مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,426
- ری ایکشن اسکور
- 409
- پوائنٹ
- 190
تحریر: حافظ ابویحییٰ نورپوری
مردے سنتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ یہی اختلاف عقیدے کے لحاظ سے مسلمانوں کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ یہ مسئلہ ”سماع موتیٰ“ کے نام سے معروف ہے۔ ہم فہم سلف کی روشنی میں قرآن و سنت سے اس مسئلے کا حل پیش کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے تلاش حق کی غرض سے ہماری ان معروضات کو ملاحظہ فرمائیں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت تعصب کو آڑے نہ آنے دیں۔ ہمیں امید واثق، بلکہ یقین ہے کہ وہ ضرور حق کی منزل کو پا لیں گے، کیونکہ قرآن و سنت کو اگر صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے طریقے اور منہج کے مطابق سمجھا جائے تو حق تک پہنچنا سو فی صد یقینی ہو جاتا ہے۔
بطور تمہید یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دی گئی ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے، مثلاً :
➊ تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا کلی قاعدہ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى [49-الحجرات:13]
”اے لوگو ! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔“
٭ جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔
اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے، البتہ یہ کہہ جا سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
➋ مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [5-المائدة:3]
٭ جبکہ اس سے جراد (ٹڈی نام کا ایک پرندہ) اور حوت (مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 384/1، و سندهٔ صحيح]
ان دو قسم کے مرداروں کے حلال ہونے سے ہر مردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”مردار حلال ہے، لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا“۔ مردار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کلی ہی ہے۔
➌ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مردوں پر ریشم پہننا حرام کر دیا گیا ہے۔ فرمان نبوی ہے :
الحرير والذهب حرام على ذكور أمتي، حل لإناثهم
”ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“ [ شرح مشكل الآثار للطحاوي : 308/12، ح : 4821، و سندهٔ حسن]
جبکہ تین، چار انگلیوں کے برابر استعمال کر لینا جائز ہے۔ [ صحيح مسلم : 2069]
٭ شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔ کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے لیکن ایک خاص مقدار میں۔“
یہ سب مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناءات رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانون شریعت کی کلی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔ بالکل یہی حال مسئلہ سماع موتی کا ہے۔ مردے نہیں سنتے، البتہ قرآن و سنت کے بیان کرده خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ مردے سنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا سے کہ ”مردے سنتے ہیں، لیکن ان حالات و واقعات میں جن کی صراحت نصوص شرعیہ نے کر دی ہے۔“
لہٰذا مطلق طور پر مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت نے مردوں کے سننے کے مطلق نفی کی ہے۔ یہی کلی قانون ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
عدم سماع موتی کے دلائل
دليل نمبر ①
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ [6-الأنعام:36]
”جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے“
◈ سنی مفسر ابوجعفر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) فرماتے ہیں:
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ، يقول : الكفار يبعثهم الله مع الموتى، فجعلهم تعالى ذكره في عداد المؤتى الذين لا يسمعون صوتا، ولا يعقلون دعاء، ولا يفقهون قولا.
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ”اور مردوں کو تو اللہ تعالی (روز قیامت) زندہ کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔“ [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبري : 855/4]
دلیل نمبر ②
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [27-النمل:80]
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔“
٭جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب (1244-1323ھ) لکھتے ہیں:
واستدل المنكرون (لسماع الموتى)، ومنهم عائشة وابن عباس، ومنهم الإمام (أبو حنيفة)، بقوله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ، فإنه لما شبه الكفار بالأموات في عدم سماع،
علم أن الأموات لا يسمعون والا لم یصح التشبیهٔ
”جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ”(اے نبی !) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔“ [الكوكب الدري، ص: 319، ط الحجرية، 197/2، ط الجديدة]
٭اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مرد ے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
دلیل نمبر ③ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
◈ مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی (م:792 ھ) لکھتے ہیں:
واما قوله تعالى : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ، فتمثل بحال الكفرة بحال المؤتى، ولا نزاع فى أن الميت لا يسمع.
”اپنے اس فرمان گرامی ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے“ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔“ [شرح المقاصد فى علم الكلام : 116/5]
٭ شارح ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (م:861ھ) ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإنهما يفيدان تحقيق عدم سماعهم، فإنه تعالى شبه الكفار بالمؤتى لإفادة تعذر سماعهم، وهو فرع عدم سماع الموتى.
”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]
فائدہ: بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لئے پکارتے ہیں اور غیب سے ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ مردے تو قریب سے بھی سن نہیں سکتے، ہزاروں میل دور سے کیسے سنیں گے؟ قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ
”اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“
نیز فرمان باری تعالی ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ [46-الأحقاف:5]
”اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔“
٭معلوم ہوا کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ اس کلی قائدہ کا انکاری اہل حق نہیں، بلکہ گمراہ شخص ہے۔
استثناءت جو شرعی نصوص سے ثابت ہیں
اس کلی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناءت رکھ دی ہیں۔ ان میں کچھ استثناءت یہ ہیں:
استثناء نمبر ①
مردے کا جوتوں کی آواز سننا :
① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔؟“ [ صحيح البخاري : 78/1، ح: 1338، صحيح مسلم :379/2، ح : 7216]
٭صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع خفق نعالهم إذا انصرفوا
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔“ [ صحيح مسلم : ح : 7217]
٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الميت اذا وضع في قبره انه لسمع خفق نعالهم حين يولون عنه
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔“
[ مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الأثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني :2651، المستدرك على الصحيحين للحاكم :380/1-381، و سندهٔ حسن]
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113) نے اس حدیث کو’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔
٭ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [ مجمع الزوائد: 51/3-52]
٭ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو حين يولون عنهٔ (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور إِذا انصرفوا ، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
٭ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز ستنی ہے۔“ [ شرح أبى داؤد :188/6]
٭ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی ليسمع وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
٭ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو :
٭ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
والذي نفسي بيده ! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [ شرح معاني الاثار للطحاوي :510/1، وسنده حسن]
◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ )اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.
”اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔“ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة : 1147]
٭ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.
”مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 289/1]
استثناء نمبر ②
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:
٭ بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان، ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله، فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا ہوتا دیکھ لیا ؟‘‘
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها ”اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟“
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده، ما انتم باسمع لما اقول منهم ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں، اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔“ [صحيح البخاري :566/2، ح : 3976، صحيح مسلم: 387/2، ح: 2874]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کر تے ہیں:
اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على اهل القليب، فقال: وجدتم ما وعد ربكم حقا، فقيل له: تدعو امواتا، فقال: ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ صحيح البخاري : 183/1، ح : 1370]
اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ صحیح بخاری [ 567/2، :3981-3980] میں ہے:
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مرد ے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا : الآن یعنی اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال (أبو عبدالله محمد بن على – 453-536هـ -) المازري : قال بعض الناس : الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.
”علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔“ [ شرح صحيح مسلم : 387/2 ]
٭ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب
”نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 286/3، ح : 1148]
فائدہ : مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ ) فرماتے ہیں :
أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .
”اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔“ [ مسند الإمام أحمد : 459/19، ح : 12417، صحيح البخاري : 3976 ]
٭ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م : 449 ھ) فرماتے ہیں :
وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.
”امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔“ [ شرح صحيح البخاري : 358/3 ]
٭ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ ”نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔“ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔
◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م : 611 ھ) فرماتے ہیں :
ان الموتي لا يسمعون بلا شك . ”یقینا مردے نہیں سنتے۔ ” [ فتح الباري لابن حجر : 235/3]
◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م : 435 ھ) فرماتے ہیں :
لا يسمعون، كما قال تعالى : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ [27-النمل:80] ، ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
”مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ (اے نبی !) ”یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ نیز فرمایا : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”(اے نبی !) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔“ [ شرح صحيح البخاري لابن بطال : 320/3]
٭ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین !
قائلین سماع موتی کے شبہات اور ان کا ازالہ
جو لوگ سماع موتیٰ کے قائل ہیں، وہ دلائل کی دنیا میں نادار اور فقیر ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں، شبہات ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مردوں کے سننے کے قائل ہیں۔ آئیے قرآن و سنت اور آثار سلف کی روشنی میں ان شبہات کا ازالہ کرتے ہیں :
شبہ نمبر ①
تفسیر ابن کثیر کی ایک الحاقی عبارت
وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔“ [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]
٭تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أ یعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔
شبہ نمبر ②
قبرستان میں سلام کہنے والی دلیل :
بعض لوگوں نے سلام والی حدیث سے سماعِ موتی کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔ ان کے ہاتھ ’’ ضعیف“ روایات لگ گئی ہیں۔ انہی کی بنیاد پر یہ کچھ ثابت کیا گیا ہے۔ جبکہ کسی صحیح حدیث میں مردوں کے سلام سننے کا ذکر تک نہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب (1248-1297ھ) کہتے ہیں :
’’ اپنے خیالِ نارسا کے موافق سمع اصوات، حد اسماع سے تو پرے ہے۔ پر اسمتاعِ اصوات ممکن ہے۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو انك لا تسمع الموتي فرمایا اور نبی علیہ السلام نے باوجود اس کے، سلام اہل قبور مسنون کر دیا۔ اگر اسمتاع ممکن نہیں تو یہ بے ہودہ حرکت، یعنی سلام اہل قبور، ملحدوں کی زبان درازی کے لیے کافی ہے۔“ [جمال قاسمی : ص 9]
٭ یہ کوئی علمی بات ہے ؟ جب دلائل نہ ہوں تو اسی طرح کے ’’تیر تکے“ لگائے جاتے ہیں اور وحی کے مقابلے میں عقلی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ یہ بات ہر ادنیٰ شعور رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سلام دعا ہے۔ اور جب میت کو سلام کہا جاتا ہے تو صرف بطور دعا کہا جاتا ہے، ان کو سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ :
اني اعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع
’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔“ [ صحيح البخاري : 1597، صحيح مسلم : 1270]
یہاں بھی حجر اسود کو سنانا مقصود نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ میں حجر اسود کو صرف سنت نبوی کی پیروی میں چومتا ہوں۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو سنانے کے لیے یہ بات کہی تھی۔ معلوم ہوا کہ بسااوقات خطاب سنانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی عقلی میدان میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حجر اسود، جو کہ جماد اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہے، کو خطاب کرنا (معاذاللہ ! ) ایک بے ہودہ حرکت تھی ؟
◈ عالم عرب کے مشہور عالم، شیخ محمد بن صالح عثیمیں رحمہ اللہ (م :1421 ھ) فرماتے ہیں :
فإنه لا يلزم من السلام عليهم أن يسمعوا، ولهذا كان المسلمون يسلمون على النبى فى حياته فى التشهد، وهو لا يسمعهم قطعا.
’’ مردوں کو سلام کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اسے سنتے ہیں۔ مسلمان (خصوصاً صحابہ کرام ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشہد پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً نہیں سنتے تھے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 288/1]
شیخ رحمہ اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کا تشہد میں پڑھا گیا سلام السلام عليك ايها النبي (اے نبی ! آپ پر سلام ہو) سنتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب صحابہ کی ہر وقت خبر رہنی چاہیے تھی، کیونکہ سارے صحابہ کرام پانچ وقت کے نمازی تھے۔ جبکہ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرام کے بارے میں دریافت کرنا پڑا کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں ؟
مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت (یا مرد) جو مسجد کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی، فوت ہو گئی۔ صحابہ کرام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اسے دفنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مسجد میں نہ آنے پر اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ وہ تو کئی دن پہلے فوت ہو چکی ہے۔ [ انظر صحيح البخاري : 460، صحيح مسلم : 956، وغيرهما من الكتب الحديثية]
٭ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کا نماز میں پڑھا گیا سلام سنتے تھے تو اس عورت کے فوت ہونے کے بعد جو پہلی نماز کا وقت آیا تھا، اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو جانی چاہیے تھی کہ مسجد میں صفائی کرنے والی عورت نے نہ نماز پڑھی ہے، نہ سلام کہا ہے۔ ایسا کچھ نہ ہونا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا کئی دن بعد صحابہ کرام سے علم ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر سلام کا سنا جانا ضروری نہیں۔
٭یہی معاملہ مردوں کو سلام کہنے کا ہے۔ ان کو بھی صرف دعا دینا مقصود ہوتا ہے، نہ کہ سنانا۔ کسی صحیح حدیث سے مردوں کا سلام سننا ثابت نہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ اگر مردے سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ کسی نے آج تک مردوں کی طرف سے جواب تو نہیں سنا، نہ کسی سماعِ موتیٰ کے قائل نے مردوں کے جواب دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جب بعض الناس کے نزدیک مردے سنتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں تو خود سلام کیوں نہیں کہہ دیتے ؟
معلوم ہوا کہ قبرستان میں کہا جانے والا سلام، سلامِ خطاب نہیں، سلام دعا ہے اور دعا کا سنانا مقصود نہیں ہوتا۔
٭ شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
واستدل جماعة منهم عبد الحق على حصول الاستماع من الميت بمشروعية السلام على المؤتى، فقالوا: لو لم يسمعوا السلام لكان خطابهم به عبثا، وهو بحث ضعيف، لانه يحتمل خلاف ذلك، فقد ثبت فى التشهد مخاطبة النبى صلى الله عليه وسلم، فهو لا يسمع جميع ذلك قطعا، فخطاب المؤتى بالسلام فى قول الذى يدخل المقبرة : السلام عليكم اهل القبور من المومنين، لا يستلزم انهم يسمعون ذلك، بل هو بمعنى الدعاء، فالتقدير : اللهم اجعل (السلام عليكم) كما تقدر فى قولنا : الصلاة والسلام عليك يا رسول الله، فإن المغنى : اللهم اجعل الصلاة والسلام على رسول الله، فقد ثبت فى الحديث الضحيح فى أن العبد إذا قال : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أصاب كل عبد صالح، فهو خبر بمعني الطلب، فالتقدير: اللهم سلم عليهم، والله اعلم
’’ ایک جماعت، جن میں عبدالحق (اشبیلی) بھی شامل ہیں، نے مردوں کو سلام کہنے کی مشروعیت سے سماع موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مردے سلام نہیں سنتے تو ان کو مخاطب کرنا فضول ہے۔۔۔ لیکن یہ کمزور موقف ہے، کیونکہ مردوں کو سلام کہنے میں اس (خطاب )کے برعکس اور احتمال بھی ہے۔ وہ یہ کہ تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے سلام کہنا ثابت ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں سب لوگوں کی طرف سے کہے گئے سلام قطعاً نہیں سنتے۔ اسی طرح قبرستان میں داخل ہونے والے شخص کا مؤمن مردوں کو سلام کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ ! ان پر سلامتی نازل فرما، جیسا کہ الصلاة والسلام عليك يا رسول الله! کا مطلب ہے کہ ”اے اللہ ! تو اپنے رسول پر رحمت اور سلامتی نازل فرما“۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ جب بندہ تشہد میں کہتا ہے کہ السلام علينا وعلي عباد الله الصالحين ”ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی“ تو ہر نیک شخص تک یہ دعا پہنچ جاتی ہے۔ یوں یہ خبر بمعنی انشاء ہوئی۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ اے اللہ ! تو تمام نیک لوگوں پر سلامتی نازل فرما۔ والله اعلم ! [ الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع لابن حجر، ص: 86]
شبہ نمبر ③
ایک بے سند روایت :
وروى أبو الشيخ الأصبهاني فى كتاب (أثواب الأعمال) بإسناده عن عبيد بن أبى مرزوق، قال : ماتت بالمدينة امرأة يقال لها : ام محجن، تقم المسجد، فماتت، فلم يعلم بها النبى صلى الله عليه وسلم، فمر على قبرها، فقال : ”ما هذا القير؟“، قالوا: أم محجن، فقال: التي كانت تقم المسجد؟، قالوا: نعم، فصف الناس، وصلى عليها، ثم قال : أی العمل و جدت أفضل؟، قالوا : يا رسول الله ! أتسمع ؟ قال : ”ما أنتم باسمع منھا“ فذکر انھا اجابتہ : قم المسجد . [ الترغيب والترهيب للمنذري : 122/1، ح : 428، فتح الباري لابن رجب : 352/2]
تبصرہ: اس کی مکمل سند نہیں مل سکی۔
بے سند روایات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جو ناقص سند موجود ہے، اس میں بھی عبید بن ابومرزوق ’’ مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان کے [الثقات :157/7] کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام بخاری [التاريخ الكبير : 5/6 رقم 1496] ، امام ابو حاتم الرازی [ الجرح والتعديل : 13/6] اور دیگر نے اسے ’’ مرسل“ کہا ہے۔ محدثین کے نزدیک ’’ مرسل“ روایت ’’ ضعیف“ ہوتی ہے۔
شبہ نمبر ④
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله ! إن أبى كان يصل الرحم، وكان وكان، فأين هو، قال: ”في النار“، قال: فكانهٔ وجد من ذلك، فقال : يا رسول الله ! فأين أبوك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”حيثما مررت بقبر مشرك، فبشرهٔ بالنار“، قال : فأسلم الأعرابي بعد، وقال : لقد كلفني رسول الله صلى الله عليه وسلم تعبا، ما مررت بقبر كافر الا بشرته بالنار.
