• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ الولاءوالبرا ءاور عصر حاضر کی انتہا پسندی

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
الشیخ بن حاتم بن عارف بن ناصر الشریف
ترجمہ،نظر ثانی و تصحیح
محترم الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ


مقدمہ​

الحمد للہ رب العالمین ،والصلاۃ والسلام علیٰ إمام الأنبیاءوالمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین ومن تبعھم إلی یوم الدین امابعد!
أمت مسلمہ اپنی تاریخ کے جدید ، مشکل ترین مرحلے میں اپنی بقاءاور دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ أمت اس وقت بہت سارے رستوں والے چوراہے پر کھڑی ہے وہ اپنے علماء ،مفکرین اور فیصلہ سازوں کے تعاون کی محتاج ہے تاکہ وہ اس کے ماضی کی تصحیح ، حاضر کی اصلاح اور مستقبل کو روشن کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں ۔
اس سخت مرحلے میں أمت اور اس کے عقائد سخت دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اگر تائید ربّانی اور قوّت دین نہ ہو تی تو یہ دباؤ ۔شائد۔اسے اسکی جڑوں سے ہی اکھاڑپھینکتا۔
أمت کے جو عقائد اس وقت اعداءِاسلام کے تیروں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان میں سے عقیدہ ’’الولاء والبراء ‘‘بھی ہے ان اعداء کے پیچھے بعض مرعوب ومغلوب ذہن کےلوگ بھی شامل ہوگئے اوران کے پیچھے کئی غالی ومتشدداور متساہل ومداہنت پسند بھی دفاع میں چلے گئے ہیں ۔
یہ معاملہ اس وقت زیادہ خطرناک ہوجاتاہے جب بعض غالی و انتہا پسند مسلمان ، اس عقیدے میں إفراط و تفریط میں غلو اختیار کر جاتے ہیں اس وجہ سے یہ عقیدہ ’’الولاء والبراء ‘‘طعن وتشنیع کا ہدف بن جاتا ہے اور اس کے بارے میں نازیبا ونارواالزامات لگائے جاتے ہیں ۔
میں نہیں سمجھتا کہ اس ساری دشمنی کا سبب یہ ہے کہ أعداء اسلام ا س عقیدےکی اسلام میں حقیقت کو نہیں جانتے ،بلکہ وہ جانتے ہیں کہ اس عقیدہ کا اسلام میں مقام ومرتبہ اور اہمیت کیاہے ؟وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کامضبوط قلعہ ہے جو اسے تباہی سے بچاتا ہے اور مسلمانوں کی عزت کا وہ ستون ہے جو اسے دوسرے غیر اسلامی معاشروں میں گھل کر ۔حل ہو کر ۔ مٹ جانے سے محفوظ رکھتاہے جومعاشرے دین اللہ کے مخالف شرائع وتقالید کے پیروکار ہیں پس انہوں نے اس عقیدے پر فیصلہ کن اور مؤثر حملے کا موقع غنیمت جان لیا کہ اس کو مسلمانوں کی زندگی اور معاشرے سے نکال پھینکا جاسکے۔
اس وقت ہم ایک خوفناک حملے کا سامنا کر رہے ہیں وہ پوری سنجیدگی اور عزائم کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس عقیدے کی اہمیت کو پہچانیں ، ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمارے پاس صرف محدود وقت ہے آج ہے کل نہیں اور ہم جڑ سے اکھاڑنے والی حقیقی جنگ کاسامنا کر رہے ہیں ۔
مضمون میں عقیدہ ’’الولاء والبراء ‘‘کی حقیقت اور اسلام میں اس کا مقام و حیثیت بیان کی گئی ہے، اسلام کی اعتدال پسندی،مہربانی اور رواداری سے اس کا کوئی معارضہ (ٹکراؤ)نہیں ہے یہ عقیدہ إفراط وتفریط کے غلو سے بالکل پاک ،لاتعلق وبیزار ہے اس موضوع میں پانچ عنوانات کے تحت بات کی گئی ہے ۔
1- الولاء والبراء کے دلائل
2- الولاءوالبراء کی حقیقت
3- اساس ایمان سے اس کا تعلق
4- اسلامی رواداری کے ساتھ اسکی موافقت
5- اس عقیدے میں غلو وانتہاپسندی کے مظاہر اور اس کاان مظاہر سے برئ الذمہ ہونا

