• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مزارات پر دھماکے کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں (شیخ توصیف الرحمن راشدی)

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی بیان کرنا ضروری ہے ۔

فتح مکہ کے بعد حبیب اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اونچی قبر کو صرف بالشت بھر زمین سے ابھرا ہوا چھوڑ دیں ، باقی مٹا دیں ۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ پھر انہوں نے حضرت ابو الھیاج الاسدی کو اسی کام کے لیے بھیجا ۔ اب اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کچھ لوگ برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کی مخالفت درست نہیں ۔
مذکورہ حدیث :
صحیح مسلم (۹۶۹) ابو الہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھے علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
''کیا میں تمھیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ وہ یہ کہ جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برابر کردو۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی بیان کرنا ضروری ہے ۔

فتح مکہ کے بعد حبیب اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اونچی قبر کو صرف بالشت بھر زمین سے ابھرا ہوا چھوڑ دیں ، باقی مٹا دیں ۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ پھر انہوں نے حضرت ابو الھیاج الاسدی کو اسی کام کے لیے بھیجا ۔ اب اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کچھ لوگ برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کی مخالفت درست نہیں ۔
مذکورہ حدیث :
صحیح مسلم (۹۶۹) ابو الہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھے علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
''کیا میں تمھیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ وہ یہ کہ جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برابر کردو۔''
آپ کا اس روایت سے خود کش حملے پر استدلال درست نہیں، دو باتوں پر غور کریں:
  1. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا
  2. کہ وہ ہر اونچی قبر کو صرف بالشت بھر زمین سے ابھرا ہوا چھوڑ دیں ، باقی مٹا دیں
پہلی بات پر غور کریں تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو، اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکمران تھے، یعنی یہ حکم ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دیا گیا تھا۔
دوسری بات پر غور کریں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام اونچی قبروں کو مٹا کر بالشت بھر کر دیا تھا، نہ کہ قبروں کے پاس موجود لوگوں کو بھی قتل کر دیا تھا۔

جبکہ خودکش دھماکہ اگر تو آپ کی تنظیم نہیں کرتی تو دیگر ملک دشمن تنظیموں کے اس عمل کا ایک روایت سے استدلال پیش کرنا محل نظر ہے، اور اگرچہ آپ کی تنظیم ہی یہ کام کرتی ہے تو بھی یہ درست نہیں، کیونکہ ابھی آپ کی تنظیم کی اس ملک پر حکومت قائم نہیں ہے۔چونکہ حکومت پاکستان کے حکمران خود بدعقیدہ اور گمراہ لوگ ہیں، لہذا پہلے ان کی جگہ نیک صالح حکمران کو لانے کی کوشش کی جائے جو ملک کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے۔اسلامی اصولوں کے مطابق ملک پر حکومت کرنے والا حکمران خود ہی ان مزاروں اور شرک کے اڈوں کو مسمار کر دے گا۔ ان شاءاللہ
دوسرا اگر آپ یہاں میری اس بات سے متفق نہ ہوں کہ یہاں اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر بھی مزاروں کو ختم کیا جا سکتا ہے، تو بھی مزاروں کو تو ختم کیا جا سکتا ہے، لیکن وہاں موجود لوگوں کو ناحق قتل نہیں کیا جا سکتا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ایک اور سوال عقلمندوں کے لئے آج کل پاکستان کے اندر ایک وبا چلی ہوئی ہےدرباروں پہ خودکش حملے ہورہے ہیں درباروں پہ خودکش حملہ کرنے والوں کا یہ عمل نہ ثواب ہے نہ جہاد ہے نہ ان کے اس عمل اسلام سے دور کا رشتہ ہے اور ہم تویہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے والے مسلمان ہوسکتے نہیں یہ غیروں کے ایجنٹ ہیں جو یہ کا م کررہے ہیں اسلام نے یہ تعلیم نہیں دی وہاں پر عامۃ الناس آئی ہوئی ہے معصوم بچے ہیں عورتیں ہیں ان پہ بم برساناوہاں خودکش حملے کرناان کو قتل کرنا یہ کون سا اسلام ہے ارے جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طاقت نہیں تھی کیا بیت اللہ میں نبی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہاں پر بت موجود نہیں تھے جب تک طاقت نہیں ہاتھ روک کر رکھااور جب طاقت آئی پھر ان بتوں کو ختم کیا ان بتوں کو توڑا دربار پہ آنے والے قبروں پہ سجدہ کرنے والے ان کو مشکل کشا کہنے والے ضرور شرک کررہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں وہ شرک کررہے ہیں لیکن یہ کون سا اسلام ہے کہ آپ ان کو آپ کے ذمے ہاتھ سے روکنانہیں زبان سے دعوت دینا ہے ہاتھ سے روکنے کا کام اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کو اللہ حکومت دیا کرتا ہے آپ کو تو نیکی کی دعوت دینے کا حکم ہے۔برائی سے روکنے کا حکم ہے لیکن وہاں پر معصوم بچوں پر بم حملے خودکش حملے یہ اسلام نہیں ہے اسلام کی سفید چادر پہ گندہ۔۔۔لیکن سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں جب یہ خودکش حملہ کرنے کے لیےوہاں پر آتا ہے ۔
ہمارے محترم بھائی ارسلان ملک حفظہ اللہ کی خدمت میں۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی یہ تقریر مکمل طور پر ملت ابراہیم سے انحراف کا نمونہ ہے۔اگر ہم اس تقریر میں سے خودکش حملوں کا ذکر ہٹا کر بھی بات کریں تو ہمارا موقف قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں مضبوط ہے ۔ محترم بھائی آج پاکستان میں اللہ نے جن لوگوں کو حکومت دی ہوئی ہے انہوں ہی نے ان مزارات اور قبوں مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔ انہی حکمرانوں نے ان مزارات کو سجایا ہے ۔مشرکین کے لئے ان مزارات کی پوجاپاٹ کو آسان بنایا ہے۔مشرکین کو وہ تمام سہولتیں ان حکمرانوں نے ان مزارات پر دی ہیں ۔جس طرح سعودی عرب کے حکمران حجاج کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ ہمارا کام صرف دعوت دینے کا حکم ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک مومن کو تو یہی نصیحت کی تھی تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے ایسا کرے اور زبان سے بھی کہنے کی طاقت نہیں ہے دل میں برا جانے یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔اب مجھے بتائیں کہ اگر کوئی مومن کسی بت پرستی کو دیکھتا ہے اور اس میں اس بت پرستی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہے تو کیا وہ اس بت پرستی کوہاتھ سے نہیں مٹائےگا؟؟؟؟میرے بھائی حکومت میں تو شرک کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اور اس نے تو ان مزارات کو پکا ٹھوس اور مستحکم کیا ہے۔اس کو باقاعدہ حکومت کی سپورٹ کے ساتھ چلایا جارہا ہے اس کے لئے تو انہوں نے محکمہ اوقاف کو تشکیل دیا ہوا ہے ۔ بتوں پر نذرانوں کی صندوقچیاں رکھی ہیں جو کہ ان مشرک حکومتوں کے خزانوں میں جمع ہوتے ہیں اور ان نذرانوں کی وصولیابی کا باقاعدہ حساب وکتاب رکھا جاتا ہے۔اب مجھے بتلائیے کہ کون سی وہ حکومت ہوگی جو ان بتوں کو توڑے گی ان پر ہونے والے عرسوں اور میلوں کو ختم کرے گی ؟؟؟لہٰذا اس ملک کے مزارات اورجو کہ بت کی شکل اختیار کرچکے ہیں ان کو اسی طرح توڑنا ہوگا جس طرح سے مجاہدین اسلام نے صومالیہ مالی اور دیگر اسلامی خطوں میں ان کو مسمار کیا ہے ۔ لہٰذا اس بات کا انتظار کرنا کہ یہ مشرک حکومتیں ان مزارات پر ہونے والی بت پرستی کو ختم کریں گی عبث ہے۔بہت دور کی بات ہے۔یہ حکمران تو انہی بتوں پر نذرانے چڑھا کر اور ان بتوں پر منتیں مان کر تو الیکشن لڑتے ہیں اور جینتے کے بعد وہ اپنی منتوں کو ان مزارات کو پختہ اور مزید ترقی دے کر پوری کرتے ہیں ۔ تو ان حالات میں شیخ توصیف الرحمان الراشدی کا یہ نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔دراصل اس نظریےکو اختیارکرنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے ۔ان بتوں کو بچانے کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔ اور وہ باطل مقصد ہے بتوں کی محافظ حکومتوں کو مجاہدین کے قہر وغضب سے بچانا ۔جب یہ دعوت عام کردی جائے گی کہ ایک مسلمان کا کام صرف اور صرف دعوت دینا ہے تو وہ زندگی بھر تبلیغی جماعت کی طرح دعوت ہی دیتا رہے گا۔بس صرف زبان ہی ہلاتا رہے رگا خواہ اس کے سامنے تمام اسلامی ممالک ایک ایک کرکے صلیبیوں کی بھینٹ چڑھ جائیں۔خیر سے اب تو ان جماعتوں کی ابتداء اہلحدیثوں میں شروع ہوچکی ہے۔اور ہاتھ سے منکرات کو روکنے سے منع کرنے کا مطلب واضح طور پر عوام الناس کو جہاد سے دور کرنا ہے ۔مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ بتوں کی محافظ حکومتوں کو حمایت فراہم کرنا ہے ۔ان کو آکسیجن دیتے رہنا ہے تاکہ پانچ سال تک ایک بت پرست حکومت بتوں کی خدمت کرتی اس کے بعد اگلے پانچ سالوں تک دوسری بت پرست حکومت ان مزاروں پر نصب بتوں کی حفاظت کرتی رہے ۔ان کو آکسیجن فراہم کرتی ہے ۔ اور امت کے ابطال اسی طرح طاقت اور قوت کے ہونے کے باوجود گلاپھاڑ پھاڑ کر حق بیان کرتے کرتے بوڑھے ہوکر مرجائیں ۔ہمیں حیرت ہے ان علماء پر کیا ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج کا پتہ نہیں ؟ کہ کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا تھا جس چیز کو قرآن روکے اور لوگ نہ رکیں تو ہم اپنے تلواروں سے انہیں روکیں گے ۔اب جب اس ملک میں سالوں گزگئے اور لوگ اسی بت پرستی کے سائے تلے جی رہے ہیں ۔ نام نہادی سلفی جماعتوں کے بزعم خود جہادی قافلے پاکستان سے ہندوستان میں داخل کردیے جاتے ہیں لیکن یہ تمام جہادی قافلے مزارات پر نصب انہی بتوں کے سائے تلے گزرتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نام نہاد جہادی کے چہرے پر ان مزارات کو دیکھ کر ناگواری کی لہر دیکھی جاسکے ۔اس بات کا قرآن کریم نے کیا خوب ہی نقشہ کھینچا ہے:أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ(اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے(القمر:۴۳)
