ہے (مثلا غلام احمد قادیانی) اس شخص کے کفر میں امت محمدیہ میں سے دو کس بھی مخالف نہیں۔ اسی طرح ص۷۷پر نزولِ مسیح علیہ السلام پر ایمان واجب لکھا ہے۔ (۳۶۱)
---------------------
(۳۵۷) فقہ اکبر
(۳۵۸) المحلی بالاثار ص۲۸، ج۱کتاب التوحیدہ مسألہ ۱۲
(۳۵۹) کتاب الفصل ص۱۸۰، ج۴
(۳۶۰) ایضاً ص۲۴۹، ج۳
(۳۶۱) ایضاً ص۷۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مولانا عبدالحق محدث دہلوی اور نواب صدیق حسن خان
ایسا ہی مولانا عبدالحق محدث دہلوی اور مولانا نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ پر افترا کیا کہ انہوں نے عمر مسیح ۱۲۰برس لکھی ہے۔ لہٰذا وہ وفات کے اقراری ہیں۔ (۳۶۲)
الجواب:
یہ بزرگ حیات کے قائل ہیں۔ البتہ ان کا یہ خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام کا ۳۳برس کی عمر میں رفع نہیں ہوا۔ ایک سو بیس کی عمر میں وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور زندہ اٹھائے گئے ہیں۔
ونزول عیسیٰ بن مریم یاد کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرود آمدن عیسیٰ را از آسمان برزمین۔ (۳۶۳)
ایسا ہی جلد ۴ص ۳۷۳پر مسیح کا آسمان سے نازل ہونا لکھا ہے۔ ایسا ہی تفسیر حقانی میں لکھا ہے۔ (۳۶۴)
اور نواب صدیق حسن خاں نے تو اپنی کتاب حجج الکرامہ میں نزول و حیات مسیح علیہ السلام پر ایک مستقل باب باندھا۔ جس میں آیت وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ سے استدلال کیا ۔(۳۶۵) (ملاحظہ ہو کتاب مذکور باب ۷ص۴۲۲)
امام ابن قیم رحمہ اللہ
اس بزرگ امام پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے کہ وہ مسیح علیہ السلام کو وفات شدہ خیال کرتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے مدارج السالکین میں لَوْ کَان مُوْسٰی وَعِیْسٰی حَیَّیْنِ اگر موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے حدیث نقل کی ہے۔ (۳۶۶)
الجواب:
امام ابن قیم نے ہرگز اس قول کو حدیث نہیں کہا بلکہ یہ اُن کا اپنا قول ہے۔ مطلب ان کا اس قول سے نہ ثبوتِ حیات دینا مطلوب ہے نہ وفات کا تذکرہ بلکہ مقصود ان کا یہ ہے کہ اگر آج زمین پر موسیٰ و عیسیٰ موجود ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے۔ یعنی زمین کی زندگی کو فرض کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی ثابت کرنا چاہی ہے نہ کہ وفات کا اظہار۔ چنانچہ وہ اسی عبارت میں جسے مرزائی خیانت سے نقل نہیں کرتے۔ آگے چل کر نزولِ مسیح علیہ السلام کا اقرار فرماتے ہیں۔ ومحمدﷺ مبعوث الی جمیع الثقلین فرسالتہ عامۃ لجمیع الجن والانس فی کل زمان ولوکان موسی وعیسی حیین لکانا من اتباعہ واذا نزل عیسی ابن مریم فانما یحکم بشریعۃ محمدﷺ (۳۶۷) (مدارج السالکین جلد ۲ص۳۱۳مطبوع مصر جلد ۲ص۲۴۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تمام کافہ جن و انس کے لیے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ بالفرض اگر موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام (آج زمین پر) زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے اور جب عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا تو وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی عمل کرے گا۔
