اِنذار اور فتویٰ کا فرق
بعض مدرسین کے حوالے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ وہ اپنے دروس میں قرآنی آیات کو جب مختلف افراد،اسلامی جماعتوںاور مسلمان معاشروں پر چسپاںکرتے ہیں تو اُن کااسلوب ناصحانہ کی بجائے مفتیانہ ہوتا ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مدرسین نفاق،شرک اور کفر سے متعلقہ آیات کا درس دیتے ہوئے بڑی جرات سے عام مسلمانوں پر ان آیات کا انطباق کرنا شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت کو منافق،کافر ،مشرک اور جہنمی بنا دیتے ہیں ۔مثلاایک مدرس اپنے درس کے لیے نفاق سے متعلقہ آیات کا انتخاب کرتاہے،پھر اُن آیات کا عام مسلمانوں پر انطباق کرتا ہے،اور آخر میں آیت مبارکہ
(اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ) سنا کر اپنے تئیں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو جہنمی اور اس آیت مبارکہ کا مصداق بنا دیتا ہے ۔
یہ طرزِ عمل قرآن کے اس مقصد کے بھی خلاف ہے جس کی خاطر اس کو نازل کیا گیا ہے۔قرآن اس لیے نہیں آیا کہ ہم لوگوںپر فتوے لگا کرخوش ہوں کہ تم جہنمی ہو،منافق ہو،مشرک ہو، کافرہووغیرہ،بلکہ قرآن تو اس لیے آیا ہے کہ ہم لوگوں کو نفاق ،شرک اور کفر سے نکال کر جنتی بنائیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبشیر (جنت کی بشارت )کے ساتھ ساتھ انذار (آخرت کا خوف دلانا) بھی مطلوب ہے،لیکن انذار اور فتویٰ میں بہت فرق ہے ۔انذار یہ ہے کہ آپ لوگوں کو خبر دار کریں،انہیں بتائیں کہ یہ منافقین کی صفات ہیں،یہ اعمال مشرکانہ یا کافرانہ ہیں،قرآن نے ان چیزوں سے روکا ہے اور ان کے مر تکبین کو جہنم کی وعید سنائی ہے ۔یہ تو انذار کا انداز ہے ۔جب کہ فتویٰ کا اسلوب یہ ہے کہ آپ کہیں کہ فلاں کام کرنے والا کافر ہے،مشرک ہے،جہنمی ہے،ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
قرآنی آیات کا مخصوص مسلمانوں اور مسلمان معاشروں پر انطباق کرنا شرعی اصطلاحات کے مطابق اجتہاد ہی کی ایک قسم ہے اور یہ کام فقہاء اور مفتیانِ کرام کا ہے،مدرسین کا نہیں۔
عربی زبان کے چند بنیادی قواعد کو سیکھ لینے کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آدمی درجۂ اجتہاد اور مسند افتاء پر فائز ہو گیا ہے اور اس کے پاس یہ سند آگئی ہے کہ لوگوں پر قرآنی نصوص کا انطباق کرتا پھرے،بلکہ مدرسین کو چاہیے کہ اپنے دروس میں عوام الناس کو منافق اور جہنمی قرار دینے کی بجائے انہیں ایک باعمل مؤمن اور جنتی بنانے کی طرف توجہ دیں۔جیسا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا ہے کہ ١٤ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے ہیں جتنے اس ایک صدی میں کافر بنا دیے ہیں۔
ایک خاتون نے راقم الحروف کو بتایاکہ وہ لاہور کے ایک معروف دینی ادارے میں سمر کورس کرنے کے لیے تشریف لے گئیں تو پہلے ہی دن معلمہ نے ایمان و اسلام کے تقاضوں پر درس دینے کے بعد تمام خواتین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔تو وہاں پر موجو دسب خواتین نے معلمہ کے درسِ قرآن سے متأثر ہو کر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ مذکورہ خاتون نے مزید بتایا کہ اگلے دن جب وہ کلاس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئیں تو انہوں نے کلاس میں موجود خواتین کو سلام نہ کیا ۔اس پر کلاس میں موجود تمام خواتین نے ان سے اس بات پر احتجاج کیا کہ آپ نے کلاس میں داخل ہوتے وقت سلام کیوں نہیں کیا؟تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول ۖ کا فرمان ہے کہ صرف مسلمانوں کوسلام کرنا چاہیے جبکہ کل پوری کلاس نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔کچھ ہی دیر بعد معلمہ صاحبہ کلاس میں تشریف لے آئیںاور انہوں نے آتے ہی پوری کلاس سے سوال کیا کہ کیا آپ کے اندر ایمان ہے؟ تو ساری کلاس کا سر شرم کے مارے جھک گیا۔پھر معلمہ صاحبہ نے کہا تمہیں کیا معلوم کہ ایمان کیا ہوتا ہے !آج میں تمہیں بتاؤں گی کہ ایمان کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں !
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے،اس قسم کے بیسیوں دروس میں باقاعدہ سامعین سے اس بات کا اقراریا کم از کم یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ منافق ہیں اورایمان سے خالی ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ طرزِ عمل اس حکمت کے بھی منافی ہے جس کے بارے میں ہمیں حکم دیاگیا ہے کہدعوت و تبلیغ میں اس کو ملحوظ رکھیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط) (النّحل:١٢٥)
''(اے نبیۖ!) اللہ کے راستے کی طرف بلایئے حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور اُن سے مجادلہ کیجیے اس طریقے پر جو کہ بہتر ہو۔''
کتاب اللہ نے ایک تو دعوت میں حکمت کا حکم دیا ہے اور وعظ ونصیحت پر دعوت کی بنیاد رکھنے کی طرف رہنمائی کی اور اگر مجادلہ کی کسی سے ضرورت پڑے تو’
مجادلہ احسن ‘کی اجازت دی ہے نہ کہ مطلق مجادلہ کی۔