• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
لیں میرے بھائیوں میں حبیب الرحمن کاندھلوی کی کتاب سے کچھ صفحات جو میرے ایک ساتھی نے مجھے سکین کر کے بھیجے ہیں وہ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں اب باقی دور دور کی ساری باتیں ترک کر کے ان مشتملات پر بحث کریں تاکہ عنوان کا کچھ حق ادا ہو سکے
متفق
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
شاید کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ طبری نے سیف بن عمر سے جو روایات لی ہیں وہ بعد کے مورخین نے من و عن قبول کرلی -

سیف کی احادیث تاریخ طبری کے ذریعےدیگر تاریخی کتابوں میں کس طرح سرایت کر گئیں

ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل کے مقدمے میں لکھا: میں نے اس کتاب میں وہ چیزیں بیان کی ہیں جو کسی دوسری کتاب میں بیان نہیں ہوئیں۔ میں نے اسکی ابتداء امام ابن جریر طبری کی تاریخ کبیر سے کی کیونکہ سب اسی کتاب پر بھروسہ کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیگر مشہور تواریخ کا مطالعہ کیا اور تاریخ طبری سے جو باتیں مجھے نہیں مل سکیں انہیں ان تواریخ سے لے کر طبری سے حاصل شدہ معلومات پر ان کا اضافہ کیا

ابن الاثیر نے طبری کے کندھے پر بندوق چلائی ہے جب وہ بغض صحابہ پر منبی روایت لاتا ہے تو سارے شیعہ اس کا دفاع کرتے ہیں لیکن اب چونکہ دونوں ابن سبا کے وجود کو مان رہے ہیں لہذا یہ ہضم ہونا مشکل لگ رہا ہے
کیا سیف بن عمر ، ابن سبا کا احوال بیان کرنے میں تفرد ہے ؟ جبکہ ایسا نہیں ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آخری بات :
حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے ۔
اور یہ کوئی عالمانہ موقف نہیں ہے کہ ایک ہی روایت کے اندر جو بات آپ کی سوچ کے مطابق ہے ، قابل قبول ہے ، اور جو جذبات کے خلاف نظر آرہی ہے وہ مردود ہے ۔ ( مثلا یہاں ایک صاحب ہیں جو دیگر صحابہ کے بارے میں ایسی باتیں لے کر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، لیکن عباس و علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس روایت پر بالکل خاموش رہیں گے ۔ اور یہ اچھی بات ہے ، کاش یہ اصول دیگر اصحاب رسول کے بارے میں بھی ذہن میں رہے ۔ )
شاید یہاں مجھے یاد کیا گیا ہے اس لئے میں حاضر ہوں
مذکورہ روایت کے بارے اہل سنت کے امام نوی صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
یہ چاروں الفاظ یعنی جھوٹا گنہگار دغاباز چور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہے اس کی تاویل یوں کی ہے کہ یہ شرط کے طور پر ہیں اور شرط محذوف ہے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ انصاف نہ کریں اور حق پر راضی نہ ہوں تو وہ ایسے ہونگے یا بطور پیار کہے جیسے باپ بیٹے کو کہتا ہے کیوں کہ عباس رضی اللہ عنہ چچا تھے اور مثل باپ کے تھے امام مازرینے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان بہت بڑی ہے اور ان میں ان چاروں اوصاف میں سے کوئی وصف نہ تھا بلکہ وہ سچے راست باز نیک امانت دار گو ہم نہیں کہتے کہ وہ معصوم تھے بلکہ معصوم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا جس کو آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( نے معصوم کہا اور ہم کو حکم ہے صحابہ کرام کے ساتھ نیک گمان کرنے کا اور ہر بری بات سے ان کو پاک سمجھنے کا اور اگر تاویل نہ ہوسکے تو یہی کہیں گے کہ راویوں نے جھوٹ کہا
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)


اس روایت کے بارے میں تو امام نووی واضح طور فرما رہے ہیں کہ :
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا۔(النووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۷۲ )

