• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدرسے کا طالب علم پیچھے کیوں رہ گیا ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مدرسے کا طالب علم پیچھے کیوں رہ گیا ؟

>

کچھ روز گزرے میں نے لکھا تھا کہ کیا مدارس کا نصاب ہی خرابی کی جڑ ہے ؟.
اسی مضمون کے آخر میں اعتراف کیا تھا کہ مدارس میں سب اچھا بھی نہیں - میرا وہ مضمون اصل میں اس طبقے کا جواب تھا جو معاشرے کی ہر برائی مدرسے کے مولوی سر ڈال کر خود کو پاک پوتر بنا کر پیش کرتے ہیں - لیکن ان کی اس بدیانتی کے باوجود یہ سوال تو اپنی جگہ کھڑا ہے کہ مدرسے میں کیوں سب اچھا نہیں -

معاملہ مگر ، محض نصاب کا نہیں ، بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ نصاب ایک ثانوی معامله ہے تو شائد غلط نہ ہو گا - نصب سے زیادہ انتظامی امور ہیں جن نے مدرسے کو بدنام اور ناکام کر چھوڑا ہے -

کچھ خرابیاں ایسی ہیں جو تمام مسالک کے مدارس میں مشترکہ ہیں - ان میں سرفہرست مسلکی تعصب ہے ، بات اگر تعصب کی حد تک بھی رہے تو گوارا ہے لیکن یہ رویہ آگے بڑھ کر نفرت بن گیا ہے اور نفرت بھی گوارا کر لی جائے اگر یہ ایک مخصوص طبقے تک محدود رہے - لیکن اس نفرت نے آگے بڑھ کر معاشرے کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے - اسی آپسی نفرت کو لے کر لبرل طبقہ مذھب پر حملہ آور ہے ،
پاکستان سے بڑھ کر ہندستان میں اس نفرت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، وہاں کے افراد کی تقریر اور تحریر کہیں تلخ تر ہے -
بہت سے لوگ اس کو " نصاب میں خرابی " کہہ کے اصل بیماری کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، اور اس کے بعد اسی نقش قدم پر دوسرے دانش ور چلے آتے ہیں اور نصاب کے پیچھے لٹھ اٹھا کے پڑ جاتے ہیں ، حالانکہ ان میں سے ہزاروں میں سے شائد ہی کوئی ایک اس نصاب کو پڑھنے پر قدرت رکھتا ہو ، لیکن رائے ضرور دینی ہے - میں گو مدرسے نہیں گیا لیکن تیس برس ہو گئے اسی دشت کی خاک چھانتے ، میں سمجھتا ہوں کہ مدرسے کا نصاب نہیں وہاں کا ماحول اس تعصب کو پیدا کرتا ہے ، ماضی میں اپنے اپنے عقیدے پر پختگی کے باوجود یوں نفرت نہ پائی جاتی تھی جیسی اب ہے - اس میں کوئی ایک فرقے اکیلا ذمے دار نہیں بلکہ :
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
اصل خرابی یہ ہوئی کہ مدارس کے استاذہ اور علماء نے دوسرے فرقوں کے علماء سے معاشرتی ربط و ضبط بھی ختم کر دیا - اور یوں باہمی احترام کا دروازہ بند ہو گیا - رہی مذہبی جماعتوں کی قیادت ، ان کا معاملہ عجیب تر ہو گیا وہ باہم ملتے جلتے تو ہیں لیکن ان کا علم سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا - کتاب تو ان لیڈران کی دنیا میں شجر ممنوعہ ہوئی ، فکری راہنمائی کیا خاک کریں گے - سو ان کا آپسی میل جول بھی اس نفرت کی فضاء کو کم نہیں کر سکا ،ان کی اثر پذیری کی کمی کا سبب ان کی علمی وجاہت سے محرومی رہی -

ایک اور معاملہ جو عام دیکھا گیا ہے وہ یہ کہ ایک طالب علم کا طبعی میلان اس تعلیم کی طرف ہے ہی نہیں لیکن والد صاحب خود نیے نئے نیک ہووے ہیں ، آج کل جلسے بھی سن رہے ہیں ، مولویوں کے پاس آنا جانا لگا ہے ، سو بیٹے کو بھی مولوی بنا دینا مشن بنا لیا ، اب اس کے لیے بچے کی نہ ذہن سازی کی نہ گھر کا ماحول بدلا لیکن "شوق دا کوئی مل نہیں "

