• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
مطلب یہ کہ آپ کو پہلے محدثین کے منہج یا کہہ لیں کہ ’’ اصول حدیث ‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں ؟

آپ کہاں کی بات کہاں جوڑ رہے ہیں ۔
محترم بھائی ’’ ہم محدثین کی تائید بھی کرتے ہیں اور دفاع بھی ‘‘ لیکن کیا ان کے موقف کو غلط سمجھتے ہوئے ؟ محدثین کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں تو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔
آپ ایک جملے میں محدثین کے موقف کو غلط کہہ کر گزرنے کی بجائے کوئی علمی کتاب ، تحریر ، مضمون لکھیں جس میں واضح کریں کہ محدثین کے منہج میں یہ یہ خامیاں تھیں ، جن کی اہل حدیث بے جا تائید میں لگے رہتے ہیں ۔
آپ جہاں بھی محدثین سے اختلاف کرتے ہیں اس میں ایک بات مشترک اور بنیادی ہوتی ہے کہ ’’ اس حدیث کا متن (آپ کی نظر میں) قابل اعتراض مواد پر مشتمل ہے ‘‘ لیکن پھر بھی اس کو صحیح کہا گیا ہے ۔
حدیث کی تصحیح و تضعیف کا یہ اصول 14 صدیوں سے کسی معتبر عالم نے لکھا ہے ؟

آپ کی معلومات ناقص ہوں گی ورنہ اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ در حقیقت یہی اہل حدیث کا منہج ہے ۔
محترم -

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن محدثین کے "اصول حدیث" کو آپ بار باراپنے موقف کی تائید میں پیش کررہے ہیں - حقیقت یہ ہے کہ ان کے اصول حدیث، سند کے معاملے میں خود ایک دوسرے سے مختلف تھے - مثال کے طور پر حضرت امام ابنِ سیرین اور حضرت امام مالک اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں تھے وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابو یوسف، حضرت سفیان ثوری اور امام شافعی اس کے جواز کے قائل تھے- یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگر اہلِ بدعت سے جیسے: معتزلہ، خوارج وغیرہ سے روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبل اس میں تفصیل کے قائل تھے ، جو اہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری نے روافض کی روایات احکامات میں لی ہیں لیکن دیگر معاملات میں وہ ان کی روایات کی اپنی کتاب میں لینا جائز نہیں سمجھتے تھے- ان کے ایک استاد کے پاس امام مہدی سے متعلق روایات موجود تھیں لیکن خود اپنی "صحیح" میں مہدی کی روایات کو لینے سے احتراض کیا - یعنی یہ نہیں کہ انہیں امام مہدی سے متعلق روایات ملی نہیں - وہ انہیں ملی ضرور لیکن اپنے اصولوں کی بنا پر انہوں نے ان کو اپنی "صحیح" میں جگہ نہیں دی- یہی حال تقریبآ امام مسلم کا تھا - محدثین کے ہاں روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے-

اب ظاہر ہے کہ جب محدثین کے ہاں روایات کو قبول کرنے میں اتنے احتمالات ہوں تو یہ ایک فطری امر ہے کہ بیان کردہ روایات کے متن اپنی جگہ خود با خود اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں- بلخوصوص وہ روایات کہ جن کے متن میں کوئی تاریخی واقعہ یا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی آئندہ آنے والے واقعہ سے متعلق کوئی پیشنگوئی ہو-یا پھر کسی کی فضیلت یا بدعتی ہونے کا بیان ہو. اوراصول حدیث میں اسی کو درایت کا اصول کہا جاتا ہے-

