• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر تیرہویں دلیل

مرزا صاحب نے جب اپنے جھوٹے دعاوی سے دنیا کو گمراہ کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہر فرعونے را موسیٰ والی قدیم سنت کو کام فرما کر مرزا صاحب کا سر کچلنے کو حضرت مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ صاحب امرتسری کو کھڑا کیا۔ چنانچہ مولانا موصوف نے مرزا صاحب کے جال کو تار تار بکھیر دیا اور ہر میدان میں قادیانی علماء کو فاش شکستیں دیں۔ اس کو نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب اپنی عمارت کو گرتے دیکھ کر اپنے باغ کو اجڑتے ملاحظہ کرکے اپنے گھر کو برباد ہوتے اپنی زمین کو تاخت و تاراج ہوتے دیکھ کر بظاہر سر دھڑ کی بازی مگر بہ باطن چالبازی پر اتر آئے چنانچہ آپ نے ایک نہایت ہی پرفریب اور دجل آمیز اشتہار دیا اور باوجود یہ کہ مرزا کو خدا پر قطعاً ایمان نہ تھا۔ پھر بھی لوگوں کے دکھلانے کو اس اشتہار (۱)میں خدا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ دعا کی۔
۱۔ یہ اشتہار مرحوم اخبار اہل حدیث امرتسر (۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷) میں بھی شائع ہوا تھا ۔ (ع۔ح)
مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
نَحْمَدہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رسُوْلِہ الکریم۔
یَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ۔

بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الہدیٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے۔ اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی ہی میں ناکام ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی وحی یا الہام کی بنا پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کردے۔ آمین مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی ہی میں ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے رُو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرضِ منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین! میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بد زبانی حد سے گذر گئی ہے۔ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے تہمتوں اور بد زبانیوں میں لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمَ پر بھی عمل نہیں کیا۔ اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دوکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ ان ہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین!
ربنا افتح بیننا وبین قومنا باالحق وانت خیر الفاتحین اٰمین بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
الراقم عبداللہ الصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ داید (۱)
مرقومہ یکم ربیع الاول ۲۵ھ۔ ۱۵۔ اپریل ۷
اس اشتہار میں اپنی مظلومی کی انتہائی تصویر اور مولانا ثناء اللہ صاحب کی چیرہ دستیاں بیان کرکے بڑے ہی مظلومانہ رنگ میں ’’خدا سے مانگی‘‘ کہ جھوٹے کو صادق کی زندگی میں تباہ و برباد کردے۔ پھر اس کو آخری اور قطعی فیصلہ کن دلیل گردانا ہے۔
---------------
(۱) اشتہار مرزا مورخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۷۸، ج۳و تاریخ احمدیت ص۵۰۲ج۳و حیات طیبہ ص۴۲۳تا ۴۲۵و مجدد اعظم ص۱۱۴۷تا ۱۱۴۸، ج۲، مرزا کی اصلی لکھی ہوئی تحریر کا عکس راقم نے اپنی کتاب مولانا ثناء اللہ کے ساتھ مرزا کا آخری فیصلہ ، ص۴۵تا ۴۷میں شائع کردی ہے ۔ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بھائیو! مرزا صاحب کا اس طریق سے فیصلہ کن دعا شائع کرنا ایک بڑی گہری فریب دہی پر مبنی ہے جو ہو بہو پچھلے دجال و کذاب انسانوں کی نقالی ہے کسی صادق رسول نے کبھی بھی اس قسم کی دعا اپنے مشن کی صداقت یا کذب کے لیے فیصلہ کن قرار نہیں دی۔ دعا کو قبول کرنا یا نہ کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایک قائل خدا، اور صادق رسول ’’ محض‘‘ اپنی دعا کو ’’ جو کسی الہام یا وحی کی بنا پر نہیں‘‘ اس طرح فیصلہ کن نہیں ٹھہرا سکتا کہ ’’ اگر بموجب اس دعا کے میرے مخالف پر طاعون، ہیضہ وغیرہ میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ ایک دلیری اور خدا کی درگاہ میں شوخانہ گستاخی ہے۔ الغرض یہ دعا کسی قائل خدا کی زبان سے نہیں پھبتی۔

حسن بن صباح

چوتھی صدی ہجری کے ابتدا ہی میں ایک شخص حسن بن صباح پیدا ہوا تھا جو بظاہر شیعہ کہلاتا تھا۔ اس کی بھی مرزا جی کی طرح ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ دنیا میں مقتداء انام ہو کر نام پیدا کرے۔ آخر جوئندہ یا بندہ ایک موقع قدرت نے اُسے بہم پہنچا ہی دیا۔ ایک دفعہ جبکہ وہ جہاز پر سوار تھا ایک سخت طوفان آگیا۔ جس نے جہاز کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ کسی کو بھی زندگی کی امید باقی نہ رہی (مگر) حسن کے ہوش و حواس بجا تھے۔ وہ ایک نئی تدبیر سوچ رہا تھا۔ اس نے ذرا بھی خوف و ہراس ظاہر نہ کیا۔ اور لوگوں سے معجزہ بیانی کی شان اور خدا رسی کی آن بان سے کہا ’’ میرے نزدیک اندیشے کی کوئی بات نہیں۔ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم نہ ڈوبیں گے۔‘‘ حسن نے یہ پیشگوئی یہ سمجھ کر کی تھی کہ اگر جہاز غرق ہوگیا تو کوئی تکذیب کرنے والا دنیا میں نہ رہے گا۔ اور اگر سچی ہوگئی تو پھر کسی کو میری ولایت میں شک نہیں ہوگا۔ بہرحال جو کچھ ہو۔ یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ (پھر تو) جہاز میں کوئی نہ تھا جو اس کا معتقد نہ ہو۔ (۲)(حسن بن صباح مصنفہ مولانا عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی ص۱۰)

حضرات! یہی چال اس جگہ مرزا صاحب کو مطلوب تھی۔ مقصود ان کا یہ تھا کہ اگر اتنا بڑا نامی گرامی پہلوان اپنی اجلِ مقدرہ کی وجہ سے میری زندگی میں مر گیا تو ’’ (جیسا کہ ایک موقع پر مولانا ثناء اللہ نے مرزا کو لکھا تھا) چاندی کھری ہے اور اگر خود بدولت تشریف لے گئے۔ خس کم جہاں پاک تو بعد مرنے کے کسی نے قبر پر لات مارنے آنا ہے۔‘‘ (۳)(مرزا طبع چہارم ص۱۲۳)

بہرحال یہ ایک چال تھی جو قطعی طور پر خلافِ قرآن۔ خلافِ سنت انبیاء کرام خلاف طریقہ صلحائے عظام تھی اور کبھی بھی کوئی دانا انسان جس کے دماغ میں نری بھس نہ بھری ہو۔ ایسی بیہودہ دعا کو فیصلہ کن نہیں مان سکتا۔ چنانچہ فاتح قادیان حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس کے جواب میں یہی لکھا تھا۔ مگر چونکہ ہر انسان اپنے اقرار سے ماخوذ ہوتا ہے:

تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث

’’ قانونِ قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت دل مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے۔ سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کرلیتے ہیں۔ (۴)(مصنفہ مرزا صاحب حاشیہ ص۷)

سو بموجب اس اقرار کے جو مرزا صاحب نے اس دعا میں خود کیا تھا کہ:

’’ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں تو آپ کی زندگی میں ہی ،میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب اور مفتری کی لمبی عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کیساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام وہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘

مرزا صاحب اپنے دشمن مولانا ثناء اللہ مدظلہٗ (جنہیں خود مرزا صاحب نے ’’ٹھٹھے، ہنسی اور توہین‘‘ میں بڑھا ہوا اشد ترین دشمن لکھا تھا) (۵)کی زندگی میں ہی مر گئے۔ آہ:

لکھا تھا کاذب مرے کا پیشتر

کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا!

