• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ

کوئی بھی کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ ابن سبا کا کے کیا انجام ہوا- اور اس کی فتنہ پردازیوں اور مسلمانوں میں کفریہ عقائد کی واضح تبلیغ و اشاعت کے باوجود صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی طرف سے کیوں اس کی بروقت گردن زنی نہیں کی گئی؟؟

اہل سنت اور شیعہ کتب کے مطابق ابن سبا کے پیرو کاروں کو علی رضی الله عنہ نے اگ میں زندہ جلوا دیا خود ابن سبا بھی شاید انہی میں سے ہو

بخاری کی حدیث میں ہے جب یہ خبر ابن عباس کو ملی تو انہوں نے کہا

لو كنت أنا لم أحرقهم، لنهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “لا تعذبوا بعذاب الله”

اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا کونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ الله کے عذاب سے عذاب دیا جائے


علی رضی الله نے اس پر ایک شعر کہا

لما رأيت الأمر أمراً منكراً *** أوقدت ناري ودعوت قنبرا


جب میں امر منکر دیکھا میں نے اگ بھڑکائی اور قنبر کو پکارا



قبنر علی کا غلام تھا جس کو انہوں نے یہ حکم دیا

ابن سبا کے غالی اگ میں جل رہے تھے اور پکار رہے تھے

لا یعذب بالنار الا رب النار

اگ کا عذاب نہیں دیتا مگر اگ کا رب

گویا آخری وقت تک غالی علی کی الوہیت کا عقیدہ رکھتے تھے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محترم -

مجھے عبد الله بن سبا کے وجود کا انکار نہیں جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں - میں اہل سنّت کے اس اصول کی بات کررہا ہوں جس کو سامنے رکھ کر وہ عبدالله بن سبا کے وجود کا اثبات کرتے ہیں - اہل سنّت کا اصول کہتا ہے کہ کذاب راوی کی روایت قابل قبول نہیں تو پھر عبد الله بن سبا کی حقیقت سے متعلق "سیف بن عمر تمیمی کذاب راوی" کی بیان کردہ روایات پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے ؟؟؟

سیف بن عمر کو محدثین ضعیف کہتے ہیں لیکن حدیث کی روایت میں جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے اس میں الذھبی اور ابن حجر کی رائے میں یہ قابل قبول ہیں
ابن حبان نے ان پر موضوع روایات بیان کرنے کا الزام لگایا ہے اس پر تقریب التہذیب میں ابن حجر کہتے ہیں

«أفحش ابن حبان القول فيه

اس قول میں ابن حبان نے فحش کہا


گویا ابن حجر کے نزدیک ابن حبان کی رائے افراط پر مبنی ہے

تاریخ میں واقدی اور محمّد بن اسحاق کے اقوال بھی لئے جاتے ہیں ابن اسحاق کو امام مالک دجال کہتے ہیں اور واقدی کو کذاب کہا جاتا ہے لیکن چونکہ ٩٠ فی صدی تاریخ انہی لوگوں سے مروی ہے لہذا ان کی روایت تاریخ میں مانی جاتی ہے اسی طرح سیف بن عمر کی روایات کمزور ہونے کے باوجود تاریخ میں قبول کی جاتی ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بالکل غلط بات ہے ، محدثین کا یہ منہج بالکل نہیں ہے ۔ اگر محدثین کا یہ منہج ہوتا تو آپ کو ایسی روایات صحاح کے ضمن میں نظر نہ آتیں ۔
اور پھر یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ محدثین جن روایات کا معنی و محمل صحیح معلوم نہ ہوسکے ان کو رد نہیں بلکہ ان پر توقف اختیار کرتے تھے ۔ گویا محدثین تحقیقی اعتبار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ، اپنے آپ کو ’’ کل خاں ‘‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھ آنی والی باتوں کو رد کرنے کی بجائے اپنے علم و فہم میں قصور کا اعتراف کیا کرتے تھے ۔ علوم حدیث میں موجود ’’ مختلف الحدیث ‘‘ وغیرہ بحث میں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔
بلکہ خود نص نبوی سے یہ بات ثابت ہے ’’ رب حامل فقہ غیر فقیہ ‘‘ اور ’’ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع ‘‘ ان الفاظ میں یہ معنی موجود ہے کہ بعض دفعہ روایت کرنے والا الفاظ کےمعنی و مفہوم سے کما حقہ واقف نہیں ہوتا ،لیکن بعد والے اس کو بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں ۔
کتنی ایسی روایات ہیں ، جن کا معنی کسی ایک عالم دین کو سمجھ نہیں آتا ، یا اس میں اسے کوئی خلاف شرع بات محسوس ہوتی ہے ، لیکن بعد والے اہل علم و فضل اس کا لائق معنی و مفہوم بیان کردیتے ہیں ۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ جو کہہ رہے ہیں تو یہ بھی سمجھ کی غلطی ہے ، جس طرح محدثین راویوں پر اور روایات نقد کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی روایات پر جرح کیا کرتی تھیں ، گویا ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات بیان کرنے میں صحابی کو غلطی لگ جاتی تھی ، جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی باتوں کی روشنی میں پرکھا کرتی تھیں۔ اور یہ اصول محدثین کے ہاں بھی موجود ہے کہ وہ راویوں کی روایات میں ’’ احفظ ، اوثق ، الزم ‘‘ کا خیال کرتے ہوئے ترجیح دیا کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔

اوپر آپ نے اسحاق سلفی صاحب کی تحقیق کا شکریہ کس بنیاد بر ادا کیا ہے ۔؟
اس میں یہی لکھا ہوا ہے کہ کئی ابن سبا کے بارے میں کئی روایات ایسی ہیں جن میں سیف کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔
گویا ابن سبا کے وجود کے بارے میں سیف کی روایات پر ہی اعتماد نہیں ہے ۔
ویسے آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کو ابن سبا کے وجود سے انکار نہیں ، گویا آپ کے نزدیک ابن سبا کا وجود تھا ، آپ کی یہ رائے کس بنیاد پر ہے ۔؟
محترم -

جن روایت کے معنی محدثین پر واضح ہوتے تھے کیا ان کے بارے میں بھی وہ توقف اختیار کرتے تھے؟؟؟ جیسے یہ روایت-

اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)


اس روایت کے بارے میں تو امام نووی واضح طور فرما رہے ہیں کہ :
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا۔(النووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۷۲ )


’’اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے، چہ جائیکہ تمام اوصاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے جھوٹ سے محفوظ ہونے کی شہادت دی ہے، ہمارا کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔ چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔

لیکن علماء پرستی کے چکر میں آپ کا فہم یہ کہہ رہا ہے کہ : روایت تو صحیح ہے لیکن الفاظ کا مطلب ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں- ؟؟؟ جب کہ دوسری طرف قرون اولیٰ کے محدث مسلم کی اس روایت کو صرف اس بنا پر رد کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا -چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
کاش اہل سنّت، روایات کو پرکھنے کے دوران اس آیت کے معنی کو بھی مد نظررکھیں:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا اپنا رب بنا لیا-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
سیف بن عمر کو محدثین ضعیف کہتے ہیں لیکن حدیث کی روایت میں جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے اس میں الذھبی اور ابن حجر کی رائے میں یہ قابل قبول ہیں
ابن حبان نے ان پر موضوع روایات بیان کرنے کا الزام لگایا ہے اس پر تقریب التہذیب میں ابن حجر کہتے ہیں

«أفحش ابن حبان القول فيه

اس قول میں ابن حبان نے فحش کہا


گویا ابن حجر کے نزدیک ابن حبان کی رائے افراط پر مبنی ہے

تاریخ میں واقدی اور محمّد بن اسحاق کے اقوال بھی لئے جاتے ہیں ابن اسحاق کو امام مالک دجال کہتے ہیں اور واقدی کو کذاب کہا جاتا ہے لیکن چونکہ ٩٠ فی صدی تاریخ انہی لوگوں سے مروی ہے لہذا ان کی روایت تاریخ میں مانی جاتی ہے اسی طرح سیف بن عمر کی روایات کمزور ہونے کے باوجود تاریخ میں قبول کی جاتی ہیں
شاید کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ طبری نے سیف بن عمر سے جو روایات لی ہیں وہ بعد کے مورخین نے من و عن قبول کرلی -

سیف کی احادیث تاریخ طبری کے ذریعےدیگر تاریخی کتابوں میں کس طرح سرایت کر گئیں

ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل کے مقدمے میں لکھا: میں نے اس کتاب میں وہ چیزیں بیان کی ہیں جو کسی دوسری کتاب میں بیان نہیں ہوئیں۔ میں نے اسکی ابتداء امام ابن جریر طبری کی تاریخ کبیر سے کی کیونکہ سب اسی کتاب پر بھروسہ کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیگر مشہور تواریخ کا مطالعہ کیا اور تاریخ طبری سے جو باتیں مجھے نہیں مل سکیں انہیں ان تواریخ سے لے کر طبری سے حاصل شدہ معلومات پر ان کا اضافہ کیا
 
Top