آخر میں بعض ضروری نتائج اور نصائح ذکرکیے گئےہیں ۔
اس میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل ہی ذکر کیے جائیں ، اس میں مختلف مدارس ومسالک کے علماء کے اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں تاکہ کسی خاص مسلک یا عقیدے کے لوگوں پر الزام نہ لگایا جاسکے ،حالانکہ کسی اہل علم سے یہ پوشیدہ نہیں کہ تمام اہلِ قبلہ اس عقیدے پر متفق ہیں بلکہ کسی بھی دین اور مذہب کے پیرو کار اس سے لاتعلق نہیں ہو سکتے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ مقاصد کو درست کر دے ، اعمال کو قبول فرمالے ،ان کا اجر بڑھا دے اور ان اعمال کا اچھا پھل دنیا وآخرت میں ہمارے نصیب میں کر دے ۔آمین!
فضیلۃ الشیخ
ابو عمیر حفظہ اللہ
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
مسئلہ الولاءوالبرا ءاور عصر حاضر کی انتہا پسندی​

پہلی بحث
الولاء والبراءکی حقیقت:
لغوی تعریف:
الولاء: الولی سے ہےاس کا لغوی معنی ہے قریب ہونا اور یہی وہ اصل چیز ہے جس کی طرف اس مادے سے مشتق ہونے والے سب الفاظ کے معنی لوٹتے ہیں ۔
لبراء: اس کے دو مادے ہیں ،
1 برِئ جس کا معنی ہے دور ہونا ،الگ ہونا ،علیحدگی اختیار کرنا
2 برَأ: جس کا معنی ہے پیدا کرنا اور اسی سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام ہے (البارئ )یعنی پیدا کرنے والا۔
اصطلاحی تعریف :
قرآن وسنت کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عقیدہ الولاءوالبراء حد بندی کے ساتھ دو معنی رکھتا ہے وہ یہ ہیں:
الولاءمیں محبت اور مدد کرنا اور البراء میں ان دونوں کے برعکس بغض اور دشمنی رکھنا،کا مفہوم پایا جاتا ہے، اور ان دونو ں کے معنی لغوی لحاظ سے کسی پر پوشیدہ نہیں (جیسا کہ ان کابیان گزر چکاہے )
الولاء شرعی اعتبار سے یہ ہے کہ : اللہ تعالٰی ، اس کے رسول ﷺ،دین اسلام ، اور اس کے پیروکار یعنی مسلمانوں سے محبت کرنا اور اللہ تعالی،اس کے رسول ﷺ، دین اسلام اور اس کے پیروکار یعنی مسلمانوں کی مدد کرنا،ان سےتعاون کرنا۔
اورالبر اء یہ ہے کہ طاغوت سے بغض رکھنا یعنی جس کی اللہ تبارک وتعالی کے سوا عبادت کی جائے (مادی بتوں سے یا معنوی بتوں سے )جیسا کہ خواہشات اور آراء ہیں اور کفر سے (یعنی تمام ادیان باطلہ)اور اس کے پیروکار یعنی کافروں سے بغض رکھنا اور ان سب سے دشمنی رکھنا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ الولاءوالبر اء کے دو رکن ہیں یعنی الولاء میں محبت اور مدد کرنا اسی طرح البراء میں بغض اور دشمنی رکھنا تو ہم یہاں مدد کرنے اور دشمنی کرنے سے قلبی نصرۃ اور قلبی عداوۃ (دشمنی )مراد لیتے ہیں ۔یعنی اسلام اور اہل اسلام کی مدد کرنے کی تمنا اور دلی خواہش رکھنااوراسی طرح کفر اور اہل کفر کو شکست دینے کی دلی خواہش رکھنا ۔رہی بات عملی نصرۃ اور عملی عداوۃ کی، تو یہ دونوں چیزیں اسی عقیدے کا عملی نتیجہ ہیں لازمی طور پر اس کااعضاءسے ظہور ہوگا۔جیساکہ گزر چکا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
دوسری بحث
الولاء والبراء کے دلائل :
عقیدہ الولاءوالبراء یقینی عقیدہ ہے اس میں کسی قسم کاشک ممکن نہیں کیونکہ اس کابندے کے ایمان کی بنیاد سے بہت گہرا تعلق ہےاسی وجہ سے اس کے دلائل اتنے زیادہ ہیں کہ گنتی سے باہر ہیں خاص طور پر جب ہم منطوق اور مفہوم میں سے ہر چیز کو (جو اس عقیدہ پر دلالت کر تی ہے )اس کے دلائل میں شامل کر لیتے ہیں اسی لیے اس عقیدہ کے اثبات میں کتاب وسنت اور اجماع سے بہت زیادہ دلائل نے ایک دوسرے کو تقویت پہنچائی ہے ۔
سو میں یہاں ان دلائل کے سمندر سے ایک ہی قطرہ ذکر کرنے پر اکتفاءکرتا ہوں۔
کتاب عزیز سے دلائل :
الولاء کے بارے :
اللہ تعالٰی میں فرماتے ہیں :
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ 55؀وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ 56؀ۧ
’’تمہارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسولﷺاور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ،وہ جو نمازقائم کرتے ہیں ،اور زکوٰ ۃ ادا کرتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں ۔اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول ﷺکو اور ان لوگوں دوست بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقیناًاللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جوغالب ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 71؀
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں ،وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نمازقائم کرتے ہیں ،اور زکوٰ ۃ دیتے ہیں ،اور اللہ اور اس کے رسول کاحکم مانتے ہیں ،یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب ،کمال حکمت والا ہے‘‘
ابن جریر ؒنے کہا:مومن مرد اور مومن عورتیں ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والے ہیں پس ان کاوصف یہ ہے کہ ان کابعض اپنے بعض کامددگار اورمعاون ہوتا ہے
البراءکے بارے میں:
اللہ نے فرمایا:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ
’’ایمان والے ، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جوایسا کرے گاوہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو ، کسی طرح سے بچنااور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتاہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے‘‘
ابن جریرؒ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا :
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ
اس کا معنی یہ ہے کہ اے مومنو! تم کفار کو پشتیبان اور مددگار نہ سمجھو ، تم ان کو دوست بناتے ہو ان کے دین پر ، اور تم مؤمنین کو چھوڑکران کی مددکرتے ہو مسلمانوں کے خلاف اور ان کو ان کے راز بتاتے ہو یقیناً جس نے بھی یہ کام کیا’’پس وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں‘‘
وہ اس سے یہ مراد لیتے تھے کہ یہ شخص اللہ سے لاتعلق ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص سے بیزار اور لاتعلق ہیں کیونکہ وہ اپنے دین (اسلام ) سے مرتد اور کفر میں داخل ہو چکاہے ۔
’’مگر یہ کہ تم ان سے بچو ، کسی طرح سے بچنا ‘‘
یعنی اگر تم ان کی حکومت میں ہو ،تم اپنی جانوں پر ان سے ڈرتے بھی ہو اس حالت میں تم ان سے ظاہری دوستی کرسکتے ہو اور دل میں ان کے کفر کی وجہ سے دشمنی کوچھپائے رکھو اور ان کے کفر پر ہوتے ہوئے ان کی حمایت نہ کرنا اور نہ ہی کسی بھی طرح کسی بھی مسلمان کے خلاف ان کا تعاون کرنا ۔
اس مسئلے میں دلائل بہت زیادہ ہیں یہ دلائل عنقریب آنے والی بحث میں پیش کریں گے انشاءاللہ ۔
سنت کے دلائل :
الولاءکے بارے میں :
رسول اللہﷺفرماتے ہیں :
[مثل الؤمنین فی توادّھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد ، إذا اشتکیٰ منہ عضو ، تداعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمّی]
’’مؤمنوں کی باہمی محبت ،ایک دوسرے پر مہربانی اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو ساراجسم اسکے لئے ساری رات جاگتا اور بخار میں رہتاہے۔‘‘
اور آپ ﷺنے فرمایا :
[المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضہ بعضاً]
’’مؤمن مؤمن کے لیےایک عمارت کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کا بعض ،بعض کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
[المسلم أخو المسلم :لا یظلمہ ،ولایسلمہ]
’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے ۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
[والذی نفسی بیدہ ، لاتدخلون الجنۃحتیٰ تؤمنوا،ولاتؤمنواحتیٰ تحابّوا، أولاأدلکم علی شیءٍ إذا فعلتموہ تحاببتم ؟أفشوا السلام بینکم]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ تم مؤمن بن جاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتے حتیٰ کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو کیامیں تمہیں ایسی چیزنہ بتاؤں کہ تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو ؟(فرمایا) آپس میں سلام کو عام کرو ۔ ‘‘
البراء کے بارے میں:
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
جب جریر بن عبداللہ البجلی ؓ آ پ ﷺ کے پاس اسلام پر بیعت کر نے کے لئے آئے ، تو جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ مجھ پر شرط لگائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا : [أبایعک علی أن تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیئاً ، وتقیم الصلاۃ ، و تؤ تی الز کوٰۃ ، وتنصح المسلم ، وتفارق المشرک (وفی روایۃ:وتبرأ من الکافر)]
’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ، اور اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے ، تو نماز قائم کرے ، زکوٰۃاداکرے ، مسلمان کے لئے خیر خواہی کرے اور مشرکوں کا ساتھ چھوڑ دے‘‘ (اور ایک حدیث میں ہے :’’ اور کافر سے بری اور لاتعلق ہو رہے ‘‘)
اجماع سے الولاء والبراء کے استدلالات :۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ کتاب و سنت میں بالکل واضح ہے اس کے قطعی حکم ہو نے پر اجماع ہے کیونکہ اس کے لئے قطعی ثبوت اور دلائل موجود ہیں ۔دلائل کے متحد اور مسلسل وارد ہو نے کے ساتھ یہ دین کے ان امور سے جانا گیا ہے جن کاجاننا بہت ضروری ہے۔ او ر اسی وجہ سے ہم کسی عالم کی طرف سے اس اجماع پر کسی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ ہم اس کے دلائل ، حقائق اور ایمان کی بنیاد سے اس کاتعلق بیان کر دیں تاکہ ہم یقین کر لیں کہ الولاء والبراء پر کُل امت کااجماع ہے ۔
اس کے ساتھ اجماع کو بھی نقل کیاگیا ہے :۔
امام ابن حزمؒ (المحلیٰ) میں فرماتے ہیں :اور صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول :
وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ
’’اور جس نے بھی تم میں سے ان سے دوستی لگائی تووہ انہی میں سے ہے ‘‘
یہ اس بات میں بالکل صریح ہے کہ جس نے یہ کام کیاوہ ان سب کافروں میں سے ایک کافر ہے یہ بات سچ ہے مسلمانوں میں سے کسی دو کا بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں ۔
اور ہم اس اجماع کی صحت میں کیسے شک کر سکتے ہیں حالانکہ ام القرآن میں ہے کہ :
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ Ĉ۝ۙصِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ Ċ۝ۧ
ہمیں سیدھے رستے پر چلا۔ان لوگوں کے رستے پر، جن پر تو نے انعام کیا،جن پر نہ غضب کیاگیااور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔
مفسرین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ ’’المغضوب علیھم ‘‘سے مراد یہود اور ’’الضالین ‘‘ سے مراد نصاریٰ ہیں ۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔​
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
عقیدہ الولاء والبرا ء میں غلو کے مظاہر اور اس کی ان سے برأت :​
الولاء والبراء میں غلو کی دو صورتیں ہیں ۔
1 حد سے تجاوز کرنے میں غلو ۔
2 کوتاہی کرنے میں غلو۔

