• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدارس کے قیام و طعام کا نظام ۔۔۔۔۔۔ محمد مسعود عزیزی ندوی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

تحریر : محمد مسعود عزیزی ندوی​
-----------------------​

آج کل ہمارے مقررین، مبلغین، داعی حضرات جب تقریر کرتے ہیں ،یاکوئی اصلاحی مجلس قائم کرتے ہیں ،یا اخباریا کسی رسالہ میں مضمون لکھتے ہیں ، تو جوش میں مردوزن کے بے محابا اختلاط کوپوری قوت او ر تاکید کے ساتھ ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں۔او ر معاشرے میں اس کے جو بھیانک نتائج آشکارا ہورہے ہیں ان کی طرف اشارے بھی کرتے ہیں اوراس سلسلہ میں جو حادثات او ر غلط واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں، ان کو بیان بھی کرتے ہیں، اور عملاً ان کی خبریں اخبارات میں آئے دن پڑھنے کو بھی ملتی رہتی ہیں،پھر جوطلبہ وطالبات مخلوط تعلیم حاصل کرتے ہیں، اور ایسے اسکول وکالج جن کے یہاں Co-Educationکانظم ہے ، ان کو بھی ہدف ملامت بنایا جاتاہے، ا وراس سلسلہ میں عوام کو اورطلبہ وطالبات کے وارثین کو واضح ہدایات بھی دی جاتی ہیں اور ان کی خیر خواہی میں ان کوایسے اسکولوں سے اپنے بچوں کو ہٹانے کی ہمدردانہ اورخیرخواہانہ نصیحت بھی کی جاتی ہے، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ ان چیزوں اوران باتوں سے معاشرے میں جو بے راہ روی پھیل رہی ہے اور جو غلط باتیں، یا بے شرمی کی چیزیں پنپ رہی ہیں، ان کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا،اوران باتوں کی طرف بے چارے عوام اور ایجوکیٹیڈ، دنیوی تعلیم یافتہ لوگوں کا دھیان تو کم جاتاہے ، وہ تو اپنی جنٹل مینی اور جدت پرستی یا زمانے کی آواز میں آواز ملانے کی وجہ سے اور ”چلوتم اُدھرکوہواہو جدھرکی “ اس کی بنا پر خیال تک میں بھی یہ بات نہیں لاتے۔
ان باتوں کی طرف علما ء کرام ،مدارس کے ذمہ داران ، مقررین او رمبلغین حضرات ہی توجہ دلاتے ہیں ، چونکہ وہی اپنی دور رسی ودور اندیشی او رعلم وفہم کی روشنی میں ان کے خطرناک نتائج اورخدشات کو سمجھ سکتے ہیں۔
مگر اس وقت حیرت ہوتی ہے جب ان کے گھروں کے اندر- گھر اس معنی میں کہ وہ مدارس کے ذمہ داران ہیں، اور مدارس کے خود مختار اور سیاہ وسفید کے مالک ہیں ، اگرچہ بعض جگہ نام نہاد شورائیں بھی ہیں، مگر ان کی حقیقت ہاتھی کے دانت سے زیادہ نہیں- مدارس میں طلبہ ایک ساتھ لیٹتے ہیں ، بعض جگہ تودودوفٹ جگہ ، بعض جگہ تین تین فٹ جگہ طلبہ کو ملتی ہے ، اوروہ ایک ساتھ لیٹتے ہیں ۔
حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
﴿مُرُوْا أَوْلاَدَکُمْ بِالصَّلٰوةِ وَہُمْ اَبْناَءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ اَبْنَاءُ عَشَرٍ وَفرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِیْ الْمَضَاجِعِ﴾
کہ جب بچے دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردو، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں کتنا بڑا پیغام ہے ، اور کس اعلی اخلاق کی طرف رہنمائی ہے۔
