• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" مدینہ نبویہ کے فضائل و آداب" از السدیس حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

" مدینہ نبویہ کے فضائل و آداب"


از السدیس حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد العزیز السدیس حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 04-جمادی ثانیہ- 1438 کا خطبہ جمعہ " مدینہ نبویہ کے فضائل و آداب" کے موضوع پر ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے کہا کہ چیزوں کو پیدا کر کے انہیں چنیدہ اور پسندیدہ بنانے کا اختیار مطلق صرف اللہ کے پاس ہے، اللہ تعالی نے مدینہ نبویہ کو مکہ کے بعد سب سے افضل قرار دیا، طابہ، طیبہ، طیبۃ الطیبہ اور مدینہ اس کے نام ہیں، یہ اسلام کا مرکز، پہلی اسلامی سلطنت، ایمان کیلیے جائے پناہ ہے، نیز اسی کی جانب ہجرت کا حکم ہوا تھا، یہاں تقوی پر قائم مسجد نبوی ہے ، مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز سے بھی افضل ہے، یہاں ریاض الجنۃ بھی ہے، یہ شہر حرمت والا ہے، اہل مدینہ کے خلاف سازش کرنے والا نمک کی طرح پگھل جاتا ہے، مدینہ میں بدعت ایجاد کرنے یا بدعتی کو پناہ دینا لعنت کا باعث ہے، اس شہر کا احد پہاڑ بھی ہم سے محبت کرتا ہے، مدینہ کی ہر چیز میں برکت کیلیے نبی ﷺ نے دعا فرمائی، پھر انہوں نے کہا کہ: مدینہ میں رہتے ہوئے شرعی آداب کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے، چنانچہ یہاں آواز بلند نہ کریں، سنت پر کار بند رہیں، بدعتی اعمال نہ کریں، انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں، خواتین با پردہ رہیں اور کوئی بھی عبادت چھوڑ کر تصویریں بنانے میں مشغول نہ ہو، پھر انہوں نے کہا کہ: موجودہ حکومت نے مدینہ نبویہ کی بے مثال خدمت کی ہے، اور یہ شہر دائمی طور پر اسلامی سیاحت و ثقافت کا دار الخلافہ ہے۔

پہلا خطبہ:

بیشک تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہیں ، میرے پروردگار ہم تیری ہی حمد بیان کرتے ہیں، تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں، تمام کے تمام کلمات خیر سے تیری ثنا بیان کرتے ہیں۔

فَلِلَّهِ الْحَمْدُ لَا اِنْقِضَاءَ لِعَهْدِهِ

عَلَى عَدِّ مَا أَسْدَى وَقَدْ قَصُرَ الشُّكْرُ

ہم اللہ تعالی کی لا متناہی تعریفیں کرتے ہیں، اس کی نعمتوں کے برابر حمد بیان کرتے ہیں پھر بھی حال یہ ہے کہ اس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا

میں اللہ تعالی کی ڈھیروں نعمتوں پر اس کی حمد بیان کرتا ہوں، اس کے مسلسل فضل پر اسی کا شکر گزار ہوں، وہ پاک ہے وہی احسان کرنے والا اور صاحب اقتدار ہے، وہ پیدا کرنے اور پھر مقام بخشنے میں بھی یکتا ہے، قرآن مجید میں اسی کا فرمان ہے:

{وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَار}
اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسندیدہ بنا لیتا ہے[القصص: 68]

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی غالب اور بخشنے والا ہے، وہ پاک ہے ، وہی معبود ہے، وہ تنہا اور زبردست ہے، نیز میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ اللہ تعالی کے چنیدہ اور پسندیدہ بندے ہیں، مدینہ کی سرزمین اور دیارِ انصار میں آپ سے افضل کسی شخصیت نے قدم نہیں رکھا، مدینہ جلیل القدر صحابہ کرام کی ہجرت گاہ ہے، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی پاکیزہ آل ، نیکو کار صحابہ کرام کے ساتھ تابعین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر رحمت، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو!

خیر الخلق کے منبر سے میں سب سامعین اور اپنے آپ کو بہترین نصیحت کرتا ہوں کہ تقوی الہی اپناؤ؛ کیونکہ یہ تمام بھلائیوں کا مرکز، برکتوں کا سر چشمہ، مصیبتوں سے امان اور تکلیفوں سے تحفظ کا باعث ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

مِلاكُ الأمرِ تَقْوَى اللهِ فاجعَلْ
تُقاهُ عُدَّةً لِصَلاحِ أمْرِكْ

ہر چیز کا خلاصہ تقوی الہی ہے؛ اس لیے تقوی کو ہی اپنے معاملات سنوارنے کیلیے ہتھیار بناؤ

وبادِرْ نَحْوَ طاعَتِهِ بِعَزْمٍ
فَما تَدري مَتى يُمْضَى بعُمْرِكْ

فوری طور پر پورے عزم کے ساتھ اللہ تعالی کی اطاعت میں مگن ہو جاؤ؛ کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ زندگی کب ختم ہو جائے!