یاآپ ایسے کہہ لیں غلو اور جفا۔

حد سے تجاوز کرنے میں غلو کے مظاہر :

اس کے دو نمایاں مظہر ہیں ۔
المظہر الاول: الولاءوالبراء میں تکفیر کی شرائط کو نہ سمجھنے کے سبب ان ظاہری اعمال کی وجہ سے تکفیرکرنا (کافر قرار دینا)جو الولاء والبرا ء کے واجبات کے مخالف ہیں ۔
پیچھے گزر چکاہے کہ الولاء والبرا ء میں دل سے عمل کاہونا تکفیر کی شرط ہے مثلاً:کافر سے اس کے کفر کی وجہ سے محبت یامسلمانوں کے دین کے خلاف کفار کے دین کی مدد کرنے کی تمناکرنا کفر ہے رہی بات صرف عملی مدد کی، جومسلمانوں کے خلاف کفار کےلئے ہو تو اس اکیلی (عملی مدد)سےکافر قرار دینا ممکن نہیں ،اس احتمال کی وجہ سے کہ یہ کرنے والاہمیشہ دین اسلام سے محبت اور اس کی مدد کرنے کی دلی تمنا اور خواہش رکھتا ہو۔لیکن اس کے ایمان کی کمزوری نے اسے ایسا بنا دیا کہ وہ دنیا وی معاملے اور مصلحت کو آخرت پر مقدم رکھتا ہے اس بات کی دلیل حاطب بن أبی بلتعہ کاقصہ ہے ۔
’’جب انہوں کفار مکہ کو چو ری چوری خط لکھا اورانہیں رسول اللہ ﷺ کے ارادے کی خبر کر دی کہ وہ آپ لوگو ں سے جنگ کریں گے اس کا نبی ﷺ کو علم ہو گیا تو آپ ﷺ نے اس سے خط لانے کے لئےصحابہ کو بھیجا جو کفار کو پہنچانے جارہا تھااور حاطب ؓ کو بلایا ،اور اسے فرمایا Sadاے حاطب !یہ کیا ہے ؟)انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھ پر جلدی نہ کیجیے ،میں قریش کے ساتھ رہتا تھا ( ان کےحلیف تھے ،ان میں سے نہیں تھے )آپ کے پاس جتنے مہاجرین موجو د ہیں ان کے وہاں رشتہ دار موجو د ہیں جو ان کے گھر بار اور اموال کی حفاظت کرتے ہیں ۔ میں نے سوچا ،قریشیو ں کے ساتھ میری رشتہ داری تو نہیں چلوا ن پر کوئی احسان ہی کر دیتے ہیں جس کی بناء پر وہ میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں اور میں نے یہ کام مسلمان ہونے کے بعد ،نہ کفر کو پسند کرتے ہو ئے کیا اور نہ ہی دین سے ارتداد اختیار کرتے ہوئے کیا ہے تو نبیﷺ نے فرمایا(:سچ کہاہے )سیدنا عمر ؓ نے فرمایا:مجھے چھوڑ دیجیے ،اے اللہ کے رسو ل ﷺ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں تو آپ ﷺ نے فرمایا :یقیناً یہ بدری ہے اور تجھے نہیں پتا ۔۔۔۔امید ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے بدریوں کو معاف کر دیاہو اور فرمایاہو :تم جو مرضی عمل کرو تحقیق میں نے تمہیں معاف کردیا ہے ‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے صراحت کرتے فرمایا:
’’حاطب بن أبی بلتعہ ؓ سے جو کام سرزد ہوا وہ گناہ ہے کفر نہیں‘‘
اس حدیث سے یہ پتہ چلا کہ عملی نصرت گناہ ہے لیکن خالی اسی کا ہو نا کفر نہیں کیونکہ حاطب ؓ سے جو سرزد ہوا وہ مدد تھی محبت نہیں تھی اور اس کےباوجود اس نےاسے کافر نہیں بنایا کیونکہ یہ اسلام کے خلاف کفار کے دین کی مدد کی تمنا کی بناء پر نہیں تھی ۔
اسی طرح سھل بن بیضآء کی حدیث ہے، یہ مکہ میں مسلما ن ہوئے ،اور اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا پھر مشرکین کے ساتھ بدر میں بھی نکلے اور قید ہو گئے بنی ﷺ نے فرمایا:
[لاینفلتن منھم أحد إلا بفداء أو ضربہ عنق ]
ان میں سے کوئی بھی جانے نہ پائے مگر فدیہ کے ساتھ یا قتل کے ساتھ ،
ابن مسعو د ؓ نے فرمایا:
[یارسول اللہ ،إلاسھل بن بیضاء ،فإنی قد سمعتہ یذکر الإسلام فقال رسول اللہ ﷺ بعد سکتۃ :إلا سھل بن بیضاء]
اے اللہ کے رسو لﷺ !سوائے سھل بن بیضآء کے ،بلاشبہ میں نے اسے سنا ہے وہ اسلام کاذکر کیا کرتا تھا تو نبی ﷺ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے : سوائے سھل بن بیضآء کے ‘‘
المظہر الثانی :
کفار سے برأت کرتے ہوئےغلط تطبیق۔اوریہ ذمیوں اور معاہدوں کے خون یاان کے اموال یاان کے معاملات کو مباح سمجھنے کی طرح ہے بغیر کسی سبب کے جو اسے جائز قرار دے ، صرف اس دعوے کی بناء پر کہ یہ سختی الولاء والبراء کا تقاضیٰ ہے باوجودیکہ ان ذمیوں،معاہدوں کے ساتھ نرمی وشفقت کاحکم دیا گیاہے بشرطیکہ اس سے مسلم پر کافر کی برتری نہ ظاہر ہو ۔ جیسا کہ گزر چکاہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کام (خونوں کو مباح سمجھنا،سختی اور تشدد کرنا )کا الولاء والبرا ء سے کوئی تعلق نہیں بلکہ (البراء ) ان کامو ں سے بری اور بیزار ہے ۔ عقیدہ الولاء والبرا ء کی رواداری کابیان اور شارع کے ان غیر محارب کفار کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم اور محارب کے ساتھ عدل کرنے کے حکم کے ساتھ، عدم تعارض کابیان گزر چکاہے ۔
اوراس مظہر میں غلو کرنے والے دو کاموں میں سے ایک کی وجہ سےایسا کرتے ہیں اور ان دونوں کاموں میں اصل بات یہی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو صحیح طریقے سے سمجھا ہی نہیں اور اس کو سمجھنے میں کمزور رہے ۔ وہ دونوں یہ ہیں ۔
الاول: عقیدہ الولاء والبرا ء کی وضاحت کے ساتھ قرآن وسنت کے دلائل کامطالعہ نہ کرنا حالانکہ (دلائل)نےاخلاق وآدا ب کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔یہ ایک پہلو کو اختیا ر کر لیتے ہیں اور دوسرے پہلو کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کو پچیدہ سمجھتے ہیں یہ ان کو البرا ء کی غلط تطبیق کی طرف لے جاتی ہے اس پر ان کا دین ان کو برقرار نہیں رکھتا کیونکہ وہ بغیر قیود وضوابط کے چل رہے ہیں ۔
الثانی: مصالح اور مفاسد کاخیا ل نہ رکھنا کیونکہ نقصان کو دور کرنا ،فائدہ حاصل کرنے پر مقدم ہے چاہے دو نقصان دہ چیزوں میں سے زیادہ سخت نقصان والی چیز کو کم نقصان والی چیز سے دور کیا جائے ۔
مصالح اور مفاسد کو سمجھنا فقہ الاسلامی کے مسائل میں سے بہت عظیم مسئلہ ہے بلکہ ساری شریعت ہی اسی بارے ہے اور اسی وجہ سے اس کو جاننااور اس مسئلہ کی صحیح تطبیق کرنا سارے لوگوں کاکام نہیں صرف علماء ،اللہ والے ، اللہ تعالی ٰکے دین میں فقاہت وبصیرت رکھنے والے ہی اس مسئلے کو سمجھ سکتے ہیں ۔اس مظہر کے غلو کرنے والوں کی کم علمی ان سے اس چیز کے ظہور کی وجہ سےہے کہ مسلمان آج کے دن بڑی کمزور حالت میں زندگی بسر کر رہے اور غیروں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں انکے مال و دولت کی لالچ، انکی بیداری اور ان کا اپنی پرانی بزرگی کی طرف لوٹ جانے کے خوف سے اور کوئی شک نہیں کہ اس کمزور حالت کے لئےایسے احکام اورعذرموجود ہیں جو اسلام اور اہل اسلام کی غلبہ والی حالت کے نہیں ،اس لئے یہ بات صحیح نہیں کہ ہم کمزور سے اس چیز کا مطالبہ کریں جس کا ہم غالب ، زبرد ست غلبے والے سے اپنے دشمن کے لئےمطالبہ کرتے ہیں ۔