لہٰذا میرے بھائی سوچیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے کیونکہ کل کو ہم نے اللہ کے پاس تنہا اس سے ملاقات کرنی ہے اللہ کےاور ہمارے مابین کوئی ترجمان بھی نہ ہوگا۔اگر وہاں اللہ نے سوال کرلیا کہ تمہارے پاس جب اس بت پرستی کوہاتھ سے روکنے کی طاقت تھی تو تم نے اس بت پرستی کوہاتھ سے کیوں نہ روکا ۔اس برائی کو ہاتھ سے کیوں نہ روکا؟
شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی اسی تقریر میں یہ بات بیان کی گئی کہ :
[جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طاقت نہیں تھی کیا بیت اللہ میں نبی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہاں پر بت موجود نہیں تھے جب تک طاقت نہیں ہاتھ روک کر رکھااور جب طاقت آئی پھر ان بتوں کو ختم کیا ان بتوں کو توڑا ]
یہ عقیدہ بھی ملت ابراہیمی کے اسوہ کے مخالف ہے ۔ اس بات کو پیش کرکے امت مسلمہ کے ان نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ہمارے سامنے ابوالانبیاء ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی سیرت کا نمونہ موجود ہے اور اس پر نبی مکرم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی موجود ہے ۔جسے اس ملک کے درباری علماء نے مسلم نوجوانوں سے چھپایا ہوا ہے۔میں اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے زیادہ اس بات کو بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک سلفی عالم کی زبانی آپ کو یہ دونوں اسوۂ مبارکہ دکھلادوں :
''الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی نبیِّہ المصطفی
ملت ابراہیم نامی یہ کتاب میں قارئین کی خدمت میں نئے انداز سے پیش کررہا ہوں ۔یہ کتاب اس سے پہلے بھی متعدد بار شائع ہو چکی ہے ، مگر اس اشاعت میں جو تبدیلی قارئین کو نظر آئے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میری ایک اور کتاب ''اسالیب الطغاۃ'' کے ایک مستقل باب سے ماخوذ ہے جسے ہمارے پاکستانی بھائیوں نے اصل کتاب سے الگ ایک کتابچے کی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔
اس کتاب کی وجہ سے مجھے اور دوسرے کئی رفقائے کار کو قید و بند کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا ہے ۔ بلکہ حکمرانوں کو تو جیسے اس کتاب سے چڑھ ہو گئی تھی ۔وہ اس طرح کہ عام گرفتاریوں کے دوران میں حکومت کے اہل کار سب سے پہلے یہی پوچھتے کہ کیا اُس نے ﴿جس راسخ العقیدہ مسلمان کو گرفتار کرنا ہو﴾''ملت ابراہیم '' پڑھ رکھی ہے،بس اس کتاب کا برآمد ہونا ہی اس کا جرم قرار پاتا۔
یہ سب اللہ کا فضل ہے کہ جس نے اس کتابچے کو طاغوتوں کے حلق کا کانٹابنا دیا ہے ۔اس کتاب کی گزشتہ طباعت سے لیکر موجودہ طباعت تک مجھے اس کتاب پر کوئی علمی تنقید پڑھنے کو نہیں ملی۔مجھے اپنی بساط بھر تلاش کے باوجود مخالفین کی طرف سے اس کتاب پر کوئی قابل ذکر تنقید یا علمی گرفت حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ البتہ میری ذات پر ضرور کیچڑ اچھالا گیا ہے ۔ 'کویت ' میں ایک شعلہ بیان واعظ نے اپنے خطبے میں مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں اس بات کا دعوے دار ہوں کہ روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی صاحب ایمان نہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے علاوہ باقی سب کافر ہیں ۔اورہمارا منھاج فرقہ خوارج کا سا ہے۔ اس طرح کے دوسرے سطحی الزامات اور بھی لگائے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا محض طوالت کا باعث ہو گا ۔تاحال اس کتاب کا علمی محاکمہ نہیں کیا جا سکا ہے یا کم از کم ہمارے اپنے علم کی حد تک ایسا ہی ہے ۔البتہ ان میں سے چند اعتراضات یسے ہیں جن کا جواب دینا ہمارے نزدیک ضروری ہے۔
معترضین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بڑے بردبار اور گریہ و زاری کرنے والے تھے ،انہوں نے قوم لوط کے کافروں پر عذاب مسلط کرنے سے پہلے فرشتوں سے خاصی دیر تک باز پرس کی تھی اور عذاب الٰہی کو حتیٰ الوسع ٹالنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔
ایک اعتراض یہ ہے کہ ہم شریعت محمدیہ کے پیروکار ہیں اورجہاں تک ملت ابراہیم کا تعلق ہے تو وہ ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہے' نیز معترضین ملت ابراہیم کی صفات بتانے والی آیات کی بابت کہتے ہیں کہ وہ مدنی سورتیں ہیں اور اس زمانے میں نازل ہوئی تھیں جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی۔ اگر اس تیسرے اعتراض کو تسلیم کر لیا جائے تو معترضین کے نزدیک عقیدہ'' ولا ء اور براء''کے لیے اسلامی ریاست کا قائم ہونا شرط ٹھہرے گا۔
اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ مکہ میں ہجرت سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺکا بیت اللہ کے بتوں کو توڑنے والا واقعہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔علاوہ ان اعتراضات کے معترضین سے کوئی بات نہیں بن سکی ہے۔
اب آپ مذکورہ بالا اعتراضات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (ھود۷۵-۷۴)
جب ابراہیم کا ڈر جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے۔ یقینا ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اﷲ کی جانب جھکنے والے تھے۔
اس آیت میں معترضین کے لیے دلیل کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیونکہ اس کی تفسیر میں مفسرینِ قرآن فرماتے ہیں کہ ابراہیمu نے ،لوطu کی وجہ سے فرشتوں سے بحث و تمحیص کی تھی علاوہ ازیں قرآن کی سب سے اچھی تفسیر خود قرآن ہوتا ہے ،سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ) سورۃ العنکبوت(۳۱ :
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں، یقیناً یہاں کے رہنے والے گنہگار ہیں۔
اسی حکم سے ابراہیمuکو یہ اندیشہ ہوا تھا کہ بستی کے تمام لوگ بشمول لوطہلاک ہونے والے ہیں ، اسی لیے ابراہیمنے جیسا کے اہل تفسیر لکھتے ہیں فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اگر اس بستی میں پچاس کے قریب مسلمان ہوئے تو پھر بھی تم اس بستی کو تباہ کر دوگے ؟فرشتوں نے جواب دیا کہ نہیں ، پھر آپﷺ نے یکے بعد دیگرے چالیس ،بیس ،دس یہاں تک کہ پانچ مسلمانوں کے بارے میں پوچھا تو فرشتوں نے جواب دیا نہیں ،تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (العنکبوت: ٣٢ )
)ابراہیم نے( کہا اس میں تو لوط علیہ السلام ہیں، فرشتوں نے کہا جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ لوط کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچا لیں گے، البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
غور کرنے کی بات تو یہ تھی کہ اس سے انبیاء کرام کا منھاج اور طریقہ کار اخذ کیا جاتا۔انبیاء کرام تمام انسانوں سے زیادہ رحم دل ہوا کرتے ہیں عقل سلیم کا تقاضا تو یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی فرشتوں سے گفتگو سے ہمارے معترضین یہ نتیجہ نکالتے کہ انبیاء کرام انسانوں کو راہ حق پر دیکھنے کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ یہی انداز فکر رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بھی باربار دیکھنے کو ملتا ہے ۔مثال کے طور پر طائف میں جب شرپسندوں نے رسول اللہﷺکو ایذاء پہنچانے کی حد کردی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے نگران فرشتوں کو آپﷺکی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ ﷺ طائف والوں کے لیے جو سزا تجویز کریں یہ فرشتے اس سزا کو ان پر نافذ کردیں گے لیکن آپﷺ نے سابقہ انبیاء کی طرح صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑااور فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادمیں سے ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوں گے اور اس کے ساتھ شرک نہیں کرتے ہوں گے ۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
کیا انبیاء کرام سے ادب اور حسن ِ ظن کا یہ تقاضا نہیں کہ ہم ان کے متعلق غلط تصورات قائم نہ ہونے دیں ایسے تصورات کہ جن سے قرآن کا مفہوم ٹکرائے اور انبیاء کرام کی توحیدِ خالص کی دعوت داغ دار ہوجائے ، ایسی جسارت صرف ناعاقبت اندیش کر سکتے ہیں انبیاء کرام تو صرف شرک اور اہل شرک سے برا ت کے لیے مبعوث ہوتے ہیں لیکن کیا کیاجائے کہ ہمارے خلاف اعتراض کرنے والوں کو اپنے باطل نظریات ثابت کرنے کے لیے جب کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہ ہو سکی تو وہ مبنی برظن دلائل پیش کرتے ہیں پھر اپنی کوتاہ بینی سے ان ظنی دلائل کی تاویل کرتے ہیں جس سے وہ قرآن مجید کے محکم اور قطعی دلائل کا اپنا من مانا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
محترم قارئین ! آپ سورۃ ممتحنہ کی اس آیت کا زورِ بیان ملاحظہ فرمائیں :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (آیت نمبر: ۴)
)مسلمانو( تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اﷲ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اﷲ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پرودگار! تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اس آیت پر غور کیجیے اس میں ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کوہمارے لیے اسوہ قرار دیا گیا ہے!آگے چل کر اس اسوہ کی اہمیت جتلاتے ہوئے فرمایا :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (آیت نمبر: ۶)
یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ )اور عمدہ پیروی ہے خاص کر( ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اﷲتعالیٰ بالکل بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
معترضین اس قدر واضح اور دو ٹوک آیات کو تو موضوع بحث نہیں بناتے البتہ سورہ ھود کی اسی آیت کو بار بار پیش کرتے ہیں