اور میرا اور کچھ دوسرے ممبر جیسے T H K بھائی، لولی بھائی، حمیر بھائی، ابوحمزہ بھائی کا بھی یہی منشاء کہ راہ اعتدال یہی ہے کہ روایات کو پرکھنے کے اصولوں میں متن کو بھی اتنی اہمیت دی جانی چاہیے کہ جتنی اہمیت سند کو دی جاتی ہے -اس سے اگر ایک طرف روایت پرستی کا زور کم ہو گا تو دوسری طرف انکار حدیث کا فتنہ بھی اپنی موت آپ مرجائے گا- (واللہ اعلم)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم -
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن محدثین کے "اصول حدیث" کو آپ بار باراپنے موقف کی تائید میں پیش کررہے ہیں - حقیقت یہ ہے کہ ان کے اصول حدیث، سند کے معاملے میں خود ایک دوسرے سے مختلف تھے - مثال کے طور پر حضرت امام ابنِ سیرین اور حضرت امام مالک اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں تھے وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابو یوسف، حضرت سفیان ثوری اور امام شافعی اس کے جواز کے قائل تھے- یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگر اہلِ بدعت سے جیسے: معتزلہ، خوارج وغیرہ سے روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبل اس میں تفصیل کے قائل تھے ، جو اہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری نے روافض کی روایات احکامات میں لی ہیں لیکن دیگر معاملات میں وہ ان کی روایات کی اپنی کتاب میں لینا جائز نہیں سمجھتے تھے- ان کے ایک استاد کے پاس امام مہدی سے متعلق روایات موجود تھیں لیکن خود اپنی "صحیح" میں مہدی کی روایات کو لینے سے احتراض کیا - یعنی یہ نہیں کہ انہیں امام مہدی سے متعلق روایات ملی نہیں - وہ انہیں ملی ضرور لیکن اپنے اصولوں کی بنا پر انہوں نے ان کو اپنی "صحیح" میں جگہ نہیں دی- یہی حال تقریبآ امام مسلم کا تھا - محدثین کے ہاں روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے-
جتنے علوم و فنون اور ان کے قواعد و ضوابط یا اصول ہیں ، ان میں بہت ساری چیزیں متفقہ ہوتی ہیں اور کئی چیزیں مختلف فیہ بھی ہوتی ہیں ۔ یہی حال ’’اصول حدیث‘‘ کا ہے ۔
آپ کسی اصول یا ضابطے میں محدثین کا اختلاف ذکر کرکے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔؟
آپ نے اصول حدیث کے اختلاف سے بات شروع کرکے ’’ اصول درایت ‘‘ کی ضرورت و اہمیت پر بات ختم کی ہے ، گویا آپ کے ’’ اصول درایت ‘‘ متفق علیہ ہیں ۔؟
حقیقت یہ ہے کہ محدثین کا بنیادی اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے ، اختلاف جزئیات میں پایا جاتا ہے ۔
اصول کیا ہے ، ’’ عادل ‘‘ راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ’’ غیر عادل ‘‘ کی روایت مردود ہے ۔ اور یہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ ’’ عدالت ‘‘ انسان کو جھوٹ ، تحریف ، کمی بیشی سے روکتی ہے ، گویا جو شخص عادل ہے اس نے روایت کو اسی طرح بیان کیا جیسے اس تک پہنچی ہے ۔
اب بعض اہل بدعت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے کہ ان کو ’’ عدول ‘‘ کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں ۔؟