’’ ایک دیہاتی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : اللہ کے رسول ! میرا والد صلہ رحمی اور بہت سے نیک کام کرتا تھا۔ وہ کہاں ہے ؟ فرمایا : جہنم میں۔ اسے یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آپ کے والد کہاں ہیں ؟ فرمایا : جب بھی تو کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرے تو اسے جہنم کی بشارت دے۔ وہ دیہاتی بعد میں مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول نے مجھے مشقت والے کام میں مصروف کیا ہے۔ میں جب بھی کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔“ [سنن ابن ماجه : 1573]
تبصرہ: اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے۔
امام زہری ’’ مدلس“ ہیں اور بصیغہ ’’ عن“ روایت کر رہے ہیں۔ کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں ملی۔
البتہ اسی معنی کی ایک روایت صحیح مسلم (203) میں بھی موجود ہے، لیکن اس روایت میں دیہاتی کو ہرمشرک کی قبر سے گزرتے ہوئے اسے جہنم کی بشارت دینے کا حکم مذکور نہیں۔
شبہ نمبر ⑤
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بقیع غرقد کے پاس سے گزرے اور فرمایا :
السلام عليكم يا أهل القبور !! أخبار ما عندنا أن نسائكم قد تزوجن، ودوركم قد سكنت، وأموالكل قد فرقت، فاجابه هاتف : يا عمر بن الخطاب ! أخبار ما عندنا أن ما قدمناه، فقد وجدناه، وما أنفقناه، فقد ربحناه، وما خلفناه، فقد خسرناه.
’’ قبروں والو ! تم پر سلامتی ہو۔ ہمارے پاس جو خبریں ہیں، وہ یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے آگے نکاح کر لیے ہیں، تمہارے گھروں میں غیروں نے سکونت اختیار کر لی ہے اور تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ ایک غیبی آواز نے جواب دیا : ہمارے پاس یہ خبر ہے کہ جو مال ہم نے آگے بھیجا تھا، وہ ہمیں مل گیا، جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوا اور جو ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ نقصان دہ ثابت ہوا۔“ [ الهواتف لابن أبى الدنيا: 100]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① مطہر بن نعمان راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
② محمد بن جبیر کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايصح سماعه عن عمر بن الخطاب، فإن الدارقطني [العلل :174/1] نص على أن حديثه عن عثمان مرسل
’’ اس کا سماع سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ امام دارقطنی نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث مرسل ہوتی ہے۔“ [ تهذيب التهذيب : 92/9 ]
جب محمد بن جبیر کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ممکن ہے ؟
ہم حیران ہیں کہ بعض لوگ ایسا خام مال اپنی کتابوں میں کیوں لوڈ کرتے ہیں ؟
شبہ نمبر ⑥
سیدنا ابوعبداللہ، سیدان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
أشرف النبى صلى اللہ عليه وسلم على أهل القليب 0 فقال : ”يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟“، فقالوا: يا رسول الله ! وهل يسمعون ؟ قال: ”يسمعون كما تسمعون، ولكن لا يجيبون“ .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پڑے مقتولیں کفار کی طرف جھانکا اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا ؟ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! کیا یہ سنتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ بالکل تمہاری طرح سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ المعجم الكبير للطبراني : 165/7، اح : 6715، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 444/3، ح:3665 ]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① امام طبرانی کا استاذ عبدالوارث بن ابراہیم، ابوعبیدہ عسکری ’’ مجہول الحال“ ہے۔
اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم اعرفه [ مجمع الزوائد : 212/5 ]
② یونس بن موسیٰ شامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
③ حسین بن حماد کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
④ عبیداللہ بن غسیل راوی کون ہے، تعارف کرایا جائے۔
٭ اس سند میں نامعلوم افراد نے قبضہ جما رکھا ہے۔ لہٰذا یہ ناقابل اعتبار ہے۔
شبہ نمبر ⑦
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أهل القليب، فقال: يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟، فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا، قالوا: يا رسول الله ! هل يسمعون ؟ قال : ما أنتم باسمع لما اقول، منهم ولكنهم اليوم لا يجيبون
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کفار کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا ؟ میں نے اپنے رب کے وعدے کو بالکل سچا پایا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ سن رہے ہیں ؟ فرمایا تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ لیکن آج یہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔“ [السنة لابن أبى عاصم : 884، وفي نسخة أخرى :، 910، المعجم الكبير للطبراني : 10320 : 160/10]
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس میں :
① اشعث بن سوار راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ تقریب التہذیب : 524 ]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه أحمد وجماعة. ”اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ائمہ کرام کے ایک گروہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ مجمع الزوائد : 240/2 ]
٭ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
فالاكثر على انه غير مرضي ولا مختار
”اکثر محدثین کرام اسے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ ہی سمجھتے ہیں۔“ [ البدر المنير : 731/5 ]
② اس میں ابواسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ اور اختلاط بھی ہے۔
من حديث أبى العباس الاصم (84) کی سند میں ابان بن ابوعیاش راوی ”متروک“ ہے۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
فانهٔ ضعيف باتفاق . ”یہ راوی باتفاق محدثین ضعیف ہے۔“ [ فتح الباري : 239/9 ]
٭ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ السنة لابن أبى عاصم کے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
لكن ليس فيها أن المؤتى عامة يسمعون، وإنما فيها أن أهل القليب سمعوا قوله صلى الله عليه وسلم إياهم، فهي قضية خاصة، لا عموم لھا . . . .، ويؤيده قول قتادة المتقدم : أحياھم الله له، فالقضية خاصة، فلا يجوز أن يلحق بها غيرها، فيقال : إن المؤتى كلهم يسمعون، كما يقول كثير من الناس اليوم !