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ (٧٤) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (ھود: -۷۴٧٥)
جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے۔ یقینا ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اﷲ کی جانب جھکنے والے تھے۔
حا لانکہ اسی سورۃ کی آیت ۷۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
جس موضوع کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابراہیم اس کا تذکرہ رہنے دو اسی موضوع پرہمارے معترضین کو سخن وری میں لطف آتا ہے۔
یہ اعتراض کہ ملت ابراہیم اسلام سے قبل کی شریعت ہے جو ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہے ۔حد درجے غیر علمی ہے ،دیکھیے سورہ ممتحنہ کے مخاطبین شریعت محمدیہ کے پیرو کار ہیں آپ قرآن مجید کے اسلوب کو ملاحظہ کریں:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ( آیت نمبر: ۴)
مسلمانو( تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے )عقائد کے( منکر ہیں جب تک تم اﷲ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اﷲ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پرودگار!تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ کار بہت ہی خوب اسوہ ہے،سورۃ ممتحنہ کی ایک اور آیت میں ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کو واضح طور پر زمان و مکان کی قید کے بغیر ہدایت کے لیے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنانے کی ہدایت نازل ہوتی ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ(آیت نمبر:۶)
یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ)اور عمدہ پیروی ہے خاص کر( ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اﷲتعالیٰ بالکل بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
کیا معترضین اس آیت کو قرآن کا حصہ تسلیم نہیں کرتے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( البقرہ ۱۳۰)
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکوکاروں میں سے ہے۔
خود رسول ﷺ کو ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے :
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ النحل :۱۲۳ )
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں ، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی صحیح احادیث ہیں جن میں نبیﷺ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ رسول ﷺ کی سیرت ِ مطہرہ کو دیکھیں تو آپﷺ کا طریقہ بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح کفار سے برات کرنا اور ان کے معبود انِ باطلہ اور ان کے طریقہ زندگی سے دشمنی پر مشتمل تھا ۔مزید برآں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے انبیاء آپس بھی بھائی بند ہوتے ہیں ۔
اس کتاب کا موضوع توحید بلکہ توحید کا بھی بنیادی عنصر شرک سے براءت کی تفصیلات بیان کرنے پر مشتمل ہے ۔جو ہر نبی کی شریعت کا بنیادی موضوع رہاہے اور کسی شریعت میں منسوخ نہیں ہوا۔ یہ کہنا کہ سابقہ شریعتیں ہماری شریعت نہیں ہیں اگر یہ بات عبادات کے طریقہ کار کے بارے میں کہی جائے تو درست ہو گی مگر یہ کہ انبیاء کی بنیادی دعوت ہی ایک دوسرے سے مختلف ہو'یہ بات قرآن مجید کے صریح خلاف ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (نحل: ۳۶)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!)صرف اﷲ کی عبادت کرواور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اﷲتعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی، پس تم خود زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
اسی طرح سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ(آیت نمبر:۲۵)
تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
سورۃ شوریٰ میں اسی بات کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے :
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ(شوریٰ: ۱۳)
اﷲتعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے ، اﷲتعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہ نمائی کرتا ہے۔
2 یہ اعتراض کے سورۃ ممتحنہ مدنی ہے اور اس زمانے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی تو ہم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے دین اور اپنی رحمت کو مکمل کردیا ہے ۔ مکی اور مدنی سورتوں کے فرق کی بنیاد پر شرعی احکام میں فرق کرنا ہماری شریعت سے ثابت نہیں کیاجاسکتا ۔اِس قاعدے کو اگر مان لیا جائے تو اس سے شر اور فتنوں کو فروغ دینے کا ایک بڑا سامان میسر ہو جائے گا۔ شریعت کے بے شمار احکام معطل ہو جائیں گے یا ان میں ترمیم کرنا پڑے گی 'ہاں اگر معترضین یہ کہتے کہ کفر سے اظہار برات حسب استطاعت کیا جاتا ہے تو ان کی یہ بات درست ہوتی۔ ظاہرہے جو کام حکومت کر سکتی ہے وہ ایک شخص خواہ کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہو نہیں کر سکتا۔ مگر معترضین تو سرے سے برات کو اس دین حنیف کی اساس قرار دینے پر تیار نہیں ہیں۔
ہماری اس کاوش کا مقصد دین اسلام کے عقیدہ براء (اللہ کے ساتھ ایمان نہ لانے والوں سے دشمنی اور بیر رکھنا ) کا احیاء ہے۔ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے جس وقت اپنی قوم سے اظہار ِ برا ت کیا تھا تو وہ اپنی قوم کے سب سے کم زور لوگ تھے۔ ان کے پاس کوئی اقتدار بھی نہیں تھا ۔اس کے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ملت ِ ابراہیم کو ہمارے لیے کامیابی کے حصول کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ نبیﷺ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر چلتے تھے،مکی و مدنی زندگی میں آپﷺ کی دعوت کا محور توحید کے اقرار اور شرک سے بر ا ت کے گرد گھومتا ہے۔ایمان کی باقی شاخیں بھی اسی عقیدے سے پھوٹتی ہیں۔ یہی عقیدہ عروۃالوثقیٰ ہے۔
مذکورہ بالا آیات جو سورۃ ممتحنہ کی ہیں کیا فی الواقع یہ سورت مدنی ہے ؟ چلیں ایک لمحے کے لیے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ سورت پوری کی پوری مدینہ میں نازل ہوئی ہوگی لیکن سورہ کافر ون کے بارے میں کیا کیجئے گا! کیا اسے بھی آپ اپنی افتادِ طبع سے مدنی سورت ہی کہیں گے۔ اس سورت میں کس زور دار انداز سے کافروں کے دین سے اظہار برا ت کیاگیا ہے۔
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ،لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ،وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ،وَلا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ،وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ( الکافرون۱-۶:)
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں۔تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
مکہ کے معبودانِ باطلہ کی اہانت کرتے ہوئے مکہ کی وادیوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے اس طرح اظہار برا ت کرایا:
أَفَرَأَيْتُمُ اللاتَ وَالْعُزَّى،وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأخْرَى،أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأنْثَى،تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى(نجم: ۲۲-۱۹)
کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔اور منات تیسرے پچھلے کو۔کیا تمہارے لئے لڑکے اور اﷲ کے لئے لڑکیاں ہیں؟یہ تو اب بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔
آپﷺ تو مکہ میں پکار پکار کر کہہ رہے تھے:
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ،لَوْ كَانَ هَؤُلاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ(انبیاء: ۹۹-۹۸)
تم اور اﷲ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے ، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
آپe مکہ کے معبودانِ باطلہ کے ساتھ کیا رویہ روارکھتے تھے اور آپeکی شہرت اس سلسلے میں کیا تھی' اسے اس آیت کی روشنی میں دیکھیں:
وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ( انبیاء: ۳۶)
یہ منکرین جب بھی تجھے دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا ہے، اور وہ خود ہی رحمن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں۔
کفار سے اظہار برا ت پر مبنی تمام نصوص کو اگر یہاں جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جائے گی۔جہاں تک مکہ مکرمہ میں آپﷺ کے بت توڑنے کی حدیث کے ضعیف ہونے کا سوال ہے تو اس کا مفصل احوال یہاں بیان کر دینا فائدے سے خالی نہیں۔ یہ حدیث حسن درجے کی ہے جیسا کے ائمہ حدیث و الرجال نے بیان کیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں' عبداللہt کہتے ہیں مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی کہ انہیں اسباط بن محمد نے انہیں نعیم بن حکیم نے انہیں ابو مریم نے انہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے، فرمایا کہ ایک دفعہ میں اور رسول اللہﷺ بیت اللہ کے پاس پہنچے آپﷺ نے فرمایا:۔ علی بیٹھ جاؤ'میں بیٹھ گیا' آپﷺ میرے کندھوں پر سوار ہوگئے لیکن میں جب آپﷺ کا بوجھ نہ سہار سکا تو آپﷺ بیٹھ گئے اور میں آپﷺ کے کندھوں پر سوار ہوا جب آپe مجھے اٹھا ئے ہوئے کھڑے ہوئے تو مجھے ایسے لگا گویا میں آسمان تک پہنچ گیا ہوں' اس کے بعد میں کعبہ کی چھت پر چڑھ گیا وہاں پیتل یا تانبے کی موریتاں تھیں جنہیں میں نے اٹھا کر چاروں طرف پھینک دیا۔ آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ انہیں توڑ دو' میں نے انھیں گرا کر شیشے کی طرح کرچی کرچی کردیا۔ اس کارروائی کے بعد ہم دونوں وہاں سے چل دیئے اور سیدھے گھر آکر دم لیا ہمیں خطرہ تھا کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے ۔
اِس روایت میں اسباط بن محمد ثقہ راوی ہے۔ جب وہ امام ثوری رحمہ اللہ سے روایت کریں تو محدثین کرام انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن اس روایت میں وہ امام ثوری رحمہ اللہ سے روایت نہیں کر رہے ہیں۔ نعیم بن حکیم کو یحیٰ بن معین اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے۔)تاریخ بغداد:۱۳ /۳۰۳)