اس الٰہی اور آسمانی فیصلہ پر مرزائیوں نے بعد وفاتِ مرزا جب چون و چرا کی اور اپنے آبائی طریق اور اسلاف کی قدیم سنت ھٰذَ سِحْرٌ مُّسْتَمَرٌّ کے رنگ میں انکار کیا تو خدا نے زمینی فیصلہ بھی کردیا۔ یعنی ماہ اپریل ۱۹۱۲ء کو شہر لدھیانہ میں بذریعہ مباحثہ جس میں مرزائیوں نے مبلغ تین صد روپیہ انعام دینا کیا تھا اور ایک سکھ پلیڈ کو ثالث مانا تھا۔ مرزائیوں کو شکست فاش ہوئی اور مولانا صاحب سہ صد روپیہ جیب میں ڈال بصد شانِ فاتحانہ امرتسر تشریف لے آئے۔ (۶)

اس شکست پر شکست کھانے کے بعد بھی مرزائی صاحبان ہیں کہ اڑے بیٹھے ہیں۔ ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ ایک دن آنے والا ہے جب ان کی بد اعمالیوں کا پرچہ ان کے ہاتھ میں دے کر کہا جائے گا اِقْرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفَسِکَ الْیوم عَلَیْکَ حسیبا۔

-----------

(۲) حسن بن صباح ص۱۰مؤلفہ مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی و خطبہ جمعہ مرزا محمود احمد فرمودہ ۲؍ جولائی ۱۲۹۰مندرجہ الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۰ء بحوالہ خطبات محمود ص۴۷۶، ج۶

(۳) الھامات مرزا ص۱۲۳بلکہ حضرت امرتسری رحمہ اللہ تعالیٰ اسی وقت جب مرزا جی کا اشتہار اپنے اخبار، ’’اہل حدیث‘‘ میں شائع کیا تو مذکورہ مثال حس بن صباح کا تذکرہ کیا تھا، جس کا جواب قادیانی سے نہ بن پڑھا، اہل حدیث جلد ۴نمبر ۲۵مورخہ ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء ص ۵۔ ابو صہیب

(۴) الاستفتاء ص۸و روحانی ص۱۱۶، ج۱۲

(۵) تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲

(۶) تفصیل کے لیے حضرت امرتسری رحمہ اللہ کی کتاب ’’ فاتح قادیان‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عذر :

یہ اشتہار مرزا صاحب کا محض دعا نہیں چیلنج (۱) مباہلہ یا مباہلہ ہے۔ (۷)

۱۔ مرزا صاحب کو اپنی طرف سے چیلنج مباہلہ کرنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ ’’ ہم موت کے مباہلہ میں اپنی طرف سے چیلنج نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت کا معاہدہ ایسے چیلنج سے ہمیں مانع ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۴و روحانی ص۱۲۲، ج۱۹)

الجواب:

یہ اشتہار نہ مباہلہ ہے نہ چیلنج مباہلہ۔ اس پر پہلے اندرونی شہادتیں ملاحظہ ہیں:

مرزا صاحب مباہلہ کی بنیاد آیت:

قل تعالوا اندع ابناء نا او ابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبھل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔(۸) پر بتاتے ہیں۔(۹)

اور مباہلہ کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ:

’’ مباہلہ کے معنی لغتِ عرب اور شرعی اصطلاح کی رُو سے یہ ہیں۔ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لیے عذاب اور خدا کی لعنت چاہیں۔‘‘ (۱۰)

اندریں صورت اشتہار مرزا میں چونکہ مباہلہ کی طرح جمع کے صیغے ’’ فَنَبْتَھِلْ فَنَحْعَلْ‘‘ وغیرہ نہیں بلکہ تمام فقرات بصیغہ منفرد ہیں ۔ میں نے دکھ اٹھایا، مجھے گالیوں سے یاد کرتے ہیں۔ میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے، میں دعا کرتا ہوں، میں ملتجی ہوں ’’ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھا لے‘‘ وغیرہ پس اس کو وہ مباہلہ کہنا جس کی بنیاد قرآن پر رکھی ہے۔ اپنی جہالت و سفاہت کا مظاہرہ کرنا ہے۔

دعا عام ہے اور مباہلہ خاص دعاء کا نام ہے جب تک کسی دعا کے اندر اسے مباہلہ قرار نہ دیا جائے۔ اسے مباہلہ سمجھنایا قرار دینا سراسر کور چشمی، تعصب اور مجادلہ و مکابرہ کے خبیث دیوتا کی پرستش ہے۔ اس سارے اشتہار میں ایک لفظ بھی مباہلہ کا نہیں ہے۔ مرزا صاحب نے صاف لکھا ہے کہ ’’محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہتا ہوں۔‘‘

مباہلہ بھی ایک آخری فیصلہ ہے جو ہر قسم کی اتمامِ حجت تقریراً یا تحریراً وغیرہ کے بعد ہوتا ہے۔ اس میں بعد انعقاد کوئی شرط نہیں ہوتی جیسا کہ آیت کریمہ (جس پر مباہلہ کی بنیا درکھی جاتی ہے) میں مباہلہ واقع ہو جانے کے بعد کوئی گنجائش توبہ وغیرہ کی نہیں رکھی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کسی شرط کے صاف فرما دیا تھا کہ اگر یہ بخران کے لوگ مباہلہ کرلیتے تو تباہ و برباد اور ہلاک و فنا کئے جاتے۔

بخلاف اس کے اس اشتہار میں صاف شرط توبہ موجود ہے۔ وہ بھی دونوں فریقوں کے لیے نہیں بلکہ صرف مولوی ثناء اللہ کے متعلق:

’’ اے خدا میں تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر بجز اس صورت کے وہ کھلے طور پر میرے روُ بُرو توبہ کرے۔‘‘

پس اس کو مباہلہ نہیں کہا جاسکتا۔ بفرضِ محال مباہلہ میں شرطِ توبہ بھی ہو، تو بھی وہ دونوں فریقوں کے متعلق ہونی چاہیے نہ کہ صرف ایک فریق کے متعلق اس اشتہار میں بطور جملہ خبریہ بار بار لکھا گیا ہے کہ:

۱۔ ’’ اگر میں کذاب ہوں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔‘‘

۲۔ ’’ کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی۔‘‘

۳۔ ’’ وہ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘

۴۔ ’’ اگر میں مسیح موعود ہوں تو آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔‘‘

۵۔ ’’ اگر طاعون، ہیضہ وغیرہ آپ پر میری زندگی ہی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘

پس یہ ایک دعا تھی جس کے متعلق دعا کرتے وقت بخیال مرزا ’’ وحی والہام کی بنا پر نہیں تھی‘‘ مگر دوسری جگہ انہوں نے خود تصریح کردی ہے کہ ’’ یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ (۱۱)

اندریں صورت یہ دعا پیشگوئی تھی جیسا کہ مذکورہ بالا جملہ ہائے خبر یہ اس پر قطعی دلیل ہیں لہٰذا اس کو مباہلہ کہنا خلافِ دیانت ہے (خود میاں محمود نے بھی اسے پیشگوئی لکھا جیسا کہ ان کا قول آگے نقل ہوگا)(۱) اس اشتہار کے شروع میں آیت قرآن قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہٗ لَحَقٌّ(۱۲)مذکور ہے اور آخر میں یہ فقرات موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں کہ:

۱۔ مرزا کا یہ بھی الہام ہے کہ جب میں قسم کھا کر کوئی بات کہہ دوں وہ ضرور پوری ہوگی لَوْ اَقْسَمْ عَلَی اللّٰہِ لَا بَرَہٗ۔ (۱۳)

’’ بالآخر مولوی ثناء اللہ صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پر چہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

یہ الفاظ صاف دلیل ہیں کہ اب تیر کمان سے نکل چکا، جو ہونا تھا ہوچکا اس وقت یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ اب تمہارے کرتے دھرتے کچھ نہیں بنے گی۔