اللہ کے بندو!

اس کائنات میں غور و فکر کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ: وحدانیتِ الہی کی سب سے عظیم دلیل، اس کی ربوبیت پر اعلی ترین شہادت، اس کی کمال حکمت ، قدرت اور علم کی برہان یہ ہے کہ وہ شخصیات اور جگہوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا بناتا ہے، جس چیز اور وقت کو چاہے وہ خاص بنا دیتا ہے، اس کے مقاصد اور اہداف نہایت بلند ہوتے ہیں، چنانچہ اس کی وجہ سے لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے؛ اس عمل میں اس کا کوئی شریک نہیں، وہ اپنی مرضی سے چناؤ کرتا ہے اور اپنی مرضی سے معاملات نمٹاتا ہے:

{وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَار}

اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسندیدہ بنا لیتا ہے[القصص: 68]

اللہ تعالی کی پسندیدہ چیزوں میں طیبۃ الطیبہ یعنی مدینہ نبویہ ہے، اللہ تعالی نے اسے اپنا چنیدہ بنایا؛ کیونکہ اس شہر نے رسول اللہ ﷺ کی جائے ہجرت بننا تھا، یہ مکہ کے بعد بہترین ،اعلی اور افضل مقام ہے، حرمت ،مقام ، عظمت اور احترام میں مکہ کے بعد ہے، یہ شہروں میں انمول موتی ، آنکھوں کیلیے ٹھنڈک، علاقوں کیلیے زینت اور تر و تازگی کا باعث ہے، یہی رسول اللہ ﷺ کا شہر ہے، سرسبز و شادابی کا ماخذ ہے، یہی پہلی اسلامی سلطنت ہے، یہیں پر دینی اصول و ضوابط مکمل ہوئے، اسی کی پاک دھرتی پر اسلام کے احکامات نافذ کئے گئے، اس اسلامی سلطنت کی تاریخ پڑھتے ہوئے پوری امت کی تاریخ سامنے آ جاتی ہے، اور امت کی تاریخ اسی دن سے شروع ہوتی ہے جب اس اسلامی سلطنت میں فجر کی پو پھوٹی تھی، اس سلطنت کی تاریخ تمام اعلی اخلاقیات اور اقدار سے بھر پور ہے، چاہے ان کا تعلق ایمانیات، عقائد، عمرانیات، علم اور تہذیب کسی بھی چیز سے ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ}

لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، تمہیں قبائل اور خاندانوں میں ایک دوسرے کے تعارف کیلیے تقسیم کیا؛ بیشک اللہ تعالی کے ہاں تم سے معزز ترین وہی ہے جو زیادہ متقی ہے، بیشک اللہ تعالی جاننے اور خبر رکھنے والا ہے [الحجرات: 13]

مدینہ منورہ خیر و برکت ہمیشہ نہال رہا، یہ پاکیزہ اور پیارا شہر ہے ، اللہ تعالی نے اسے اسلام کا آفاقی پیغام پھیلنے کا مرکز بنایا، یہاں پر اپنی وحی نازل فرمائی، اپنے مجتبیٰ اور مصطفیٰ نبی ﷺ کی دعوت یہیں سے پھیلائی -آپ پر روزِ قیامت تک ڈھیروں دورد و سلام ہوں-، یہ شہر قلعۂ ہدایت ہے، یہ جارحیت کے سامنے ٹھوس چٹان ہے، یہ شہر منارۂ اسلام، ایمان کیلیے جائے پناہ، عقیدے کا نشیمن، مرکز تہذیب، اور عالم اسلامی کیلیے سربراہی، سروری اور رہبری کا ماخذ ہے۔

اس اسلامی سلطنت کا منہج وسطیت اور اعتدال تھا

{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا}

اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا۔[البقرة: 143]

وہ انتہا پسندی ، تعصب، دہشت گردی، گروہ بندی اور خوف زدگی سے دور تھا تا کہ کتاب و سنت پر عمل ہو سکے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

اور سب کے سب اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو۔[آل عمران: 103]

اسی شہر سے اسلامی ثقافت نے پھیل کر چہار سوئے عالم میں خیر ، امن، رحمت، عدل، رواداری، اور سلامتی پھیلا دی؛ کیونکہ:

{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ}

اور ہم نے آپ کو جہان والوں کیلیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ [الأنبياء: 107]

اسلامی ثقافت کی بنیادی چیزیں یہ تھیں:

وحدانیتِ الہی ، صرف ایک اللہ کی عبادت، پختہ صحیح عقیدہ، ٹھوس نظریات، مضبوط منہج، شعائر اسلام کی پابندی، سنت کی بالا دستی، سلف صالحین کے منہج پر کار بندی، اور آج اسی پر مملکت سعودی عرب عمل پیرا ہے۔

بَطَيبَةَ رَســمٌ لِلرَّسـولِ وَمَعهَدُ
مُنيرٌ وَقَد تَعفو الرُسومُ وَتَهمَدُ

مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی قبر مشہور ہے؛ اگرچہ بہت سے آثار منظر سے مٹ چکے ہیں لیکن ایمانی آثار پھر بھی عیاں ہیں

