• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
حدیث نمبر1
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ : فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا". [المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِيُّ القيل، رقم الحديث: 17527]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » كتاب الصلاة، 2594] [البدر المنير، لابن الملقن: 3/ 463]
حضرت وائل بن حجر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہے کہ مجھے رسول ﷲ
نے فرمایا کہ اے وائل بن حجر تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔ (معجم طبرانی کبیر ج22ص18)

حدیث نمبر2
حضرت عبدربہ بن سیمان بن عمیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درواء رضی اﷲ عنہا کو ديکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندہوں کے برابر اٹھاتی ہیں۔(جزء رفع الیدین للامام بخاری ص7)

حدیث نمبر3
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » فِي الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَجْلِسُ فِي الصَّلَاةِ ؟ رقم الحديث: 2715]


حضرت ابن جریج رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں۔(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)


حدیث نمبر4
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ :
" إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ " .[مراسیل ابی داؤد: ص103، باب : مِنَ الصَّلاةِ, رقم الحديث: 77(87); سنن کبری بیہقی ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ، ٢/٢٣٢، رقم الحديث: 2938]

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ ﷲ سے مروی ہے کہ آنحضرت
دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔(مراسیل ابی داود ص:۸)



حدیث نمبر5
عورت نمازمیں سمٹ کر سرین کے بل بیٹھے ‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابن عمر  انہ سئل کیف کان النساء یصلین علی عہد رسول اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربعن ثم امرن ان یحتفزن“۔ (جامع المسانید‘۱:۴۰۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ خواتین حضور کے عہد مبارک میں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: پہلے چار زانو ہوکر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں“۔

عورت زمین کے ساتھ چمٹ کر اور پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملاکر سجدہ کرے‘ حدیث شریف میں ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا ، كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا ، وَيَقُولُ : يَا مَلائِكَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا "[السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ الْحَيْضِ » بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْأَةِ مِنْ تَرْكِ التَّجَافِي ...رقم الحديث: 2936]

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے۔ اس طرح کہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔ بلا شبہ اﷲ تعالی اس کی طرف نظر (رحمت) فرما کر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔(کنز العمال ج7ص549)

حدیث نمبر6
عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِزْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا ؟ رقم الحديث: 2701]

حضرت حارث رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ تعالی نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر کرے اور اپنی دونوں رانوں کو ملائے رکھے۔
(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص279، كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟, رقم الحديث: 2701; سنن کبری بیہقی ج2ص222)

حد یث نمبر7
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا ؟ رقم الحديث: 2702]

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔ ( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2702)

حدیث نمبر8
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا " .[ مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2703]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے چپکا لے اور اپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اور راعضاءکو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتا ہے۔

حدیث نمبر9
عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ " كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ " .[مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2704]
حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔

حدیث نمبر10
عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سُئِلَ : " كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ " .[جامع المسانید ج1ص400؛ مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي: رقم الحديث: 114]

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے سوال ہوا کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں آپ نے فرمایا چہار زانوں بیٹھ کر پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ خوب سمت کر بیٹھا کریں۔

حدیث نمبر11



عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ " .[صحيح البخاري » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ » بَاب التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ رقم الحديث: 1134]؛
حضرت ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا تسبیح مردوں کے لئے ہے اور تصفیق (ايک ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ کے پشت سے مارنا) عورتوں کےلئے۔ (بخاری ج1ص160، مسلم ج1ص180، ترمذی ج1ص85 )