”لیکن اس حدیث سے تمام مردوں کا (ہر بات کو) سننا ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں تو صرف یہ مذکور ہے کہ کنویں والے مقتولین نے وہ بات سنی تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمائی تھی۔ یہ ایک خاص واقعہ ہے جو عموم کا متحمل نہیں۔۔۔ اس بات کی تائید امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سننے کے لئے زندہ کر دیا تھا۔۔۔ یوں یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اسے عمومی رنگ دے کر یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام مردے سنتے ہیں، جیسا کہ موجود دور میں اکثر لوگوں کا عقیدہ ہے۔“ [ ظلال الجنة فى تخريج السنة : 428/2 ]
شبہ نمبر ⑧
سعید بن مسیب تابعی بیان کرتے ہیں :
دخلنا مقابر المدينة مع على بن أبى طالب، فنادي يا أهل القبور ! السلام عليكم ورحمة الله، تخبرونا باخباركم، ام تريدون ان نخبركم ؟ قال : فسمعت صوتا ؛ وعليك السلام ورحمة الله وبركاته، يا أمير المؤمنين ! خبرنا عما كان بعدنا، فقال على رضى الله عنه : أما ازواجكم، فقد تزوجن، و اما اموالكم، فقد اقتسمت، و الاولاد قد حشروا فى زمرة اليتامى، والبناء الذى شيدتم فقد سكنها اعدائكم فهده اخباركم عندنا، فما اخبارنا عندكم؟ فما عندكم؟ فاجابه ميت: قد تخرقت الأكفان، وانتثرت الشعور، وتقطعت الجلود، وسالت الأحداق على الخدود، وسالت المناخر بالقيح والصديد، وما قدمناه وجدناه، وما خلفناه خسرناه، ونخن مرتهنون بالأعمال.
”ہم سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں داخل ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: قبروں والو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ تم ہمیں اپنے احوال سناؤ گے یا ہم سے سننا چاہتے ہو۔ میں (سعید بن مسیب) نے یہ آواز سنی : امیر المؤمنین ! وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ آپ ہمارے بعد ہونے والے واقعات ہمیں بتائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہاری بیویوں نے آگے شادیاں کر لی ہیں، تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں، تمہاری اولادیں یتیوں میں شمار ہونے لگی ہیں اور جو مکان تم نے بنائے تھے، ان میں تمہارے دشمنوں نے رہائش اختیار کر لی ہے۔ ہمارے پاس تمہاری یہی خبریں تھیں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا خبریں ہیں ؟ ایک میت نے جواب دیا : ہمارے کفن بوسیدہ ہو گئے ہیں، بال بکھر گئے ہیں، جلدیں پھٹ گئی ہیں، رونے کی وجہ سے آنکھوں کی سیاہی رخساروں پر بہہ چکی ہے، ناک سے کچ لہو اور پیپ کے فوارے نکل رہے ہیں۔ جو چیز یں ہم نے آگے ( اللہ کی راہ میں) بھیج دی تھیں، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوئیں اور جن کو ہم (وارثوں کے لیے ) پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ ہم اپنے اعمال کے بدلے میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
تبصرہ : یہ سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ عبداللہ بن حسن بن عبدالرحمن، ابوالقاسم بزاز کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ اس سند میں کئی اور راوی بھی ’’ مجہول“ ہیں، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في إسناده قبل ابي زيد النحوي من يجهل .
”اس روایت کی سند میں ابوزید نحوی سے پہلے مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
٭ حافظ سیوطی اس روایت کے بارے کہتے ہیں :
بسند فيه من يجهل
”یہ ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ الخصائص الكبرى : 113/2 ]
➌ سفیان بن عیینہ ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔
لہذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہو سکتی۔
شبہ نمبر ⑨
عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ :
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . .
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . .
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔
شبہ نمبر ⑩
حدثنا أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني : ثنا محمد بن ابراهيم بن العلاء الحمصي : ثنا اسماعيل بن عياش : ثنا عبدالله بن محمد القرشي، عن يحيي بن ابي كثير عن سعيد بن عبد الله الأودي، قال : شهدت أبا أمامة، وهو فى النزاع، فقال : إذا أنا مت، فاصنعوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصنع بموتانا، أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال : إذا مات أحد من اخوانكم، فسويتم التراب على قبره، فليقم احدكم على راس قبره، ثم ليقل : يا فلان بن فلانة ! فإنه يسمعه، ولا يجيب، ثم يقول : يا فلان بن فلانة، فإنه يستوي قاعدا، ثم يقول : يا فلان بن فلانة ! فإنه يقول : ارشدنا رحمك الله، ولكن لا تشعرون، فليقل : اذكر ما خرجت عليه من الدنيا؛ شهادة أن لا اله الا الله وان محمدا عبده ورسوله، وانك رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، وبالقران اماما، فان منكرا ونكيرا ياخذ واحد منهما بيد صاحبه، ويقول : انطلق بنا، ما نقعد عند من قد لقن حجته، فيكون الله حجيجه دونهما، فقال رجل : يا رسول الله ! فإن لم يعرف أمه؟ قال : فينسبهٔ إلى حواء ؛ يا فلان بن حواء
سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔ وہ فرمانے لگے : جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا، جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا، مردہ یہ بات سنے گا، لیکن جواب نہیں دے گا۔ پھر وہ کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! وہ کہے گا : اللہ تجھ پر رحم کرے ! ہماری رہنمائی کر، لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر، جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بند ے اور رسول ہیں۔ تو اللہ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ منکر اور نکیر میں سے ایک، دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے : چلو، جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے۔ چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اگر وہ (تلقین کرنے والا ! ) اس (مرنے والے ) کی ماں کو نہ جانتا ہو تو ( کیا کرے ) ؟ فرمایا : وہ اسے حواء علیہا السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے !“ [ المعجم الكبير للطبراني : 250/8، ح : 7979، الدعاء للطبراني : 298/3، ح : 1214 وصايا العلماء عند حضور الموت لابن زبر، ص : 46-47، الشافي لعبد العزيز، نقلا عن التلخيص الحبير لابن حجر : 136/2، اتباع الأموات للامام إبراهيم الحربي، نقلا عن المقاصد الحسنة للسخاوي : 265، الأحكام للضياء المقدسي، نقلا عن المقاصد الحسنة : 265 ]
تبصرہ : یہ سند بوجوہ سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے بیان کردہ روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
مذکورہ روایت بھی اہل حجاز سے ہے، لہذا ”ضعیف“ ہے۔
٭ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) فرماتے ہیں :
وإسماعيل بن عياش (عندهم) أيضا غير مقبول الحديث، إذا حدث عن غير أهل بلده، فإذا حدث عن الشاميين، فحديثة مستقيم، وإذا حدث عن المدنيين وغيرهم، ما عدا الشاميين، ففي حديثه خطا كثير واضطراب، ولا أعلم بينهم خلافا أنه ليس بشيء فيما روى عن غير أهل بلدہ.
”اسماعیل بن عیاش جب اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی اور سے بیان کرے، تو محدثین کے ہاں اس کی حدیث بھی قبول نہیں ہوتی۔ جب وہ شامی لوگوں سے بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔ جب شامیوں کے علاوہ مدنیوں اور دیگر علاقے والوں سے بیان کرے تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطی اور اضطراب ہوتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق محدثین کرام کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب اسماعیل بن عیاش اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی سے بیان کرے تو اس کی حدیث قابل التفات نہیں ہوتی۔“ [ التمهيد لما فى المؤطأ من المعاني والاسانيد : 429/6 ]
٭ امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (م : 277 ھ) فرماتے ہیں :
وتكلم قوم فى إسماعيل، وإسماعيل ثقة، عدل، أعلم الناس بحديث الشام، ولا يدفعه دافع، وأكثر ما تكلموا، قالوا : يغرب عن ثقات المدنيين والمكيين .