”صاحب البیت ادری بما فیہ“ کے پیش نظر اس شکل میں طلبہ میں جو بداخلاقی اوراخلاقی گراوٹ پیداہوتی ہے ، اس کا ذمہ دار کون ہے ؟اور ذمہ دار کوئی بھی ہو، مگر وہ طلبہ جو اس اختلاط کی بنا پر گھنا وٴنے جرم اور غیر فطری عمل کے مرتکب ہوجاتے ہیں، بعض کی زندگی توتہہ وبالا ہوجاتی ہے، اور یہ بات نہیں کہ تمام ہی طلبہ اس سلسلہ میں بے راہ روی اختیار کرکے حدسے تجاوز کرتے ہیں ، بلکہ کچھ ہی ہوتے ہیں مگر ان کا اثر بہت سوں پر پڑتاہے،
اور اس اخلاقی گراوٹ کا اگرچہ اعتراف بہت سے حضرات کو ہے ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ مہمانان رسول ہیں ، ان کی نسبت بہت عالی ہے ، فرشتے ان کے لیے پربچھاتے ہیں ، سمندر کی مچھلیاں ان کے لیے دعائیں کرتی ہیں، مگر بے چارے اہل مدارس کیا کریں، طلبہ کی کثرت ہے، اس کا بظاہران کو کوئی حل سمجھ میں نہیں آتا، بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جی سینکڑوں سالوں سے یہی نظام چل رہاہے ، ہمارے اکابرین نے اسی طرح زندگی گزاری ہے، اللہ کے بندو! اکابرین نے روکھی سوکھی کھا کر بھی توزندگی بسر کی ہے، اس میں کیوں ان کا اتباع نہیں کیاجاتا؟
پھر آخر اس کا کیا حل ہے ؟ حل اس کا یہ ہے کہ مدارس میں بیڈ یا تخت کا استعمال کیا جائے، بہت سے مدارس میں اس کاتجربہ سینکڑوں سالوں سے ہو رہاہے اور وہاں اخلاقی گراوٹ کم ہے ، یہ الگ بات ہے کہ جب فضا خراب ہوتی ہے ، اور ماحول میں آلودگی ہوتی ہے ، تواس کا اثر ہر جگہ ہوتا ہے ، مگراس سے بچنے بچانے کی تدابیر تو اختیارکی جاتی ہیں ، اور تدابیر اختیار کرنا، اور مسائل کو حل کرنا فطری تقاضہ بھی ہے ، اور کسی قوم کے زندہ ہونے کی علامت بھی ہے ،اس لیے تمام اہل مدارس کو اس معاملہ میں غور کرنے کی اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا کمروں میں اختلاط کے ساتھ نوجوان طلبہ کا لیٹنا ، یاچھوٹے بڑے طلبہ کا ایک ساتھ لیٹنا اچھاہے ، یا الگ الگ تخت پر لیٹنا اچھاہے ، اس معاملہ کو قطع نظر کسی مصلحت ، قطع نظر اکابر کے طرز عمل، قطع نظر ہمارے بڑے مدارس کے طرز کے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ، کہ آیا الگ لیٹنا عین اسلامی طریقہ ہے ، یا ایک ساتھ لیٹنااسلامی طریقہ ہے ، ہر ایک مدرسے کے معتمد اور ذمہ دار کو-ضداو رہٹ دھرمی سے ہٹ کر- سنجیدگی اور غیرت ایمانی سے سوچنے کی ضرورت ہے ، اوراسلامی مطالبہ کو ذہن میں رکھناہے ۔
بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جی ہمارے یہاں طلبہ زیادہ ہیں، جگہ تھوڑی ہے ، کمرے کم ہیں، تختوں کے لیے زیادہ کمروں کی ضرورت ہے ، تو ہم نہیں کہتے کہ طلبہ کم کریں،لیکن اس پہلو پر اس طرح غورتوکرہی سکتے ہیں کہ جب وسائل کی کثرت ہے اوربالیقین ہے ، جتنا خرچ پورا مدرسہ بنانے میں ہوتاہے ، اس سے کہیں زیادہ عالیشان مسجد بنانے میں ، مسجد کی تزئین کرنے میں ، پتھر لگانے میں ہوجاتاہے ، یا زیادہ نہ سہی بلکہ برابر یاتھوڑا کم تو ہو ہی جاتاہے ، تو کیا کچھ زیادہ کمرے بناکے ،کچھ تخت نہیں بناسکتے،واللہ! یہ کوئی طنزوتحقیراور کسی عجب وبڑائی کی بات نہیں بلکہ دل کی کڑھن کی بات ہے۔
