• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردے سنتے ہیں ایک آیت کی تفسیر سے استدلال،جواب درکار ہے

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ اسکا جواب دیں ایک بھائی نے کہا کہ مردوں کو کافروں سے تشبیہ دینے کا معنی یہ ہے کہ مردہ سن کر نفع نہیں اٹھا سکتا اور کافر بھی اور دلیل کے طور پر یہ تفسیر پیش کی


امام قاضی بیضاوی رح انما لاتسمع الموتی النمل آیه 80 کی تفسیر یوں کرتے ھیں

وإنما شبهوا بالموتى لعدم انتفاعهم باستماع ما يتلى عليهم كما شبهوا بالصم في قوله: وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فإن إسماعهم في هذه الحالة أبعد. وقرأ ابن كثير وَلا يَسْمَعُ الصُّمُّ.

ان زندہ کافروں کو مردوں سے اس لیے تشبیہ دی گںُی ھے کہ وہ اس چیز کو جو ان پر پڑھی جاتی سن کر نفع حاصل نہیں کرتے ھیں جیسا کہ انکو
: وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدبرین
کے ارشاد میں بہروں سے تشبیہ دی گی ھےکیوں کہ اس حالت میں انکا سننا بعید تر ھے

@اسحاق سلفی بھائی جان جلد از جلد جواب دیں

جزاک اللہ خیراً
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
( اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ (سورہ نمل آیت ۸۰ )
(اے محبوب نبی ﷺ )
آپ نہ تو مردوں کو سنا سکتے ہیں ، اور نہ ایسے بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں ۔‘‘

اس آیت شریفہ کے معنی واضح ہیں کہ کوئی بھی مردوں کو نہیں سنا سکتا ،کیونکہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنا سکتے تو دوسرا کوئی کیسے سنا سکتا ہے ۔

مردوں کو سنانا کسی کے بس میں نہیں :
پیغمبر اکرم ﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اے پیغمبر!- مردوں کو نہیں سنا سکتے " ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے :

کہ یہاں اس آیت میں کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں کو نہیں سنا سکتے اسی طرح ان کفار کو بھی سنانا اور حق قبول کرا دینا آپ کے بس میں نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ مردے نہ سنتے ہوں ۔ ورنہ اس تشبیہ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا ۔
لہذا اہل بدعت کی یہ خوشی فہمی یا مغالطہ آفرینی پا در ہوا ہو جاتی ہے کہ اس سے سماع موتیٰ کی نفی نہیں ہوتی۔
مگر واضح رہے کہ یہاں پر{ تسمع} فرمایا گیا ہے۔ یعنی "
آپ نہیں سنا سکتے " ۔ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اگر سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قلیب بدر میں حضور کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے - اور قلیب بدر کے مردوں کو سنانا تبھی معجزہ کہلا سکتا جب عام طور پر مردے نہ سنتے ہوں ،
فلا یَقَاس علیہ و ظاہر نفی سماع الموتی العموم فلا یخصّ منہ اِلَّا ما ورد بدلیل - (المراغی : ج 20 ص 19) اور معجزہ پر عمومی حالات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
آیت کے ظاہر سے بالعموم نفی سماع موتی ثابت ہو رہی ہے ،اور اس عموم کی تخصیص سوائے نص و دلیل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک حنفی مفسر شمس پیرزادہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
۱۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں ان پر تمہاری نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات اگر چہ استعارہ کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے لیکن آیت کے الفاظ : اِنَّکَ لَا تْسْمِعُ الْمَوْتٰی
(تم مردوں کو نہیں سنا سکتے) سے ایک اہم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مردے سنتے نہیں ہیں ، اور اگر مردے سنتے ہوتے تو یہاں یہ تشبیہ موزوں نہیں ہو سکتی تھی۔ ہاں اللہ کسی شخص کو جو مر گیا ہو کچھ سنوانا چاہے تو اور بات ہے ایسی استثنائی صورتیں تو ممکن ہیں لیکن اصولی حقیقت یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں۔
رہا زیارت قبر کے موقع پر اہل قبور کو خطاب کر کے سلام و دعا کرنا تو یہ ایک مؤثر اسلوب ہے جس میں غائب کو حاضر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ زیارت کرنے والا یہ محسوس کرے کہ وہ مردوں کی دنیا میں پہنچ کر ان سے ملاقات کر رہا ہے اور یہ بات موت کو یاد دلانے والی اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی ہے چنانچہ زیارت قبر کی مسنون دعا کا آخری فقرہ : وَاِنَّا اِنْشَاءَاللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ (
اور ہم انشاء اللہ تم سے ملیں گے۔ ) یہی تاثر دیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کے انتقال پر فرمایا تھا : وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اظہار غم کا ایک اسلوب ہے اور لوگوں پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اظہار غم کا جائز طریقہ کیا ہے تاکہ وہ نوحہ اور ماتم کے طریقے اختیار نہ کریں۔(تفسیر دعوت القرآن )
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
( اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ (سورہ نمل آیت ۸۰ )
(اے محبوب نبی ﷺ )
آپ نہ تو مردوں کو سنا سکتے ہیں ، اور نہ ایسے بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں ۔‘‘