مرزا صاحب نے سارے اشتہار میں ایک لفظ مباہلہ کا نہیں لکھا بلکہ اسے محض دعا قرار دیا اور ساتھ الہام سنا دیا کہ میری دعا قبول ہوگئی۔ جیسا کہ یہ الہام ہم آئندہ درج کریں گے اور اس کی بنیاد خدا کی طرف سے بتائی۔ پھر اس میں بطور پیشگوئی بہت سے فقرات لکھے۔ اب اسے مباہلہ کہنا اپنی باطل پرستی کا ثبوت دینا ہے۔

--------------

(۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۸۲۸

(۸) پ ۳اٰل عمران ص۶۱

(۹) انجام آتھم ص۱۶۲و روحانی ص۱۶۲، ج۱۱

(۱۰) اربعین ص۲۹نمبر ۲حاشیہ و روحانی ص۳۷۷ج۱۷و تفسیر مرزا ص۱۲۲ج۳

(۱۱) اخبار بدرجلہ ۶نمبر ۱۷مورخہ ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ص۷و ملفوظات مرزا ص۲۰۶، ج۵

(۱۲) پ۱۱یونس نمبر ۵۳نوٹ: یہ مرزا جی کا الہام بھی ہے ، تذکرہ ص۶۰۹، اس کا معنٰی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ اشتہار مرزا مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۰۱،ج۱ ۔ ابو صھیب

(۲۳) الحکم جلد۱۰نمبر ۴۱مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۶ء ص۱و بدر جلد ۲نمبر ۴۹مورخہ ۶؍ دسمبر ۱۹۰۶ء ص۳والبشرٰی ص۱۲۲،ج۲وتذکرہ ص۶۸۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بیرونی شہادتیں

پہلی شہادت:
مباہلہ کے لیے جس کی بنیاد مرزا صاحب نے آیتِ قرآن پر رکھی ہے ایک تو جمع کے صیغے ہونے ضروری ہیں۔ جیسا کہ گزر چکا۔ دوم خود مرزا صاحب کو مسلم ہے کہ ایک ایک شخص کا مباہلہ ناجائز ہے۔ مباہلہ کے لیے ایک سے زیادہ انسان ہونے چاہئیں۔ پھر خواہ وہ خود شریک مباہلہ ہوں یا بذریعہ دستخطی تحریر کے کسی کو وکالت نامہ دے کر کھڑا کردیں۔ جیسا کہ لکھا ہے:
’’ ہمارے سید و مولانا نے جب مباہلہ کے لیے نصاریٰ نجران کو دعوت دی تو وہ ایک قوم کے ساتھ بلکہ ان میں دو بشپ (پادری) بھی تھے۔ اس لیے ایک فردِ واحد سے مباہلہ کرنا خدا تعالیٰ کے آسمانی فیصلہ پر ہنسی کرنا ہے۔‘‘ (۱۴)
پس اشتہار آخری فیصلہ کو جو صرف اکیلے مولوی ثناء اللہ صاحب کے حق میں بد دعا موت ہے اور فریقین کی وکالت اور دستخطی تحریر وغیرہ کی شرط سے خالی ہے، مباہلہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ بلکہ اس طرح فردِ واحد سے مباہلہ خود بقولِ مرزا خدا کے ساتھ ٹھٹھا ہے۔
-------------
(۱۴) اشتہار مرزا مورخہ ۵؍ مئی ۱۹۰۶ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۵۴، ج۳و تبلیغ رسالت ص ۱۱۱، ج۱۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری شہادت:
اشتہار آخری فیصلہ مرزا صاحب کی طرف سے ہے جس میں صرف دعا کے ذریعہ مرزا جی نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے یہ مباہلہ اس لیے بھی نہیں کہلا سکتا کہ مرزا صاحب اس سے کئی ماہ پیشتر رسم مباہلہ کو ختم کرچکے تھے جیسا کہ وہ راقم ہیں:
’’ سلسلہ مباہلات جس کے بہت سے نمونے دنیا نے دیکھ لیے ہیں میں کافی مقدار دیکھنے کے بعد رسم مباہلہ کو اپنی طرف سے ختم کرچکا ہو۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ص۶۸)
یہ تحریر جولائی ۱۹۰۶ء کی ہے جیسا کہ اسی صفحہ کی دوسری طرف (ص۶۷پر) ’’آج ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۶ء ‘‘لکھی ہے۔ (۱۶)پھر اسی حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۸۶پر ’’ آج انتیس ستمبر ۶‘‘ مسطور و مرقوم ہے۔ (۱۷)حالانکہ اشتہار آخری فیصلہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کا ہے پس اسے وہی نادان انسان مباہلہ قرار دے گا۔ جو مرزائی لٹریچر سے جاہل ہے اس قطعی فیصلہ کردینے والی دلیل کے جواب میں یکم جنوری ۱۹۳۴ء کے میدان مناظرہ میں لاہور کے اندر مرزائی مناظر نے یہ عذر کیا تھا کہ:
’’ آپ نے جو ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء کے اخبار اہل حدیث میں مرزا صاحب کو چیلنج مباہلہ دیا تھا اور ان کی تکذیب پر قسم کھانے کو آمادگی ظاہر کی تھی یہ اشتہار آخری فیصلہ اس کی منظوری ہے۔‘‘
اس کے جواب میں حضرت مولانا صاحب نے فرمایا تھا کہ میں نے جو ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو ’’چیلنج دیا تھا‘‘ اس کا جواب مرزا صاحب نے اخبار الحکم مؤرخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء اور اخبار بدر ۴؍ اپریل ۷ء میں یہ دیا تھا کہ:
’’ ہم آپ (ثناء اللہ ) سے اس چیلنج کے مطابق مباہلہ اس وقت کریں گے جب ہماری کتاب حقیقۃ الوحی شائع ہو جائے گی۔ وہ کتاب آپ کو بھیج کر معلوم کریں گے کہ آپ نے اس کو پڑھ لیا ہے۔ پھر بعد اس کے مباہلہ کریں گے۔‘‘ (۱۸)
’’اس انکشاف نے قطعی فیصلہ کردیا کہ آخری فیصلہ سے قبل جو سلسلہ ’’مباہلہ‘‘ کا ذکر اخبارات میںجاری تھا وہ حقیقۃ الوحی کے بعد ہوگا اور یہ کتاب ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئی ہے۔ جیسا کہ اس کے سرورق پر مرقوم ہے۔ (۱۹)اور تتمہ حقیقۃ الوحی کے آخری صفحہ پر بھی یہی تاریخ لکھی ہے۔ حالانکہ آخری فیصلہ والا اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کا ہے پس وہ سابقہ ’’مباہلہ‘‘ کے سلسلہ میں کسی طرح داخل نہیں ہوسکتا بلکہ ایک دوسرا رنگ ہے کہ بطور دعا مرزا صاحب نے فیصلہ شائع کرکے مباہلہ سے اپنی جان چھڑائی۔‘‘
چنانچہ جب حقیقۃ الوحی شائع ہوگئی تو مولوی صاحب نے مرزا جی کے نام خط لکھا کہ حقیقۃ الوحی بھیجئے کہ میں اسے پڑھ کر آپ کی تکذیب پر قسم اٹھاؤں جسے آپ مباہلہ کہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر یہ درست تھا کہ آخری فیصلہ ہی وہ مباہلہ ہے تو صاف کہا جاتا کہ مباہلہ تو ہوچکا ہے مگر نہیں ایسا جواب نہیں دیا گیا۔ کیونکہ وہ ’’مباہلہ‘‘ تکذیب پر قسم اٹھانے کے رنگ میں تھا اور یہ تو ایک طرفہ دعا ہے چنانچہ ادھر سے مفتی محمد صادق صاحب نے اخبار بدر ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء میں جواب دیا کہ:
’’ آپ کا کارڈ مرسلہ ۲؍ جون ۱۹۰۷ء حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ۴؍ اپریل ۷ء کے بدر کا حوالہ دے کر جس میں قسم کھانے والا مباہلہ بعد حقیقۃ الوحی موقوف رکھا گیا ہے حقیقۃ الوحی کا ایک نسخہ مانگا۔ اس کے جواب میں آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی طرف حقیقۃ الوحی بھیجنے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جبکہ آپ کو مباہلہ کے واسطے لکھا گیا تھا۔ (اب) مشیئۃ ایزدی نے آپ کو دوسری راہ سے پکڑا اور حضرت حجۃ اللہ کے قلب میں آپ کے واسطے ایک دعا کی تحریک کرکے فیصلہ کا ایک اور طریق اختیار کیا۔ اس واسطے مباہلہ (سابقہ) کے ساتھ جو شروط تھے وہ سب کے سب بوجہ نہ قرار پانے مباہلہ کے منسوخ ہوئے۔ لہٰذا آپ کی طرف کتاب بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘(۲۰)
حضرات! سابقہ تحریرات سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ پہلا سلسلہ قسم جسے مرزائی مباہلہ کہتے تھے۔ حقیقۃ الوحی کے بعد ہونا موجود تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آخری فیصلہ والا اشتہار کسی صورت میں سابقہ کڑی کا چھلہ نہیں رہا اس سابقہ مباہلہ کا نتیجہ سو آپ کے سامنے ہے کہ مرزا صاحب اس کو منسوخ قرار دے گئے ۔ آہ:
کیونکر مجھے باور ہو کہ ایفا ہی کرو گے
کیا وعدہ تمہیں کرکے مکرنا نہیں آتا؟