مرزائیو! اپنی اغراض کو پورا کرنے کے لیے کسی کے اصل مفہوم کو بگاڑنا بعید از شرافت ہے۔ سنو! اگر اس قول سے ضرور وفات ہی ثابت کرنا چاہو گے تو ساتھ ہی مرزا صاحب کی رسالت بھی چھوڑنی پڑے گی۔ کیونکہ وہ حیاتِ موسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں۔ حالانکہ اس قول میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات مذکور ہے۔ فما جوابکم فہو جوابنا۔
بالآخر ہم امام ابن قیم کی کتب سے بعبارۃ النص حیاتِ مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں جس سے ہر ایک دانا جان لے گا کہ ابن قیم کا وہی مطلب ہے جو ہم نے اوپر لکھا ہے وفات مقصود نہیں:
۱۔ وھذا المسیح ابن مریم حی لم یمت وغذاؤہ من جنس غذاء الملئکۃ (۳۶۸)(کتاب التبیان مصنفہ ابن قیم ص۱۳۹) مسیح علیہ السلام زندہ ہے اس کی خوراک وہی ہے جو فرشتوں کی ہے۔
۲۔ وانہ رفع المسیح الیہ (۳۶۹)(ص ۲۲کتاب مذکورہ) تحقیق اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا۔
۳۔ وھو نازل من السماء فیحکم بکتاب اللّٰہ(۳۷۰)(ہدایۃ الحیاریٰ مع ذیل الفاروق ص۴۳مطبوعہ مصر) اور وہ آسمان سے نازل ہو کر قرآن پر عمل کرے گا۔
-----------------
(۳۶۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۹
(۳۶۳) اشعۃ اللمعات ص۳۴۴، ج۴باب نزول عیسی بن مریم
(۳۶۴) ایضاً ص۳۷۳، ج۴و تفسیر حقانی
(۳۶۵) حجج الکرامہ ص۴۲۲باب ۷
(۳۶۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۲
(۳۶۷) مدارج السالکین شرح منازل السائرین ص۳۱۳، ج۲و ص۳۱۳، ج۲و ص۲۴۳، ج۲طبع مصر
(۳۶۸) کتاب التبیان صفحہ ۱۳۹
(۳۶۹) ایضاً ص۲۲
(۳۷۰) ھدایہ الحیارٰی علی ہامش فاروق ص۴۳طبع مصر
(۳۷۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ
اس بزرگ پر بھی الزام لگایا ہے کہ یہ وفاتِ مسیح کا قائل تھا۔ (۳۷۱)حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور افترا بلکہ بے ایمانی ہے وہ اپنی تفسیر موسومہ ’’محمدی‘‘ جلد اوّل ص۲۹۱زیر آیت وَمَکَرُوا ومکر اللہ الآیہ لکھتے ہیں کہ جب یہود نے مسیح کو پکڑنا چاہا
تاں جبرائیل گھلیا رب لے گیا وچہ چوبارے
اس چھت اندر ہک باری او تھوں ول اسمان سدھارے
سردار تنہا ندے طیطیا نوس نوں کیتا حکم زبانوں
جو چڑھے چبارے قتل کریں عیسیٰ نوں ماریں جانوں
جاں چڑھ ڈٹھس وچہ چبارے عیسیٰ نظر نہ آیا
شکل شباہت عیسیٰ دی رب طیطیانوس بنایا
انہاں ظن عیسیٰ نوں کیتا سولی فیر چڑھایا
ہک کہن جو مرد حواریاں تھیں ہک سولی مار دیوایا(۳۷۲)
یعنی خدا نے اس وقت جبرائیل بھیجا جو عیسیٰ کو اٹھا کر آسمان پر لے گیا۔ جب طیطیانوس انہیں قتل کرنے کے ارادہ سے اندر گیا تو خدا نے اسے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل بنا دیا جسے سولی دیا گیا۔ اسی طرح اگلے صفحہ پر آیت انی متوفیک ورافعک کی تفسیر کرتے ہیں:
جا کہیا خدا اے عیسیٰ ٹھیک میں تینوں پورا لیساں
تے اپنی طرف تینوں کنوں کفاراں پاک کریساں
توفی معنے قبض کرن شے صحیح سلامت پوری
تے عیسیٰ نوں رب صحیح سلامت لے گیا آپ حضوری(۳۷۳)
یعنی جب کہا اللہ تعالیٰ نے اے عیسیٰ میں تجھے پورا پورا لے کر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ توفی کے معنے کسی چیز کو صحیح و سلامت پورا لینے کے ہیں۔ سو ایسا ہی خدا نے مسیح کو اپنے حضور میں بلا لیا۔
ابن عربی رحمہ اللہ ؟