”کچھ اہل علم نے اسماعیل بن عیاش پر جرح کی ہے۔ اسماعیل ثقہ اور عدل ہیں، شام کی حدیث کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کوئی بھی ان کو رد نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ اور مکہ کے رہنے والے ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتے ہیں۔“ [ المعرفة والتاريخ : 424/2 ]
مردے سنتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ یہی اختلاف عقیدے کے لحاظ سے مسلمانوں کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ یہ مسئلہ ”سماع موتیٰ“ کے نام سے معروف ہے۔ ہم فہم سلف کی روشنی میں قرآن و سنت سے اس مسئلے کا حل پیش کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے تلاش حق کی غرض سے ہماری ان معروضات کو ملاحظہ فرمائیں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت تعصب کو آڑے نہ آنے دیں۔ ہمیں امید واثق، بلکہ یقین ہے کہ وہ ضرور حق کی منزل کو پا لیں گے، کیونکہ قرآن و سنت کو اگر صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے طریقے اور منہج کے مطابق سمجھا جائے تو حق تک پہنچنا سو فی صد یقینی ہو جاتا ہے۔
بطور تمہید یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دی گئی ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے، مثلاً :
➊ تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا کلی قاعدہ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى [49-الحجرات:13]
”اے لوگو ! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔“
٭ جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔
اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے، البتہ یہ کہہ جا سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
➋ مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [5-المائدة:3]
٭ جبکہ اس سے جراد (ٹڈی نام کا ایک پرندہ) اور حوت (مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 384/1، و سندهٔ صحيح]
➌ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مردوں پر ریشم پہننا حرام کر دیا گیا ہے۔ فرمان نبوی ہے :
الحرير والذهب حرام على ذكور أمتي، حل لإناثهم
”ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“ [ شرح مشكل الآثار للطحاوي : 308/12، ح : 4821، و سندهٔ حسن]
جبکہ تین، چار انگلیوں کے برابر استعمال کر لینا جائز ہے۔ [ صحيح مسلم : 2069]
٭ شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔ کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے لیکن ایک خاص مقدار میں۔“
یہ سب مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناءات رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانون شریعت کی کلی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔ بالکل یہی حال مسئلہ سماع موتی کا ہے۔ مردے نہیں سنتے، البتہ قرآن و سنت کے بیان کرده خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ مردے سنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا سے کہ ”مردے سنتے ہیں، لیکن ان حالات و واقعات میں جن کی صراحت نصوص شرعیہ نے کر دی ہے۔“
لہٰذا مطلق طور پر مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت نے مردوں کے سننے کے مطلق نفی کی ہے۔ یہی کلی قانون ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
عدم سماع موتی کے دلائل
دليل نمبر ①
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ [6-الأنعام:36]
”جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے“
◈ سنی مفسر ابوجعفر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) فرماتے ہیں:
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ، يقول : الكفار يبعثهم الله مع الموتى، فجعلهم تعالى ذكره في عداد المؤتى الذين لا يسمعون صوتا، ولا يعقلون دعاء، ولا يفقهون قولا.
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ”اور مردوں کو تو اللہ تعالی (روز قیامت) زندہ کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔“ [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبري : 855/4]
دلیل نمبر ②
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [27-النمل:80]
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔“
٭جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب (1244-1323ھ) لکھتے ہیں:
واستدل المنكرون (لسماع الموتى)، ومنهم عائشة وابن عباس، ومنهم الإمام (أبو حنيفة)، بقوله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ، فإنه لما شبه الكفار بالأموات في عدم سماع،
علم أن الأموات لا يسمعون والا لم یصح التشبیهٔ
”جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ”(اے نبی !) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔“ [الكوكب الدري، ص: 319، ط الحجرية، 197/2، ط الجديدة]
٭اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مرد ے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
دلیل نمبر ③ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
◈ مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی (م:792 ھ) لکھتے ہیں:
واما قوله تعالى : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ، فتمثل بحال الكفرة بحال المؤتى، ولا نزاع فى أن الميت لا يسمع.
”اپنے اس فرمان گرامی ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے“ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔“ [شرح المقاصد فى علم الكلام : 116/5]
٭ شارح ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (م:861ھ) ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإنهما يفيدان تحقيق عدم سماعهم، فإنه تعالى شبه الكفار بالمؤتى لإفادة تعذر سماعهم، وهو فرع عدم سماع الموتى.
”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]
فائدہ: بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لئے پکارتے ہیں اور غیب سے ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ مردے تو قریب سے بھی سن نہیں سکتے، ہزاروں میل دور سے کیسے سنیں گے؟ قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ
٭
إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (35-فاطر:14، 13)”اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“
نیز فرمان باری تعالی ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ [46-الأحقاف:5]
”اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔“
٭معلوم ہوا کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ اس کلی قائدہ کا انکاری اہل حق نہیں، بلکہ گمراہ شخص ہے۔
استثناءت جو شرعی نصوص سے ثابت ہیں
اس کلی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناءت رکھ دی ہیں۔ ان میں کچھ استثناءت یہ ہیں:
استثناء نمبر ①
مردے کا جوتوں کی آواز سننا :
① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔؟“ [ صحيح البخاري : 78/1، ح: 1338، صحيح مسلم :379/2، ح : 7216]
٭صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع خفق نعالهم إذا انصرفوا
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔“ [ صحيح مسلم : ح : 7217]
٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الميت اذا وضع في قبره انه لسمع خفق نعالهم حين يولون عنه
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔“
[ مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الأثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني :2651، المستدرك على الصحيحين للحاكم :380/1-381، و سندهٔ حسن]
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113) نے اس حدیث کو’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔
٭ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [ مجمع الزوائد: 51/3-52]
٭ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو حين يولون عنهٔ (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور إِذا انصرفوا ، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
٭ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز ستنی ہے۔“ [ شرح أبى داؤد :188/6]
٭ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی ليسمع وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
٭ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو :
٭ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
والذي نفسي بيده ! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [ شرح معاني الاثار للطحاوي :510/1، وسنده حسن]
◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ )اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.
”اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔“ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة : 1147]
٭ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.
”مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 289/1]
استثناء نمبر ②
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:
٭ بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان، ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله، فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا ہوتا دیکھ لیا ؟‘‘
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها ”اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟“
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده، ما انتم باسمع لما اقول منهم ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں، اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔“ [صحيح البخاري :566/2، ح : 3976، صحيح مسلم: 387/2، ح: 2874]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کر تے ہیں:
اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على اهل القليب، فقال: وجدتم ما وعد ربكم حقا، فقيل له: تدعو امواتا، فقال: ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ صحيح البخاري : 183/1، ح : 1370]
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال (أبو عبدالله محمد بن على – 453-536هـ -) المازري : قال بعض الناس : الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.
”علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔“ [ شرح صحيح مسلم : 387/2 ]
٭ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب
”نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 286/3، ح : 1148]
فائدہ : مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ ) فرماتے ہیں :
أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .
”اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔“ [ مسند الإمام أحمد : 459/19، ح : 12417، صحيح البخاري : 3976 ]
٭ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م : 449 ھ) فرماتے ہیں :
وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.
”امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔“ [ شرح صحيح البخاري : 358/3 ]
٭ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ ”نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔“ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔
◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م : 611 ھ) فرماتے ہیں :
ان الموتي لا يسمعون بلا شك . ”یقینا مردے نہیں سنتے۔ ” [ فتح الباري لابن حجر : 235/3]
◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م : 435 ھ) فرماتے ہیں :
لا يسمعون، كما قال تعالى : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ [27-النمل:80] ، ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
”مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ (اے نبی !) ”یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ نیز فرمایا : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”(اے نبی !) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔“ [ شرح صحيح البخاري لابن بطال : 320/3]
٭ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین !
قائلین سماع موتی کے شبہات اور ان کا ازالہ
جو لوگ سماع موتیٰ کے قائل ہیں، وہ دلائل کی دنیا میں نادار اور فقیر ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں، شبہات ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مردوں کے سننے کے قائل ہیں۔ آئیے قرآن و سنت اور آثار سلف کی روشنی میں ان شبہات کا ازالہ کرتے ہیں :
شبہ نمبر ①
تفسیر ابن کثیر کی ایک الحاقی عبارت
وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔“ [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]
٭تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أ یعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔
شبہ نمبر ②
قبرستان میں سلام کہنے والی دلیل :
بعض لوگوں نے سلام والی حدیث سے سماعِ موتی کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔ ان کے ہاتھ ’’ ضعیف“ روایات لگ گئی ہیں۔ انہی کی بنیاد پر یہ کچھ ثابت کیا گیا ہے۔ جبکہ کسی صحیح حدیث میں مردوں کے سلام سننے کا ذکر تک نہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب (1248-1297ھ) کہتے ہیں :
’’ اپنے خیالِ نارسا کے موافق سمع اصوات، حد اسماع سے تو پرے ہے۔ پر اسمتاعِ اصوات ممکن ہے۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو انك لا تسمع الموتي فرمایا اور نبی علیہ السلام نے باوجود اس کے، سلام اہل قبور مسنون کر دیا۔ اگر اسمتاع ممکن نہیں تو یہ بے ہودہ حرکت، یعنی سلام اہل قبور، ملحدوں کی زبان درازی کے لیے کافی ہے۔“ [جمال قاسمی : ص 9]
٭ یہ کوئی علمی بات ہے ؟ جب دلائل نہ ہوں تو اسی طرح کے ’’تیر تکے“ لگائے جاتے ہیں اور وحی کے مقابلے میں عقلی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ یہ بات ہر ادنیٰ شعور رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سلام دعا ہے۔ اور جب میت کو سلام کہا جاتا ہے تو صرف بطور دعا کہا جاتا ہے، ان کو سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ :
اني اعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع
’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔“ [ صحيح البخاري : 1597، صحيح مسلم : 1270]
◈ عالم عرب کے مشہور عالم، شیخ محمد بن صالح عثیمیں رحمہ اللہ (م :1421 ھ) فرماتے ہیں :
فإنه لا يلزم من السلام عليهم أن يسمعوا، ولهذا كان المسلمون يسلمون على النبى فى حياته فى التشهد، وهو لا يسمعهم قطعا.
’’ مردوں کو سلام کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اسے سنتے ہیں۔ مسلمان (خصوصاً صحابہ کرام ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشہد پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً نہیں سنتے تھے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 288/1]
مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت (یا مرد) جو مسجد کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی، فوت ہو گئی۔ صحابہ کرام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اسے دفنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مسجد میں نہ آنے پر اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ وہ تو کئی دن پہلے فوت ہو چکی ہے۔ [ انظر صحيح البخاري : 460، صحيح مسلم : 956، وغيرهما من الكتب الحديثية]
٭ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کا نماز میں پڑھا گیا سلام سنتے تھے تو اس عورت کے فوت ہونے کے بعد جو پہلی نماز کا وقت آیا تھا، اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو جانی چاہیے تھی کہ مسجد میں صفائی کرنے والی عورت نے نہ نماز پڑھی ہے، نہ سلام کہا ہے۔ ایسا کچھ نہ ہونا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا کئی دن بعد صحابہ کرام سے علم ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر سلام کا سنا جانا ضروری نہیں۔
٭یہی معاملہ مردوں کو سلام کہنے کا ہے۔ ان کو بھی صرف دعا دینا مقصود ہوتا ہے، نہ کہ سنانا۔ کسی صحیح حدیث سے مردوں کا سلام سننا ثابت نہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ اگر مردے سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ کسی نے آج تک مردوں کی طرف سے جواب تو نہیں سنا، نہ کسی سماعِ موتیٰ کے قائل نے مردوں کے جواب دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جب بعض الناس کے نزدیک مردے سنتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں تو خود سلام کیوں نہیں کہہ دیتے ؟
معلوم ہوا کہ قبرستان میں کہا جانے والا سلام، سلامِ خطاب نہیں، سلام دعا ہے اور دعا کا سنانا مقصود نہیں ہوتا۔
٭ شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
واستدل جماعة منهم عبد الحق على حصول الاستماع من الميت بمشروعية السلام على المؤتى، فقالوا: لو لم يسمعوا السلام لكان خطابهم به عبثا، وهو بحث ضعيف، لانه يحتمل خلاف ذلك، فقد ثبت فى التشهد مخاطبة النبى صلى الله عليه وسلم، فهو لا يسمع جميع ذلك قطعا، فخطاب المؤتى بالسلام فى قول الذى يدخل المقبرة : السلام عليكم اهل القبور من المومنين، لا يستلزم انهم يسمعون ذلك، بل هو بمعنى الدعاء، فالتقدير : اللهم اجعل (السلام عليكم) كما تقدر فى قولنا : الصلاة والسلام عليك يا رسول الله، فإن المغنى : اللهم اجعل الصلاة والسلام على رسول الله، فقد ثبت فى الحديث الضحيح فى أن العبد إذا قال : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أصاب كل عبد صالح، فهو خبر بمعني الطلب، فالتقدير: اللهم سلم عليهم، والله اعلم
’’ ایک جماعت، جن میں عبدالحق (اشبیلی) بھی شامل ہیں، نے مردوں کو سلام کہنے کی مشروعیت سے سماع موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مردے سلام نہیں سنتے تو ان کو مخاطب کرنا فضول ہے۔۔۔ لیکن یہ کمزور موقف ہے، کیونکہ مردوں کو سلام کہنے میں اس (خطاب )کے برعکس اور احتمال بھی ہے۔ وہ یہ کہ تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے سلام کہنا ثابت ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں سب لوگوں کی طرف سے کہے گئے سلام قطعاً نہیں سنتے۔ اسی طرح قبرستان میں داخل ہونے والے شخص کا مؤمن مردوں کو سلام کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ ! ان پر سلامتی نازل فرما، جیسا کہ الصلاة والسلام عليك يا رسول الله! کا مطلب ہے کہ ”اے اللہ ! تو اپنے رسول پر رحمت اور سلامتی نازل فرما“۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ جب بندہ تشہد میں کہتا ہے کہ السلام علينا وعلي عباد الله الصالحين ”ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی“ تو ہر نیک شخص تک یہ دعا پہنچ جاتی ہے۔ یوں یہ خبر بمعنی انشاء ہوئی۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ اے اللہ ! تو تمام نیک لوگوں پر سلامتی نازل فرما۔ والله اعلم ! [ الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع لابن حجر، ص: 86]
شبہ نمبر ③
ایک بے سند روایت :
وروى أبو الشيخ الأصبهاني فى كتاب (أثواب الأعمال) بإسناده عن عبيد بن أبى مرزوق، قال : ماتت بالمدينة امرأة يقال لها : ام محجن، تقم المسجد، فماتت، فلم يعلم بها النبى صلى الله عليه وسلم، فمر على قبرها، فقال : ”ما هذا القير؟“، قالوا: أم محجن، فقال: التي كانت تقم المسجد؟، قالوا: نعم، فصف الناس، وصلى عليها، ثم قال : أی العمل و جدت أفضل؟، قالوا : يا رسول الله ! أتسمع ؟ قال : ”ما أنتم باسمع منھا“ فذکر انھا اجابتہ : قم المسجد . [ الترغيب والترهيب للمنذري : 122/1، ح : 428، فتح الباري لابن رجب : 352/2]
تبصرہ: اس کی مکمل سند نہیں مل سکی۔
بے سند روایات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جو ناقص سند موجود ہے، اس میں بھی عبید بن ابومرزوق ’’ مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان کے [الثقات :157/7] کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام بخاری [التاريخ الكبير : 5/6 رقم 1496] ، امام ابو حاتم الرازی [ الجرح والتعديل : 13/6] اور دیگر نے اسے ’’ مرسل“ کہا ہے۔ محدثین کے نزدیک ’’ مرسل“ روایت ’’ ضعیف“ ہوتی ہے۔
شبہ نمبر ④
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله ! إن أبى كان يصل الرحم، وكان وكان، فأين هو، قال: ”في النار“، قال: فكانهٔ وجد من ذلك، فقال : يا رسول الله ! فأين أبوك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”حيثما مررت بقبر مشرك، فبشرهٔ بالنار“، قال : فأسلم الأعرابي بعد، وقال : لقد كلفني رسول الله صلى الله عليه وسلم تعبا، ما مررت بقبر كافر الا بشرته بالنار.
