• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد بن مسلم بن تدرس ابو الزبیر القرشی

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
الاسم : محمد بن مسلم بن تدرس القرشى الأسدى ، أبو الزبير المكى ، مولى حكيم بن حزام

الطبقة : 4 : طبقة تلى الوسطى من التابعين

الوفاة : 126 هـ

روى له : خ م د ت س ق (البخاري - مسلم - أبو داود - الترمذي - النسائي - ابن ماجه)


معدلین
1 - امام عطاء بن ابی رباح (المتوفی 114) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كُنَّا إِذا خرجنَا من عِنْد جَابر بن عبد الله تَذَاكرنَا حَدِيثه وَكَانَ أَبُو الزبير أحفظنا للْحَدِيث» ترجمہ: ”ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے نکل کر آپ کی احادیث کا مذاکرہ کیا،توابوالزبیر ان احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔“(العلل الصغير للترمذي: ص 756، وإسناده حسن) (العلل ومعرفة الرجال لأحمد، رواية عبد الله: 1/139) (تاريخ ابن أبي خيثمة، السفر الثالث: 1/236)

* امام ابو زبیر خود فرماتے ہیں: «كَانَ عَطاء يقدمني إِلَى جَابر بن عبد الله أحفظ لَهُم الحديث» ترجمہ: ”عطاء بن ابی رباح مجھے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے آگے کرتے تھے، تاکہ میں ان کے لیے حدیث یاد کرلوں۔“(العلل الصغير للترمذي ص 756، وإسناده صحيح) (العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية عبد الله: 1/140)

2 - امام یعلی بن عطاء (المتوفی 120) رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: «حَدَّثني أَبُو الزبير المكي وكان أكمل الناس عقلا وأحفظهم» ترجمہ: ”ابو الزبیر المکی نے مجھے حدیث بیان کی، اور وہ عقل کے معاملے میں لوگوں میں سب سے کامل شخص تھے اور ان میں سب سے بڑے حافظ تھے۔“(الكامل لابن عدي: 7/287)

3 - امام محمد بن سعد کاتب الواقدی (المتوفی 230) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كَانَ ثِقَةً كَثِيرَ الْحَدِيثِ إِلَّا أَنَّ شُعْبَةَ تَرَكَهُ لِشَيْءٍ زَعَمَ أَنَّهُ رَآهُ فَعَلَهُ فِي مُعَامَلَةٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ النَّاسُ» ترجمہ: ”وہ ثقہ کثیر الحدیث تھے الا یہ کہ شعبہ نے ان کو کسی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے ابو زبیر کو (عام) معاملات میں کچھ کرتے دیکھا تھا (جو شعبہ کو پسند نہیں آیا)۔ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔“(الطبقات الكبري لابن سعد: 6/30)

4 - امام ایوب سختیانی (المتوفی 131) رحمہ اللہ سے امام ترمذی وغیرہ نقل کرتے ہیں کہ: «حَدثنَا بن أبي عمر حَدثنَا سُفْيَان قَالَ سَمِعت أَيُّوب السّخْتِيَانِيّ يَقُول حَدثنِي أَبُو الزبير وَأَبُو الزبير وَأَبُو الزبير قَالَ سُفْيَان بِيَدِهِ يقبضهَا»
ترجمہ: ”(محمد بن یحیی) بن ابی عمر نے ہمیں بیان کیا کہ سفیان (بن عیینہ) نے ہمیں بیان کیا کہ میں نے ایوب السختیانی کو کہتے سنا کہ ہم سے ابو الزبیر نے حدیث بیان کی ، اور ابو الزبیر اور ابو الزبیر،اور ابوالزبیر۔ سفیان اپنا ہاتھ پکڑ کر یہ کہہ رہے تھے۔“(العلل الصغير للترمذي: ص 756) (المعرفة والتاريخ: 2/23)

امام ترمذی اس کی تشریح میں کہتے ہیں: «إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ الإتقان وَالْحِفْظ» ترجمہ: ”سفیان بن عیینہ اس کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حفظ حدیث اورروایتِ حدیث میں ابو الزبیر ایوب کے نزدیک قوی اور پختہ ہیں۔“

اسی طرح المعرفہ والتاریخ میں اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے محمد بن یحیی بن ابی عمر فرماتے ہیں: «أي يوثقه» ترجمہ: ”یعنی ایوب ان کی توثیق کرتے تھے۔“

حالانکہ امام ایوب کے اس قول سے بعض لوگوں نے تضعیف بھی مراد لی ہے لیکن دکتور احمد معبد عبد الکریم نے اپنی کتاب ألفاظ وعبارات الجرح والتعديل میں بڑی تفصیل اور قرائن کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں توثیق ہی مراد ہے۔ دیکھیں ألفاظ وعبارات الجرح والتعديل ص 62-72

5 - امام علی بن عبد اللہ المدینی (المتوفی 234) رحمہ اللہ نے فرمایا: «ثقه ثَبت» (سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص 87)

6 - عثمان بن سعید الدارمی، ابن ابی خیثمہ، اسحاق بن منصور اور ابن ابی مریم روایت کرتے ہیں کہ امام یحیی بن معین (المتوفی 233) رحمہ اللہ نے فرمایا: «أَبو الزُّبَير صاحب جابر ثِقَةٌ» ترجمہ: ”جابر رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابو زبیر ثقہ ہیں۔“
(تاريخ ابن معين رواية الدارمي: ص 197) (تاريخ ابن أبي خيثمة السفر الثالث: 1/235) (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/76) (الكامل لابن عدي: 7/287)

* عباس الدوری کی روایت میں امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: «أَبو الزُّبَير أَحبُّ إِليَ مِن أَبي سُفيان» ترجمہ: ”ابو زبیر مجھے ابو سفیان (طلحہ بن نافع) سے زیادہ محبوب ہیں۔“ اور دوسری جگہ فرمایا: «أَبو الزُّبَير، لم يسمع مِن عَبد الله بن عَمرو بن العاص » ترجمہ: ”ابو زبیر نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے کچھ نہیں سنا۔“(تاريخ ابن معين رواية الدوري: 3/89 # 374، 3/135 # 566)

* ایک دوسری جگہ دارمی کہتے ہیں میں نے یحیی بن معین سے پوچھا: «مُحَمد بن المُنكَدِر أَحبُّ إليكَ عن جابر، أَو أَبو الزُّبَير؟» ترجمہ: ”جابر سے روایت میں آپ کو محمد بن منکدر زیادہ پسند ہیں یا ابو زبیر؟“ آپ نے فرمایا: «ثِقَتانِ» ترجمہ: ”دونوں ہی ثقہ ہیں۔“(تاريخ ابن معين رواية الدارمي: 1/203)

7 - امام احمد بن حنبل (المتوفی 241) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أبو الزبير، ليس به بأس» ترجمہ: ”ابو زبیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔“ (العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية عبد الله: 2/480 # 3152)

* ابن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا: «فأبو الزبير (هو حجة في الحديث)؟» ترجمہ: ”کیا ابو زبیر حدیث میں حجت ہیں؟“ فرمایا: «نعم هو حجة» ترجمہ: ”ہاں وہ حجت ہیں۔“ (سؤالات ابن هاني (2348) بحوالة موسوعة أقوال الإمام أحمد: 3/311)