اس آیت شریفہ کے معنی واضح ہیں کہ کوئی بھی مردوں کو نہیں سنا سکتا ،کیونکہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنا سکتے تو دوسرا کوئی کیسے سنا سکتا ہے ۔

مردوں کو سنانا کسی کے بس میں نہیں :
پیغمبر اکرم ﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اے پیغمبر!- مردوں کو نہیں سنا سکتے " ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے :

کہ یہاں اس آیت میں کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں کو نہیں سنا سکتے اسی طرح ان کفار کو بھی سنانا اور حق قبول کرا دینا آپ کے بس میں نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ مردے نہ سنتے ہوں ۔ ورنہ اس تشبیہ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا ۔
لہذا اہل بدعت کی یہ خوشی فہمی یا مغالطہ آفرینی پا در ہوا ہو جاتی ہے کہ اس سے سماع موتیٰ کی نفی نہیں ہوتی۔
مگر واضح رہے کہ یہاں پر{ تسمع} فرمایا گیا ہے۔ یعنی " آپ نہیں سنا سکتے " ۔ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اگر سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قلیب بدر میں حضور کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے - اور قلیب بدر کے مردوں کو سنانا تبھی معجزہ کہلا سکتا جب عام طور پر مردے نہ سنتے ہوں ،
فلا یَقَاس علیہ و ظاہر نفی سماع الموتی العموم فلا یخصّ منہ اِلَّا ما ورد بدلیل - (المراغی : ج 20 ص 19) اور معجزہ پر عمومی حالات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
آیت کے ظاہر سے بالعموم نفی سماع موتی ثابت ہو رہی ہے ،اور اس عموم کی تخصیص سوائے نص و دلیل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک حنفی مفسر شمس پیرزادہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
۱۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں ان پر تمہاری نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات اگر چہ استعارہ کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے لیکن آیت کے الفاظ : اِنَّکَ لَا تْسْمِعُ الْمَوْتٰی (تم مردوں کو نہیں سنا سکتے) سے ایک اہم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مردے سنتے نہیں ہیں ، اور اگر مردے سنتے ہوتے تو یہاں یہ تشبیہ موزوں نہیں ہو سکتی تھی۔ ہاں اللہ کسی شخص کو جو مر گیا ہو کچھ سنوانا چاہے تو اور بات ہے ایسی استثنائی صورتیں تو ممکن ہیں لیکن اصولی حقیقت یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں۔
رہا زیارت قبر کے موقع پر اہل قبور کو خطاب کر کے سلام و دعا کرنا تو یہ ایک مؤثر اسلوب ہے جس میں غائب کو حاضر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ زیارت کرنے والا یہ محسوس کرے کہ وہ مردوں کی دنیا میں پہنچ کر ان سے ملاقات کر رہا ہے اور یہ بات موت کو یاد دلانے والی اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی ہے چنانچہ زیارت قبر کی مسنون دعا کا آخری فقرہ : وَاِنَّا اِنْشَاءَاللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ (اور ہم انشاء اللہ تم سے ملیں گے۔ ) یہی تاثر دیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچہ ابراہیم کے انتقال پر فرمایا تھا : وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اظہار غم کا ایک اسلوب ہے اور لوگوں پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اظہار غم کا جائز طریقہ کیا ہے تاکہ وہ نوحہ اور ماتم کے طریقے اختیار نہ کریں۔(تفسیر دعوت القرآن )
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بہت بہت شکریہ بھائی اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین

بھائی جان ایک بات پر اور روشنی ڈال دیں کہ سورہ انعام آیت ۳۶ کی تفسیر میں

امام عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی رح (متوفی ۶۸۵ ھ) فرماتے ہیں

وهؤلاء كالموتى الذين لا يسمعون

کہ اور وہ مردوں کے جیسے ہیں جو نہیں سنتےـ (تفسیر البیضاوی ج ۲ ص ۱۶۰)

یہاں امام بیضاوی رح نے مردوں کے سننے کی نفی کی ہے لیکن سورہ نمل آیت ۸۰ کی تفسیر میں یہ کیوں کہا کہ وہ "سن کر نفع حاصل نہیں کرتے

جب کی پہلے پہلے نفی کر چکے ہیں

اس بات پر روشنی ڈال دیں کہ یہاں

سن کرنفع حاصل نہیں کرتے

یہ بات کافروں کو کہی ہے یا مردوں کو


بھائی جان ذرا اس پر روشنی ڈال دیں

جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ اسکا جواب دیں ایک بھائی نے کہا کہ مردوں کو کافروں سے تشبیہ دینے کا معنی یہ ہے کہ مردہ سن کر نفع نہیں اٹھا سکتا اور کافر بھی اور دلیل کے طور پر یہ تفسیر پیش کی


امام قاضی بیضاوی رح انما لاتسمع الموتی النمل آیه 80 کی تفسیر یوں کرتے ھیں

وإنما شبهوا بالموتى لعدم انتفاعهم باستماع ما يتلى عليهم كما شبهوا بالصم في قوله: وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فإن إسماعهم في هذه الحالة أبعد. وقرأ ابن كثير وَلا يَسْمَعُ الصُّمُّ.

ان زندہ کافروں کو مردوں سے اس لیے تشبیہ دی گںُی ھے کہ وہ اس چیز کو جو ان پر پڑھی جاتی سن کر نفع حاصل نہیں کرتے ھیں جیسا کہ انکو
: وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدبرین
کے ارشاد میں بہروں سے تشبیہ دی گی ھےکیوں کہ اس حالت میں انکا سننا بعید تر ھے

@اسحاق سلفی بھائی جان جلد از جلد جواب دیں

جزاک اللہ خیراً
اس آیت (
اس آیت (إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ﴿٨٠کی اک تفسیر کو بنیاد بنا کر مردوں کے سننے کا نظریہ ّعجیب سا لگا ؟
اس آیت کی یہ تشبیہ کہ کافر مراد ہیں اس لئے کافر سنتے تو ہیں لیکن نفع حاصل نہیں کرت اسی طرح مردے سنتے تو ہیں لیکن نفع حاصل نہیں کر سکتے اگر اسی آیت کا اگلا حصہ ملاحظہ کر لیا جاتا تو یہ استلال ہر گز ہر گز نہ کیا جاتا ؟ اسی آیت میں دوسری تشبیہ بہروں کی دی گئی تو کیا یہاں یہ کہا جائے گا کہ بہرے سنتے تو ہیں لیکن نفع حاصل نہیں کر سکتے؟؟؟
اسی طرح یہ بات یاد رکھی جائے کہ تشبیہ دینے والی ذات رب کائنات کی ہے جو جانتا کہ مردے سنتے ہیں یا نہیں؟ بندوں کی تشبیہ میں ابہام ہوسکتا ہے خالق کائنات کی تشبیہ میں نہیں۔باقی بھائی اسحاق سلفی نے عمدہ لکھا ہے
یاد رہے مردوں کے نہ سننے پر قران مجید میں صرف یہی آیت نہیں ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائی جان ایک بات پر اور روشنی ڈال دیں کہ سورہ انعام آیت ۳۶ کی تفسیر میں
امام عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی رح (متوفی ۶۸۵ ھ) فرماتے ہیں

