محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
مدرسے کا طالب علم پیچھے کیوں رہ گیا ؟
>
کچھ روز گزرے میں نے لکھا تھا کہ کیا مدارس کا نصاب ہی خرابی کی جڑ ہے ؟.
اسی مضمون کے آخر میں اعتراف کیا تھا کہ مدارس میں سب اچھا بھی نہیں - میرا وہ مضمون اصل میں اس طبقے کا جواب تھا جو معاشرے کی ہر برائی مدرسے کے مولوی سر ڈال کر خود کو پاک پوتر بنا کر پیش کرتے ہیں - لیکن ان کی اس بدیانتی کے باوجود یہ سوال تو اپنی جگہ کھڑا ہے کہ مدرسے میں کیوں سب اچھا نہیں -
معاملہ مگر ، محض نصاب کا نہیں ، بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ نصاب ایک ثانوی معامله ہے تو شائد غلط نہ ہو گا - نصب سے زیادہ انتظامی امور ہیں جن نے مدرسے کو بدنام اور ناکام کر چھوڑا ہے -
کچھ خرابیاں ایسی ہیں جو تمام مسالک کے مدارس میں مشترکہ ہیں - ان میں سرفہرست مسلکی تعصب ہے ، بات اگر تعصب کی حد تک بھی رہے تو گوارا ہے لیکن یہ رویہ آگے بڑھ کر نفرت بن گیا ہے اور نفرت بھی گوارا کر لی جائے اگر یہ ایک مخصوص طبقے تک محدود رہے - لیکن اس نفرت نے آگے بڑھ کر معاشرے کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے - اسی آپسی نفرت کو لے کر لبرل طبقہ مذھب پر حملہ آور ہے ،
پاکستان سے بڑھ کر ہندستان میں اس نفرت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، وہاں کے افراد کی تقریر اور تحریر کہیں تلخ تر ہے -
بہت سے لوگ اس کو " نصاب میں خرابی " کہہ کے اصل بیماری کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، اور اس کے بعد اسی نقش قدم پر دوسرے دانش ور چلے آتے ہیں اور نصاب کے پیچھے لٹھ اٹھا کے پڑ جاتے ہیں ، حالانکہ ان میں سے ہزاروں میں سے شائد ہی کوئی ایک اس نصاب کو پڑھنے پر قدرت رکھتا ہو ، لیکن رائے ضرور دینی ہے - میں گو مدرسے نہیں گیا لیکن تیس برس ہو گئے اسی دشت کی خاک چھانتے ، میں سمجھتا ہوں کہ مدرسے کا نصاب نہیں وہاں کا ماحول اس تعصب کو پیدا کرتا ہے ، ماضی میں اپنے اپنے عقیدے پر پختگی کے باوجود یوں نفرت نہ پائی جاتی تھی جیسی اب ہے - اس میں کوئی ایک فرقے اکیلا ذمے دار نہیں بلکہ :
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
اصل خرابی یہ ہوئی کہ مدارس کے استاذہ اور علماء نے دوسرے فرقوں کے علماء سے معاشرتی ربط و ضبط بھی ختم کر دیا - اور یوں باہمی احترام کا دروازہ بند ہو گیا - رہی مذہبی جماعتوں کی قیادت ، ان کا معاملہ عجیب تر ہو گیا وہ باہم ملتے جلتے تو ہیں لیکن ان کا علم سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا - کتاب تو ان لیڈران کی دنیا میں شجر ممنوعہ ہوئی ، فکری راہنمائی کیا خاک کریں گے - سو ان کا آپسی میل جول بھی اس نفرت کی فضاء کو کم نہیں کر سکا ،ان کی اثر پذیری کی کمی کا سبب ان کی علمی وجاہت سے محرومی رہی -
ایک اور معاملہ جو عام دیکھا گیا ہے وہ یہ کہ ایک طالب علم کا طبعی میلان اس تعلیم کی طرف ہے ہی نہیں لیکن والد صاحب خود نیے نئے نیک ہووے ہیں ، آج کل جلسے بھی سن رہے ہیں ، مولویوں کے پاس آنا جانا لگا ہے ، سو بیٹے کو بھی مولوی بنا دینا مشن بنا لیا ، اب اس کے لیے بچے کی نہ ذہن سازی کی نہ گھر کا ماحول بدلا لیکن "شوق دا کوئی مل نہیں "
ہمارے والد کے دوست اور مرحوم تاجر تھے ان کو بھی شوق ہوا کہ اپنے بیٹے کو علامہ احسان الہی ظہیر بنایا جائے سو بچے کو گوجرانوالہ چھوڑ آئے ، بچہ اگلے روز بھاگ کے واپس آ گیا ، دوسرے بزرگ نے جو اسے محلے میں پھرتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ماجرا رہا ، واپسی ہو گئی ؟
بچے نے ترنت جواب دیا :
"شوق میرے ابو کو تھا ، مصیبت مجھے ڈال دی "