اگر مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں تو کیا مرد حضرات کو بھی عورتوں کی طرح اسکارف (اوڑھنی) پہن کر نماز پڑھنی ہوگی؟؟؟
حدیث نمبر12
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةَ امْرَأَةٍ قَدْ حَاضَتْ إِلا بِخِمَارٍ " .[
صحيح ابن خزيمة: رقم الحديث: 758 ]
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہيں کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔ ( ترمذی ج1ص86، ابوداﺅد ج1ص94) ؛ صحيح ابن حبان: رقم الحديث: 1745)
امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث عائشہ حسن ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عورت جب بالغ ہو جائے اور نماز پڑھے تو ننگے بالوں سے نماز جائز نہیں ہوگی یہ امام شافعی کا قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے جسم سے کچھ حصہ بھی ننگا ہو تو نماز نہیں ہوگی امام شافعی فرماتے ہیں کہا گیا ہے کہ اگر اس کے پاؤں کھلے رہ جائیں تو اس صورت میں نماز ہو جائے گی.[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 364(26235)]؛




جبکہ


عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي فِي لُحُفِ نِسَائِهِ " .[جامع الترمذي » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ السَّفَرِ » بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلَاةِ فِي لُحُفِ النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 545]
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ اپنی بیویوں کی چادروں میں نماز نہیں پڑھتے تھے.



مرد کو مسجد میں اور عورت کو گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے
حدیث نمبر13
عن عبدالله بن عمر عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: صلاة المرة وحدها أفضل على صلواتها في الجمع بخمس و عشرين درجة.(التيسير الشرح الجامع الصغير للمناوي: ٢/١٩٥ ؛جامع الأحاديث للسيوطي:١٣/٤٩٧، حديث # ١٣٦٢٨)
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی
نے فرمایا: عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز باجماعت پر پچیس (٢٥) گنا فضیلت رکھتی ہے.

حدیث نمبر14

عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ حُمَيْدٍ امْرَأَةِ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنَّهَا جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أُحِبُّ الصَّلَاةَ مَعَكَ ؟ قَالَ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعي ,ِ وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِك ، وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي " , قَالَ : فَأَمَرَتْ فَبُنِيَ لَهَا مَسْجِدٌ فِي أَقْصَى شَيْءٍ مِنْ بَيْتِهَا وَأَظْلَمِه ، فَكَانَتْ تُصَلِّي فِيهِ حَتَّى لَقِيَتْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 26459 ؛ صحيح ابن حبان » رقم الحديث: 2256 ؛ صحيح ابن خزيمة » رقم الحديث: 1599 ]

حضرت ام حمید زوجہ ابوحمید ساعدی مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی
کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ کی معیت میں نماز پڑھنا محبوب رکھتی ہوں، نبی نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہو لیکن تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے چنانچہ ان کے حکم پر ان کے گھر کے سب سے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا ہوتا تھا نماز پڑھنے کے لئے جگہ بنادی گئی اور وہ آخری دم تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔


حدیث نمبر15

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا ، وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا " .
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ؛ رقم الحديث: 482]


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
نے فرمایا عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے یعنی عورت جس قدر بھی پردہ اختیار کرے گی اسی قدر بہتر ہے صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھری میں نماز پڑھنا افضل ہے۔




حدیث نمبر16

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مَوْلًى لِبَنِي هَاشِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " لَا تَؤُمُّ الْمَرْأَةُ " .

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: عورت امامت نہ کرے۔
(مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ سُجُودِ السَّهْوِ » مَنْ كَرِهَ أَنْ تَؤُمَّ الْمَرْأَةُ النِّسَاءَ ، رقم الحديث: 4822 ، مدنۃ الکبریٰ:۱/۸۶، اعلاء السنن ‘۴:۲۴۴)

علماء کے نزدیک تو عورت کی امامت خواہ فرض نماز میں ہو یا نفل نماز میں مکروہ تحریمی ہے اور یہ کراہت عورتوں کی نفل نماز کی جماعت میں اور زیادہ شدید ہے‘ کیونکہ نفل کی جماعت تداعی (اعلان) کے ساتھ مردوں کے لئے جائز نہیں تو عورتوں کے لئے کیسے جائز ہوسکتی ہے؟

درمختار (۱:۵۶۵) میں ہے: یکرہ تحریما (جماعة النساء) ولو فی التراویح فی غیر صلاة الجنازة“ ۔

قضا نمازیں مرد کو سب ادا کرنی ہیں ، جبکہ عورت کو ایام حیض میں نہ نماز ادا کرنی ہے اور نہ ہی بعد میں اس کی قضا لازم ہے :



حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ مُعَاذَةَ . ح وحَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، عَنْ مُعَاذَةَ ، أَنَّ امْرَأَةً ، " سَأَلَتْ عَائِشَةَ ، فَقَالَتْ : أَتَقْضِي إِحْدَانَا الصَّلَاةَ أَيَّامَ مَحِيضِهَا ؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ ؟ قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لَا تُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْحَيْضِ » بَاب وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ دُونَ ... رقم الحديث: 511]
ترجمہ : حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ کیا ہم میں سے کسی کو اس نمازصرف اسی قدر زمانہ میں جبکہ وہ طاہر رہے کافی ہے ؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ کیا تو حرور یہ ہے، یقینا ہم نبی کے ہمراہ رہتے تھے اور حیض آتا تھا، مگر آپ ہمیں نماز کی قضا پڑھنے کا حکم نہ دیتے تھے، یا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کہا کہ ہم قضا نہ پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم)



جبکہ قضا نمازیں مرد کو سب ادا کرنی ہیں
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ " قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ ، إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْفَوَائِتِ ، أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ إِذَا قَضَاهَا ، وَإِنْ لَمْ يُقِمْ أَجْزَأَهُ ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ .

[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبَوَاب الصَّلَاةِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ ... رقم الحديث: 164]
ترجمہ : حضرت ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ نے فرمایا کہ مشرکوں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ کو روک دیا چار نمازوں سے یہاں تک کہ رات گذر گئی جتنی اللہ نے چاہی پھر آپ نے حکم دیا بلال کو انہوں نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ظہر پڑھی پھر تکبیر کہی پھر عصر پڑھی پھر تکبیر کہی اور مغرب کی نماز پڑھی اور پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی اس باب میں ابوسعید اور جابر سے بھی روایت ہےامام ابوعیسٰی فرماتے ہیں کہ عبداللہ کی حدیث کی سند میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ابوعیبدہ نے عبداللہ سے نہیں سنا اور بعض اہل علم نے اس کو اختیار کیا ہے کہ فوت شدہ نمازوں کے لئے ہر نماز کے لئے تکبیر کہی جائے اور اگر ہر نماز کے لئے تکبیر نہ بھی کہے تب بھی جائز ہے اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 171 (26042) - نماز کا بیان : وہ شخص جس کی بہت سی نمازیں فوت ہو جائیں تو کس نماز سے ابتدا کرے]