ولا تنمحي الآياتُ من دارِ حرمة ٍ
بها مِنْبَرُ الهادي الذي كانَ يَصْعَدُ


حرمت والی جگہ سے نشانیوں کا مٹنا ممکن نہیں، وہاں پر وہ منبر بھی ہے جس پر آپ ﷺ براجمان ہوتے تھے۔

ووَاضِحُ آياتٍ وَبَاقي مَعَالِمٍ
وربعٌ لهُ فيهِ مصلى ً ومسجدُ


دیگر نشانیاں بھی ہیں آپ کا گھر، نماز کی جگہیں اور مسجد بھی ہے۔

بها حجراتٌ كانَ ينزلُ وسطها
مِنَ الله نورٌ يُسْتَضَاءُ وَيُوقَدُ


مدینہ میں آپ کے حجرے ہیں جہاں پر اللہ تعالی کی طرف سے نور نازل ہوتا تھا لوگ اس سے روشنی لیتے اور آگے پھیلاتے تھے

معالمُ لم تطمسْ على العهدِ آيها
أتَاهَا البِلَى فالآيُ منها تَجَدَّدُ


وقت گزرنے کے باوجود نشانیاں باقی ہیں اور کچھ مٹ چکی ہیں، لیکن ایمانی نشانیاں روز بروز تازہ ہوتی رہتی ہیں۔

مسلم اقوام!

یہ شہر مدینہ ، طیبۃ الطیبہ ، جائے ہجرت اور آشیانۂ سنت ہے، جو شخص بھی اس شہر میں مسجد نبوی کی زیارت ؛ عبادت اور ثواب کی امید سے کرے، ان جگہوں سے محبت کی بنا پر یہاں آئے، تو اللہ تعالی اسے اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔

اور کیا یہ ایمان کی جائے پناہ نہیں!؟ اور کیا یہ سید اولادِ عدنان کی جائے ہجرت نہیں؟!

بخاری و مسلم کے مطابق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ایمان مدینہ میں اس طرح سکڑ جائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سکڑ جاتا ہے)

هذي دُونَكم طيبَةٌ ورُبُوعُها
قد بُورِكَت في العالمين رُبوُعًا


یہ تمہارے سامنے مدینہ اور اس کے مکانات ہیں، اس کی ہر چیز میں برکت کی گئی ہے

هذي المدينةُ قد تألَّقَ فوقَها
تاجٌ يُرصَّعُ بالهُدى ترصيعًا


یہی وہ مدینہ ہے جس کے سر پر نورِ ہدایت کا تاج جڑا گیا ہے

هي مأرِزُ الإيمان في الزمنِ الذي
يشكُو بناءُ المكرُماتِ صُدوعًا


یہی اس زمانے میں ایمان کیلیے جائے پناہ ہوگا جب اخلاقی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی

ایمانی بھائیو!

مدینے کے فضائل میں -اللہ تمہاری حفاظت فرمائے- یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان کا عطف بھی مدینہ پر فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ}

جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں [الحشر: 9]

امام مالک رحمہ اللہ مدینے کی دیگر خطوں پر فضیلت کے سیاق میں کہتے ہیں: "مدینہ منورہ ایمان اور ہجرت کی جگہ ہے "

مدینہ کی یہ بھی فضیلت ہے کہ:

اللہ تعالی نے اپنے نبی کو اسی کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا؛ چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے -راوی کہتے ہیں کہ لگتا ہے وہ - نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ :

(میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے کھجوروں والی زمین کی جانب ہجرت کر رہا ہوں، تو میرا ذہن یمامہ یا ھجر کی جانب گیا؛ لیکن وہ مدینہ ہے یعنی یثرب ہے) متفق علیہ


اسلامی بھائیو!

سید الانام ﷺ کے پیارو -اللہ تعالی آپ کے چہروں کو سدا ترو تازہ رکھے- مدینہ کی بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ: یہاں مسجد نبوی تعمیر ہوئی اس کی بنیاد خالصتاً تقوی پر تھی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ}

آپ اس میں کبھی قیام نہ کریں۔ یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی زیادہ حق رکھتی ہے کہ آپ اس میں قیام کریں۔ اس میں ایسے آدمی ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ [التوبہ: 108]

امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: " میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کی کسی زوجہ کے گھر آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! دونوں میں سے کون سی مسجد کی بنیاد تقوی پر ہے؟ تو آپ ﷺ نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھری اور زمین پر دے ماری، پھر آپ نے فرمایا: (وہ یہ والی مسجد ہے) یعنی مدینے کی مسجد نبوی"

اس بابرکت مسجد کے مناقب میں یہ بھی شامل ہے کہ:

یہ ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب رخت سفر باندھنا جائز ہے؛ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے:

(صرف تین مسجدوں کی جانب رخت سفر باندھ سکتے ہیں: مسجد الحرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصی) متفق علیہ


