• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن!

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
’خطیب بغدادی سے لیکر موجودہ دور تک کے علماء ‘ جیسی مجمل تعبیر کی بجائے ، اگر واقعتا شروع سے لیکر آخر تک علماء کے مناہج دیکھ لیے جائیں تو شاید اس قدر حیرانی نہ ہو ۔
اصول حدیث میں ابن الصلاح کے بعد شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں اصول حدیث کا مکمل احاطہ کیا گیا ہو اور خبر متواتر کا ذکر نہ کیا ہو۔

ویسے آپ کے نزدیک درست کیا ہے ؟ سب سے پہلے یہ تقسیم کس نے کی ؟
اہل الفقہ نے کما قال ابو ذر المحمدی

مطلب دیگر علماء کے ہاں پائی جاتی ہے ؟ امام شافعی رحمہ اللہ علم اصول فقہ کے پہلے مصنف مانے جاتےہیں ، ان کے ہاں یہ تقسیم پائی جاتی ہے ؟
امام شافعی رح کے زمانے تک اصول حدیث کی تدوین اس حالت میں مکمل طور پر نہیں ہوئی تھی جس حالت میں بعد میں ہوئی۔ امام شافعی رح نے اور بھی کئی چیزیں ذکر نہیں کیں۔

اگر روایات کی صحت و ضعف سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، تو روایات کی تحقیق کے ضمن میں ایسی مباحث کیوں ذکر کی جاتی ہیں ؟
اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی۔ روایات میں اس کا ذکر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اعلی ترین قسم شمار کی جاتی ہے تصحیح میں۔

بطور امثلہ کچھ ذکر ہونا چاہیے کہ متقدمین فقہاء کےہاں یہ تقسیم پائی جاتی تھی ، تاکہ افہام و تفہیم ممکن ہو سکے ۔
ہونی تو چاہیے (ابتسامہ)
ڈھونڈتا ہوں وقت ملنے پر
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
دراصل مسئلہ کسی اصطلاح میں نہیں ہوتا ۔۔استدلال کرنے والے کی نیت میں ہوتا ہے ۔
مجھے معلوم ہے متجددین کے کئی لوگ اپنی خاص غرض سے احادیث کو رد کرنے کے لئے فقہا کے خبر واحد کے اصول کی آڑ لیتے ہیں ۔ لیکن اس میں قصور ان کی نیت کا ہے ۔
ایک مثال ذہن میں آرہی ہے میں ایک کافی پہلے کے جید حنفی عالم (مناظر نہیں)اور جید اہل حدیث عالم
(مناظر نہیں) کی تقلید کے سلسلے میں بحث ہورہی تھی ۔کہ ترک تقلید کا یہ نقصان ہے ۔۔اور دوسرے کہہ رہے تھے ۔۔کہ تقلید کا یہ نقصان ہے وغیرہ ۔۔۔
اسی بحث میں ایک اچھا جملہ ان میں سے ایک نے لکھا کہ جو شخص اپنی خواہش کے اوپر چلنا طے کرچکا اس کو نہ تقلید فائدہ دے سکتی ہے نہ ترک تقلید ۔
اس لئے اس تھریڈ کا عنوان تو مناسب نہیں۔بڑے بڑوں تک اس کی چوٹ پہنچ رہی ہے ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اولاتو عنوان ہی غلط ہے کہ احاد اور متواتر کی الجھن مخالفین دین کی پیداکردہ ہے،اگریہاں پر ہم یہ عرض کرناشروع کردیں گے کہ کن کبار علماء ومحدثین نے متواتر اور احاد کا فرق کیاہے اوران کی بنیاد پر عقائد اورفروعات کا فرق رواٹھہرایاہے تو شاید امت کا بیشتر اوربڑاطبقہ مخالف دین ثابت ہوجائے گا۔
محترم بھائی اگر مگر چھوڑیں، برائے مہربانی آپ ذکر کر ہی دیں۔ ہمارے علم میں اضافہ ہو گا، ان شاء اللہ۔

