• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مزارات پر دھماکے کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں (شیخ توصیف الرحمن راشدی)

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
ہم مرجئہ کے چوزوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے شہروں میں جو لات اور منات کے بت جنہیں تم مزارات کہتے ہو جیسے لاہور میں علی ہجویری کی قبر جس پر مشرکین کا طواف کرنا اور اس قبر کی عبادت کرنا مشہور ومعروف ہے۔جس کے بارے میں مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ اہل لاہور علی ہجویری کی قبر کو داتا کا دربار یا داتا دربار کہتے ہیں۔خود مرجئہ کے چوزے بھی علی ہجویری کی قبر کو داتا دربار کے الفاظوں سے یاد کرتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے ہر شہر میں ان پوجے جانے والے مزارات کے بت موجود ہیں کوئی بت ان میں بڑا ہے تو کوئی چھوٹے درجے کا بت ہے ۔ ان بتوں کے درجوں کی تقسیم بعینہ مشرکین مکہ کی تقسیم کی طرح ہے جس طرح لات اور مناف بڑے بت تھے اسی طرح لاہور میں علی ہجویری کا مزارہے جسے اہل لاہور داتا صاحب ، داتا دربار ،داتا کا دربار کے نام سے پکارتے ہیں اس بت پر مشرکین جاکر منتیں مانگتے ہیں چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔اس بت پر مشرکین عبادت تک بجالاتے ہیں۔ مشرکین علی ہجویری کی قبر پر سجدے رکوع اور طواف تک کرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ اہل علم ، علماء کی موجودگی میں ہورہا ہے۔علماء نے سوائے فتاویٰ لکھنے کے آج تک کسی پاکستان میں پائے جانے والے ان مزار نما بتوں کو گرانے کا عملی فریضہ سرانجام نہیں دیا۔چنانچہ یہی وجہ ہے بلاکھٹکے ان مزارات پر مشرکین باقاعدگی سے سالانہ عرس بھی مناتے ہیں۔طواف بھی کرتے ہیں ،اور ان مزارنمابتوں پرمشرکین کا رکوع اور سجود کرنا تو روز مرہ کا معمول ہے۔اورمشرکین کے اس کام میں سب سے بڑے معاون اس ملک کے مرتد حکمران اور ان کے لشکر ہیں جوان مشرکین کی ان مزارنمابتوں پر عبادت کے دوران ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔آج تک کسی بھی عالم نے ان مزارات کو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں ان کو منہدم کرنے یا گرانے یا مسمار کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے۔جب کہ ان فتاویٰ میں اس عمل کی طرف تحریض دلائی گئی ہے۔اب جب مجاہدین نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان شرک کے اڈوں اور بتوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کیا تو تومرجئہ کے چوزوں نے مجاہدین کو متہم کرنا شروع کردیا۔ان علماء کو تو یہ چاہیے تھا امت اسلام کے ان ابطال کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مجاہدین کی صف اول میں شامل ہونا چاہیے تھا۔اور سب سے پہلے خود آگے بڑھ کر ان مزار نما بتوں کو گرانے کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس ایک لمبا عرصہ گزرگیا اور یہ مشرکین ان مزارات پر آج تک اسی طرح بلا کھٹکے اپنی عبادت کو سرانجام دے رہے ہیں۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو کہتے ہیں کہ جس مجاہد نے علی ہجویری کے بت کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی اس کو آپ اس مجاہد کی غلطی گردانتے ہو۔لیکن آج تک آپ نے کیا کیا؟؟ کیا آپ نے ان بتوں پر ہونے والی عبادت کو اپنے ہاتھ سے روکنے کی کبھی کوشش کی یا صرف ڈرائنگ روم اور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف دورہ احادیث ہی کرتے رہے۔ان مزارات کو کون گرائے گا ؟ اور کیسے گرائے گا؟ ان مزارات کو گرانے کے بارے میں ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس یا ان کے بڑے مرجئہ سرداروں کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ۔ان مرجئوں کے بڑے بڑے لاؤ لشکر کس کے لئےہیں؟ان لاؤ لشکروں کا کیا مقصد ہے ؟ کیا ان لاؤ لشکروں میں توحید کی غیرت بالکل نہیں ہے؟اگر ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس غیرتِ توحید ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ان بت نمامزارات کو منہدم کرنے کی کوشش ضرور کریں ۔اور اگر ان میں غیرتِ توحید نہیں ہے۔تو پھر وہ ان پاک طینت موحدین کوان بت نمامزارات کو گرانے کے سلسلے میں متہم نہ کریں۔عصر حاضر میں جب طواغیت اور مرتد حکمران ان مزارات کے متولی ہوں ان چادریں چڑھانے والے ہوں ان مزارات پر جاکر منتیں مانگنے والے ہوں اور انہوں نے اپنے لاؤ لشکروں کو ان مزارات کی حفاظت پر مامور کررکھا ہو تو ہم مرجئہ کے ان چوزوں سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ جہاد کے علاوہ وہ کون سا طریقہ ہے ان مزارات کو مسمار کرنے کا جب کہ ان مزارات پر آنے والے ، ان مزارات پر عبادت کرنے والے ، مزارات کا طواف کرنے مشرکین بھی مسلح ہوں اور ان مزارات کی حفاظت پر کمربستہ ہوں تو وہ کون سا طریقہ ہے کہ ان مزارات کو منہدم کیا جاسکے ۔ جب صورتحال یہ ہو تو کیا جہاد کے بغیر ان مزارات کو منہدم کیا جاسکتا ہے؟؟؟۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو علماء اسلام کے فتاویٰ کی ایک جھلک دکھلاتے ہیں کہ شاید ان میں توحید کی غیرت موجزن ہوجائے :​
قبروں پر عمارت بنانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 June 2012 02:44 PM​
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته​