’’اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے، چہ جائیکہ تمام اوصاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے جھوٹ سے محفوظ ہونے کی شہادت دی ہے، ہمارا کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔ چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
لیکن علماء پرستی کے چکر میں آپ کا فہم یہ کہہ رہا ہے کہ : روایت تو صحیح ہے لیکن الفاظ کا مطلب ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں- ؟؟؟ جب کہ دوسری طرف قرون اولیٰ کے محدث مسلم کی اس روایت کو صرف اس بنا پر رد کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا -چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
کاش اہل سنّت، روایات کو پرکھنے کے دوران اس آیت کے معنی کو بھی مد نظررکھیں:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا اپنا رب بنا لیا-
آپ بھی روایات رد کرنے سے پہلے اس آیت پر غور کیا کریں :
أرءیت من اتخذ الہہ ہواہ
اگر علامہ مازری وغیرہ نے ان الفاظ کو راویوں کا وہم قرار دیا ہے تو اس سے پہلے امام مسلم اور ان کے اساتذہ نے اس کو روایت کو درست بھی قرار دیا ہے ۔
اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب متقدمین و متاخرین میں اختلاف ہوگا تو رد دلیل سے ہوگا نہ اپنے فہم سے ۔ اگر قاضی عیاض نے روایت کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ ذکر کی ہے ، تو ہم ماننے کے لیے تیار ہیں ، صرف اندازہ لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ اس طرح تو کوئی بھی کسی روایت میں اٹکل پچو لگا کر اس کو رد کردے گا۔
اور پھر ایک اور بات :
ایک ہے صحابہ کے بارے میں ہمارا حسن ظن اورسوچ ، اس بارے میں میں آپ سے متفق ہوں ، کہ ان کے بارے میں کوئی غلط تصور نہیں کرنا چاہیے ۔
دوسری بات ہے کہ صحابہ کرام کا آپس میں تعامل ، تواگر ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے بارے میں قابل اعتراض الفاظ کہیں ہیں تو وہ خود بھی تو صحابی ہے ، اس کا ہم عصر اور ہم مرتبہ ہے ۔ جب ہم صحابہ کرام کو معصوم نہیں سمجھتے تو پھر انسانی تقاضوں اور بشری طبائع سے وجود میں آنے والی لغزشوں کا سہرا راویوں کےسر کیوں باندھنے پر تلے ہوئے ہیں ؟
پھر میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو مسلم کی روایت میں پورے واقعے پر اعتراض ہے یا پھر صرف ان دو چار الفاظ پر ہی اعتراض ہے ؟
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مجھے اپنی پرانی فائلز میں سے ہاتھ کے لکھے ہوئے کچھ صفحات ملے جو کچھ دن پہلے دریافت ہوئے گو کہ میں اب ان میں سے کچھ امور سے اتفاق نہیں کرتا یعنی خود اپنی ہی باتوں سے لیکن بغرض افادہ درج کر رہا ہوں
حبیب الرحمن کاندھلوی کی تالیفات کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ
حبیب الرحمن کاندھلوی کا شمار پاکستان کے ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے روایات کی تحقیق میں اپنی عمر صرف کردی اور ان کی تحقیق کا مرکز عمومی طور پر وہ روایات تھی جنہیں علما نے مختلف اوقات میں اپنی تحقیقات کے ذریعے باطل قرار دے چکے تھے۔اور ان میں سے بیشتر روایات وہ تھی جن کا تعلق عقائد کے ان پہلوؤں سے تھا جس میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔
کتاب و سنت کی تعلیمات کو مختلف شبہات کے ذریعے مشکوک ثابت کرنا یہ دشمنان اسلام کا ابتدا سے ہدف رہا جس میں مستشرقین نے بہت اہم کردار ادا کیا اور مستشرقین کے اس منفی کردار میں اسلام کے نام پر کی گئی تحقیق نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا جب ان لوگوں نے اپنی کتب میں ایسے حوالے پیش کرنا شروع کیے جس میں یہ دعوی کیے گئے تھے کہ وہ امور جن کو محدثین ،مفسرین اور فقہا اسلام نے صحیح قرار دیا ہے وہ درست نہیں ہیں ۔