* ابو بکر المروزی فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا: «يحْتَج بِحَدِيث أبي الزبير؟» ترجمہ: ”کیا ابو زبیر کی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے؟“ فرمایا: «أَبُو الزبير يروي عَنهُ , ويحتج بِهِ» ترجمہ: ”ابو زبیر سے روایت کی جاتی ہے اور ان سے حجت پکڑی جاتی ہے۔“ (العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية المروزي: 1/111 # 181)

8 - امام نسائی (المتوفی 303) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ثقة» (تهذيب الكمال للمزي: 26/409)

9 - امام مالک بن انس المدنی (المتوفی 179) رحمہ اللہنے اپنی موطا میں ابو زبیر سے کئی روایات لی ہیں۔ اور امام مالک اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے تھے۔

10 - امام مسلم بن الحجاج النیشابوی (المتوفی 261) رحمہ اللہنے اپنی صحیح میں ابو زبیر سے بے شمار احادیث لی ہیں اور ان سے حجت پکڑی ہے۔

11 - امام ابو زبیر پر سب سے اعدل اور انصاف پر مبنی قول امام ابن عدی الجرجانی (المتوفی 365) رحمہ اللہ کا ہے جنہوں نے فرمایا: «وللثوري، عَن أَبِي الزبير غير ما ذكرت من الحديث من المشاهير والغرائب وقد حدث عنه شُعْبَة أَيضًا أحاديث إفرادات كل حديث ينفرد به رجل عن شُعْبَة ولزهير، عَن أَبِي الزبير عن جابر نسخة ولحماد بن سلمة، عَن أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أحاديث وروى هشيم، عَن أَبِي الزبير عن جابر أحاديث وروى بن عُيَينة عنه أحاديث وروى بن جُرَيج، عَن أَبِي الزبير نسخة وروى مالك، عَن أَبِي الزبير أحاديث وكفى بأبي الزبير صدقا إن حديث عنه مالك فإن مَالِكًا لا يَرْوِي إلاَّ عَنْ ثقة، ولاَ أعلم أحدا من الثقات تخلف، عَن أَبِي الزبير إلاَّ قد كتب عنه، وَهو فِي نفسه ثقة إلاَّ أن يروي عنه بعض الضعفاء فيكون ذَلِكَ من جهة الضعيف، ولاَ يكون من قبله، وأَبُو الزبير يروي أحاديث صالحة ولم يتخلف عنه أحد، وَهو صدوق وثقة لا بأس به» ترجمہ: ”سفیان الثوری کی ابو زبیر سے میری ذکر کردہ احادیث کے علاوہ بھی احادیث ہیں جن میں مشہور اور غریب سب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شعبہ نے بھی ان سے کچھ منفرد احادیث نقل کی ہیں اور ہر حدیث کی روایت میں میں ان سے ایک راوی منفرد ہے۔ زہیر (بن معاویہ) نے ابو زبیر سے احادیث کا ایک نسخہ نقل کیا ہے، حماد بن سلمہ نے بھی زبو زبیر سے احادیث نقل کی ہیں، ہشیم نے ابو زبیر سے احادیث نقل کی ہیں، ابن عیینہ نے ان سے احادیث نقل کی ہیں، ابن جریج نے ان سے احادیث کا ایک نسخہ نقل کیا ہے، اور مالک بن انس نے بھی ان سے احادیث نقل کی ہیں۔ اور ابو زبیر کی سچائی (اور تحسینِ حدیث) کے لئے تو یہی کافی ہے کہ امام مالک نے ان سے روایت کی ہے کیونکہ امام مالک اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے۔ اور میں کسی ایسے ثقہ عالم کو نہیں جانتا جو ابو زبیر کے بعد آئے اور ان سے حدیث نہ لکھی ہو۔ ابو زبیر فی نفسہ ثقہ ہیں لیکن ان سے بعض ضعیف لوگ بھی روایت کرتے ہیں اور ان کی حدیث میں ضعف ان ضعیف لوگوں کی وجہ سے آتا ہے اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ابو زبیر نے صالح احادیث نقل کی ہیں اور ان سے کسی نے کنارہ کشی نہیں کی ہے اور وہ صدوق ثقہ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔“(الكامل لابن عدي: 7/291)

12 - امام ابو الحسن العجلی (المتوفی 261) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «تابعي، ثقة» (الثقات للعجلي: ص 413 # 1502)

13 - امام ابن حبان (المتوفی 354) رحمہ اللہنے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور فرمایا: «كَانَ من الْحفاظ.... وَلم ينصف من قدح فِيهِ» ترجمہ: ”وہ حفاظ میں سے تھے۔۔۔۔ اور جس نے بھی ان پر جرح کی ہے اس نے انصاف نہیں کیا۔“(الثقات لابن حبان: 5/351-352 ت 5165)

14 - امام زکریا بن یحیی الساجی (المتوفی 307) رحمہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: «صدوق حجة في الاحكام قد روى عنه أهل النقل وقبلوه واحتجوا به» ترجمہ: ”ابو زبیر احکام (کی روایات) میں صدوق وحجت ہیں (یعنی باقی روایات میں بالاولی ثقہ وحجت ہیں)۔ ان سے اہل نقل نے روایات بیان کی ہیں اور ان کی روایات کو انہوں نے قبول کیا ہے اور ان سے حجت لی ہے۔“(الإكمال: 10/337)

15 - امام ابن عبد البر (المتوفی 463) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «تكلم فيه جماعة ممن روى عنه، ولم يأت واحد منهم بحجة توجب جرحه، وقد شهدوا له بالحفظ، وهو عندي من ثقات المحدثين» ترجمہ: ”ان سے روایت کرنے والوں میں سے ایک جماعت نے ان پر جرح کی ہے لیکن ان میں سے ایک بھی کوئی ایسی دلیل لانے پر کامیاب نہ ہو سکا جس سے ان پر جرح واجب ہوتی ہو، باوجودیکہ انہوں نے ان کے (پختہ) حفظ کی شہادت دی ہے، اور وہ میرے نزدیک ثقہ محدثین میں سے ہیں۔“(الإستغناء لابن عبد البر: 2/258)
اس کے بعد امام ابن عبد البر نے تمام جروح کا ذکر کر کے ان کا رد کیا ہے۔

16 - امام ابو زکریا محیی الدین النووی (المتوفی 676) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهو تابعى، سمع جابرًا وأكثر الرواية عنه ....... واتفقوا على توثيقه ....... روى له مسلم فى صحيحه محتجًا به، وروى له البخارى مقرونًا به غير محتج به على انفراده، ولا يقدح ذلك فى أبى الزبير، فقد اتفقوا على توثيقه والاحتجاج به» ترجمہ: ”وہ تابعی ہیں، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور سب سے زیادہ روایات بھی انہی سے لی ہیں۔۔۔۔ ان کی توثیق پر اتفاق ہے۔۔۔۔ مسلم نے ان سے اپنی صحیح میں بطور حجت احادیث لیں ہیں اور بخاری نے ان سے ایک دوسرے راوی کو ملا کر روایت لی ہے اور ان کے انفراد سے بطور حجت روایت نہیں لی لیکن یہ ابو زبیر کو قادح نہیں ہے کیونکہ محدثین کا ان کی توثیق اور ان سے حجت لینے پر اتفاق ہے۔“(تهذيب الأسماء واللغات للنووي: 2/232)

17 - امام ذھبی (المتوفی 748) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حافظ ثقة» (الكاشف للذهبي: 2/216 ت 5149)

* ایک دوسری جگہ امام ذہبی فرماتے ہیں: «الإِمَامُ، الحَافِظُ، الصَّدُوْقُ» (سير أعلام النبلاء: 5/380)

* ایک دوسری جگہ امام ذہبی نے فرمایا: «ثقة تكلم فيه شعبة» (من تكلم فيه وهو موثق للذهبي: ص 472)

18 - حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «صدوق إلا أنه يدلس» ترجمہ: ”صدوق (یعنی حسن الحدیث) ہیں لیکن تدلیس کرتے ہیں۔“(تقريب التهذيب: ص 895 ت 6331)
نوٹ: ان کی تدلیس پر بحث آگے آئے گی، ان شاء اللہ

* ایک دوسری جگہابو الزبیر کی ایک روایت پر حکم لگاتے ہوئے ابن حجر نے فرمایا: «رِجَالُهُ ثِقَاتٌ» ترجمہ: ”اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔“(التلخيص الحبير لابن حجر: 1/478)

جارحین:

1 - سوید بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ امام شعبہ بن الحجاج (المتوفی 160) رحمہ اللہ نے فرمایا: «تأخذ عن أبي الزبير هو لا يحسن أن يصلى؟» ترجمہ: ”تم ابو زبیر سے روایت لیتے ہو جبکہ وہ نماز ٹھیک سے نہیں پڑھتے۔“(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/75)

امام شعبہ کی یہ جرح مجمل اور بلا حجہ ہے۔ نماز ٹھیک سے نہ پڑھنے کا حدیث میں ثقاہت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دکتور صالح بن احمد رضا کہتے ہیں کہ جہاں تک نماز میں کوتاہی اور اس میں عدم احسان کا تعلق ہے تو یہ ایک امر نسبی ہے۔ ممکن ہے کہ شعبہ نے ان امور کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا ہو کیونکہ آپ ان عبادت گزار لوگوں میں سے تھے جو اتنی کثرت سے نماز ادا کیا کرتے تھے کہ ان کی جلد نرم ہو جاتی تھی اور آپ ان لوگوں میں سے تھے جو نماز کی ادائیگی میں حد درجہ احسان کیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو نماز میں شعبہ کے مثل نہیں ہے مردود الروایہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ایسا سوچنا معقول ہے کہ امام ابو الزبیر التابعی جو مکہ المکرمہ میں رہے اور نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھتے تھے۔

* نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ میں نے ہشیم کو کہتے سنا کہ: «سمعت من أبى الزبير، فأخذ شعبة كتابي فمزقه» ترجمہ: ”میں نے ابو زبیر سے احادیث سن رکھی تھیں، تو شعبہ نے میری (ان احادیث پر مشتمل) کتاب کو پکڑا اور اسے پھاڑ دیا۔“ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/75)

حالانکہ خود شعبہ نے بھی ابو الزبیر سے احادیث سنی اور روایت بھی کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شعبہ خود بھی ابو الزبیر کو ثقہ تسلیم کرتے تھے لیکن انہوں نے ابو زبیر پر جرح صرف ان کی چند ذاتی عادات کی بنا پر کی ہے جو ان کے میعار میں ٹھیک نہیں تھیں۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ امام شعبہ رجال کے معاملے میں کتنے متشدد ہیں۔

*
ورقاء کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے پوچھا: «ما لك تركت حديث أبي الزبير؟» ترجمہ: ”کیا وجہ ہے کہ آپ نے ابو الزبیر کی حدیث ترک کردی ہے؟“ فرمایا: «رأيته يزن ويسترجح في الميزان» ترجمہ: ”میں نے انہیں (کچھ) تولتے ہوئے دیکھا اور آپ میزان میں کمی بیشی کر رہے تھے۔“(الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/130)

امام شعبہ کا یہ قول بھی ان کے دیگر اقوال کی طرح بلا حجہ ہے اور اس کا روایتِ حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ اس قول کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «لم يستحق الترك من أجله» ترجمہ: ”اس عمل سے وہ ترک کر دیے جانے کے مستحق نہیں ہوتے۔“ (الثقات: 5/352)

* ایک دوسری جگہ امام ابو داؤد الطیالسی روایت کرتے ہیں کہ امام شعبہ نے فرمایا: «بينا أنا جالس عنده، إذ جاء رجلٌ، فسأله عن مسألة، فردّ عليه، فافترى عليه، فقلت له: يا أبا الزبير، أتفتري على رجل مسلم؟ قال: إنه أغضبني. قلت: ومن يغضبك تفقري عليه، لا رويت عنك حديثًا أبدًا» ترجمہ: ”میں ایک دن ابو الزبیر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور ان سے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے جواب دیا اور ساتھ میں اس کی عیب گوئی کی، تو میں نے ان سے کہا: اے ابو الزبیر کیا آپ ایک مسلمان پر عیب گوئی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس نے مجھے غصہ دلایا ہے۔ میں نے کہا: جو کوئی بھی آپ کو غصہ دلائے کیا آپ اس کی عیب گوئی کریں گے؟ میں آئیندہ آپ سے کبھی کوئی حدیث روایت نہیں کروں گا۔“(الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/130)

یاد رہے کہ یہ امور خاص ہوتے ہیں اور انسان کی طبیعت کا روایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ امام شعبہ نے خود بھی کبھی ان کی روایت پر طعن نہیں کیا بلکہ آپ خود ان سے روایت لیتے تھے۔
اس کے علاوہ امام شعبہ نے ابو الزبیر کے الفاظ بیان نہیں کیے ہیں جو انہوں نے اس شخص کو کہے ہیں اور الفاظ کی عدم موجودگی پر محض شعبہ کے نقطہ نظر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا کلمہ کہا ہو جسے شعبہ بُرا سمجھتے ہوں جبکہ باقی لوگ ان کی موافقت نہ کریں اسی لئے فقہاء کرام کہا کرتے ہیں کہ:«إذا قال الشاهد: أشهد أنّ فلانًا قذف فلانًا، لم يقبل حتى يفسر» ترجمہ: جب کوئی گواہ کہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں نے فلاں کو بُرا بھلا کہا تو اس کی بات کو قبول نہ کیا جائے جب تک وہ تفصیل نہ بیان کرے۔

مزید یہ کہ اس قول کو ابو الزبیر کی طرف منسوب کرنے میں امام عقیلی سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ امام شعبہ کا بالکل یہی قول امام ابن عدی نے ”محمد بن الزبیر التمیمی“ کے ترجمہ میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بھی اس قول کو محمد بن الزبیر التمیمی کی طرف منسوب کیا ہے۔ دونوں کے نام ایک جیسے ہونے کی وجہ سے شاید یہ غلطی سرزد ہوئی ہے لہٰذا امام شعبہ کا یہ قول امام ابو الزبیر کی بجائے محمد بن الزبیر (متروک) کے لئے ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب:«النكت الجياد المنتخبة من كلام شيخ النقاد ذهبي العصر العلامة عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني» ص 563 - 570

2 - نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ میں نے امام سفیان بن عیینہ (المتوفی 198) رحمہ اللہ کو کہتے سنا: «حدثنا أبو الزبير وهو أبو الزبير. أي كأنه يضعفه» ترجمہ: ”ابو الزبیر نے ہمیں حدیث بیان کی اور وہ ابو الزبیر ہیں، یعنی گویا کہ انہوں نے ان کی تضعیف کی۔“(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/75)

امام سفیان کے کلام سے یہ تضعیف ظاہر نہیں ہے بلکہ نعیم بن حماد نے كأنه کے زریعے خود یہ نتیجہ نکالا ہے۔ اس کے برعکس دیگر ائمہ ایوب کے انہی الفاظ کو توثیق پر مبنی کرتے ہیں خاص کر جب سفیان خود بھی ابو الزبیر سے روایات لیتے ہیں۔ اور اگر اس قول کو تضعیف بھی تصور کیا جائے تو یہ تضعیف مجمل اور غیر مفسر ہے اور اُس کے ساتھ یہ دیگر حفاظ وائمہ جرح وتعدیل کی واضح توثیق کے خلاف بھی ہے۔

3 - امام شافعی (المتوفی 204) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أبو الزبير يحتاج إلى دعامة» ترجمہ: ”ابو الزبیر کو سہارے کی ضرورت ہے۔“(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/76)
ذھبی العصر علامہ معلمی اس قول کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «ومعنى ذلك أن فيما انفرد به نكارة» ترجمہ: اس کا معنی ہے کہ جس روایت میں ابو الزبیر منفرد ہیں اس میں نکارت پائی جاتی ہے۔ (عمارۃ القبور: ص 205-219)۔

امام شافعی کی یہ جرح درج ذیل وجوہ کی بنا پر مردود ہے:
1. دیگر محدثین کی متفقہ توثیق کے خلاف ہے۔ اور ان کا قول ہی مقدم ہے۔
2. امام شافعی کی یہ جرح مجمل وغیر مفسر ہے۔
3. امام شافعی کی جلالت وامامت کے باوجود، جن لوگوں نے ابو الزبیر کی توثیق کی ہے وہ جرح وتعدیل کے علم میں امام شافعی سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں۔
4. امام شافعی نے خود بھی ابو الزبیر کی احادیث سے حجت لی ہے۔

4 - امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو زرعۃ الرازی (المتوفی 264) رحمہ اللہ سے ابو الزبیر کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: «روى عنه الناس. قلت يحتج بحديثه؟ قال: انما يحتج بحديث الثقات» ترجمہ: ”ان سے لوگ روایت کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا ان کی حدیث سے حجت لی جائے گی؟ فرمایا: حجت صرف ثقہ لوگوں کی حدیث سے لی جاتی ہے۔“(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/76)

امام ابو زرعہ کا یہ قول مجمل وغیر مفسر ہے۔ اور دیگر ائمہ کی واضح توثیق کے بالکل خلاف ہے، لہٰذا مردود ہے۔
بلکہ امام ابو زرعہ کے اس قول سے مراد انہیں حسن الحدیث کہنا ہے۔ کیونکہ ایک دوسری روایت میں ابو سفیان کے ترجمہ میں ابن ابی حاتم نے ابو زرعہ سے پوچھا: آپ کو ابو الزبیر زیادہ محبوب ہیں یا ابو سفیان؟ تو آپ نے فرمایا ابو الزبیر۔ اس پر امام ابن ابی حاتم نے ان سے پوچھا: «تريد أن أقول هو ثقة؟» ترجمہ: ”کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں؟“ فرمایا: «الثقة سفيان وشعبة» ترجمہ: ”الثقہ تو صرف سفیان (الثوری) اور شعبہ ہیں۔“ (الجرح والتعديل: 4/475)۔ یعنی آپ نے انہیں صرف سفیان اور شعبہ کے رتبے کے بالمقابل ثقہ نہیں کہا حالانکہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام ابو زرعہ نے دراصل جرح نہیں کی ہے بلکہ تضعیف نسبی کی ہے جو ثقہ ہونے کے منافی نہیں ہے۔

5 - امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام ابو حاتم الرازی (المتوفی 277) رحمہ اللہ سے ابو الزبیر کے متعلق پوچھا، تو آپ نے فرمایا: «يكتب حديثه ولا يحتج به وهو أحب إلى من ابى سفيان طلحة بن نافع» ترجمہ: ”ان کی حدیث لکھی جائے گی لیکن ان سے حجت نہیں لی جاتی، اور وہ مجھے ابو سفیان طلحہ بن نافع سے زیادہ محبوب ہیں۔“(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/76)

یہ جرح درج ذیل وجوہ کی بنا پر مردود ہے:
1- امام ابو حاتم متشدد ہیں اور معتبر توثیق کے خلاف ان کی جرح قابلِ قبول نہیں ہے۔
2- امام ابو حاتم نے یہ الفاظ دیگر کئی ثقہ حفاظ اور صحیحین کے راویوں کے متعلق بھی کہے ہیں۔ اور ان کے یہ الفاظ راوی کے حسن الحدیث ہونے کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک حجت کا میعار کافی اونچا تھا اور وہ اسے ثقہ سے بھی اونچے رتبے پر رکھتے تھے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وأما قول أبي حاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به، فأبو حاتم يقول هذا في كثير من رجال الصحيحين، وذلك أن شرطه في التعديل صعب، والحجة في اصطلاحه ليس هو الحجة في اصطلاح جمهور أهل العلم» ترجمہ: ”اور جہاں تک ابو حاتم کے قول یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ کی بات ہے تو ابو حاتم نے یہ الفاظ صحیحین کے کئی رجال کے متعلق بھی کہے ہیں اور ایسا اس لئے کہ ان کے نزدیک تعدیل کی شرط کافی سخت ہے اور ان کی اصطلاح میں لفظ حجت جمہور اہل علم کی اصطلاح جیسا نہیں ہے۔“ (مجموع الفتاوي: 24/350)۔
اور حافظ زیلعی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وقول أبي حاتم: لا يحتج به، غير قادح فإنه لم يذكر السبب، وقد تكررت هذه اللفظ منه في رجال كثيرين من أصحاب الصحيح الثقات الأثبات من غير بيان السبب؛ كخالد الحذاء وغيره، والله أعلم» ترجمہ: ”ابو حاتم کا لا یحتج بہ کہنا غیر قادح ہے کیونکہ انہوں نے سبب ذکر نہیں کیا ہے اور یہ لفظ ان سے کئی اصحاب الصحیح اور ثقہ ثبت راویوں کے لئے بغیر بیان السبب کے نکلا ہوا ہے جیسے خالد الحذاء وغیرہ، واللہ اعلم۔“ (نصب الراية: 2/439)
اسی طرح شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قول أبي حاتم: لا يحتج به، هو في الحقيقة أنه يساوي حسن الحديث إذا لم يكن هناك من ضعفه تضعيفاً مطلقاً...»ترجمہ: ”ابو حاتم کا لا یحتج بہ کہنا حقیقت میں حسن الحدیث کہنے کے مساوی ہے جب اس کے خلاف کسی کی مطلق تضعیف موجود نہ ہو۔“

6 - امام یعقوب بن شیبۃ (المتوفی 262) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ثقة صدوق وإلى الضعف ما هو» ترجمہ: ”وہ ثقہ صدوق ہیں اور ضعف سے زیادہ دور نہیں ہیں۔“(تهذيب الكمال للمزي: 26/408)

اس قول میں ثقہ صدوق سے امام یعقوب بن شیبہ کی غالبا مراد ان کی عدالت سے ہے اور باقی جملہ ضبط کے متعلق ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال یہ قول بھی مجمل اور غیر مفسر ہے اور دیگر ائمہ کی واضح توثیق کے خلاف ہے، لہٰذا مردود ہے۔

امام ابو الزبیر اور تدلیس کا الزام

امام ابو الزبیر کے ثقہ حفاظ میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ بعض علماء نے ان پر تدلیس کا الزام بھی لگایا ہے۔ حالانکہ ابو الزبیر کے حالات اور ترجمہ کو کئی ائمہ متقدمین نے بیان کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کو مدلس نہیں کہا ہے۔ ان کو مدلس کہنے میں سب سے پہلے محدث امام نسائی (المتوفی 303) رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے انہیں اپنی مدلسین کے اسماء پر مشتمل تصنیف میں ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے فرمایا:
«ذكر المدلسين: الحسن، قتادة، حجاج بن أرطاة، حميد، سليمان التيمي، يونس بن عبيد، يحيي بن أبي كثير، أبو إسحاق، الحكم بن عتيبة، مغيرة، إسماعيل بن أبي خالد، أبو الزبير، ابن أبي نجيح، ابن جريج، ابن أبي عروبة، هشيم، سفيان بن عيينة.»

پھر ابن حزم رحمہ اللہ آئے اور انہوں نے امام لیث بن سعد والے مشہور قصہ کو بنیاد بنایا جسے امام عقیلی نے اپنی ضعفاء (4/132) میں اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ اور وہ قصہ درج ذیل ہے:
«عن الليث بن سعد قال : قدمت مكة ، فجئت أبا الزبير ، فدفع إلى كتابين ، وانقلبت بهما ، ثم قلت في نفسي : لو عاودته فسألته : أسمع هذا كله من جابر .فقال : منه ما سمعت ، ومنه ما حدثناه عنه .فقلت له : أعلم لي على ما سمعت .فأعلم لي على هذا الذي عندي» ترجمہ: ”امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے مکہ میں قدم رکھا تو ابو الزبیر کے پاس چلا آیا، وہ میرے پاس دو کتابیں لے کر آئے اور میں انہیں کھول کر دیکھنے لگا، پھر میں نے اپنے دل میں کہا: اگر ابو الزبیر واپس آئیں تو میں ان سے پوچھوں: کیا آپ نے یہ سب احادیث خود جابر سے سنی ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا: ان میں سے کچھ میں نے خود سنی ہیں اور کچھ ہمیں بالواسطہ ان سے ملی ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا: آپ مجھے ان احادیث کے بارے میں بتا دیں جو آپ نے خود سنی ہیں تو انہوں نے مجھے ان کی نشاندہی کر دی اور یہ وہی روایات ہیں جو آج میرے پاس ہیں۔“

پس امام ابن حزم نے اسی قصے سے احتجاج کرتے ہوئے امام ابو الزبیر کی تمام معنعن روایات کا انکار کر دیا جو لیث بن سعد کے طریق سے نہیں ہیں۔

حالانکہ اس عمل میں امام ابن حزم نے خود اپنے ہی قول کی مخالفت کی ہے جس میں انہوں نے ابو الزبیر کی تدلیس کو غیر مضر قرار دیا ہے چنانچہ آپ نے اپنی کتاب الاحکام میں ثقہ حفاظ مدلسین کی روایات کے متعلق فرمایا ہے کہ:

«أما المدلس فينقسم إلى قسمين أحدهما حافظ عدل ربما أرسل حديثه وربما أسنده وربما حدث به على سبيل المذاكرة أو الفتيا أو المناظرة فلم يذكر له سندا وربما اقتصر على ذكر بعض رواته دون بعض فهذا لا يضر ذلك سائر رواياته شيئا لأن هذا ليس جرحة ولا غفلة لكنا نترك من حديثه ما علمنا يقينا أنه أرسله وما علمنا أنه أسقط بعض من في إسناده ونأخذ من حديثه ما لم نوقن فيه شيئا من ذلك وسواء قال أخبرنا فلان أو قال عن فلان أو قال فلان عن فلان كل ذلك واجب قبوله ما لم يتيقن أنه أورد حديثا بعينه إيرادا غير مسند فإن أيقنا ذلك تركنا ذلك الحديث وحده فقط وأخذنا سائر رواياته وقد روينا عن عبد الرزاق بن همام قال كان معمر يرسل لنا أحاديث فلما قدم عليه عبد الله بن المبارك أسندها له وهذا النوع منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين كالحسن البصري وأبي إسحاق السبيعي وقتادة بن دعامة وعمرو بن دينار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة وقد أدخل علي بن عمر الدارقطني فيهم مالك بن أنس ولم يكن كذلك ولا يوجد له هذا إلا في قليل من حديثه أرسله مرة وأسنده أخرى»

ترجمہ: ”جہاں تک مدلس کی بات ہے تو وہ دو قسموں میں منقسم ہیں: پہلے وہ حفاظ عدل ہیں جو کبھی کبھار اپنی حدیث میں ارسال کر جاتے ہیں اور کبھی انہیں مسند بیان کر دیتے ہیں اور کبھی محض مذارکرہ یا فتوی دینے یا مناظرہ کی غرض سے حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کی سند ذکر نہیں کرتے یا اس کے صرف چند رواۃ کے ذکر پر ہی اکتفاء کرتے ہیں اور باقیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو ایسا کرنا ان کی تمام روایات کو ہرگز مضر نہیں ہے کیونکہ یہ جرح نہیں ہے اور نہ ہی غفلت ہے البتہ ہم ان کی ان احادیث کو ضرور ترک کر دیں گے جن کے متعلق ہمیں پکا یقین ہو جائے کہ انہوں نے اس میں ارسال کیا ہے یا یہ کہ انہوں نے اس کی سند کے بعض رواۃ کو ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم اُن کی اُن احادیث کو لیں گے جن میں ہمیں اِن میں سے کسی چیز کا بھی یقین نہ ہو۔ اُن کے لئے اخبرنا فلان کہنا یا عن فلان کہنا یا قال فلان عن فلان کہنا سب ایک برابر ہے اور واجبِ قبول ہے جب تک ہمیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ اُنہوں نے کوئی حدیث غیر مسند روایت کی ہے، پس اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے تو ہم ان کی صرف اُسی ایک روایت کو ترک کریں گے اور باقی تمام روایات کو ویسے ہی لیں گے۔ اور ہم نے امام عبد الرزاق بن ہمام سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ امام معمر بن راشد ہمیں بعض احادیث مرسلا روایت کرتے تھے تو جب امام عبد اللہ بن المبارک ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے اُن احادیث کو اُنہیں مسند کر کے بیان کیا۔ اور اس قسم کے مدلسین میں بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب الحدیث ائمہ مسلمین شامل ہیں جیسے حسن البصری، ابو اسحاق السبیعی، قتادہ بن دعامہ، عمرو بن دینار، سلیمان الاعمش، ابو الزبیر، سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، اور امام دارقطنی نے اس میں امام مالک کا نام بھی شامل کیا ہے حالانکہ وہ ایسے نہیں تھے اور نہ ہی ان سے ایسا کرنے کا ثبوت ملتا ہے سوائے گنتی کی چند احادیث میں جن کو انہوں نے مرسل بیان کیا اور دوسری ہی جگہ مسند بیان کر دیا۔“ (الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم: 1/41-42)
.
امام ابن حزم کا یہ قول جید ہے اور ائمہ متقدمین کے مذہب کے بھی موافق ہے لیکن پھر بھی انہوں نے لیث کی مذکورہ روایت کے لئے ابو الزبیر کی معنعن روایت جو لیث کے طریق سے نہ ہو کا انکار کیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کیا چیز ہے جو لیث کی روایت میں ان کے نزدیک خاص ہے کیونکہ یہ سب ائمہ جن کا ذکر امام ابن حزم نے تدلیس کے ساتھ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی تمام احادیث کو قبول کیا جائے گا چاہے کسی بھی صیغہ سے ہوں جب تک ہمیں یقین نہ ہو جائے کہ کوئی خاص روایت مدلس ہے، اگر ان میں سے کسی بھی امام کو پوچھا جاتا، کہ امام صاحب، اللہ آپ پر رحم کرے، کیا ہر حدیث جو آپ نے ہمیں روایت کی ہے وہ آپ نے خود سنی ہے؟ تو وہ بھی یہی کہتے: «منه ما سمعته ، ومنه ما حدثته» کہ ان میں سے کچھ میں نے خود سنی ہیں اور کچھ مجھے روایت کی گئی ہیں۔ ورنہ اگر میں نے ہر روایت خود سنی ہوتی تو کوئی مجھے مدلس ہی کیوں کہتا!!
.
لہٰذا ان سب میں اور امام ابو الزبیر میں کیا خاص فرق ہے کہ امام ابن حزم کے نزدیک اُن کی ہر معنعن روایت قبول ہوگی جب تک تدلیس کا ثبوت نہ آجائے اور ابو الزبیر کی ہر معنعن روایت رد ہو گی جو لیث کے طریق سے نہ ہو؟
.
بہرحال، امام ابن حزم کے بعد متاخرین محدثین آئے اور انہوں نے بحسب عادت ابو الزبیر کے ساتھ کلمہ «مشهور بالتدليس» [1] کا اضافہ کر دیا اور ان کے عنعنہ کو قبول و رد کا موضوع بنا دیا۔
.
پھر چند معاصرین علماء آئے اور ان کی صحیح مسلم میں موجود معنعن روایات تک کو بھی رد کر دیا۔
.
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو الزبیر پر اس معاملے میں بڑا ظلم ہوا ہے، خاص طور پر اس موجودہ زمانے میں، کہ ان کی طرف ایسی چیز منسوب کر دی گئی جس سے وہ پوری طرح برئ تھے، اور انہیں تدلیس کے ساتھ مشہور کر دیا گیا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ان سے تو اثباتِ تدلیس ہی بڑا مشکل ہے تو مشہور بالتدلیس ہونا تو بڑی دور کی بات ہے۔
.
اس معاملے میں کلام کو مختصرا، نمبر وار نیچے درج کیا جاتا ہے:

1- امام الحافظ شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ جو کہا کرتے تھے کہ «لئن أخر من السماء أحب إلي من أن أدلس» ترجمہ ”آسمان سے گِرنا مجھے تدلیس کرنے سے زیادہ محبوب ہے“ ۔ اور فرمایا: «لئن أزني أحب إلي من أن أدلس» اگر میں زنا کروں تو یہ مجھے تدلیس کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ [2]۔ اور امام شعبہ ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سماعات کی تحقیق کی اور تدلیس کے معاملے میں نہایت شدید موقف اپنایا۔ چنانچہ امام شعبہ نے ابو الزبیر پر کئی وجوہات کی بنا پر جرح کی ہے جیسے ان کے نماز کے طریقے پر اعتراض کرنا، اور ان کے تولنے میں کمی بیشی کرنے پر اعتراض کرنا وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ابو الزبیر کی تدلیس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا اور نہ اس پر ایک حرف بھی بولا ہے، حالانکہ باقی اقوال کی نسبت یہ ایک جائز وجہ ثابت ہو سکتی تھی ان پر جرح کی۔ آپ اس سے غفلت کیسے کر سکتے تھے؟
.
اگر کہا جائے کہ ہو سکتا ہے امام شعبہ کو ان کی تدلیس کا علم ہی نہ ہو۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں لیکن اگر ایسا ہوتا کہ امام شعبہ کے پاس ابو الزبیر کی احادیث تھی ہی نہیں تو شاید یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا، لیکن حقیقت میں حال یہ ہے کہ امام شعبہ خود فرماتے ہیں: «في صدري أربعمأئة لأبي الزبير عن جابر، والله لا أحدث عنك حديثا أبدا» ترجمہ: میرے سینے میں ابو الزبیر کی جابر کے طریق سے چار سو احادیث محفوظ ہیں لیکن اللہ کی قسم میں ان میں سے ایک بھی حدیث تمہیں بیان نہیں کرتا [3]۔
.
اور ابو الزبیر کی جابر سے روایات تحفۃ الاشراف (٢/٢٨٥-٣٥٥) میں موجود ہیں اور مکرر روایات کے ساتھ بھی وہ اس عدد سے کم ہیں۔
.
بحرحال مقصود یہاں یہ ہے کہ امام شعبہ ابو الزبیر کی جابر سے تمام احادیث سے خوب واقف تھے اور اگر ابو الزبیر سے ان میں سے کسی روایت میں تدلیس واقع ہوئی ہوتی تو امام شعبہ انہیں تدلیس کے ساتھ متصف کرتے اور انہیں تدلیس کے ساتھ مشہور کرتے جیسا کہ انہوں نے باقیوں کے ساتھ کیا ہے جن کی تدلیس متاخرین کے نزدیک ابو الزبیر سے بھی کم ہے!!!
.
اور پھر امام شعبہ سے یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ آپ کسی شیخ سے کوئی روایت نہیں لیتے سوائے اس کے جو اس کی خود کی سنی ہوئی ہوں، اور ان کے مذکورہ بالا قول کے مطابق انہوں نے ابو الزبیر کی جابر سے تقریبا ساری روایات نقل کی ہیں، گویا وہ سب کی سب ابو الزبیر کی مسموع ہیں! لہٰذا شعبہ کے معروف کے قاعدہ کی بنا پر ان روایات میں اصل یہی ہے کہ وہ مسموع ہیں، اگر ان میں سے بعض بھی غیر مسموع ہوتیں تو امام شعبہ ابو الزبیر کی اپنی جرح میں اس کی صراحت کر دیتے۔

2- امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو الزبیر کی جابر سے روایات کا ایک بڑا نسخہ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور ان میں ابو الزبیر کی وہ معنعن روایات بھی بکثرت ہیں لیث کے طریق سے نہیں ہیں۔ اور ان کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود امام مسلم نے ان سے حجت لی ہے اور انہیں صحیح کہا ہے جبکہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں کہا ہے: «وإنما كان تفقد من تفقد منهم سماع رواة الحديث ممن روى عنهم، إذا كان الراوي ممن عرف بالتدليس في الحديث، وشهر به، فحينئذ يبحثون عن سماعه في روايته، ويتفقدون ذلك منه كي تنزاح عنهم علة التدليس»ترجمہ: ”اور حقیقت یہی ہے کہ علماء نے حدیث کے راویوں کا ان کے اساتذہ سے سماع کی جستجو تبھی کی ہے جب کوئی راوی ان راویوں میں سے ہوتا جو حدیث میں تدلیس کے ساتھ معروف ہوتے اور ان کی شہرت اسی حوالے سے ہوتی۔ اس وقت وہ اس کی روایت میں سماع [کی تصریح] ڈھونڈتے اور اُس سے اِس [سماع] کو تلاش کرتے تا کہ اُن [راویوں] سے تدلیس کی علت زائل ہو جائے۔“
امام مسلم رجال کے معاملے میں حجت ہیں اور ان کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک ابو الزبیر مدلس نہیں تھے یا ان کی تدلیس بہت کم تھی۔