وجہ یہ ہے کہ بدعات مختلف قسم کی ہیں ، کچھ ہلکی بدعات ہیں ، کچھ خطرناک بدعات ہیں ، پھر ان بدعات کی نوعیت بھی الگ الگ ہے ، چنانچہ بعض اہل بدعت ’’ جھوٹ ‘‘ بولنا حرام سمجھتے تھے جیساکہ خوارج ، اس لیے علماء نے ان کی روایات قبول کی ہیں ، کیونکہ ان کے بدعتی ہونے کے باوجود ’’ روایت ‘‘ کے لیے جو چیز مطلوب تھی ، وہ پائی جارہی تھی ۔
اس کے برخلاف کچھ اہل بدعت ایسے ہیں جن کا اوڑنا بچھونا ہی جھوٹ تھا جیساکہ رافضی وغیرہ ، ان کی روایات کو علماء نے رد کیا ہے ۔
کچھ اہل بدعت ایسے تھے جن کے روز مرہ احوال کا محدثین نے جائزہ لیا اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ بدعتی ہونے کے باوجود ’’ سچا ‘‘ اور ’’ دیانتدار ‘‘ ہے ، اس لیے انہوں نے ان کی روایت قبول کر لیں ۔ جبکہ جن محدثین کو اس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں نے مطلقا اس کی روایات کو رد کردیا ۔ اسی طرح اس کے برعکس ۔
اور اس طرح کے دیگر اعتبارات اور توجیہات ہیں جن کو جاننے اور سمجھنے سے ’’ بدعتی کی روایت کے قبول ‘‘ کے بارے میں پایا جانے والے اختلاف کو علی وجہ البصیرۃ سمجھا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس سے محدثین کی دقت نظری کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دو جمع دو چار کی طرح ’’ روایات ‘‘ اور ’’ رواۃ ‘‘ سے خدا واسطے کا بیر رکھنے کی بجائے خود کو مشقت اور محنت میں ڈال کا حق اور باطل کو چھان کر رکھ دیا ہے ۔
اب ظاہر ہے کہ جب محدثین کے ہاں روایات کو قبول کرنے میں اتنے احتمالات ہوں تو یہ ایک فطری امر ہے کہ بیان کردہ روایات کے متن اپنی جگہ خود با خود اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں- بلخوصوص وہ روایات کہ جن کے متن میں کوئی تاریخی واقعہ یا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی آئندہ آنے والے واقعہ سے متعلق کوئی پیشنگوئی ہو-یا پھر کسی کی فضیلت یا بدعتی ہونے کا بیان ہو. اوراصول حدیث میں اسی کو درایت کا اصول کہا جاتا ہے-
گویا جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ کہتے ہیں وہ بھی محدثین کے بیان کردہ ’’ اصول حدیث ‘‘ میں موجود ہیں ۔ پھر تو بات ہی ختم ہوئی ، لہذا آپ لوگوں کو ’’ روایت پرست ‘‘ یا ’’ محدثین پرست ‘‘ کہنے کی بجائے محدثین کے حوالے کے ساتھ اصول درایت سمجھائیں اور جو نہ مانے اسے بتائیں کہ آپ منہج المحدثین سے احتراز کر رہے ہیں ۔
کوئی دور چار اصول درایت بیان فرمائیں جن پر محدثین بھی عمل کیا کرتے تھے تاکہ ’’ درایت ‘‘ سے نابلد حضرات کی معلومات میں بھی اضافہ ہو ۔
اور میرا اور کچھ دوسرے ممبر جیسے T H K بھائی، لولی بھائی، حمیر بھائی، ابوحمزہ بھائی کا بھی یہی منشاء کہ راہ اعتدال یہی ہے کہ روایات کو پرکھنے کے اصولوں میں متن کو بھی اتنی اہمیت دی جانی چاہیے کہ جتنی اہمیت سند کو دی جاتی ہے -اس سے اگر ایک طرف روایت پرستی کا زور کم ہو گا تو دوسری طرف انکار حدیث کا فتنہ بھی اپنی موت آپ مرجائے گا- (واللہ اعلم)-
متن کی جو تحقیق آپ کرتے ہیں اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اپنے ’’ موقف ‘‘ میں ٹس سے مس نہ ہوں اور جو کچھ اس کے مخالف آئے اسے ’’ خلافِ درایت ‘‘ کہہ کر رد کرتے جائیں ۔