مضمون نگار نے اس اقتباس میں جوکچھ ارشاد فرمایاہے، وہ ان کے ذہنی تخیل کی پرواز ضرور ہے لیکن ثبوت ان کے ہاتھ کچھ نہیں ہیں،سوال یہ ہے کہ چلو غزالی اور جوینی تو اشعری ہیں علم کلام سے شغفت رکھتے ہیں، یہ خطیب بغدادی تو اہل حدیث ہیں، بیہقی تو اہل حدیث ہیں،ان کو کیاہوا، وہ کیوں تواتر اور احاد کی الجھن میں پڑگئے،اگر کہاجائے کہ اشعریوں سے متاثر ہوگئے تواس تاثر کا ثبوت دیناہوگا،صرف دعویٰ کرناکافی نہیں ہوگا، ورنہ ان کے دوسرے موقف کے تعلق سے بھی محض تاثر کا دعویٰ کیاجاسکتاہے۔
شاید آپ نے پورا مضمون پڑھا نہیں ہے صرف آخری پوائینٹ غالبا پڑھا ہے۔ برائے مہربانی اس بار پورا پڑھیں! جہاں تک خطیب وغیرہ کی بات ہے تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ خطیب وغیرہ نے اگر ایک غلط موقف اپنایا ہے تو ان کے باقی سارے موقف اور سارا علم بھی ساقط ہوجانا چاہیے!؟
آپ نے تاثر کا ثبوت مانگا ہے لیکن آپ کو یہ نظر نہیں آیا کہ خطیب وغیرہ نے جب متقدمین کے اصول کی مخالفت کی جنہوں نے اس اصول سے لاعلمی بلکہ بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ اور اہل کلام کی بات کی موافقت کی ہے جس کا ثبوت ان سے پہلے کہ اہل حدیث میں نہیں ملتا، تو شاید ثبوت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ سامنے سے کوئی محدثین کے اصول کی مخالفت کر رہا ہے اور آپ پوچھ رہے ہیں کہ مخالفت کا ثبوت کیا ہے!

چلیں ساری باتیں چھوڑیں متواتر کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ایک دو متواتر احادیث نقل کر دیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@رضا میاں ! اللہ آپ کو جزائے خیر دے، بہت اہم مسئلہ کی بحث بیان کی ہے!
میں اس مسئلہ میں یہ سمجھا ہوں کہ متواتر اور آحاد کی کے تفریق کچھ لحاظ سے تو ہو سکتی ہے، مگر دین میں احتجاج کے لئے خواہ وہ عقائد کے مسائل میں ہو یا فروعی مسائل میں ، کوئی فرق نہیں!
ویسے بھی تواتر ایک اعتباری معاملہ ہے!
اس بات کو یوں سمجھئے کہ سب کا یہ ماننا ہے کہ قرآن کریم تواتر کے ساتھ ثابت ہے! یہ بات آپ ناظرہ و حفظ قرآن کے شاگرد کو بتلا تو سکتے ہو، مگر اس شاگرد کے لئے جس نے قرآن یا قرآن کی قراءت ایک استاد سے سیکھی ہے، آحاد ہی ہے، جب تک کہ وہ کم از کم چار مختلف اساتذہ سے وہ بھی جو مختلف علاقوں میں ہوں، اور جو کبھی آپس میں ملے بھی نہ ہوں، ان تمام سے قراءت نہ سیکھ لے!
اب کتنے ایسے حفاظ قرآن ہیں، جنہوں نے قرآن کی قراءت کو تواتر کے ساتھ حاصل کیا ہے، اور ان تک قرآن کی قراءت متواتر پہنچی ہے؟
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جب تک کہ وہ کم از کم چار مختلف اساتذہ سے وہ بھی جو مختلف علاقوں میں ہوں، اور جو کبھی آپس میں ملے بھی نہ ہوں، ان تمام سے قراءت نہ سیکھ لے!
تواتر کی اس تعریف پر امام شافعیؒ نے رد کیا ہے جو اسی تھریڈ میں مذکور ہے۔ لیکن کیا محدثین میں سے جمہور تواتر کی یہ تعریف کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ شاید ہی کسی نے کی ہو۔
بلکہ محدثین اور فقہاء تواتر اسے کہتے ہیں غالبا جسے امام شافعیؒ نے خبر العامۃ عن العامۃ کہا ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
" ﭼﻠﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯾﮟ ﻣﺘﻮﺍﺗﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﮦ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﻣﺘﻮﺍﺗﺮ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ!"