امور میں سب سے پہلے تفسیری روایات پر بے محابا تنقید اور کتب احادیث پر بےجا تنقید اور آئمہ اسلام پر نکتہ چینی قابل ذکر ہیں ۔
ان تمام محاولات کا مقصد یہی تھا کہ اسلام کی حقانیت کو مسخ کیا جا سکے ۔لیکن ہر دور میں ایسی اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نام پر جو تحقیقات کی گئیں ان کے بارے میں سچائی بیان کرنے کے لیے علما کی جہود و کاوشیں بھی ہمارے سامنے آتی رہی۔
اس مختصر مقال کا مقصد حبیب الرحمن کاندھلوی کو علی الاطلاق غلط یا کافر ثابت کرنا نہیں بلکہ حبیب الرحمن کاندھلوی کی تالیفات کا ایک عمومی جائزہ پیش کرنا ہے کہ ان کی علمی خدمات کا تعلق مثبت اور منفی دونوں امور سے ہے کہ جہاں انہوں نے بے شمار ضعیف داستانوں کا ضعف اردو داں طبقے کے لیے بیان کیا کہ اس سے پہلے وہ صرف عربی تک محدود تھی لیکن اس کے ساتھ اسلامی تعلیمات کےوہ مسلمات بھی ان کی تحقیق کی زد میں آگئے جو کہ کتاب وسنت سے ثابت تھے اور اس تحقیق نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ۔
زیر نظر مقال میں درج ذیل موضوعات کے تحت مطالعہ کیا جائے گا:
موضوع اول حبیب الرحمن کاندھلوی کے حالات زندگی
موضوع دوم تالیفات حبیب الرحمن کاندھلوی
موضوع ثالث تالیفات کاندھلوی اور اس کا تحقیقی جائزہ
موضوع چہارم تالیفات کاندھلوی کا ےتنقیدی جائزہ
نتیجہ بحث
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
موضوع اول حبیب الرحمن کاندھلوی کے حالات زندگی
حافظ حبیب الرحمن کاندھلوی دسمبر ۱۹۲۴م میں دلی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی جو کہ مدرسہ اشرفیہ کے کتب خانہ کے منتظم تھے۔اور کچھ عرصہ ریاست بھوپال میںمفتی اعظم کی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے خاندان میں حفظ قرآن مجید کا رجحان کثرت سے پایا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ خواتین میں بھی کافی حافظات موجود تھی ، لہذا آپ نے چھوٹی عمر یعنی ۹ سال کی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا ۔قرآن مجید کے حفظ کے بعد آپ نے عربی اور فارسی کی کتب اپنے والد سے اور مولوی ممتاز کاندھلوی سے پڑھیں۔
اور اس کے باقاعدہ تعلیم کے لیے مدرسہ فتحپوری دہلی میں داخل ہوئے اور کچھ گھریلو وجوہات کی بنا ء پر کچھ عرصے کے لیے تعلیم میں تعطل آیا اور ایک سال کے وقفہ کے بعد دہلی میں مدرسہ صدیقیہ میں ساتویں جماعت میں داخلہ لیا ۔اس مدرسہ کے سامنے نذیریہ لائبریری تھی جس میں تاریخی اور ادبی ناول اور دیگر کتب کثرت سے موجود تھی اس میں موجود تمام ناول اور اسلامی کتب کا مطالعہ آپ نے اس دوران کیا۔اس لائبریری کے مہتمم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کتب کا بہت بڑا ذخیرہ اس میں جمع تھا جس میں سیرت اور تاریخ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ سعیدیہ کے بعد دورہ حدیث مدرسہ عبد الوہاب دلی سے کیا جہاں صحاح ستہ مکمل کیں۔اور صرف و نحو پر عبور کی وجہ سے نصوص احادیث صحت کے ساتھ پڑھتے تھے۔اور آپ کا امتحان حضرت شبیر احمد عثمانی نے لیا اور فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی میں حدیث میں اتنا ہوشیار بچہ نہیں دیکھا۔
۱۹۳۳ م میں آپ مدرسہ سے فراغت پائی اور کچھ عرصہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارااور اس کے بعد ایک اہل حدیث مدرسہ میں عربی پڑھانے کے لیے تعیناتی ہوئی اس وقت آپ کی عمر صرف ۱۶ سال تھی لیکن مسلک کے اختلاف کی وجہ سے ۶ ماہ ہی جاری رکھ سکے۔