اس طرح ’’ فتنہ ‘‘ ختم نہیں ہوتا بلکہ فتنے پروان چڑھتے ہیں ۔
جن احادیث کو آپ کی سوچ کے مطابق ہونے کی وجہ سے شرف قبولیت حاصل ہے کسی اور کی نام نہاد ’’ درایت ‘‘ سے مردود قرار پائیں گی ۔
ویسے اس اقتباس میں میرے لیے یہ چیز کافی عجیب ہے کہ آپ حضرات (!) کے نزدیک بھی اس دنیا میں ’’ فتنہ انکار حدیث ‘‘ پایا جاتا ہے ۔!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جتنے علوم و فنون اور ان کے قواعد و ضوابط یا اصول ہیں ، ان میں بہت ساری چیزیں متفقہ ہوتی ہیں اور کئی چیزیں مختلف فیہ بھی ہوتی ہیں ۔ یہی حال ’’اصول حدیث‘‘ کا ہے ۔
آپ کسی اصول یا ضابطے میں محدثین کا اختلاف ذکر کرکے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔؟
آپ نے اصول حدیث کے اختلاف سے بات شروع کرکے ’’ اصول درایت ‘‘ کی ضرورت و اہمیت پر بات ختم کی ہے ، گویا آپ کے ’’ اصول درایت ‘‘ متفق علیہ ہیں ۔؟
حقیقت یہ ہے کہ محدثین کا بنیادی اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے ، اختلاف جزئیات میں پایا جاتا ہے ۔
اصول کیا ہے ، ’’ عادل ‘‘ راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ’’ غیر عادل ‘‘ کی روایت مردود ہے ۔ اور یہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ ’’ عدالت ‘‘ انسان کو جھوٹ ، تحریف ، کمی بیشی سے روکتی ہے ، گویا جو شخص عادل ہے اس نے روایت کو اسی طرح بیان کیا جیسے اس تک پہنچی ہے ۔
اب بعض اہل بدعت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے کہ ان کو ’’ عدول ‘‘ کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں ۔؟
وجہ یہ ہے کہ بدعات مختلف قسم کی ہیں ، کچھ ہلکی بدعات ہیں ، کچھ خطرناک بدعات ہیں ، پھر ان بدعات کی نوعیت بھی الگ الگ ہے ، چنانچہ بعض اہل بدعت ’’ جھوٹ ‘‘ بولنا حرام سمجھتے تھے جیساکہ خوارج ، اس لیے علماء نے ان کی روایات قبول کی ہیں ، کیونکہ ان کے بدعتی ہونے کے باوجود ’’ روایت ‘‘ کے لیے جو چیز مطلوب تھی ، وہ پائی جارہی تھی ۔
اس کے برخلاف کچھ اہل بدعت ایسے ہیں جن کا اوڑنا بچھونا ہی جھوٹ تھا جیساکہ رافضی وغیرہ ، ان کی روایات کو علماء نے رد کیا ہے ۔
کچھ اہل بدعت ایسے تھے جن کے روز مرہ احوال کا محدثین نے جائزہ لیا اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ بدعتی ہونے کے باوجود ’’ سچا ‘‘ اور ’’ دیانتدار ‘‘ ہے ، اس لیے انہوں نے ان کی روایت قبول کر لیں ۔ جبکہ جن محدثین کو اس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں نے مطلقا اس کی روایات کو رد کردیا ۔ اسی طرح اس کے برعکس ۔
اور اس طرح کے دیگر اعتبارات اور توجیہات ہیں جن کو جاننے اور سمجھنے سے ’’ بدعتی کی روایت کے قبول ‘‘ کے بارے میں پایا جانے والے اختلاف کو علی وجہ البصیرۃ سمجھا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس سے محدثین کی دقت نظری کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دو جمع دو چار کی طرح ’’ روایات ‘‘ اور ’’ رواۃ ‘‘ سے خدا واسطے کا بیر رکھنے کی بجائے خود کو مشقت اور محنت میں ڈال کا حق اور باطل کو چھان کر رکھ دیا ہے ۔