محترم رضا صاحب کے اس سوال کے جواب کی اہمیت کم نا کی جائے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خبر متواتر کی تعریف یہ کی گئی ہے:
عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذب.
رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء.
وكان مستند انتهائهم الحس.
وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه.
نزہۃ النظر 1۔43 ط مطبعۃ الصباح

هو ما يكون (مستقرا في) جميع (طبقاته) ، أنه من الابتداء إلى الانتهاء ورد عن جماعة غير محصورين في عدد معين، ولا صفة مخصوصة، بل بحيث يرتقون إلى حد تحيل العادة معه تواطؤهم على الكذب، أو وقوع الغلط منهم اتفاقا من غير قصد. وبالنظر لهذا خاصة يكون العدد في طبقة كثيرا، وفي أخرى قليلا ; إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
هذا كله مع كون مستند انتهائه الحس ; من مشاهدة أو سماع ; لأن ما لا يكون كذلك يحتمل دخول الغلط فيه
فتح المغیث 4۔15 ط مکتبۃ السنۃ


آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں وہ قیود سرے سے ہیں ہی نہیں جن کا امام شافعیؒ نے رد فرمایا ہے۔ بلکہ امام شافعیؒ نے جسے خبر عامہ کا نام دیا ہے یہاں وہ مراد ہے۔

متواتر کی علماء کرام نے دو قسمیں کی ہیں: متواتر لفظی اور متواتر معنوی (کچھ نے مزید بھی کی ہیں لیکن عموما یہ دو کی گئی ہیں)
متواتر لفظی: جس کے الفاظ بھی متواتر ہوں۔ اس کے وجود کا بعض نے انکار کیا ہے لیکن راجح یہ ہے کہ "من کذب علی متعمدا" حدیث متواتر لفظی ہے۔ تفصیل آگے الوسیط کے حوالے میں پڑھ لیجیے۔
لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ متواتر لفظی کی ایک بہت عمدہ اور زبردست مثال اور ہے اور وہ ہے قرآن کریم۔ قرآن کریم اگرچہ حدیث مبارک کی قسم نہیں ہے لیکن اپنی اصل کے لحاظ سے۔ ہمارے لیے یہ بھی نبی کریم ﷺ سے ایک مروی شے ہے۔ جس طرح روایات کو صحابہ کرام، تابعین اور پھر تبع تابعین نے روایت کیا اسی طرح قرآن کریم بھی روایت ہوا ہے لیکن کمال تواتر کے ساتھ۔ ایک ہی جیسا ہزاروں لوگوں نے روایت کیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ مجھے کوئی شخص قرآن کریم کی ہر ہر سورت سند کے ساتھ سنائے تو کیا یہ ممکن ہے؟ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں قرآن ایک جیسا ہے (سوائے اختلاف قراءات کے) اور ہر زمانے میں اتنے لوگوں سے نقل ہوا ہے جن کا کذب (ویسے اس کذب کا مطلب جھوٹ نہیں بلکہ خلاف واقعہ ہوتا ہے) پر جمع ہونا ناممکن ہے۔
متواتر معنوی: جس کے الفاظ تو الگ ہوں لیکن معنی ایک ہی ہو۔ اس کی مثالیں کئی ہیں۔