یہ بھی اس کی فضیلت ہے کہ : یہاں علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق فرض یا نفل کوئی بھی نماز ہو اس کا ثواب زیادہ ہے؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

(میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک ہزار گنا افضل ہے) متفق علیہ

وَمَسْجِدِيْ كَانَ بَلَ مَا زَالَ أُمْنِيَةً
تَحْبُوْ إِلَـْيهِ قُلُوْبٌ ضَلَّتِ السُّبُلَا


اور میری مسجد زمانے سے دلوں کی چاہت تھی، اس کی راہ میں بہت سے دل راستہ ہی بھول گئے

وَفِيْ هَوَايَ مَـلَايِيْنٌ تَنَامُ عَـلَى
ذِكْرِيْ وَتَصْحُوْ عَلَى طَيْفِيْ إِذَا ارْتَحَلَا


میری محبت میں لاکھوں میرا نام لیکر سوتے ہیں اور میرے ہی خیالوں میں اٹھ کر چل پڑتے ہیں

مسجد نبوی میں ایک جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(میرے منبر اور گھر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے) متفق علیہ
،

اللہ تعالی ہم سب کو جنت میں اسی طرح اکٹھا کر دے جیسے آج ہمیں مسجد مصطفی ﷺ میں اکٹھا کیا ہے، آمین، آمین

مسلم اقوام!

اللہ تعالی نے مدینہ کو عالیشان بناتے ہوئے حرم اور پر امن قرار دیا، یہاں کسی کا خون نہیں بہایا جائے گا، اس میں لڑنے کیلیے اسلحہ اٹھانا جائز نہیں؛ چنانچہ صحیح مسلم میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی جانب اشارہ فرمایا اور کہا: (یہ حرم اور پر امن ہے)

اس لیے مدینہ دونوں حرّوں ، لابوں، سیاہ پتھروں اور تنگ راستوں کے درمیان حرم ہے؛ جیسے کہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(عیر پہاڑ سے لیکر ثور پہاڑ تک مدینہ حرم ہے) متفق علیہ

یہاں شکار کو بھگایا نہ جائے، پرندے نہ پکڑے جائیں، کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں، پودے اور جڑی بوٹیاں نہ کاٹی جائیں، جانوروں کو چارہ ڈالنے کے علاوہ سبزہ نہ کاٹا جائے، اور گری پڑی چیز صرف اس کا اعلان کرنے والا ہی اٹھائے۔

اہل مدینہ کے بارے میں کوئی بھی مکاری یا عیاری سے کام لے ، یا ان کے بارے میں برے عزائم رکھے تو وہ ایسے ہی پگھل جاتا ہے جس طرح پانی میں نمک پگھلتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(جو شخص ظلم کرتے ہوئے اہل مدینہ کو ڈرائے تو اللہ تعالی اسے ڈرائے گا، اور اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی، اللہ تعالی قیامت کے روز اس سے کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا) احمد

مسلمانو!

جو شخص مدینہ منورہ میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو وہ اپنے آپ کو شدید وعید کا حق دار بناتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(عیر سے لیکر ثور پہاڑ تک مدینہ حرم ہے، چنانچہ جو شخص بھی اس میں کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے یا کسی بدعتی کو پناہ دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا) متفق علیہ

امت اسلامیہ!

مدینہ منورہ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ: یہ شہر نبی ﷺ کا محبوب ترین شہر ہے،-میرے ماں باپ آپ پر قربان- آپ ﷺ فرماتے تھے: (یا اللہ! مدینہ ہمارے دلوں میں مکہ کی طرح محبوب بنا دے یا اس سے بھی زیادہ) متفق علیہ ، مدینہ آپ ﷺ کا مسکن اور جائے ہجرت ہے، یہیں پر آپ کا منبر و محراب ہے، یہی آپ کی قبر ہے اور یہیں سے آپ کو اٹھایا جائے گا:

مهاجر المصطفى الهادي ومضجعه
وموئل الأسد إن أنف الوطيس حمى


مدینہ ہادی عالم مصطفی کی جائے ہجرت اور قبر کی جگہ ہے، شہر مدینہ گھمسان کی جنگ چھڑنے پر شیروں کیلیے پناہ کی جگہ بھی ہے

اس شہر میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، یہ پاکیزہ جگہ ہے، ایمان کے ساتھ یہاں رہنا بہت بڑے شرف کی بات ہے، تقوی کے ساتھ اس شہر کو اپنا وطن بنانا بہت عزت کا مقام ہے،
یہاں کے رہنے والوں کی خوشی کے کیا ہی کہنے!

رسول اللہ ﷺ جس وقت سفر سے آتے اور مدینہ کی دیواریں، درخت اور ٹیلے دیکھتے تو مدینہ کی محبت میں اپنی سواری تیز دوڑاتے، اسے ایڑھ لگاتے ، اور بھگاتے، پھر جب بالکل سامنے آ جاتے تو فرماتے:

(یہ طابہ ہے ، اور یہ احد پہاڑ ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ ہم سے محبت کرتا ہے)


مسلمانو!