اگرچہ مرزا صاحب نے مسئلہ وحدۃ الوجود کے رد میں حضرت ابن العربی کو ملحد زندیق وغیرہ قرار دیا ہے مگر جہاں ضرورت پڑی انہیں صاحبِ مکاشفات ولی اللہ ظاہر کرکے اپنی اغراضِ نفسانیہ کو پورا بھی کیا ہے۔ (۳۷۴)(ملاحظہ ہو فتویٰ الحاد ورسالہ تقریر اور خط)
کہا گیا ہے کہ یہ بزرگ بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ اس پر تفسیر عرائس البیان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود یہی بات مشکوک ہے کہ یہ تفسیر ان کی ہے بھی یا نہیں پھر جو عبارت پیش کی جاتی ہے اس میں بھی وفاتِ مسیح کا کوئی لفظ نہیں صرف یہ ہے کہ مسیح دوسرے بدن کے ساتھ اترے گا۔ اب دوسرے بدن کا مطلب ظاہر ہے جب تک حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر رہے بوجہ طعام اراضی ان میں کثافت موجود تھی مگر اب صدہا برس کے بعد جب نازل ہوں گے تو یقینا روحانیت کا غلبہ تام ہوگا۔
حضرت ابن عربی تو حیاتِ مسیح علیہ السلام کے اس قدر قائل ہیں کہ کوتاہ نظر انسان انہیں غلو تک پہنچا ہوا قرار دے گا۔ تفصیل کے لیے فتوحات مکیہ دیکھیں۔ اس جگہ صرف اختصار کے طور پر ایک دو عبارات پیش کرتا ہوں۔
ان عیسی علیہ السلام ینزل فی ھذہ الامۃ فی اٰخر الزمان ویحکم بشریعۃ محمد ﷺ۔(۳۷۵) (فتوحاتِ مکیہ جلد ۲ص۱۲۵)
انہ لم یمت الی الاٰن بل رفعہ اللّٰہ الٰی ھذہ السمآء۔ واسکنہ فیھا ۔(۳۷۶)
ایسا ہی جلد اوّل ص۱۳۵، ۱۴۴و ص۱۸۵، ۲۲۴و جلد ۲ص ۴۹/۳و ص۱۳۵و جلد ۳، ص ۵۱۲میں حیات مسیح کا ذکر کیا ہے
---------
(۳۷۲) تفسیر محمدی ص۲۹۱، ج۱
(۳۷۳) ایضاً ص۲۹۲، ج۱
(۳۷۴) لم اجدہ
(۳۷۵) فتوحات مکیہ ص۱۲۵ج۲
(۳۷۶) ایضاً ص۳۴۱ج ۳باب ۳۶۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابن جریر رحمہ اللہ
امام ابن جریر رضی اللہ عنہ نے جا بجا اپنی تفسیر میں حیاتِ مسیح علیہ السلام کا ثبوت دیا ہے۔ چونکہ تفاسیر میں مختلف لوگوں کے اقوال نقل ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کسی کا قول نقل کردیا ہے کہ قد مات عیسیٰ مرزائیوں نے جھٹ اسے ابن جریر کا قول قرار دے دیا۔ (۳۷۷)حالانکہ ہم اس مضمون میں کئی ایک عبارتیں امام ابن جریر کی لکھ آئے ہیں۔ اس جگہ ایک اور تحریر نقل کی جاتی ہے جس میں امام موصوف نے جملہ اقوال متعلقہ توفی مسیح لکھ کر بعد میں اپنا فیصلہ دیا ہے۔
واولی ھذہ الاقوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنے انی قابضک من الارض ورافعک علی تواتر الاخبار عن رسول اللّٰہ توفی کے متعلق جو بحث ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ توفی بمعنی نیند ہے اور کوئی کہتا ہے کہ توفی بمعنے موت ہے جو آخری زمانہ میں ہوگی۔ ان سب اقوال میں ہمارے نزدیک صحیح وہ قول ہے جو کہا گیا ہے کہ ’’ میں زمین سے پورا پورا لینے والا ہوں‘‘ یہ معنے اس لیے اقرب الی الصواب ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں آیا کہ انہ ینزل عیسیٰ ابن مریم فَیَقْتُلُ الدجال ثم یمکث فی الارض ثم یموت۔(۳۷۸) (جلد ۳ص۱۸۴) بیشک وہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا۔ پھر قتل کرے گا دجال کو پھر رہے گا زمین پر پھر وفات پائے گا۔
اس تحریر میں امام موصوف نے صاف فیصلہ کردیا ہے کہ جس مسیح ابن مریم کے بارے میں آیت انی متوفیک ورافعک داد ہوئی۔ جس میں اختلاف کیا جاتا ہے۔ وہی زمین سے اٹھایا گیا ہے اور وہی نازل ہوگا۔
