ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
اسلامی سزاؤں میں جس سزا پر سب سے ذیادہ اعتراض کیا جاتا ہے وہ مرتد کی سزا ہے، سوشل میڈیا پر ایسے جملے عام پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
1. کیا اللہ میں اتنا بھی صبر اور برداشت نہیں كہ وہ اپنے دین كے مرتد کو برداشت کر لے .. . . . ؟ ؟ ؟ . ایک مرتد کو قتل کروا کر اللہ کو کیا ملے گا. . . . . ؟ ؟ ؟ . اگر اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے تو ایسے خونی دین کو کون قبول کرے گا. . . . . . . . ؟ ؟ ؟. اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان ہوسکتے ہیں‘ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر کسی یہودی اور عیسائی کے مسلمان ہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو ایک مسلمان کے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر اسے کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟ . اگر کوئی پیدائشی مسلمان مرتد ہوجائے تو ؟
مرتد اوراسکی سزا
مرتد کی سزا کی معنویت پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ارتداد کا حکم کن پر کیسے لاگو ہوسکتا ہے ؟اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری مرتد ہوجائے تو :
1. اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے‘ اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں‘ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ‘ ورنہ اسے زندگی بھر کے لئے جیل میں قید رکھا جائے تاآنکہ وہ مر جائے یا توبہ کرلے۔
2. اگر کوئی عاقل‘ بالغ مرد‘ ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں گے‘ اگر مسلمان ہوجائے تو ٹھیک‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
3. اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے‘ اور اگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
4. جس شخص کا مرتد ہونا اس کے اقرار یا شرعی شہادت سے ثابت ہوجائے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ تین دن کی اسے مہلت دی جائے گی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، اگر اسے کچھ شبہات لاحق ہوگئے ہوں تو ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے گی، اگر توبہ نہیں کرتا ہے تو اسے قتل کردیا جائے۔
5. یہ سزا کوئی فرد ، گروہ اپنے طور پر لاگو نہیں کرسکتا بلکہ اسکی اتھارٹی اسلامی حکومت کے حاکم وقت کے پاس ہوتی ہے، عام مسلمانوں کے لیے حکم یہ ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات منقطع کرلیں، ان سے دوستی رکھنا یا تعلقات قائم نا کریں۔
کیا اسلام محض ایک مذہب ہے؟
جدید تصّور کے مطابق مذہب کی حیثیت صرف ایک رائے کی ہے اور رائے بھی ایسی جو زندگی کے ایک بالکل ہی دورازکار پہلو سےتعلق رکھتی ہے جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر حیات انسانی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہیں پڑتا۔ایسی رائے کے معاملے میں آدمی کو آزاد ہونا ہی چاہئے،کوئی وجہ نہیں کہ امور مابعد الطبیعت کے بارے میں ایک خاص رائے کو اختیار کرنے میں تو وہ آزادہو،مگر جب اس کے سامنے کچھ دوسری رائے کی بہتری کے دلائل آئیں تو وہ انہیں قبول نا کرے..
اگر اسلام کی حیثیت یہی ہوتی جو مذہب کی حیثیت آج کل قرار پاگئی ہے تو اس سے زیادہ نا معقول بات کوئی نہ ہوتی کہ وہ آنے والوں کے لئے دروازے پر جلاد بٹھادے۔ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اُسی معنی میں ایک "مذہب "کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج کل بولا جاتا ہے تو یقیناً اس کا ان لوگوں کے لئے قتل کی سزا تجویز کرنا سخت غیر معقول فعل ہوتا۔
دراصل اسلام کی یہ حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں وہ اصلاحِ جدید کے مطابق محص ایک "مذہب" نہیں بلکہ ایک دین ایک پورا نظامِ زندگی ہے، ارتداد کی سزا وہ بحثیت قانونی سٹیٹ دیتا ہے ناکہ ایک فرد یا مذہب۔اس کا تعلق صرف مابعد الطبیعات ہی سے نہیں بلکہ یہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح کے سوال سے بھی بحث کرتا ہے اور نجات بعد الموت کو ایسی حیات قبل الموت کی تشکیل صحیح پر منحصر قرار دیتا ہے۔
مانا کہ پھر بھی وہ ایک رائے ہی ہے۔مگر وہ رائے نہیں جو زندگی کے دورازکار پہلو سے تعلق رکھتی ہو۔بلکہ وہ رائے جس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ قائم ہوتا ہے۔ وہ رائے نہیں جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر زندگی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہ پڑتا ہو۔۔ وہ رائے جس کے قیام پر تمدن اور ریاست کا قیام منحصر ہے اور جس کے بدلنے کے معنی نظام تمدن و ریاست کے بدل جانے کے ہیں۔۔وہ رائے جس کے بنا پر انسانوں کی ایک جماعت تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل پر قائم کرتی ہے اور اسے چلانے کے لئے ایک ریاست وجود میں لاتی ہے۔
ایسی رائے اور ایسے نظریے کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا نہیں بنایا جاسکتا ۔نہ اس جماعت کو جو اس رائے پر تمدّن و ریاست کا نظام قائم کرتی ہے،رہ گذر بنایا جاسکتا ہے کہ جب قضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھے تو اس میں داخل ہوجائیے اور جب چاہئے باہر چلے جائیے۔یہ کوئی کھیل اور تفریح نہیں ہے جس سے بالکل ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر دل بہلایاجائے۔یہ تو ایک نہایت سنجیدہ اور نزاکت رکھنے والا کام ہے جس کے ذرا ذرا سے نشیب و فراز سوسائٹی اور اسٹیٹ کے نظام ہر اثر انداز ہوتے ہیں۔جس کے بننے اور بگڑنے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کی زندگیوں کا بناؤ اور بگاڑ وابستہ ہوتا ہے۔جس کی انجام دہی میں ایک بہت بڑی جماعت اپنی زندگی و موت کی بازی لگاتی ہے۔ایسی رائے اور ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے۔.؟
