• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروّجہ محفل قراء ت…ناقدانہ جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیساکہ شیخ العرب والعجم حضرت قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ ’فوائد مکیہ‘ ص۴ پر لکھتے ہیں کہ:
’’خوش آوازی سے پڑھنا امر زائد مستحسن ہے اگر قواعد تجوید کے خلاف نہ ہو ورنہ مکروہ اگر لحن خفی لازم آئے اور اگر لحن جلی لازم آئے تو حرام ممنوع ہے پڑھنا اور سننادونوں کا ایک حکم ہے۔‘‘
قاری محمد شریف رحمہ اللہ توضیحات مرضیہ میں ص۱۲ پر لکھتے ہیں کہ :
’’اگر قاری کی بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی وجہ سے خود خوش آوازی ہی قواعد تجوید کے بگڑنے اور لحن کے پیدا ہونے کا سبب بن جائے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس خوش آوازی کو ممنوع اور حرام یا مکروہ قرار دیا جائے گا اور اگر سننے والے کی نیت حصول ثواب کی ہو تو سننا بھی ناجائز ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری صاحب معلّم التجوید ص۲۴۰ پر لکھتے ہیں کہ:
’’بعض لوگوں نے اپنی خوش آوازی اور لہجہ کے ذریعہ لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور ان کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرانے کی غرض سے خواہ مخواہ تکلف کرکے لہجہ میں طرح طرح کی چیزیں ایجاد کرلی ہیں جو بہت ہی نامناسب اور معیوب ہیں۔‘‘
قاری عبدالخالق رحمہ اللہ تیسیر التجویدص۹ پر لکھتے ہیں کہ:’’اگر ایسے لہجہ اور خوش آوازی میںمحو ہوا کہ مخارج وصفات حروف کا خیال نہ رکھا اورلحن جلی لازم آگیا تو ایسا پڑھنا ناجائز ہے اور اگر لحن خفی لازم آیا تو مکروہ ہے۔‘‘
ص۱۰ پر افسوس کے طور پر لکھتے ہیں کہ:’’آج کل لوگوں نے مقصود بالذات خوش آوازی اور لہجہ کو بنا رکھا ہے اور تجوید کی بالکل رعایت نہیں کرتے حتیٰ کہ بعض معلمین کو بھی اس کا احساس نہیں، وہ شروع ہی سے لہجہ کی مشق کرانے لگتے ہیں حالانکہ پہلے مخارج حروف اورصفات لازمہ کی تعلیم دینا امر ضروری ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ اپنے رسالہ محافل قراء ات ص ۱۶ پر لکھتے ہیں کہ:
’’خوش آوازی کی دو صورتیں ہیں ایک حروف و حرکات و صفات کے قاعدوں کے اندر رہ کر خوش آوازی کرنا یہ قرآن مجید میں ثواب ہے۔ دوسرا یہ کہ قاعدوں سے باہر کرکے کھینچ کھینچ کر حرفوں اور حرکتوں کو کئی گنا کرکے سُر پیدا کرنا یہ گانا ہے… اس (دوسری صورت ) کو گناہ کہنا درست ہوگا۔‘‘
زمانہ خیر القرون کے بعد سے آج تک بعض نام نہاد اور پیشہ ور قراء نے قراء ت میں کچھ ایسی اشیاء کااضافہ کردیا ہے کہ تجوید و قراء ت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔استاذ القراء حضرت قاری محمد اسماعیل الکندوی(شاہ عالمی لاہور) تفہیم التجوید ص۹۱ پر لکھتے ہیں کہ
’’جاننا چاہیے کہ زمانہ خیر القرون کے بعد بعض لوگوں نے قرآن کریم کی قراء ت میں کچھ اس قسم کی اشیاء کااضافہ کیا ہے اور راگ و سُر کی آوازیں اس میں داخل کی ہیں جن کا تجوید و قراء ت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر فی زمانہ بعض خود رو مجودین، نام نہاد قراء اور پیشہ ور واعظ ایسی اَصوات و کیفیات کو تلاوت قرآن میں شامل کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، کلام اللہ کو موسیقاروں کی طرح موسیقی اور مغنیوں کی طرح سینماؤں کے گانے کی طرز پر پڑھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کتاب اللہ کا حق ادا کررہے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً خود رو، خود ساختہ اور قراء ت فروش قراء ہوتے ہیں یا وہ مدعی قراء ت وعظ فروش علماء جو محافل و مجالس میں پڑھتے ہیں اور لہجہ بازی کے نشہ میں حروفِ قرآنی کا حلیہ بگاڑ کر سامعین سے داد لینے کے متمنی ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف و توصیف کی جائے اور انہیں کسی اچھے لقب و خطاب سے نوازا جائے۔ پھر غضب خدا کا یہ کہ گا گا کر جس قدر بگاڑا جائے اسے قراء تِ سبعہ کی طرف منسوب کیا جاتاہے اور بلا خوف وخطر کہا جاتا ہے کہ ہم تو سبعہ میں پڑھ رہے ہیں۔ العیاذ باﷲ گویاہر عیب و غلطی بے قاعدگی اور ہر نئی چیز کا اِدخال فی القرآن کا نام قراء ت سبعہ رکھ دیا گیاہے اور جملہ خود ساختہ خرافات کا مجموعہ قراء ات سبعہ تصور کرلیا گیا ہے پس ایسے ہی خود رو اور خود ساختہ قراء کے متعلق فرمایا گیا: رب قاری للقرآن والقرآن یلعنہ
اور مجالس و محافل میں ایسے ہی مجتہد قراء کے بارے میں علامہ رفاعی رحمہ اللہ کا شعر نہایت ہی موزوں ہے۔
رب تال تل القرآن مجتھدا
بین الخلائق والقرآن یلعنہ​
’’اکثر پڑھنے والے بین المحافل مجتہدانہ شان میں بناؤ سنگار سے قرآن پڑھتے ہیں اور حال یہ ہے کہ قرآن کا ایک ایک حرف ان پر لعنت کرتا رہتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٧) قراء کو حروفِ مفخمہ میں ہونٹ گول نہیں کرنے چاہئیں۔حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تیسیر التجوید کے حاشیہ ص۲۴ پر لکھتے ہیں کہ ’’ہونٹوں کو گول کرکے حروف مفخمہ کی تفخیماَداکرنا غلط ہے۔ فنی لحاظ سے ایسی ادا قابل اعتراض ہے۔‘‘
قاری عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ تیسیر التجوید ص۳۰ پر لکھتے ہیں کہ
’’حروفِ مستعلیہ میں تفخیم اتنی نہ کی جائے کہ واؤ کی بو یا صاف واؤ کی زیادتی معلوم ہو، کیونکہ یہ اہل فن کے طریقہ کے خلاف ہے۔ غرضیکہ تفخیم میں ہونٹوں کوبالکل دخل نہیں۔‘‘
قاری عبدالرحمن صاحب رحمہ اللہ فوائد مکیۃص۲۱ پر تحریر فرماتے ہیں کہ
’’حروفمفخم کے فتحہ کو مانند ضمہ کے اور اس کے بعد کے الف کو مانند واؤ کے پڑھنا بالکل خلاف اصل ہے … یہ خلافِ قاعدہ ہے۔ یہ افراط و تفریط کلامِ عرب میں نہیں اہل عجم کاطریقہ ہے۔‘‘
(١٨) قراء کوبلا تکلف پڑھنا چاہیے کسی قسم کا تکلف یا تصنع نہ ہونا چاہئے۔ حضرت قاری محمدشریف رحمہ اللہ معلّم التجوید ص۵۰ پر فرماتے ہیں کہ:
’’تکلیف سے مراد یہ ہے کہ قاری کے چہرے سے پڑھتے وقت گرانی کے آثار ظاہر ہوں، مثلاً پیشانی پر شکن پڑنا، جلد جلد پلکیں گرانا، زور سے آنکھیں بند کرنا، ناک کا پھولنا، منہ کاٹیڑھا ہونا اور جن حرفوں کی ادائیگی میں ہونٹوں کو دخل نہیں ان کے ادا کرنے میں ہونٹوں کو گول کرنا یاخواہ مخواہ حرکت دینا یہ تمام باتیں معیوب ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام القراء حضرت قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تعلیقات مالکیہ ص۴ پر لکھتے ہیں کہ:
’’نیز ادائیگی حروف میں اس کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کسی قسم کا تکلف اور تصنع نہ ہو، مثلاً زائد از ضرورت ہونٹوں کا حرکت کرنا یا منہ ٹیڑھا ہونا یا چہرہ سے گرانی یا پریشانی کا ظاہر ہونا جلد جلد پلکوں کا بند ہونا یا ناک کا پھولنا یا پیشانی پر شکن پڑنا وغیرہ۔ غرض یہ کہ ان سب تکلفات سے بچتے ہوئے مکمل طور پر لطافت کے ساتھ اَدائیگی حروف ہونا چاہئے۔‘‘ اسی امر کی طرف علامہ جزری رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔
مکملا من غیر ما تکلف
باللطف فی النطق بلا تعسف​