قبروں پر عمارت بنانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبروں پر عمارت بنانا حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور منع اس لیے فرمایا ہے کہ اس میں اہل قبور کی تعظیم ہے جو قبروں کی پوجا کا وسیلہ اور ذریعہ بنتی ہے پھرہوتے ہواتے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی معبود تسلیم کیا جانے لگتا ہے جیسا کہ ان بہت سے مزاروں پر ہو رہا ہے جنہیں قبروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ لوگ اصحاب قبور کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی پکارنے اور دہائی دینے لگتے ہیں، جب کہ اصحاب قبور کو پکارنا اور تکلیفوں اور مصیبتوں کے دور کرنے کے لیے ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔
غور سے پڑھو اس فتویٰ کو اے مرجئہ کے چوزوں دیکھو علماء کرام کیا فرمارہے ہیں ان قبروں پر جاکر پکارنا اور تکالیف اور مصائب کے وقت ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔ہم مرجئہ کے چوزوں سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں ارتداد کے کیا احکام ہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں جوقبرپرستی کی وجہ سے شرک اکبر میں مبتلا ہوچکے ہوں ان کے متعلق شریعت کیا احکامات صادر کرتی ہے؟؟​
ہم مرجئہ کے چوزوں کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور ان رفقاء رحمہم اللہ کی سیرت کا ایک پہلو عبرت حاصل کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں :​
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ﷫ اور شیخ عبدالقادر جیلانی﷫، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ایک موقع پر شیخ محمد﷫ مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی﷫ جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:​
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''​
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :​
1۔ عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔​
2۔ نماز، روزہ، حج اور اداے زکوٰۃ کا التزام کیا جائے۔​
3۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذاتِ عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔​
4۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔​
5۔ پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔​
6۔ شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔​
شیخ ﷫ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب﷫ اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ ﷫ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:​
وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨)یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''​
واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔​
اس تمام عبارت کو پڑھنے کے بعد محدث فورم پر ایک موحد نے اسی ضمن یہ سوال کیا کہ :​
کلمہ گو سے جہاد کا یہ ثبوت نہیں ہے ؟زرداری اور بے نظیر کا اجمیر اور سیہون کے "مندروں" کے لیے نذرانہ یہی کام نہیں ؟​
نواز شریف اور شہباز شریف کا داتا کے "مندر" اور پاکپتن کے مندروں کی تعمیر اور نذرانہ یہیں کام نہیں ؟​
اس وقت محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام پچاس ہزار "مندر" چل رہے ہیں​
اگر ان وجہوں سے ترکوں یعنی حکومت عثمانیہ سے جہاد ہو سکتا ہے تو آج کے حکمرانوں سے کیوں نہیں ؟​
مرجئہ کے چوزوں کو ہم ایک اور تحریر سے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علمائے حدیث کا احترام کرنا سیکھیں اور ان کی بات کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور پھر اس پر عمل کریں ۔ مجاہدین اسلام نے ان علماء حدیث کے فتاویٰ کو پڑھا ان پر غوروفکر کیا پھر اپنی ایمانی غیرت کے مطابق ان فتاویٰ پر عمل کرنے کی کوشش اپنی استطاعت کے مطابق کی ۔جبکہ مرجئہ کے چوزے مجاہدین کے اس فعل پر ان کو متہم کرتے رہے:​
آج ہم مرجئہ کے چوزوں سے پوچھتے ہیں کہ اس دور میں ایک مومن کس طرح مندرجہ بالا حدیث پر عمل کرے جب علی ہجویری کے مزار کو ڈھانے کے لئے آلات لے کر جائے گاتو اس موحد کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور وہ کیسے ان شرک کے اڈوں کو منہدم کرسکے گا۔اس حدیث پر کیسے عمل ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منکر کو مٹانے کے لئے ہاتھ کی قوت کو استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔جو کہ مجاہدین کے پاس ہے ۔ الحمد للہ ۔اے مرجئہ کے چوزے جب مجاہدین اس مزار کو اللہ کی دی ہوئی مدد اور قوت کے ساتھ تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تم ان پر اپنے ارجائی فتاویٰ کی بارش کردیتے ہو ۔ان کو اسلام سے خارج کرنا شروع کردیتے ہو۔ اب تم ہی بتاؤ کہ یہ شرک کے اڈے کس طرح ختم ہوں گے ۔ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے لٹیرے جو ان شرک کے اڈوں میں موجود ہیں وہ کس طرح ختم ہوں گے ۔ عورتوں کی عصمتوں کو لوٹنے والے لٹیرے جو کہ ان شرک کے اڈوں میں بنائے گئے تہہ خانوں اور خفیہ کمروں میں موجود ہیں کس طرح ختم کیے جائیں گے ؟ ان مزارات پر عورتوں کی لٹتی عوئی عصمتوں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟​
میرے بھائی آپ نے ایک بار بھی یہ نھیں بتایا کہ محمد بن عبدالوہاب نے کسی ایک مزار پر بھی دھماکہ کیا ہو ،وہا ں جا کر کسی عورت یا بچے کو قتل کیا ہو؟اس کے ہم بھی قائل ہیں کہ ان مزاروں کو ڈھا دیا جائے اور ان کو مسمار کر دیا جائے
