• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروان بن حکم کے بارے میں تفصیل درکار ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے زمرے میں محترم عبد اللہ بن عبد الرشید بھائی نے یہ سوال کیا ہے :
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مروان بن حکم کے بارے میں تفصیل درکار ہے کہ کیا وہ صحابی تھے یا نہیں۔؟
الجواب :
مروان بن الحَكَم المُفترى عليه

بسم الله الرحمن الرحيم
چونکہ سائل خود ما شاء اللہ عربیت کا ذوق رکھتے ہیں ،اس لئے ترجمہ نہیں کیا ۔اگر ضرورت ہو تو بندہ حاضر ہے
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية القرشي الأموي المدني t، أبو عبد الملك و يقال أبو القاسم (الاسم القديم لعبد الملك) و يقال أبو الحكم. ولد عام 2 هـ على قول الجماهير، وقيل عام 3 أو 4 وهو ضعيف. رأى رسول الله r عام الفتح سنة 8 هـ وعمره 6 سنوات، فمنهم من عده صحابياً (مثل الذهبي وابن حجر) ومنهم من استصغر سنه عند الرؤية فجعله من كبار التابعين، ذلك لأن أباه ما لبث أن تحوّل إلى الطائف ولم يسكن بالمدينة. توفي سنة 65 هـ بدمشق. روى عن عدد من الصحابة منهم علي بن أبي طالب t. وروى عنه (أيام معاوية) سهل بن سعد وهو أكبر منه سنا وقدرا لأنه من الصحابة، وروى عنه عدد من أفاضل التابعين مثل علي بن الحسين (زين العابدين) وعروة بن الزبير وسعيد بن المسيب. وأخرج حديثه البخاري وأبو داود والترمذي (وصححه) والنسائي وابن ماجه، وهو ثقة بإجماعهم، وكان يُعَد من الفقهاء. نزل إلى المدينة بعد وفاة رسول الله r، و كان كاتباً لعثمان t، وحاول منع قتله. ثم شهد الجمل مع أم المؤمنين عائشة، ثم صفين مع معاوية t. ثم ولي إمرة الحجاز. وعاش معظم حياته في المدينة حتى أخرجه منها أنصار ابن الزبير t أيام خلافة يزيد، فخرج إلى الشام. و بويع له بالخلافة بعد موت معاوية بن يزيد بن معاوية بالجابية، فسيطر على الشام ثم مصر، و كانت خلافته تسعة أشهر. قال ابن حجر: وقد اعتمد حتى مالك على حديثه ورأيه. وقال المؤرخ ابن خلدون في مقدمته الشهيرة: «وكذلك كان مروان ابن الحكم وابنه -وإن كانوا ملوكا- لم يكن مذهبهم في الملك مذهب أهل البطالة والبغي. إنما كانوا متحرين لمقاصد الحق جهدهم، إلا في ضرورة تحملهم على بعضها، مثل خشية افتراق الكلمة الذي هو أهم لديهم من كل مقصد. يشهد لذلك ما كانوا عليه من الاتباع والاقتداء، وما علم السلف من أحوالهم ومقاصدهم. فقد احتج مالك في الموطأ بعمل عبد الملك. وأما مروان فكان من الطبقة الأولى من التابعين، وعدالتهم معروفة». وقال القاضي أبو بكر بن العربي عن مروان في "العواصم" (ص89): «رجل عدل من كبار الأمة عند الصحابة وفقهاء المسلمين».
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
ویسے اگر آنکھیں بند کر کہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اعتبار کیا جائے تو مروان کی شخصیت کچھ اس طرح بنتی ہے

1) امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے داماد تھے اور آپ رضہ پر اس کا غلبہ تھا یہاں کہ آپ ہر کام اسی کے کہنے پر کرتے تھے
2) دنیا اسلام میں جتنے فتنے اٹھے وہ سب اسی شخص کی وجہ سے تھے
2) یہ صحابہ کا گستاخ تھا
4) اسی نے طلحہ رضہ کو شہید کیا تھا
5) امیر المومنین عثمان رضہ پر اکثر الزامات اسی کے وجہ سے لگتے تھے
6) امیر المومنین علی رضہ سے یہ نفرت کرتا تھا
7) حسن رضہ کو پیغمبر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کرنے اسی سے نہ دیا
8) عبدالرحمن بن ابی بکر رضہ سے جھگڑ پڑا ان کو الفاظ نکالئ یہاں تک ام المومنین عائشہ رضہ کو اپنے بھائی کی صفائی دینا پڑی۔
9) حسین رضہ کو مدینہ میں قتل کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ مکہ چلے گئے
10) ابن زبیر رضہ کے خلاف بغاوت اسی نے کی تھی
واللہ اعلم
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حافظ ذہبی المغنی فی الضعفاءجلد 2،صفحہ651 میں لکھتے ہیں
مَرْوَان بن الحكم قَالَ البُخَارِيّ لم ير النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قلت هُوَ تَابِعِيّ لَهُ تِلْكَ الأفاعيل
مطلب یہ کہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں مروان ضعیف ہے،اسی طرح حافظ ذہبی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصائب اورمشکلات کا ذمہ دار بھی تاریخ الاسلام میں مروان کو ہی قراردیاہے،ویسے بھی مروان کی سوانح کا مجموعی جائزہ اسی جانب اشارہ کرتاہے۔
جہاں تک قاضی ابوبکر ابن عربی اور ابن خلدون کی بات ہے تو ان کا ابنوامیہ کا طرفدار ہونا مورخین کے نزدیک معروف ومشہور امر ہے لہذااس باب میں ضرورت ہے کہ غیرجانبدار مورخین کی آراء پیش کی جائیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ویسے اگر آنکھیں بند کر کہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اعتبار کیا جائے تو مروان کی شخصیت کچھ اس طرح بنتی ہے
آپ آنکھ کھول کر کسی فریق کیلئے جانبداری اور کسی بھی قسم کے تعصب سےبری ہوکر تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو اپنے الزامات میں سے کچھ کوضرور سچ پائیں گے۔
2) یہ صحابہ کا گستاخ تھا
بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
4) اسی نے طلحہ رضہ کو شہید کیا تھا
اس کی تاحال مجھے تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔
5) امیر المومنین عثمان رضہ پر اکثر الزامات اسی کے وجہ سے لگتے تھے
یہ بات توحافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔
6) امیر المومنین علی رضہ سے یہ نفرت کرتا تھا
اہل بیت کو معلون اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو برسرمنبر برابھلاکہنے کا ذکر حافظ ذہبی نے بھی کیاہے۔
7) حسن رضہ کو پیغمبر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کرنے اسی سے نہ دیا
یہ کوئی پوشیدہ بات تونہیں ہے۔
8) عبدالرحمن بن ابی بکر رضہ سے جھگڑ پڑا ان کو الفاظ نکالئ یہاں تک ام المومنین عائشہ رضہ کو اپنے بھائی کی صفائی دینا پڑی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے اس بات کا ذکر علامہ سید سلیمان ندوی نے حضرت عائشہ کی سوانح میں بھی کیاہے۔
9) حسین رضہ کو مدینہ میں قتل کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ مکہ چلے گئے
حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں جب وہ یزید کیلئے بیعت لے رہے تھے تواس وقت مروان مدینہ کا والی نہیں تھا بلکہ دوسراتھا،ہاں مروان نے اس وقت کے والی کو تحریض ضرور دلائی کہ حضرت حسین اورحضرت عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لی جائے اوران کو مہلت نہ دی جائے
10) ابن زبیر رضہ کے خلاف بغاوت اسی نے کی تھی
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جہاں تک قاضی ابوبکر ابن عربی اور ابن خلدون کی بات ہے تو ان کا ابنوامیہ کا طرفدار ہونا مورخین کے نزدیک معروف ومشہور امر ہے لہذااس باب میں ضرورت ہے کہ غیرجانبدار مورخین کی آراء پیش کی جائیں۔
بھائی تھریڈ موجود ہے ۔آپ غیر جانبدار مورخین کی آراء پیش فرمائیں ۔۔۔لیکن یاد رہے۔۔۔جرح و نقد کیلئے اصل حوالہ اوراس کا مستند ہونا شرط ہے۔
کسی کو الزام دینے کیلئے بنیادی شروط کا تو آپ کو علم ہی ہوگا ۔۔
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
تحقیق حدیث کے زمرے میں محترم عبد اللہ بن عبد الرشید بھائی نے یہ سوال کیا ہے :