اس تحریر سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آخری فیصلہ والا اشتہار مباہلہ نہیں بلکہ دعا ہے جس کے بعد کسی اور مباہلہ کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ تحریریں اگرچہ اپنے اندر وضاحت رکھتی ہیں جن سے مرزا صاحب کی مفتریانہ حالت عریاں ہوچکی ہے۔ تاہم جن لوگوں کا مقصدِ حیات ہی کسی کے اشارے پر اسلام میں پراگندگی و انتشار پیدا کرکے اسلامی قوت کو توڑنا ہے، ان کے لیے سو بہانے ہیں۔ چنانچہ اس جگہ بھی کہا کرتے ہیں کہ یہ خط مفتی محمد صادق کی اپنی رائے ہے، مرزا صاحب کی نہیں حالانکہ سوائے کسی ماؤف الدماغ انسان کے ہر آدمی فوراً جان سکتا ہے کہ مولانا ثناء اللہ کا خط مرزا صاحب کے نام تھا اور مفتی صاحب خود اس کا خدمتِ مرزا میں پہنچ جانا مانتے اور اس کے جواب میں مذکورہ بالا تحریر لکھتے ہیں جو یقینا مرزا صاحب کے حکم سے تھی۔ کسی امتی کو ہرگز یہ حق نہیں کہ نبی کی زندگی میں اس کے خط کا از خود جواب دیدے۔ وہ بھی ایسے مضمون کا کہ نبی نے جو سلسلۂ مباہلہ شروع کر رکھا تھا اور اس کو وعدہ دے چکا تھا کہ فلاں وقت پورا کروں گا۔ اس خط میں اس وعدے کو منسوخ کردے۔ یہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس قسم کی کھینچا تان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مرزائی جماعت در حقیقت مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک دہریہ طبع فرقہ ہے جو دوسروں کے آلۂ کار بن کر اسلامی اتحاد قوت کو توڑنے میں ساعی ہے۔ آج اگر مفتی محمد صادق یہ کہہ دے کہ یہ خط میں نے از خود لکھا تھا تو خدا کی قسم وہ مفتری ہے۔
الغرض اس بیرونی شہادت سے بھی ثابت ہے کہ یہ اشتہار مباہلہ نہیں۔
--------------
(۱۵) حقیقت الوحی ص۶۸و روحانی ص۷۱، ج۲۲
(۱۶) ایضًا ص۶۷و روحانی ص۷۰ج ۲۲
(۱۷) ایضًا ص۳۸۶و روحانی ص۴۰۰، ج۲۲
(۱۸) ملاحظہ ہو تحقیقی مقالہ ص۴۰مؤلفہ قاضی محمد نذیر مرزائی لائلپوری طبعہ ربوہ ۱۹۷۳ء
(۱۹) تتمہ حقیقت الوحی ص۱۷۰و روحانی ص۶۱۰، ج۲۲
(۲۰) اخبار، بدر جلد ۶نمبر ۲۴مورخہ ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء ص۲کالم ۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری شہادت:
اشتہار آخری فیصلہ ۱۵؍ اپریل ۷ء کو شائع ہوا جو یقینا اس سے پہلے کا لکھا ہوا ہے ۱۴کا سمجھو تو ۱۱،۱۲،۱۳وغیرہ کا سمجھو تو بہرحال پہلے کا ہے اور ساتھ اس کے اسی دعا کے متعلق مرزا جی نے ۱۴؍ اپریل کو یہ کہا ہوا ہے کہ:
’’یہ زمانہ کے عجائبات ہیں، رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک ایک الہام ہوتا ہے پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔ کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ ثناء اللہ کے متعلق جو لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوتی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ (میں نے دعا قبول کرلی ہے) صوفیا کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہی ہے باقی سب اس کی شاخیں ہیں۔‘‘ (۲۱)
اس تحریر سے صاف عیاں ہے کہ بقول مرزا صاحب خدا ان کی یہ دعا قبول کرچکا تھا۔ پس یہ مباہلہ نہیں ہوسکتا۔ دعا ہے جس کا قبول ہونا مصدقہ مرزا ہے۔
-----------------------
(۲۱) بدر جلد ۶مورخہ ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء و ملفوظات مرزا ص۲۰۶ج۵طبعہ جدید و ص۲۶۸، ج۹طبعہ ربوہ ۱۹۶۶ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھی شہادت:
ایک اعتراض کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرتِ اقدس کا الہام (مولوی ثناء اللہ کے متعلق )یہ تھا کہ تیری دعا سنی گئی۔ تو پھر آپ پہلے کیوں فوت ہوئے۔ سو اس کا جواب میں اوپر دے آیا ہوں کہ وعید کی پیشگوئیاں اگر ٹل جاتی ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ اصلاح کی صورت کچھ اور پیدا ہو جاتی ہے۔(۲۲) (قول میاں محمود احمد صاحب پسر مرزا خلیفہ قادیان)
اس عبارت سے بھی عیاں ہے کہ آخری فیصلہ دعا تھی جو قبول ہوگئی۔ لہٰذا بوجہ قبولیت کے پیشگوئی بن گئی۔ مباہلہ نہیں تھا۔ اسی طرح اسی رسالہ میں اس دعا کو مباہلہ قرار دینے والے کو مفتری قرار دیا ہے۔ (۲۳) اسی طرح اخبار بدر ۹۔ مئی ۱۹۰۷ء ص۵پر اس کو بحال قرار دے کر توبہ کی شرط کو دہرایا ہے۔ (۲۴) اسی طرح جب مرزا صاحب کا لڑکا ستمبر ۷کو مر گیا۔ (۲۵) اور مولانا ثناء اللہ صاحب نے اخبار ’’عام‘‘ لاہور میں لکھا کہ یہ اس دعا (یکطرفہ) مباہلہ کا اثر ہے جو مرزا جی نے میرے حق میں کی ہے تو مرزا جی نے اس دعا کو بحال رکھتے ہوئے اور ایک طرف مباہلہ تسلیم کرتے ہوئے جواب دیا کہ مباہلوں میں فریقین کی اولاد شریک نہیں۔ وہی عذاب اٹھائے گا جس نے مباہلہ میں براہِ راست مقابلہ کیا ہے اور صادق کاذب ٹھہرایا ہے۔ (۲۶) ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء بجواب مضمون نگار اخبارِ عام۔ اس جگہ گو مرزا صاحب نے کسی کا نام نہیں لیا۔ مگر چونکہ وہ مضمون مولانا ثناء اللہ کا ہی تھا اس لیے ثابت ہے کہ مرزا جی نے اس ایک طرفہ دعا کو بحال رکھا ہے۔
اسی طرح مولوی نور دین ، محمد احسن امروہی، (۲۷) مولوی محمد علی لاہوری (۲۸) نے اس دعا کو یکطرفہ فیصلہ اور غیر از مباہلہ تسلیم کیا ہے ۔
(تفصیل کے لیے اخبار اہل حدیث ۱۲؍ جنوری ۳۴روئیداد مناظر لاہور)
نیز رسالہ فیصلہ مرزا و رسالہ ’’ فاتح قادیان‘‘ مصنفہ مولانا ثناء اللہ صاحب دیکھیں جس میں اس دعا کی جملہ تفصیلات مندرج ہیں۔
-------------------------------
(۲۲) تشحیذ الاذہان جلد ۳نمبر ۶،۷بابت جون جولائی ۱۹۰۸ء ص۲۸۳
(۲۳) ایضًا ص۲۸۴، ج۳اس دعا کو جو کہ مرزا نے شائع کی تھی مباہلہ قرار دینا افترا نہیں تو اور کیا ہے انتھی بلفظہٖ، ابو صہیب
(۲۴) اخبار، بدر جلد ۶نمبر ۱۹مورخہ ۹مئی ۱۹۰۷ء ص۵کالم نمبر۲سطر ۱۷و ۱۸ملفوظات مرزا ص۲۱۰، ج۵طبعہ جدید و ص۲۷۳، ج۹طبعہ ۱۹۶۶
(۲۵) تاریخ احمدیت ص۵۰۷، ج۳و مجدد اعظم ص۱۱۷۲، ج۲
(۲۶) اشتہار مرزا مورخہ ، ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۸۶، ج۳
(۲۷) محمد احسن مرزائی امروہی لکھتا ہے کہ اب ہم بعض ان شبہات کے رد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کانے دجال نے اعلان الحق اور ابو الوفاء نے اپنے ایک اشتہار میں شائع کیے ہیں ہم اولاً اشتہار کا جواب دینا بہت ضروری سمجھتے ہیں، سلمنا (یہ ہم نے مانا) کہ حضرت اقدس نے محض دعا کے طور پر چاہا تھا لیکن اس خط میں صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ دعا کسی الھام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں ہے۔ اس دعا کی وحی نہ ہونے کا ابو الوفا صاحب کو بھی اقرار ہے۔ آگے رہی صرف دعا بغیر وحی و الہام کے حضرت اقدس کا یہ دعا کرنا آپ کی صداقت کی بڑی پکی دلیل ہے اگر آپ کو منجانب (اللہ) ہونے کا قطعی طور پر یقین نہ ہوتا تو ایسے الفاظ میں دعا کیوں کرتے جو اس خط میں مذکور ہے اور ایسی دعائیں تو حضرت سید المرسلین خاتم النبیین کی قبول نہیں ہوئیں ہیں۔ ریویو جلد ۷نمبر ۶،۷بابت جون و جولائی ۱۹۰۸ء ص۲۳۸۔ ابو صہیب
(۲۸) مولوی محمد علی لکھتا ہے کہ : ثناء اللہ اور عبدالحکیم ان دونوں کا کچھ الگ ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ان دونوں کا ہلاک ہونا ضروری تھا یاد رکھنا چاہیے کہ ایک مثال سے صدق اور کذب نہیں پرکھا جاتا بلکہ ہمیشہ کثرت کو دیکھنا چاہیے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلاف مباہلے کیے یا بد دعا کی۔ ان میں سے کتنے اب نظر آتے ہیں جہاںبیسیوں مثالیں ایسی موجود ہیں کہ ایک دو مثالیں بچ رہنے کی النادر کا لمعدوم کے حکم میں سمجھنی چاہیں کیونکہ اعتبار ہمیشہ کثرت کا ہوتا ہے، ایضاً ص۲۹۵اور ص ۲۹۹پر اسے تین چار بار محمد علی مرزائی نے دعا لکھا ہے، ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی اعتراض:

مولانا صاحب نے خود اس دعا کو مباہلہ لکھا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ مرزا صاحب بھی اس کو مباہلہ جانتے تھے۔

الجواب:

مولانا صاحب نے شروع شروع میں اسے دعا ہی لکھا ہے جیسا کہ اخبار اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۷ء میں لکھا ہے۔ اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیںلی۔ (۳۰)

ایسا ہی مرقع قادیان اگست ۷ء میں اس اشتہار کو نقل کرکے لکھا ہے:

’’ اب دیکھئے اس اشتہار میں بھی دعا ہی سے کام لیا ہے۔‘‘ (۳۱)

ہاں چونکہ مرزا صاحب اس طرح کی یکطرفہ دعاؤں کا نام بھی مباہلہ رکھتے۔ تھے جیسا کہ دیباچہ چشمۂ معرفت (ص۱ )پر لکھتے ہیں کہ ’’ سعد اللہ لدھیانوی نے مجھ سے مباہلہ کیا تھا اور میری موت کی خبر دی تھی۔ آخر میری زندگی میں طاعون سے ہلاک ہوگیا۔ (۳۲)

حالانکہ مرزا جی نے بطریق مباہلہ یا بالمقابل مولوی سعد اللہ سے کبھی مباہلہ نہیں کیا مگر اس جگہ ان کی یکطرفہ بد دعا کو مباہلہ نام رکھتے ہیں۔ پھر اس ’’کوڑھ پر کھاج‘‘ یہ کہ یہ بھی جھوٹ ہے انہوں نے ہرگز ہرگز یکطرفہ دعا۔ مرزا کی موت کی بھی کوئی نہیں کی۔

ایسا ہی اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی ص۵۴پر حافظ مولوی محمد الدین کی طرف یہ منسوب کرکے کہ:

’’ اس نے اپنی کتاب میں میری نسبت کئی لفظ بطور مباہلہ استعمال کئے تھے اور جھوٹے کے لیے خدا تعالیٰ کے غضب اور لعنت کی درخواست کی تھی پھر مر گیا۔‘‘ (۳۳)

حالانکہ اگر یہ سچ بھی ہو تو چونکہ مباہلہ میں فریقین کی منظوری ضروری ہے اور مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز حافظ محمد الدین کے بالمقابل کوئی بد دعا شائع نہیں کی پھر اس کو مباہلہ قرار دینا افترا تو نہیں کیا ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالمجید دہلوی کی طرف اس قسم کی بد دعا بحق خود منسوب کرکے پھر اس کی قبل از خود موت کو مباہلہ قرار دیا۔ (۳۴) اسی طرح مولوی اسماعیل علی گڑھ و غلام دستگیر قصوری کے متعلق لکھا ہے۔ (۳۵) الغرض مرزا صاحب یکطرفہ دعا کا نام مباہلہ رکھتے تھے۔ اس لیے مولانا ثناء اللہ صاحب نے بھی الزامی رنگ میں اس دعا کو کہیں مباہلہ لکھا ہے۔ چنانچہ مولانا نے خود اسی زمانے میں لکھ دیا تھا جب کہ مرزا صاحب زندہ ہی تھے کہ:

’’ مرزا صاحب کا عام اصول ہے کہ جو دعا بطور مباہلہ کے کی جاوے اس کا اثر ایک سال تک ہوتا ہے چنانچہ ایک اشتہار میں مولوی غلام دستگیر قصوری کو لکھتے ہیں کہ ’’ میعاد اثر مباہلہ کی ایک برس ہے۔‘‘ (۳۶)

پھر اپنی کتاب سرالخلافت میں شیعوں کو مخاطب کرکے للکارتے ہیں کہ آؤ میرے ساتھ مباہلہ کرو۔ پھر اگر میری دعا کا اثر ایک سال تک ظاہر نہ ہو تو تم سچے اور میں جھوٹا (ص۱۷) ناظرین! ان دونوں اقراروں کو ملحوظ رکھ کر خدارا انصاف کیجئے کہ مرزا صاحب کو میرے حق میں بد دعا کئے ہوئے جس کو وہ اور اس کے دام افتادہ مباہلہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں آج کامل ایک سال سے کچھ روز زیادہ گزر چکے ہیں۔ مگر یہ خاکسار بفضلہ تعالیٰ اپنی ذات خاص میں اور اپنے اہل و عیال میں تندرست ہے۔ سالِ کامل گزر چکا اب مرزا کے کاذب، ابد فریب اور مفتری ہونے میں کیا شک رہا۔(۳۷)

پھر (ص۲۰) پر مبارک احمد کی وفات کو پیش کرکے مرزائیوں کو ملزم گردانا گیا ہے اس تحریر سے صاف عیاں ہے کہ مولانا خود تو اس آخری فیصلہ والے اشتہار کو دعا ہی جانتے اور کہتے تھے مگر بطور الزام مرزا کو جو اس طرح کی بد دعاؤں کو بھی مباہلہ کہہ کر سال بھر کی مدت میں مباہلہ کا اثر ضروری اور بصورتِ عدمِ اثر اپنے جھوٹا ہونے پر دلیل ٹھہراتے تھے ماخوذ و گرفتار کیا ہے۔

مرزائی اعتراض:

مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود اس وقت اس دعا کو قبول نہیں کیا۔ اب کیوں پیش کرتے ہیں؟(۳۸)

الجواب:

قبولیت یا عدم قبولیت مباہلوں پر اثر انداز ہوتی ہے حالانکہ یہ مباہلہ نہ تھا۔ پس اس کی نامنظوری سے دعا پر کوئی اثر نہیں۔ مرزا صاحب اس دعا میں اپنے آپ کو مظلوم قرار دے کر خدا سے دعا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مظلوم کی دعا میں ظالم کی قبولیت کو ذرہ بھر دخل نہیں ہوتا۔

مولوی صاحب نے جو اس دعا کرنا منظور کیا تو اس کی وجہ ہم ابتداء میں بتا آئے ہیں کہ دعا چال تھی جسے ہم نے نہ اس وقت مبنی بر صفائی سمجھا تھا اور نہ اب ہمارا ایمان ہے کہ یہ دعا گو بظاہر مرزا جی نے اللہ سے کی تھی مگر وہ تو خود دہریہ تھے خدا سے دعا کے کیا معنے؟ مگر چونکہ خدا ہے اور حق ہے اور وہ سخت دل مجرموں کو بعض اوقات انہی کی چالوں میں لپیٹ کر ذلیل کرتا ہے۔ اس لیے اس نے مرزا کو بقولِ خود ملزم و مجرم اور مفتری ثابت کرنے کے لیے مولانا ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں ہی موت کے گھاٹ اتار کر انہیں وہی ثابت کردیا جو وہ حقیقت میں تھے۔ فلہ الحمد!

پھر اور سنو! اگر مولانا ثناء اللہ کی منظوری اس دعا میں لازمی ہوتی تو بقول مرزا صاحب خدا اسے قبول کیوں کرلیتا پھر مرزا صاحب مولانا کے انکار جو ۲۶؍ اپریل ۷ء کے پرچہ میں کیا گیا ہے کہ بعد ۱۳؍ جون کے اخبار بدر میں بجواب چٹھی ثنائی سابقہ سلسلہ قسم کو منسوخ کرکے آئندہ کے لیے اس دعا کو فیصلہ کن کیوں گردانتے ہیں۔ پھر ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء کے پرچہ بدر میں واضح الفاظ میں مضمون لکھا جاتا ہے کہ آخری فیصلہ مباہلہ نہ تھا، صرف دعا تھی (۳۹) اس پر کیوں نوٹس نہیں لیا گیا؟ مفتی صادق ایڈیٹر بدر نے اور مرزا صاحب کے تمام ان مریدوں نے جو بدر کے خریدار تھے، کیوں اس کی تردید نہ کی کہ مولوی ثناء اللہ تو انکار کرچکا ہے اب دعا خدا نے قبول کرنے کے باوجود مسترد کردی ہے؟

اسی طرح ۵؍ مئی ۷ء کے کے بدر میں بلا کسی نوٹ کے ثناء اللہ کے واسطے توبہ کی شرط کیوں درج کی (۴۰) جبکہ وہ فیصلہ ہی منسوخ و مردود ہوچکا تھا۔ جس میں شرط توبہ مرقوم تھی؟ پھر مبارک احمد کی وفات کے بعد مرزا صاحب نے بجواب اخبارِ عام کیوں نہ لکھ دیا کہ ثناء اللہ کا ’’آخری فیصلہ کی تحریر سے تمسک کرکے مبارک احمد کی وفات پر مجھے ملزم گرداننا غلط ہے۔ کیونکہ آخری فیصلہ بوجہ عدم منظوری ثناء اللہ کے مسترد ہوچکا‘‘ اسی طرح میاں محمود احمد خلیفۂ قادیان کا مرزا صاحب کے مر جانے کے بعد علی مولوی صاحب کے انکار کو آخری فیصلہ کے مردود ہونے کی دلیل نہ سمجھنا اور اسے اندازی پیشگوئی ٹھہرا کر اس کا ٹل جانا لکھنا اور آخری فیصلہ کو مباہلہ قرار دینے والے کو مفتری وغیرہ نام رکھتا، اسی طرح مولوی محمد احسن کا اس کو بعد وفات مرزا بعض دعا بتا کر عذر کرنا کہ نبیوں کی بعض دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں۔ (۴۱)(جون ۸ء ص۳۳۸) وغیرہ وغیرہ تحریرات مرزائیہ، بالاتفاق اس حقیقت کا اظہار کر رہی ہیں کہ ثنائی اقرار یا انکار کو اس میں کوئی دخل نہ تھا اور نہ ہی مرزا اور ان کے ملہم اور اکابرِ مرزائیہ اس انکار کو کوئی اہمیت دیتے تھے۔

-----------

(۲۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۸۲۸
(۳۰) ایضاً ص۸۲۶
(۳۱) مرقع قادیانی اگست ۱۹۰۷، ص۱۶
(۳۲) چشمہ معرفت ص۱و روحانی ص۳، ج۲۳
(۳۳) تتمہ حقیقت الوحی ص۵۴و روحانی ص۴۸۸، ج۲۲
(۳۴) ایضاً ص۱۵۹و روحانی ص۵۹۷
(۳۵) حقیقت الوحی ص۳۳۰و روحانی ص۳۴۳ج ۲۲
(۳۶) اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ رمضان ۱۳۱۴ھ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۹۷ج۲
(۳۷) مرقع قادیانی بایت جون ۱۹۰۸ء ص۱۹
(۳۸) احمدیہ پاکٹ بک س۸۲۷
(۳۹) بدر جلد ۶نمر ۳۴مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء ص۸کالم نمبر۱مضمون غلام محمد ہیڈ ماسٹر آف میانوالی
(۴۰) بدر جلد ۶نمبر ۱۹مورخہ ۹؍ مئی ۱۹۰۷ص۵کالم نمبر۲و ملفوظات مرزا ص۲۱۰ج۵
(۴۱) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۲۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لطیفہ :
مرزائی صاحبان مولانا موصوف کو ’’ابو جہل‘‘ جانتے اور کہتے ہیں۔ (۴۲)مگر یہاں آکر عجیب پلٹا کھاتے ہیں۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ ابوجہل کی تجویز اور تحریر تو خدا نے مان لی۔ مگر اپنے ’’نبی‘‘ کے فیصلہ کو جس کی قبولیت کا وعدہ بھی دے چکا تھا ، رد کردیا، چہ عجب!
مرزائیو! جانتے نہیں کہ ’’صادق‘‘ کے مقابلہ پر پہلے مرنے والا ہی ’’ابوجہل‘‘ تھا۔ یقین نہ ہو تو صحیح بخاری شریف کھول کر دیکھ لو کہ ابوجہل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو بوجہ مقابلہ جہنم رسید ہوگیا۔ ’’جنگ بدر میں قتل ہوا۔‘‘ (۴۳)اور صادق سلامت بکرامت رہا۔
مرزائی اعتراض:
اخبار اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۷ء میں نائب ایڈیٹر نے لکھا تھا کہ حسبِ تعلیم قرآن و جھوٹے دغا باز مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمر دی جاتی ہے۔ (۴۴)
الجواب:
یہ تحریر مولانا ثناء اللہ صاحب کی نہیں ہے جن دنوں یہ مضمون شائع ہوا ہے حضرت مولانا صاحب ان دنوں سفر میں تھے۔ اپنا مضمون ان کا لکھا ہوا دفتر میں موجود تھا۔ جو ان کی عدم موجودگی میں اخبار میں ان کی حسبِ ہدایت شائع ہوا مگر نائب ایڈیٹر نے اپنی طرف سے حاشیہ پر یہ نوٹ لکھ دیا بہرحال اس کو عام قاعدہ قرار دے کر کہنا کہ دغا باز مفتری لمبی عمر پاتا ہے۔ بعض دفعہ غیر سعید اخوان الشیاطین پہلے مر جاتے ہیں۔ اور بعض دفعہ خدا کے آخری درجہ کے محبوب بہترین اولیاء و انبیاء جلد وفات پا جاتے ہیں۔ یہ تو ہوا نائب ایڈیٹر اہل حدیث کی غلطی کا اظہار جو ایک معمولی انسانی غیر معصوم تھا۔ اب سنو! اپنے نبی کا فیصلہ جو بقولِ خود ’’ ہر وقت فرشتوں کی گود میں پرورش پاتا تھا۔‘‘ (۴۵)اور بقولِ خود جس کی ’’ ہر بات، ہر قول، ہر فعل، ہر حرکت، ہر سکوت بحکم خدا تھا۔‘‘ (۴۶)(ص ۷۰ریویو ۱۹۰۳ء) اور ’’ روح القدس کی قدسیت ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ بلا فصل اس کے قویٰ میں کام کرتی رہتی تھی۔‘‘ (۴۷)