ہمارے والد کے دوست اور مرحوم تاجر تھے ان کو بھی شوق ہوا کہ اپنے بیٹے کو علامہ احسان الہی ظہیر بنایا جائے سو بچے کو گوجرانوالہ چھوڑ آئے ، بچہ اگلے روز بھاگ کے واپس آ گیا ، دوسرے بزرگ نے جو اسے محلے میں پھرتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ماجرا رہا ، واپسی ہو گئی ؟
بچے نے ترنت جواب دیا :
"شوق میرے ابو کو تھا ، مصیبت مجھے ڈال دی "
تو عرض یہ ہے کہ بہت سے بچے والدین کے شوق کے سبب ادھر آ جاتے ہیں ورنہ ان کا کوئی طبعی میلان نہیں ہوتا ، اور وہ اگر پڑھ جائیں تب بھی بوجھ ، نہ پڑھیں تب بھی بدنامی - ہاں جو بچے شوق سے ادھر آتے ہیں یا علم کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے ان کا معاملہ مختلف ہے اور یہی وہ علماء ہیں جن کو دیکھ کر عقیدت اور محبت سے نظریں جھک جاتی ہیں - خود میرے گھر میں میرا بھتیجا ہے جس نے پنجاب یونورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کے دو سمسٹر پڑھے مگر سب چھوڑ کر مدرسے چلا گیا ، اور تین برس میں پانچ کلاسیں پڑھ لیں ، اور اب کے برس مدرسے میں ٹاپ کیا ، اس میلان کا سبب گھر کا ماحول بنا جو اسے اس طرف لے گیا اور شوق سے گیا -

مدارس کا ایک نہایت اہم دکھڑا بلکہ المیہ وہاں کے اساتذہ کی تنخواہیں ہیں - ایسی کم ہیں کہ بسا اوقات ذکر کرتے شرم آئے - چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر دس سے پندرہ ہزار محض ، اور توقع کہ استاد جی بچے کو امام بخاری نہیں تو کم از کم ، نانوتوی ، امرتسری بنا ہی چھوڑیں - بھلا جس استاد کا بچہ گھر میں بیمار ہے ، مہینے کے آخری دن ہیں اور مہمان کی آمد آمد ہے ، گھر میں آتا ختم ہے ، وہ تفکرات میں ڈوبا بے چارہ بچے کو کیا خاک پڑھائے گا ، تربیت تو بعد کی بات ہے - میری دکان پر جو بچے کتابیں ڈھونے کا کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ عام مدرسے کے شیخ الحدیث سے کچھ زیادہ ہی ہو گی - اب انصاف کیجئے کہ کوئی انسان جس کا پیٹ خالی ہو ، تن پر کپڑے کی آسانی نہ ہو ، گھر میں روپے کی فروانی نہ ہو ، وہ کیا علم کا سودا بیچے گا ؟
اور اسی پر بس نہیں
پڑہے گر بیمار ، کوئی نہ ہو تیماردار
اگر کوئی بیماری آہ جاے تو بونس نہیں ملتا ، علاج کے لیے عزت نفس کو کچل کر کے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں - شاہین بچوں کو کون شہباز بنائے گا؟-
ان کو تو یہ مناظر " خاک باز " بنا چھوڑتے ہیں ، کہ اپنی کھا آو ہماری لے آو -
اور جب ریٹائر منٹ ہوتی ہے ،گو عمر کے ساتھ نہیں بیماری کے سبب ، تو ایک روپیہ ہاتھ نہیں دیا جاتا کہ جناب لیں اپ کے بڑھاپے کا سہارا -
کیا آپ مانیں گے کہ ہمارے ایک سب سے بڑے مرحوم مفسر قران کی بیوہ کا پیرانہ سالی میں گزشتہ برس پیغام ملا کہ میں دوائی سے بھی مجبور ہوں --- مجھے اس رات نیند نہ آ سکی کہ ہم کیسے بخت جلے ہیں کیسے نامراد ہیں کہ اپنے بزرگوں سے یوں بھی ہاتھ کر جاتے ہیں -
مدارس کا ایک نہایت اہم معاملہ اس کے منتظمین ہیں ، جو گاہے کارباری ہوتے ہیں ، اور کبھی علماء اور کبھی محض چندہ اکٹھا کرانے والے پیشہ ور ...ان پیشہ وروں کا کیا ذکر کہ یہ محض کلنک کا ٹیکا ہیں- ان کا سفر کاندھے پر لال رومال سے شروع ہوتا ہے اور لینڈ کروزر تک جا پہنچتا ہے گاہے اس سے سوا - البتہ کاروباری افراد میں دو طرح کے لوگ پایے جاتے ہیں بے حد مخلص اور علماء کی عزت کرنے والے اور کبھی علماء کو محض ایک ملازم جاننے والے - مدرسے کا ماحول ان پر بھی منحصر ہوتا ہے - ہم نے اپنے لارنس روڈ کے حاجی یونس قصوری رحمہ اللہ کو دیکھا کہ کبھی اپنے ہاتھ سے غریب بچوں کو خود کھانا ڈال کے دیتے - لیکن جس مدرسے کی قسمت میں "فیوڈل لارڈ " ٹایپ کے مہتمم آ جائیں بس اس کی قسمت خراب ، یہ ان پڑھ بھی ہوں تو نصاب تک کو بدلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں ، ایک آدھ مولوی گانٹھ لیتے ہیں اور باقی کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں ، ایسے لوگ بھی بچوں کی نفسیات برباد کر کے رکھ دیتے ہیں -