متواتر کی بحث کو محمد بن محمد بن سویلم ابو شہبہ نے الوسیط میں بہت عمدگی سے نقل کیا ہے۔
میں اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں۔ اس سے تعریف، اقسام اور مثالیں اچھی طرح دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہیں۔

فالمتواتر: ما رواه جمع تحيل العادة تواطؤهم على الكذب أو صدوره منهم اتفاقا من غير قصد ويستمر ذلك من أوله إلى آخره ويكون مرجعه إلى الحس من مشاهد أو مسموع أو نحوهما.
شروط المتواتر":
1- أنه يرويه جمع كثير، وقد اختلف في تحديده فقيل: خمسة, وقيل: سبعة, وقيل: عشرة لأنها أول جموع الكثرة, وقيل: اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل، وقيل: عشرون, وقيل: أربعون, وقيل: غير ذلك, وتمسك كل قائل بدليل جاء فيه ذكر ذلك العدد فأفاد العلم وليس بلازم أن يطرد في غيره لاحتمال الاختصاص.
والمحققون على أن الصحيح عدم تعيين العدد وأن العبرة إنما هي بإفادة العلم بنفسه فأي عدد يفيد العلم بنفسه فهو المعتبر وهو الذي رجحه الحافظ ابن حجر.
2- كون هذا العدد بحيث تحيل العادة تواطؤهم على الكذب أو صدوره منهم اتفاقا أي من غير قصد وبعض العلماء قال: "بحيث يحيل العقل" والمراد إحالة العقل المستند إلى العادة فيتوافق التعريفان.
3- استمرار هذا العدد المفيد للعلم في السند من ابتدائه إلى منتهاه والمراد أن لا تنقص الكثرة المفيدة للعلم لا أنه لا يزيد إذ الزيادة هنا من باب أولى فلو رواه مثلا في طبقة ثلاثون ثم رواه عنهم أربعون فهو أولى وأحسن.
4- أن يكون ذلك الخبر مستند رواته الحس من مرئي أو مسموع أو ملموس أو مذوق أو مشموم فلا تواتر في العقليات الصرفة كوجود الصانع وقدمه وقدم صفاته وحدوث العالم فلو أن أهل بلد أو مصر مثلا أخبروا بحدوث العالم أو بوجود الصانع لا يكون متواترا لأن العقليات لا يحصل اليقين بها إلا بالبرهان.
ولا يشترط في الخبر المتواتر من حيث هو إسلام ولا عدالة لأن المعول عليه الكثرة بشروطها فلو أن أهل بلد أخبروا بحصول حادثة ما يحصل العلم بخبرهم ولو كانوا كفارا.

أقسام المتواتر:
ينقسم المتواتر إلى قسمين:
1- لفظي.
2- ومعنوي.
فاللفظي: ما رواه جمع كثير ... إلخ, واتفقوا على لفظه وستأتي أمثلته من الأحاديث.
والمعنوي: ما روي من طرق متعددة بألفاظ مختلفة إلا أنها اتفقت في إفادة شيء واحد