اس کے بعد مدرسہ محمودیہ چونڈیہ ضلع سیالکوٹ میں تعلیم حفظ قرآن میں ملازمت اختیار کر لی یہاں آپ نے ڈیڑھ سال تدریس کی اور پھر سیالکوٹ شہر میں کچھ عرصہ خطابت کی اور ایک ماہ بعد اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانوالہ میں تدریس شروع کی اور یہاں سے حقیقت میں آپ کی علمی اور تحقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جب اسکول کے ساتھ ہی درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیاجو کہ ۱۹۴۶ م تک جاری رہا۔اور اس دوران تقسیم ہند کے ہنگاموں میں آپ نے مسلم لیگ کے ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے بھی کام کیا اور تقسیم ہند سے کچھ ماہ قبل آپ اپنے آبائی شہر واپس آگئے۔اور وہاں سے کچھ عرصہ بھوپال میں بھی گزارا۔اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کی اور گوجرانوالہ میں دوبارہ اسی اسکول میں تدریس شروع کی جو کہ ۱۹۵۹ تک جاری رہی اور پھر آپ سندھ کے شہر ٹنڈو جام میں کچھ عرصہ رہے جہاں آپ نے احادیث اور فقہ کی کچھ کتب کا ترجمہ بھی کیا جس میں سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، موضوعات ملاعلی قاری اہم
ہیں۔اور وہاں سے کراچی منتقل ہو گئے لیکن کتب کا ترجمہ اور تالیفات جاری رہا۔جس احکام القرآن للجصاص ، کتاب الاذکار، حصن و حصین ، گلستان ، بوستان، قابل ذکر ہیں۔اور اس کے علاوہ بیشتر کتب پر انتہائی علمی مقدمات بھی تحریر کیے۔جس میں صحیح مسلم، مشکوة، تاریخ طبری بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
وفات:
حبیب الرحمن کاندھلوی نےبروز پیر ۸ اپریل ۱۹۹۱م میں کراچی میں وفات پائی۔[۱]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
موضوع دوم تالیفات حبیب الرحمن کاندھلوی
آپ کی مشہور تالیفات جو قبل ذکر ہیں درج ذیل ہیں :
۱۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت [چار جلدوں میں ہے]
۲۔ شب برات ایک تحقیقی جائزہ
۳۔ عقیدہ ظہور مہدی
۴۔ عقیدہ ایصال ثواب قرآن مجید کی نظر میں
۵۔ تحقیق عمر عائشہ
۶۔ صحابہ کرام قرآن کی نظر میں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
موضوع ثالث تالیفات کاندھلوی اور اس کا تحقیقی جائزہ
حبیب الرحمن کاندھلوی جس زمانہ میں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کر رہے تھے اس زمانہ میں مدرسہ کے سامنے نذیریہ لائبریری سے تاریخ اور سیرت کی کتب کے مطالعہ نے یہ واضح کیا کہ ان دونوں موضوعات کی کتب میں ضعیف روایات دیگر موضوعات کے مقابلے میں سب سے زائد پائی جاتی ہیں۔اور بطور خاص سیرت طیبہ سے متعلق ضعیف روایات تو عقائد میں خرابی کا بھی سبب بنتی ہیں۔جس میں سب سے اہم وجہ دین کے نام پر جو بات بھی پہنچے اس پر ایمان لے آنا ۔
حبیب الرحمن کاندھلوی کی بیشتر کتب انہی ضعیف روایات کے رد میں تحریر کی گئی ہیںکہ یہ روایات جو ہمارے خواص و عوام میں مقبول اور تقدس کا درجہ حاصل کر چکی ہیں درحقیقت ان کا نہ تو دین سے کوئی تعلق ہے اور عقل سلیم بھی اس کا انکار کرتی ہے۔
حبیب الرحمن کاندھلوی کا ان ضعیف روایات کے خلاف اس طرح تحقیق کرنا اردوزبان میں ایک نیا اضافہ تھا جبکہ
عربی زبان میں کثرت کے ساتھ کتب موجود تھی۔
اگر دیکھا جائے تو ایسی روایات کی تشہیر میں ملک کے بڑے جرائد و رسائل اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو الغرض تقریبا تمام ذرائع ابلاغ شامل ہیں ۔
لہذا حبیب الرحمن کاندھلوی کی تالیفات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے ایسی بے شمار داستانوں کا باطل ہونا ثابت کیا جو آج عام مسلمانوں کے لیے اصل دین کی حیثیت بنی ہوئی ہیں۔
جیسا کہ حبیب الرحمن کاندھلوی اپنی کتاب مذہبی داستانیں اور انکی حقیقت کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:
اس کتاب میں ہم وہ روایات اور کہانیاں پیش کرنا چاہتے ہیں جو مختلف مجوسی مؤرخوں اور داستاں سراؤں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحانہ کرام وغیرہ کے سلسلے میں وضع کیں اور بع دمیں غیر محتاط متاخرین علماء نے بغیر سوچے سمجھے انہیں اپنی کتابوں میں جگہ دی جب کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کی اکثر کتب میں ان کا وجود تک نظر نہیں آتا[۲]