مدینہ میں رہنے کی اتنی برکت ہے کہ اس کے سامنے کسی بھی قسم کی خوش حالی، فراوانی اور عیش ہیچ اور نیچ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

(ایک وقت لوگوں پر آئے گا کہ ایک شخص اپنے چچا زاد اور قریبی رشتہ دار کو بلائے گا: خوشحالی کی طرف آ جاؤ! خوشحالی کی طرف آ جاؤ! حالانکہ ان کیلیے مدینہ بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوں ) مسلم

أَيَا سَاكِنِيْ أَكْنَافَ طَيْبَةٍ حَسْبُكُمْ
مِنَ السَّعْيِ لِلْعَلْيَاءِ جِيْرَةُ أَحْمَدَ


مدینہ طیبہ کے باسیو! تمہیں احمد ﷺ کا پڑوس ملنے کے بعد کوئی شرف تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے

فَمَن يَّبْتَغِيْ عَنْهَا بِلَادًا وَإِنْ سَمَتْ
لِأَمْرٍ مِنَ الدُّنْيَا فَلَيْسَ بِمُهْتَدِ


اگر کوئی مدینہ سے بھی اعلی شہر تلاش کرے چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے ہی اچھا کیوں نہ ہو تو وہ راہِ راست پر نہیں ہے!

ایمانی بھائیو!

مدینہ کے صاع اور مد میں، یہاں کے پیمانوں اور تھوڑی ہوں یا زیادہ سب کھجوروں میں برکت ہے، نبی ﷺ نے ان کیلیے برکت کی دعا فرمائی ہے:

(یا اللہ! مدینہ میں مکہ کی بہ نسبت دگنی برکت فرما دے، اور دونوں طرح کی برکتیں فرما) متفق علیہ

مسلم اقوام!

اس کا نام طابہ ہے ،اس کا نام طیبہ بھی ہے، یہ سید الابرار ﷺ کا شہر ہے، اس کے فضائل بے شمار ہیں، اس کی برکتیں لا تعداد ہیں، صدیاں گزر جانے کے باوجود یہ شہر ہر دور میں عالی شان رہا، ایمان اور اخوت کیلیے مضبوط قلعہ ثابت ہوا، عقیدے کا نشیمن اور دعوت کا ماخذ بنا رہا۔

اللہ اکبر! طیبہ شہر میں دائمی یادوں کی مہک ہے، اور یہاں پر شان و شوکت سے لبریز معرکوں کی خوشبو آتی ہے۔

مسلمانو!

مدینہ شریف کی مکمل دیکھ بھال لازمی امر ہے، اس کی حرمت کا پاس رکھنا ہمہ قسم کی بھلائی کا ضامن ہے، مدینے کی شان و شوکت پھیلانا مفید عمل ہے، اس شہر میں رہنے کے عہد و پیمان پورے کرنا فضیلت کا عمل ہے، یہ ایسی جگہ ہے جہاں پر وحی اور قرآن نازل ہوتا رہا، جہاں جبریل اور میکائیل چلتے پھرتے تھے، جہاں سے ملائکہ اور روح القدس آسمانوں کی طرف جاتے تھے، اس کے آنگن کی عظمت کا خیال رکھنا ضروری ہے

{ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ}

اس کے بعد، جو بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقوی کی نشانی ہے۔[الحج: 32]

اس کی فضا میں سانس لینے، یہاں قیام کو غنیمت جاننے اور ڈھیروں نیکیاں کمانے کیلیے کوشش کرنی چاہیے۔

يَا دَارَ خَيْرَ الْمُرْسَلِيْنَ وَمَنْ بِهِ
هَدْيُ الْأَنَامِ وَخُصَّّ بِالْآيَاتِ


خیر المرسلین کے شہر میں رہنے والو! آپ ﷺ تو سراپا لوگوں کیلیے ہدایت تھے، آپ کو نشانیاں بھی دی گئیں

عِنْدِيْ لِأَجْلِكَ لَوْعَةٌ وَصَبَابَةٌ
وَتَشَوُّقٌ مُتَوَقِّدُ الْجَمَرَاتِ


میرے دل میں ان سے تعلق کی ایک چنگاری ہے جس کی وجہ سے آگ بھی بھڑک سکتی ہے!

نبی ﷺ کے پڑوس میں رہائش پذیر عظیم لوگو! اور زائرین کرام!

مدینہ میں قیام یا مدینے کی زیارت کا ارادہ رکھنے والا شخص نرم خوئی ، متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہیے، مدینے کی حرمت کا پاسبان ہو ، اس عظیم شہر کے باسیوں کا خیال رکھے، اہل مدینہ کے ساتھ مجالس میں محض کھانے پینے کی طرف دھیان نہ رکھے بلکہ ان سے تربیت حاصل کرے، روزی کمانے میں نہ لگا رہے بلکہ اپنی زندگی کو اچھے کاموں کیلیے غنیمت سمجھے، اہل مدینہ کے کھانے پینے پر نظر نہ رکھے بلکہ ان کا اخلاق سیکھے، ان سے نیکی کے طور طریقے حاصل کرے مال و دولت پر ٹکٹکی مت باندھے، ان کی مالداری کی بجائے کردار کو اپنائے ۔

زائرین کرام!

