• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ دوم (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ عمریٰ اور قبیٰ کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
(۱۱۷۱)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے عمریٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہو۔
فائدہ : '' عمریٰ '' عرب لوگ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کو عمر بھر کے لیے گھر دے دیا یعنی اس کو ملکیت کر دیا۔ '' یہ ہے کہ کسی کو مکان اس شرط پر دینا کہ اگر دینے والا پہلے مر جائے تو مکان اس کا ہو گیا اور لینے والا پہلے مر جائے تو مکان پھر دینے والا کا ہو جائے گا۔ بعض کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ شادی میں دلہن کو پہنانے کے لیے کوئی چیز مانگنا
(۱۱۷۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایمن (رضی اللہ عنہ) آئیں اور وہ ایک موٹا کرتا پہنے ہوئے تھیں جس کی قیمت پانچ درہم ہو گی تو انھوں نے کہا کہ ذرا میری اس لونڈی کی طرف دیکھو کہ گھر میں اس کرتا کے پہننے سے نخرہ کرتی ہے اور رسول اللہﷺ کے عہد میں میرے پاس اسی قسم کا ایک کرتا تھا تو جو عورت مدینہ میں آراستہ کی جاتی تھی وہ مجھ سے اس کرتے کو منگوا لیتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ دودھ کا جانور (یا اور کوئی چیز) مانگنے پر دینے کی فضیلت
(۱۱۷۳)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا اور انصار زمین اور اسباب والے تھے۔ ان مہاجرین کو انصار نے اپنے مال تقسیم کر دیے، اس شرط پر کہ وہ ہر سال انھیں نصف پھل ان کو دے دیا کریں اور جملہ محنت ازل اول تا آخر وہی کریں اور ان کی ماں یعنی انسؓ کی ماں ام سلیم جو عبداللہ بن ابی طلحہ کی ماں بھی تھیں، انھوں نے رسول اللہﷺ کو کھجور کے چند درخت دے دیے تھے وہ آپﷺ نے اپنی آزاد کر دہ لونڈی ام ایمن کو جو اسامہ بن زید کی ماں تھیں دے دیے تھے۔ سیدنا انسؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ جب غزوۂ خیبر سے فارغ ہوئے اور مدینہ کی طرف لوٹے تو مہاجرین نے ان کی دی ہوئی چیزیں واپس کر دیں یعنی وہ پھل کے باغ و درخت جو انھوں نے مہاجرین کو دیے تھے۔ پھر نبیﷺ نے بھی سیدنا انسؓ کی والدہ کی ان کے درخت واپس کر دیے اور ام ایمن کو رسول اللہﷺ نے ان کے عوض میں اپنے باغ سے کچھ درخت دے دیے۔

(۱۱۷۴)۔ سیدنا عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' چالیس خصلتیں بہت عمدہ ہیں جن میں سے سب سے عمدہ بکری کا مستعار دینا ہے۔ جو کوئی ان خصلتوں میں سے کسی بھی خصلت پر ثواب کی امید سے اللہ کا وعدہ سچا جان کر عمل کر ے تو اللہ اس کو جنت میں لے جائے گا۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
گواہی کے بیان میں

باب۔ اگر ظلم کی بات پر گواہ بنانا چاہیں تو نہ بنے
(۱۱۷۵)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :'' سب لوگوں سے بہتر میرے دور کے لوگ ہیں (یعنی صحابہ کرامؓ) پھر جو ان کے قریب ہوں گے (یعنی تابعین) پھر جوان کے قریب ہوں گے (یعنی تبع تابعین)۔ ان کے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جھوٹی گواہی کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
(۱۱۷۶)۔ سیدنا ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' کیا میں تم کو بڑے بڑے گناہوں کی اطلاع نہ دوں؟ صحابہ نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ ! (ضرور بتائیے)۔ آپﷺ نے فرمایا :'' اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ '' آپﷺ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے،مگر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :'' آگاہ رہو جھوٹی گواہی دینا۔ '' پس آپﷺ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے (دل میں) کہا کاش ! آپﷺ خاموش ہو جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب: اندھے شخص کی گواہی اور اس کا حکم دینا اور اس کا نکاح کرنا اور نکاح کرا دینا اور خریدو فروخت کرنا اور اس کی اذان وغیرہ کا اور ان چیزوں کا جو آوا ز سے معلوم ہو سکتی ہیں قبول کر نا