گویا جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ کہتے ہیں وہ بھی محدثین کے بیان کردہ ’’ اصول حدیث ‘‘ میں موجود ہیں ۔ پھر تو بات ہی ختم ہوئی ، لہذا آپ لوگوں کو ’’ روایت پرست ‘‘ یا ’’ محدثین پرست ‘‘ کہنے کی بجائے محدثین کے حوالے کے ساتھ اصول درایت سمجھائیں اور جو نہ مانے اسے بتائیں کہ آپ منہج المحدثین سے احتراز کر رہے ہیں ۔
کوئی دور چار اصول درایت بیان فرمائیں جن پر محدثین بھی عمل کیا کرتے تھے تاکہ ’’ درایت ‘‘ سے نابلد حضرات کی معلومات میں بھی اضافہ ہو ۔

متن کی جو تحقیق آپ کرتے ہیں اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اپنے ’’ موقف ‘‘ میں ٹس سے مس نہ ہوں اور جو کچھ اس کے مخالف آئے اسے ’’ خلافِ درایت ‘‘ کہہ کر رد کرتے جائیں ۔
اس طرح ’’ فتنہ ‘‘ ختم نہیں ہوتا بلکہ فتنے پروان چڑھتے ہیں ۔
جن احادیث کو آپ کی سوچ کے مطابق ہونے کی وجہ سے شرف قبولیت حاصل ہے کسی اور کی نام نہاد ’’ درایت ‘‘ سے مردود قرار پائیں گی ۔
ویسے اس اقتباس میں میرے لیے یہ چیز کافی عجیب ہے کہ آپ حضرات (!) کے نزدیک بھی اس دنیا میں ’’ فتنہ انکار حدیث ‘‘ پایا جاتا ہے ۔!
محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مجھے یا یہاں پر کچھ دوسرے ممبران کو محدثین کرام سے کوئی بغض و عناد ہے جس کی بنا پر ہم ان کے احادیث مبارکہ سے متعلق وضع کردہ اصول و ضوابط کو نہیں مانتے - تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے - محدثین کرام نے جتنی دیانت داری اور محنت سے احادیث نبوی کو پرکھنے کے اصول و ضوابط وضع کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں -لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان اصول حدیث کو روا رکھنے کے باوجود ان محدثین نے یہ کبھی دعوی نہیں کیا کہ ان کی بیان کردہ روایات جو سند کے اعتبار سے چاہے کتنی ہی قوی ہوں سو فیصد درست ہیں - محدثین کا یہ اصول اپنی جگہ مسلم ہے کہ ’ عادل ‘‘ راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ’’ غیر عادل ‘‘ کی روایت مردود ہے- لیکن یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ راوی چاہے کتنا ہی عادل ہو، نسیان اور بھول چوک سے مبرا نہیں - اور اسی بات کو سامنے رکھ کر قرون اولیٰ کے مجتہدین و آئمہ نے محدثین کی بیان کردہ روایات پر جرح بھی کی - اور یہ بات خود محدثین کے بیان کردہ اصولوں میں موجود تھی کہ روایت کا متن بھی سند کے ساتھ اپنی جگہ خاص اہمیت کا حامل ہے - ورنہ فقہ کے آئمہ و مجتہدین میں روایات کو پرکھنے کے معاملے میں اختلاف کیوں ہوتا - آئمہ نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے جن کی سندیں اگرچہ درست تھیں ، لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی تھیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع تھیں-