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
میرے بھائی آپ نے ایک بار بھی یہ نھیں بتایا کہ محمد بن عبدالوہاب نے کسی ایک مزار پر بھی دھماکہ کیا ہو ،وہا ں جا کر کسی عورت یا بچے کو قتل کیا ہو؟اس کے ہم بھی قائل ہیں کہ ان مزاروں کو ڈھا دیا جائے اور ان کو مسمار کر دیا جائے
حافظ صاحب شیخ الاسلام امام محمد عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اپنے دور میں ان قبوں اور مزارات کو ڈھانے میں بڑی تکالیف اٹھائی ہیں۔اور اس سلسلے میں انہوں نے مشرکین کو سزائیں بھی دی تھیں۔جیسا کہ ہم نے اپنے پوسٹوں میں اس بات کا ذکر بھی کیا ہے۔محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اگر ان قبروں اور قبوں کو ہتھوڑے مار کر توڑا تھا تو ہم پر بھی اسی طرح توڑنا کس نے واجب کیا ہے۔امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اپنے دور کی مشینری کے ذریعے ان مزاروں اور قبوں کو توڑا تھا اور آج ہم اپنے دور میں ہیں جدید مشینری اور جدید وسائل موجود ہیں ان کی مدد سے ہمیں ان قبوں اور قبروں کو توڑنا چاہیئے جو کہ غیر شرعی ہیں۔اگر ان مزاروں کو اتنی آسانی سے ڈھانا ممکن ہے۔ تو آپ نے اس مبارک عمل کو اب تک کیوں انجام نہیں دیا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث میں مخاطب صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ی ابوالہیاج الاسدی رحمہ اللہ نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمان جو کہ اس مبارک کام کو انجام دینے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ سب کے سب اس حکم میں شامل ہیں۔اور آپ بطریق اولیٰ اس حکم میں شامل ہیں کیونکہ آپ کتاب اللہ کے قاری ہیں۔حافظ ہیں۔اس لئے کتاب اللہ کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات پر عمل کرنا بھی ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔اگر علی ہجویری کی پوجی جانے والی قبر کو توڑنا اس قدر آسان ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے :
اس کے ہم بھی قائل ہیں کہ ان مزاروں کو ڈھا دیا جائے اور ان کو مسمار کر دیا جائے
تو آپ نے اب تک اس مبارک فریضے کو کیوں انجام نہیں دیا؟آپ کو تو چاہیے تھا کہ علی ہجویری کی قبر کو ڈھا دیتے اور مسمار کردیتے۔جب آپ علی ہجویری کی قبر کو ڈھانے یا مسمار کرنے جائیں گے تو آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب آپ کو علی ہجویری ہی کی قبر پر مل جائے گا۔
مجاہدین نے تو اپنی سمجھ اور سوچ کے مطابق درج ذیل حکم پر عمل کیا :
أَلَّا أَبْعَثُکَ عَلٰى مَا بَعَثَنِى عَلَيْہِ رَسُولُ اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَہُ (صحیح مسلم ، الجنائز، رقم الحدیث : ۹۶۹)'' کیا میں آپ کو اس مہم پہ نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مورتی (تصویر) کو دیکھوں اسے مٹا دوں اور جس بلند قبر کو دیکھوں اسے زمین کے برابر کردوں۔''
کیا علماء اسلام کے اس فتوے پر عمل ہوسکتا ہے:
علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨)یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
اب اس حکم پر آپ اپنی سمجھ کے مطابق عمل کریں دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں آپ بھی شامل ہیں اور وہ تمام علماء اور اہل علم شامل ہیں جو ان احادیث اور ان فتاویٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔لہٰذا ان تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس علی ہجویری کی قبر پر ہونے والی قبرپرستی کو بزور قوت روکیں۔اور اس غیر شرعی مزار کو ڈھا دیں یا مسمار کردیں۔
کیونکہ جب ہمارے گھروں کی بجلی چلی جاتی ہے۔ یا گٹر لائنیں بند ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ تو ہم روڈوں پر نکل کر پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کرتے ہیں سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ان کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں ۔ان کو نذر آتش کرتے ہیں۔ کسی مدرسے یا مسجد پر حملہ ہوجائے تو مخالف گروہوں کا گولیوں پتھروں سے مقابلہ کرتے ہیں حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی جھگڑتے ہیں۔
لہٰذا علی ہجویری اور اس جیسی پوجی جانے والی قبروں کو تو بطریق اولیٰ توڑنا منہدم کرنا واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کو ذوالخلصہ کے بت کدے کو جلا کر راکھ کردینے کا حکم دیا تھا۔اور اس جلیل القدر صحابی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہادی اور مہدی کے لقب سے ملقب کیا اس نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے ذوالخلصہ کے بت کدے کو جلا کر راکھ کردیا۔
اب آپ کو بھی چاہیے کہ علی ہجویری کی قبر کو منہدم کردیں یا مسمار کردیں یا جلا کر راکھ کردیں۔ کیونکہ آپ کو تو دوسرے طریقے سے نفرت ہے تو آپ اپنے طریقے کو اپنا کر اس بت کو نیست ونابود کردیں۔ تاکہ موحدین کے سینے ٹھنڈے ہوجائیں۔جزاک اللہ
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی بڑی قبریں یا ان پر موجود قبے، پوجی جانے والی مورتیاں یہ بہت بڑا فتنہ ہیں لہٰذا ان کو مٹانا ، ختم کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور علی رضی اللہ عنہُ کی سنت ہے اور اسی مشن پر انہوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کو بھیجا۔

دوسری طرف خود کش دھماکے کرنا یا ان مزاروں کو بموں سے اڑا دینا بہرحال ایک قابلِ مذمت فعل ہے کیونکہ اس سے وہاں موجود بے علم لوگ، عورتیں، بچے وغیرہ بھی نشانہ بنتے ہیں اور اس طریقہ کار میں قبروں میں موجود لاشوں کی بے حرمتی کا خدشہ بھی موجود ہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
شریعتِ اسلامی کا نقطۂ نظر، اس باب میں بجا طور پر یہ ہے کہ ایک زیادہ سخت اور تباہ کن مصیبت سے بچنے کے لیے کسی باطل، نظامِ غالب کے قوانین کی پابندی کی نسبتاً چھوٹی مصیبت کو لازماً گوارا کیا جائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شریعتِ اسلامی کا نقطۂ نظر، اس باب میں بجا طور پر یہ ہے کہ ایک زیادہ سخت اور تباہ کن مصیبت سے بچنے کے لیے کسی باطل، نظامِ غالب کے قوانین کی پابندی کی نسبتاً چھوٹی مصیبت کو لازماً گوارا کیا جائے۔
بھائی! محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے ایک علمی بات کی ہے، آپ اس موضوع پر کھل کر لکھیں اور کتاب و سنت کے دلائل سےموقف واضح کریں۔ شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم -

سب پہلے تو مزار بنانے والوں کے ہاتھ توڑے جائیں - تا کہ مزید مزار بنانے کی کسی کو مہلت نہ مل سکے- جہاں کوئی مزار بننا شروع ہو وہاں علماء حق اس کے بنانے والے پر کفر کا فتویٰ لگائیں - اور ساتھ ہی جتنا ممکن ہو سکے موجود مزاروں کو بلڈوز کیا جائے - (بم دھمکوں سے پرہیز کیا جائے کیوں کہ یہ مزید فتنہ کا باعث بن سکتے ہیں) -

مزار بنانے والے اور یہود و نصاریٰ کی ہمنوائی کرنے والوں ان حکمرانوں کو کافر قرار دیا جائے - چاہے وہ نواز شریف ہو زرداری ہوئی یا پارلیمنٹ کا کوئی اور ممبر - جمہوریت کفر کا نظام ہے اور اس کا ساتھ دینے والے بھی کفر کی حد پر پہنچ جاتے ہیں -

اسلامی قانون کے نفاذ کے لئے تحریک چللائی جائے - انگریزوں کا قانون فوری طور پر ختم کیا جائے -

ان کافر حکمرانوں کو جو کافر نہ سمجھے ان کو منافق اور فاسق قرار دیا جائے-

حکمرانوں کو توبہ کے لئے صرف تین دین کی مہلت دی جائے - وگرنہ مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جائے یا قتل کا فتویٰ دے دیا جائے -

یہ کام صرف علماء حق ہی انجام دے سکتے ہیں (بشرط ہے کہ ہمارے یہ علماء حکمرانوں سے ڈرنے کے بجاے الله سے ڈرنے والے ہوں) - اس کفریہ نظام میں جینے والے علماء اور اس کے خلاف مزاحمت نہ کرنے والے علماء حق پر نہیں بلکہ فاسقین کی صف میں کھڑے ہیں - دوسروں پر خوارج کا الزام لگانے والے خود کفر کا ساتھ دے رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں کافر نہ کہو -

جب کہ الله قرآن میں ایسے لوگوں کو کافر قرار دے چکا جو الله نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی اور قانون پر راضی اور خوش ہیں-

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کر لے جو الله نے اتارا ہے- تو وہی لوگ کافر ہیں-
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
کیا اسلام اس طرح سے قتل کرنے کا حکم دیتا ہیں ؟
1،فَقَاتِلُوا أَئِمَّة الْكُفْرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخرجوھم وینصرکم علیھم ویشف صدورقوم مؤمنین
(توبہ14)
ان( کافروں)سے لڑو(تاکہ)اللہ انہیں تمہارےھاتھوں سےعذاب دےاورانہیں ذلیل کرےاورتمہیں ان پرغلبہ دےاورایمان والوںکے سینوںکو شفاحاصل ھوجاۓ
واقتلو هم حيث ثقفتمو هم وأخرجو هم من حيث أخرجوكم )البقرة :(191) جہاں پاو قتل کرو اور ان کو وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے ۔
فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (12)
تو ان کے سر مار (کر) اڑا دو اور ان کا پور پور مار (کر توڑ) دو
 
Top