مسند احمد میں اس حدیث کی ایک اور سند اس طرح ہے ۔قال عبداللہ بن احمدبن حنبل ، حدثنی نصر بن علی حدثنی عبداللہ بن داؤد عن نعیم بن حکیم عن علی ... مسند احمد/۱۵۱ ۔اس کے علاوہ محدث الہیثمی نے بھی مجمع زوائد میں یہی روایت لکھی ہے' اس میں صرف اتنے الفاظ زیادہ ہیں کے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاس واقعے کے بعد بیت اللہ کی چھت پر کسی نے بتوں کو نہیں رکھا۔ (مجمع الزاوئد: ۶/۲۳ )
یہ روایت تاریخ بغداد۱۳/۳۰۳۳میں بھی موجود ہے اس سند میں ابو مریم کا ذکر بھی ہے ان کانام قیس ثقفی مدائنی ہے یہ نعیم بن حکیم اور علی بن طالب سے حدیث بیان کرتے ہیں۔ ابن حبان اور امام نسائی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ جس طرح ابن حجررحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام نسائی نے ابو مریم حنفی کو قیس کا نام دیا ہے حالانکہ قیس نام کے محدث ابومریم ثقفی تھے۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ امام نسائی کی کتاب التمیز میں نے دیکھی تو وہاں بھی قیس ثقفی کا نام درج تھا 'ابو مریم حنفی کا ذکر نہیں تھا کیونکہ امام نسائی ان کو نہیں جانتے تھے ۔
اس حدیث کو علامہ احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق میں صحیح قرار دیا ہے ۔۲/۵۸۔علامہ احمد شاکر کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ،نعیم بن حکیم کو ابن معین نے ثقہ قرار دیا ہے ۔امام بخاری نے تاریخ کبیر ۲/۹۹میں ان کے حالات زندگی لکھتے ہوئے ان پر جرح نہیں کی ہے۔ اس طرح ابو مریم ثقفی پر بھی امام بخاری نے کوئی جرح نہیں کی ہے ۔علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے پیش آیا تھا۔
اس حدیث کی سند آپ جان چکے ہیں اگر اس حدیث کو ضعیف بھی قرار دیا جائے پھر بھی رسول اللہﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے ۔مکہ مکرمہ میں تیرہ برس آپﷺ مسلسل اسی ایک بات پر مصر رہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپﷺ نے مکہ میں تیرہ برس خاموشی سے گزار دیے ہوں گے ۔واقعہ یہ ہے کہ آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کمزور ہونے کے باوجود برملا مکہ کے معبودوں سے اظہار برا ت کرتے تھے۔ شرک اوراہل شرک سے نبیﷺ کی برا ت کچھ اسی حدیث پر موقوف نہیں ہے،کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر اس حقیقت سے آنکھیں چرائی جاسکیں بلکہ اس پر قاطع ادلہ اسی قدر تفصیل سے کتاب اللہ میں ہیں کہ ایک متعصب ہی اُن کا انکار کر سکتا ہے ۔ ہم اس مختصر کتابچے میں مذکورہ بالا دلائل پرہی اکتفا کرتے ہیں ۔
آخر میں میں چاہتا ہوں ایک مناظرے کا احوال بیان کروں جو میرے ساتھ جیل میں چند دوسرے قیدیوں نے کیا تھا۔ مناظرے کا موضوع ایمان اور اس کے متعلقات تھا۔ بحث کے دوران میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے صحابی رسولﷺحاطب بن ابی بلتہ رضی اللہ عنہ اور ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ کے واقعات کو بطور دلیل کے پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے تو اہل مکہ کے لیے جاسوسی کی تھی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے خیانت کے مرتکب ہوئے تھے' اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار نہیں دیا تھا ۔ان کے خیال میں اس قسم کے افعال کفر کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اس دلیل کو بنیاد بنا کر وہ انسان ساختہ قوانین بنانے والے اور ان کے نافذ کرنے والوں کو بھی بری الذمہ قرار دینے پر مصر تھے اور کہتے تھے کہ ان لوگوں کی تکفیر نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت بھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اور ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی طرح ہے۔جب ہم نے کہا کہ تم لوگ طاغوت کی افواج کو کافر قرار نہیں دیتے ہو بلکہ ان کو صرف ظالم اور جابر کہتے ہو تو وہ اِس بات پر ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم نے ان کی بات کو غلط رنگ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ سارے ہی ظالم اور جابر ہوتے ہیں بلکہ ہم نے صرف انہیں شک کا فائدہ دیا ہے کہ انسان ساختہ قوانین کو نافذ کرنے والے بعض لوگ ظالم بھی ہو سکتے ہیں اور فاجر بھی۔ ہم نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ساختہ قوانین بنانا اور انہیں نافذ کرنا بذات خود کفر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ ہمیں ان کے ذاتی حالات کا علم ہو'جو کے ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے۔ ہم نے جب کہا کہ تم طاغوت کو تحفظ دینے والوں کو محض ظالم اور جابر سمجھتے ہو اورکافر نہیں سمجھتے ہو تو وہ اس بات پر سیخ پا ہو گئے ۔ہم نے کہا کہ جب حاطب بن ا بی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو جاسوس اور ابو لبابہ(معاذ اللہ)کو خائن کہتے ہوئے تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور جب ہم نے کہا کہ تمہارے اِس اصول سے غیراللہ کے قانون کو نافذ کرنے والے مسلمان ہی رہیں گے تو تمہیں غصہ آ گیا۔ اس کے بعد ہمارے اوران کے درمیان جدائی ہو گئی ۔ پھر ایک موقع پر ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا' تم درحقیقت ملت ابراہیم کی دعوت دینے والے ہو ۔ ایسے لوگوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور تمہاری دعوت سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ سے دوستی کر لی جائے کیونکہ ان دو مذاہب کے پیروکار ہی ابراہیمu کی اولاد ہیں اور تمہاری ملت ابراہیم سے یہی لوگ مرادہیں ۔
محترم قارئین ! بتایئے اس قدر سطحی سوچ رکھنے والوں سے کیا گفتگو کی جا سکتی ہے جو نسلی اولاد اور عقیدے کی بنیاد پر اٹھنے والی دعوت کے فرق کو نہ سمجھتے ہوں ۔ موجودہ زمانے کے طواغیت نے پروپیگنڈہ سے یہ بات ہمارے نادان دوستوں کے ذہن میں ڈال دی ہے۔ بھلا ملت ابراہیم سے یہود و نصاریٰ کی دوستی کب مراد ہونے لگی۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی لگا کر تو آدمی ایمان سے تہی دامن ہو جاتا ہے اور دین کی بنیادہی منہدم ہو جاتی ہے ۔ عقیدہ ولاء اور براء کے اوپر ایسی زد پڑتی ہے کہ آدمی کو اپنے ایمان کی ہی خیر منانی چاہیے ۔ یہود ونصاریٰ کب ابراہیم علیہ السلام کی ملت میں ہونے لگے :
ا ِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ( آل عمران: ۶۸)
سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، مومنوں کا ولی اور سہارا اﷲ ہی ہے۔
ملت ابراہیم اور اولاد ابراہیم میں عقیدے اور منھاج کا فرق ہے۔ اتنی موٹی با ت کی کسی کو سمجھ نہ آئے تو کیا کیا جاسکتا ہے ۔ ملت ابراہیم پر چلنے سے باپ اور بیٹے میں جدائی آجاتی ہے۔ اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے دو واضح گروہ بن جاتے ہیں ۔ ملت ابراہیم سے بے اعتنائی برتنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ( البقرہ: ۱۳۰)
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
ہم نے اس کتاب میں دین ابراہیم کوو اضح طور پر بیان کیا ہے ۔آپ کھلے دل اور روشن آنکھوں سے اس پر غور کریں اور مخالفین کے پروپیگنڈہ میں نہ آئیں ۔
برادران اسلام!بہت افسوس ہے کہ اس کتاب کی پہلی اشاعت سے لے کر اب تک کے طویل دورانیے میں ہمیں کتاب کے مندرجات پر کوئی علمی اعتراض پڑھنے کو نہیں مل سکا۔مخالفین نے اس کتاب اور صاحبِ کتاب پر جو گھٹیا درجے کے الزامات لگائے ہیں ان کا جواب دے کر ہم ان کی سطح پر نہیں اترنا چاہتے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العالمین اپنے دین کی نصرت فرمائے اور دشمنوں کو ذلیل وخوار کرے اور ہماری زندگی اسلام کی خدمت میں کھپ جائے۔اے اللہ ہمیں اپنے دین کا محافظ اور مدد گار بنادے اور ہمیں شہادت فی سبیل اللہ کی نعمت عطا فرما۔ آمین
ابو محمد عاصم المقدسی حفظہ اللہ
تو یہ ہے اصل صورتحال جس کو مسلم نوجوانوں سے محض اس لیے چھپایا جارہا ہے تاکہ دورحاضر کے حکمرانوں کو آکسیجن فراہم کی جاسکے۔ ان حکمرانوں کے پاس اس بات کی طاقت ہے کہ وہ اسلام کا نام لینے والوں کو بے دریغ قتل کریں ان کو اپنے طاغوتی زندانوں میں قید کریں۔ان کی عزتوں ان کی حرمتوں کو پامال کریں ان کو نصرانیوں کے ہاتھوں فروخت کریں قوم کی عفت مآب بیٹیوں کو نصرانیوں کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض بیچیں ۔مسلمانوں کے گھروں کو بمباری کرکے تباہ کریں ۔ لیکن اگر طاقت نہیں ہے تو دین اسلام کو نافذ کرنے کی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حکمران تو ایجنٹ ہی نصرانیوں کے ہیں یہ تو مسلمانوں کے خون کا پیسہ نصرانیوں سے وصول کرتے ہیں ابھی نواز شریف حکومت نے اس خون کی قیمت کی قسط امریکہ جانے سے پہلے ہی وصول کرلی ہے۔دوسری قسط اگلے مہینے ملنے والی ہے۔تو محترم بھائیوں جب تک کوئی حکمران حکومت ملنے پر دین اسلام کو نافذ نہیں کردیتا وہ خائن ہے۔ اس کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ اور اس حکمران کی اصل طاقت ہی اس ملک کا سیکولر طبقہ ہے ۔ جو کہ بتوں اور مزارات کو پوجنے میں کوئی عار محسوس نہین کرتا اور جب یہی طبقہ حکومت میں ہوتا ہے تو اسلام نظام کا مطالبہ کرنے والوں پر یاعلی مدد کے نعرے لگانے والوں کے ذریعے ان کے سینے امریکہ کی دی ہوئی مشین گنوں سے چھلنی کردیتے ہیں۔آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
رکین کو وہ تمام سہولتیں ان حکمرانوں نے ان مزارات پر دی ہیں ۔جس طرح سعودی عرب کے حکمران حجاج کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک مومن کو تو یہی نصیحت کی تھی تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے ایسا کرے اور زبان سے بھی کہنے کی طاقت نہیں ہے دل میں برا جانے یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے
اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ہمارے محترم بھائی ارسلان ملک حفظہ اللہ کی خدمت میں۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی یہ تقریر مکمل طور پر ملت ابراہیم سے انحراف کا نمونہ ہے۔اگر ہم اس تقریر میں سے خودکش حملوں کا ذکر ہٹا کر بھی بات کریں تو ہمارا موقف قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں مضبوط ہے ۔ محترم بھائی آج پاکستان میں اللہ نے جن لوگوں کو حکومت دی ہوئی ہے انہوں ہی نے ان مزارات اور قبوں مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔ انہی حکمرانوں نے ان مزارات کو سجایا ہے ۔مشرکین کے لئے ان مزارات کی پوجاپاٹ کو آسان بنایا ہے۔مشرکین کو وہ تمام سہولتیں ان حکمرانوں نے ان مزارات پر دی ہیں ۔جس طرح سعودی عرب کے حکمران حجاج کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ ہمارا کام صرف دعوت دینے کا حکم ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک مومن کو تو یہی نصیحت کی تھی تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے ایسا کرے اور زبان سے بھی کہنے کی طاقت نہیں ہے دل میں برا جانے یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔اب مجھے بتائیں کہ اگر کوئی مومن کسی بت پرستی کو دیکھتا ہے اور اس میں اس بت پرستی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہے تو کیا وہ اس بت پرستی کوہاتھ سے نہیں مٹائےگا؟؟؟؟میرے بھائی حکومت میں تو شرک کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اور اس نے تو ان مزارات کو پکا ٹھوس اور مستحکم کیا ہے۔اس کو باقاعدہ حکومت کی سپورٹ کے ساتھ چلایا جارہا ہے اس کے لئے تو انہوں نے محکمہ اوقاف کو تشکیل دیا ہوا ہے ۔ بتوں پر نذرانوں کی صندوقچیاں رکھی ہیں جو کہ ان مشرک حکومتوں کے خزانوں میں جمع ہوتے ہیں اور ان نذرانوں کی وصولیابی کا باقاعدہ حساب وکتاب رکھا جاتا ہے۔اب مجھے بتلائیے کہ کون سی وہ حکومت ہوگی جو ان بتوں کو توڑے گی ان پر ہونے والے عرسوں اور میلوں کو ختم کرے گی ؟؟؟لہٰذا اس ملک کے مزارات اورجو کہ بت کی شکل اختیار کرچکے ہیں ان کو اسی طرح توڑنا ہوگا جس طرح سے مجاہدین اسلام نے صومالیہ مالی اور دیگر اسلامی خطوں میں ان کو مسمار کیا ہے ۔ لہٰذا اس بات کا انتظار کرنا کہ یہ مشرک حکومتیں ان مزارات پر ہونے والی بت پرستی کو ختم کریں گی عبث ہے۔بہت دور کی بات ہے۔یہ حکمران تو انہی بتوں پر نذرانے چڑھا کر اور ان بتوں پر منتیں مان کر تو الیکشن لڑتے ہیں اور جینتے کے بعد وہ اپنی منتوں کو ان مزارات کو پختہ اور مزید ترقی دے کر پوری کرتے ہیں ۔ تو ان حالات میں شیخ توصیف الرحمان الراشدی کا یہ نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔دراصل اس نظریےکو اختیارکرنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے ۔ان بتوں کو بچانے کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔ اور وہ باطل مقصد ہے بتوں کی محافظ حکومتوں کو مجاہدین کے قہر وغضب سے بچانا ۔جب یہ دعوت عام کردی جائے گی کہ ایک مسلمان کا کام صرف اور صرف دعوت دینا ہے تو وہ زندگی بھر تبلیغی جماعت کی طرح دعوت ہی دیتا رہے گا۔بس صرف زبان ہی ہلاتا رہے رگا خواہ اس کے سامنے تمام اسلامی ممالک ایک ایک کرکے صلیبیوں کی بھینٹ چڑھ جائیں۔خیر سے اب تو ان جماعتوں کی ابتداء اہلحدیثوں میں شروع ہوچکی ہے۔اور ہاتھ سے منکرات کو روکنے سے منع کرنے کا مطلب واضح طور پر عوام الناس کو جہاد سے دور کرنا ہے ۔مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ بتوں کی محافظ حکومتوں کو حمایت فراہم کرنا ہے ۔ان کو آکسیجن دیتے رہنا ہے تاکہ پانچ سال تک ایک بت پرست حکومت بتوں کی خدمت کرتی اس کے بعد اگلے پانچ سالوں تک دوسری بت پرست حکومت ان مزاروں پر نصب بتوں کی حفاظت کرتی رہے ۔ان کو آکسیجن فراہم کرتی ہے ۔ اور امت کے ابطال اسی طرح طاقت اور قوت کے ہونے کے باوجود گلاپھاڑ پھاڑ کر حق بیان کرتے کرتے بوڑھے ہوکر مرجائیں ۔ہمیں حیرت ہے ان علماء پر کیا ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج کا پتہ نہیں ؟ کہ کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا تھا جس چیز کو قرآن روکے اور لوگ نہ رکیں تو ہم اپنے تلواروں سے انہیں روکیں گے ۔اب جب اس ملک میں سالوں گزگئے اور لوگ اسی بت پرستی کے سائے تلے جی رہے ہیں ۔ نام نہادی سلفی جماعتوں کے بزعم خود جہادی قافلے پاکستان سے ہندوستان میں داخل کردیے جاتے ہیں لیکن یہ تمام جہادی قافلے مزارات پر نصب انہی بتوں کے سائے تلے گزرتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نام نہاد جہادی کے چہرے پر ان مزارات کو دیکھ کر ناگواری کی لہر دیکھی جاسکے ۔اس بات کا قرآن کریم نے کیا خوب ہی نقشہ کھینچا ہے:أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ(اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے(القمر:۴۳)
لہٰذا میرے بھائی سوچیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے کیونکہ کل کو ہم نے اللہ کے پاس تنہا اس سے ملاقات کرنی ہے اللہ کےاور ہمارے مابین کوئی ترجمان بھی نہ ہوگا۔اگر وہاں اللہ نے سوال کرلیا کہ تمہارے پاس جب اس بت پرستی کوہاتھ سے روکنے کی طاقت تھی تو تم نے اس بت پرستی کوہاتھ سے کیوں نہ روکا ۔اس برائی کو ہاتھ سے کیوں نہ روکا؟
شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی اسی تقریر میں یہ بات بیان کی گئی کہ :
[جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طاقت نہیں تھی کیا بیت اللہ میں نبی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہاں پر بت موجود نہیں تھے جب تک طاقت نہیں ہاتھ روک کر رکھااور جب طاقت آئی پھر ان بتوں کو ختم کیا ان بتوں کو توڑا ]
یہ عقیدہ بھی ملت ابراہیمی کے اسوہ کے مخالف ہے ۔ اس بات کو پیش کرکے امت مسلمہ کے ان نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ہمارے سامنے ابوالانبیاء ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی سیرت کا نمونہ موجود ہے اور اس پر نبی مکرم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی موجود ہے ۔جسے اس ملک کے درباری علماء نے مسلم نوجوانوں سے چھپایا ہوا ہے۔میں اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے زیادہ اس بات کو بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک سلفی عالم کی زبانی آپ کو یہ دونوں اسوۂ مبارکہ دکھلادوں :
''الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی نبیِّہ المصطفی
ملت ابراہیم نامی یہ کتاب میں قارئین کی خدمت میں نئے انداز سے پیش کررہا ہوں ۔یہ کتاب اس سے پہلے بھی متعدد بار شائع ہو چکی ہے ، مگر اس اشاعت میں جو تبدیلی قارئین کو نظر آئے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میری ایک اور کتاب ''اسالیب الطغاۃ'' کے ایک مستقل باب سے ماخوذ ہے جسے ہمارے پاکستانی بھائیوں نے اصل کتاب سے الگ ایک کتابچے کی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔
اس کتاب کی وجہ سے مجھے اور دوسرے کئی رفقائے کار کو قید و بند کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا ہے ۔ بلکہ حکمرانوں کو تو جیسے اس کتاب سے چڑھ ہو گئی تھی ۔وہ اس طرح کہ عام گرفتاریوں کے دوران میں حکومت کے اہل کار سب سے پہلے یہی پوچھتے کہ کیا اُس نے ﴿جس راسخ العقیدہ مسلمان کو گرفتار کرنا ہو﴾''ملت ابراہیم '' پڑھ رکھی ہے،بس اس کتاب کا برآمد ہونا ہی اس کا جرم قرار پاتا۔
یہ سب اللہ کا فضل ہے کہ جس نے اس کتابچے کو طاغوتوں کے حلق کا کانٹابنا دیا ہے ۔اس کتاب کی گزشتہ طباعت سے لیکر موجودہ طباعت تک مجھے اس کتاب پر کوئی علمی تنقید پڑھنے کو نہیں ملی۔مجھے اپنی بساط بھر تلاش کے باوجود مخالفین کی طرف سے اس کتاب پر کوئی قابل ذکر تنقید یا علمی گرفت حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ البتہ میری ذات پر ضرور کیچڑ اچھالا گیا ہے ۔ 'کویت ' میں ایک شعلہ بیان واعظ نے اپنے خطبے میں مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں اس بات کا دعوے دار ہوں کہ روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی صاحب ایمان نہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے علاوہ باقی سب کافر ہیں ۔اورہمارا منھاج فرقہ خوارج کا سا ہے۔ اس طرح کے دوسرے سطحی الزامات اور بھی لگائے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا محض طوالت کا باعث ہو گا ۔تاحال اس کتاب کا علمی محاکمہ نہیں کیا جا سکا ہے یا کم از کم ہمارے اپنے علم کی حد تک ایسا ہی ہے ۔البتہ ان میں سے چند اعتراضات یسے ہیں جن کا جواب دینا ہمارے نزدیک ضروری ہے۔
معترضین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بڑے بردبار اور گریہ و زاری کرنے والے تھے ،انہوں نے قوم لوط کے کافروں پر عذاب مسلط کرنے سے پہلے فرشتوں سے خاصی دیر تک باز پرس کی تھی اور عذاب الٰہی کو حتیٰ الوسع ٹالنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔
ایک اعتراض یہ ہے کہ ہم شریعت محمدیہ کے پیروکار ہیں اورجہاں تک ملت ابراہیم کا تعلق ہے تو وہ ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہے' نیز معترضین ملت ابراہیم کی صفات بتانے والی آیات کی بابت کہتے ہیں کہ وہ مدنی سورتیں ہیں اور اس زمانے میں نازل ہوئی تھیں جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی۔ اگر اس تیسرے اعتراض کو تسلیم کر لیا جائے تو معترضین کے نزدیک عقیدہ'' ولا ء اور براء''کے لیے اسلامی ریاست کا قائم ہونا شرط ٹھہرے گا۔
اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ مکہ میں ہجرت سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺکا بیت اللہ کے بتوں کو توڑنے والا واقعہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔علاوہ ان اعتراضات کے معترضین سے کوئی بات نہیں بن سکی ہے۔
اب آپ مذکورہ بالا اعتراضات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (ھود۷۵-۷۴)
جب ابراہیم کا ڈر جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے۔ یقینا ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اﷲ کی جانب جھکنے والے تھے۔