خاوند یا محرم کے بغیر عورت کے سفر کی حد :
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کوئی عورت ایک دن و ایک رات کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے علاوہ یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ (بخاری ومسلم)
تشریح: اس موقع پر حدیث اور فقہی روایت کا تضاد سامنے آ سکتا ہے وہ یوں کہ ہدایہ میں جو فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہے لکھا ہے کہ عورتوں کو بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر مباح ہے جس کی مسافت حد سفر سے (کہ وہ تین منزل یعن ٤٨ میل سے کم ہو) لیکن یہاں حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر بھی نہیں کر سکتی جس کی مسافت ایک دن و ایک رات (ایک منزل یا ١٦میل کے سفر کے بقدر ہو۔ نیز بخاری و مسلم میں بھی یہ ایک روایت منقول ہے کہ کوئی عورت دو دن کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے الاّ یہ کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم ہو۔ لہٰذا فقہاء کا قول بظاہر ان روایات کے مخالف نظر آتا ہے لیکن اس تضاد و اختلاف کو دور کرنے کے لئے علماء یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مطلق طور پر جو یہ منقول ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو چونکہ شرعی طور پر سفر کا اطلاق تین دن سے کم پر نہیں ہوتا اس لئے فقہاء نے اس حدیث کو تین دن (٤٨ میل ) کی مسافت کے بقدر سفر پر محمول کیا ہے اور یہ فقہی قاعدہ مرتب کر دیا کہ کوئی عورت اتنی دور کا سفر کہ جو تین دن کی مسافت کے بقدر ہو بغیر خاوند یا محرم کے نہ کرے اور جب تین دن کی مسافت کے بقدر تنمہا سفر نہیں کر سکتی تو اس سے زائد مسافت کا سفر کرنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو گا۔ اور جن حدیثوں میں دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر سفر سے بھی منع کیا گیا ہے تو اس کو فتنہ و فساد پر محمول کیا ہے کہ اگر سفر تین دن کی مسافت سے بھی کم یعنی دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر ہو اور کسی فتنہ و فساد مثلاً عورت کی عزت و آبرو پر حرف آنے کا گمان ہو تو اس صورت میں بھی عوت کو تنہا سفر نہیں کرنا چاہئے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جہاں تین دن کی مسافت کے بقدر سفر کی ممانعت منقول ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ ہر منزل (یعنی ١٦میل) ایک دن کے اکثر حصے میں طے ہوتی ہو تو اس طرح تین دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں دو دن کے سفر کی ممانعت ہے۔ تو اس کی مراد یہ ہے کہ تمام دن چلے یعنی ایک دن میں ڈیڑھ منزل (٢٤ میل) طے ہو اس طرح دو دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں ایک دن و رات کے سفر کی ممانعت ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ شب و روز چلے، یعنی ڈیڑھ منزل پورے دن میں طے ہو ڈیڑھ منزل پوری رات میں طے ہو اس طرح ایک دن و رات میں تین منزلیں طے ہوں گی۔ اس تاویل کی وجہ سے ان تمام روایات کا مقصد تین دن کی مسافت کے بقدر عورت کو تنہا سفر کرنے سے روکنا ثابت ہو جائے گا اور تمام روایات میں باہم کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات دل کو زیادہ لگتی ہے کہ ان تمام روایات ( کہ جن سے عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور جن میں حد سفر کے بارے میں اختلاف نظر آ رہا ہے) کا مقصد سفر کی کسی حد اور مدت کو متعین کرنا نہیں ہے بلکہ ان روایات کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ عورت بغیر خاوند یا محرم تنہا سفر مطلقاً نہ کرے مسافت چاہے طویل ہو اور چاہے کتنی ہی مختصر ہو۔ لہٰذا موجودہ دور میں جب کہ فتنہ فساد کا خوف عام ہے اور انسانی ذہن غلط طریقہ تعلیم و تربیت اور فاسد ماحول کی وجہ سے بے حیائی اور فحاشی کا مرکز بن گئے ہیں تو احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت مطلقاً تنہا سفر نہ کرے سفر چاہے تھوڑی دور کا ہو چاہے زیادہ فاصلے کا ۔ اس لئے کہ فتنہ و فساد کا خوف بہر صورت رہتا ہے۔ [
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1052(39119)
]









اسی بناء پر چاروں ائمہ کرام ‘ امام ابوحنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا طریقہ نماز‘ مرد کے طریقہ نماز سے مختلف ہے اور فقہاء کرام نے اپنی کتابوں میں یہ فرق ذکر کیا ہے۔
چنانچہ ہدایہ میں ہے: ”والمرأة تنخفض فی سجودہا تلزق بطنہا بفخذیہا‘ لان ذلک استرلہا (وفی موضع اٰخر قال) وان کانت امرأة جلست علی الیتہا الیسری واخرجت رجلیہا من الجانب الایمن لانہ استرلہا“۔ (۱:۱۱۰‘۱۱۱)؛
شرح صغیر میں ہے: ”نَدبَ مجافاة‘ ای: مباعدة‘ رجل فیہ‘ ای: سجود (بطنہ فخذیہ) فلایجعل بطنہ علیہما ومجافاة (مرفقیہ رکبتہ) ای: عن رکبتیہ ومجافاة ضبعیہ‘ ای: ما فوق المرفق الی الابط‘ جنبیہ ای: عنہما مجافاة وسطا فی الجمیع‘ واما المرأة فتکون منضمة فی جمیع احوالہا“۔
(۱:۳۲۹‘ط:دارالمعارف مصر ۱۳۹۲ھ)
شرح مہذب میں ہے: ”قال الشافعی والأصحاب: یسن ان یجافی مرفقیہ عن جنبیہ‘ ویرفع بطنہ عن فخذیہ‘ وتضم المرأة بعضہا الی بعض ․․․(قال قبل اسطر)․․․ روی البراء بن عازب  ا ن النبی ا کان اذا سجد جخ وروی جخی․․․․ ‘والجخ الخاوی وان کانت امرأة ضمت بعضہا الی بعض لان ذلک استرلہا“۔ (۳:۴۲۹)؛
المغنی میں ہے: ”وان صلت امرأة بالنساء قامت معہن فی الصف وسطا‘ قال ابن قدامة فی شرحہ اذا ثبت ہذا فانہا اذا صلت بہن قامت فی وسطہن‘ لانعلم فیہ خلافا من رأی لہا ان تؤمہن ولان المرأة یستحب لہا التستر ولذلک یستحب لہا التجافی“۔ (۲:۳۶)؛