الجواب :
مروان بن الحَكَم المُفترى عليه

بسم الله الرحمن الرحيم
چونکہ سائل خود ما شاء اللہ عربیت کا ذوق رکھتے ہیں ،اس لئے ترجمہ نہیں کیا ۔اگر ضرورت ہو تو بندہ حاضر ہے
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية القرشي الأموي المدني t، أبو عبد الملك و يقال أبو القاسم (الاسم القديم لعبد الملك) و يقال أبو الحكم. ولد عام 2 هـ على قول الجماهير، وقيل عام 3 أو 4 وهو ضعيف. رأى رسول الله r عام الفتح سنة 8 هـ وعمره 6 سنوات، فمنهم من عده صحابياً (مثل الذهبي وابن حجر) ومنهم من استصغر سنه عند الرؤية فجعله من كبار التابعين، ذلك لأن أباه ما لبث أن تحوّل إلى الطائف ولم يسكن بالمدينة. توفي سنة 65 هـ بدمشق. روى عن عدد من الصحابة منهم علي بن أبي طالب t. وروى عنه (أيام معاوية) سهل بن سعد وهو أكبر منه سنا وقدرا لأنه من الصحابة، وروى عنه عدد من أفاضل التابعين مثل علي بن الحسين (زين العابدين) وعروة بن الزبير وسعيد بن المسيب. وأخرج حديثه البخاري وأبو داود والترمذي (وصححه) والنسائي وابن ماجه، وهو ثقة بإجماعهم، وكان يُعَد من الفقهاء. نزل إلى المدينة بعد وفاة رسول الله r، و كان كاتباً لعثمان t، وحاول منع قتله. ثم شهد الجمل مع أم المؤمنين عائشة، ثم صفين مع معاوية t. ثم ولي إمرة الحجاز. وعاش معظم حياته في المدينة حتى أخرجه منها أنصار ابن الزبير t أيام خلافة يزيد، فخرج إلى الشام. و بويع له بالخلافة بعد موت معاوية بن يزيد بن معاوية بالجابية، فسيطر على الشام ثم مصر، و كانت خلافته تسعة أشهر. قال ابن حجر: وقد اعتمد حتى مالك على حديثه ورأيه. وقال المؤرخ ابن خلدون في مقدمته الشهيرة: «وكذلك كان مروان ابن الحكم وابنه -وإن كانوا ملوكا- لم يكن مذهبهم في الملك مذهب أهل البطالة والبغي. إنما كانوا متحرين لمقاصد الحق جهدهم، إلا في ضرورة تحملهم على بعضها، مثل خشية افتراق الكلمة الذي هو أهم لديهم من كل مقصد. يشهد لذلك ما كانوا عليه من الاتباع والاقتداء، وما علم السلف من أحوالهم ومقاصدهم. فقد احتج مالك في الموطأ بعمل عبد الملك. وأما مروان فكان من الطبقة الأولى من التابعين، وعدالتهم معروفة». وقال القاضي أبو بكر بن العربي عن مروان في "العواصم" (ص89): «رجل عدل من كبار الأمة عند الصحابة وفقهاء المسلمين».
الاخ محترم اسحاق السلفی
اللہ آپکے علم میں اضافہ کرے۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
"""9) حسین رضہ کو مدینہ میں قتل کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ مکہ چلے گئے
حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں جب وہ یزید کیلئے بیعت لے رہے تھے تواس وقت مروان مدینہ کا والی نہیں تھا بلکہ دوسراتھا،ہاں مروان نے اس وقت کے والی کو تحریض ضرور دلائی کہ حضرت حسین اورحضرت عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لی جائے اوران کو مہلت نہ دی جائے """
السلام علیکم
میں نے یہ چارج شیٹ پیش کی ہے جو اکثر مروان پر مختلف مواقع پر لگتی رہتی ہے اس سے کسی بھی صورت میری مراد نہیں کہ میں اس شیٹ کو پورہ کا پورہ صحیح سمجھتا ہوں۔۔ اسی لئے میں نے شروع میں ہی لکھا کہ گر آنکھیں بند کرکہ تاریخ پڑہیں ۔۔ یعنی بقول ابن خلدون کہ لکیر کے فقیر بن کر تاریخ پڑہیں تو مروان ایسا ہی ہے۔۔

"""9) حسین رضہ کو مدینہ میں قتل کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ مکہ چلے گئے
میرہ اشارہ یزید کی خلافت کے ٹائم تھا تاریخ کی بعض روایت میں آتا ہے کہ جب یزید نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ ابن زبیر رضہ و حسین رضہ سے بیعت لے تو یہ مروان کو لے کر حسین رضہ کے پاس آئے ۔۔ وہیں پر جب حسین رضہ و ولید کے جب ختم ہوئی تو باہر مروان نے ایسا مشورہ دیا تھا ۔

یہ تاریخ ابن کثیر جلد 8 میں 60 ہجری بیعت یزید میں موجود ہے
فَلَمَّا أَتَاهُ نَعْيُ مُعَاوِيَةَ فَظِعَ بِهِ وكَبرُ عَلَيْهِ، فَبَعَثَ إِلَى مَرْوَانَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَاسْتَشَارَهُ فِي أَمْرِ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ، فَقَالَ: أَرَى أَنْ تَدْعُوَهُمْ قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِمَوْتِ مُعَاوِيَةَ إِلَى الْبَيْعَةِ (3) ، فَإِنْ أَبَوْا ضُرِبَتْ أَعْنَاقُهُمْ

