محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىكِ وَطَہَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ۴۲ يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۴۳ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۰ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ۰۠ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۴۴
اور جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم! اللہ نے تجھے پسند کیا اور تجھے پاک کیا اور جہان کی عورتوں پر تجھے برگزیدہ کیا۔۱؎(۴۲) اے مریم! اپنے رب کی فرمانبرداری کر اور سجدہ کیا کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کر۔(۴۳) یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو ہم بذریعہ وحی تجھے بتلاتے ہیں، حالانکہ تو ان کے پاس حاضر نہ تھا جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم( علیہا السلام) کو کون پالے اور تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ جھگڑ رہے تھے۔۲؎(۴۴)
۱؎ حدیث شریف میں آیا ہے ۔ مکمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران واٰسیۃ امرأۃ فرعون وفضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی الطعام۔(مجتبائی ص ۴۲) یعنی مردوں میں سے توبہتیرے درجۂ کمال تک فائز ہوئے ہیں مگرعورتوں میں مریم علیہا السلام، آسیہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہاکے سوا اور کوئی اس فضیلت کو حاصل نہیں کرسکی۔ دوسری حدیث میں حضرت خدیجہ اورحضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نام بھی آیا ہے ۔ مقصدیہ ہے کہ ہرزمانے میں حالات واستعداد کے مطابق عورتیں بھی کمال وفضل سے بہرہ ٔ وافر حاصل کرسکتی ہیں۔ اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے۔بالخصوص حضرت مریم علیہا السلام کی تقدیس وتطہیر اس لیے فرمائی کہ یہود ان کی نسبت نہایت ہی ناپاک خیالات رکھتے تھے۔ یہ قرآن حکیم کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت مریم علیہا السلام کے دامن عفت کو ہرآلودگی سے پاک رکھا۔اصطفاء کا نقطہ قرآن حکیم میں خاص انتخاب یا اہم خدمات کے لیے چن لینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔حضرت مریم ؑکے متعلق اس آیت میں دودفعہ اصطفاء کا لفظ آیا ہے ۔ پہلے اصطفاء سے مراد ذاتی فضائل کا اظہار ہے دوسرے سے مقصود یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی والدہ ہونے کا شرف حاصل کرنا بجز مریم کاملہ علیہا السلام کے اور کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ آپ نے محض اللہ کے لیے ہرنوع کی گستاخیوں اور ملامتوں کو برداشت کیا۔ صرف اللہ کے دین کی خدمت کے لیے دلخراش طعنوں کو سنا۔مریم کاملہ علیہا السلام
۲؎ ذالک من انبآء الغیب کہہ کر قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہ قصے بطور دلیل وبرہان کے بیان کیےگیے ہیں۔ غور کرو سینکڑوں برس پہلے کے واقعات جن پر تصحیف وتحریف کے کئی پردے پڑ چکے ہیں۔ کس طریق پر ایک اُمّی کے منہ سے واشگاف طورپر ظاہر ہورہے ہیں۔ کیا یہ حضورﷺ کی نبوت پر زبردست دلیل نہیں؟قصوں کا مقصد
{اَنْبآء} واحد نَبَآء ۔ خبر۔ واقعہ{یَکْفُلُ} ضمانت میں لے۔حل لغات