امام ابن الجوزی فرماتے ہیں :

ما احسن قول القائل: اذا رایت الحدیث یباین المعقول او یخالف المنقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع۔ (تدریب الراوی، السیوطی ۱/ ۲۷۷ )

’’کسی کہنے والے نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ جب تم دیکھو کہ ایک حدیث عقل کے خلاف ہے یا ثابت شدہ نص کے مناقض ہے یا کسی اصول سے ٹکراتی ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔‘‘

اب ظاہر ہے کہ یہ اصول آج کے کسی منکر حدیث کا نہیں بلکہ اپنے وقت کے ایک جلیل القدر امام کا ہے- اور آج کے دور میں بھی اگر ہم میں سے بھی کوئی کسی روایت پر نقد کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اصول یا اس روایت کو رد کرنے کا کوئی ثبوت یا یا کسی مجتہد کا حوالہ ضرور ہوتا ہے - ہاں اگر کوئی بغیر کسی مستند حوالے کے کسی روایت پر نققد کرے تو وہ قابل گرفت ہو سکتا ہے-

یہ آپ کی اس بات کا جواب ہے جس میں آپ نے فرمایا "متن کی جو تحقیق آپ کرتے ہیں اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اپنے ’’ موقف ‘‘ میں ٹس سے مس نہ ہوں اور جو کچھ اس کے مخالف آئے اسے ’’ خلافِ درایت ‘‘ کہہ کر رد کرتے جائیں ۔ اس طرح ’’ فتنہ ‘‘ ختم نہیں ہوتا بلکہ فتنے پروان چڑھتے ہیں ۔"

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ روایات اپنے موضوع کے لحاظ سے بھی مختلف اہمیت کی حامل ہوتی ہیں- - اب چاہے وہ سندی لحاظ سے مضبوط هوں یا کمزور ہوں -

مثال کے طور پر:

صحیح مسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کہا:

اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
’’ میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بد عہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کیجیے۔‘‘

امام نووی ، علامہ مازری سے نقل کرتے ہیں:
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا۔(النووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۷۲ )

’’اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے، چہ جائیکہ تمام اوصاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے جھوٹ سے محفوظ ہونے کی شہادت دی ہے، ہمارا کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔ چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔

ظاہر ہے کہ صحابہ کرام سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ ایمان لانے کے بعد ایک دوسرے کے لئے اس قسم کے الفاظ استمعال کریں گے- اس طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں جو محل وقوع کے ا عتبارسے یا تو تاویل طلب ہوتی ہیں یا رد کرنے کے قابل ہوتی ہیں-

اس طرح بہت سی روایات ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا کوئی فرمان مبارک نہیں ہوتا لیکن تاریخی اعتبار سے اس میں کوئی نقص پایا جاتا - جیسے حضرت عمر رضی الله عنہ کا ایمان لانے کا واقعہ ، یزید کا واقعہ حرہ سے تعلق ، حضرت حسین رضی الله عنہ کا کربلا میں شہید ہونا (جب کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کوفہ کے لئے روانہ ہوے تھے جو کربلا سے پہلے آتا ہے )- حضرت حسان بن ثابت رضی الله عنہ کا منافقین کی باتوں میں آکر اماں عائشہ رضی الله عنہ پر افک کرنا (جب کہ وہ خود نبی کریم کی شان کے علاوہ حضرت اماں عائشہ رضی الله عنہ کی شان میں بھی قصیدہ گوئی کرتے تھے)- وغیرہ - اسطرح اور بہت سے تاریخی واقعیات احادیث کی کتب میں موجود ہیں لیکن خود آئمہ نے ان پر نقد و جرح کی ہے - اور اس کی وجہ یہی تھی کہ سند مضبوط ہونے کے باوجود متن میں نقص پایا جاتا تھا -

لہذا اعتدال کا راستہ یہی ہے کہ محدثین ، مجتہدین و آئمہ کے راستے پر چلتے ہوے روایات کو پرکھا جائے (یعنی سند و متن دونوں کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے) - نہ کہ کسی روایت کو اس کی شہرت کی بنا پر پر من و عن قبول کیا جائے-