الله کے برگزیدہ نبی -میرے ماں باپ آپ پر قربان اور آپ پر ڈھیروں درود و سلام -کے شہر کی زیارت کے لئے آتے ہوئے آپ کی سنت اپنانے، آپ کے نقش قدم پہ چلنے اور آپ کی سیرت سے سیراب ہونے کی اہمیت مت بھولیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ قُلْ إِنْ كنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يحْبِبْكمُ اللَّهُ وَيغْفِرْ لَكمْ ذُنُوبَكمْ }

آپ فرما دیں کہ اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو الله خود تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ [آل عمران: 31]

آپ کی اطاعت و محبت کا یہ تقاضا ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت ، آپ ﷺ پر سلام پیش کرنے اور مدینہ نبویہ - جو کہ ہمیشہ سے برکتوں سے مالا مال ہے-میں رہنے کے آداب سیکھیں، آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ اور صفات فاضلہ کی پیروی کریں، آپ سے آگے بڑھنے سے اجتناب کریں، اور آپ کے پاس آواز بلند کرنے سے بچیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ [2] إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ}

اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں احساس تک نہ ہو[2] بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے پاس پست رکھتے ہیں انہی لوگوں کے دلوں کا اللہ تعالی نے تقوی کیلیے امتحان لیا، ان کیلیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔[الحجرات :2-3]

امت اسلامیہ!

ہم سب پر اس پاک شہر اور مسجد نبوی ﷺ کے شرعی آداب کا خیال انتہائی ضروری ہے، لیکن کیا یہ مدینے کا ادب ہے کہ اس عظیم شہر میں انسان صحیح عقیدے سے متصادم ، اور نبی ﷺ کی سنت چھوڑ کر عمل کرے، یا کسی بدعت اور شرعی خلاف ورزی کا ارتکاب کرے؟!

اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو، رسول اللہ ﷺ کے پیارو! تقوی الہی اختیار کریں، سید الابرار کے شہر میں مکمل با ادب رہیں، خیر الخلق ﷺ کی مسجد میں تمام اسلامی آداب اپنانے کا اہتمام کریں۔

ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم الله کی حمدو ثنا بیان کریں اور ا س کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں یہ بابرکت جگہ نوازی، اس عظیم شہر کے کسی بھی حصے میں یا زائرین کے ساتھ رہتے ہوئے آداب، امن و امان اور قانون کی پاسداری کریں، سکیورٹی پر مامور جوانوں ، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی انتظامی کمیٹی کے کارکنوں کے ساتھ بھر پور تعاون کریں، ان کی تمام تر کوششیں اور کاوشیں کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ اسی طرح زائرین زیارت میں اپنا وقت صرف کریں، عبادت کی بجائے موبائل اور فوٹوگرافی وغیرہ میں مشغول نہ رہیں، بھیڑ لگانے اور اپنے بھائیوں کو ایذا دینے سے بچیں۔ خواتین بھی مسجد نبوی میں آئیں تو با پردہ ہوں، عفت ، عصمت اور وقار سے آراستہ و پیراستہ ہوں اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے دور رہیں۔

ہم الله کے اسمائے حسنی اور عالی صفات کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ : اپنے فضل و کرم سے ہمیں اسلامی آداب اپنانے اور امام کائنات ﷺ کے طریقے پر چلنے کی توفیق دے، یا اللہ! ہمیں آپ ﷺ کے حوض سے پانی نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں آپ ﷺ کے حوض سے پانی نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں آپ کی شفاعت نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں آپ ﷺ کے ہاتھوں جامِ کوثر نصیب فرما، جس کے بعد کبھی بھی تشنگی محسوس نہ ہو گی، اللہ تعالی ہم سب کو آپ کے پڑوس میں رہنے کے آداب اپنانے اور بہترین طریقے سے رہنے کا سلیقہ عنایت فرمائے، آپ پر ، آپ کی پاکیزہ آل اور پاک باز صحابہ کرام پر بہترین درود و سلام ہوں۔

أعوذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا }

یقیناً تمہارے لیے رسول الله عمدہ نمونہ ہیں، ہر اس شخص کے لیے جو الله تعالی اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے، اور بہ کثرت الله کا ذکر کرتا ہے ۔[الأحزاب : 21]