مذکورہ بالا احادیث مبارکہ وآثار صحابہ اور ائمہ اربعہ کے اقوال سے عورت کا طریقہ ٴ نماز ثابت ہے‘ وہ مرد کے طریقہ ٴ نماز سے جدا ہے‘ اس لئے مرد اور عورت کی نماز کی ادائیگی کو یکساں کہنا غلط ہے۔
===========================
حضرت مولانا عبد الحیی لکھنوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ رہا( ہاتھ باندھنے کا معاملہ) عورتوں کے حق میں تو تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ ان کےلئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔ ( السعایة ج2ص156)؛

امام ابولحسن علی بن ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنے مونڈھوں تک اٹھائے يہی صحيح ہے کیونکہ یہ طریقہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا ہے نیز آگے چل کر فرماتے ہیں اور عورت اپنے سجدہ میں پست رہے اور اپنے پیٹ کو رانوں سے ملائے کیونکہ يہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے ۔ ( ہدایہ ج1ص100و110)

امام ابو زید قیروانی مالکی فرماتے ہیں کہ عورت نماز کی ہیئت میں مرد ہی کی طرح ہے الايہ کہ عورت اپنے آپ کو ملا کر رکھے گی اپنی رانیں اور بازو کھول کر نہیں رکھے گی پس عورت اپنے جلسہ اور سجدے دونوں میں خوب ملی ہوئی اور سمٹی ہوئی ہو گی۔( الرسالة بحوالہ نصب العمود ص50)

حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے عورتوں کو يہ ادب سکھلایا ہے کہ وہ پردہ کریں اور يہی ادب اﷲ کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کو سکھلایا ہے لہذا عورتوں کےلئے سجدہ میں پسندیدہ يہ ہے کہ وہ اپنے اعضاءکو ملا کر رکھیں اور پیٹ کو رانوں سے چپکا لیں۔ اور اس طرح سجدہ کریں کہ ان کےلئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہو جائے اسی طرح ان کے لئے پسندیدہ ہے رکوع میں بھی جلسہ میں بھی بلکہ تمام نماز ہی میں کہ وہ اس طرح نماز پڑھیں کہ جس سے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔(کتاب الام ج1ص115)

امام خرقی حنبلی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ مرد وعورت اس میں برابر ہیں سوائے اس کے کہ عورت رکوع و سجود میں اپنے آپ کو اکٹھا کرے ( سکیڑے) پھر یا تو چہار زانو بیٹھے یا سدل کرے کہ دونوں پاؤں کو دائیں جانب نکال دے، ابن قدامہ حنبلی اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اصل يہ ہے کہ عورت کے حق میں نماز کے وہی احکام ثابت ہوں جو مرد کے لے ثابت ہیں کیونکہ خطاب دونوں کو شامل ہے بایں ہمہ عورت مرد کی طرح رانوں کو پیٹ سے دور نہیں رکھے گی بلکہ ملائے گی) کیونکہ عورت ستر کی چیز ہے لہذا اس کےلئے اپنے آپ کوسمیٹ کر رکھنا مستحب ہے تا کہ يہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ستر کا باعث بنے وجہ يہ ہے کہ عورت کےلئے رانوں کو پیٹ سے جدا رکھنے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کاکوئی عضو کھل جائے ۔۔۔۔۔۔ امام احمد رحمہ فرماتے ہیں مجھے عورت کےلئے سدل ( بیٹھنے میں دونوں پاؤں کو دائیں جانب نکالنا) زیادہ پسند ہے اور اس کو خلال نے اختیار کیا ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث وآثار، اجماع امت اور فقہائے کرام کے اقوال سے ثابت ہو رہا ہے کہ مردوعورت کی نماز ايک جیسی نہیں دونوں میں فرق ہے۔