وجود المتواتر من الأحاديث:
اختلفت أنظار العلماء في هذا الموضوع فادعى ابن حبان ومن تبعه عدم وجود المتواتر من الحديث وقال ابن الصلاح ما خلاصته: "إن مثال المتواتر على التفسير المتقدم يعز -يندر- وجوده إلا أن يدعي ذلك في حديث: "من كذب عليّ متعمدا فليتبوأ مقعده من النار" وذهب العراقي والحافظ ابن حجر وغيرهما من أئمة الحديث إلى وجود المتواتر لفظا أو معنى وجود كثرة وقد رد الحافظ ابن حجر على من قال بالقلة أو العدم فقال: "وما ادعاه -يعني ابن الصلاح- من العزة ممنوع، وكذا ما ادعاه غيره من العدم به؛ لأن ذلك نشأ عن قلة الاطلاع على كثرة الطرق وأحوال الرجال وصفاتهم المقتضية لإبعاد العادة أن يتواطئوا على الكذب أو يحصل منهم اتفاقا ومن أحسن ما يقرر به كونه المتواتر موجودا وجود كثرة في الأحاديث أن الكتب المشهورة المتداولة بأيدي أهل العلم شرقا وغربا المقطوع عندهم بصحة نسبتها إلى مصنفيها إذا اجتمعت على إخراج حديث وتعددت طرقه تعددا تحيل العادة تواطؤهم على الكذب إلى آخر الشروط أفاد العلم اليقيني إلى قائله ومثل ذلك في الكتب المشهورة كثير".
وقد عد العراقي من الأحاديث المتواترة: أحاديث الحوض وأحاديث الشفاعة، والمسح على الخفين وأحاديث النهي عن اتخاذ القبور مساجد، ورفع اليدين في الصلاة للإحرام والركوع والرفع منه؛ وقال: إن ابن حزم قال في "المحلى": إنها متواترة؛ كما ذكر من قال بتواترها من العلماء كالقاضي عياض وابن عبد البر.
وذكر نحو ذلك الحافظ ابن حجر في الفتح وعد من المتواتر حديث: "من بنى لله مسجدا" والمسح على الخفين، ورفع اليدين في الصلاة، والشفاعة والحوض، ورؤية الله في الآخرة وحديث: "الأئمة من قريش", وغير ذلك والله المستعان" .
ومن جزم بوجود المتواتر بكثرة الحافظ جلال الدين السيوطي وألف في ذلك كتابا أسماه "الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة" ثم لخصه في كتاب سماه "قطف الأزهار" أورد فيها أحاديث كثيرة منها ما ذكرناه وزاد أحاديث أخرى مثل: "نضر الله امرأ سمع مقالتي" , وحديث: "كل مسكر حرام" , وحديث: "بدأ الإسلام غريبا" وحديث: سؤال منكر ونكير، وحديث: "كل ميسر لما خلق له" , إلى غير ذلك.
وقد ذهب بعض المحققين إلى أن النزاع لفظي: فمن جزم بوجود المتواتر فيما يروي أراد المتواتر المعنوي كما يظهر من الأدلة التي ذكروها: ومن جزم بعدمه أو ندرته أراد المتواتر اللفظي.

والذي يظهر لي بعد البحث والنظر في كلام الأئمة واستقراء الأحاديث المتواترة وجود المتواتر اللفظي ولكنه قليل وأن من قال بعدمه لم يصب وأما المتواتر المعنوي فكثير.