بنیادی غلط فہمی
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے وہ دراصل ایک معاملہ کو پہلے خود ہی غلط طریقے سے تعبیر کرتا ہے اور پھر خود ہی اس پر ایک غلط حکم لگاتا ہے۔ ۔
معترضین مرتد کی سزا پر جتنے اعتراض کرتے ہین محض ایک "مذہب" کو نگاہ میں رکھ کرکرتے ہیں اور اس کے برعکس ہم اس سزا کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے جو دلائل دیتے ہیں ان میں ہمارے پیش نظر مجرد "مذہب" نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جو کسی خاندان یا طبقہ یا قوم کی حاکمیت کے بجائے ایک دین اور اس کے اصولوں کی حاکمیت پر تعمیر ہوا ہو۔
جہاں تک عام مجرد مذہب کا تعلق ہے ہمارے اور معترضین کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا مذہب مرتد کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا جہاں سوسائٹی کا نظم و نسق اور ریاست کا وجود عملاً اس کی بنیاد پر قائم نہ ہو۔جہاں اور جن حالات میں اسلام فی الواقع ویسے ہی ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ معترضین کا تصور مذہب ہے وہاں ہم خود بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ فقہ اسلامی کی رو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں،اسلام کی تعزیری احکام میں سے کوئی حکم ایسے حالات میں قابلِ نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست (یا بااصلاح شرع"سلطان") موجود نہ ہو لہذا مسئلہ کے اس پہلو میں ہمارے اور معترضین کے درمیان بحث خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
اب قابلِ بحث صرف دوسرا پہلو رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ جہاں مذہب خود حاکم ہو،جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو،اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کو برقرار رکھنے کی زمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں جو اس کی اطاعت و وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں۔
مذہب فلسفہ اور سائنس
1. کیا اللہ میں اتنا بھی صبر اور برداشت نہیں كہ وہ اپنے دین كے مرتد کو برداشت کر لے .. . . . ؟ ؟ ؟ . ایک مرتد کو قتل کروا کر اللہ کو کیا ملے گا. . . . . ؟ ؟ ؟ . اگر اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے تو ایسے خونی دین کو کون قبول کرے گا. . . . . . . . ؟ ؟ ؟. اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان ہوسکتے ہیں‘ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر کسی یہودی اور عیسائی کے مسلمان ہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو ایک مسلمان کے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر اسے کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟ . اگر کوئی پیدائشی مسلمان مرتد ہوجائے تو ؟
مرتد اوراسکی سزا
مرتد کی سزا کی معنویت پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ارتداد کا حکم کن پر کیسے لاگو ہوسکتا ہے ؟اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری مرتد ہوجائے تو :
1. اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے‘ اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں‘ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ‘ ورنہ اسے زندگی بھر کے لئے جیل میں قید رکھا جائے تاآنکہ وہ مر جائے یا توبہ کرلے۔
2. اگر کوئی عاقل‘ بالغ مرد‘ ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں گے‘ اگر مسلمان ہوجائے تو ٹھیک‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
3. اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے‘ اور اگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
4. جس شخص کا مرتد ہونا اس کے اقرار یا شرعی شہادت سے ثابت ہوجائے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ تین دن کی اسے مہلت دی جائے گی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، اگر اسے کچھ شبہات لاحق ہوگئے ہوں تو ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے گی، اگر توبہ نہیں کرتا ہے تو اسے قتل کردیا جائے۔
5. یہ سزا کوئی فرد ، گروہ اپنے طور پر لاگو نہیں کرسکتا بلکہ اسکی اتھارٹی اسلامی حکومت کے حاکم وقت کے پاس ہوتی ہے، عام مسلمانوں کے لیے حکم یہ ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات منقطع کرلیں، ان سے دوستی رکھنا یا تعلقات قائم نا کریں۔
کیا اسلام محض ایک مذہب ہے؟
جدید تصّور کے مطابق مذہب کی حیثیت صرف ایک رائے کی ہے اور رائے بھی ایسی جو زندگی کے ایک بالکل ہی دورازکار پہلو سےتعلق رکھتی ہے جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر حیات انسانی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہیں پڑتا۔ایسی رائے کے معاملے میں آدمی کو آزاد ہونا ہی چاہئے،کوئی وجہ نہیں کہ امور مابعد الطبیعت کے بارے میں ایک خاص رائے کو اختیار کرنے میں تو وہ آزادہو،مگر جب اس کے سامنے کچھ دوسری رائے کی بہتری کے دلائل آئیں تو وہ انہیں قبول نا کرے..