اس آیت میں معترضین کے لیے دلیل کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیونکہ اس کی تفسیر میں مفسرینِ قرآن فرماتے ہیں کہ ابراہیمu نے ،لوطu کی وجہ سے فرشتوں سے بحث و تمحیص کی تھی علاوہ ازیں قرآن کی سب سے اچھی تفسیر خود قرآن ہوتا ہے ،سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ) سورۃ العنکبوت(۳۱ :
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں، یقیناً یہاں کے رہنے والے گنہگار ہیں۔
اسی حکم سے ابراہیمuکو یہ اندیشہ ہوا تھا کہ بستی کے تمام لوگ بشمول لوطہلاک ہونے والے ہیں ، اسی لیے ابراہیمنے جیسا کے اہل تفسیر لکھتے ہیں فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اگر اس بستی میں پچاس کے قریب مسلمان ہوئے تو پھر بھی تم اس بستی کو تباہ کر دوگے ؟فرشتوں نے جواب دیا کہ نہیں ، پھر آپﷺ نے یکے بعد دیگرے چالیس ،بیس ،دس یہاں تک کہ پانچ مسلمانوں کے بارے میں پوچھا تو فرشتوں نے جواب دیا نہیں ،تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (العنکبوت: ٣٢ )
)ابراہیم نے( کہا اس میں تو لوط علیہ السلام ہیں، فرشتوں نے کہا جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ لوط کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچا لیں گے، البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
غور کرنے کی بات تو یہ تھی کہ اس سے انبیاء کرام کا منھاج اور طریقہ کار اخذ کیا جاتا۔انبیاء کرام تمام انسانوں سے زیادہ رحم دل ہوا کرتے ہیں عقل سلیم کا تقاضا تو یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی فرشتوں سے گفتگو سے ہمارے معترضین یہ نتیجہ نکالتے کہ انبیاء کرام انسانوں کو راہ حق پر دیکھنے کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ یہی انداز فکر رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بھی باربار دیکھنے کو ملتا ہے ۔مثال کے طور پر طائف میں جب شرپسندوں نے رسول اللہﷺکو ایذاء پہنچانے کی حد کردی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے نگران فرشتوں کو آپﷺکی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ ﷺ طائف والوں کے لیے جو سزا تجویز کریں یہ فرشتے اس سزا کو ان پر نافذ کردیں گے لیکن آپﷺ نے سابقہ انبیاء کی طرح صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑااور فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادمیں سے ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوں گے اور اس کے ساتھ شرک نہیں کرتے ہوں گے ۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
کیا انبیاء کرام سے ادب اور حسن ِ ظن کا یہ تقاضا نہیں کہ ہم ان کے متعلق غلط تصورات قائم نہ ہونے دیں ایسے تصورات کہ جن سے قرآن کا مفہوم ٹکرائے اور انبیاء کرام کی توحیدِ خالص کی دعوت داغ دار ہوجائے ، ایسی جسارت صرف ناعاقبت اندیش کر سکتے ہیں انبیاء کرام تو صرف شرک اور اہل شرک سے برا ت کے لیے مبعوث ہوتے ہیں لیکن کیا کیاجائے کہ ہمارے خلاف اعتراض کرنے والوں کو اپنے باطل نظریات ثابت کرنے کے لیے جب کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہ ہو سکی تو وہ مبنی برظن دلائل پیش کرتے ہیں پھر اپنی کوتاہ بینی سے ان ظنی دلائل کی تاویل کرتے ہیں جس سے وہ قرآن مجید کے محکم اور قطعی دلائل کا اپنا من مانا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
محترم قارئین ! آپ سورۃ ممتحنہ کی اس آیت کا زورِ بیان ملاحظہ فرمائیں :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (آیت نمبر: ۴)
)مسلمانو( تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اﷲ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اﷲ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پرودگار! تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اس آیت پر غور کیجیے اس میں ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کوہمارے لیے اسوہ قرار دیا گیا ہے!آگے چل کر اس اسوہ کی اہمیت جتلاتے ہوئے فرمایا :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (آیت نمبر: ۶)
یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ )اور عمدہ پیروی ہے خاص کر( ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اﷲتعالیٰ بالکل بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
معترضین اس قدر واضح اور دو ٹوک آیات کو تو موضوع بحث نہیں بناتے البتہ سورہ ھود کی اسی آیت کو بار بار پیش کرتے ہیں
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ (٧٤) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (ھود: -۷۴٧٥)
جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے۔ یقینا ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اﷲ کی جانب جھکنے والے تھے۔
حا لانکہ اسی سورۃ کی آیت ۷۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
جس موضوع کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابراہیم اس کا تذکرہ رہنے دو اسی موضوع پرہمارے معترضین کو سخن وری میں لطف آتا ہے۔
یہ اعتراض کہ ملت ابراہیم اسلام سے قبل کی شریعت ہے جو ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہے ۔حد درجے غیر علمی ہے ،دیکھیے سورہ ممتحنہ کے مخاطبین شریعت محمدیہ کے پیرو کار ہیں آپ قرآن مجید کے اسلوب کو ملاحظہ کریں:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ( آیت نمبر: ۴)
مسلمانو( تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے )عقائد کے( منکر ہیں جب تک تم اﷲ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اﷲ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پرودگار!تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ کار بہت ہی خوب اسوہ ہے،سورۃ ممتحنہ کی ایک اور آیت میں ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کو واضح طور پر زمان و مکان کی قید کے بغیر ہدایت کے لیے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنانے کی ہدایت نازل ہوتی ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ(آیت نمبر:۶)
یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ)اور عمدہ پیروی ہے خاص کر( ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اﷲتعالیٰ بالکل بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
کیا معترضین اس آیت کو قرآن کا حصہ تسلیم نہیں کرتے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( البقرہ ۱۳۰)
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکوکاروں میں سے ہے۔
خود رسول ﷺ کو ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے :
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ النحل :۱۲۳ )
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں ، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی صحیح احادیث ہیں جن میں نبیﷺ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ رسول ﷺ کی سیرت ِ مطہرہ کو دیکھیں تو آپﷺ کا طریقہ بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح کفار سے برات کرنا اور ان کے معبود انِ باطلہ اور ان کے طریقہ زندگی سے دشمنی پر مشتمل تھا ۔مزید برآں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے انبیاء آپس بھی بھائی بند ہوتے ہیں ۔
اس کتاب کا موضوع توحید بلکہ توحید کا بھی بنیادی عنصر شرک سے براءت کی تفصیلات بیان کرنے پر مشتمل ہے ۔جو ہر نبی کی شریعت کا بنیادی موضوع رہاہے اور کسی شریعت میں منسوخ نہیں ہوا۔ یہ کہنا کہ سابقہ شریعتیں ہماری شریعت نہیں ہیں اگر یہ بات عبادات کے طریقہ کار کے بارے میں کہی جائے تو درست ہو گی مگر یہ کہ انبیاء کی بنیادی دعوت ہی ایک دوسرے سے مختلف ہو'یہ بات قرآن مجید کے صریح خلاف ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (نحل: ۳۶)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!)صرف اﷲ کی عبادت کرواور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اﷲتعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی، پس تم خود زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
اسی طرح سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ(آیت نمبر:۲۵)
تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
سورۃ شوریٰ میں اسی بات کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے :
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ(شوریٰ: ۱۳)
اﷲتعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے ، اﷲتعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہ نمائی کرتا ہے۔
2 یہ اعتراض کے سورۃ ممتحنہ مدنی ہے اور اس زمانے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی تو ہم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے دین اور اپنی رحمت کو مکمل کردیا ہے ۔ مکی اور مدنی سورتوں کے فرق کی بنیاد پر شرعی احکام میں فرق کرنا ہماری شریعت سے ثابت نہیں کیاجاسکتا ۔اِس قاعدے کو اگر مان لیا جائے تو اس سے شر اور فتنوں کو فروغ دینے کا ایک بڑا سامان میسر ہو جائے گا۔ شریعت کے بے شمار احکام معطل ہو جائیں گے یا ان میں ترمیم کرنا پڑے گی 'ہاں اگر معترضین یہ کہتے کہ کفر سے اظہار برات حسب استطاعت کیا جاتا ہے تو ان کی یہ بات درست ہوتی۔ ظاہرہے جو کام حکومت کر سکتی ہے وہ ایک شخص خواہ کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہو نہیں کر سکتا۔ مگر معترضین تو سرے سے برات کو اس دین حنیف کی اساس قرار دینے پر تیار نہیں ہیں۔
ہماری اس کاوش کا مقصد دین اسلام کے عقیدہ براء (اللہ کے ساتھ ایمان نہ لانے والوں سے دشمنی اور بیر رکھنا ) کا احیاء ہے۔ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے جس وقت اپنی قوم سے اظہار ِ برا ت کیا تھا تو وہ اپنی قوم کے سب سے کم زور لوگ تھے۔ ان کے پاس کوئی اقتدار بھی نہیں تھا ۔اس کے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ملت ِ ابراہیم کو ہمارے لیے کامیابی کے حصول کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ نبیﷺ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر چلتے تھے،مکی و مدنی زندگی میں آپﷺ کی دعوت کا محور توحید کے اقرار اور شرک سے بر ا ت کے گرد گھومتا ہے۔ایمان کی باقی شاخیں بھی اسی عقیدے سے پھوٹتی ہیں۔ یہی عقیدہ عروۃالوثقیٰ ہے۔