کو تاہی کرنے میں غلو کے مظاہر :
الاول: عقیدہ الولاء والبراء کے ساتھ جھگڑنا اور اس کے بالکل ہی ختم کر دینے کا مطالبے کرنا ،اس دلیل کی بناء پر، کہ یہ دوسروں کے لئے بری ثقافت کی بنیا د ہے غلو اور انتہا پسندی کی آگ کو بھڑکانا ہے اور یہی لوگ اگر اس الولاء والبرا ء کاارادہ کریں جو ان آیات اور احادیث نبویۃ میں وارد ہوا ہے ، امت کا اس پر اجماع ہے اور وہ دین کے ایسے امور سے جانا گیا ہے جن کاجاننا لازمی وضروری ہے تو ہمارا ان سے بالکل جھگڑاہے ہی نہیں۔ ہم تو انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جب وہ اسے قبو ل کر لیں اور اسلام میں داخل ہو جائیں تو ان کے دل اس وقت شرعی الولاء والبرا ء سے لپٹ جائیں گے اور وہ اس سے زیادہ کسی کے محتاج نہیں کیونکہ اسکا (الولاء والبرا ء کا)تعلق ایمان کی اصل سےہے ( جیسا کہ ہم نے اسے بیان کر دیا ہے )
اور اگر الولاء والبراء سے غلط مفہوم سمجھیں جو اس میں حد سے تجاوز کرنے میں غلو کےمظاہر میں سے ایک ہے تو یہ انصاف نہیں کہ صحیح عقیدہ کو ،اس میں خطاکاروں کی خطاکے جرم کا بوجھ اٹھوایا جائے اور نہ ہی ہم ان کے غلو کا ،دوسری طرف غلو کے ساتھ مقابلہ کریں ۔
الثانی: کفارکی عادات اور ان کی تقا لید کو مسلمانوں میں رائج کر کے صحیح اور شرعی الولاء والبرا ء کے مظاہر سے جھگڑنا۔
تحقیق قرآن وسنت کابہت سا حصہ عقیدہ الولاء والبرا ء کی نصوص پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام کو ہمارے لئے شریعت قرار دیا ہے جو کفار سے مشابہت سے ممانعت پر بلکہ ان کے ساتھ مخالفت کے حکم پر مبنی ہیں اسی طرح اور بہت زیادہ نصوص ہیں موجودہ اور گزشتہ علماء نے اس پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں۔
یہ احکام الٰہی صرف مسلمانوں کے دل میں کفار سے برأت کو پختہ کرنے کی غرض سے ہیں اس طرح کہ یہ عقیدہ جب زندگی میں نہ ہو توپھر کھوکھلی فکروں اور لامتناہی وبے مقصد خیالات کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔
پس الولاءوالبر اء کے مظاہرکی صحیح تطبیق ہی شریعت ہے اسے لازم پکڑ تے ہوئے اور عمل کیے بغیر کوئی راہ فرار نہیں اور اگر ایسا نہ کیاتو پھر ہم ان یہودیوں کی طرح ہیں جو بعض کتاب کے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہیں ۔
ایک مسلما ن یہ بات کیسے پسند کرتا ہے کہ اس کامعاشرہ دوسرے معاشروں میں گھل مل جائے وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے نکل جائے ،کیا یہی اپنی امت سے انصاف ہے یادشمنوں کے ایجنٹ ہونے کی دلیل ہے ۔؟
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اختتام​

بحث کے اہم نتائج :۔
1 الولاء والبراء کی تعریف :اللہ تعالیٰ،اس کے رسو لﷺ ،اس کے دین اور مسلمانوں سے محبت کرنااور ان کی مدد کرناـــــــــطاغوت (جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے )اور کافروں سے بغض اور دشمنی رکھنا ۔
2 اس عقیدہ پر قرآن وسنت سے قطعی دلائل ونصوص موجود ہیں اور اس پر امت کااجماع بھی ہے۔
3 عقیدہ الولاء والبراء ایمان کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے ولاء اور براء کے بغیر ایمان رہتا ہی نہیں اور اس کے بغیر تو اسلام اور مسلمانوں کا وجو د بھی ممکن نہیں ۔
4 الولاء والبرا ء مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دین اور مذہب کے متبعین کے لئےکچھ کے ساتھ ولاء او ر اپنے مخالفوں سے براء ت وبیزاری رکھنا ضروری ہو تا ہے ۔
5 الوالاء ولبراء ایک فطرۃ ہے جس پر سب انسانوں کو جوڑا گیا ہے۔ جب تک لوگوں میں عقائد و مناہج کا اختلاف ہے تب تک اس کازمین پرباقی رہنا ضروری ہے۔
6 الولاءولبراء جب اسلام سے ہے تو اسے رواداری، نرمی، میانہ روی کے رنگ میں رنگنا ضروری ہے۔
7 الولاءولبراء اصلی کافر کے لئے اپنے دین پر آزادی سے رہنے کےمعارض ہے اور نہ ہی حرم کے علاوہ کسی بھی مسلمان ملک میں نقل مکانی کی آزادی کے معارض ہے۔اور نہ ہی دائمی رہائش اختیار کرنے کے، جزیرہ العرب کے علاوہ ،کسی بھی مسلم ملک میں اور نہ ہی یہ ذمیوں اور معاہدوں کے خون، انکے اموال اور انکے عزت و اکرام کی حرمت کے معارض ہے جو دین نے بیان کی ہے۔ نہ یہ ان کے بارے وصیت کے ساتھ اور نہ ہی یہ انکے معاملات میں نرمی کرنے کے معارض ہے(اس شرط کے ساتھ کہ یہ نرمی و شفقت مسلم پر کافر کی برتری کو ظاہر نہ کرے) اور نہ یہ کافر رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کے معارض ہے اور نہ ہی جنگ کرنے والے(محارب) کے ساتھ عدل وانصاف کے معارض ہے۔
8 الوالاء ولبراء کا عقیدہ ایسا نہیں جس سے مسلمان شرمندہ ہوں بلکہ یہ تو عین عادلانہ مطالبہ ہےکوئی بھی دین جو اپنے متبعین کے لئے عزت و غلبہ چاہتا ہو وہ اسے اپنا عقیدہ اور منہج بنا لیتا ہے۔
9 الوالاء ولبراء میں غلو کرنا ایسی غلطی ہے کہ جس کا صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص تعلق نہیں بلکہ یہ ظاہری سی بات ہے کہ اس سے کوئی بھی انسانی معاشرہ نہیں بچا، چاہے اسکا تعلق کسی بھی دین یا مذہب سے ہو۔
10 الولاء والبراء میں جو حد سے تجاوز کرنے میں غلو کرنے والے ہیں ان کے غلو کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے تکفیر کی شرائط کو سمجھا ہی نہیں اور انہیں غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں البراء کے شرعی ضوابط کا علم نہیں ہے ۔
11 کوتاہی کرنے میں غلو کرنے والے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ یا ان کے دلو ں میں ایمان نہیں یا وہ الولاء والبراء کی شرعی اورصحیح حقیقت سے ناواقف ہیں یاوہ مغرب کے سامنے نفسیا تی شکست کے تحت دب گئے ہیں۔