الله تعالی میرے اور آپ کیلیے قرآن و حدیث کو بابرکت بنائے، اور ہمیں امام کائنات ﷺ کی سیرت سے مستفید ہونے کی توفیق عنایت فرمائے، میں اپنی اسی بات پر گفتگو ختم کرتا ہوں اور الله تعالی سے اپنے اور تمام مسلمان مرد و خواتین کے گناہوں اور خطاؤں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اسی سے رجوع کریں بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں وہی مختلف نعمتوں کے ذریعے فضل و کرم فرماتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اس نے امن و ایمان کی صورت میں ہم پر عظیم نعمتیں برسائی ہیں ، اس نے اپنے احسانات کی شکل میں اپنی مہربانیوں سے خوب نوازا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد الله کے بندے اور رسول ہیں، الله تعالی آپ پہ ، آپ کی آل، صحابہ کرام ، تابعین پر، اور روز قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اپنی رحمتیں، برکتیں اور ڈھیروں سلامتی نازل فرمائے۔

حمد وصلاة کے بعد:

الله کے بندو ! الله سے ڈرتے رہو، مقدس مقامات اور قابل احترام شہروں کی صورت میں الله نے تم پر احسانات فرمائیں ہیں ان پر اسی کا شکر ادا کرتے رہو۔

اسلامی بھائیو! یقیناً یہ بھی الله کا بہت بڑا فضل ہے کہ مدینہ منورہ کو اس بابرکت ملک کے حکمرانوں کے اہتمام اور شاندار توجہ کا وافر حصہ ملا ہے، اور یہ اہتمام جب سے نیک، صالح اور عادل حکمران عبد العزیز بن عبدالرحمن رحمہ اللہ کے ہاتھوں مملکت سعودی عرب کا قیام ہوا اس وقت سے لے کر عصرِ حاضر کے خوشحال ، آسودہ اور ارجمند دور تک جاری و ساری ہے، یہ دور خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز -اللہ تعالی انہیں مزید توفیق دے، ان کی مدد ، حفاظت اور معاونت فرمائے- کا دور ہے۔

فن تعمیر کی شاہکار تاریخی توسیع اس کی منہ بولتی واضح دلیل ہے اس سے ہر عام و خاص واقف ہے ، ہر ایک کی آنکھیں خِیرہ ہو رہی ہیں، ہر کوئی انہیں دیکھ کر انگشت بہ دندان ہے، یہ توسیع ہر مسلمان کیلیے قابل فخر ہے، بلکہ یہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے ، موجودہ توسیع دنیا کے کونے کونے سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی زیارت کیلیے آنے والے زائرین کی بڑی سی بڑی تعداد بھی اپنے اندر سمو لیتی ہے، اتنی بڑی توسیع کا ایک ہی ہدف تھا کہ مسجدِ رسول ﷺ کی خاطر خواہ خدمت ہو، زائرین مسجد نبوی یہاں آ کر راحت محسوس کریں، اور انہیں منظم شکل میں عمدہ ترین خدمات فراہم ہوں، نیز انہیں آسانی ،اطمینان اور سکون سے بھر پور فضا میں عبادت و اطاعت کرنے کا موقع ملے۔

اس لئے ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ مدینہ اس بات کا حقدار ہے کہ اسے اسلامی سیاحت وثقافت کا ابدی دارالحکومت قرار دیا جائے بقول شاعر:

يا أخت مكة في السماء تألقي
وبكل خير أشرقي وتنمقي


اے مکہ کے ہم سر تو آسمانوں میں چمکتا دمکتا رہے، اور مکمل خوبصورتی اور روشنی کے ساتھ درخشندہ رہے

الله تعالی اس بابرکت ملک کی قیادت کو جزائے خیر عطا فرمائے ، یہ ملک توحید اور قرآن و سنت کا گہوارہ ہے، یہ ملک مملکت حرمین شریفین ہے، یہ ملک ہر جگہ اور فورم پر اسلامی اور مسلمانوں کے مسائل کو اچھی طرح اجاگر کرتا ہے؛ اس لیے الله تعالی خادم حرمین شریفین کو ان کی کامیاب کاوشوں اور خدمات پر اجر عظیم عنایت فرمائے کہ وہ حرمین شریفین اور زائرین حرمین شریفین کی خدمت کیلیے گراں قدر خدمات پیش کر رہے ہیں اور پیش کرتے رہیں گے، ان کارناموں کو الله تعالی ان کے نیک اعمال کے پلڑے میں شامل فرمائے۔

الله تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے! رہبر و رہنما، بشیر و نذیر اور سراج منیر نبی پر درود و سلام پڑھو، جیسے کہ مہربان اور خوب علم رکھنے والے الله نے تمہیں ا سکا حکم دیا اور فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِکتَهُ یصَلُّونَ عَلَی النَّبِی یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا }

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب : 56]

اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا تو اللہ تعالی اس پر دس بار رحمتیں فرماتا ہے)

يَا أيها الراجون خير شفاعة
من أحمد صلوا عليه وسلموا


نبی ﷺ کی شفاعت پہ امیدیں لگانے والو آپ پہ درود و سلام پڑھو

صلى وسلم ذو الجلال عليه
ما لبى ملبي أو تحلل محرم


جب تک تلبیہ پڑھنے والے اور احرام سے حلال ہونے والے موجود ہیں الله ذوالجلال آپ پر صلاة و سلام نازل فرماتا رہے

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ،وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِيْنَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