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ :
ان داستانوں کو اسلام دشمن عناصر نے وضع کر کے دنیا میں اس طرح پھیلایا کہ آج ہر خاص و عام کے ذہنوں پر اس طرح مسلط ہیں کہ اصل حقیقت داستانوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے [۳]
حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی ۔سیرت اور تاریخ کی کتب میں ضعیف روایات کا وجود کے حوالے سے حافظ عراقی جو کہ حافظ ابن حجر کے استاد بھی ہیں لکھتے ہیں :
ولیعلم الطالب ان السیرا تجمع ما قد صح وما قد انکرا
کہ طالب علم کو یہ امر جان لینا چاہیے کہ سیرت کی کتب میں صحیح اور منکر ہر قسم کی روایات جمع کی جاتی ہیں۔
حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب نے اس کتاب پر جو مقدمہ تحریر کیا اس میں انہوں نے جہاں ضعیف روایات کے اسباب اور وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں انہوں نے بہت سخت زبان استعمال کی اور جرح و تعدیل کے قواعد اور ضوابط کے بالکل برعکس علماء کی تنقیض جس طرح کی وہ کسی بھی اعتبار سے قابل تعریف نہیں کہی جا سکتی ۔
مقدمہ کے دوران انہوں محدثین کے وہ عمومی اصول و ضوابط جو روایات کی تصحیح اور تضعیف کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ان کا ذکر کیا جن کا ذکر ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف المنار المنیف میں کیا۔
اس حوالے سے سب سے اہم امر جو انہوں نے بیان کیا وہ یہ ہے کہ محدثین اور مؤرخین کے مناہج میں فرق کا وجود۔
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت [جلد اول]میں جن تاریخی روایات کی تضعیف بیان کی گئیں ہیں ان کی مختصر فہرست
بطور نمونہ درج کی جا رہی ہے:
۱۔ ولادت رسول کے قصے اس موضوع کے تحت کاندھلوی صاحب نے میلاد نامہ کے حوالے سے موجود روایات کو مکمل طور پر بیان کیا
۲۔ کیا معراج ایک خواب تھا
۳۔ ہجرت مدینہ
۴۔ سید نا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بعض روایات
۵۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش
۶۔ واقعہ حواب
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ان واقعات کی تحلیل میں کاندھلوی صاحب نے سندا اور متنا یعنی علم روایت اور علم درایت دونوں طریقوں سے جانچ پڑتال کی اور ثابت کیا کہ ان واقعات کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اس تحقیقی جائزہ میں حبیب الرحمن کاندھلوی میں جس منہج کو استعمال کیا اس کی تفصیلات نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:
۱۔ واقعات کی تحلیل میں کاندھلوی صاحب علم روایت اورعلم درایت دونوں کا استعمال کیاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کی تحلیل میں ان دونوں علوم کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
۲۔ اس ضمن میں واقعات کے رواۃ پر مکمل بحث بھی بیان کی گئی یعنی اس روایت کے رواۃ پر آئمہ جرح و تعدیل کے اقوال کابطور خاص اہتمام کیا گیا ہے۔جو اس امر کی علامت ہے کہ کاندھلوی صاحب نے تحقیق میں قواعد یا ضوابط سے مکمل طور پر صرف نظر نہیں کیا بلکہ جا بجا انہیں ان سے استشھاد بھی کیا۔
۳۔ حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب ابتدائی طور پر شبلی نعمانی اور سید سلمان ندوی کی کتاب سیرت نبوی سے بہت زیادہ متاثر تھے کہ تعلیمی مراحل کی ابتداء میں آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کی لہذا وہ واقعات جن کا تعلق سیرت طیبہ سے ہے ان کی نفی اور تحقیق میں شبلی نعامی کی سیرت نبوی ایک بہت بڑا ماخذ رہا ہے۔
۴۔ ان واقعات کی تردید میں آپ نے علم درایت کا بہت زیادہ استعمال کیا بلکہ بعض مقامات پر تو درایت کو روایت پر فوقیت دی بالخصوص جہاں ان دونوں کا اختلاف محسوس ہوا۔
۵۔ حبیب الرحمن کاندھلوی کے نزدیک یہ ضعیف روایات ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام کی فکری اور معنوی عمارت میں تخریب کے لیے وضع کی گئی اور ان روایات کے پس منظر میں مجوسی عنصر اور یہود ی عنصر غالب ہے کہ ان دونوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ میدان جنگ میں تو اہل اسلام سے نہیں جیت سکتے تو انہوں نے قرون اولی میں ایسی بے شمار روایات وضع کر کر کے کتب میں داخل کرنے کی کوشش کی۔اب حقیقت تو یہ ہے کہ ان واقعات میں جو حوادث
پائے جاتے ہیں ان کا ماخذ پانچویں اور چھٹے درجے کی کتب ہیں اسی سے امر کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان واقعات کی حیثیت کیا ہے۔
۶۔ حبیب الرحمن کاندھلوی کے نزدیک مؤرخین میں سے کثیر تعداد نے واقعات نگاری میں کہیں بھی اصول و ضوابط سے کام نہ لیا بلکہ صرف نقل کرنے پر اکتفاء کیا لہذا اس عدم احتیاط کی وجہ سے ہر سنی سنائی بات کتب میں جگہ پا گئی جبکہ روایت کرنے والوں مقصد ان روایات کے بیان کرنے سے یہ ہرگز نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں بلکہ انہوں نے اپنی طرف سے علمی دیانت کے متقاضی سب روایات کو درج کر دیا۔ اس کے بالمقابل احادیث کے بیان کرنے میں اتنی زیادہ احتیاط کی گئی کہ عصر حاضر میں اصولوں اور ضوابط کی روشنی میں صحیح اور ضعیف احادیث کا فرق کر لیا گیا لیکن تاریخی واقعات ابھی تک اس توجہ سے محروم ہیں۔
۷۔ حبیب الرحمن کاندھلوی نے اپنی کتب کے ذریعے اصول تاریخ وضع کرنے کی کوشش کی جس کا تذکرہ انہوں نے مذہبی داستانیں اور انکی حقیقت کی پہلی جلد کے مقدمے میں کیا ۔گو کہ انہوں نے باقاعدہ اس نام کا ذکر نہیں کیا لیکن یہ امر واقعی ہے کہ تمام اسلامی علوم کے لیے اصول وضع کر لیے گئے ہیں جبکہ آج تک تاریخ نگاری کے اصول نہیں بنائے گئے۔یہی وجہ تھی کہ دشمنان اسلام کو تاریخ کے ذریعے یونانی فلسفہ کو داخل کرنے کا موقع مل گیاجس کی وجہ تاریخ اسلام مسلمانوں کی آپس کی خوفناک معاملات کا نام بن گئی۔
۸۔ مذہبی داستانیں اور انکی حقیقت کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر۳۰ تا ۴۰ تک مختلف علماء کی کتب سے موضوع اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول اخذ کر کے بیان کیے گئے گو کہ ان اصولوں کا تعلق احادیث سے ہے لیکن اگر ان کا اطلاق تاریخ کی کتب پر بھی کیا جائے تو بے شمار تاریخی روایات کا ضعف کھل کر سامنے آسکتا ہے ۔
۹۔ تاریخی روایات کے بیان کرنے میں حبیب الرحمن کاندھلوی کا منہج یہ ہے کہ اگر درایت کی رو سے کوئی روایت عقل سلیم کے مخالف ہو اس کی سند اور رواۃ کو صرف اتمام حجت کے لیے دیکھا جائے کیونکہ زیادہ تر اصول درایت سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
۱۰۔ حبیب الرحمن کاندھلوی کی رائے میں واقعات نگاری میں اگر مؤرخین نے ایسی ضعیف روایات کو اپنی کتب میں جگہ نہ دی ہوتی تو یہ روایات اپنی موت آپ مر جاتیں صرف ان کا معتبر کتب میں بغرض تحقیق ہی جگہ پا جانا ان روایات کی صحت کے حوالے سے دلیل بن جانا ہے کہ بے شمار مقامات پر ان واقعات کی صحت پر یہی دلیل دی جاتی ہے کہ تاریخ طبری یا فلاں کتاب میں بیان کی گئی ہے ۔
تلک عشرۃ کاملہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
موضوع چہارم تالیفات کاندھلوی کا تنقیدی جائزہ
حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب نے درحقیقت اپنی کتب میں ضعیف روایات کے رد کرنے میں جو کاوشیں کی وہ قابل قدر ضرور ہیں لیکن جب انہی کتب میں صحیح احادیث یا کتب احادیث کے حوالے سے ان کے ایسے تفردات سامنے آتے ہیں جو امت مسلمہ میں پچھلے تیرہ سو سال سے متفق علیہ چلے آ رہے ہیں تو ان کی تحقیق مشکوک ہو جاتی ہے بالخصوص جب وہ صحیحین کے خلاف گفتگو کرتے ہیں۔
