• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردے کا قبر میں جوتے کی آہٹ سننا ۔

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض نمبر16:۔

مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 44میں لکھتا ہے ۔۔۔مردہ ''یسمع قرع نعالھم ''مر دہ ان کے جوتوں کی آہٹ بھی سن لیتا ہے (بخاری 178/1)
اس حدیث کو لکھنے سے پہلے صفحہ43پر لکھتا ہے کہ قرآن مقدس میں ایک نہیں بیسیوں آیات صراحت کے ساتھ کہتی ہیں موت کے بعد کوئی مردہ نہیں سن سکتا ۔۔۔۔اس کے بعد صفحہ 44پر صحیح بخاری کی حدیث پر طعن کرتاہے کہ قلیب بدر کے موقع پر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونک پڑے کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم کو تو آپ نے پڑھایا ہے کہ مردے نہیں سنتے اب آپ ''کیف تکلم اجسادا لا أرواح لھا۔۔۔آپ ﷺہی کو تو اللہ نے فرمایا تھا کہ آپ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور اب آپ ہی ان بے روح دھڑوں سے کلام کررہے ہیں ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا ،،الٓان یسمعون ۔تو صحابہ سمجھ گئے۔

جواب:۔

قارئین کرام یہ بات تو سوفیصد ثابت شدہ ہے کہ مصنف نے کبھی حدیث تو کیا قرآن بھی دل کی آنکھ سے نہیں پڑھا اگر پڑھ لیتا توٹیڑھ نہ رہتی ۔مصنف پرلے درجے کا جھوٹا اور خائن ہے یہ سراسر جھوٹ ہے کہ بیسیوںآیتیں صراحت کے ساتھ کہتی ہے ۔۔۔۔'۔مردہ نہیں سن سکتا'۔بکواسی مصنف سے میرا سوال ہے کہ بیسیوں کیا کوئی ایک آیت بھی قرآن میں دکھادے کہ' مردہ نہیں سن سکتا 'مجھے یقین ہے کہ مصنف اور اس کی آل قیامت تک یہ نہیں دکھاسکتے محترم قارئین قرآن یہ کہتا ہے کہ انسان اور جن مردے کو نہیں سنا سکتے لیکن اللہ سنوا سکتا ہے ۔
اب ہم امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث مبارکہ پر تبصرہ کرتے ہیں جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا ۔
''ان رسول اللہ ﷺ قال:ان العبد اذاوضع فی قبرہ وتولی عنہ اصحابہ وانہ لیسمع قرع نعالھم ۔۔۔'' (بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر1374 )
''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص مرتا ہے اور اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آوازسنتا ہے ۔۔۔۔''
دوسری حدیث ۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
''اطلع النبی ﷺ علی أھل القلیب فقال وجد تم ۔۔۔''
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر رقم الحدیث 1370)
''جو کافر بدر کے دن اندھے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے رسول اللہ ﷺ نے ان پر جھانکا اور فرمایا تمہارے رب نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا لوگوں نے عرض کیا ''آپ ﷺ مردوں کو پکارتے ہیں''
فرمایا تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے وہ جواب نہیں دے سکتے ۔
ان دونوں صحیح احادیث کو مصنف نے بغیر تحقیق کے قرآن کے خلاف باور کرایا اور قرآن کم فہمی کی تہمت امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ پر لگائی جو کہ مصنف کی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔قارئین کرام مصنف نے امام بخاری رحمہ اللہ پر تو الزام گھڑ دیا کہ ''امام بخاری کاش کہ روایت سے پہلے کلام اللہ القرآن کا مفہوم معلوم کرلیتے ۔۔۔۔عرض کرتا چلوں الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مکمل نظر قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ پر تھی لیکن مصنف کی مثال ایسی ہے ۔''صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ'' (البقرۃ18/2)
مندرجہ بالا دونوں احادیث مبارکہ نبی کریم ﷺ کے معجزے پر دلالت کرتی ہے اور معجزہ کہتے ہی اس چیز کو جو عمومی حالات سے ہٹ کر ہو ۔معجزہ کا انکارکرنا یہ تو کفر ہے اور ضلالت کی واضح دلیل ہے قرآن پاک ایک قاعدہ ذکر کرتا ہے ۔جسکومصنف اپنے غبی پن اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر رہا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
'' إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَاء ُ وَمَآ أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ ''(الفاطر22/35)
''اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے لیکن آپ ﷺ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ''۔
آیت مبارکہ میں لفظ استعمال ہوا ہے ''یسمع ''یہ مضارع کا صیغہ ہے عربی میں مضارع دوزمانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔حال اورمستقبل۔یعنی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے یعنی سنوابھی رہا ہے اور مستقبل میں بھی سنواسکتا ہے ۔مردوں کو سنا نایہ اللہ کی قدرت ہے لیکن نبی ﷺ نہیں سنا سکتے ہاں اگراللہ سنوانا چاہے تو وہ سنواسکتا ہے ۔
اب ان دونوں صحیح احادیث پر غور فرمائیں ایک میں ذکر ہے کہ مردے قدموں کی آہٹ سنتے ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ قلیب بدر کے موقع پر نبی ﷺ نے کفار کو سنایا۔ان دونوں احادیث کا مطلب ہے کہ دونوں جگہوں پر اللہ نے سنوایا نہ کہ نبی کریم ﷺ نے کیونکہ قرآن یہ واضح اشار ہ دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے تو یہاں بھی اللہ ہی نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے سنوایا تو بتایئے یہ ایسی کونسی بات ہے کہ جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہو؟
زیر بحث حدیث خاص موقع کے لئے ہی دلالت کرتی ہیں اسی لئے صحابی نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ کیا مردے سنتے ہیں ؟نبی ﷺ نے جواب دیا ہاں یہ اس وقت تم سے زیادہ سن رہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا ''اس وقت'' اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ معجزہ تھا اور معجزہ ہوتا ہی ہے عمومی حالات سے ہٹ کر ۔
معجزہ کا انکار انسان کو کفر تک پہنچادیتا ہے اور معجزہ کا ذکر تو قرآن کریم بھی کرتا ہے جیسے عیسی علیہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا وغیرہ۔
تو کیا مصنف اس کو بھی افسانہ کہے گا ۔
 
Top