جب قوم تعاون کرتی ہے ، تواس مدمیں بھی ان سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے،کیونکہ مدارس کا وجود ، مدارس کا قیام یہ قوم کے طلبہ کے اخلاقیات کو درست کرنے کے لیے اور اخلاقیات کی تعلیم کوعام کرنے کے لیے ہے، جب اخلاقیات کو درست کرنا ہے تواخلاقیات کے اس شعبہ کی طرف دھیان کیوں نہیں جاتا؟اور اگر کہیں یہ نظام ممکن نہ ہو، کہیں بھی ہندوستان میں نہ چل رہاہوتو عذر معقول ہوسکتاہے، مگر ہم دیکھتے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے مدارس میں یہ نظام چل رہاہے ، اورطلبہ کے لیے تخت کا انتظام کیا جارہاہے ، خود راقم کے یہاں بھی تخت کا نظم ہے،اور تختوں کے لیے مستقل ایک مخیر سے رقم حاصل کی ہے ، توسب کو اس سلسلہ میں سوچنے کی ضرورت ہے ، سب کے سرتھوپنے والی بات نہیں ہے ، بلکہ ہرایک کو اپنے تئیں اپنے مدرسے کے تئیں اوراپنے عزیز طلبہ کے تئیں غور کرنے کی ضرورت ہے ، یہ نہ دیکھیں کہ کون کہہ رہاہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ بات معقول ہے یاغیرمعقول ، اس کے تناظر میں سوچنا ہے ۔
مدارس میں اخلاقیات کی تعلیم کے سلسلہ میں ایک اہم بات اور عرض کرنی ہے کہ بہت سی جگہ کیابلکہ اکثر جگہ جوکھانا تقسیم ہوتاہے تو طلبہ کی لائن لگتی ہے اورپھر طلبہ ایک ہاتھ میں روٹی، دوسرے ہاتھ میں سالن یادال کا برتن اٹھائے ہوئے دوڑتے ہوئے جاتے ہیں، اگر کسی طالب علم نے لنگی پہن رکھی ہے اور وہ کھل جائے تو کیا حشرہوگا؟ لیکن چلو ہم مانتے ہیں کہ اس کے پاس پائجامہ ہے ،تو کیا یہ بھی اسلامی طریقہ ہے کہ وہ ایک ہاتھ میں دوروٹی لٹکائے جانورکی طرح اورسالن لیے جارہا ہے-معذرت کے ساتھ ، الفاظ بھونڈے ہیں،مگر آپ دیکھئے کہ کیسا لگتاہے - بہت سے اس کو بھی یہی کہیں گے کہ صاحب! سینکڑوں سالوں سے یہی طریقہ رائج ہے، بڑے بڑے اکابر اسی طرح سے بنے ہیں ، ہم مانتے ہیں اس طرح سے اکابرکا بننا، مگریہ حجت تونہیں ہوسکتا، ہمیں اسلامی تعلیم دیکھنی ہے۔
اگر وہ روٹی کو دسترخوان یاکپڑے میں لپیٹ کر لے جائے اور سالن کوڈھک کر لے جائے تو کتنا اچھاہے ، کیا یہ تہذیب نہیں ہے ، ہمیں تو اخلاقیات کی بھی تعلیم دینی ہے اور تہذیب بھی سکھانی ہے ،ہم رات دن مغربی تہذیب کی تو بخیہ ادھیڑتے ہیں، مگر اپنی تہذیب کی پاسداری نہیں، اس لیے اس کا بہتر طریقہ آج کے زمانہ میں ناشتہ دان ،یا ٹفن ہوسکتاہے کہ اس کے ایک ڈبے میں سالن دوسرے میں روٹی رکھ کر اچھے اندا ز میں پردے کے ساتھ کمرے تک لے جایاجاسکتا ہے ۔
دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی ہال میں تمام طلبہ کو بٹھا کر کھلادیا جائے، اس میں کھانے کی بے ادبی بھی کم ہوتی ہے، اور اسلامی طریقہ بھی ہے کہ سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھاسکتے ہیں، اگرچہ یہ طریقہ بہت سی جگہ رائج ہوکر بند ہوگیاہے ، مگر جہاں کہیں بھی ہے ، اچھا ہے ، لیکن اگر یہ اپنے مدرسہ کے حالات کے لحاظ سے موزوں نہ ہو توناشتہ دان والا یا پھر کم سے کم دسترخوان اور کپڑے والا طریقہ تو ہونا ہی چاہیے،جانوروں والا پہلا طریقہ اچھانہیں ہے، یہ الفاظ تو بظاہر برے لگ رہے ہوں گے مگر اس کے علاوہ کہا بھی کیا جائے؟ سمجھانے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیاجاتا ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے، قرآن کریم میں کہیں کتے ، کہیں گدھے ، کہیں جانور جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں، تواس لیے اس سلسلہ میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، بعض حضرات اگرچہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جی دماغ کا کیڑا تو دراصل اسی طرح نکلتاہے ، یعنی مدرسہ عالیشان، کمرے عالیشان ، مسجد اور مسجد کے مینارے عالیشان، فرش عالیشان، کپڑے اور رہائش عالیشان، صرف دماغ کا کیڑا ہاتھ میں روٹی لے کر او ردال لے کرہی نکل سکتا ہے ، لاحول ولاقوة الا باللہ ۔
ہمیں تجربہ ہے کہ ہمارے یہاں فضلا کا ایک اختصاص کاکورس ہے ، تو بعض مرتبہ ان فضلا ء کو ان کی بے اصولی اور بدعنوانی پر ہدایت کی جاتی ہے، روک ٹوک کی جاتی ہے اوران کی گرفت کی جاتی ہے، توبعض مرتبہ جوان کے پڑھانے والے استاد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی فضلا ہیں ، علماء ہیں ، کم سے کم ان کا تو خیال رکھنا چاہیے، ان کا احترام کرنا چاہیے، میں عرض کرتاہو ں کہ بھاڑ میں جائیں ایسے علماء او رفضلاء جو اصول کا خیال نہ رکھتے ہوں،یہی علماء اورفضلاء جب کھانا لیتے ہیں تو ہاتھوں میں روٹی اسی طرح لے جاتے ہیں جس طرح گذشتہ آٹھ دس سال سے عادت ہے ، مجھے بتلاتے بتلاتے شرمندگی ہونے لگی، کیا کہاجائے علما ء امت اورفضلائے امت کو، جو کل قیادت کرنے والے ہیں ، وہ ایک بھی ماننے کو تیا رنہیں ہیں اور ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ہیں ۔
بس”اِنَّمَااَشْکُوْ بَثَّی وَحُزُنِیْ اِلیَ اللّٰہِ“ اللہ ہی کو اپنا دردوغم سناتاہوں اور امت کے سنجیدہ علما ء ، سنجیدہ افراد اور مفکرین کو باور کرانا چاہتاہوں کہ کچھ سوچیں ، کب تک اس پرانی روش اور ڈگر پرچلتے رہیں گے ، جن چیزوں میں پرانی ڈگر پر چلنے کی ضرورت ہے، ان کو تو پس پشت ڈالا ہواہے اور جہاں صحیح بات بتلانے کی اور اختیا رکرنے کی ضرورت ہے، وہاں کہہ رہے ہیں کہ پرانا طریقہ ہی ٹھیک ہے ، پرانا طریقہ وہ تو صحیح ہے جس پر صحابہ نے زندگی گزاری، اسلاف نے زندگی گزاری، لیکن جن چیزوں میں اللہ نے جدت اور بدعت حسنہ کے اختیار کرنے کی اجازت دی ہے ، وہاں انتظامی طورپر صحیح چیزوں کو”خُذْمَاصَفَاوَدَعْ مَاکَدِرْ“ کے پیش نظر لیا جاسکتاہے ، ان کو اختیا رکرنے میں کیا قباحت ہے ؟ اللہ ہی ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور صحیح لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، بس اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے ۔
 
Top