جبکہ صحیحین کی صحت پر تمام علماء کا اجماع ہے جس میں صرف وہ لوگ اختلاف کرتے ہیں جو درحقیقت حجیت حدیث کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔
اگر کاندھلوی صاحب کی تالیفات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے علماء نے جن وجوہات کی بناء پر ان کی تالیفات اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا وہ اختصار کے ساتھ درج ذیل ہیں :
۱۔ ان کی تحقیق روش سلف صالحین سے ہٹ کر ہے بالخصوص اس وقت جب وہ اپنی تحقیق میں درایت پر حد درجہ زیادہ اعتماد کرتے ہیں یہ صحیح ہے کہ علم درایت حدیث کی صحت و تضعیف میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات علم درایت ہی دلیل وحید کے طور پر حدیث کی صحت یا ضعف کے لیے کارفرما ہوتا ہے لیکن روایت کی موجودگی میں صرف علم درایت کو فوقیت دینا اور اس کی بنیاد پر حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینا یہ سلف صالحین کے منھج کے خلاف ہے ۔کیونکہ ایسی کئی احادیث موجود ہیں جن کی سند ضعیف ہے لیکن ان کا متن صحیح ہے اور ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی سند صحیح ہے لیکن متن صحت کے خلاف ہے تو ایسے موقع پر قرائن اور شواہد کی مدد سے حدیث پر حکم لگایا جاتا ہے ۔جبکہ کاندھلوی صاحب کی تالیفات میں یہ جامعیت نظر نہیں آتی۔
۲۔ کاندھلوی صاحب کی تحریروں میں کثرت سے تضاد نظر آتا ہے جس سے اردو داں طبقے کے لیے ان کی تحقیق مجموعی طور پر ہی قابل اعتبار نہیں رہی مثال کے طور پر امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ذہن کسی بھی مقام پر سبائیت کو قبول نہ کر سکا [۴]
اور ایک دوسرے مقام پر دوران تحقیق صحیح بخاری کی ایک حدیث سیدہ نساء الجنۃ یا سیدۃ نساء المؤمنین کے الفاظ سے رویات بیان کرتے ہیں کہ : یہ سبائی پروپیگنڈا ہے اور یہ روایت موضوع ہے [۵]
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ : بخاری وہ کتاب ہے کہ اسناد کی عمدگی اور مضبوطی کے پہلو سے تمام امت اسے قرآن کے بعد سب سے صحیح اور مستند مانتی ہے اس میں جو روایت آ جائے اس کے خلاف روایات کے ہزار دفتر بھی نامعقول ہیں جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ بخاری کی سند کمزور اور مخالف روایت کی اسناد مضبوط ہے [۶]
اب ان تینوں میں سے کس بات کو مانا جائے اور کس کو رد کیا جائے اس کا فیصلہ کرنا قاری کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔
بالخصوص جب صحیح بخاری کی حیثیت اصح الکتاب بعد القرآن کے اعتبار سے امت مسلمہ نے ہر دور میں مانی ہو اور خود کاندھلوی صاحب بھی مانتے ہوں تو ان کے اپنے قول کی روشنی میں ان کے صحیح بخاری پر رد ود کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
۳۔ کاندھلوی صاحب نے اپنی کتابوں میں جا بجا رواۃ کے تراجم پر بحث کی ہے اور روایات کی تصحیح اور تضعیف کے حوالے سے ان رواۃ کے تراجم اسماء الرجال کی کتب سے پیش کیے لیکن بسا اوقات آپ نے اتنی فحش غلطی کی ہے کہ حیرانی ہوتی ہے جیسے مثال کے طور پر ایک راوی نضر بن محمد الیمامی کے بارے میں لکھتے ہیں :
ہم نے اس کا حال بہت تلاش کیا لیکن حافظ ذہبی کے علاوہ کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ۔
اور کچھ سطور کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر واقعۃ ثقہ تھا تو حافط ذہبی کو میزان میں اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
کیونکہ میزان میں ان رایوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں جن کو ضعیف کہا گیا ہے [ ۷]
حیرانی کی بات ہے کہ حافظ ذہبی کے علاوہ امام بخاری کی تاریخ الکبیر [ج۸،ص ۸۹]، امام مسلم نے الکنی [ ج۲،ص ۷۵۰] ، امام ابن حبان نے کتاب الثقات [ج۷، ص ۵۳۵] اور حافظ مزی نے تہذیب الکمال [ ج۱۹، صفحہ ۹۳] میں نضر بن محمد الیمامی کا ذکر تفصیل سے کیا ہے اور اس کے علاوہ ان کا ذکر اسما ء رجال کی تمام مشہور کتب میں موجود ہے ۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام کتب میں کسی نے نضر بن محمد کے بارے میں یہ نہیں لکھا کہ وہ ضعیف ہیں ۔