"أمثلة المتواتر":
1- روى البخاري ومسلم وغيرهما بأسانيدهم إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "من كذب عليّ متعمدا فليتبوأ مقعده من النار" فقد رواه الجم الغفير من الصحابة, قيل: أربعون وقيل: اثنان وستون، ولم يزل العدد على التوالي في ازدياد وقد اجتمع على روايته العشرة المبشرون بالجنة ووصل ابن الجوزي بطرقه إلى أزيد من التسعين ووصل بها الحافظ ابن حجر في الفتح إلى مائة إلا أنها ليست كلها صحيحة كما أن بعضها في ذم مطلق الكذب على النبي من غير تقيد بهذا الوعيد الخاص ومهما يكن من شيء فالحديث بهذا اللفظ متواتر ولا ريب.
2- روى البخاري ومسلم وغيرهما من أئمة الحديث بأسانيدهم إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه مسح على الخفين1 قال الحافظ في الفتح2: "وقد صرح جمع من الحفاظ بأن المسح على الخفين متواتر وجمع بعضهم رواته فجاوزوا الثمانين منهم العشرة المبشرون بالجنة وفي مصنف ابن أبي شيبة وغيره عن الحسن البصري: حدثني سبعون من الصحابة بالمسح على الخفين.
3- روى البخاري ومسلم3 وغيرهما بأسانيدهم عن أبي هريرة "أن ناسًا قالوا لرسول الله -صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة فقال: "هل تضارون 4 في رؤية القمر ليلة البدر؟ " قالوا: لا يا رسول الله قال: "هل تضارون في رؤية الشمس ليس دونها سحاب" , قالوا: لا يا رسول الله قال: "فإنكم ترونه كذلك ... " الحديث, وقد ذهب إلى تواتره جمع من الحفاظ الثقات النقاد منهم القاضي عياض في الشفاء والحافظ ابن حجر وغيرهما.
4- روى البخاري ومسلم وغيرهما بأسانيدهم عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: حوضي مسيرة شهر، ماؤه أبيض من اللبن وريحه أطيب من المسك وكيزانه كنجوم السماء، ومن شرب منه فلا يظمأ أبدًا"5, وقد حكم بتواتره جمع من الحفاظ منهم القاضي عياض والحافظان العراقي وابن حجر والحافظ السيوطي وغيرهم.
"فائدة" اشتهر عند بعض الناس أن حديث: "إنما الأعمال بالنيات" متواتر وهذا غير صحيح لأنه فقد شرطا من شروط التواتر وهو العدد الكثير في كل طبقة من أوله إلى آخره وهذا الحديث لم يصح عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إلا من طريق عمر -رضي الله عنه- ولم يصح عن عمر إلا من طريق علقمة بن وقاص الليثي ولم يصح عن علقمة إلا من طريق محمد بن إبراهيم التيمي، ولم يصح عنه إلا من طريق يحيى بن سعيد الأنصاري وأكثر رواته بعد يحيى هذا حتى قيل: إنه رواه عنه نحو مائتين فهو ليس بمتواتر ولا مشهور وإنما هو حديث فرد غريب صحيح وإنما اشتهر في آخره.



واللہ اعلم و ہو الموفق
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ متواتر سے حاصل ہونے والا علم قطعی ہوتا ہے یا ظنی اور خبر واحد سے حاصل ہونے والا علم کیسا ہوتا ہے؟ اسی کے ضمن میں یہ بھی آ جاتا ہے کہ عقیدہ کے ثبوت کے لیے کیا خبر متواتر شرط ہے؟
اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئیندہ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تواتر کی اس تعریف پر امام شافعیؒ نے رد کیا ہے جو اسی تھریڈ میں مذکور ہے۔ لیکن کیا محدثین میں سے جمہور تواتر کی یہ تعریف کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ شاید ہی کسی نے کی ہو۔
بلکہ محدثین اور فقہاء تواتر اسے کہتے ہیں غالبا جسے امام شافعیؒ نے خبر العامۃ عن العامۃ کہا ہے۔
آپ کے نکتہ پر آنے سے قبل ایک بات پوچھتا چلوں کہ ہم نے جو یہاں کسی روایت کے متواتر ہونے کے حوالہ سے شرط بیان کی ہے، کیا اس شرط کی پورا ہوئے بغیر کوئی روایت متواتر قرار دی جا سکتی ہے؟

میں اس مسئلہ میں یہ سمجھا ہوں کہ متواتر اور آحاد کی کے تفریق کچھ لحاظ سے تو ہو سکتی ہے، مگر دین میں احتجاج کے لئے خواہ وہ عقائد کے مسائل میں ہو یا فروعی مسائل میں ، کوئی فرق نہیں!
ویسے بھی تواتر ایک اعتباری معاملہ ہے!
اس بات کو یوں سمجھئے کہ سب کا یہ ماننا ہے کہ قرآن کریم تواتر کے ساتھ ثابت ہے! یہ بات آپ ناظرہ و حفظ قرآن کے شاگرد کو بتلا تو سکتے ہو، مگر اس شاگرد کے لئے جس نے قرآن یا قرآن کی قراءت ایک استاد سے سیکھی ہے، آحاد ہی ہے، جب تک کہ وہ کم از کم چار مختلف اساتذہ سے وہ بھی جو مختلف علاقوں میں ہوں، اور جو کبھی آپس میں ملے بھی نہ ہوں، ان تمام سے قراءت نہ سیکھ لے!
اب کتنے ایسے حفاظ قرآن ہیں، جنہوں نے قرآن کی قراءت کو تواتر کے ساتھ حاصل کیا ہے، اور ان تک قرآن کی قراءت متواتر پہنچی ہے؟
اور ہم نے یہ متواتر کی اسی تعریف کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہی ہے، جو اشماریہ بھائی نے اپنے اگلے مراسلہ میں پیش کی ہے:
خبر متواتر کی تعریف یہ کی گئی ہے:
عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذب.
رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء.
وكان مستند انتهائهم الحس.
وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه.
نزہۃ النظر 1۔43 ط مطبعۃ الصباح

