• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدرسہ عربیہ رائیونڈ کے ایک طالب علم کی بپتا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
فکر کون کرے گا؟

کسی اہل دل کی صحبت، جو ملی کسی کو اختر
اسے آگیا ہے جینا ، اسے آ گیا ہے مرنا...
جس زمانے میں یہ عاجز مدرسہ عربیہ رائیونڈ میں پڑھا کرتا تھا..، تب وہاں پابندیاں بہت زیادہ تھیں..یہ کرنا ہے، یہ نہیں کرنا..یہ یوں کرنا ہے، اسے یوں نہیں کرنا..اسے تب سے کب تک کرنا ہے، کہاں تک کرنا ہے، کب کسی شے کو، شخص کو چھوڑنا ہے..کب اسے لینا ہے، اٹھانا ہے، گرانا ہے.
اوپر سے حاضریوں کا لمبا چوڑا سلسلہ...ایک مرتبہ ہم نے گنا، تو ہمیں چوبیس گھنٹوں میں سولہ مرتبہ حاضری کی کشٹ اٹھانی پڑتی تھی...کبھی کبھار دماغ جھنجنا اٹھتا..اور سرکشی کے جراثیم بھی سراٹھاتے..مگر اللہ کی شان کوئی نہ کوئی مسیحا دل کے زخموں پر پٹی رکھ ہی لیتا..
سب سے زیادہ تکلیف دلی، دماغی، قلبی، جگری.....ہر طرح سے تب اٹھائی ، جب میری نانی وفات پاگئی...
دورے کے سال مَیں نے نیت کی تھی کہ کسی بھی حال میں چھٹی نہیں کرونگا.ایک بھی سبق کا ناغہ نہیں ہونے دونگا..کسی بھی قیمت پر...چاہے میری ماں، میرا باپ بھی مرجائیں، ان کے جنازے پر بھی نہیں جاؤنگا...
مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے ماں باپ نہیں، میری نانی مرے گی!!
نانی کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مجھے دس ماؤں سے بھی زیادہ محبوب تھی، زندگی جو ان کی گود میں گذاری تھی.. ! موت بھی اسے بس بیٹھے بیٹھے آگئی...ہلکی سی بیمار ہوگئی تھی..یہ اطلاع تو مجھے تھی..مگر بیمار کون نہیں ہوتا...! ان دنوں مدرسہ میں موبائل رکھنے پر سخت پابندی تھی..تاہم ہم چوری چھپے رکھتے تھے..عصر کے بعد کا وقت تھا، جب میرے سالے نے یہ دردناک اطلاع دی...مجھے اپنے پیروں تلے سے زمیں، سر کے اوپر سے آسمان کھسکتا ہوا محسوس ہورہا تھا..کائنات کی ہر شے گھومتی اور میرے اوپر گرتی محسوس ہورہی تھی...شوال کا مہینہ چل رہا تھا..دو ایک دن بعد بقر عید کی چھٹیاں تھیں..میں اپنے متعلقہ استاد کے پاس اپنے جذبات کو آنسوؤں کی شکل میں بہاتا ہوا حاضر خدمت ہوا، وہ افطاری کی تیاری کررہے تھے..میں نے روتے روتے عرض کیا کہ جناب..! میں نے تو اپنے ساتھ عہد کیا تھا کہ ماں باپ بھی مریں گے، تب بھی چھٹی نہیں کرونگا...مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ میری نانی بھی مرسکتی ہے. وائے قدرت...ہائے قدرت! وہی وفات پاگئی..تو میں چاہتا ہوں کہ مجھے بس اتنی چھٹی دیدیں کہ جا کر آخری بار ان کو دیکھ آؤں اور جنازہ میں شریک ہوجاؤں.
اتنے میں اذان شروع ہوگئی..انہوں نے کھجور اٹھائی، منہ میں رکھی، روزہ کھولا..اور پھر گویا ہوئے، "اس وقت تمہیں کیسے اطلاع مل گئی کہ وہ وفات پاگئی ہے ..؟ ضرور تمہارے پاس موبائل ہوگا؟ "