١) مرد تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں گے۔ اور عورتیں کندھوں تک جیساکہ حدیث نمبر1 ،نمبر2،نمبر3 سے واضح ہے ۔

مراکزاسلام مدینہ طیبہ میں امام زہری رحمہ اﷲ، مکہ مکرمہ میں حضرت عطاءرحمہ اﷲ اور کوفہ میں حضرت حماد رحمہ اﷲ يہی فتوی ديتے تھے ( کہ عورت اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھائے) تفصیل کےلئے ملاحظہ فرمائیں ۔( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)؛

٢) مر د دونوں ہاتھ ناف کے نيچے باندھيں گے اور عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا اجماع امت سے ثابت ہے جیسا کہ مولانا عبد الحیی لکھنوی رحمہ اﷲ کے بیان سے واضح ہے۔

٣) مرد سجدے میں پیٹ رانوں سے اور باز وبغل سے جدا رکھیں گے اور عورتیں ملا کر( اس کو فقہا کی اصطلاح میں تجافی کہتے ہیں) جیساکہ احادیث نمبر4,5,6 سے واضح ہے۔

٤) مرد سجدے میں اپنے دونوں پاؤں پنچوں کے بل کھڑے اور دونوں بازو زمیں سے جدا رکھیں گے اور عورتیں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر اور با وزمین سے لگا کر سجدہ کریں گی۔

٥) مرد دونوں سجدوں کے درمیان نیز دونوں قعدوں میں دایاں پاؤں کھڑاکر کے اور بائیں پاوں کو بچھا کر اس پر بیٹھیں گے اور عورتیں ان سب میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر کولھوں پر بیٹھیں گی۔

٦) اگر عورتیں مردوں کے ساتھ جماعت میں شريک ہو اور امام کو غلطی پر متنبہ کرنا پڑے تو مرد سبحان اﷲ کہیں گے اور عورتیں ہاتھ کی پشت پر مار کر متنبہ کریں جیسا کہ حدیث نمبر11 سے واضح ہے ۔

٧) مرد کی نماز ننگے سر بھی ہو جائے گی لیکن عورت کی نماز ننگے سر ہرگز نہیں ہو گی جیسا کہ حدیث نمبر12 سے ظاہر ہے۔

لیکن ان تمام احادیث وآثار، اجماع امت اور اقوال فقہاء کے خلاف غیرمقلدین کا کہنا ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں يہ فرق کرنا مداخلت فی الدین ہے ۔ العیاذ باﷲ

چنانچہ یو نس قریشی صاحب لکھتے ہیں: ”شریعت محمد میں مردو عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں بلکہ جس طرح مرد نماز پڑھتا ہے اسی طرح عورت کو بھی پڑھنا چاہيے“۔( دستور المتقی ص151)؛

حکیم صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں: ”عورتوں اور مردوں کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں........ پھر اپنی طرف سے يہ حکم لگانا کہ عورتیں سينے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف، اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیئت اختیار کریں اور مرد کوئی اور ........ يہ دین میں مداخلت ہے یا رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے شروع کر کے السلام علیکم روحمة اﷲ کہنے تک عورتوں اور مردوں کےلئے ايک ہیئت اور شکل کی نماز ہے سب کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، استراحت ، قعدہ اور ہر ہر مقام پر پڑھنے کی دعائیں یکساں ہیں رسو ل اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکور واناث کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بتایا“ (صلوة الرسول ص190-191)؛