اور مزید حیرانی اس امر پر ہوتی ہے کہ کاندھلوی صاحب کی بات خود میزان الا عتدال کے منہج کے خلاف ہے کیونکہ میزان کے قاری اس امر کو بخوبی جانتے ہیں کہ حافظ ذہبی کا اسلوب یہ تھا کہ کسی ضعیف یا مجہول یا متکلم فیہ روای کے بعد اسی نام کے دوسرے راوی کا ذکر و تمییز کے طور پر کرتے ہیں اور وہ ثقہ ہوتا ہے ۔اور حافظ ذہبی نے نضر بن محمد کو بطور ثقہ ذکر کیا ہے کہ اس سے قبل نضر بن محمد بن تعنب کا ذکر کیا جو کہ ضعیف ہیں۔
رواۃ کے حوالے سے کاندھلوی صاحب نے فحش اغلاط کا ارتکاب کیا ہے اور ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں مثال کے طور پر سماک بن الولید ابو زمیل [ج۱، ص ۷۴] اور محمد بن بشر [ج۲ ، ص ۱۵۰] وغیرہ
۴۔ کاندھلوی صاحب نے مشہور محدثین پر جس طرح شیعیت کا الزام لگایا وہ ایک محقق کو زیب نہیں دیتا کہ بغیر کسی دلیل کے اس طرح الزامی گفتگو کریں مثال کے طور پر امام حاکم رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ، امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام عبد الرزاق رحمہ اللہ وغیرہم ایک کثیر تعداد ہے جن کے بارے میں کاندھلوی صاحب نے اتہامات کا باب بغیر کسی دلیل کے کھول دیا۔ اور ان کے نزدیک اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرات حسنین اور خانوادہ علی کی مدح پر مبنی روایات کا نقل کرنا ہی شیعہ ہونے کے لیے کافی ہے تو امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان کافی ہے :
ان کان حب اہل بیت رفض
فلیشھد الثقلان انی رافضی
۵۔ کاندھلوی صاحب کی تحقیقات سے ایک بات بطور خاص نمایاں نظر آتی ہے کہ جو روایت ان کے اپنے موقف کی تائید میں نظر آئے گی وہ اسے قبول کر لیں گے باقی سب کو رد کر لیں گے گو کہ ان کی تحریر میں رد شیعیت کا عنصر بھی نمایاں ہے لیکن جہاں انہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ مسلم محدثین کے مقابلے میں شیعہ رواۃ کی روایات کو قبول کر لیتے ہیں جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر کے حوالے سے انہوں نے مذہبی داستانوں کی جلد اول کے صفحہ نمبر ۲۸۲ تا ۲۸۷ تک لکھا ۔یہ غالبا نہیں بلکہ یقینا وہ منہج ہے جس کو کسی بھی طور پر مستحسن نہیں کہا جا سکتا ۔
۶۔ کاندھلوی صاحب اپنی کتب میں اس موقف کے بہت شدت سے قائل ہیں کہ صحیح بخاری بوقت وفات امام بخاری رحمہ اللہ نامکمل تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس میں بعد میں اضافہ کیے گئے اور وہی اضافہ صحیح بخاری پر تنقید کا سبب بنتے ہیں ۔
جبکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اظہر من الشمس ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے صحیح ترین احادیث کا مجموعہ تیار کیا اور اپنے شیوخ امام احمد ۲۴۱ھ اور امام یحیی بن معین ۲۳۳ھ اور امام علی بن المدینی ۲۳۴ھ کی خدمت میں پیش کیاجنہوں نے چار احادیث کے علاوہ باقی سب احادیث کی تحسین کی۔[ ۸]
۷۔ کاندھلوی صاحب کی دیگر تالیفات یعنی شب برات اور عمر عائشہ سے متعلق تحقیقات میں بھی اسی منہج کا استعمال کیا گیا ہے جس کے بعد کاندھلوی صاحب کے بارے میں معروف ہوگیا کہ تحقیق میں انتہا پسندی کے قائل ہیں جبکہ محقق ہمیشہ غیر جانبدار رہ کر جائزہ لیا کرتا ہے اور اس میں اس کا کام تمام نظریات اور ان کے دلائل کو مکمل طور پر پیش کرنا ہوتا ہے نہ کہ اپنی مرضی اور پسندیدہ امور کو حسب خواہش ترتیب دے دیا جائے جیسا کہ کاندھلوی صاحب نے اختیار کیا جو کسی بھی طور پر مستحسن نہیں ہے بلکہ معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
 
Top