3- امام دارقطنی رحمہ اللہ نے صحیحین کی احادیث و اسانید کا استدراک کیا ہے لیکن ابو الزبیر کی معنعن احادیث میں سے ایک بھی حدیث پر اعتراض یا استدراک نہیں کیا۔ بلکہ الٹا ابو الزبیر کی مزید احادیث نہ روایت کرنے پر پر امام مسلم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں: «وبقي على مسلم من تراجم أبي الزبير حديث كثير» کہ مسلم نے ابو الزبیر کے تراجم سے کئی احادیث چھوڑ دی ہیں [یعنی روایت نہیں کی ہیں] [4]۔ اور آپ نے ابو الزبیر کی کسی بھی حدیث پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے سوائے ایک کہ اور اس پر بھی اعتراض تدلیس کا نہیں بلکہ روایت کے مرفوع یا موقوف ہونے پر شک ہونے کا کیا ہے۔ اسی طرح یہ بات حافظ ابو الفضل الہروی کے صحیح مسلم پر استدراک کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے ابو الزبیر کی ایک بھی حدیث پر تدلیس یا عنعنہ کی وجہ سے استدراک نہیں کیا ہے۔

4- ترمذی، ابن حبان، ابن خزیمہ، ابو داؤد، اور ابن الجارود وغیرہ جیسے تمام ائمہ حدیث نے ابو الزبیر کی تمام معنعن احادیث سے حجت لی ہے اور ان کی تصحیح کی ہے اور کبھی کسی روایت کو محض اس وجہ سے رد نہیں کیا ہے۔

5- امام بخاری، ابن ابی حاتم، عقیلی، ابن عدی، اور ابن حبان وغیرہ جیسے ائمہ نے ابو الزبیر کے تراجم لکھے ہیں لیکن انہوں نے بھی کبھی انہیں تدلیس سے متصف نہیں کیا، تو پھر وہ «مشهور بالتدليس» کیسے ہو سکتے ہیں، جبکہ سرے سے تدلیس کا ہی ذکر ان کے لئے نہیں کیا گیا، شہرت تو بڑی دور کی بات ہے، حالانکہ انہوں نے تو ایسے لوگوں کی تدلیس کا بھی ذکر کیا ہے جو تدلیس کے ساتھ مشہور نہیں تھے!!

6- امام نسائی جنہوں نے ابو الزبیر کو مدلسین کے ساتھ ذکر کیا ہے، انہوں نے بھی ابو الزبیر کی احادیث کا ایک بڑا مجموعہ اپنی سنن میں ذکر کیا ہے جن میں سے 65 کے قریب احادیث تو معنعن ہیں، اور اس کے باوجود انہوں نے ان میں سے کسی کو بھی تدلیس یا عدم سماع کی وجہ سے معلول قرار نہیں دیا ہے۔ جبکہ امام نسائی تو اپنی سنن میں ہمیشہ احادیث کی علل واختلافات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام نسائی کا انہیں تدلیس کے ساتھ متصف کرنے سے مراد ان کے عنعنہ کو رد کرنا نہیں تھا۔ کیونکہ ہر مدلس کا عنعنہ مردود نہیں ہوتا اس لئے ممکن ہے کہ امام نسائی کا انہیں مدلس کہنے سے مراد ان سے تدلیس کا مجرد ثبوت مراد ہو نہ کہ ان کے عنعنہ کا مردود ہونا۔

7- امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“

یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔ [5]

8- امام ابو الزبیر اہل حجاز میں سے ہیں۔ اور تدلیس کرنا ان کے طریقے میں شامل نہیں ہے۔ چنانچہ امام شافعی [6] فرماتے ہیں: «ولم نعرف بالتدليس ببلدنا فيمن مضي ولا من أدركنا من أصحابنا إلا حديثا» ترجمہ: ”ہمیں اپنے مُلک کے کسی بھی ماضی کے رجال اور ہمارے اصحاب میں جن کو ہم نے پایا سے تدلیس کرنا معلوم نہیں ہے۔“

امام حاکم [7] فرماتے ہیں: «أن أهل الحجاز والحرمين ومصر والعوالي ليس التدليس من مذهبهم» ترجمہ: ”حجاز، حرمین، مصر اور اس کے عوالی کے لوگوں میں تدلیس کرنا ان کا مذہب نہیں ہے۔“

اسی طرح امام خطیب بغدادی [8] فرماتے ہیں: «أصح طرق السنن ما يرويه أهل الحرمين مكة والمدينة فإن التدليس فيهم قليل والإشتهار بالكذب ووضع الحديث عندهم عزيز» ترجمہ: ”سنن کے طرق میں سے سب سے بہترین وہ ہے جسے اہل حرمین یعنی مکہ اور مدینہ والے نقل کرتے ہیں کیونکہ ان میں تدلیس بہت کم پائی جاتی ہے اور جھوٹ ووضع الحدیث ان میں نادر ہے۔“

9- تحقیق، تتبع اور استقراء: امام ابو الزبیر کی روایات کتب احادیث میں سب کے سامنے ہیں، لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ مدلس تھے [بمعنی تدلیس خاص] تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی ایک حدیث بھی ایسی لا کر دکھا دے جس کے متعلق ائمہ متقدمین نے کہا ہو کہ یہ مدلّس روایت ہے یا انہوں نے تحقیق کے بعد یہ واضح کیا ہو کہ انہوں نے کسی ضعیف شخص سے تدلیس کی ہے۔ حالانکہ اعمش، ہشیم، ابن جریج، اور ثوری وغیرہ جیسوں کے لئے آسان ہے کہ ان کی ایسی احادیث پیش کی جا سکیں جن کی انہوں نے مدلّس ہونے کی صراحت کی ہو یا کسی امام نے اس کی وضاحت کی ہو، یا تحقیق کے بعد ان کی تدلیس سامنے آ گئی ہو، لیکن ابو الزبیر کے لئے تو ایک حدیث بھی ایسی لانا مشکل ہے جو مدلّس ہو۔ ہم نے کتب السنہ، کتب علل، کتب سؤالات اور کتب رجال میں بہت بحث کی لیکن کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں کہا گیا ہو کہ ابو الزبیر نے اس میں تدلیس کی ہے [9]۔

10- امام لیث بن سعد کا جو قصہ نقل کیا جاتا ہے ابو الزبیر کی تدلیس ثابت کرنے کے لئے وہ بھی ان کی تدلیس پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ:
اولا: ابو الزبیر جب دو کتابیں لے کر آئے تو انہوں نے لیث سے یہ نہیں کہا کہ یہ دونوں تم مجھ سے روایت کرو۔ بلکہ روایت میں صرف یہی ہے کہ وہ دو کتابیں لے کر آئے۔

ثانیا: ابو الزبیر اپنے حافظے سے روایت کیا کرتے تھے نہ کہ کتاب سے، جیسا کہ کئی ائمہ نے ذکر کیا ہے۔
.
ثالثا: امام لیث بن سعد کی ابو الزبیر عن جابر سے روایات تیس سے زیادہ نہیں ہیں جیسا کہ ابن حزم وعبد الحق الاشبیلی وغیرہ نے صراحت کی ہے۔ جبکہ ابو الزبیر کی جابر سے روایات کئی سو کی تعداد میں ہیں، اور امام شعبہ نے کہا ہے جیسا اوپر گزرا ہے کہ: «في صدري أربعمائة لأبي الزبير عن جابر والله لا أحدث عنك حديثا أبدا» ترجمہ: ”میرے سینے میں ابو الزبیر کی جابر سے چار سو احادیث محفوظ ہیں لیکن واللہ ان میں سے ایک بھی حدیث میں تمہیں بیان نہیں کرتا“ ۔ اور اس کے علاوہ بھی ابو الزبیر کی جابر سے کئی روایات مصرح بالسماع ہیں جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لیث بن سعد کی ابو الزبیر سے روایات ان کی صرف بعض مسموعات ہیں، تمام نہیں! تو ان کی مرویات جو کئی سو کے حساب سے ہیں ان سب کا فیصلہ لیث کی روایت کی بنیاد پر کیسے کیا جا سکتا ہے جن کی ان سے روایات تیس سے اوپر بھی نہیں جاتی؟!