’’ ایک دیہاتی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : اللہ کے رسول ! میرا والد صلہ رحمی اور بہت سے نیک کام کرتا تھا۔ وہ کہاں ہے ؟ فرمایا : جہنم میں۔ اسے یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آپ کے والد کہاں ہیں ؟ فرمایا : جب بھی تو کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرے تو اسے جہنم کی بشارت دے۔ وہ دیہاتی بعد میں مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول نے مجھے مشقت والے کام میں مصروف کیا ہے۔ میں جب بھی کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔“ [سنن ابن ماجه : 1573]
تبصرہ: اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے۔
امام زہری ’’ مدلس“ ہیں اور بصیغہ ’’ عن“ روایت کر رہے ہیں۔ کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں ملی۔
البتہ اسی معنی کی ایک روایت صحیح مسلم (203) میں بھی موجود ہے، لیکن اس روایت میں دیہاتی کو ہرمشرک کی قبر سے گزرتے ہوئے اسے جہنم کی بشارت دینے کا حکم مذکور نہیں۔
شبہ نمبر ⑤
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بقیع غرقد کے پاس سے گزرے اور فرمایا :
السلام عليكم يا أهل القبور !! أخبار ما عندنا أن نسائكم قد تزوجن، ودوركم قد سكنت، وأموالكل قد فرقت، فاجابه هاتف : يا عمر بن الخطاب ! أخبار ما عندنا أن ما قدمناه، فقد وجدناه، وما أنفقناه، فقد ربحناه، وما خلفناه، فقد خسرناه.
’’ قبروں والو ! تم پر سلامتی ہو۔ ہمارے پاس جو خبریں ہیں، وہ یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے آگے نکاح کر لیے ہیں، تمہارے گھروں میں غیروں نے سکونت اختیار کر لی ہے اور تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ ایک غیبی آواز نے جواب دیا : ہمارے پاس یہ خبر ہے کہ جو مال ہم نے آگے بھیجا تھا، وہ ہمیں مل گیا، جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوا اور جو ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ نقصان دہ ثابت ہوا۔“ [ الهواتف لابن أبى الدنيا: 100]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① مطہر بن نعمان راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
② محمد بن جبیر کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايصح سماعه عن عمر بن الخطاب، فإن الدارقطني [العلل :174/1] نص على أن حديثه عن عثمان مرسل
’’ اس کا سماع سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ امام دارقطنی نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث مرسل ہوتی ہے۔“ [ تهذيب التهذيب : 92/9 ]
جب محمد بن جبیر کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ممکن ہے ؟
ہم حیران ہیں کہ بعض لوگ ایسا خام مال اپنی کتابوں میں کیوں لوڈ کرتے ہیں ؟
شبہ نمبر ⑥
سیدنا ابوعبداللہ، سیدان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
أشرف النبى صلى اللہ عليه وسلم على أهل القليب 0 فقال : ”يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟“، فقالوا: يا رسول الله ! وهل يسمعون ؟ قال: ”يسمعون كما تسمعون، ولكن لا يجيبون“ .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پڑے مقتولیں کفار کی طرف جھانکا اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا ؟ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! کیا یہ سنتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ بالکل تمہاری طرح سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ المعجم الكبير للطبراني : 165/7، اح : 6715، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 444/3، ح:3665 ]
تبصرہ: اس کی سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① امام طبرانی کا استاذ عبدالوارث بن ابراہیم، ابوعبیدہ عسکری ’’ مجہول الحال“ ہے۔
اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم اعرفه [ مجمع الزوائد : 212/5 ]
② یونس بن موسیٰ شامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
③ حسین بن حماد کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
④ عبیداللہ بن غسیل راوی کون ہے، تعارف کرایا جائے۔
٭ اس سند میں نامعلوم افراد نے قبضہ جما رکھا ہے۔ لہٰذا یہ ناقابل اعتبار ہے۔
شبہ نمبر ⑦
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أهل القليب، فقال: يا أهل القليب ! هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟، فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا، قالوا: يا رسول الله ! هل يسمعون ؟ قال : ما أنتم باسمع لما اقول، منهم ولكنهم اليوم لا يجيبون
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کفار کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے کنویں والو ! کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا ؟ میں نے اپنے رب کے وعدے کو بالکل سچا پایا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ سن رہے ہیں ؟ فرمایا تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ لیکن آج یہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔“ [السنة لابن أبى عاصم : 884، وفي نسخة أخرى :، 910، المعجم الكبير للطبراني : 10320 : 160/10]
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس میں :
① اشعث بن سوار راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ تقریب التہذیب : 524 ]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه أحمد وجماعة. ”اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ائمہ کرام کے ایک گروہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ مجمع الزوائد : 240/2 ]
٭ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
فالاكثر على انه غير مرضي ولا مختار
”اکثر محدثین کرام اسے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ ہی سمجھتے ہیں۔“ [ البدر المنير : 731/5 ]
② اس میں ابواسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ اور اختلاط بھی ہے۔
من حديث أبى العباس الاصم (84) کی سند میں ابان بن ابوعیاش راوی ”متروک“ ہے۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
فانهٔ ضعيف باتفاق . ”یہ راوی باتفاق محدثین ضعیف ہے۔“ [ فتح الباري : 239/9 ]
٭ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ السنة لابن أبى عاصم کے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
لكن ليس فيها أن المؤتى عامة يسمعون، وإنما فيها أن أهل القليب سمعوا قوله صلى الله عليه وسلم إياهم، فهي قضية خاصة، لا عموم لھا . . . .، ويؤيده قول قتادة المتقدم : أحياھم الله له، فالقضية خاصة، فلا يجوز أن يلحق بها غيرها، فيقال : إن المؤتى كلهم يسمعون، كما يقول كثير من الناس اليوم !
”لیکن اس حدیث سے تمام مردوں کا (ہر بات کو) سننا ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں تو صرف یہ مذکور ہے کہ کنویں والے مقتولین نے وہ بات سنی تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمائی تھی۔ یہ ایک خاص واقعہ ہے جو عموم کا متحمل نہیں۔۔۔ اس بات کی تائید امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سننے کے لئے زندہ کر دیا تھا۔۔۔ یوں یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اسے عمومی رنگ دے کر یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام مردے سنتے ہیں، جیسا کہ موجود دور میں اکثر لوگوں کا عقیدہ ہے۔“ [ ظلال الجنة فى تخريج السنة : 428/2 ]
شبہ نمبر ⑧
سعید بن مسیب تابعی بیان کرتے ہیں :
دخلنا مقابر المدينة مع على بن أبى طالب، فنادي يا أهل القبور ! السلام عليكم ورحمة الله، تخبرونا باخباركم، ام تريدون ان نخبركم ؟ قال : فسمعت صوتا ؛ وعليك السلام ورحمة الله وبركاته، يا أمير المؤمنين ! خبرنا عما كان بعدنا، فقال على رضى الله عنه : أما ازواجكم، فقد تزوجن، و اما اموالكم، فقد اقتسمت، و الاولاد قد حشروا فى زمرة اليتامى، والبناء الذى شيدتم فقد سكنها اعدائكم فهده اخباركم عندنا، فما اخبارنا عندكم؟ فما عندكم؟ فاجابه ميت: قد تخرقت الأكفان، وانتثرت الشعور، وتقطعت الجلود، وسالت الأحداق على الخدود، وسالت المناخر بالقيح والصديد، وما قدمناه وجدناه، وما خلفناه خسرناه، ونخن مرتهنون بالأعمال.
”ہم سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں داخل ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: قبروں والو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ تم ہمیں اپنے احوال سناؤ گے یا ہم سے سننا چاہتے ہو۔ میں (سعید بن مسیب) نے یہ آواز سنی : امیر المؤمنین ! وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ آپ ہمارے بعد ہونے والے واقعات ہمیں بتائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہاری بیویوں نے آگے شادیاں کر لی ہیں، تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں، تمہاری اولادیں یتیوں میں شمار ہونے لگی ہیں اور جو مکان تم نے بنائے تھے، ان میں تمہارے دشمنوں نے رہائش اختیار کر لی ہے۔ ہمارے پاس تمہاری یہی خبریں تھیں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا خبریں ہیں ؟ ایک میت نے جواب دیا : ہمارے کفن بوسیدہ ہو گئے ہیں، بال بکھر گئے ہیں، جلدیں پھٹ گئی ہیں، رونے کی وجہ سے آنکھوں کی سیاہی رخساروں پر بہہ چکی ہے، ناک سے کچ لہو اور پیپ کے فوارے نکل رہے ہیں۔ جو چیز یں ہم نے آگے ( اللہ کی راہ میں) بھیج دی تھیں، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوئیں اور جن کو ہم (وارثوں کے لیے ) پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ ہم اپنے اعمال کے بدلے میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
تبصرہ : یہ سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ عبداللہ بن حسن بن عبدالرحمن، ابوالقاسم بزاز کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ اس سند میں کئی اور راوی بھی ’’ مجہول“ ہیں، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في إسناده قبل ابي زيد النحوي من يجهل .
”اس روایت کی سند میں ابوزید نحوی سے پہلے مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ تاريخ دمشق لابن عساكر : 395/27 ]
٭ حافظ سیوطی اس روایت کے بارے کہتے ہیں :
بسند فيه من يجهل
”یہ ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں مجہول راوی موجود ہیں۔“ [ الخصائص الكبرى : 113/2 ]
➌ سفیان بن عیینہ ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔
لہذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہو سکتی۔
شبہ نمبر ⑨
عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ :
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . .
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . .
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔
شبہ نمبر ⑩
حدثنا أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني : ثنا محمد بن ابراهيم بن العلاء الحمصي : ثنا اسماعيل بن عياش : ثنا عبدالله بن محمد القرشي، عن يحيي بن ابي كثير عن سعيد بن عبد الله الأودي، قال : شهدت أبا أمامة، وهو فى النزاع، فقال : إذا أنا مت، فاصنعوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصنع بموتانا، أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال : إذا مات أحد من اخوانكم، فسويتم التراب على قبره، فليقم احدكم على راس قبره، ثم ليقل : يا فلان بن فلانة ! فإنه يسمعه، ولا يجيب، ثم يقول : يا فلان بن فلانة، فإنه يستوي قاعدا، ثم يقول : يا فلان بن فلانة ! فإنه يقول : ارشدنا رحمك الله، ولكن لا تشعرون، فليقل : اذكر ما خرجت عليه من الدنيا؛ شهادة أن لا اله الا الله وان محمدا عبده ورسوله، وانك رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، وبالقران اماما، فان منكرا ونكيرا ياخذ واحد منهما بيد صاحبه، ويقول : انطلق بنا، ما نقعد عند من قد لقن حجته، فيكون الله حجيجه دونهما، فقال رجل : يا رسول الله ! فإن لم يعرف أمه؟ قال : فينسبهٔ إلى حواء ؛ يا فلان بن حواء
سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔ وہ فرمانے لگے : جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا، جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا، مردہ یہ بات سنے گا، لیکن جواب نہیں دے گا۔ پھر وہ کہے : اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! وہ کہے گا : اللہ تجھ پر رحم کرے ! ہماری رہنمائی کر، لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر، جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بند ے اور رسول ہیں۔ تو اللہ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ منکر اور نکیر میں سے ایک، دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے : چلو، جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے۔ چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اگر وہ (تلقین کرنے والا ! ) اس (مرنے والے ) کی ماں کو نہ جانتا ہو تو ( کیا کرے ) ؟ فرمایا : وہ اسے حواء علیہا السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے !“ [ المعجم الكبير للطبراني : 250/8، ح : 7979، الدعاء للطبراني : 298/3، ح : 1214 وصايا العلماء عند حضور الموت لابن زبر، ص : 46-47، الشافي لعبد العزيز، نقلا عن التلخيص الحبير لابن حجر : 136/2، اتباع الأموات للامام إبراهيم الحربي، نقلا عن المقاصد الحسنة للسخاوي : 265، الأحكام للضياء المقدسي، نقلا عن المقاصد الحسنة : 265 ]
تبصرہ : یہ سند بوجوہ سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے بیان کردہ روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
مذکورہ روایت بھی اہل حجاز سے ہے، لہذا ”ضعیف“ ہے۔
٭ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) فرماتے ہیں :
وإسماعيل بن عياش (عندهم) أيضا غير مقبول الحديث، إذا حدث عن غير أهل بلده، فإذا حدث عن الشاميين، فحديثة مستقيم، وإذا حدث عن المدنيين وغيرهم، ما عدا الشاميين، ففي حديثه خطا كثير واضطراب، ولا أعلم بينهم خلافا أنه ليس بشيء فيما روى عن غير أهل بلدہ.
”اسماعیل بن عیاش جب اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی اور سے بیان کرے، تو محدثین کے ہاں اس کی حدیث بھی قبول نہیں ہوتی۔ جب وہ شامی لوگوں سے بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔ جب شامیوں کے علاوہ مدنیوں اور دیگر علاقے والوں سے بیان کرے تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطی اور اضطراب ہوتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق محدثین کرام کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب اسماعیل بن عیاش اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی سے بیان کرے تو اس کی حدیث قابل التفات نہیں ہوتی۔“ [ التمهيد لما فى المؤطأ من المعاني والاسانيد : 429/6 ]
٭ امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (م : 277 ھ) فرماتے ہیں :
وتكلم قوم فى إسماعيل، وإسماعيل ثقة، عدل، أعلم الناس بحديث الشام، ولا يدفعه دافع، وأكثر ما تكلموا، قالوا : يغرب عن ثقات المدنيين والمكيين .
”کچھ اہل علم نے اسماعیل بن عیاش پر جرح کی ہے۔ اسماعیل ثقہ اور عدل ہیں، شام کی حدیث کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کوئی بھی ان کو رد نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ اور مکہ کے رہنے والے ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتے ہیں۔“ [ المعرفة والتاريخ : 424/2 ]