هو ما يكون (مستقرا في) جميع (طبقاته) ، أنه من الابتداء إلى الانتهاء ورد عن جماعة غير محصورين في عدد معين، ولا صفة مخصوصة، بل بحيث يرتقون إلى حد تحيل العادة معه تواطؤهم على الكذب، أو وقوع الغلط منهم اتفاقا من غير قصد. وبالنظر لهذا خاصة يكون العدد في طبقة كثيرا، وفي أخرى قليلا ; إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
هذا كله مع كون مستند انتهائه الحس ; من مشاهدة أو سماع ; لأن ما لا يكون كذلك يحتمل دخول الغلط فيه
فتح المغیث 4۔15 ط مکتبۃ السنۃ
متواتر کی بحث کو محمد بن محمد بن سویلم ابو شہبہ نے الوسیط میں بہت عمدگی سے نقل کیا ہے۔
میں اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں۔ اس سے تعریف، اقسام اور مثالیں اچھی طرح دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہیں۔
فالمتواتر: ما رواه جمع تحيل العادة تواطؤهم على الكذب أو صدوره منهم اتفاقا من غير قصد ويستمر ذلك من أوله إلى آخره ويكون مرجعه إلى الحس من مشاهد أو مسموع أو نحوهما.
آپ نے خود فرمایا:
لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ متواتر لفظی کی ایک بہت عمدہ اور زبردست مثال اور ہے اور وہ ہے قرآن کریم۔ قرآن کریم اگرچہ حدیث مبارک کی قسم نہیں ہے لیکن اپنی اصل کے لحاظ سے۔ ہمارے لیے یہ بھی نبی کریم ﷺ سے ایک مروی شے ہے۔ جس طرح روایات کو صحابہ کرام، تابعین اور پھر تبع تابعین نے روایت کیا اسی طرح قرآن کریم بھی روایت ہوا ہے لیکن کمال تواتر کے ساتھ۔ ایک ہی جیسا ہزاروں لوگوں نے روایت کیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ مجھے کوئی شخص قرآن کریم کی ہر ہر سورت سند کے ساتھ سنائے تو کیا یہ ممکن ہے؟ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں قرآن ایک جیسا ہے (سوائے اختلاف قراءات کے) اور ہر زمانے میں اتنے لوگوں سے نقل ہوا ہے جن کا کذب (ویسے اس کذب کا مطلب جھوٹ نہیں بلکہ خلاف واقعہ ہوتا ہے) پر جمع ہونا ناممکن ہے۔
یہی بات تو میں نے کہی عرض کی تھی، کہ گو کہ قرآن کریم اور اس کی قراءت متواتر ہے، لیکن کیا ہر حافظ قرآن نے قرآن کو اور اس کی قراءت کو تواتر کے ساتھ حاصل کیا ہے؟
اس پر ہم نے عرض کیا تھا کہ ہر حافظ قرآن کے لئے قرآن اور اس کی قراءت خبر آحاد ہی ہے، جب تک کہ وہ حافظ قرآن، اس قرآن اور اس کی قراءت کو کم از کم چار مختلف اساتذہ سے نہیں سنتا، جن کا ''کذب'' پر متفق ہونا محال ہو، کیوں کہ بصورت دیگر آپ نے ہی جو شروط اپنے اگلے مراسلہ میں پیش کی ہیں ان میں سے دو پوری نہیں ہوتیں، فتدبر!
شروط المتواتر":
1- أنه يرويه جمع كثير، وقد اختلف في تحديده فقيل: خمسة, وقيل: سبعة, وقيل: عشرة لأنها أول جموع الكثرة, وقيل: اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل، وقيل: عشرون, وقيل: أربعون, وقيل: غير ذلك, وتمسك كل قائل بدليل جاء فيه ذكر ذلك العدد فأفاد العلم وليس بلازم أن يطرد في غيره لاحتمال الاختصاص.
والمحققون على أن الصحيح عدم تعيين العدد وأن العبرة إنما هي بإفادة العلم بنفسه فأي عدد يفيد العلم بنفسه فهو المعتبر وهو الذي رجحه الحافظ ابن حجر.
2- كون هذا العدد بحيث تحيل العادة تواطؤهم على الكذب أو صدوره منهم اتفاقا أي من غير قصد وبعض العلماء قال: "بحيث يحيل العقل" والمراد إحالة العقل المستند إلى العادة فيتوافق التعريفان.
3- استمرار هذا العدد المفيد للعلم في السند من ابتدائه إلى منتهاه والمراد أن لا تنقص الكثرة المفيدة للعلم لا أنه لا يزيد إذ الزيادة هنا من باب أولى فلو رواه مثلا في طبقة ثلاثون ثم رواه عنهم أربعون فهو أولى وأحسن.
4- أن يكون ذلك الخبر مستند رواته الحس من مرئي أو مسموع أو ملموس أو مذوق أو مشموم فلا تواتر في العقليات الصرفة كوجود الصانع وقدمه وقدم صفاته وحدوث العالم فلو أن أهل بلد أو مصر مثلا أخبروا بحدوث العالم أو بوجود الصانع لا يكون متواترا لأن العقليات لا يحصل اليقين بها إلا بالبرهان.
اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ تواتر ایک اعتباری معاملہ ہے، گو کہ قرآن کریم اور اس کی قراءت تواتر سے نقل ہوئی ہے، لیکن ہر حافظ قرآن نے اسے تواتر سے حاصل نہیں کیا، اور اس نے روایت آحاد سے ہی قرآن اور اس کی قراءت کو حاصل کیا ہے، فتدبر!​