مذکورہ بالا آیات جو سورۃ ممتحنہ کی ہیں کیا فی الواقع یہ سورت مدنی ہے ؟ چلیں ایک لمحے کے لیے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ سورت پوری کی پوری مدینہ میں نازل ہوئی ہوگی لیکن سورہ کافر ون کے بارے میں کیا کیجئے گا! کیا اسے بھی آپ اپنی افتادِ طبع سے مدنی سورت ہی کہیں گے۔ اس سورت میں کس زور دار انداز سے کافروں کے دین سے اظہار برا ت کیاگیا ہے۔
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ،لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ،وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ،وَلا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ،وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ( الکافرون۱-۶:)
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں۔تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
مکہ کے معبودانِ باطلہ کی اہانت کرتے ہوئے مکہ کی وادیوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے اس طرح اظہار برا ت کرایا:
أَفَرَأَيْتُمُ اللاتَ وَالْعُزَّى،وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأخْرَى،أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأنْثَى،تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى(نجم: ۲۲-۱۹)
کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔اور منات تیسرے پچھلے کو۔کیا تمہارے لئے لڑکے اور اﷲ کے لئے لڑکیاں ہیں؟یہ تو اب بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔
آپﷺ تو مکہ میں پکار پکار کر کہہ رہے تھے:
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ،لَوْ كَانَ هَؤُلاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ(انبیاء: ۹۹-۹۸)
تم اور اﷲ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے ، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
آپe مکہ کے معبودانِ باطلہ کے ساتھ کیا رویہ روارکھتے تھے اور آپeکی شہرت اس سلسلے میں کیا تھی' اسے اس آیت کی روشنی میں دیکھیں:
وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ( انبیاء: ۳۶)
یہ منکرین جب بھی تجھے دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا ہے، اور وہ خود ہی رحمن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں۔
کفار سے اظہار برا ت پر مبنی تمام نصوص کو اگر یہاں جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جائے گی۔جہاں تک مکہ مکرمہ میں آپﷺ کے بت توڑنے کی حدیث کے ضعیف ہونے کا سوال ہے تو اس کا مفصل احوال یہاں بیان کر دینا فائدے سے خالی نہیں۔ یہ حدیث حسن درجے کی ہے جیسا کے ائمہ حدیث و الرجال نے بیان کیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں' عبداللہt کہتے ہیں مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی کہ انہیں اسباط بن محمد نے انہیں نعیم بن حکیم نے انہیں ابو مریم نے انہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے، فرمایا کہ ایک دفعہ میں اور رسول اللہﷺ بیت اللہ کے پاس پہنچے آپﷺ نے فرمایا:۔ علی بیٹھ جاؤ'میں بیٹھ گیا' آپﷺ میرے کندھوں پر سوار ہوگئے لیکن میں جب آپﷺ کا بوجھ نہ سہار سکا تو آپﷺ بیٹھ گئے اور میں آپﷺ کے کندھوں پر سوار ہوا جب آپe مجھے اٹھا ئے ہوئے کھڑے ہوئے تو مجھے ایسے لگا گویا میں آسمان تک پہنچ گیا ہوں' اس کے بعد میں کعبہ کی چھت پر چڑھ گیا وہاں پیتل یا تانبے کی موریتاں تھیں جنہیں میں نے اٹھا کر چاروں طرف پھینک دیا۔ آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ انہیں توڑ دو' میں نے انھیں گرا کر شیشے کی طرح کرچی کرچی کردیا۔ اس کارروائی کے بعد ہم دونوں وہاں سے چل دیئے اور سیدھے گھر آکر دم لیا ہمیں خطرہ تھا کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے ۔
اِس روایت میں اسباط بن محمد ثقہ راوی ہے۔ جب وہ امام ثوری رحمہ اللہ سے روایت کریں تو محدثین کرام انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن اس روایت میں وہ امام ثوری رحمہ اللہ سے روایت نہیں کر رہے ہیں۔ نعیم بن حکیم کو یحیٰ بن معین اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے۔)تاریخ بغداد:۱۳ /۳۰۳)
مسند احمد میں اس حدیث کی ایک اور سند اس طرح ہے ۔قال عبداللہ بن احمدبن حنبل ، حدثنی نصر بن علی حدثنی عبداللہ بن داؤد عن نعیم بن حکیم عن علی ... مسند احمد/۱۵۱ ۔اس کے علاوہ محدث الہیثمی نے بھی مجمع زوائد میں یہی روایت لکھی ہے' اس میں صرف اتنے الفاظ زیادہ ہیں کے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاس واقعے کے بعد بیت اللہ کی چھت پر کسی نے بتوں کو نہیں رکھا۔ (مجمع الزاوئد: ۶/۲۳ )
یہ روایت تاریخ بغداد۱۳/۳۰۳۳میں بھی موجود ہے اس سند میں ابو مریم کا ذکر بھی ہے ان کانام قیس ثقفی مدائنی ہے یہ نعیم بن حکیم اور علی بن طالب سے حدیث بیان کرتے ہیں۔ ابن حبان اور امام نسائی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ جس طرح ابن حجررحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام نسائی نے ابو مریم حنفی کو قیس کا نام دیا ہے حالانکہ قیس نام کے محدث ابومریم ثقفی تھے۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ امام نسائی کی کتاب التمیز میں نے دیکھی تو وہاں بھی قیس ثقفی کا نام درج تھا 'ابو مریم حنفی کا ذکر نہیں تھا کیونکہ امام نسائی ان کو نہیں جانتے تھے ۔
اس حدیث کو علامہ احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق میں صحیح قرار دیا ہے ۔۲/۵۸۔علامہ احمد شاکر کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ،نعیم بن حکیم کو ابن معین نے ثقہ قرار دیا ہے ۔امام بخاری نے تاریخ کبیر ۲/۹۹میں ان کے حالات زندگی لکھتے ہوئے ان پر جرح نہیں کی ہے۔ اس طرح ابو مریم ثقفی پر بھی امام بخاری نے کوئی جرح نہیں کی ہے ۔علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے پیش آیا تھا۔
اس حدیث کی سند آپ جان چکے ہیں اگر اس حدیث کو ضعیف بھی قرار دیا جائے پھر بھی رسول اللہﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے ۔مکہ مکرمہ میں تیرہ برس آپﷺ مسلسل اسی ایک بات پر مصر رہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپﷺ نے مکہ میں تیرہ برس خاموشی سے گزار دیے ہوں گے ۔واقعہ یہ ہے کہ آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کمزور ہونے کے باوجود برملا مکہ کے معبودوں سے اظہار برا ت کرتے تھے۔ شرک اوراہل شرک سے نبیﷺ کی برا ت کچھ اسی حدیث پر موقوف نہیں ہے،کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر اس حقیقت سے آنکھیں چرائی جاسکیں بلکہ اس پر قاطع ادلہ اسی قدر تفصیل سے کتاب اللہ میں ہیں کہ ایک متعصب ہی اُن کا انکار کر سکتا ہے ۔ ہم اس مختصر کتابچے میں مذکورہ بالا دلائل پرہی اکتفا کرتے ہیں ۔
آخر میں میں چاہتا ہوں ایک مناظرے کا احوال بیان کروں جو میرے ساتھ جیل میں چند دوسرے قیدیوں نے کیا تھا۔ مناظرے کا موضوع ایمان اور اس کے متعلقات تھا۔ بحث کے دوران میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے صحابی رسولﷺحاطب بن ابی بلتہ رضی اللہ عنہ اور ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ کے واقعات کو بطور دلیل کے پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے تو اہل مکہ کے لیے جاسوسی کی تھی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے خیانت کے مرتکب ہوئے تھے' اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار نہیں دیا تھا ۔ان کے خیال میں اس قسم کے افعال کفر کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اس دلیل کو بنیاد بنا کر وہ انسان ساختہ قوانین بنانے والے اور ان کے نافذ کرنے والوں کو بھی بری الذمہ قرار دینے پر مصر تھے اور کہتے تھے کہ ان لوگوں کی تکفیر نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت بھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اور ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی طرح ہے۔جب ہم نے کہا کہ تم لوگ طاغوت کی افواج کو کافر قرار نہیں دیتے ہو بلکہ ان کو صرف ظالم اور جابر کہتے ہو تو وہ اِس بات پر ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم نے ان کی بات کو غلط رنگ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ سارے ہی ظالم اور جابر ہوتے ہیں بلکہ ہم نے صرف انہیں شک کا فائدہ دیا ہے کہ انسان ساختہ قوانین کو نافذ کرنے والے بعض لوگ ظالم بھی ہو سکتے ہیں اور فاجر بھی۔ ہم نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ساختہ قوانین بنانا اور انہیں نافذ کرنا بذات خود کفر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ ہمیں ان کے ذاتی حالات کا علم ہو'جو کے ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے۔ ہم نے جب کہا کہ تم طاغوت کو تحفظ دینے والوں کو محض ظالم اور جابر سمجھتے ہو اورکافر نہیں سمجھتے ہو تو وہ اس بات پر سیخ پا ہو گئے ۔ہم نے کہا کہ جب حاطب بن ا بی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو جاسوس اور ابو لبابہ(معاذ اللہ)کو خائن کہتے ہوئے تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور جب ہم نے کہا کہ تمہارے اِس اصول سے غیراللہ کے قانون کو نافذ کرنے والے مسلمان ہی رہیں گے تو تمہیں غصہ آ گیا۔ اس کے بعد ہمارے اوران کے درمیان جدائی ہو گئی ۔ پھر ایک موقع پر ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا' تم درحقیقت ملت ابراہیم کی دعوت دینے والے ہو ۔ ایسے لوگوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور تمہاری دعوت سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ سے دوستی کر لی جائے کیونکہ ان دو مذاہب کے پیروکار ہی ابراہیمu کی اولاد ہیں اور تمہاری ملت ابراہیم سے یہی لوگ مرادہیں ۔