حضرت مولانا سید حامد میاں رحمہ اللہ’سوانح امام القراء‘ ص۱۳۲ میں لکھتے ہیں کہ آپ کو (قاری عبدالمالک رحمہ اللہ) اس چیز سے سخت کراہت تھی کہ تلاوت کے وقت طالب علم کسی قسم کا منہ بنائے یاپیشانی پر بل ڈالے ان کی ابتدائی تربیت ہی میں ان عادتوں کی بھی اِصلاح کردی جاتی تھی اور جب وہ پڑھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ بے تکلف پڑھ رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٩) ایک غلطی جو عام ہورہی ہے وہ یہ کہ ک اور ت میں ہا کی آواز پیدا کی جارہی ہے جس سے ک، کھ اورت ، تھ ہوجاتا ہے اور یہ دونوں حروف غیر عربی ہوجاتے ہیں اور لحن جلی کی وجہ سے پڑھنے اور سننے والے دونوں گناہگار ہوتے ہیں۔ قراء کرام کو اس سے بچنا چاہئے۔
شیخ العرب والعجم حضرت قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ فوائد مکیۃص۳۰ پر رقم طراز ہیں:
’’ایسا ہی سکون کامل کرنا چاہئے تاکہ مشابہ حرکت کے نہ ہوجائیں اور اس سے بچنے کی صور ت یہ ہے کہ ساکن حرف کی صوت مخرج میں بند ہوجائے اور اس کے بعد ہی دوسرا حرف نکلے اور اگر دوسرے حرف کے ظاہر ہونے سے پہلے مخرج میں جنبش ہوگئی تو لامحالہ یہ سکون حرکت کے مشابہ ہوجائے گا۔‘‘
ص ۳۱ پر لکھتے ہیں کہ کاف تاء میں جنبش ہوتی ہے اس میں ہـ کی یاس یا ث کی بونہ آنی چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٠) قراء کرام کو وقف و ابتداء کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ غلط وقف یا ابتداء و اعادہ کی وجہ سے معنی غیر مراد کا ایہام لازم نہ آئے۔
امام القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ وقف و ابتداء کے بارے تعلیقات مالکیہ ص ۳۹ پر تحریر فرماتے ہیں کہ … جب امام عاصم کا مذہب معلوم ہوگیا تو اب روایت حفص میں تلاوت کرنے والوں کو اتباعاً للامام وقف اور ابتداء میں اتمام کلام بحسب المعنی کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے خصوصاً ایک قاری مقری ذمہ دار کے لیے کہ اس کاالتزام نہ کرنے اور اس کے خلاف کرنے سے یہ نقصان اور خرابی ہوگی کہ وہ طلبہ جو اس سے اَخذ کررہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ان کی نظر میں اس چیز کی اہمیت اور ضرورت نہ رہے گی اور وقف و ابتداء کے مسئلہ میں عملاً وہ شتر بے مہار کی طرح آزاد ہوجائیں گے اور اس کوتاہی کاسلسلہ آئندہ ان فارغین کے تلامذہ میں بھی جاری و ساری رہے گا جس کی تمام تر ذمہ داری قاری مقری پر عائد ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر آگے اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ
’’اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جب اعادہ اور ابتداء میں قاری مقری کو کلام کے ربط وغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے تو بوقت افتتاح تلاوت خصوصاً مجالس میں کسی ایسی جگہ سے شروع نہ کرنا چاہئے کہ سامعین کو تفہیم معنی میں کسی ماقبل کے مضمون متعلقہ کا انتظار رہے مثلاً إنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ اور لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّھُمْ فِیْھَا لَا یَسْمَعُوْنَ اور ذَلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وغیرہ سے افتتاح تلاوت کرناکہ مواضع اولین میں سامعین کو ضمائر کے مرجع کی تلاش اور فکر رہے گی اور موضع ثالث میں ذلک کا مشار الیہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