اگر اسلام کی حیثیت یہی ہوتی جو مذہب کی حیثیت آج کل قرار پاگئی ہے تو اس سے زیادہ نا معقول بات کوئی نہ ہوتی کہ وہ آنے والوں کے لئے دروازے پر جلاد بٹھادے۔ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اُسی معنی میں ایک "مذہب "کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج کل بولا جاتا ہے تو یقیناً اس کا ان لوگوں کے لئے قتل کی سزا تجویز کرنا سخت غیر معقول فعل ہوتا۔
دراصل اسلام کی یہ حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں وہ اصلاحِ جدید کے مطابق محص ایک "مذہب" نہیں بلکہ ایک دین ایک پورا نظامِ زندگی ہے، ارتداد کی سزا وہ بحثیت قانونی سٹیٹ دیتا ہے ناکہ ایک فرد یا مذہب۔اس کا تعلق صرف مابعد الطبیعات ہی سے نہیں بلکہ یہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح کے سوال سے بھی بحث کرتا ہے اور نجات بعد الموت کو ایسی حیات قبل الموت کی تشکیل صحیح پر منحصر قرار دیتا ہے۔
مانا کہ پھر بھی وہ ایک رائے ہی ہے۔مگر وہ رائے نہیں جو زندگی کے دورازکار پہلو سے تعلق رکھتی ہو۔بلکہ وہ رائے جس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ قائم ہوتا ہے۔ وہ رائے نہیں جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر زندگی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہ پڑتا ہو۔۔ وہ رائے جس کے قیام پر تمدن اور ریاست کا قیام منحصر ہے اور جس کے بدلنے کے معنی نظام تمدن و ریاست کے بدل جانے کے ہیں۔۔وہ رائے جس کے بنا پر انسانوں کی ایک جماعت تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل پر قائم کرتی ہے اور اسے چلانے کے لئے ایک ریاست وجود میں لاتی ہے۔
ایسی رائے اور ایسے نظریے کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا نہیں بنایا جاسکتا ۔نہ اس جماعت کو جو اس رائے پر تمدّن و ریاست کا نظام قائم کرتی ہے،رہ گذر بنایا جاسکتا ہے کہ جب قضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھے تو اس میں داخل ہوجائیے اور جب چاہئے باہر چلے جائیے۔یہ کوئی کھیل اور تفریح نہیں ہے جس سے بالکل ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر دل بہلایاجائے۔یہ تو ایک نہایت سنجیدہ اور نزاکت رکھنے والا کام ہے جس کے ذرا ذرا سے نشیب و فراز سوسائٹی اور اسٹیٹ کے نظام ہر اثر انداز ہوتے ہیں۔جس کے بننے اور بگڑنے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کی زندگیوں کا بناؤ اور بگاڑ وابستہ ہوتا ہے۔جس کی انجام دہی میں ایک بہت بڑی جماعت اپنی زندگی و موت کی بازی لگاتی ہے۔ایسی رائے اور ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے۔.؟
بنیادی غلط فہمی
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے وہ دراصل ایک معاملہ کو پہلے خود ہی غلط طریقے سے تعبیر کرتا ہے اور پھر خود ہی اس پر ایک غلط حکم لگاتا ہے۔ ۔
معترضین مرتد کی سزا پر جتنے اعتراض کرتے ہین محض ایک "مذہب" کو نگاہ میں رکھ کرکرتے ہیں اور اس کے برعکس ہم اس سزا کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے جو دلائل دیتے ہیں ان میں ہمارے پیش نظر مجرد "مذہب" نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جو کسی خاندان یا طبقہ یا قوم کی حاکمیت کے بجائے ایک دین اور اس کے اصولوں کی حاکمیت پر تعمیر ہوا ہو۔
جہاں تک عام مجرد مذہب کا تعلق ہے ہمارے اور معترضین کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا مذہب مرتد کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا جہاں سوسائٹی کا نظم و نسق اور ریاست کا وجود عملاً اس کی بنیاد پر قائم نہ ہو۔جہاں اور جن حالات میں اسلام فی الواقع ویسے ہی ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ معترضین کا تصور مذہب ہے وہاں ہم خود بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ فقہ اسلامی کی رو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں،اسلام کی تعزیری احکام میں سے کوئی حکم ایسے حالات میں قابلِ نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست (یا بااصلاح شرع"سلطان") موجود نہ ہو لہذا مسئلہ کے اس پہلو میں ہمارے اور معترضین کے درمیان بحث خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
اب قابلِ بحث صرف دوسرا پہلو رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ جہاں مذہب خود حاکم ہو،جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو،اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کو برقرار رکھنے کی زمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں جو اس کی اطاعت و وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں۔
مذہب فلسفہ اور سائنس
Last edited: