• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس مطالبہ کا جواب (باوجودیکہ اس وقت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین نے اسے منظور کرکے اس کی تکمیل کا معاہدہ تحریری بھی کیا جیسا کہ یہ تمام کاروائی سکندر آبادی اشتہار ۱۹۳۴ء میں درج ہے تو بھی بعد کو جب خلیفہ محمود احمد قادیانی نے اسے منظور نہ کیا۔ ناقل) نفی میں ملا اب بھی میرا یہی مطالبہ ہے کیونکہ میرا خطاب دراصل بانی مذہب بڑے مرزا صاحب سے تھا۔ وہ اس وقت موجود نہیں تو ان کے قائم مقام میاں محمود احمد صاحب کو بحیثیت خلیفہ مخاطب کرتا ہوں پس وہ اعلان کردیں کہ:
’’ مولوی ثناء اللہ تکذیب مرزا صاحب پر حلف اٹھائیں تو سال کی مدت معتبر ہوگی۔ اگر سال کے اندر اندر مر جائیں تو وہ جھوٹے سمجھے جاویں گے اور اگر سال تک زندہ رہیں تو دوسرے سال کے پہلے ہی روز میں (محمود احمد) اپنے والد کو دعویٰ مسیحیت میں جھوٹا جانوں گا۔‘‘
ناظرین کرام! کیسی سادی شرط ہے۔ بھلا یہ کوئی انصاف ہے کہ میں ایک مدت پوری کرکے ایک احمدی کا تقاضا پورا کروں۔ پھر دوسرے کا پھر تیسرے کا علیٰ ہذا القیاس اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کی خواہشات پوری کرتے کرتے کسی نہ کسی مدت میں تو مروں گا۔ اس لیے آئے دن کے نزاعات ختم کرنے کو ضروری ہے کہ مثل سابق کسی تابع (امتی) سے فیصلہ نہ ہو بلکہ باپ کے قائم مقام میاں محمود احمد خلیفہ قادیان سے معاہدہ ہو کر فیصلہ ہو جائے کیونکہ آپ مدعی کے بیٹے اور قائم مقام خلیفہ ہیں۔
پس میں منتظر ہوں کہ حاجی عبداللہ سکندر آبادی انعامی رقم تو قادیان کے قرضہ ۶۰ (۱) ہزار میں جمع کرا دیں اور میرے ساتھ فیصلہ کرنے کو خلیفہ صاحب کو تکلیف دیں پھر دیکھیں خدا کی تائید کس کو حاصل ہوتی ہے۔
۱۔ آج کل قادیانی اخبار میں بار بار شائع ہو رہا ہے کہ سلسلہ مرزائیہ کی ضروریات کے لیے ۶۰ہزار روپیہ درکار ہے جو بعد کو باقساط اور نمبروار ادا کیا جائے گا۔ مولانا صاحب کا اشارہ اسی طرف ہے۔ (۱۲منہ)
نوٹ: گو ہم مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ موت و حیات کا کسی کو علم نہیں تاہم خدا کی تائید پر بھروسہ ہے کہ اگر میاں محمود احمد خلیفہ قادیان نے مذکورہ اعلان کیا تو خدا ہماری اسی طرح مدد کرے گا جس طرح اس نے ان کے باپ کے خلاف ہمیں مدد دی تھی۔ ان شاء اللہ
احمدیہ جماعت کے ممبرو! ہمت ہے تو آؤ اور اپنے خلیفہ کو قبولِ حق پر آمادہ کرو ورنہ یاد رکھو:
ستعلم لیلیٰ ای دین تدانیت
وای غریم فی التقاضی غریمھا

عنقریب لیلیٰ جان لے گی کہ اس نے کون سا دین اختیار کیا ہے اور کونسا قرض خواہ اس کے قرض کا تقاضا کرتا ہے۔ (۵۱)
----------------
(۵۱) اخبار اہل حدیث جلد ۳۱نمبر ۲۳مورخہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۴ء ص۷تا ۱۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بحث توفی​
مرزا صاحب قادیانی کا دعویٰ ہے کہ لفظ توفی حقیقی اور وضعی طور پر صرف موت اور قبض روح کے لیے ہی موضوع ہے ۔ آج ناظرین کے سامنے مرزا صاحب قادیانی کے لغوی اور ادبی جوہر کا ایک دھندلا سا خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے ناظرین کرام مرزا صاحب کی لغوی و ادبی قابلیت کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی نظر کتب لغویہ و ادبیہ پر کہاں تک واقع ہے اور ان کی تحقیق کا دائرہ کہاں تک محدود ہے۔
آج میں لغاتِ معتبرہ، محاورات عربیہ اور تفاسیر متداولہ سے بالکل واضح اور اظہر من الشمس کردینا چاہتا ہوں کہ لفظ توفی کا حقیقی معنی جمیع ائمہ لغت اور مفسرین کے نزدیک ’’ پورا کرنے‘‘ ، ’’پورا دینے‘‘ اور ’’پورا لینے‘‘ کے ہیں۔ اور جو معنی مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں وہ مجازی ہیں نہ کہ حقیقی اور اس پر طرہ یہ کہ خود مرزا صاحب کے موضوعہ اصول کے لحاظ سے بھی معنی حقیقی ثابت نہیں ہوسکتے۔ بلکہ مجازی ہی ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسی بحث کے خاتمہ پر ناظرین خود فیصلہ کرلیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توفی کا حقیقی معنیٰ

کتب لغویہ
لسان العرب و محاضراتھا

(۱) تَوَفَّیْتُ الْمَالَ مِنْہُ وَاسْتَوْ فَیْتُہٗ اِذَا اَخَذْتُہٗ کُلَّہٗ۔
ترجمہ: توفیت (باب تفعل) اور استوفیتہ (باب استفعال) دونوں کے معنی ہیں کہ میں نے اس سے اپنا مال پورا پورا لے لیا۔
(۲) توفاہ منہ واستو فاہ لم یدع منہ شیئا۔
ترجمہ: توفاہ منہ واستو فاہ دونوں کے معنے یہ ہیں کہ اس نے پورا پورا لے لیا۔ اور کچھ بھی اس نے نہیں چھوڑا۔
(۳) توفیت عدد القوم اِذَا اَعَدَّدْتُھُمْ کُلَّھُمْ۔
ترجمہ: میں نے قوم کی پوری پوری گنتی لی۔
ان بنی الادرْ لیسوا من احد
ولا توفاھم قریش فی العدد

ترجمہ: بیشک قبیلہ بنی ادر دکسی میں سے نہیں اور قریش نے ان کی گنتی پوری پوری نہیں کی۔
(۵) وَفٰی بِا الشَّیْ واَوْفٰی وَوَفیّٰ بِمَعْنٰی وَاحِدِ۔
ترجمہ: وفا ثلاثی مجرد اوفی (باب افعال) اور وفی (باب تفعیل) تینوں ہم معنی ہیں۔
(۶) الوفاء ضد الغدر یقال وفی بعھدہ وافی بمعنی۔(۵۲)
ترجمہ: وفا لفظ کا ضد اور مخالف عدر ہے جیسا کہ یہ محاورہ ہے کہ فلاں شخص نے اپنا عہد پورا کیا۔ اور اوفیٰ (باب افعال) اس کا ہم معنی ہے۔

المنجد والمخاطبات العرب

(۱) توفی توفیا۔ اوفی حقہ اخذہ وافیا تامایقال توفیت من فلان مالی علیہ۔
ترجمہ: توفی کے معنی ہیں اپنا پورا پورا حق لے لیا۔ عرب لوگ کہا کرتے ہیں۔ میں نے فلاں شخص سے اپنا پورا پورا حق لے لیا۔
(۲) وفی وفاء اتمہ۔
ترجمہ: وفی وفاء اس وقت کہتے ہیں کہ جب کسی کام کو پورا کیا ہو۔ (۵۳)

اَسَاسُ الْبلاَغۃ وَمُحاورات العرب

(۱) اِسْتَوْفَاہُ وَتَوَفَّاہُ اِسْتَکْمَلَہٗ۔(۵۴)
ترجمہ: اِسْتَوْفَاہُ اور تَوَفَّاہُ کے معنی ہیں کہ اس نے اس سے پورا پورا لے لیا۔

المفردات و محاورات العرب

(۱) (وفیٰ) الوافی الذی بلغ التمام۔ یقال درھم واف وکیل واف واوفیت الکیل والوزن۔
ترجمہ: وافی اُسے کہتے ہیں جو پورے کو پہنچ جائے، اس پر محاورات حسب ذیل ہیں:
درھم واف وکیل واف الخ

(۲) وفی بعدہ یفی وفائً واوفی اذا اتما العھد۔
ترجمہ: یعنے وفا (ثلانی مجرد) اوفیٰ (باب افعال) اس وقت بولتے ہیں جب عہد کو پورا کیا ہو۔

اشتقاق صندہ وھو الغدر۔(۵۵)
ترجمہ: وفی کا ضد غدر ہے۔

مجمع البحار

(۱) وَفِی الْحَدِیْثِ فَمَرَرْتُ بِقَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاھُھُمْ کُلَّمَا قُرِضَتْ وَفَت اَیْ تَمَّتُ وَطَالَتْ۔(۵۶)
ترجمہ: حدیث میں ہے کہ میں دوزخیوں کی ایک قوم پر سے گذرا جن کے ہونٹ کاٹے جاتے تھے جس وقت کاٹے جاتے پھر پورے ہوتے چلے جاتے۔

قول المتنبی

اِذَا غَدَرَتْ حَسْنائُ اَوْقْت بِعَھْدِھَا
وَمِنْ عَھْدِھَا اَنْ لاَّ یَدُوْمَ لَھَا عَھْدا(۵۷)

ترجمہ: جب خوبصورت محبوبہ عہد شکنی کرے تو گویا وہ اپنے عہد کو پورا کررہی ہے۔ کیونکہ دائمی عہد نہ ہونا یہ بھی اس کا عہد ہی ہے۔

---------
(۵۲) لسان العرب ص۳۹۸تا ۴۰۰ج ۱۵
(۵۳) المنجد ص۹۱۱طبعہ بیروت ۱۹۸۶ء
(۵۴) اساس البلاغۃ ص۵۰۵
(۵۵) مفردات القران فی غریب القرآن ص۵۲۸
(۵۶) مجمع البحار الانوار ص۴۵۳، ج۳طبعہ نول کشور
(۵۷) دیوان المتبنی ص۱۰۴، ج۲مع شرح، طبعہ بیروت ۱۹۸۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتب تفاسیر​

تفسیر کبیر

(۱) التوفی اخذ الشئی وافیا۔
ترجمہ: توفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہے، جیسا کہ عرب بولتے ہیں تَوَفَیْتُ مِنْہُ دِرَاھِمِیْ یعنی میں نے اس سے اپنے درہم پورے پورے لے لیے۔ (۵۸)

بیضاوی

(۱) اَلتَّوَفِّیْ اَخْذُ الشَّیِٔ وَافِیًا وَالْمَوْتُ مِنْہُ نَوْع۔
ترجمہ: تفسیر بیضاوی میں تحت آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْالآیہ لکھا ہے کہ توفی کے معنی کسی چیز کو پورا لے لینے کے ہیں۔

ھٰکَذَا فِیْ سَائِرِ الْکُتُبِ التَّفَاسِیْرِ الْاُخَرٰی عَنْ جَامِعِ الْبَیانِ وَاِبْنِ کَثِیْرٍ وَفَتْحِ الْبَیَانِ وَالْخَازِنِ وَاِبی السَّعُوْدِ وَغَیْرِھَا۔(۶۰)

توفی کے مجازی معنی

ہم تمام کتب لغات مشہورہ اور اقوال کبر اء مفسرین سے نیم روز کی طرح بالکل روشن کرچکے ہیں کہ وفا کے حقیقی معنی پورا کرنے کے ہیں۔ اب ناظرین کی مزید تسلی اور اطمینان کے لیے کتب لغویہ سے یہ بھی ثابت کردینا چاہتے ہیں کہ موت، قبض، روح اور نوم وغیرہ سب مجازی معنے ہیں نہ حقیقی و وضعی فترقب۔

تاج العروس شرح قاموس:

ومِنَ الْمَجازِ اَدْرَکَتْہُ الْوَفَاۃُ اَیِ الْمَرْتُ وَالْمَیِّۃُ تُوَفِّی فُلَانٌ اِذَا مَاتَ۔(۶۱)
ترجمہ: توفی کے معنی موت لینا مجازی ہیں (جلد ۱۰ص۳۹۴)

اَسَاسُ الْبَلَاغَہ

(۱) وَمِنَ الْمَجَازِ تُوَفِّیَ فُلَانٌ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ اَدْرَکَتْہُ الْوَفَاۃُ۔(۶۲)
ترجمہ: توفی کے معنی موت لینا مجازی ہیں۔ (جلد ۲ص ۲۴۱)

تنبیہ:

ہماری خوش قسمتی سمجھئے یا مرزائیوں کی بدقسمتی۔ اس جگہ تَوَفَّاہُ اللّٰہ میں اللہ فاعل ذی روح مفعول اور توفی باب تفعل کو علامہ زمخشری جیسے مسلم امام لغت مجاز بتلا رہے ہیں۔ اگر اس جگہ کوئی مرزائی اپنی کم علمی یا بے سمجھی کی وجہ سے یہ اعتراض کرے جیسا کہ ان کی عادتِ ثانیہ بلکہ اپنے مزعومہ نبی کی وراثت ہے کہ ہم ان حوالوں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ انسانوں کے اپنے وضع کردہ ہیں تو جواب یہ ہے کہ قطع نظر باقی حوالوں کے اس حوالے پر تو خصوصاً کسی مرزائی کو تو چوں و چرا کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ کیونکہ خود مرزا صاحب نے ان کو چون و چرا کرنے سے منع کردیا ہوا ہے۔ ذرا الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’ اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ زبانِ عرب کا ایک بے مثل امام جس کے مقابل پر کسی کو چون و چرا کرنے کی گنجائش نہیں یعنی علامہ زمخشری الخ۔‘‘ (۶۳)

المفردات:

(۱) وَقَدْ عُبِّرَ عَنِ الْمَوْتِ وَالنَّومِ بِا التَّوفِّیْ۔(۶۴)
ترجمہ: موت اور نوم توفی کے مجازی معنے ہیں۔
----------------

(۵۸) تفسیر کبیر ص۷۲، ج۸طبعہ مصر ۱۹۳۸ء

(۵۹) تفسیر بیضاوی ص۳۰۰، ج۱طبعہ ۱۹۶۸ء،

(۶۰) علی الترتیب دیکھئے جامع البیان ص۱۱۱ و ابن کثیر ص۱۲۰، ج۲وفتح البیان ص۷۹۴، ج۱طبعہ بھوپال ص۱۲۹۰ھ و خازن ص۵۳۱، ج۱طبعہ مصر اول وابی السعود ص۱۰۱، ج۳

(۶۱) تاج العروس شرح قاموس ص۳۹۴، ج۱۰

(۶۲) اساس البلاغۃ ص۵۰۵

(۶۳) براھین احمدیہ ص۲۰۸، ج۵و روحانی ص۳۸۱، ج۲۱

(۶۴) مفردات القرآن فی غریب القران ص۵۲۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفاسیر​

تفسیر کبیر

التوفی حبنس تحتہ الواع بعضھا با الموت وبعضھا یا الاصعاد الی السماء۔(۶۵)
ترجمہ: امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ آیت انی متوفیک الآیہ کے تحت میں لکھتے ہیں۔ کہ توفی بمنزلہ جنس کے ہے اور اس کے تحت میں بہت سے انواع ہیں۔ مثلاً موت اور اصعاد الی السماء وغیرہ۔

بیضاوی:

التوفی اخذ الشئی وافیا والموت نوع منہ۔(۶۶)

ترجمہ: موت توفی کی ایک نوع ہے۔

مرزا صاحب کا فیصلہ
ناظرین یہ تو تھی تحقیق از روئے لغات و کلامِ عرب۔ اب شاید آپ کو مرزا صاحب کے دستخط خاص کی انتظار ہو۔ تو اس انتظار کو بھی ان شاء اللہ رفع کرا دیتا ہوں۔
مرزا صاحب نے موضوع لہٰ معنی اور مجازی معنی معلوم کرنے کے لیے ہمیں ایک پرکھ بتائی ہے۔ اب ہم اسی کسوٹی پو جو مرزا صاحب نے ہمیں دی ہے اس کو بھی پرکھتے ہیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
ثم اعلموا ان حق الفظ الموضوع لہ ان یوجد المعنی فی جمیع افرادہ من غیر تخصیص ولا تعیین۔(۶۷)
ترجمہ: یعنی جاننا چاہیے کہ بیشک لفظ موضوع لہٗ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے جمیع افراد میں اس کا معنی بلا تخصیص و بلا تعیین پایا جائے۔
اب ہم اسی اصول کی رو سے اسی لفظ توفی کو پرکھتے ہیں تو مرزا صاحب کا معنیٰ موت نہ تو تمام افراد میں پایا جاتا ہے (ظاہر ہے کہ اگر تمام افراد میں پایا جاتا تو مرزا صاحب ذی روح کی پخ نہ لگاتے) اور نہ بلا تخصیص و تعیین ہے کیونکہ مرزا صاحب شرط لگاتے ہیں کہ اللہ فاعل ہو۔ ذی روح مفعول ہو۔ توفی باب تفعل ہو۔ نوم اور لیل کوئی قرینہ نہ ہو۔ ناظرین ذرا گن لیجئے کہ کتنی شرطیں لگائی گئی ہیں اور لطف یہ کہ شاید مرزائیوں کے نزدیک ابھی تک بلا تخصیص و تعیین ہوگا۔ (۶۸)
اس مختصر تحریر سے معلوم ہوا کہ جب مرزا صاحب کا معنی ان کے اپنے وضع کردہ اصول کے بھی خلاف پڑتا ہے۔ تو اس کے غلط و باطل ہونے میں کیا شک و شبہ؟ بخلاف اس کے ہمارا معنی ’’پورا لے لینا‘‘ جمیع افراد ہیں خواہ وہ نیند ہو، خواہ وہ موت ہو۔ خواہ اصعا دالی السماء ہو۔ خواہ عہد ہو خواہ قرض ہو وغیرہ وغیرہ) پایا جاتا ہے۔ اور ہے بھی بلا تعیین و بلا تخصیص۔
اس مختصر سی تحریر کے بعد قارئین کرام پر واضح اور ہویدا ہوگیا کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ مسیحیت کو بچا کرنے کے لیے کیا کیا چالیں چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خود اپنے موضوعہ اصولوں کے بھی خلاف کردیا کرتے تھے۔ یہ دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو عمداً اپنے دعاوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے کرتے ہونگے یا سہواً، اگر عمداً کرتے تھے تو مفتری علی اللہ، مکار، عیار اور دسیسہ کار ثابت ہوئے اور سہواً تھا تو باوجود نبی ہونے کے خدا تعالیٰ نے ان کو ان کے سہو سے اخیر وقت تک ٹیچی فرشتہ کے ذریعہ سے اطلاع کیوں نہیں دی۔ تاکہ زندگی میں ہی اس کی اصلاح کر جاتے۔ اور مخلوقِ خدا کو گمراہ نہ کرتے۔ اس سے بھی ان کا متنبی ہونا ثابت ہے۔

تحریر بالا سے بالکل واضح اور ہویدا ہوگیا کہ لفظ توفی بحسب الوضع موت اور قبض روح کے لیے موضوع نہیں ہے۔ بلکہ موت اس کا مجازی معنی ہے۔ اس کا حقیقی اور وضعی معنیٰ پورا کرنا ہے۔
کمالا یخفی علی من لہ مما رسۃ فی الکتب اللغویہ۔

اب بھی اگر کوئی جاہل بے تکی ہانکتا چلا جائے کہ توفی موت اور قبض روح کے لیے موضوع ہے تو یہ اس کی جہالت کا کافی ثبوت ہے۔

الزامی جواب

مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّکا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ وہ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا (۶۹)اور دیکھئے خود مرزا صاحب نے فقرہ متوفیک کے معنی ’’ پوری نعمت‘‘ دوں گا کے لیے ہیں۔

اس پر اعتراض

مرزا صاحب نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا۔ الہامی نہیں تھا۔ (۷۰)

الجواب:

مرزا صاحب قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میں براہین احمدیہ کے وقت بھی عند اللہ رسول تھا۔ (۷۱)

نیز یہ کہ کتاب (براہین احمدیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہو کر رجسٹرڈ بھی ہوگئی تھی۔ اور قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے (براہین احمدیہ حاشیہ ص۲۴۸، ۲۴۹) ناظرین ! جب کشف میں (بقول مرزا صاحب) براہین احمدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہو کر قبولیت حاصل کر رہی تھی۔ کیا اس وقت توفی کی بحث جس کے معنی ’’ پوری نعمت دوں گا‘‘ لیے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سے نہ گزرے؟ اگر گزرے تو بقول مرزائیوں کے غلط ہونے کی وجہ سے کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کاٹ دیا؟
-----------

(۶۵) تفسیر کبیر ص۷۲، ج۸طبعہ مصر ۱۹۳۸

(۶۶) تفسیر بیضاوی ص۳۰۰، ج۱طبعہ مصر ۱۹۶۸ء

(۶۷) الاستفتاء ضمیمہ (عربی) حقیقت الوحی ص۴۳و روحانی ص۶۶۵، ج۲۲

(۶۸) مرزا نے توفی کے لفظ پر ایک انعامی چیلنج بھی دبے رکھا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ:

اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کس جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فضل ہونے کی حالت میںجو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ (ایک) ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا، ازالہ اوہام ص۹۱۹مرزا جی کے اس چیلنج کا دو حرفی خلاصہ یہ ہے کہ علماء اسلام ، یعیسی انی متوفیک ورافعک الی (پ۳اٰل عمران ۵۵) کے جو معنیٰ قبض جسم کرتے ہیں وہ غلط ہیں، لیکن مولانا ابو سعید محمد حسین محدث بٹالوی کی طرف سے جب مرزائی کو منہ توڑ جواب ملا کہ توفی کا لغوی معنی اخذ الشی وافیاً ہے اور موت اس کا معنیٰ مجازی ہے، اور جب توفی کا قرینہ رفع مذکور ہو اور الیٰ اس کاملہ مذکور ہو تو اس کا معنیٰ سوائے قبض جسم کے اور کوئی نہیں ہوتا اگر قادیانی قرآن و حدیث اور لغات عرب سے اس کے خلاف ایک بھی مثال پیش کردے تو میں اسے تین سو روپیہ انعام دوں گا، اشاعۃ السنۃ جلد ۱۴نمبر ۲، ۱۸۹۱ء مرزا نے مولانا بٹالوی مرحوم کے اس چیلنج کے بعد اپنے چیلنج و مؤقف میں کمزوری محسوس کرتے ہوئے دو تین سال کے غور کے بعد لکھا، انی قرأت کتاب اللّٰہ آیۃ آیۃ و تدبرت فیہ ثم قرأت کتب الحدیث بنظر عمیق و تدبرت فیھا فما وجدت لفظ التوفی فی القران ولا فی الاحادیث۔ اذا کان اللّٰہ فاعلہ واحد من الناس مفعولا بہ ان بمعنٰی الامانۃ وقبض الروح ومن یثبت خلاف تحقیقی ہذا فلہ اُلف من الدارھم المروجۃ انعامًا منی، حمامۃ البشرٰی ص۶۳و روحانی ص۲۷۰ج۷۔میں نے اللہ کی کتاب کو ایک ایک آیت کرکے پڑھا ہے پھر اس میں غور کیا ہے پھر کتب حدیث گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور پھر ان میں غور بھی کیا ہے لیکن میں نے توفی کا لفظ نہ تو قرآن میں نہ ہی حدیث میں پایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور انسانوں میں سے کوئی شخص مفعول بہ۔ مگر اسی موت اور روح کو قبض کرنے کے معنیٰ میں اور جو شخص اس (میری تحقیق) کے خلاف ثابت کردے تو اس کے لیے ایک ہزار مروجہ درہم میریطرف سے انعام ہوگا۔ (انتھی)

اس چیلنج کو مکرر ملاحظہ کریں کہ آنجہانی نے، قبض جسم، کے چیلنج کو چھوڑ کر کس عیاری سے کہا ہے کہ موت اور قبض روح کے علاوہ معنی دکھائیںجائیں پھر اس میں ایک مزید شرط کا بھی اضافہ کردیا کہ مفعول، انسان ہو جبکہ ازالہ کے چیلنج میں صرف ذی روح کی قید تھی۔ ان رد و بدل کے بعد بھی مرزا کمال تقدس سے فرماتے ہیں کہ کذلک وعدت فی کتبی التی طبعتھا واشعتھا للمنکرین (حمامۃ البشرٰی ص۶۳) یعنی اسی طرح کا وعدہ میں نے ان کتب میں بھی کیا ہے جن کو میں نے منکرین کے لیے شائع کیا ہے۔ انتھی

اس سے بڑھ کر اور کیا غلط بیانی ہوسکتی ہے ہم اس پر، لعنۃ اللہ علی الکاذبین ، کی وعید ہی کافی سمجھتے ہیں۔ مذکورہ چیلنج بھی مرزا کے نزدیک ادھار تھا کیونکہ جھوٹے انسان کی طبیعت میں ایک خلجان ہوتا ہے آخر چار پانچ سال مزید غور و فکر اور تامل کے بعد لکھا کہ یہ قدیم محاورہ لسان العرب ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہوتا ہے اور انسان مفعول بہ ہوتا ہے تو ایسے موقعہ پر لفظ توفی کے معنیٰ بجز وفات کے اور کچھ نہیںہوتے اور اگر کوئی شخص اس سے انکار کرے تو اس پر واجب ہے کہ ہمیںحدیث یا قرآن یا فن ادب کی کسی کتاب سے یہ دکھلا دے کہ ایسی صورت میںکوئی اور معنیٰ بھی توفی کے آجاتے ہیں اور اگر ایسا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدسیہ سے پیش کرسکے تو ہم بلا توقف اس کو پانچ سو روپے انعام دینے کو تیار ہیں، حاشیہ تریاق القلوب ص۱۴۵و روحانی ص۴۵۸ج ۱۵اس تحریر میں مرزاشرائط تو تقریباً وہی رکھتے ہیں لیکن ایک مزید شق اضافی کا زکر کرتے ہیں کہ انعام صرف اسے ہی ملے گا جو حدیث مصطفی میں سے مثال دکھائے گا اور وہ بھی ایک ہزار کی بجائے پانچ سو ہوگا، اس چیلنج پر بھی مرزا مادل مطمئن نہ تھا بلکہ ضمیر ملامت کر رہا تھا کہ آخر آٹھ نو سال کی محنت شاقہ اور پوری زندگی کے مکارانہ تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے مرزا نے لکھا کہ مدت ہوئی کہ اسی ثابت شدہ امر پر ایک اشتہار دیا تھا کہ جو شخص اس کے برخلاف کسی حدیث یا دیوان مستند عرب سے کوئی ایسا فقرہ پیش کرے گا جس میں باوجود اس کے کہ توفی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور کوئی علم مفعول بہ ہو یعنی کوئی ایسا شخص مفعول بہ ہو جس کا نام لیا گیا ہو۔ مگر باوجود اس امر کے اس جگہ وفات دینے کے معنی نہ ہوں تو اس قدر انعام دوں گا۔ اس اشتہار کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا اب پھر اتمام حجت کے لیے دو سو روپیہ نقد کا اشتہار دیتا ہوں کہ اگر کوئی ہمارا مخالف … کوئی ایسا فقرہ پیش کرے جس میں توفی کے لفظ کا خدا تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول بہ کوئی علم ہو جیسے زید بکر اور خالد وغیرہ اور اس فقرہ کے معنیٰ بیداھۃ کوئی اور ہوں وفات دینے کے معنیٰ نہ ہوںتو ایسی صورت میں میں ایسے شخص کو مبلغ دو سو روپیہ نقد دوں گا۔ براہین احمدیہ ص ۲۱۱، ج۵روحانی ص۳۸۳، ج۲۱۔ اس چیلنج میں مرزا نے انعام کو پانچ سو (پہلے ہزار سے پانچ سو کیا تھا) سے دو سو روپیہ کردیا ہے اور شرائط میں سے ایک شرط مزید کا یہ اضافہ کیا ہے کہ مفعول بہ کاصراحت سے نام ہونا ضروری تھا۔ قارئین دیکھتے جانا مرزا کس طرح پیچ در پیچ ڈال رہے ہیں، پہلے ذی روح کی قید، پھر اسے کاٹ کر خاص انسان ذی روح کی قید لگا دی، پھر اسے بھی مسترد کرکے مزید کہا کہ ذی روح انسان کا نام بھی لیا گیا ہو۔

پھر لطف کی بات یہ کہ مرزا لکھتا ہے میرے پہلے اشتہار (ازالہ) میں بھی ( ذی روح انسان ہو اور وہاں اس کا نام بھی مذکور ہو) یہی شرائط تھیں، لعنۃ اللہ علی الکاذبین آمین یا الہ العالمین، پہلے کہا قبض جسم معنیٰ دکھایا جائے اب کہتے ہیں کہ موت کے علاوہ معنیٰ کوئی بھی ہو تو میں دو سو انعام دوں گا، پھر اس کوڑ پر یہ کھاج کہ فرماتے ہیں پہلے بھی یہی اشتہار دیا، الغرض مرزا شرائط کے بڑھانے گئے اور انعام کو کم کرتے گئے، ان کی یہ روش بتاتی ہیں کہ کتب حدیث اور ادب سے مرزا کو اپنے چیلنج کے خلاف امثلہ ملیں جنہیں وہ جان بوجھ کر سامنے نہ لائے مگر قادیانی حضرات مرزا کے اس چیلنج کو اب بھی پیش کرکے کہا کرتے ہیں کہ ان شرائط کے ماتحت کوئی اور معنیٰ ثابت کیا جائے، احمدیہ پاکٹ بک ص ۳۳۵۔

انعام والی بات محض قادیانی حضرات کا فریب ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا نظام ہدیت اور اس کی معرفت ہی کافی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمام لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا الہ العالمین۔ ہم بغیر انعام لیے ہی مرزا کا چیلنج توڑ دیتے ہیں۔

(۱) صحیح ابن حبان اوردیگر کتب حدیث میںحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : اذا رمی الجمار لا یدری احد مالہ حتی یتوفا اللّٰہ یوم القیامۃ (الحدیث) الترغیب الترھیب ص۳۳۷، ج۲یعنی جب حاجی رمی جمار کرتاہے توکوئی نہیںجانتا کہ اس کا اجر وثواب کیا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حاجی کو قیامت کے روز پورا پورابدلہ دیں گے۔

(۲) ابن جریر،ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اوسط، تاریخ حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ بینما ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ یاکل مع النبی ﷺ اذ نزلت علیہ ( فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ) فرفع ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ یدہ وقال یا رسول اللّٰہ انی اجزی بما علمت من مثقال ذرۃ من شر فقال ، یا ابابکر ما رایت فی الدنیا مما تکرہ نبمثا قیل ذر الشر ویدخر اللّٰہ لک مثاقیل ذرہ الخیر حتی توفاہ یوم القیامۃ ، تفسیر ابن کثیر ص۵۲۰،ج۴و در منثور ص۳۸۰، ج۶و مجمع الزوائد ص۱۴۵، ج۷مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا جانشین ثانی اور مرزائیوں کا فضل عمر اور مصلح موعود مرزا محمود احمد اپنی تفسیر کبیر ص۴۶۶، ج۹میں مذکورہ روایت کا حسب ذیل معنیٰ کرتا ہے کہ:

حضرت ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا وہ اس کا انجام دیکھ لے گا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر گھبرا گئے اور انہوں نے کھانے سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ایک ذرہ بھر بدی بھی مجھ سے سرزد ہوئی تو قیامت کے دن مجھے اس کی سزا ملے گی اگر ایسا ہوا تب تو بڑی مشکل ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر اے ابوبکر تم گھبراؤ نہیںدنیا میں انسان کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ذرہ شر کی وجہ سے پہنچتی ہیں اس طرح خدا تعالیٰ شر کے ذروں کو یہیں ختم کردے گا اور خیر کے ذروں کو باقی رکھے گا اور انہی کی بنا پر مومن کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ انتھی بلفظہٖ۔

قارئین کرام! دیکھ لیجئے کہ پوری شرائط ہونے کے باوجود اور مرزا محمود بیسوں پاپڑ بیلنے کے باوجود ، توفاہ، کا معنیٰ موت نہیں کرسکا، پھر لطف کی بات تو یہ ہے کہ پہلی مثال میں حاجی اور آخری میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر مفعول بنایا گیا ہے مگر معنیٰ موت نہ ہی بنتا ہے اور نہ مرزا محمود کر سکا ہے۔ ابو صہیب

(۶۹) براہین احمدیہ ص ۵۲۰، ج۴و روحانی ص۶۲۰،ج۱، و تذکرہ ص۹۷، نوٹ: مذکورہ ترجمہ آیت قرآنی کا نہیں جیسا کہ مولانا معمار مرحوم نے لکھا ہے بلکہ انہیں الفاظ میں مرزا کا الہام ہے جس کا مرزا نے معنیٰ، پوری نعمت دوں گا، کیا ہے۔ ابو صہیب

(۷۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۳۷

(۷۱) ایام الصلح ص۷۵و روحانی ص۳۰۹، ج۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بحث نزول

عموماً مرزائی پارٹی یہ اعتراض کیا کرتی ہے کہ قرآن مجید میں نزول کا لفظ اور اس کے مشتقات متعدد جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ اور وہاں آسمان سے اترنے کے کسی جگہ بھی ہمارے مخالف لوگ معنی نہیں لیتے۔ دل میں آیا کہ اتمامِ حجت کے لیے ان کا یہ کانٹا بھی نکال دیا جائے تاکہ ان کو کسی قسم کا شکوہ شکایت کا دنیا میں اور عذر کا آخر میں موقع نہ ملے لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃِ۔

سب سے پہلے اس مشکل کو ہم لغۃً حل کرنا چاہتے ہیں۔ صراح میں ہے کہ نزول ’’ فرود آمدن‘‘ اور انزال ’’ فرود آوردن‘‘ (۷۳)منتہی الارب میں بھی اس طرح ہے یعنی ’’ نزول‘‘ کے معنی ’’ نیچے آنا‘‘ اور ’’انزال‘‘ کے معنی ’’ نیچے لانا‘‘ ہیں۔ (۷۴)مصباح منیر میں ہے نزل من علوہ الیٰ سفل (۷۰)یعنی نزول کے معنی اوپر سے نیچے آنے کے ہیں۔ (۷۵)

مشہور لغوی علامہ راغب اصفہانی مفردات میں تحریر فرماتے ہیں:

النزول فی الاصل ھو انحطاط من علوہ وانزال اللّٰہ تعالی اما بانزال الشی نفسہ واما بانزال اسبابہ والھدایۃ الیہ کا نزال الحدید واللباس وھو ذالک۔(۷۶)

یعنی نزول کے معنی اوپر سے نیچے کو اترنا ہیں اللہ تعالیٰ کا اتارنا یا تو شے بنفسہٖ کا اتارنا ہوتا ہے۔ جیسے قرآن کا اتارنا۔ یا اس شے کے اسباب و ذرائع اور اس کی طرف (توفیق) ہدایت کا اتارنا جیسے انزال حدید انزال لباس اور اس کے مثل (انزال رزق، انزال انعام، انزال میزان۔ انزال رجز وعذاب وغیرہ) انتہیٰ۔

اب اس تصریح کے بعد کسی قسم کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس سے زیادہ ہم کچھ وضاحت کریں۔ لیکن بپاسِ خاطر ناظرین اس کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ناظرین دیکھ لیں گے کہ یہ لوگ جو جو اعتراض پیش کیا کرتے ہیں۔ ان میں سراسر مغالطہ دہی، دجل و فریب مکر و خدع اور تحریف و تاویل ہی ہوتی ہے۔

-------------------

(۷۲) براھین احمدیہ ، حاشیہ ص۲۴۸، ج۳و روحانی ص۲۷۵، ج۱وتذکرہ ص۴

(۷۳) صراح ص ۴۵۲طبعہ لکھنو ۱۳۲۷ھ

(۷۴) منتہی الارب

(۷۵) المصباح المنیرہ ص۷۳۴، ۲طبعہ مصر ۱۹۰۶ء

(۷۶) مغددات القران فی غریب القران ص۴۸۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مغالطہ نمبر۱:

قرآن مجید میں ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِ اللّٰہِالآیۃ۔ اس آیت میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انزل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (۷۷)

جواب:

اگر مشہور اور درسی کتاب جلالین کے اسی مقام کو دیکھ لیا جاتا تو اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہ نکلتی۔ لیکن یار لوگ چونکہ علم عربی سے ناواقف اور بے بہرہ ہیں۔ اس لیے ان کو مجبور و معذور قرار دیتے ہوئے ہم خود ہی اسی مقام کو یہاں نقل کرکے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکَرًا ھُوَ الْقُرْاٰنُ رَسُوْلاً اَی مُحَمَّدً ﷺ مَنْصُوْبٌ بِفِعْلٍ مُقَدَّرٍای اَرْسَلَ۔(۷۸)

یعنی ذِکْرًا سے مراد قرآن کریم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے (آسمان سے) نازل کیا۔ ذکر قرآن مجید کا دوسرا نام ہے۔ اس کا نزول بہت سی آیات میں آیا ہے۔ چودھویں پارے کے تین مقام ملاحظہ ہوں:

(۱) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ(۷۹) (حجر) (۲) یٰایُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ(۸۰) (حجر) (۳) وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ(۸۱) (نحل) (۴) ھٰذَا ذِکُرٌ مبارَکٌ اَنْزَلْنَاہُ(۸۲) (پ۱۷، انبیاء) (۵) اَوْ اُنَزِل عَلَیْہِ الذِّکْر(۸۳) (سورہ ص) (۶)اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِا الذِّکْرِ لَمَّا جَائَ ھُمُ وَانَّہٗ لکتابٌ عَزِیْزٌ(۸۴) (حم سجدہ) (۷) اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعَالَمِیْنَ(۸۶) (پ۷انعام) (۹) اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلعْلَمِیْنَ(۸۷) (پ۱۳، یوسف۱۰) وَمَا ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ للعلمین(۸۸) تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ۔

اور رَسُوْلاً کے پہلے ارسل محذوف ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا۔ اسی لیے قرآن مجید میں ذِکْرًا کے بعد آیت کا گول نشان بنا ہوا ہے۔ اور رَسُوْلاً۔ الگ دوسری آیت میں ہے۔ خازن، مدارک، سراج منیر اور کشاف میں بھی اسی طرح ہے۔ (۸۹)

بصورتِ دیگر اگر رَسُوْلاً کو منصوب بہ فعل مقدر نہ مانا جائے۔ بلکہ ذِکْراً سے بدل یا عطف بیان مان لیں۔ تو اس صورت میں رسولاً سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہوں گے (کشاف، بیضاوی) جو بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بندوں پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور جبرائیل علیہ السلام کا نزول من السماء متفق علیہ ہے۔
--------------------------
(۷۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۸
(۷۸) تفسیر جلالین
(۷۹) پ۱۴الحجر نمبر ۹
(۸۰) ایضاً نمبر ۶
(۸۱) پ۱۴النحل ۴۴
(۸۲) پ۱۷الانبیاء ۵۰
(۸۳) پ۲۳ص۸
(۸۴) پ۲۴حٰمٓ السجدہ ۴۱
(۸۵) پ۲۴یٰسٓ ۶۹
(۸۶) پ۷الانعام ۹۰
(۸۷) پ۱۳یوسف ۱۰۴
(۸۸) پ ۲۹قلم نمبر ۵۲
(۸۹) علی الترتیب دیکھئے خازن ص۱۱۳، ج۷و مدارک ص۲۲۰، ج۵و سراج منیر وکشاف ص۵۶۱، ج۴زید آیت پ۲۸الطلاق نمبر ۱۱،۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا مغالطہ:
خدا تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْد یعنی ہم نے لوہا اتارا۔ اب غور کیجئے کہ کیا لوہا آسمان سے نازل ہوتا ہے یا کانوں سے نکلتا ہے؟ (۹۰)
جواب:
آیت مذکورہ میں انزال سے مراد انزال امر ہے جیسا کہ اُوپر مفردات راغب سے عبارت وَالْھِدَایَۃُ اِلَیْہِ کَانْزَالِ الْحَدِیْن نقل کی جاچکی ہے۔ یعنی لوہے کے استعمال کی ہدایت اور حکم اللہ ے نازل فرمایا۔ تفسیر سراج منیر اور کشاف میں ہے۔ اِنَّ اَوَا مِرَہٗ تَتَنَزَّلُ مِّنَ السَّمَائِ قَضایَاہُ وَاَحْکَامٌٗ۔ (۹۱)بیضاوی میں ہے اَلْاَمْرُ بِاَعَدَادِہ یعنی استعمال حدید کا امرو حکم آسمان سے اترا ہے(۹۲) جو قرآن مجید فرقان حمید میں دوسرے مقامات میں موجود ہے وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُم مِنْ قُوَّۃ۔ (۹۳)وَلْیَا خُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاسْلِحَتِھِمْ(۹۴)۔ ان آیات میں لوہے کے ہتھیار اور ڈھال وغیرہ کے استعمال کا حکم اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ اسی کی طرف وانزلنا الحدید میں اشارہ فرمایا ہے۔ پس چونکہ آہنی اسلحہ کے استعمال اور تیار کرنے کا سبب امر منزل من اللہ ہے لہٰذا ’’انزلنا الحدید من قبیل اطلاق المسبب والمراد بہ السبب‘‘ جس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ جواب میں بھی ہوگی۔
--------------
(۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۸

(۹۱) سراج منیر وکشاف ص۴۸۰، ج۴زید آیت پ۲۷حدید ۲۵

(۹۲) تفسیر بیضاوی زید آیت حدید ۲۵

(۹۳) پ۱۰الانفال ۶۰

(۹۴) پ۵النساء ۱۰۲

(۹۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۸

(۹۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا مغالطہ:

قرآن شریف میں آتا ہے کہ یا بنی اٰدَمَ اَنَزْلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا۔ یعنی اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپڑے جو ہم لوگ پہنتے ہیں کیا وہ آسمان سے اترتے ہیں؟ (۹۵)
جواب:
میں کہتا ہوں کہ محاوراتِ عرب، جاننے والوں سے مخفی نہیں کہ کلام میں کبھی سبب بولتے ہیں اور مراد مسبب لیتے ہیں۔ مثلاً رَعَیْنَا الْغَیْثَ اَیِّ النَّبَاتَ الَّذِیْ سَبَبَہُ الْغَیْثُ(۹۶)۔ (مطلول) یعنی ہم نے بارش چرائی۔ یعنی گھاس جس کے اگنے کا سبب بارش ہے۔ اور کبھی مسبب بولتے ہیں اور مراد سبب لیتے ہیں جیسے وَمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَائِ مِنْ رزق (۹۷) یعنی اللہ نے آسمان سے رزق نازل فرمایا۔ یعنی بارش برسائی جو سبب ہے رزق کے پیدا کرنے کا۔ پس رزق مسبب ہوا۔ اسی طرح اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا فرمایا لباس مسبب ہے اور سبب اس کا بارش ہے تفسیر کبیر میں ہے انزل المطر وبا المطر تتکون الاشیاء التی منھا یحصل اللباس(۹۸) معالم التنزیل میں ہے اللباس یکون من نبات الارض والنبات یکون بما ینزل من السماء فمعنا قولہ انزلنا ای انزلنا اسبابہ۔ (۹۹)
تفسیر خازن و فتح البیان میں ہے انزل المطر من السماء وھو سبب نبات اللباس(۱۰۰)۔ تفسیر مدارک میں ہے لان اصلہ من الماء وھو منھا (۱۰۱) اسی طرح سراج منیر ابو السعود، بیضاوی میں بھی اسباب نازلہ مرقوم ہیں۔ (۱۰۲)حاصل کلام یہ کہ وجود لباس کا سبب بارش ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے اس سے روئی کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ روئی سے سوت اور سوت سے لباس تیار ہوتا ہے۔ اُونی لباس بنتے ہیں۔ بھیڑ اور دنبے سے، بھیڑ اور دنبہ پلتا ہے گھاس پر، گھاس پیدا ہوتی ہے بارش کے سبب سے۔ جب بارش ہوتی ہے شہتوت اور بیر کے درختوں کی پتیاں ہری بھری ہوتی ہیں ان کو ریشم کے کیڑے کھاتے ہیں اور ریشم نکالتے ہیں۔ جس سے ریشمی لباس وجود میں آتے ہیں۔ غرض یہ کہ لباس و رزق کا وجود حصولِ اسباب سماویہ و مواد ارضیہ سے مل کر ہوتا ہے جیسا کہ سورۂ یونس میں ارشاد باری ہوتا ہے قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ(۱۰۴) ۔ اس کے آگے چھٹے رکوع میں ہے وَمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّن رِزْقٍ(۱۰۵)۔ سورۂ جاثیہ کی آیت بیان ہوچکی ہے۔ سورۂ ذاریات میں آتا ہے وَفِی السَّمَاء رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعْدُوْنَ(۱۰۶)۔ سورۂ عبس میں فرمایا اَنَّا صَبَبْنَا الْمَائَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا۔ (۱۰۷)
الآیہ (پ۳۰) ان آیات سے آسمانی بارش اور نباتِ ارضی سے انسانی معیشت کا حصول ثابت ہے۔ اسی قبیل سے یہ آیت بھی ہے۔ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا(۱۰۸)اس کو کہتے ہیں تَسْمِیَۃُ الشَّیْ بِاِسْمِ المُسَبَّبِ س انزال کے معنی آسمان سے اتارنا۔ اس آیت میں بھی اسی طرح ثابت ہوئے۔ جس طرح اوپر کی دونوں آیتوں میں۔

تحقیق لفظِ رَفع
امتِ مرزا رَافِعُکَ سے رفع روح اور عزت کی موت مراد لیا کرتی ہے جیسا کہ مرزا صاحب قادیانی آنجہانی نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ ان لوگوں کا رفع سے رفع روح مراد لینا ان کی بے علمی پردال ہے کیونکہ رَافِعُکَ اِلَیَّ سے مراد رفع جسم الی السماء ہے لا غیر۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ صراح میں لکھا ہے: رفع ’’ برداشتن‘‘ ھُوَ خِلَافُ الْوَضْعِ(۱۰۸) یعنی رفع کے معنی اوپر کو اٹھانا ہیں بخلاف لفظ وضع کے کہ اس کے معنی ’’ نہادن‘‘ (نیچے رکھنا) کے ہیں۔ بقول مرزائیوں کے اگر اس سے عزت کی موت مراد لی جائے تو بہت سی آیات قرآنیہ بوجہ تطویل یا حشو کے فصاحت سے گر جائیں گی مثلاً رَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٌ(۱۰۹)۔ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّنْ نَشآئُ(۱۱۰)۔ ورفعنا بَعْضَکُھم فَوْقَ بَعْضٍ(۱۱۱)۔ یَرْفَعِ اللّٰہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ درجٰت۔ (۱۱۲)

ان آیات میں رفع کے مشتقات بولے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فاعل ہے۔ اور ذی روح (پیغمبران۔ اہل علم اور مؤمنین وغیرہ) مفعول ہیں۔ باوجود اس کے لفظ درجات ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

حالانکہ رفع کے معنی معین کرنے کے لیے مندرجہ آیات ہیں۔ لفظ ’’درجات‘‘ بطور قرینہ مذکور ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رفع کے معنے حسبِ قرینہ کئے جائیں گے۔ کیونکہ لغت میں اس کے حقیقی اور وضعی معنی ’’اوپر کو اٹھاتا‘‘ جیسا کہ صراح کے حوالے سے اوپر گزر چکا ہے۔ پس جہاں رفع کا مفعول کوئی جسم ہوگا۔ وہاں معنے اس جسم کو نیچے سے اوپر کو حرکت دینا اور اٹھانا ہوگا۔ اس کے لیے ذیل کا حوالہ بھی شاہد ہے:

فَا الرَّفْعُ فِی الاَجْسَامِ حَقِیْقَۃٌ فِی الْحَرْکَۃِ وَالْاِنْتِقَالِ وَفِی الْمَعَانِیْ عَلٰی مَا یَقْتَضِیْہِ المَقَام۔(۱۱۳)
یعنی لفظ رفع جسموں کے متعلق حقیقی معنی کی رُو سے حرکت اور انتقال کے لیے ہوتا ہے۔ اور معانی کے متعلق جیسا موقع و مقام ہو۔
صاحب مصباح کی اس تصریح سے مبرہن ہوگیا کہ رفع کا حقیقی معنی نیچے سے اوپر کو حرکت اور انتقال کا ہوتا ہے۔ پس اس بیان و تحقیق سے رَافِعُکَ اِلیَّ کا معنی مرفوع الی السماء ثابت ہوا۔

چونکہ رَافِعُکَ میں مخاطب کی ضمیر مناویٰ۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور اسم عیسیٰ جسم مع الروح سے معبر ہے۔ کیونکہ محض روُح بغیر تعلق بدن کے قابلِ تسمیہ نہیں ہوتی۔ پس اس ضمیر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جثہ مع الروح الی السماء کا لشمس فی نصف النہار ظاہر و باہر ہوگیا۔

اسی لیے جملہ تفاسیر معتبرہ مثلاً تفسیر کبیر (۱) کبیر، (۲) جلالین، (۳) معالم، (۴) سواطع الہام (۵) تفسیر رحمانی، (۶)فتح البیان، (۷) جامع البیان، (۸) بیضاوی، (۹) ابن کثیر، (۱۰)کشاف، (۱۱) دارک ، (۱۲) ابی السعود، (۱۳) عباسی ، (۱۴) در منثور، (۱۵) خازن اور السراج المنیر (۱۶) میں بلا خلاف ’’ رافعک الی ‘‘ سے رفع الی السماء مراد لکھا ہے۔ (۱۱۴)
سب سے زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ علامہ جار اللہ زمخشری جیسے شخص جس کے متعلق مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ’’زبانِ عرب کا ایک بے مثل امام جس کے مقابل پر کسی چون و چرا کی گنجائش نہیں۔‘‘ (۱۱۵)اس مقام پر تاویل نہیں کرسکے (حالانکہ وہ معتزلی المذہب شخص تھے) کیوں؟ صرف اس لیے کہ ان کو عربیت اجازت نہ دیتی تھی۔ اگر اجازت دیتی تو یقینا وہ ضرور ہی تاویل کرتے۔
نیز صراح میں ہے کہ ’’ نزدیک گردایندن کسے رابا کسے صِلَتُہٗ بِاِلٰی۔‘‘ (۱۱۶)یعنی رفع کا معنی کسی کو کسی کے نزدیک کردینا ہے اس کا صلہ الیٰ ہوا کرتا ہے۔ نزدیک تب ہی ہوگا جب حرکت اور انتقال پایا جائے۔ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ وہ چیز ضرور ہی جسم ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں وہ جوہر ہوگی (نہ کہ عرض) گویا صاحب صراح نے بھی صاحب المصباح المنیر کی تصدیق و تائید کی۔ پس یہاں رفع کا صلہ الیٰ مذکور ہو۔ وہاں معنی شے مذکور کا مدخول الیٰ کی طرف مرفوع ہونا ہوگا اس کے لیے مندرجہ ذیل امثلہ ملاحظہ ہوں:

(۱) وَمِنْ ذَالِکَ قَوْلُھُمْ رَفَعْتُہٗ اِلَی السُّلْطَانِ۔(۱۱۷)

(۲) رَفَعَہٗ اِلَی الْحَاکِمِ۔(۱۱۸)

(۳) قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃ لِسَارِقِ التمر لَاَرْفَعَتَّکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ۔(۱۱۹)

(۴) اَیْ الَاَذْھَبَنَّ بِکَ اَشْکوْکَ یُقَال رَفَعَہٗ اِلَی الْحاکِمِ اِذا حَضَرَہٗ لِّشِکْوٰی۔(۱۲۰)


یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (شیطان کو) کہا آج میں تجھے ضرور بالضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں تیری شکایت کے لیے لے چلوں گا۔

اگر رفع کے معنی اعزاز و اکرام کے ہوتے ہیں تو کیا اس جگہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شیطان لعین کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکارِ والا تبار میں عزت دلانا چاہتے تھے؟

صحیح بخاری، صحیح مسلم، نیز مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی ا لمیت ص۱۴۲میں ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا (بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فرزندِ ارجمند فوت ہوئے تو کیا کیا گیا فَرُفِعَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔ (۱۲۱)

یعنی وہ لڑکا (نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا۔ اس موقع پر ہماری خوش قسمتی سمجھئے یا امت مرزا کی بدبختی کی موت کا وقت بھی ہے لیکن پھر بھی عزت کی موت مراد نہیں لی جاتی۔ وَفِیْ تِلْکَ الْاَمْثِلَۃِ کِفَایَۃ لِمَنْ لَہٗ ھِدَایَۃ۔

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گردل میں ہے خوفِ کردگار

اخیر میں ہم ببانگِ دہل اعلان کرتے ہیں کہ جب رفع یا اس کے مشتقات میں سے کوئی سا لفظ بولا جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ فاعل اور مفعول جوہر ہو (عرض نہ ہو) صلہ الیٰ مذکور ہو۔ مجرور اس کا ضمیر ہو (اسم ظاہر نہ ہو) وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوا آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔ اس کے خلاف کوئی آیت کوئی حدیث یا زمانۂ جاہلیت کے اشعار میں کوئی شعر پیش کردو۔ تو منہ مانگا انعام حاصل کرو۔

----------------
(۹۷) پ۲۵حاشیہ نمبر ۵نوٹ: مرزا محمود اس آیت کا معنیٰ کرتا ہے کہ اللہ نے رزق کا موجب یعنی پانی بادل سے اتارا ہے۔ انتھی بلفظہٖ تفسیر صغیر ص۶۶۰اس ترجمہ سے مولانا معمار مرحوم کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ ابو صہیب

(۹۸) تفسیر کبیر ص۵۱، ج۱۴طبعہ مصر ۱۹۳۸

(۹۹) معالم التنزیل ص۱۵۴،ج۲

(۱۰۰) فتح البیان ص۱۷، ج۲طبعہ بھوپال ۱۲۹۲ھ و خازن ص۸۴، ج۲طبعہ مصر

(۱۰۱) مدارک ص۱۰۳، ج۲

(۱۰۲) علی الترتیب دیکھئے،سراج منیر وابو السعود ص۳۲۲، ج۳و بیضاوی ص۳۴۵، ج۱زیر آیت الاعراف نمبر ۲۶

(۱۰۳) پ۱۱یونس ۳۱

(۱۰۴) پ۱۱یونس ۵۹

(۱۰۵) پ۲۶الذّٰریٰت ۲۲

(۱۰۶) پ۳۰عبس ۲۵تا ۲۷

(۱۰۷) پ۸الاعراف ۲۶

(۱۰۸) صراح ص۲۵۰

(۱۰۹) پ۳البقرہ ۲۵۳

(۱۱۰) پ۷الانعام ۸۳و پ۱۳یوسف ۷۶

(۱۱۱) پ۲۵الزخرف ۴۲

(۱۱۲) پ۲۸المجادلۃ ۱۱

(۱۱۳) مصباح المنیر ص۱۱۷، ج۱

(۱۱۴) علی الترتیب دیکھئے تفسیر کبیر ص۷۴، ۸و جلالین و معالم ص۳۰۸،ج۱و رحمانی وسواطع الالھام ص وفتح البیان ص وجامع البیان ص۲۹۰،ج۳و بیضاوی و ابن کثیر ص وکشاف ص۴۳۲، ج۱و مدارک صوابی السعود ص و عباسی ص ودر منثور ص و خازن ص۳۵۶،ج۱والسراج المنیر زیر آیت پ اٰل عمران ۵۵

(۱۱۵) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۲۰۸و روحانی ص۳۸۱، ج۲۱

(۱۱۶) صراح ص۳۵۰

(۱۱۷) صراح ص۲۵۰و لسان العرب ص۱۲۹، ج۸

(۱۱۸) لسان العرب ص۱۳۰، ج۸، نوٹ: ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۹، میں اس محاورے کو رفع جسمی کے انکار پر پیش کیا ہے جو کہ ان کے استعداد علمی سے عاری ہونے کا نتیجہ ہے، کیونکہ قادیانی رفع الی اللہ سے عزت کی موت مراد لیتے ہیں پس جب تک محاورہ رفعتہ الی السلطان یا الحاکم میں بھی عزت کی موت مراد نہ ہو تب تک اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں۔ رفعہ الی الحاکم کے معنٰی یہ نہیں کہ اس شخص کو گھر بیٹھے بٹھائے عزت دلا دی بلکہ معنیٰ تو یہ ہیں کہ قربہ وقدمہ الیہ لیحاکمہ، لسان العرب ص۱۳۰، ج۸، اسے بادشاہ کے حضور لے گیا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ ابو صہیب

(۱۱۹) صحیح بخاری ص۷۴۹، ج۲کتاب الفضائل القرآن باب فضل البقرہ وایضاً و کتاب الوکالۃ باب اذا وکل رجلاً ص۳۱۰،ج۱

(۱۲۰) فتح الباری شرح صحیح بخاری ص۳۸۴، ج۴کتاب الوکالۃ باب اذا وکل رجلاً الخ

(۱۲۱) صحیح بخاری ص۱۷۱، ج۱کتاب الجنائز باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء الخ و مسلم ص۳۰۱، ج۱کتاب الجنائز باب البکاء عل المیت و مشکوٰۃ ص۱۵۰کتاب الجنائز
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک اعتراض
اس کے مقابلہ و معاوضہ میں شاید کوئی جلد باز مرزائی کنز العمال کے حوالے سے یہ بے سند حدیث پیش کردے کہ اِذَا تَوَاضَع الْعَبْدُ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ۔ اس میں رفع کے بعد صلہ الیٰ مذکور ہے لیکن معنی وہ نہیں؟ (۱۲۲)
اس کا جواب

۱۔ اس میں الیٰ کا مجرور اسم ظاہر ہے۔ ضمیر نہیں۔ لہٰذا ہماری بحث سے خارج ہے۔
۲۔ یہ بے سند حدیث ہے اس کا اعتبار نہیں۔ (۱۲۳)
۳۔ بالفرض اگر مان بھی لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس وقت انسان تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کی تواضع کو آسمان پر اٹھا لیتا ہے گویا کہ یہ حدیث من وجہ تفسیر ہے آیت اِلْیہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کی۔ یعنی نیک کلمات اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ نیز اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طبرانی میں مروی ہے۔ فرمایا اِذَا تَوَاضَعَ قِیْلِ لِمَلَکٍ اِرْفَعْ حِکْمَتَہٗ۔ (۱۲۴)

یعنی جس وقت (کوئی شخص) تواضع کرتا ہے تو فرشتے کو کہا جاتا ہے کہ اس کی حکمت (تواضع) کو اٹھائے۔ انتہیٰ ھٰذا اٰخرما اوردنا من بحث التوفی والنزول والرفع الان من اللغۃ والحدیث والقراٰن والحمد للّٰہ الذی بنعمۃ تتم الصلحت والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ محمد مع اکرم التحیات وعلی الٰہ واصحابہ وازواجہ المطھرات واعلم یٰایھا الناظر انما الاعمال بالنیات۔

مس شیطان

تحقیقی:

حدیث صحیح مامن بنی اٰدم مولود الایمسہ الشیطان حین یولد فیستھل صَارِخًا من مس الشیطان غیر مریم واینھا(۱۲۵)۔ پر جو اشکال وارد کیا گیا ہے وہ دراصل یہ ہے کہ حضرت مریم کی والدہ حنہ مریم کے پیدا ہوچکنے کے بعد ان کے اور ان کی ذریت کے لیے خدا سے پناہ کی طلبگار ہوئی تھیں، جیسا کہ الفاظِ قرآنی شاہد ہیں:
فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثی وانی سمیتھا مریم وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم۔ (۱۲۶)
پس حدیث مذکور مریم علیہ السلام پر صادق نہیں آتی کیونکہ حدیث میں مریم کے لیے مس شیطان کا استثناء حین الولادت ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ان کے لیے دعائے حفاظت ان کی ماں نے بعد الولادت کی ہے لہٰذا ان کا استثناء کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ اس وجہ سے بعض راویوں نے حدیث سے مریم کا نام نکال دیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ میں حدیث مذکور بایں الفاظ وارد ہے:
کل بنی اٰدم یطعن الشیطن فی جنییہ باصبعہ حین یولد غیر عیسی ابن مریم ذھب یطعن فطعن فی الحجاب۔ (۱۲۷)
لیکن آیت قرآنیہ میں چونکہ مریم اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں کے لیے دعاء اور پھر اس کی قبولیت کا ذکر آیا ہے۔ اس لیے آیت کی مصداق وہی حدیث ٹھہرتی ہے جو صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۂ آل عمران میں مذکور ہے پھر قابلِ غور یہ امر رہ جاتا ہے کہ اس میں مس شیطان سے کیا مراد ہے؟ گو یہ صحیح ہے کہ عربی زبان میں لفظ شیطان کے بہت سے معنی آتے ہیں۔ اور عرب ہر بری چیز کا انتساب شیطان کی طرف کرتے ہیں۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ کلامِ عرب میں مس شیطان سے مراد تکلیف اور مرض بھی ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآنِ مجید میں ہے:

اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یتخَبَّطُہُ الشیطن مِنَ الْمَس۔ (۱۲۸)

(بقرہ) یہاں مس شیطان سے مراد مرض صرع (جنون) ہے یا حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا میں آیا ہے انِّیْ مسنی الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ(۱۲۹)۔ یہاں بھی مس شیطان سے مراد مرض اور ضرر ہے جیسا کہ خود دوسری آیت میں انہیں ایوب علیہ السلام کی دعا میں وارد ہے:
اِنِّیْ مَسَّیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔(۱۳۰) (انبیاء)
----------
(۱۲۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۷نوٹ: یہ روایت دراصل دیلمی کی ہے حافظ ابن حجر نے ’تسدید القوس‘ کے نام سے جو دیلمی کی روایات کی اسناد بیان کرنے کا التزام کیا ہے۔ اس کے صفحہ ۳۳۵جلد چہارم میں اس کی سند جو بیان کی گئی ہے اس میں حضرت عکرمۃ سے بیان کرنے والے سلمۃ بن وھرام راوی ہیں جنہیں آئمہ جرح و تعدیل نے مجروح قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ منکر روایات بیان کرتا ہے امام ابوداؤد نے ضعیف کہا ہے ، میزان ص۱۹۳، ج۳اور سلمہ سے راوی زمعہ بن صالح ہیں امام ابن حبان کا کہنا ہے جب سلمہ سے زمعہ راوی روایت کرے تو تب سلمہ کی روایت پر اعتبار نہ کیا ہے۔ تہذیب ص۱۴۲،ج۴طبعہ جدید، اور خود زمعہ کی حمھور محدثین کرام نے تضعیف کی ، تفصیل کے لیے دیکھئے تہذیب التھذیب ص۳۳۸، ج۳، حافظ ابن حجر تہذیب کے خلاصہ میں راویوں کے متعلق نہایت عمدہ فیصلہ کرتے ہیں انہوں نے بھی زمعہ کی تضعیف کی ہے، تقریب التہذیب ص۸۲اس سے نیچے کی سند قدرے تسلی بخش ہے، خلاصہ یہ کہ جس روایت میںتین راوی مجروح ہوں اس کے ضعیف و معلول ہونے میں کیا کلام ہوسکتاہے،علامہ شوکانی نے ، الفوائد المجموعہ ص۲۵۳میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، ابو صہیب

(۱۲۳) پ ۲۲فاطر ۱۰

(۱۲۴) طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد ص۸۵، ج۸کتاب الادب باب فی التواضع وقال الھیثمی اسناد حسن

(۱۲۵) صحیح بخاری ص۴۸۸، ج۱کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ تعالٰی واذکر فی الکتاب مریم و صحیح مسلم ص۲۶۵، ج۲کتاب الفضائل باب فضائل عیٰسی و مشکوٰۃ ص۱۸کتاب الایمان باب الوسوسۃ

(۱۲۶) الایہ پ۳اٰل عمران ۳۶

(۱۲۷) صحیح بخاری ص۴۶۴،ج۱کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ و مصابیح ص۲۸،ج۴و مشکوٰۃ ص۵۰۹فی الانبیاء

(۱۲۸) پ۳ البقرہ ۲۷۵

(۱۲۹) پ۲۳ص ۴۱

(۱۳۰) پ۱۷الانبیاء ۸۳
 
Top