مدرسہ تجوید القرآن لاہورکا سالانہ جلسہ تھا ایک نوجوان خوش گلوقاری نے آل عمران میں ’’وَامْرَأتِیْ عَاقِرٌ قَالَ کَذَلِکَ اﷲُ‘‘پڑھتے ہوئے لفظ ’اللہ‘پر وقف کیا۔ تلاوت ختم ہوئی تو حضرت قاری رحمہ اللہ نے قاری کو تنبیہ کی اور فرمایا تمہارے اس بے موقعہ وقف سے تلاوت کا سارا لطف جاتارہا، کیونکہ وَامْرَأتِیْ عَاقِرٌ کے جواب میں قَالَ کَذَلِکَ اﷲُ مطلب ہوا کہ اگر بیوی عاقر ہے تو کوئی بات نہیں نعوذ باﷲ، اللہ بھی ایسا ہی ہے۔ (سوانح امام القراء ص۱۰۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢١) قراء کرام کو اپنے اسلاف کے طریقے پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے جب ہم کتابیں ان کی پڑھاتے ہیں اورسند میں ان کا نام واسطے کے طور پر لکھتے ہیں تو ان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہمیں کیوں عار ہے؟ یا تو ان کی کتابیں پڑھاناچھوڑ دیں اور نیا نظام تعلیم مرتب کریں جس میں نئی ایجادات ہی کو تجوید کے طور پر پڑھائیں اور سند کے واسطے میں ان کے نام ہٹا دیں اورنعرہ لگا دیں کہ ’’نہ تو میرا استاد نہ میں تیرا شاگرد‘‘ پھر تو ٹھیک بصورت ِ دیگر ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے شاگردوں کو جو کتب تجوید کا سبق پڑھاتے ہیں اس میں اور اپنی قراء ت میں مطابقت پیداکریں۔
(٢٢) عرب قراء کی نقل کرتے ہوئے ہمیں عقل سے کام لیناچاہئے، کیونکہ نقل کیلئے عقل چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ معیارِ صحت صرف محققین قراء کا کلام اور تلفظ ہی بن سکتا ہے عام قراء عرب کا نہیں،کیونکہ ان کے تلفظ میں عجم کے اختلاط کی وجہ سے خاصی تبدیلی آچکی ہے مثلاً ج کو گ پڑھنا، ث کو ت پڑھنا، تکو تھ پڑھنا، ک کو کھ پڑھنا،ضکو د پڑھنا ان میں عام ہوچکا ہے اور گ ، تھ اور کھ عجمی حروف ہیں نہ کہ عربی۔
استادیم حضرت قاری تقی الاسلام صاحب مدظلہ، سوانح امام القراء میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ (قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے) فرمایا کہ عرب تجوید کی بہت غلطیاں کرنے لگے ہیں اور تکلف و بناوٹ کرتے ہیں مجھے ان میں کام کرناچاہیے مگر حضرت کا اسی سال وصال ہوگیا ارادہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مصری قاری صاحب کے متعلق امام القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت ان کی تلاوت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے کچھ تامل کے بعد فرمایا : ’’بلاشک آواز اور سانس کے بادشاہ ہیں، لیکن ان کی تلاوت میں بے شمار فنی تسامحات موجود ہیں۔‘‘(سوانح إمام القراء ص۳۴)
حضرت قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تعلیقات مالکیہ ص۲۰ پر تحریرفرماتے ہیں کہ:
’’آج کل اختلاط عجم سے بڑا انقلاب اور تغیر عام تلفظ میں ہوگیا ہے جیسا کہ تجربہ شاہد ہے۔‘‘
حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تیسیر التجویدکے حاشیہ ص۱۳ پر لکھتے ہیں کہ
’’اس میں شک نہیں کہ اہل مصر و عرب کے بہت سے حرفوں کی اَدانہایت عمدہ اور قابل رشک ہوتی ہے مگر بکثرت امالۂ کبریٰ و صغریٰ میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ کبریٰ میں الف کو بالکل یاء سے بدل دیتے ہیں اور صغریٰ میں اس قدر جھکاؤ ہوتا ہے کہ وہ صاف امالۂ کبریٰ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
اور پھر ص۱۸ پر لکھتے ہیں : ’’موجودہ دور کے اہل عرب کے تلفظ (ضاد) سے استدلال کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل عرب کا تلفظ بجائے خود صحیح نہیں۔‘‘
 
Top