.....کل ان شا اللہ نصاب کے حوالے سے لکھیں گے ...رخصت ..

ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مدرسے کا مظلوم طالب علم ......

دوسرا حصہ

>
رات کچھ گذارشات کی تھیں ، احباب نیچے مری وال پر اس لکھے کو دیکھ سکتے ہیں ،
..
ہمارے مدارس میں عربی گرائمر یعنی صرف و نحو پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن اسے بولنے اور پڑھنے کی مہارت حاصل کرنے پر ویسا اصرار اور توجہ نہیں ہوتی - نتیجہ آپ کے سامنے ہے -
یاداش بخیر ایک خطاب میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے ایک عرب استاد کا واقعہ سنایا کہ جو چشم کشا ہے اور حقیقی صورت حال پر بہترین تبصرہ ہے ، عرب شیخ کہنے لگے :
"جب پاکستانی طلبہ ہمارے یہاں آتے ہیں تو بسا اوقات ہم بھی ان کی صرف نحو پر استعداد سے گھبرا جاتے ہیں کہ ان "عجمیوں " کے سامنے کوئی غلطی نہ ہو جائے ، لیکن یہی بے چارے جب بازار کونکل جاتے ہیں تو ڈاک خانے کا راستہ پوچھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں "-
کچھ یہی معاملہ عربی عبارات پڑھنے کا ہے - ایک روز میرا ایک جاننے والا طالب علم جو مدرسے سے تازہ تازہ ہی فارغ ہوا تھا ، میرے پاس آیا اسے حدیث کے تراجم چاہئیے تھے ، میں نے اسے کہا مجھے پہلے یہ بتاؤ ان کی کیا ضرورت ہے ، تمھیں براہ راست عربی نسخوں سے پڑھنا چاہیے ، لیکن شرمندہ ہونے کے باوجود وہ صاحب تراجم ہی لے کر گئے - وجہ یہی تھی کہ آٹھ برس کے باوجود مطلوبہ استعداد سے محروم تھے -
ممکن ہے آپ کچھ ذہین طلبہ کی مثال دیں ، لیکن بات بنے گی نہیں اس لیے کہ ایسے ذہین طلبہ سینکڑوں نہیں ہزاروں میں گنے چنے ہوتے ہیں اور جہاں ہوتے ہیں مثال ہوتے ہیں ، عمومی صورت حال یہی ہے جو میں نے لکھی ہے - البتہ کچھ مدارس اب اس بات کا اہتمام کر رہے ہیں کہ ان امور پر توجہ دی جائے - جیسے کہ کراچی کے ایک مدرسے میں عربی بولنے پر خاصی محنت کی جاتی ہے - اسی طرح ہمارے یہاں کے بعض مدارس میں بھی اس امر پر توجہ دی جاتی ہے -
عربی ادب کے نام پر بھی بہت سی بے ادبی داخل نصاب ہے ، اس سے بلا شبہ فرسٹیشن پیدا ہوتی ہے ، دماغ میں ہیجان کی صورت ہو جاتی ہے - مجھے یہ بات خود ایک طالب علم نے بتائی - مجھے یاد ہے ایک بار حماسہ میں کچھ اشعار پڑھے تو میرا یہ گمان تھا کہ ممکن ہی نہیں کہ اس منظر کو فلمانے سے بھی یہ کھلا پن پیدا ہو سکے جو اس شاعر نے منظر کشی کر دی ہے -
ہمارے مدارس میں ایک بہت اچھی سہولت ہے کہ استاد عموما مدارس میں ہی قیام پذیر ہوتے ہیں - لیکن ان کی اس موجودگی سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا - اس کے دو سبب ہیں ایک جو میں کل لکھ چکا کہ استاد صاحب جب خالی جیب ہوں گے تو خاک عشق اور طلبہ سے محبت ہو گی ، دوسرا یہ کہ بچوں کی تربیت کو ایک ہدف کے طور پر لیا ہی نہیں جاتا - آسان سی بات ہے کہ استاد صاحب کو مالی آسودگی دیجئے ، بہت زیادہ عزت دیجئے ، اس کے بعد ان سے مطالبہ کیجئے کہ
"استاد جی آپ دن رات یہاں ہوتے ہیں ، ان بچوں کو "ضرب یضرب " ہی نہیں پڑھانا ان کو ایک اچھا ، سلجھا ، اور مشنری جذبہ رکھنے والا راہنما بنانا ہے - جس طرح "پڑھا " تھا اس طرح نہیں پڑھانا " -