یہ صاحب اسی اشتہار ’’ آخری فیصلہ‘‘ میں مولوی ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ کو لکھتے ہیں:

’’ اگر میں ایسا ہی مفتری اور کذاب ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی لمبی عمر نہیں ہوتی۔‘‘

احمدی دوستو! کیا کہتے ہو؟ سنو یہ تمہارے نبی کا فیصلہ ہے۔ مختصر یہ کہ مرزا صاحب نے آخری فیصلہ میں کاذب کی موت صادق کے سامنے واقع ہونا لکھی تھی اور ہیضہ، طاعون وغیرہ مہلک امراض سے لکھی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا ثناء اللہ صاحب جو خدا کی نظر میں صادق تھے بفضلہ تعالیٰ آج تک زندہ ہیں (۴۸)اور مرزا صاحب مؤرخہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریباً ساڑھے دس بجے دن کے بہ مرض ہیضہ اس طرح کہ ’’ ایک بڑا دست آیا اور نبض بالکل بند ہوگئی۔‘‘ (۴۹)

واضح رہے کہ مرزا صاحب کے خسر نواب میر ناصر کا بیان ہے کہ وفات سے ایک یوم قبل جب میں مرزا صاحب سے ملنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب مجھ کو وبائی ہیضہ ہوگیا ہے، (۵۰)اپنے افتراؤں کی سزا پانے کو حاکم حقیقی کے دربار میں بلائے گئے۔ کسی زندہ دل شاعر نے اسی واقعہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ:

مرض ہیضہ تھیں ہو لاچار
مرزا مویا منگل وار

اسی طرح ایک اور صاحب نے ذرا وضاحت سے لکھا ہے کہ:

گفت مرزا مر ثناء اللہ را
میرد اول ہر کہ ملعون خدا است
خود ردانہ شد بسوئے نیستی
بود خود ملعون و لیکن گفت راست
ضمیمہ آخری فیصلہ

از قلم باطل شکن حضرت مولانا مولوی ابو الوفاء ثناء اللہ صاحب

فاتح قادیان امرتسری
قادیانی نبی کی تحریر فیصلہ کن ہے! یا میری حلف؟
ناظرین کی آگاہی کے لیے میں قادیانیوں کی ہوشیاری یا بالفاظِ دیگر دفع الوقتی کی مثال سناتا ہوں۔
قارئین کرام! اسلام انسان کو انسانیت کے اعلیٰ معراج پر پہنچانے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اس لیے اس کی تعلیم ہے کہ سچ کو ماننے اور جھوٹ کو چھوڑنے میں ذرا دیر نہ کرو۔ ارشاد ہے:
لَا یَجر مَنَّکُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لاَّ تَعْدِلوْا وَاِذَا قَلَتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْکَانَ ذَا قُرْبٰی۔
(۱) کسی قوم یا شخص کی عداوت سے عدل نہ چھوڑا کرو۔
(۲) جب بولو سچ بولا کرو چاہے کوئی تمہارا قریبی ہی ہو۔
یہ تعلیم ایسی صاف اور سیدھی ہے کہ انسان کو باکمال بنا دیتی ہے اس کے ساتھ ہی جب یہ ڈانٹ ڈپٹ رکھی جائے کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ تمہارے مخفی راز بھی کھل کر سامنے آجائیں گے اس دنیا میں جس کی حمایت یا ضد میں تم بے جا تعصب کرتے ہو اس وقت کوئی تمہارا دوست نہ ہوگا۔
یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ فَمَا لَہٗ مِنْ قُوَّۃٍ وَّلَا نَاصِرٍ۔
باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اہل مذاہب کی روش اپنے مذہب کی تعلیم کے خلاف ہے۔ مثال کے لیے جماعتِ احمدیہ (قادیانیہ) کو پیش کرتے ہیں۔ ناظرین! ذرا غور سے ہماری معروضات کو دیکھیں اور سنیں۔ جناب مرزا صاحب قادیانی (متوفی) نے میرے مواخذات سے تنگ آکر ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو آخری فیصلہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد آج کل حیدر آباد دکن سے ایک اعلان ’’ آخری فیصلہ‘‘ کا نکلا ہے۔ ناظرین کی اطلاع کے لیے ہم دونوں مضامین بالمقابل رکھتے ہیں۔
(اشتہار آخری فیصلہ چونکہ بہ تمام و کمال پہلے ص۶۱۷پر درج ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم نے اس جگہ درج نہیں کیا۔ ناظرین پہلے اس کو ایک دفعہ مکرر پڑھ کر پھر عبداللہ الٰہ دین صاحب کا یہ مضمون پڑھیں۔ ناقل)

مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ۱۰؍ فروری ۱۹۲۴ء کو ایک خاص مجلس میں جس میں کہ ہمارے شہر کے ایک معزز و محترم باوقار انسان تھے یعنی عالی جناب مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر بالقابہ بھی رونق افروز تھے۔ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میرے حیدر آباد آنے کا اصل مقصد سیٹھ عبداللہ الہ دین ہیں تاکہ ان کو ہدایت ہو جائے اس لیے میں اپنے ذاتی اطمینان کے لیے بذات خود یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس حلف کے مطابق جو میں اس اشتہار میں درج کرتا ہوں قسم کھا جائیں۔ مگر قبل اس کے ضروری ہوگا کہ ایک اشتہار کے ذریعہ حیدر آباد و سکندر آباد میں شائع کردیں کہ میں اس حلف کو جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور اپنے عقائد کے درمیان حق و باطل کے تصفیہ کا فیصلہ کن معیار قرار دیتا ہوں اور یہ کہ اس حلف کے بعد سال کی میعاد کے اخیر دن تک میں اپنے اس اقرار معیار فیصلہ کن کے مخالف کوئی تحریر یا تقریر نہ شائع کروں گا۔ میری طرف سے یہ اقرار ہے کہ اگر اس حلف کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب ایک سال تک صحیح زندہ سلامت رہے یا ان پر کوئی عبرت ناک و غضبناک عذاب نہ آیا تو میں اہل حدیث ہو جاؤں گا۔ یا مولوی ثناء اللہ صاحب کے حسبِ خواہش مبلغ دس ہزار روپیہ مولوی صاحب موصوف کو بطور انعام کے ادا کروں گا۔