جزاک الله ہوخیر-
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جناب مولانہ ارشاد الحق اثری اپنی کتاب احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا محاسبہ صفحہ 177
میں مولانہ کاندہلوی کا رد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں
ہم حیران ہیں کہ ان کی اس طول بیانی کو ان کی جہالت کا شاخسانہ کہیں یا روایتی دجل و فریب کا گورکھ دھند قرار دیں ۔ زینب بنت فاطمہ و ام کلثوم بنت فاطمہ پیدا کب ہوئی ، حافظ ابن حجر نے ام کلثوم کے بارے میں لکھا ہے کہ ولدت قبل وفات النبی علیہ السلام ، کہ وہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے پیدا ہوئیں (الاصابہ ج 8 ص 275) اسی طرح سیدہ زینب بن فاطمہ ہی کے بارے مین قطعن ثابت نہیں کہ وہ نو ہجری مین حدیث کساء کے واقعہ سے پہلے پیدا ہوئی ہوں۔۔۔

مطلب جناب مولانہ اثری کہنا چاہ رہے ہیں کہ حدیث کساء کا واقعہ 9 ہجری میں ہوا اور اس وقت سیدہ زینب بھی پیدا نہیں ہوئیں تھین تو ام کلثوم کیسے پیدا ہوتی وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھوڑہ پہلے یعنی 11 ہجری یا 10 ہجری کے آخر میں پیدا ہوئیں
اب اس حساب سے سیدہ ام کلثوم کی عمر سیدنا فاروق اعظم رضہ سے نکاح و رخصتی کے وقت 6 سال ہوتی ہے۔۔
اب مولانہ نے رد تو لکھ دیا لیکن اب نکاح عمر کے مسئلہ کو اور پیچیدہ کردیا۔۔واللہ اعلم۔
کبھی کبھی لکھتے وقت بہت سی چیزوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔۔اسی بے دھیانی کی وجہ سے ہی تو ہماری روایت مین بعض جگہ تردد پایا جاتا ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم کے دور میں حسنین کریمین چھوٹے تھے لیکن ام کلثوم رضہ اتنی تو تھیں نہ کہ ان کی شادی کردی گئی۔ کچھ نہ کچھ مسئلہ تو ہے کہیں نہ کہیں پر
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جناب مولانہ ارشاد الحق اثری اپنی کتاب احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا محاسبہ صفحہ 177
میں مولانہ کاندہلوی کا رد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں
ہم حیران ہیں کہ ان کی اس طول بیانی کو ان کی جہالت کا شاخسانہ کہیں یا روایتی دجل و فریب کا گورکھ دھند قرار دیں ۔ زینب بنت فاطمہ و ام کلثوم بنت فاطمہ پیدا کب ہوئی ، حافظ ابن حجر نے ام کلثوم کے بارے میں لکھا ہے کہ ولدت قبل وفات النبی علیہ السلام ، کہ وہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے پیدا ہوئیں (الاصابہ ج 8 ص 275) اسی طرح سیدہ زینب بن فاطمہ ہی کے بارے مین قطعن ثابت نہیں کہ وہ نو ہجری مین حدیث کساء کے واقعہ سے پہلے پیدا ہوئی ہوں۔۔۔

مطلب جناب مولانہ اثری کہنا چاہ رہے ہیں کہ حدیث کساء کا واقعہ 9 ہجری میں ہوا اور اس وقت سیدہ زینب بھی پیدا نہیں ہوئیں تھین تو ام کلثوم کیسے پیدا ہوتی وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھوڑہ پہلے یعنی 11 ہجری یا 10 ہجری کے آخر میں پیدا ہوئیں
اب اس حساب سے سیدہ ام کلثوم کی عمر سیدنا فاروق اعظم رضہ سے نکاح و رخصتی کے وقت 6 سال ہوتی ہے۔۔
اب مولانہ نے رد تو لکھ دیا لیکن اب نکاح عمر کے مسئلہ کو اور پیچیدہ کردیا۔۔واللہ اعلم۔
کبھی کبھی لکھتے وقت بہت سی چیزوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔۔اسی بے دھیانی کی وجہ سے ہی تو ہماری روایت مین بعض جگہ تردد پایا جاتا ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم کے دور میں حسنین کریمین چھوٹے تھے لیکن ام کلثوم رضہ اتنی تو تھیں نہ کہ ان کی شادی کردی گئی۔ کچھ نہ کچھ مسئلہ تو ہے کہیں نہ کہیں پر
متفق -