تو عرض یہ ہے کہ بہت سے بچے والدین کے شوق کے سبب ادھر آ جاتے ہیں ورنہ ان کا کوئی طبعی میلان نہیں ہوتا ، اور وہ اگر پڑھ جائیں تب بھی بوجھ ، نہ پڑھیں تب بھی بدنامی - ہاں جو بچے شوق سے ادھر آتے ہیں یا علم کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے ان کا معاملہ مختلف ہے اور یہی وہ علماء ہیں جن کو دیکھ کر عقیدت اور محبت سے نظریں جھک جاتی ہیں - خود میرے گھر میں میرا بھتیجا ہے جس نے پنجاب یونورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کے دو سمسٹر پڑھے مگر سب چھوڑ کر مدرسے چلا گیا ، اور تین برس میں پانچ کلاسیں پڑھ لیں ، اور اب کے برس مدرسے میں ٹاپ کیا ، اس میلان کا سبب گھر کا ماحول بنا جو اسے اس طرف لے گیا اور شوق سے گیا -
مدارس کا ایک نہایت اہم دکھڑا بلکہ المیہ وہاں کے اساتذہ کی تنخواہیں ہیں - ایسی کم ہیں کہ بسا اوقات ذکر کرتے شرم آئے - چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر دس سے پندرہ ہزار محض ، اور توقع کہ استاد جی بچے کو امام بخاری نہیں تو کم از کم ، نانوتوی ، امرتسری بنا ہی چھوڑیں - بھلا جس استاد کا بچہ گھر میں بیمار ہے ، مہینے کے آخری دن ہیں اور مہمان کی آمد آمد ہے ، گھر میں آتا ختم ہے ، وہ تفکرات میں ڈوبا بے چارہ بچے کو کیا خاک پڑھائے گا ، تربیت تو بعد کی بات ہے - میری دکان پر جو بچے کتابیں ڈھونے کا کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ عام مدرسے کے شیخ الحدیث سے کچھ زیادہ ہی ہو گی - اب انصاف کیجئے کہ کوئی انسان جس کا پیٹ خالی ہو ، تن پر کپڑے کی آسانی نہ ہو ، گھر میں روپے کی فروانی نہ ہو ، وہ کیا علم کا سودا بیچے گا ؟
اور اسی پر بس نہیں
پڑہے گر بیمار ، کوئی نہ ہو تیماردار
اگر کوئی بیماری آہ جاے تو بونس نہیں ملتا ، علاج کے لیے عزت نفس کو کچل کر کے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں - شاہین بچوں کو کون شہباز بنائے گا؟-
ان کو تو یہ مناظر " خاک باز " بنا چھوڑتے ہیں ، کہ اپنی کھا آو ہماری لے آو -
اور جب ریٹائر منٹ ہوتی ہے ،گو عمر کے ساتھ نہیں بیماری کے سبب ، تو ایک روپیہ ہاتھ نہیں دیا جاتا کہ جناب لیں اپ کے بڑھاپے کا سہارا -
کیا آپ مانیں گے کہ ہمارے ایک سب سے بڑے مرحوم مفسر قران کی بیوہ کا پیرانہ سالی میں گزشتہ برس پیغام ملا کہ میں دوائی سے بھی مجبور ہوں --- مجھے اس رات نیند نہ آ سکی کہ ہم کیسے بخت جلے ہیں کیسے نامراد ہیں کہ اپنے بزرگوں سے یوں بھی ہاتھ کر جاتے ہیں -
مدارس کا ایک نہایت اہم معاملہ اس کے منتظمین ہیں ، جو گاہے کارباری ہوتے ہیں ، اور کبھی علماء اور کبھی محض چندہ اکٹھا کرانے والے پیشہ ور ...ان پیشہ وروں کا کیا ذکر کہ یہ محض کلنک کا ٹیکا ہیں- ان کا سفر کاندھے پر لال رومال سے شروع ہوتا ہے اور لینڈ کروزر تک جا پہنچتا ہے گاہے اس سے سوا - البتہ کاروباری افراد میں دو طرح کے لوگ پایے جاتے ہیں بے حد مخلص اور علماء کی عزت کرنے والے اور کبھی علماء کو محض ایک ملازم جاننے والے - مدرسے کا ماحول ان پر بھی منحصر ہوتا ہے - ہم نے اپنے لارنس روڈ کے حاجی یونس قصوری رحمہ اللہ کو دیکھا کہ کبھی اپنے ہاتھ سے غریب بچوں کو خود کھانا ڈال کے دیتے - لیکن جس مدرسے کی قسمت میں "فیوڈل لارڈ " ٹایپ کے مہتمم آ جائیں بس اس کی قسمت خراب ، یہ ان پڑھ بھی ہوں تو نصاب تک کو بدلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں ، ایک آدھ مولوی گانٹھ لیتے ہیں اور باقی کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں ، ایسے لوگ بھی بچوں کی نفسیات برباد کر کے رکھ دیتے ہیں -
.....کل ان شا اللہ نصاب کے حوالے سے لکھیں گے ...رخصت ..
ابو بکر قدوسی