اب آتے ہیں آپ کے اشکال کی طرف!
ہم نے جو مدعا پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا عقائد اور تخصیص و تنسیخ و دیگر معاملات میں حدیث کا متواتر ہونا لازم ہے؟ ہمارا مؤقف ہے نہیں، یہ لازم نہیں! اس پر ایک عام فہم دلیل یہ پیش کی کہ قرآن کریم پر ہم سب کا ایمان ہے، اور حافظ قرآن کو قراءت پڑھتا ہے اس کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ وہ قرآن اور اس کی قراءت جو اس نے اپنے استاد سے سیکھی ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نازل فرمائی، یہ حافظ قرآن کا عقیدہ ہوتا ہے، مگر اس نے یہ قرآن اور اس کی قراءت تواتر نہیں بلکہ آحاد روایت سے حاصل کیا ہوتا ہے! اگر عقیدہ میں تواتر کی شرط کو لازم قرار دیا جائے تو اس قرآن کے جسی کی کہ وہ حافظ قراءت کرتا ہے مننزل من اللہ ہونے کے عقیدہ پر حرف آتا ہے، فتدبر!!
باقی امام شافعی کس بات کا رد کیا ہے، یہ اس وقت میرا مدعا نہیں تھا!​
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
کیا فائدہ.......... اب تک اس سلسلے میں کچھ پڑھا نہیں. بالکل کورا ھوں. اسکے بعد اختلاف اور اسکے بعد یہ عربی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب @اشماریہ شاہ صاحب!
کچھ ہمارا بھی خیال کریں. اردو میں لکھیں یا ترجمہ کر دیں. بڑی مہربانی ھوگی
 
Top