فَقَالَ مَرْوَانُ لِلْوَلِيدِ: وَاللَّهِ لَئِنْ فَارَقَكَ وَلَمْ يُبَايِعِ السَّاعَةَ لَيَكْثُرَنَّ الْقَتْلُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ، فَاحْبِسْهُ وَلَا تُخْرِجْهُ حَتَّى يُبَايِعَ وَإِلَّا ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، فَنَهَضَ الْحُسَيْنُ وقال: يا بن الزَّرْقَاءِ أَنْتَ تَقْتُلُنِي؟ كَذَبْتَ وَاللَّهِ وَأَثِمْتَ.ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى دَارِهِ، فَقَالَ مَرْوَانُ لِلْوَلِيدِ: وَاللَّهِ لَا تَرَاهُ بَعْدَهَا أَبَدًا.فَقَالَ الْوَلِيدُ: وَاللَّهِ يَا مَرْوَانُ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَأَنِّي قَتَلْتُ الْحُسَيْنَ، سُبْحَانَ اللَّهِ! أقتل حسيناً أن قاللَا أُبَايِعُ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّ أَنَّ مَنْ يَقْتُلُ الْحُسَيْنَ يَكُونُ خَفِيفَ الْمِيزَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
حافظ ذہبی المغنی فی الضعفاءجلد 2،صفحہ651 میں لکھتے ہیں
مَرْوَان بن الحكم قَالَ البُخَارِيّ لم ير النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قلت هُوَ تَابِعِيّ لَهُ تِلْكَ الأفاعيل
مطلب یہ کہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں مروان ضعیف ہے،اسی طرح حافظ ذہبی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصائب اورمشکلات کا ذمہ دار بھی تاریخ الاسلام میں مروان کو ہی قراردیاہے،ویسے بھی مروان کی سوانح کا مجموعی جائزہ اسی جانب اشارہ کرتاہے۔
جہاں تک قاضی ابوبکر ابن عربی اور ابن خلدون کی بات ہے تو ان کا ابنوامیہ کا طرفدار ہونا مورخین کے نزدیک معروف ومشہور امر ہے لہذااس باب میں ضرورت ہے کہ غیرجانبدار مورخین کی آراء پیش کی جائیں۔

ویسے اگر آنکھیں بند کر کہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اعتبار کیا جائے تو مروان کی شخصیت کچھ اس طرح بنتی ہے
آپ آنکھ کھول کر کسی فریق کیلئے جانبداری اور کسی بھی قسم کے تعصب سےبری ہوکر تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو اپنے الزامات میں سے کچھ کوضرور سچ پائیں گے۔
2) یہ صحابہ کا گستاخ تھا
بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
4) اسی نے طلحہ رضہ کو شہید کیا تھا
اس کی تاحال مجھے تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔
5) امیر المومنین عثمان رضہ پر اکثر الزامات اسی کے وجہ سے لگتے تھے
یہ بات توحافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔
6) امیر المومنین علی رضہ سے یہ نفرت کرتا تھا
اہل بیت کو معلون اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو برسرمنبر برابھلاکہنے کا ذکر حافظ ذہبی نے بھی کیاہے۔
7) حسن رضہ کو پیغمبر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کرنے اسی سے نہ دیا
یہ کوئی پوشیدہ بات تونہیں ہے۔
8) عبدالرحمن بن ابی بکر رضہ سے جھگڑ پڑا ان کو الفاظ نکالئ یہاں تک ام المومنین عائشہ رضہ کو اپنے بھائی کی صفائی دینا پڑی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے اس بات کا ذکر علامہ سید سلیمان ندوی نے حضرت عائشہ کی سوانح میں بھی کیاہے۔
9) حسین رضہ کو مدینہ میں قتل کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ مکہ چلے گئے
حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں جب وہ یزید کیلئے بیعت لے رہے تھے تواس وقت مروان مدینہ کا والی نہیں تھا بلکہ دوسراتھا،ہاں مروان نے اس وقت کے والی کو تحریض ضرور دلائی کہ حضرت حسین اورحضرت عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لی جائے اوران کو مہلت نہ دی جائے
10) ابن زبیر رضہ کے خلاف بغاوت اسی نے کی تھی
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔
۔

دراصل میری نظر سے چند ایسی روایات گزریں جو مروان کے متعلق مندرجہ بالا سطور کا کچھ نہ کچھ صادق آنا لازم کرتی ہیں۔
مثلا یہ روایت ملاحظہ کریں:


المصدر: مسائل الإمام أحمد(كتاب العلل ومعرفة الرجال)
المجلد: الثالث
الصفحة: ١٧٦
برقم :٤٧٨١
حدثني أبي قال,حدثنا اسماعيل قال حدثنا إبن عون عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة ثم عزل ثم استعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم أعيد مروان فكان يسبه .


يقول المحقق الدكتور /وصي الله بن محمد عباس : إسناده صحيح والله المستعان.
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top