مولانہ ارشاد الحق اثری نے کاندھلوی صاحب کی تحقیق کا محاسبہ کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن کئی مقامات پر وہ مولانا کاندھلوی کی باتوں کا تسلی بخش رد نہیں کرسکے - مولانا کاندھلوی کی روایت "الحسن و الحسین سید الشباب اھل الجنه" پر تنقید کا جواب لکھتے ہوے کہتے ہیں کہ: "درحقیقت حضرت حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ جنّت کے ان لوگوں کے سردار ہیں جو نوجوانی میں فوت ہوے اور پھر داخل جنّت ہوے"-

بلکہ ایک صحیح حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ اس کے برعکس جنّت میں جانے والے تمام لوگوں کو الله جوانی عطا کرے گا- چاہے وہ کسی بھی عمرمیں فوت ہوے ہوں -
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میں علم حدیث اور اصول حدیث کا متخصص نہیں ہوں لیکن ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اپنی رائے بعد میں لکھوں گا
کیا کسی حدیث کی تصحیح کے دوران علم درایت اور علم روایت میں اختلاف و تضاد ہو سکتا ہے ؟
اگر ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟ اور کیوں ؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصل موضوع کو کب شروع کیا جائے گا ؟
مجھے مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت کی پہلی جلد کے کچھ صفحات ایک ساتھی نے فوٹو فارمٹ میں بھیجیں ہیں میں انہیں جے پی جی میں کنورٹ کرنے کے بعد یہاں شئیر کرتا ہوں پھر اس پر بات کریں اور کوشش کریں کہ اصل موضوع پر بات ہوں پھر جزوی طور پر متعلقہ مباحث ضرورت کی حد تک سامنے رکھے جا سکتے ہیں
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میں علم حدیث اور اصول حدیث کا متخصص نہیں ہوں لیکن ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اپنی رائے بعد میں لکھوں گا
کیا کسی حدیث کی تصحیح کے دوران علم درایت اور علم روایت میں اختلاف و تضاد ہو سکتا ہے ؟
اگر ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟ اور کیوں ؟
السلام و علیکم و رحمت الله -

میرے خیال میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی روایت کو پرکھنے میں درایت اور روایت کی رو سے اختلاف و تضاد پایا گیا ہے - لیکن میں یہاں پھر کہتا چلوں کہ ہر روایت اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف اہمیت کی حامل ہوتی ہے -اگر ایک روایت نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے کسی قول و فعل یا کسی حکم سے متعلق ہے تو اس میں اس بات کا امکان نسبتاً کم ہے کہ اس کی سند و متن میں تضاد پایا جائے - جب کہ ایسی روایات جن کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہو یا ایسے کسی تاریخی واقعہ سے ہو جو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے بعد وقوع پذیر ہوا ہو یا جس روایت میں نبی کریم سے کوئی بات ثابت نہ ہو- تو اس روایت میں اس بات کا امکان زیادہ ہونا ممکن ہے کہ درایت و روایت کی رو سے اس میں تضاد پایا جائے - کیوں کہ کذاب و بدعتی راوی بھی یہ بات جانتے تھے کہ نبی کریم صل الله علیہ پر جھوٹ بولنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ کسی صحابی یا تابعی پر جھوٹ بولنا آسان ہے -اور ہم جانتے ہیں کہ احادیث کی کتب میں دونوں طرح کی روایات با کثرت پائی گئی ہیں - (واللہ اعلم)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
براہ کرم
جس درایت کا بتکرار ذکر ہو رہا ہے ،اس کا آسان تعارف تو کروائیں !
یعنی ۔درایت کیا ہے ؟
اس کا واضع کون ہے ؟
 
Top