رابعا: اگر ہم اس روایت کے ظاہر کو بھی لیں تو امام لیث بن سعد رحمہ اللہ خود مدلس کہلانے کے زیادہ مستحق قرار پائیں گے کیونکہ روایت کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے لیث کی ابو الزبیر سے روایات بذریعہ مناولۃ ہیں اور بعض ائمہ مصحف یا کتاب سے بلا سماع لینے کو بھی تدلیس کہتے ہیں۔

11- اگر اس سب کے بعد ابو الزبیر کو مدلس تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ ابو الزبیر جابر سے روایت میں بہت مکثر ہیں۔ اور قاعدہ کے مطابق اگر مدلس اپنے کسی شیخ سے مکثر ہو تو اس کی روایت میں اصل اتصال ہوتا ہے جب تک انقطاع واضح نہ ہو جائے۔

12- اور اگر کہا جائے کہ ابو الزبیر نے تمام روایات جابر سے نہیں سنی ہیں بلکہ بالواسطہ روایت کی ہیں تو عرض ہے کہ ان کا یہ واسطہ معلوم ومعروف ہے۔ انہوں نے سلیمان الیشکری کے صحیفہ سے جابر کی روایات لی ہیں اور سلیمان الیشکری ثقہ ہیں، تو جب واسطہ ثقہ ہے تو تدلیس اگر کی بھی ہو تو مضر نہیں ہے۔ اور اس صحیفہ کو ابو اسفیان، امام شعبی، اور قتادہ بھی ان سے روایت کرتے ہیں۔ چنانچہ امام ابو حاتم فرماتے ہیں «جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة.» ترجمہ: "سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).

اسی طرح امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں جیسا کہ امام ابو داؤد نے ان سے نقل کیا ہے کہ: «حَدثنَا الْحُسَيْن ثَنَا سُلَيْمَان قَالَ سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔

لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔ والحمد للہ! [10]

------------------------------
(1) - دیکھیں: (جامع التحصيل، ص ١١٠)، (طبقات المدلسين، ص ٤٥، المرتبة الثالثة)، (التبيين في أسماء المدلسين، ص ٢٠٠)
(2) - (الجرح والتعديل: 1/173)
(3) - (الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/130، وإسناده صحيح)
(4) - (الإلزامات والتتبع للدارقطني: ص 370)
(5) - ابن حجر طبقات المدلسین میں ابو الزبیر کے ترجمہ میں کہتے ہیں: «ووهم الحاكم في كتاب علوم الحديث فقال في سنده وفيه رجال غير معروفين بالتدليس» ترجمہ: ”حاکم کو اپنی کتاب علوم الحدیث میں وہم ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس سند کے تمام رجال تدلیس کے لئے نہیں جانے جاتے۔“
تو یہ انہوں نے متاخرین کی رائے کی بنا پر کہا ہے جنہوں نے ابو الزبیر کی روایات کے متعلق ابن حزم کی پیروی کی ہے، ورنہ حافظ صاحب رحمہ اللہ اس وہم کے زیادہ حق دار ہیں، اور امام حاکم کو وہم نہیں ہوا ہے کیونکہ:
ا- انہوں نے ابو الزبیر کے لئے تدلیس کا اثبات نہیں کیا ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کسی دیگر امام نے بھی ایسا نہیں کیا ہے تو امام حاکم کا یہ کہنا کہ وہ تدلیس کے لئے نہیں جانے جاتے جائز وحق ہے۔
ب- امام حاکم نے یہ حدیث بے قاعدہ یا اتفاقا، یا بنا سوچے سمجھے ذکر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے اسے خاص ایک مسئلے یعنی عدم تدلیس کے اثبات وتقریر میں ذکر کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ مثال بڑی سوچ سمجھ کر اور باریک بینی سے ذکر کی ہے اور اسی لئے انہوں نے اس حدیث کو دیگر ہزاروں ایسی احادیث کی مثال وماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(6) - الرسالۃ ص 378
(7) - معرفہ علوم الحدیث 111
(8) - الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع: 2/2/286
(9) - شیخ خالد الدریس نے اپنے رسالہ الایضاح والتبیین میں صرف ایک ایسی حدیث پیش کی ہے جسے امام نسائی اور ترمذی وغیرہ نے لیث بن ابی سلیم عن ابی الزبیر عن جابر کے طریق سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سونے سے پہلے الم تنزیل کی تلاوت کرتے تھے۔۔۔، اس روایت میں ہے کہ زہیر بن معاویہ نے جب ابو الزبیر سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ حدیث جابر سے سنی ہے تو انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ اسے مجھے صفوان یا ابن صفوان نے نقل کیا ہے۔ لیکن یہ روایت ان کی تدلیس پر دلالت نہیں کرتی جیسا کہ شیخ خالد نے ذکر کیا ہے، کیونکہ ابو الزبیر نے اصلا ہی اس کا جابر سے ہونے کا انکار کیا ہے جبکہ لیث بن ابی سلیم نے اپنے ضعف واختلاط کی وجہ سے اسے ابو الزبیر عن جابر کر کے روایت کر دیا ہے جیسا کہ ضعیف الحفظ رواۃ کی عادت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ روایت ہرگز ابو الزبیر کی تدلیس پر دلالت نہیں کرتی اور اگر بالفرض اس سے ان کی تدلیس ثابت بھی ہوتی ہو تو اس سے ان کی شہرت یا کثرت تدلیس پر دلالت تو ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔
(10) - یہ ساری بحث شیخ ناصر الفہد کی کتاب «منهج المتقدمين في التدليس» (87-96) اور شیخ خالد الدریس کا مضمون «الإيضاح والتبيين بأن أبي الزبير ليس من المدلسين» سے لی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے مکمل مضمون یہاں پر دیکھا جا سکتا ہے: http://majles.alukah.net/t118611/
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
خلاصۃ التحقیق
امام ابو الزبیر ثقہ حافظ امام ہیں ان پر کی گئی ساری جروح غیر مفسر وبلا حجت ہیں۔ اسی طرح ان پر تدلیس کا الزام بھی بمشکل ثابت ہے اور اگر انہیں مدلس تسلیم بھی کیا جائے تو ان کا عنعنہ مقبول ہے کیونکہ آپ سلیمان الیشکری کی کتاب سے روایت کرتے تھے اور الیشکری ثقہ ہیں لہٰذا انقطاع و علت دونوں زائل ہو گئی اور ان کی روایت کسی بھی صیغے سے مروی ہو مقبول وحجت ہے۔ والحمد للہ۔
 
Top