وهؤلاء كالموتى الذين لا يسمعون
کہ اور وہ مردوں کے جیسے ہیں جو نہیں سنتےـ (تفسیر البیضاوی ج ۲ ص ۱۶۰)
یہاں علامہ بیضاوی رحمہ اللہ نے مردوں کے سننے کی نفی کی ہے لیکن سورہ نمل آیت ۸۰ کی تفسیر میں یہ کیوں کہا کہ وہ "سن کر نفع حاصل نہیں کرتے
جب کی پہلے پہلے نفی کر چکے ہیں، اس بات پر روشنی ڈال دیں کہ یہاں
سن کرنفع حاصل نہیں کرتے
یہ بات کافروں کو کہی ہے یا مردوں کو
بھائی جان ذرا اس پر روشنی ڈال دیں
جزاک اللہ خیراً
امام عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی
سورہ انعام کی آیت (۳۶) کے تحت لکھتے ہیں ـ
إِنَّما يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (36)
إنما يجيب الذين يسمعون بفهم وتأمل لقوله: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ، وهؤلاء كالموتى الذين لا يسمعون. ‘‘
(ہدایت تو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو فہم و تلامل سے سنتے ہیں، جیسے دوسرے مقام (سورہ ق ) میں اللہ کا ارشاد ہے کہ :اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگائے ، اور وہ حاضر ہو ‘‘ اور یہ لوگ تو جیسے مردے ہیں جو سنتے نہیں ۔‘‘
یہاں بیضاوی ؒ کی مراد یہ ہے کہ جس طرح مردے اپنے اختیار اور توجہ سے نہیں سنتے اسی طرح کفار بھی اپنے اختیار اور ارادہ سے پوری توجہ کے ساتھ آواز حق نہیں سنتے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سورہ النمل کی آیہ ۸۰ ۔( إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتى )،کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتى تعليل اخر للأمر بالتوكل من حيث إنه يقطع طعمه عن مشايعتهم ومعاضدتهم رأساً، وإنما شبهوا بالموتى لعدم انتفاعهم باستماع ما يتلى عليهم ‘‘
یعنی اللہ کے اس قول کہ :۔آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ‘‘ میں توکل علی اللہ کی ایک اور وجہ بتائی کہ دین میں کفار قبول دعوت کی امید اس لئے نہ رکھی جائے
کہ وہ مردہ ہیں ، اور انہیں مردوں سے اس لئےتشبیہ دی کہ ان پر جو پڑھا جائے اسے وہ توجہ سے سن کر نفع حاصل نہیں کرتے ۔
(جیسے مردوں پر کچھ پڑھا جائے تو ارادۃً سن کر اس سے نفع حاصل نہیں کرتے )
یہاں بیضاوی نے (استماع ) کا لفظ استعمال کیا ہے ،جس کے معنی ہیں :توجہ اور ارادہ سے سننا ،
(الاستماع : هو الإصغاء إلى الكلام عن قصدٍ و إرادةٍ )
جیسے قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے :
(وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ )۔جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ ’’ سماع ‘‘ کا معنی ہے کہ ارادہ ہو یا نہ ہو کچھ سنائی دے (السماع :ہو ما لا یقصد من وقع فیہ الاصغاء )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قلیب بدر میں آنحضرت ﷺ کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے -
اور قلیب بدر کے مردوں کو سنانا تبھی معجزہ کہلا سکتا جب عام طور پر مردے نہ سنتے ہوں ،
فلا یَقَاس علیہ و ظاہر نفی سماع الموتی العموم فلا یخصّ منہ اِلَّا ما ورد بدلیل - (المراغی : ج 20 ص 19) اور معجزہ پر عمومی حالات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
آیت کے ظاہر سے بالعموم نفی سماع موتی ثابت ہو رہی ہے ،اور اس عموم کی تخصیص سوائے نص و دلیل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top