محترم قارئین ! بتایئے اس قدر سطحی سوچ رکھنے والوں سے کیا گفتگو کی جا سکتی ہے جو نسلی اولاد اور عقیدے کی بنیاد پر اٹھنے والی دعوت کے فرق کو نہ سمجھتے ہوں ۔ موجودہ زمانے کے طواغیت نے پروپیگنڈہ سے یہ بات ہمارے نادان دوستوں کے ذہن میں ڈال دی ہے۔ بھلا ملت ابراہیم سے یہود و نصاریٰ کی دوستی کب مراد ہونے لگی۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی لگا کر تو آدمی ایمان سے تہی دامن ہو جاتا ہے اور دین کی بنیادہی منہدم ہو جاتی ہے ۔ عقیدہ ولاء اور براء کے اوپر ایسی زد پڑتی ہے کہ آدمی کو اپنے ایمان کی ہی خیر منانی چاہیے ۔ یہود ونصاریٰ کب ابراہیم علیہ السلام کی ملت میں ہونے لگے :
ا ِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ( آل عمران: ۶۸)
سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، مومنوں کا ولی اور سہارا اﷲ ہی ہے۔
ملت ابراہیم اور اولاد ابراہیم میں عقیدے اور منھاج کا فرق ہے۔ اتنی موٹی با ت کی کسی کو سمجھ نہ آئے تو کیا کیا جاسکتا ہے ۔ ملت ابراہیم پر چلنے سے باپ اور بیٹے میں جدائی آجاتی ہے۔ اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے دو واضح گروہ بن جاتے ہیں ۔ ملت ابراہیم سے بے اعتنائی برتنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ( البقرہ: ۱۳۰)
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
ہم نے اس کتاب میں دین ابراہیم کوو اضح طور پر بیان کیا ہے ۔آپ کھلے دل اور روشن آنکھوں سے اس پر غور کریں اور مخالفین کے پروپیگنڈہ میں نہ آئیں ۔
برادران اسلام!بہت افسوس ہے کہ اس کتاب کی پہلی اشاعت سے لے کر اب تک کے طویل دورانیے میں ہمیں کتاب کے مندرجات پر کوئی علمی اعتراض پڑھنے کو نہیں مل سکا۔مخالفین نے اس کتاب اور صاحبِ کتاب پر جو گھٹیا درجے کے الزامات لگائے ہیں ان کا جواب دے کر ہم ان کی سطح پر نہیں اترنا چاہتے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العالمین اپنے دین کی نصرت فرمائے اور دشمنوں کو ذلیل وخوار کرے اور ہماری زندگی اسلام کی خدمت میں کھپ جائے۔اے اللہ ہمیں اپنے دین کا محافظ اور مدد گار بنادے اور ہمیں شہادت فی سبیل اللہ کی نعمت عطا فرما۔ آمین
ابو محمد عاصم المقدسی حفظہ اللہ
تو یہ ہے اصل صورتحال جس کو مسلم نوجوانوں سے محض اس لیے چھپایا جارہا ہے تاکہ دورحاضر کے حکمرانوں کو آکسیجن فراہم کی جاسکے۔ ان حکمرانوں کے پاس اس بات کی طاقت ہے کہ وہ اسلام کا نام لینے والوں کو بے دریغ قتل کریں ان کو اپنے طاغوتی زندانوں میں قید کریں۔ان کی عزتوں ان کی حرمتوں کو پامال کریں ان کو نصرانیوں کے ہاتھوں فروخت کریں قوم کی عفت مآب بیٹیوں کو نصرانیوں کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض بیچیں ۔مسلمانوں کے گھروں کو بمباری کرکے تباہ کریں ۔ لیکن اگر طاقت نہیں ہے تو دین اسلام کو نافذ کرنے کی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حکمران تو ایجنٹ ہی نصرانیوں کے ہیں یہ تو مسلمانوں کے خون کا پیسہ نصرانیوں سے وصول کرتے ہیں ابھی نواز شریف حکومت نے اس خون کی قیمت کی قسط امریکہ جانے سے پہلے ہی وصول کرلی ہے۔دوسری قسط اگلے مہینے ملنے والی ہے۔تو محترم بھائیوں جب تک کوئی حکمران حکومت ملنے پر دین اسلام کو نافذ نہیں کردیتا وہ خائن ہے۔ اس کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ اور اس حکمران کی اصل طاقت ہی اس ملک کا سیکولر طبقہ ہے ۔ جو کہ بتوں اور مزارات کو پوجنے میں کوئی عار محسوس نہین کرتا اور جب یہی طبقہ حکومت میں ہوتا ہے تو اسلام نظام کا مطالبہ کرنے والوں پر یاعلی مدد کے نعرے لگانے والوں کے ذریعے ان کے سینے امریکہ کی دی ہوئی مشین گنوں سے چھلنی کردیتے ہیں۔آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
جزاک اللہ خیرا ابو زینب بھائی
آپ نے اپنی رائے سے آگاہ کیا، آپ کا شکریہ، میں پوری تحریر پڑھ کر پھر کچھ کہنا چاہوں گا، ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔
ویسے تو میں کسی کو یہاں لکھنے سے روکنے کا حق نہیں رکھتا لیکن آپ سے برادرانہ گزارش ہے کہ آپ یہاں مت لکھیں، کیونکہ اس قسم کے اندازِ گفتگو سے صرف نفرت ، اشعات انگیزی، انتشار ہی پھیلتا ہے۔اس گفتگو کو میرے اور ابو زینب بھائی کے درمیان ہی رہنے دیں، اگر آپ نے کچھ کہنا ہے تو ایک علیحدہ تھریڈ پوسٹ کر کے وہاں گفتگو کریں۔ اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے آمین
امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
آپ کا اس روایت سے خود کش حملے پر استدلال درست نہیں، دو باتوں پر غور کریں:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا
کہ وہ ہر اونچی قبر کو صرف بالشت بھر زمین سے ابھرا ہوا چھوڑ دیں ، باقی مٹا دیں
اب یہ حکم نہ تو زرداری اور نہ ہی نوازشریف اور نہ ہی یہ تمام سیکولر جماعتیں جو کہ پاکستان میں ہیں ، دے سکتے ہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر خود ہی ان کے پجاری ہیں ۔
اور اگر چند لوگ ہیں تو وہ یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے ۔
اس طرح اور بھی کئ باتیں ہیں ، اس کو کون لاگو کرے گا ۔
اگر کہے کہ حکمران تو ایسے حکمران کون لائے گا ؟
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
اب یہ حکم نہ تو زرداری اور نہ ہی نوازشریف اور نہ ہی یہ تمام سیکولر جماعتیں جو کہ پاکستان میں ہیں ، دے سکتے ہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر خود ہی ان کے پجاری ہیں ۔
اور اگر چند لوگ ہیں تو وہ یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے ۔
اس طرح اور بھی کئ باتیں ہیں ، اس کو کون لاگو کرے گا ۔
اگر کہے کہ حکمران تو ایسے حکمران کون لائے گا ؟
آپ نے ٹھیک کہا یہ کام زرداری کا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ کام نوازشریف کرسکتے ہیں اور نہ ہی سیکولر لوگ کر سکتے ہیں یہ کام آپ جیسے سوچ رکھنے والے کرسکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو نیچے خبر ہی دیکھ لیں۔
شام کی سرکاری فوج نے باغیوں کے بیس کیمپ حمص میں وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے جلیل القدر صحابی حضرت خالد بن ولید کا مزار اور اس سے ملحقہ تاریخی جامع مسجد شہید کردیے ہیں۔حمص میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور انسانی حقوق آبزرویٹری کے مطابق پیر کے روزاسد نواز فورسزنے حمص کی مرکزی کالونی الخالدیہ میں راکٹوں اور مارٹر گنوں سے حملے کیے جن کے نتیجے میں حضرت خالد بن ولید کا مزار اور مسجد مکمل طورپر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔
خیال رہے کہ شام میں ایک ہفتے کے دوران کسی بزرگ ہستی کے مزار پر دوسرا بڑا حملہ ہے۔ چار روز پیشتر دمشق میں گولے گرنے سے حضرت سیدہ زینب کا مزار بھی شہید ہوگیا تھا۔ حکومت نے واقعے کی ذمہ داری باغیوں پرعائد کی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی فراہم کردہ اطلاعات کےمطابق باغیوں کے بیس کیمپ سمجھے جانے والےشہرحمص میں چوتھے ہفتے بھی بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری جاری ہے اور شہرکا قبضہ حاصل کرنے کے لیے پوری طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق آبزرویٹری کی جانب سے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی" کو بھیجی گئی ایک ای میل میں بتایا کہ سوموارکو علی الصباح اسد نواز فوجیوں نے حمص میں صحابی رسول حضرت خالد بن ولید کے مزار پر راکٹ اور مارٹر حملے کیے گئے جس سے مزار مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ بمباری سے مزار سے ملحقہ جامع مسجد خالد بن ولید بھی شہید ہوگئی ہے۔ یہ مسجد عثمانی دور میں تعمیر کی گئی تھی.
ادھرباغیوں کی جانب سے تباہ ہونے والے مزارکی ایک ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر لوڈ کی ہے، جس میں خلافت عثمانیہ کے دور میں بنائی گئی تاریخی جامع مسجد اور مزار کو ملبے کا ڈھیردکھایا گیا ہے۔ انقلابی کارکنوں نے سرکاری فوج کی اس جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور بتایا ہے کہ اسد نواز فوجیں شہرپر قبضے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔
ماہ صیام میں حمص پر آتش و آہن کی بارش
درایں اثناء انسانی حقوق کے ایک کارکن خضیر خشفہ نے"العربیہ" نیوز چینل کو بتایا کہ سرکاری فوج ہرآنے والے دن حمص پر پہلے سے زیادہ تباہ کن حملے کر رہی ہے تاکہ باغیوں کے اوسان خطا ہوں اور اسد نواز فوجیں شہرپر دوبارہ قبضہ حاصل کرسکیں۔ خضیر کا کہنا تھا کہ ماہ صیام کی حرمت کے باجود اسد نواز فوجی باغیوں کے ٹھکانوں پر ہاون راکٹوں اور مارٹرگنوں سے شیلنگ کر رہے ہیں۔ انہی تباہ کن حملوں میں حضرت خالد بن ولید کے مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کوبھی نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ پچھلے چند ایام سے شہر کی مرکزی کالونی"الخالدیہ" سرکار فوج کا سب سے اہم ہدف ہے۔ کالونی میں کئی روز سے جاری بمباری میں سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں۔
صحابی رسول کے مزارکی تباہی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں الخضیرکا کہنا تھا کہ سرکاری فوج نے مزار پر"ہاون" راکٹوں اور مارٹرگنوں سے گولہ باری کی، جس کے نتیجے میں مزارمکمل طورپر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزار کی دیواروں پرقرآنی آیات کندہ کی گئی تھیں۔ بمباری کے نتیجے میں قرآنی آیات پرمبنی اور دیواروں کے ٹکڑوے دور دور تک بکھرے پڑے ہیں
اب قارعین کرام غور کریں کہ خالد بن ولیدؓ کا مزار (جس کا نیا نام خوارجیوں نے "بت" رکھا ہے) "مجاہدین" کی نگاہوں سے کیسے اوجھل رہا۔ داتا دربار تو نظر آگیا لیکن اتنا بڑا مزار وہ بھی مسجد کے ساتھ کیوں نظر نہیں آیا ۔ لیکن خیر یہ "نیک کام"(خوارجیوں کی شریعت کے مطابق) بشارالاسد کی فوج نے کردیا۔
 
Top