نصائح​

کچھ اہم باتیں :
1 عقیدہ الولاء والبرا ء کو مسلمانوں میں اکمل طور پر پختہ کرنا واجب ہے کیو نکہ اس کے بغیر مسلمانوں کی بقا ء نہیں ہو سکتی سو یہ توان کے دو سرے ادیا ن میں حل ہو جانے سے امان کی چا ر دیوا ری ہے ۔
2 الولا ء والبرا ء کی حقیقت کا مسلمانو ں کو سمجھنا واجب ہے کہ یہ غیر مسلموں کے ساتھ شرعی ضابطہ ملحوظ رکھتے ہوئے ،معاملے میں شفقت اور نرمی کے معارض نہیں ۔
3 الولاء والبرا ء کے اسلامی روادا ری ،رحمدلی وفیاضی اور اعتدال پسندی سے معارض نہ ہونے پر تاکید کی ضرورت ہے اور مختلف ذ رائع ابلاغ سے اس کو نشر کرناضروری ہے ۔
4 الولا ء والبرا ء کی حقیقت کی بناء پر مغرب کا مقابلہ کرنا لازمی ہے اور اس میں کو ئی ایسی چیز نہیں جس سے مسلمان شرمندہ ہوں ۔
5 براء ت کے اس مفہو م کو پختہ کرنا کہ یہ عقیدہ کافروں سے برئ الذمہ اور بیزار ہو نا ہے نہ کہ ان پر ظلم زیادتی کرنا مقصود ہے ۔
ہٰذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسو ل اللہ وعلی آلہ واصحابہ ومن والاہ

کتبہ /د۔الشریف حاتم بن عارف العونی​


تحریر اختتام پزیر ہوئی​

_________________
 
Top