یا اللہ! سراپا رشد و رحمت ، تیری نازل کردہ نعمت، صاحب مقام محمود، ساقی کوثر، علمبردار حمد، منور چہرے، روشن پیشانی والے نبی پر میرے ماں باپ قربان ہوں، ان پر درود و سلام نازل فرما۔

یا اللہ! بلند و بالا مقام و مرتبے والے چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تمام صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما ، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما ، کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، شرک اور مشرکوں کو بھی ذلیل و رسوا فرما۔

یا اللہ تمام معتمرین اور زائرین کی حفاظت فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ ، خوشحال، اور ترقی یافتہ بنا دے۔

یا اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما، یا اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما، یا اللہ! ہمارے علاقوں میں امن و استحکام کو دوام بخش۔

یا اللہ! ہماری قیادت کو مزید اچھے کام کرنے کی توفیق دے اور ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے حکمران اور تیرے بندے خادم حرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمارے حکمران کی حق کے ساتھ مدد فرما، انہیں حرمین شریفین اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی خدمت کرنے پر بہترین جزا سے نواز، یا اللہ! انہیں ، ان کے نائبوں، ان کے بھائیوں اور معاونین کو انہی کاموں کی توفیق دے جن میں اسلام کا غلبہ ہو ، نیز تمام مسلمانوں اور ملک و قوم کی بہتری ہو۔

یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری شریعت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، تیرے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیرے بندوں کیلیے رحمت دل بنا۔ ہمارے امیر ، امیرِ مدینہ کو خصوصی طور پر کامیابیاں اور خصوصی مدد و نصرت عطا فرما۔

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسجد اقصی کو پاک فرما دے، یا اللہ! مسجد اقصی کو جارحین اور غاصبوں سے پاک فرما دے، یا اللہ! مسجد اقصی کو روزِ قیامت تک کیلیے عالیشان بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں ہمارے مجاہد بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! فلسطین میں ان کی مدد فرما، یا اللہ! فلسطین میں ان کی مدد فرما، یا اللہ! عراق میں ہمارے بھائیوں کی اصلاح فرما، یا اللہ! ملک شام میں بھی ان کی اصلاح فرما، یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں کی ظالموں کے خلاف جلد از جلد مدد فرما، یا اللہ! یمن میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! برما، اراکان اور پوری دنیا میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں دور فرما، مصیبت زدہ لوگوں کی مشکل کشائی فرما، مقروض لوگوں کے قرض چکا دے، تمام مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! ہمارے اس پورے اجتماع کو رحمت سے ڈھانپ دے، یہاں سے جانے کے بعد ہمیں گناہوں سے بچا کر رکھنا، ہمارے اندر یا ہمارے آس پاس کسی کو بھی محروم اور بد بخت نہ چھوڑنا۔

یا اللہ! اس ملک کے عقائد اور قائد کی حفاظت فرما، یہاں کے امن، باہمی اتحاد، استحکام، اتفاق اور خوشحالی کو تحفظ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہمارے ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ تمام مسلم ممالک کو مکاروں اور عیاروں کی چالوں سے محفوظ بنا، کینہ پرور لوگوں کے کینے سے محفوظ فرما، حاسدوں کے حسد سے محفوظ فرما، جارحیت سے بچا، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری سکیورٹی فورس کے جوانوں کو کامیابیاں عطا فرما، یا اللہ! ہماری سکیورٹی فورس کے جوانوں کو کامیابیاں عطا فرما، یا اللہ! حرمین شریفین اور سرحدوں پر مصروف عمل ہماری سکیورٹی فورس کے جوانوں کو کامیابیاں عطا فرما، یا اللہ! ان کی سرحدوں پر مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری سرحدوں پر ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کے نشانے درست فرما، یا اللہ! جانثاروں کو شہداء میں قبول فرما، زخمیوں کو شفا یاب فرما، بیماروں کو بیماری سے چھٹکارا عطا فرما، انہیں صحیح سلامت اور مالِ غنیمت کے ساتھ فتح اور غلبے کی صورت میں واپس لوٹا، اشتعال انگیزی پھیلانے والوں پر انہیں فتح عطا فرما۔

یا اللہ! تو ہی معبودِ بر حق ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے ہم تیرے در کے فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔

یا اللہ! ہم بھی تیری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں، ہمارے گناہوں کی وجہ سے اپنا فضل مت روک، یا اللہ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہی بخشنے والا ہے، ہم پر موسلا دھار بارش نازل فرما۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

ہمارے پروردگار! ہمارے اعمال قبول فرما، بیشک تو ہی سننے اور جاننے والا ہے، ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے، یا اللہ! ہمیں اور ہمارے والدین، ہمارے اجداد ، اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما، بیشک تو ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

تیرا رب جو کہ عزت کا بھی پروردگار ہے وہ مشرکوں کی بیان کردہ تمام باتوں سے پاک ہے ، سلامتی نازل ہو رسولوں پر، اور تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ سمیت انگلش ترجمہ کیلیے کلک کریں
 
Top