ملاحظہ فرمائيے! احادیث بتلا رہی ہے کہ اﷲ کے نبی کے نزدےک مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔ خلیفہ راشد حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کہہ رہے ہیں کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے۔ تابعین وتبع تابعین فرمارتے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے، اجماع امت سے ثابت ہو رہا ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔ ائمہ اربعہ کے جلیل القدر متبعین فرما ہے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہونا چاہيے لیکن غیر مقلدین ان سب سے آنکھیں موند کر کہہ رہے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں بلکہ يہ دین میں مداخلت ہے ۔

قارئین محترم ذرا چشم بصیرت وا کیجئے اور سوچئے کہ يہ مداخلت فی الدین کا فتوی کس پر لگے رہاہے ؟؟ کیا اﷲ کے نبی دین میں مداخلت کرتے تھے ؟؟ سچی بات يہ ہے کہ غیر مقلدین خود دین میں مداخلت کرتے ہیں من پسند حدیث کومانتے ہیں چاہے وہ من گھڑت ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اپنے موقف کے خلاف احادیث کوچھوڑ ديتے ہیں۔

قارئین فیصلہ فرمائیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق کرنے کو مداخلت فی الدین قرار دینا يہ دحدیث کی موافقت ہے یا مخالفت ؟؟؟

غیرمقلدین سے سوال

اگر غیرمقلدین کے نزديک مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے تو مندرجہ ذیل چیزوں کی عورتوں کو اجازت ملنی چاہيے۔

١) وہ اگر اپنی مسجد الگ بنانا چاہيں تو بنالیں۔

٢) اس میں وہ موذن،امام خطیب بھی بننا چاہیں تو بنیں۔

٣) انہیں اذان دينے کی اجازت ہونی چاہيے۔

٤) اقامت کی امامت کی اجازت ہونی چاہيے۔

٥) مردوں کی طرح عورت کو بھی آگے ہوکر امامت کرانی چاہيے درمیان میں کھڑے ہونے کی پابندی نہیں ہونی چاہيے۔

٦) مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہيے۔

٧) اونچی آواز سے قرات اور اونچی آواز سے آمین کہنے کی اجازت ہونی چاہيے۔

٨) انہیں بھی ننگے سر نماز پڑھنے اور نیز کہنیاں اور ٹخنے کھول کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہيے۔

٩) ان کے لئے بھی جماعت میں شرکت ضروری ہونی چاہيے۔

١٠) ان پر بھی جمعہ وعیدین کی نماز واجب ہونی چاہيے۔

لیکن غیر مقلدین حضرات عورتوں کو ان امور کی اجازت نہیں دیتے بلکہ مردووعورت میں فرق کرتے ہیں ہمیں بتلایاجائے کہ ان امور میں فرق کرنا مداخلت فی الدین نہیں توفقہائے نے جن امور میں فرق بیان کیا ہے ان میں فرق کرنا مداخلت فی الدین کیوں ہے ؟؟؟؟
یاد رہے کہ اس مسئلہ میں غیر مقلدین نے ابن حزم ظاہری کی تقلید کی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم :
بھائی یہ ۔۔غیر مقلد۔ کون ہوتے ہیں ؟
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جو کسی مجتہد کی تقلید نہیں کرتے ہیں، اور نہ خود مجتہد ہوتے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جو کسی مجتہد کی تقلید نہیں کرتے ہیں، اور نہ خود مجتہد ہوتے ہیں
غیر مقلد کی یہ تعریف کس نے کی ہے ؟
اور مجتہد کسے کہتے ہیں ؟
حوالے کے ساتھ بتائیں،
جزاک اللہ تعالی
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ امام شاطبی نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے۔
’’اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو، پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو۔‘‘ نیز ایک مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے رسوم و رواج کو بھی حالات زمانہ اور ضروریات معاشرہ وغیرہ کو بھی جانتا ہو۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا :
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ.
’’جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم :
 
Top