میری اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے اور درمیانی کا اللہ کو علم ہے کہ کہاں چلی گئی ..استاد جی کا چہرہ گول گول نگاہوں میں گھومنے لگا...موبائل رکھنے کی سزا بڑی سادہ تھی.بستر اٹھاؤ اور تشریف لے جاؤ...پھر فوراً بعد پچھلا حال غالب آگیا..میرے دل میں گلہ، شکوہ، درد اور ناراضگی کی شدید لہر اٹھی.....دماغ سنسنانے لگا، اسے دیکھئے..میرا کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے..اور ان کو موبائل کی پڑی ہے.! شاید انہوں نے بھی یہ بات محسوس کی اور موضوع بدل کر متعلقہ مسئلے کی طرف آگئے. کیا بتاؤں...مختصر یہ کہ چھٹی نہیں ملی.میں دل ہی دل میں کڑھتا رہا..شاید غم سے گھٹ گھٹ کر مر ہی جاتا..ہوا مگر یہ کہ بقر عید پر مرکز میں سینکڑوں جانور قربانی کے لئے لائے جاتے ہیں..ان کی خبر گیری اور پھر ذبح کرنے کے لئے ایک کثیر تعداد طلباء کو ہر سال ترغیب دے کر روکا جاتا ہے، عید مرکز میں ہی گذارنے کی خاطر...
خوش قسمتی سے اس بار ترغیبی بیان استادِ محترم مولانا احسان الحق صاحب کا تھا..انہوں نے قربانی کے ہی موضوع پر بیان کیا..میں دھاڑیں مار مار کر دورانِ بیان خوب رویا..یہاں تک کہ آنسو ہی خشک ہوگئے..پھر سکون آ ہی گیا.اور سکون تو بلآخر ہر کسی کو ہر حال میں آ ہی جاتا ہے..کم از کم طبیعت میں ٹھہراؤ تو آ ہی جاتا ہے.
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی سخت زندگی گذارنی پڑی تھی..
اتنا ہی نہیں، روز روز نئی قسم کی پابندیاں بھی بنتی جاتی تھیں..اساتذہ فرماتے تھے کہ تم لوگوں کی بےاصولی کیوجہ سے ہمیں مزید اصول بنانے پڑتے ہیں...
ہر مرتبہ نئی پابندیاں سنانے سے پہلے ترغیب ہوا کرتی تھی.
ایک مرتبہ یہ ہوا کہ ترغیب کی ذمہ داری استادِمحترم حضرت مولانا جمشید علی خاں صاحب رحمہ اللہ کی تھی..اس ترغیب میں انہوں نے ایک جملہ کہا تھا..ایسا یاد رہ گیا کہ گویا دل پر نقش ہے.پہلے جب مدرسے میں ہوتے تھے، تو اسے دوہرا دوہرا کر ہنسا کرتے تھے ..ٹھٹھا اڑایا کرتے تھے اس کا.....
اور اب اس ایک جملہ کو یاد کرکے پہروں روتے اور دلگرفتہ رہتے ہیں.
آپ نے تب فرمایا تھا کہ تم لوگ خوش قسمت ہو کہ کوئی ہے، جو تمہاری خیر خبر سوچتا ہے..تمہاری فکر میں رہتا ہے..تمہاری تربیت کا خواہش مند ہے..
ایک وقت ایسا آئیگا، جب تم روؤگے کہ کاش ایسا کوئی رہبر، ایسی کوئی شخصیت تمہیں اب بھی میسر ہو..مگر تب کچھ بھی ممکن نہیں ہوگا."
تجربے سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے سر پر کوئی بڑا رکھنا ہی چاہیئے، جس کی طرف وہ مشکل میں رجوع کرے..عام معاشرتی امور میں، علمی زندگی میں اور اخلاقی و اصلاحی طور پر بھی، کسی ضابطے کے بڑے کا ہونا بےحد ضروری ہے.
یہ ایسی ہستی ہو، جس کے سامنے آپ کا ماضی، آپ کا حال ہو اور جسے آپ کے مستقبل کی فکر ہو...
ورنہ فیس بک پر بھی اور عام زندگی پر صاف دِکھ رہا کہ بڑے بڑے لوگ پھسل رہے اور پھسل گئے...اپنی روایت سے، اپنے اور اپنے حقیقی اساتذہ کے افکار سے....بلکہ اہل السنت کے بنیادی فکر سے ہی منحرف ہوگئے.
خاص کر ہمارے وہ کچھ مہرباں، جو عصری اداروں کی طرف آئے ہیں، ان کو زیادہ ہی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پر نہ صرف آپ کے دل سے رواداری کے نام پر برائی اور گناہ کا برا ہونا اور اسے برا سمجھنے کا احساس نکالا جارہا، بلکہ آپ کے افکار اور نظریات بھی موڑے جارہے..
لہذا جاگتے رہیئے..اور جگاتے رہیئے..
اعاذنا اللہ و عافانا..
Ali Imran

فیس بک سے​
 
Top