(۱۱۷۷)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :'' اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت کرے، بے شک اس نے فلاں فلاں سورتوں کی فلاں فلاں آیات جو کہ میں بھول گیا تھا مجھے یا د لادیں۔ ''

(۱۱۷۸)۔ ام المومنین عائشہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی پھر عبادہؓ کی آواز سنی وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا :'' اے عائشہ ! کیا یہ عباد (رضی اللہ عنہ) کی آواز ہے؟ '' میں نے عرض کی جی ہاں تو فرمایا :'' اے اللہ عباد (رضی اللہ عنہ) پر رحمت فرما۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ باب عورتیں، عورتوں کا تزکیہ کر سکتی ہیں (یعنی ان کی پاکیزگی بیان کرنا)
(۱۱۷۹)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی سفر میں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے پھر ان میں سے جس کے نام قرعہ نکل آتا تو اسی کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ پس ایک جہاد میں جو آپﷺ نے کیا تھا ہم لوگوں کے درمیان قرعہ ڈالا تو میرے نام پر قرعہ نکلا اور میں آپﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ حکم حجاب کے نزول کے بعد کا ہے پس میں اس سفر میں ہودج (پردے والی ڈولی) کے اندر بٹھا دی جاتی تھی اور ہودج سمیت اتار لی جاتی تھی۔ پس ہم چلے یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ اپنے جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو آپﷺ نے رات کے وقت کو چ کا اعلان کرا دیا۔ پس جب لوگوں میں روانگی کے لیے منادی ہوئی تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور (قضائے حاجت کے لیے) گئی یہاں تک کہ میں لشکر سے آگے بڑھ گئی پھر جب میں حاجت سے فارغ ہو ئی تو (اونٹ کے) کجاوے کے پاس آئی پھر میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ پھیرا تو اچانک معلوم ہوا کہ ظفار کے کالے نگینوں کا ہار جو میں پہنے ہوئے تھی، گر گیا ہے لہٰذا میں اپنے ہار کو تلاش کر تی ہوئی واپس ہوئی اور اس کو ڈھونڈنے میں مجھے دیر ہو گئی اور جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے وہ آئے اور انھوں نے میرے ہودج کو اٹھا یا اور میرے اونٹ پر جس پر میں سوار ہوتی تھی رکھ دیا۔ وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اسی میں ہوں۔ (کیوں کہ) اس دور میں عورتیں عموماً ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، بھاری نہ تھیں نہ ان کے جسم پر زیادہ گوشت تھا اور وہ غذا بھی بہت کم کھاتی تھیں۔ لہٰذا جب لوگوں نے اس ہودج کو اٹھایا تو اس کو معمول کے موافق سمجھ کر اٹھا لیا کیوں کہ میں اس وقت ایک کم سن (دبلی پتلی) لڑکی تھی۔ پھر وہ اونٹ کو اٹھا کر چل دیے پھر لشکر کے نکل جانے کے بعد میں نے اپنا ہار پالیا اور جہاں قافلہ اترا ہوا تھا واپس آئی مگر وہاں کوئی نہ تھا تب میں اس جگہ جا کر بیٹھ گئی جہاں پر اتری تھی۔ میں نے یہ خیال کیا جب لوگ مجھ کو (قافلہ میں) نہ پائیں گے تو اسی جگہ لوٹ کر آئیں گے۔ پس اسی حالت میں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی میری آنکھیں نیند کے سبب سے مجھ کو بھاری معلوم ہو نے لگیں اور نیند مجھ پر غالب آ گئی۔ صفوان بن معطل سلمیؓ جو بعد میں ذکوانی ہو گئے، لشکر کے پیچھے تھے وہ صبح کو میری منزل پر پہنچے اور وہ دور سے ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر میرے پاس آئے چونکہ انھوں نے مجھ کو پردے کے حکم سے پہلے دیکھا تھا لہٰذا مجھ کو پہچان لیا اور انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا۔ میں ان کی انا اللہ کی آواز سن کر بیدار ہوئی پھر انھوں نے اپنے اونٹ کو بٹھا لیا اور اس کے اگلے پاؤں کو موڑ دیا (تاکہ میں بغیر کسی کی مدد کے خود سوار ہو سکوں)۔ پس میں اونٹ پر سوار ہو گئی۔ وہ اونٹ کو ہانکتے ہوئے پیدل چلے اور قافلہ میں اس وقت پہنچے جب دوپہر کو لوگ آرام کر نے کے لیے اتر چکے تھے۔ پس جن لوگوں کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گئے یعنی میرے اوپر صفوان کیساتھ تہمت لگائی اور جس شخص نے یہ طوفان اٹھایا وہ عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) تھا۔ پس جب ہم لوگ مدینہ پہنچے تو میں ایک مہینے تک بیمار رہی اور لوگ طوفان کا پر چار کرتے رہے اور مجھے اپنی بیماری میں بارہا یہ خیال آتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں نبیﷺ کی وہ مہربانی نہیں دیکھتی جو میں اپنی بیماری کے وقت آپﷺ کی جانب سے دیکھا کر تی تھی۔ اب صرف یہ ہوتا ہے کہ آپﷺ تشریف لاتے اور سلام کرتے اس کے بعد فرماتے ہیں :'' تم کیسی ہو؟ '' اور مجھے اس بارے میں کسی بات کا علم نہ تھا کہ اصل وجہ نا خوشی کی یہ طوفان ہے۔ میں بہت کمزور ہو گئی۔ (ایک رات) میں اور مسطح کی والدہ مناصع کی طرف جہاں ہماری قضاء حاجت کی جگہ تھی اور ہم صرف رات ہی کو وہاں پر قضائے حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور واقعہ ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء بنائے جانے سے پہلے کا ہے اور ہم پرانے دور کے عربوں کی طرح جنگل میں یا باہر دور جا کر قضائے حاجت کرتے تھے۔ پس میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم کی بیٹی تھیں جا رہی تھیں کہ اتفاقاً وہ اپنی چادر میں پھنس کر گر پڑیں تو انھوں نے کہا کہ ''مسطح ہلاک ہو جائے۔ '' تو میں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ برا کلمہ منہ سے نکالا کیا تم ایسے شخص کو کوستی ہو جو غزوۂ بدر میں شریک ہو چکا ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ اے بی بی ! کیا تم نے نہیں سنا کہ ان لوگوں نے کیا طوفان اٹھایا ہوا ہے؟ پھر انھوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی ساری باتوں پر مطلع کیا۔ پس اس بہتان کو سن کر میری بیماری زیادہ شدید ہو گئی۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور انھوں نے سلام کیا اور فرمایا :'' تم کیسی ہو؟ '' میں نے عرض کی کہ آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اپنے والدین کے پاس چلی جاؤں۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میرا اس سے منشا یہ تھا کہ اپنے والدین کے ہاں جا کر اس خبر کی تحقیق کر سکوں تو رسول اللہﷺ نے مجھے اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔ میں نے اپنی ماں سے وہ سب باتیں بیان کیں جن کا لوگ چرچا کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے بیٹی ! تم اپنی جان پر سختی نہ کرو، اللہ کی قسم ! کوئی حسین عورت کم ہی کسی شخص کے پاس ایسی ہو تی ہے کہ وہ مرد اس کو محبوب رکھتا ہو اور اس عورت کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر وہ سوکنیں اس کی برائیاں نہ کرتی ہوں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ ! میری سوکنوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ لوگ اس کا چرچا کر رہے ہیں۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے وہ رات صبح تک اس طرح گزاری کہ میرے آنسو نہ تھمے تھے اور نہ مجھے نیند آئی۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے (امیر المومنین سیدنا) علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کو بلایا جب کہ اس بارے میں نزول وحی میں دیر ہوئی تو آپﷺ ان سے اپنی بیوی یعنی میرے فراق کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو (سیدنا) اسامہ(رضی اللہ عنہ) نے تو اسی کے موافق مشورہ دیا جو ان کو آپﷺ کے دل کی کیفیت (یعنی اپنی بیوی کے ساتھ جس قدر محبت تھی) اس کا احساس تھا۔ لہٰذا سیدناا سامہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ آپﷺ کی بیوی ہیں اور اللہ کی قسم ! ہم ان میں سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں جانتے۔ مگر (امیر المومنین سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپﷺ پر ہر گز تنگی نہیں کرتا اور عورتیں ان کے علاوہ بھی بہت سی ہیں اور آپ لونڈی سے دریافت فرمائیے، وہ (ام المومنین عائشہؓ کے کردار کے بارے میں) آپﷺ سے سچ سچ بیان کر دے گی تو رسول اللہﷺ نے بریرہ (رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور ان سے فرمایا :'' کیا تم نے (ام المومنین عائشہؓ کے مزاج میں) کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس کو تمہیں شک دلائے؟ ''انھوں نے جواب دیا :'' نہیں قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ان (خاتون) میں کبھی کوئی بھی ایسی بات نہیں دیکھی جس کی وجہ سے میں ان پر (شک کروں یا ان پر) عیب لگا سکوں، سوائے اس کے کہ وہ ایک کم سن لڑکی ہیں (اپنے گھر کی کلی طور پر خبر گیری نہیں رکھتیں حتیٰ کہ) آٹا گو ند ھ کر (اور اس کو ویسا ہی گوندھا ہوا چھوڑ کر) سو جاتی ہیں بکری آتی ہے اور اس کو کھا جاتی ہے۔ '' پس رسول اللہﷺ اسی وقت کھڑے ہو گئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے مقابلے میں (جس نے یہ طوفان اٹھایا تھا) نصرت طلب کی اور رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' اس شخص کے مقابلے میں جس کے سبب سے مجھ کو اپنے گھر والوں کے بارے میں اذیت پہنچی ہے، کون میری مدد کر تا ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم میں اپنے گھر والوں میں اچھا ئی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور ان لوگوں نے ایک ایسے شخص کو (اس تہمت میں) ذکر کیا ہے کہ میں اس میں بھی سوائے اچھائی کے کچھ نہیں دیکھتا اور خود میرے گھر میں وہ جب آئے ہیں تو میرے ساتھ ہی آئے ہیں۔ ''پس سیدنا سعد بن معاذؓ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اللہ کی قسم ! ہم اس شخص کے مقابلے میں آپ کی مدد کریں گے۔ اگر وہ قبیلۂاوس سے ہوتا تو فوراً ہم اس کی گردن مار دیتے اور اب چونکہ وہ قبیلۂ خزرج میں سے ہے لہٰذا آپ ہم کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیں ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ اس کے بعد سیدنا سعد بن عبادہؓ کھڑے ہو گئے اور وہ قبیلۂ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے وہ اچھے آدمی تھے مگر ان کو قومی حمیت نے برانگیختہ کیا اور انھوں نے (سیدنا سعد بن عبادہؓ سے) کہا کہ اللہ کی قسم ! تم جھوٹ کتنے ہو،ہم بلا شبہ اس کو قتل کر دیں گے، تو منافق ہے کیوں کہ منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتا ہے۔ پس دونوں قبیلے اوس اور خزرج بگڑ بیٹھے یہاں تک کہ انھوں نے (باہم لڑنے کا) ارادہ کر لیا حالانکہ رسول اللہﷺ منبر پر تھے۔ پس آپﷺ منبر سے اترے اور ان کو خاموش کیا یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپﷺ نے بھی سکوت فرمایا:'' ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں اس روز بھی روتی ہی رہی نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی، پھر صبح کو میر ے ماں باپ میرے پاس آئے اور میں دو راتیں اور ایک دن رو چکی تھی (اور برابر آنسو جاری تھے) یہاں تک کہ میں خیال کرتی تھی کہ یہ رونا میرا کلیجہ شق کر دے گا۔ پھر کہتی ہیں کہ اسی حال میں کہ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اچانک ایک انصاری خاتون نے (میرے پاس آنے کی) اجازت طلب کی میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی پس ہم اسی طرح رو رہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جس دن سے یہ طوفان اٹھا تھا، آپﷺ میرے پاس بیٹھتے ہی نہ تھے اور آپﷺ نے ایک مہینہ تک (وحی کے انتظار میں) توقف کیا مگر میرے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ پھر آپﷺ نے خطبہ پڑھا، اس کے بعد فرمایا :'' اے عائشہ ! مجھ کو تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پس اگر تم (اس تہمت سے) بری ہو تو عنقریب اللہ تم کو بری ظاہر فرما دے گا اور اگر تم واقعی کسی گناہ میں آلودہ ہو چکی ہو تو اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر توبہ کر تا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ '' پس جب رسول اللہﷺ اپنی گفتگو مکمل کر چکے تو میرے آنسو (اچانک) خشک ہو گئے، ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد (امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ) سے عرض کی کہ آپ رسول اللہﷺ کو میری طرف سے جواب دیجئیے تو انھوں نے کہا اللہ کی قسم ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں رسول اللہﷺ کو کیا جواب دوں؟ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کو میری طرف سے جواب دو مگر انھوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں رسول اللہﷺ سے کیا عرض کروں؟ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں پس میں نے عرض کی،حالانکہ میں کمسن تھی، بہت قرآن بھی پڑھی ہوئی نہ تھی، کہ اللہ کی قسم ! مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگوں نے اس بات کو سنا ہے جس کا لوگ چرچا کر رہے ہیں اور وہ آپ کے دلوں میں جم گئی ہے اور آپ لوگوں نے تقریباً اس کو سچ سمجھ لیا ہے اور بے شک اگر میں آپ سے کہوں گی کہ میں (اس الزام سے) بری ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بے شک میں بری ہوں تو آپ لوگ غالباً مجھے سچا نہ سمجھیں گے اور بے شک اگر میں کسی بات کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں (اس تہمت سے) پاک ہوں تو یقیناً آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم ! میں اپنی اور آپ کی مثال کچھ نہیں پانی مگر یوسف کے والد (اور ان کے بھائیوں کی حالت) کو،جب ان کے والد بزرگ نے کہا۔ :'' پس صبر میں بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔ ''(یوسف : ۱۸) اس کے بعد میں نے اپنا رخ اپنے بستر کی طرف کر لیا اور میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری فرما دے گا مگر اللہ کی قسم ! مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل ہو گی اور بے شک میں اپنے دل میں اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتی تھی کہ قرآن مجید میں میرے اس معاملہ کا ذکر ہو گا بلکہ میں تو اس بات کی امید رکھتی تھی کہ رسول اللہﷺ سوتے میں کوئی خواب دیکھیں گے اور وہ خواب میری براءت کر دے گا۔ پس اللہ کی قسم ! آپﷺ اپنے مقام سے ہٹے بھی نہیں تھے اور نہ گھر کے لوگوں میں سے کوئی شخص باہر نکلا تھا کہ اسی جگہ آپﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپﷺ پر وہی حالت طاری ہو گئی جو نزول وحی کے وقت طاری ہو اکرتی تھی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپﷺ (کی پیشانی مبارکہ) سے پسینہ مثل موتیوں کے ٹپکنے لگتا تھا۔ پس جب رسول اللہﷺ سے وہ حالت دور ہوئی تو آپﷺ اس وقت ہنس رہے تھے اور سب سے پہلے جو الفاظ آپﷺ نے مجھے سے فرمائے وہ یہ تھے :'' اے عائشہ ! تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر و کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری براءت کا اظہار فرما دیا۔ '' میر ی والدہ نے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے سامنے (شکر یہ ادا کرنے کے لیے) کھڑی نہیں ہو گی اور نہ میں اللہ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی۔ پس اللہ تعالی عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :'' جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باند ھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے۔۔۔ ''(سورۂ نور آیت نمبر ۱۱)پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میر ی براءت میں نازل فرمائیں تو امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ نے، جو پہلے مسطح بن اثاثہ کو قرابت کی وجہ سے کچھ امداد کے طور پر دیا کرتے تھے، یہ قسم کھا لی کہ مسطح کو اس کے بعد کہ انھوں نے (ام المومنین) عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ کی نسبت ایسا کچھ کہا اب کچھ بھی نہ دوں گا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
'' تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انھیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیے، بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ '' اور اللہ غلطیوں کو معاف فر مانے والا بڑا مہربان ہے '' (سورۂ نور آیت نمبر ۲۲)
پھر انھوں نے مسطح کو وہی دینا اختیار کر لیا جو ان کو دیا کرتے تھے اور رسول اللہﷺ نے ام المومنین زینب بنت حجشؓ سے میرے معاملہ کی نسبت دریافت فرما یا :'' اے زینب ! تم کیا جانتی ہو، تم نے کیا دیکھا ہے؟ '' تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں کان اور آنکھ کو جھوٹ سے بچاتی ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں ان (یعنی ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ ) میں سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں جانتی۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ کہتی ہیں کہ ام المومنین زینبؓ میری برابر کی تھیں مگر اللہ نے ان کو بوجہ ان کی پرہیزگاری کے، میری بد گوئی سے بچا لیا۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جب ایک مرد دوسرے مرد کو اچھا کہے تو یہ کافی ہے
(۱۱۸۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کی تعریف کی تو آپﷺ نے فرمایا :'' تیری خرابی ہو تو نے (تعریف کیا کی بلکہ) اپنے ساتھی کی گردن کاٹ کر رکھ دی، تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ کر رکھ دی۔ '' کئی مرتبہ (آپﷺ نے یہی فرمایا) اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا :'' تم میں سے جو شخص لا محالہ اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے کہ فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں اور اس کی اندرونی حالت کا حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور میں اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہتا اور میں اس کو ایسا سمجھتا ہوں بشرطیکہ وہ اس میں اس بات کو جانتا ہو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ لڑکوں کا بالغ ہو نا اور بعد بلوغ کے ان کی گواہی (کا معتبر ہونا)
(۱۱۸۱)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان کو غزوۂ احد کے دن اپنے سامنے بلایا اور وہ اس وقت چودہ برس کے تھے (وہ کہتے ہیں کہ) آپﷺ نے مجھے اجازت نہیں دی، اس کے بعد خندق کے دن مجھے اپنے سامنے بلایا اور اس وقت میں پندرہ برس کا تھا تو آپﷺ نے مجھ کو اجازت دے دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جب چند آدمی ہوں اور ہر ایک قسم کھانے میں جلدی کرے
(۱۱۸۲)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے کچھ لوگوں پر قسم پیش کی تو وہ جلدی سے قسم کھانے پر مستعد ہو گئے تو آپﷺ نے حکم دیا کہ ان کے درمیان قرعہ ڈالا جائے کہ ان میں سے کون قسم کھائے۔ ''
 
Top