• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد کا قابل ستر حصہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ویسے شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا ، اگر تو واقعتا کسی عذر کی بنا پر ہو ، تو یہ ایک الگ معاملہ ہے ۔
لیکن ہم جو دیکھتے ہیں ، ٹخنوں سے شلوار نیچے رکھنا ، عذر مجبوری نہیں ، بلکہ ایک رواج ہے ۔ اور اس کے برعکس رواج یہ ہے کہ خواتین اب ٹخنوں سے اوپر کرنے لگی ہیں ۔
یعنی مردوں کو ٹخنوں سے نیچے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ انہیں سردی نہ لگ جائے ، جبکہ خواتین کو اوپر رکھنے کی اجازت دی جائے ، تاکہ انہیں گرمی نہ لگ جائے ۔ :)
اور یہ بھی خوب کہا جاتا ہے کہ ہم یہ کام تکبر سے نہیں کرتے ، مطلب کیا خود کبھی کوئی اقرار کرے گا کہ وہ کوئی کام تکبر سے کر رہا ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
یعنی مردوں کو ٹخنوں سے نیچے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ انہیں سردی نہ لگ جائے ، جبکہ خواتین کو اوپر رکھنے کی اجازت دی جائے ، تاکہ انہیں گرمی نہ لگ جائے ۔ :)
پھر تو لوگ دین کا دیوالیہ ہی نکال کر چھوڑیں گے...... ابتسامہ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
وہ حدیث نقل کریں. مع متن
محترم عمر اثری صاحب
السلام علیکم
اس پوسٹ میں محترم اسحاق صاحب نے ایک لنک دیا تھا جس سے یہ بات اخذ کی گئی ہے ۔ آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم عمر اثری صاحب
السلام علیکم
اس پوسٹ میں محترم اسحاق صاحب نے ایک لنک دیا تھا جس سے یہ بات اخذ کی گئی ہے ۔ آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی!
معذرت چاہتا ہوں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ وہ حدیث مع متن اور ترجمہ بذات خود نقل کریں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ (ابو داؤد: 4084)
جزاک اللہ عمر بھائی۔
نسیم بھائی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی روایت دیکھتے ہیں۔
@nasim بھائی
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ہر چیز عرب کا ہی کلچر ہے تو ہمارے لئے باقی کیا بچتا ہے؟
پہلے میں بھی تکبر کے ساتھ ازار لٹکانے کو ممنوع سمجھتا تھا. لیکن چند سال پہلے حدیث نظر سے گزری جسمیں ازار ٹخنے سے نیچے لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا تھا. مزید گزشتہ سال سنن ابو داؤد کی حدیث کی روشنی میں استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد البر سنابلی مدنی حفظہ اللہ کی تشریح نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا. تب سے میں نے اپنا موقف بدل دیا.
رہی بات موزے وغیرہ کی تو وہ ازار نہیں ہے. اب اسکو کسی عربی لغت کے ماہر سے سمجھ لیں. یا شیخ @خضر حیات حفظہ اللہ سے پوچھ لیں. شاید میں اچھے سے سمجھا نہیں پاؤں گا.
اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا جب حکم آجائے تو سر تسلیم خم کرنا ایک مومن کا شیوہ ہے. ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں ہر بات میں تلاش کرنا صحیح نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
محترم اثری بھائی
آپ کی یہ بات سر آنکھوں کے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پر سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ لیکن میری دلیل یہی ہے کہ خواتین اس سے مستثنٰی کی گئی ہیں ۔ یعنی صرف کپڑا لٹکانا باعث عذاب نہیں ہے ۔
اگر یہ حکم عام ہوتا تو اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اور آپ اس موجودہ دور میں ایسے شخص سے ملے ہیں جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہو۔
آپ کی پیش کردہ حدیث کا مطالعہ کریں تو اس میں ازار کا ترجمہ تہبند کیا گیا ہے ۔ تو صرف کیا یہ وعید تہبند پر ہوگی ۔ اس کو اس کے عام پر رکھیں اور دوسری احادیث میں چادر کا ذکر تو ہے لیکن شلوار کا ذکر نہیں کیا یہ اس پر لا گو ہوگی؟

کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھے کہ آپ ٹخنوں سے اوپر کپڑا کیوں رکھتے ہیں تو کیا آپ کو جواب ہوگا اگر یہ ٹخنوں سے نیچے آگیا (تکبر کی شرط کے بغیر) تو میرا رب مجھ پر روز قیامت رحمت کی نظر نہیں کرے گا۔اور داخل جہنم کرے گا۔
میرا مؤقف اب بھی یہی ہے کہ اتنی سخت وعید بغیر تکبر کے ہو ہی نہیں سکتی ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی!
معذرت چاہتا ہوں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ وہ حدیث مع متن اور ترجمہ بذات خود نقل کریں.
مَن جرَّ ثوبَه مِن الخُيَلاءِ لم يَنْظُرِ اللهُ إليه ، قالت أمُّ سَلَمَةَ : يا رسولَ اللهِ ، فكيف تَصْنَعُ النساءُ بذيولهن ؟ قال : تُرْخينَه شِبْرًا . قالت: إذا تَنْكَشِفُ أقدامُهنَّ. قال : تُرْخِينَه ذِراعًا لا تزِدْنَ عليه.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5351
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ام سلمہ نے کہا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں ۔۔۔آپﷺ نے فرمایا ایک بالشت لٹکا لیا کریں ۔۔انھوں نے عےض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپﷺ نے فرمایا تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں
چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرت ابو بکر نے کہا۔۔۔یا رسول اللہ ٰ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں تو آپﷺ نے فرمایا

انک لست ممن یصنعہ خیلاءا
تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
لیکن میری دلیل یہی ہے کہ خواتین اس سے مستثنٰی کی گئی ہیں ۔ یعنی صرف کپڑا لٹکانا باعث عذاب نہیں ہے
نص کی موجودگی میں آپ قیاس کر رہے ہیں؟؟؟ صریح نص ہے جس میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا ہے. نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ (ابو داؤد: 4084 وقال الشيخ الألباني: صحيح)
ترجمہ: اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا.

آپ کو خواتین کا استثناء تو نظر آ رہا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا واضح فرمان نظر نہیں آرہا.
آپ کہتے ہیں کہ صرف کپڑا لٹکانا باعث عذاب نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ٹخنے سے نیچے کپڑے کا جو بھی حصہ ہوگا وہ آگ میں جائے گا:
مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ (صحیح بخاری: 5787)
ترجمہ: تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہو گا.

اور اگر اس میں تکبر بھی شامل ہو تو اللہ اسکی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا. نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مَخِيلَةً لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح بخاری: 5791)
ترجمہ: جو آپ اپنا کپڑا غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہوا چلے گا، قیامت کے دن اس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرے گا
اگر یہ حکم عام ہوتا تو اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اور آپ اس موجودہ دور میں ایسے شخص سے ملے ہیں جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہو۔
جی وقتا فوقتاً مشاہدات ہوتے رہتے ہیں.
آپ کی پیش کردہ حدیث کا مطالعہ کریں تو اس میں ازار کا ترجمہ تہبند کیا گیا ہے ۔ تو صرف کیا یہ وعید تہبند پر ہوگی ۔ اس کو اس کے عام پر رکھیں اور دوسری احادیث میں چادر کا ذکر تو ہے لیکن شلوار کا ذکر نہیں کیا یہ اس پر لا گو ہوگی؟
اسکے لئے میں نے کہا تھا کہ کسی عربی لغت کے ماہر سے پوچھیں. خیر ازار کی تعریف لسان العرب وغیرہ میں بایں الفاظ ہے:
هو الإرخاء والإرسال من غير تقيد
لہذا شلوار وغیرہ اس میں شامل ہے.
کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھے کہ آپ ٹخنوں سے اوپر کپڑا کیوں رکھتے ہیں تو کیا آپ کو جواب ہوگا اگر یہ ٹخنوں سے نیچے آگیا (تکبر کی شرط کے بغیر) تو میرا رب مجھ پر روز قیامت رحمت کی نظر نہیں کرے گا۔اور داخل جہنم کرے گا۔
یہی حیلہ مسلمانوں نے اپنا کر اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑا دیں. کیا عجیب لاجک پیش کیا ہے آپ نے.
کل کوئی غیر مسلم کہے گا کہ تصویر بنانے سے کیسے کسی کو سخت عذاب ہو سکتا ہے تو کیا تصویر بنانے کو حلال کر دیں گے؟؟؟
کیوں کوئی کہ سکتا ہے نا کہ بس تصویر بنانے پر اتنا سخت عذاب کیسے؟؟؟
فی الحال یہی مثال ذہن میں آئی ورنہ اسکے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں.
اس لئے نص صریح کے بعد لاجیکل باتیں نہ کریں.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
نص صریح ہے ۔ مفہوم حدیث"میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا ، ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو" ۔ آپ اس کو اس کے عموم پر رکھیں گے اور اس کا حکم عام ہوگا۔جو ایک دوسرے کی گردنیں مارے وہ گمراہ ہے۔
 
Top