مرزائیو! تمہارے نبی نے اس امام ہمام کو ’’ رئیس المفسرین‘‘ اور ’’ معتبر از ائمہ محدثین‘‘ لکھا ہے۔ آؤ اسی کی تحریرات پر فیصلہ کرلو۔ تم تو صرف دھوکا دینا چاہتے ہو۔ تمہیں ایمان و انصاف سے کیا کام؟
مصنف الیواقیت و الجواہر
کہا گیا ہے کہ یہ بھی وفات مسیح کے قائل ہیں کیونکہ انہوں نے حدیث موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام حیین نقل کی ہے۔ (۳۷۹)
الجواب:
پھر تو مرزا صاحب کاذب ہیں کیونکہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو زندہ لکھا ہے۔ (۳۸۰)ادھر ادھر کے یہودیانہ تصرف کی بجائے اگر صداقت مطلوب ہے۔ تو آؤ ہم اس بارے میں اسی بزرگ کی کتابوں پر تمہارے ساتھ شرط باندھتے ہیں جو کچھ ان میں ہو، ہمیں منظور مگر:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ بزرگ اپنی کتاب میں خود ہی یہ سوال کرکے کہ مسیح کے نازل ہونے پر کیا دلیل ہے جواب دیتے ہیں۔ الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالٰی وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل ویجتمعون علیہ انکرت المعتزلۃ والفلاسفۃ والیھود (المرزائیۃ، ناقل)۔ ناقل) عروجہ بجسدہ الی السماء وقال تعالیٰ فی عیسی علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ والضمیر فی انہ الی عیسیٰ علیہ السلام وانہ والحق انہ رفع بجسدہ الی السماء والایمان بذالک واجب قال اللّٰہ تعالٰی بل رفعہ اللّٰہ الیہ۔ (۳۸۱)
دلیل نزول مسیح پر اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ نہیں ہوگا کوئی اہل کتاب مگر ایمان لائے گا ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے پیشتر اس کے مرنے کے یعنی وہ اہل کتاب جو نزول کے وقت جمع ہوں گے اور منکر ہیں معتزلی۔ اور فلاسفہ و یہود و نصاریٰ اور ہمارے زمانہ میں قادیانی متنبی و ذریتہٗ۔ ناقل مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کہ وہ نشانی ہے قیامت کی اور ضمیر انہ کی مسیح علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ بمعہ جسم کے آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ اور واجب ہے اس پر ایمان لانا کیونکہ خدا نے قرآن میں فرمایا کہ بلکہ اٹھا لیا اللہ نے اس کو۔
احمدی دوستو! اس تحریر کو بغور پڑھو۔ دیکھو یہ تمہارا مسلمہ ومقبولہ امام اور ولی اللہ ہے۔
---------------
(۳۷۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۵
(۳۷۸) تفسیر ابن جریر ص۱۸۴، ج۳زیر آیت انی متوفیک پ۳اٰل عمران ۵۵
(۳۷۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۱
(۳۸۰) نور الحق ص۵۰، ج۱و روحانی ص۶۹، ج۸
(۳۸۱) الیواقیت والجواہر ص۱۳۰، ج۲تا ۱۳۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام جبائی متعزلی
مرزائی قائلین وفات میں امام جبائی کا نام بھی پیش کرتے ہیں۔ (۳۸۲)مگر باوجود معتزلی ہونے کے حیات مسیح اور رفع الی السماء کے قائل ہیں سنو! قال الجبائی انہ لما رفع عیسٰی علیہ السلام الخ۔ (۳۸۳)
صاحب کشف الاسرار علامہ جبائی سے ناقل ہیں کہ جبائی نے فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ کا رفع الی السماء ہوا تو یہود نے ایک شخص کو عیسیٰ کے تابعداروں سے قتل کردیا الخ لیجئے جبائی معتزلی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ صاف صاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مانتے ہیں۔