اب جب بچے کی تربیت کو ہدف بنایا جائے گا ، تو نتیجہ مختلف ہی ہو گا ، اور بہت خوشگوار - اس کے لیے استادوں اور بچوں کے الگ الگ گروپ بھی بنائے جا سکتے ہیں -
اسی طرح ہاسٹل کے ماحول کو بہتر بنانا از حد ضروری ہے ، بلا شبہ مدارس سے جڑی کچھ کہانیاں ایسی ہیں کہ شرمندگی ہوتی ہے ، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ معاملہ ایسا سنگین نہیں جیسا بنا کے پیش کا جاتا ہے ، میں مرض کی موجودگی سے انکار نہیں کرتا لیکن
ہمیں اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
بہت کم برائی کو بہت بڑھا کر پیش کیا گیا ہے - لبرل طبقے نے اس بے ہودگی کو ایسے پیش کیا جیسے یہ مدارس میں عام ہے اور ہم اپنا دفاع بھی عمدہ طور نہ کر سکے - خود ان اعتراض کرنے والوں نے عورت کو اس معاشرے میں برائے فروخت کر رکھا ہے ، بازار حسن کے یہ مجاور محض مولوی کو بدنام کرنے کے واسطے اس برائی کو اچھالتے ہیں ..لیکن اس کے باوجود میں کہوں گا کہ کسی مدرسے میں کوئی طالب علم ، استاد کسی ایسی برائی میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے لیے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے - اس کو کہیے کہ جناب آج کے بعد آپ کا دینی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں آپ جائے کہیں ، دکان کیجئے یہ نوکری لیکن مدارس کا دروازہ آپ پر بند ہے کیونکہ یہاں محض یں مطلوب نہیں تربیت بھی مقصود ہے -
میری نظر میں ایک اور بڑا مسلہ ہے جسے میں نے محسوس کا اور میں نے آج تک تو اس کمی کا کسی جگہ مداوا نہیں دیکھا ، وہ ہے اردو ادب سے دوری -
میں حیران ہوں کہ مدارس اس بات کا اہتمام کیوں نہیں کرتے کہ جس زبان میں ایک عالم کو عام عوام سے خطاب کرنا ہے ان سے بات کرنی ہے ، اس پر ہی اس کی گرفت نہ ہو گی تو وہ کیا خاک مشنری بنے گا - دیہات میں تو چلو پنجابی یا علاقائی زبان چل جاتی ہے لیکن بڑے شہروں میں ، جہاں خواندگی نسبتا زیادہ ہوتی ہے ، سوچ کی سطح بلند ہوتی ہے ، شعور پختہ ہوتا ہے وہاں عمدہ زبان و پیرائے میں ہی لوگوں کو مخاطب کر کے اصلاح اور اثر پذیری کی کوئی صورت ممکن ہوتی ہے - اور اس کمی کا مداوا ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ اردو ادب اور لٹریچر کو داخل نصاب کیا جائے - حالات کے دباو سے انگریزی کو تو بطور مضمون مدارس میں پڑھایا جانے لگا ہے مگر جس کی اصل ضرورت تھی اس کو نظر انداز کر دیا گیا - امکان ہے کہ آپ میری بات کو غلط کہیں لیکن اگر حماسہ کی حد سے بڑھی ہوئی باتوں کو ادب کے نام پر پڑھا جا سکتا ہے تو زبان و بیان کی اصلاح کے لیے عصمت چغتائی ، منٹو کو کیوں نہیں ؟
چلیے ہم نہیں کہتے کہ ان کو پڑھیں ، پڑھائیں ..آپ اقبال ، غالب ، آزاد ، حالی ، مومن شرر کو ہی داخل نصاب کر دیں ، کچھ تو کیجئے نا ..
اخبارات کا مطالعہ لازم قرار دیا جائے اور مخصوص کالم نگار کہ جن کو زبان و بیان پر عبور ہے ان کو پڑھا جائے - حالات حاضرہ سے آگاہی ، طالب علم کی ذہنی وسعت میں بے بہا اضافہ کرتی ہے -

.........جاری ............

ابوبکر قدوسی
 
Top