-----------

(۴۲) تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲

(۴۳) صحیح بخاری ص۵۶۵، ج۲کتاب المغازی باب قتل ابی جھل وسیرت خاتم النبیین ص۱۴۰، ج۲مؤلفہ مرزا بشیر احمد و احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۰، طبعہ ۱۹۳۲ء

(۴۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۸۲۶

(۴۵) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۵، ج۳

(۴۶) ریو ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۰

(۴۷) حاشیہ آئینہ کمالات اسلام ص۹۳و روحانی ص۹۳، ج۵

(۴۸) آپ کی وفات ۱۵؍ مارچ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آکر سرگودھا میں واقع ہوئی، سیرت ثنائی ص۴۷۹انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ابو صہیب

(۴۹) بدر جلد ۷نمبر ۲۲مورخہ ۲؍ جون ۱۹۰۸ء ص۴کالم نمبر۱و سیرت المھدی ص۹تا ۱۱، ج۱طبعہ دوم

(۵۰) حیات نواب میر ناصر ص۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حلف کے الفاظ یہ ہیں:

جو مولوی ثناء اللہ صاحب جلسۂ عام میں تین مرتبہ دہرائیں گے اور ہر دفعہ خود بھی اور حاضرین بھی آمین کہیں گے۔ ’’ میں ثناء اللہ ایڈیٹر اہل حدیث خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اس بات پر حلف کرتا ہوں کہ میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام دعاوی و دلائل کو بغور دیکھا اور سنا۔ اور سمجھا اور اکثر تصانیف میں نے ان کی مطالعہ کیں۔ اور عبداللہ الہ دین کا چیلنج انعامی دس ہزار کا بھی بغور پڑھا۔ مگر میں نہایت و ثوق اور کامل ایمان اور یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ مرزا صاحب کے تمام دعاوی و الہامات جو چودھویں صدی کے مجدد و امامِ وقت مسیح موعود و مہدی موعود و امتی نبی ہونے کے متعلق ہیں وہ سراسر جھوٹ و افترا اور دھوکہ و فریب اور غلط تاویلات کی بنا پر ہیں۔ برخلاف اس کے عیسیٰ علیہ السلام وفات نہیں پائے بلکہ وہ بجسد عنصری زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ہنوز اسی خاکی جسم کے ساتھ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور وہی مسیح موعود ہیں۔ اور مہدی علیہ السلام کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا۔ جب ہوگا تو وہ اپنے منکروں کو تلوار سے قتل کرکے اسلام کو دنیا میں پھیلا دیں گے۔ مرزا صاحب نہ مجددِ وقت ہیں، نہ مہدی ہیں، نہ مسیح موعود ہیں، نہ امتی نبی ہیں۔ بلکہ ان تمام دعاوی کے سبب ان کو مفتری اور کافر اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں۔ اگر میرے یہ عقائد خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹے اور قرآن شریف و صحیح احادیث کے خلاف ہیں۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی در حقیقت اپنے تمام دعاوی میں خدا کے نزدیک سچے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادرِ ذوالجلال خدا جو تمام زمین و آسمان کا واحد مالک ہے اور ہر چیز کے ظاہر و باطن کا تجھے علم ہے۔ پس تمام قدرتیں تجھی کو حاصل ہیں تو ہی قہار اور غالب و منتقم حقیقی ہے۔ اور تو ہی علیم و خبیر و سمیع و بصیر ہے۔ اگر تیرے نزدیک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی و الہامات میں صادق ہیں اور جھوٹے نہیں اور میں ان کے جھٹلانے اور تکذیب کرنے میں ناحق دار ہوں تو مجھ پر ان کی تکذیب اور ناحق مقابلہ کی وجہ سے ایک سال کے اندر موت وارد کر۔ یا کسی ایسے غضب ناک و عبرت ناک عذاب میں مبتلا کر کہ جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو(۱)۔ تاکہ لوگوں پر صاف ظاہر ہو جائے کہ میں ناحق پر تھا اور حق وراستی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ جس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا مجھے ملی ہے۔ آمین، آمین، آمین۔ (خاکسار عبداللہ الٰہ دین۔ الٰہ دین بلڈنگ سکندر آباد ۱۲؍ فروری ۱۹۲۳ء)

۱۔ مثلاً نزلہ کھانسی یا شدید درد سر! (اہلحدیث)

ناظرین کرام! ان دونوں عبارتوں کو (مرزا صاحب کے اشتہار آخری فیصلہ اور عبداللہ الٰہ دین صاحب سکندر آبادی کے اشتہار فیصلہ۔ ناقل) بالمقابل دیکھ کر غور فرمائیں کہ فیصلہ کی جو صورت خود بانی مذہب و مدعی وحی و الہام نے قرار دی ہے ، وہ فیصلہ کن ہوسکتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بانی مذہب صاحب وہی کا فیصلہ سب پر ناطق ہوگا برخلاف امتی کے جس کا فیصلہ دوسرے شخص بلکہ اپنی اولاد پر بھی نافذ نہیں ہوتا۔ پھر کیوں نہ بانی مذہب کی پیش کردہ صورتِ فیصلہ پر غور کیا جائے اور کیوں نہ اس کی تحقیق کی جائے یا سابقہ تحقیق جو شہر لدھیانہ میں ہوچکی ہے کافی سمجھی جائے۔ بہرحال جدید صورت کی ضرورت نہیں۔

باوجود اس کے ہم بتاتے ہیں کہ یہ صورت فیصلہ بھی ہم نے منظور کر کے بارہا کامیابی حاصل کی ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے ’’ اہل حدیث‘‘ ۲۶؍ جنوری ۳۴میں ایک بسیط مضمون اس کے متعلق لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ منکر نبوت (کافر) پر ازروئے قرآن و حدیث حلف نہیں رکھی گئی۔ نبوت دیجئے تو حلف لیجئے۔

۲۔ باوجود اس کے ہم بارہا حلف بھی اٹھا چکے ہیں:

یہاں تک کہ قادیان کے اسلامی جلسہ میں بھی ایک دفعہ حلف اٹھائی جو خود قادیان کے اخبار ’’الفضل‘‘ میں بایں الفاظ درج ہوئی تھی:

’’میں (ثناء اللہ) قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے ایمان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور مرزا صاحب جھوٹے ہیں۔‘‘ (الفضل ۴؍ اپریل ۱۹۲۱ء)

حضرات! غور کیجئے کسی سچے نبی کا انکار خدا کی نافرمانی ہے۔ جس کا ارتکاب کرنے والا یقینا خدا کا مجرم ہے۔ وہ قسم کھائے یا نہ کھائے اس کا محض انکار ہی اس کو سزا دینے کے لیے کافی ہے۔ خاص کر جب وہ اپنے انکار پر حلف بھی اٹھائے تو کیوں سزا یاب نہ ہو۔ قابلِ غور ہے۔ اس کے علاوہ پھر میں نے بذریعہ اشتہار مجریہ ۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء اعلان کیا۔ جس کی سرخی یہ تھی:

’’ خدا کی قسم میں مرزا قادیانی کو الہامی دعویٰ میں سچا نہیں جاننا۔‘‘

اس مضمون کو بڑی تفصیل سے پہلے اخبار ’’ اہل حدیث‘‘ میں لکھا اشتہاری صورت میں بھی شائع کیا۔ ۱۹۲۳ء میں جب میں حیدر آباد دکن گیا تو ان دنوں انہی مشتہر صاحب (حاجی عبداللہ الٰہ دین) نے دس ہزار روپیہ انعام کا اشتہار دیا جس کے جواب میں میں نے اشتہار شائع کردیا کہ:

’’ میں روپیہ آپ کا نہیں لیتا ہوں یہ چاہتا ہوں کہ چونکہ آپ نے بحکم خلیفہ صاحب قادیان ایسا لکھا ہے اس لیے خلیفہ محمود احمد سے یہ اعلان کرا دیں کہ بعد حلف داری ثناء اللہ اگر ایک سال تک زندہ رہا تو میں (محمود احمد) مرزا صاحب متوفی کو جھوٹا جانوں گا۔‘‘
 
Top