آگے چل کر تاریخ طبری سے لکھا ہے کہ کسی پہاڑ پر ایک قبر دیکھی گئی جس پر لکھا تھا کہ یہ مسیح رسول اللہ کی قبر ہے۔ (۳۸۴)
الجواب:
کیا کہنے ہیں اس دلیل بازی کے ۔ کہاں قرآن و حدیث کی تصریحات اور کہاں اس قسم کی تفریحات۔ ہاں جناب ایسی قبریں سینکڑوں بنی ہوئی ہیں۔ تمہارے نبی کے عقیدہ کی رو سے تو کشمیر میں بھی ہے۔ (۳۸۵)اور وہی اصلی قبر ہے۔ پس اگر طبری والی روایت کو صحیح سمجھتے ہو تو پہلے کشمیر کے ڈھکوسلہ کا اعلان کردو۔ پھر ہم اس پر غور کریں گے۔
------------------
(۳۸۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۵
(۳۸۳) بحوالہ عقیدہ الاسلام ص۱۲۴
(۳۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۰
(۳۸۵) حاشیہ ست بچن متعلقہ ص۱۶۴ص ز وروحانی ص۳۰۷، ج۱۰حاشیہ در حاشیہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ
ناظرین مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب البریۃ کے ص۱۸۸کے حاشئے پر لکھا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ (۳۸۶)حالانکہ یہ افترا ہے۔ امام موصوف حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح اور زیارۃ القبور۔‘‘
(۱) فبعث المسیح علیہ السلام رسلہ یدعونھم الٰی دین اللّٰہ تعالٰی فذھب بعضھم فی حیاتہ فی الارض بعضھم بعد رفعہ الی السماء فیدعوھم الٰی دین اللّٰہ۔ الخ(۳۸۷)
روم اور یونان وغیرہ میں مشرکین اشکالِ علویہ اور بتانِ زمین کو پوجتے تھے۔ پس مسیح علیہ السلام نے اپنے نائب بھیجے کہ وہ لوگوں کو دین الٰہی کی طرف دعوت دیتے تھے۔ پس بعض مسیح علیہ السلام کی زندگی میں گئے اور بعض آپ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد گئے۔
(۲) ویقال ان انطاکیہ اول المدائن الکبار الذین اٰمنوا بالمسیح علیہ السلام وذالک بعد رفعہ الی السّماء۔(۳۸۸)
’’ کہا جاتا ہے کہ انطاکیہ ان بڑے شہروں میں سے پہلا شہر ہے جس کے باشندے مسیح علیہ السلام پر ایمان لائے اور یہ مسیح علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد تھا۔‘‘
--------------------
(۳۸۶) حاشیہ کتاب البریہ ص۱۸۸و روحانی ص۲۲۱، ج۱۳
(۳۸۷) الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ص۱۱۹، ج۱
(۳۸۸) لم اجدہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مجدد الف ثانی رحمہ اللہ
حضرت شیخ احمد سر ہندی مکتوبات میں فرماتے ہیں ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ از آسمان نزول خواہد فرمود متابعت شریعت خاتم الرسل خواہد نمود‘‘ (۳۸۹)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرما کر خاتم النبیین کی شریعت کی پیروی کریں گے۔
پیران پیر رحمہ اللہ
سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی غنیۃ الطالبین میں تحریر فرماتے ہیں:
رفع اللّٰہ عزوجل عیسٰی علیہ السلام الی السماء۔(۳۹۰) (مصر ص۶۱،ج۲)
’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر اٹھا لیا۔‘‘
خواجہ اجمیری
حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کا ارشاد سنو:
’’ حضرت عیسیٰ از آسمان اوفرود آید ۔(۳۹۱) (اینس الارواح ص۹)‘‘
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔
ثابت ہوا کہ تمام بزرگان دین حیات مسیح کے قائل ہیں۔
---------------------------------
(۳۸۹) مکتوبات ۱۷دفتر سوم
(۳۹۰) غنیۃ الطالبین ص۶۱ج۲طبع مصر
(۳۹۱) انیس الارواح ص۹
 
Top