• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تقدیر سے متعلق 17 اعتراضات کے جوابات بمع مختصر تعارف مسئلہ تقدیر

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
الاکسیر فی توضیح مسئلہ تقدیر:

(مسئلہ تقدیر سے متعلق 17 اعتراضات کے جوابات بمع مختصر تعارف مسئلہ تقدیر)
ہدایت: مضمون مکمل پڑھیئے۔

مسئلہ تقدیر
مشہور چھ ایمانیات میں سے ایک تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اور اس پر ایمان لانا ہم پر فرض ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے "البتہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے"۔ (الطلاق، 3)

مسئلہ تقدیر کی حساسیت:
مسئلہ تقدیر انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اور اس میں گفتگو کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسے شہسوارِِ علم فرماتے تھے "میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو"۔

مسئلہ تقدیر ایک مشکل الفہم مسئلہ ہے:
اسی طرح مسئلہ تقدیر کوئی عام فہم مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ انتھائی باریک اور دقیق مسئلہ ہے۔ جسے سمجھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس تک پہنچنے میں بعض اوقات فکر و فہم کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور ٹھوکروں، لغزشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ امام وہب بن منبہ فرماتے ہیں "میں نے مسئلہ تقدیر میں غور کیا تو حیران ہو گیا پھر دوبارہ غور کیا تو مزید حیران ہو گیا۔۔۔"۔

مسئلہ تقدیر کی تعریف:
امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں "اللہ تعالٰی ہی اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ان شیاء کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اللی تعالٰی ازل سے ان کے بارے میں پورا پورا علم رکھتے تھے اور اسی نے ان اشیاء کو مقدر فرمایا اور دنیا و آخرت میں اس کی مرضی و مشیت اسکے علم اور قضاء و قدر اور لوح محٖفوظ میں تحریر کردہ طریقے سے ہٹ کر نہ تو کچھ ہے اور نہ ہوگا"۔

فرقہ قدریہ:
صحابہ کے اخیر زمانہ میں ایک منکرینِ تقدیر کا گروہ نکلا جس کا نظریہ تھا کہ پہلے سے کوئی شے مقدر نہیں بلکہ انسان خود اپنے افعال کا خالق ہے۔ (الیعاذباللہ تعالٰی) اس گروہ کے علمبرداروں میں معبد جہنی، غیلان دمشقی اور جعد بن درہم تھے۔ یہ قدریہ کا گروہ تھا جو انسان کو اپنے افعال میں مختارِ مطلق سمجھتا تھا۔

فرقہ جبریہ:
قدریہ کے بالمقابل ایک اور گروہ نکلا جس کا یہ نظریہ تھا کہ انسان شجر و حجر کی طرح ہے۔ یعنی اپنے افعال میں مجبور محض ہے۔ لہذا بندہ اپنے اعمال پر ناقابلِ مواخذہ ہے۔ یہ جبریہ کا گروہ تھا۔

اہل سنت و جماعت:
اہل سنت و جماعت قدریہ و جبریہ کی افراط و تفریط کے برعکس کہتے ہیں کہ نہ تو جبر محض ہے اور نہ ہی اختیارِ مطلق ہے۔ بلکہ بندہ کی حالت اس کے بین بین ہے۔ یعنی انسان کے تمام افعال مقدر میں لکھے جا چکے ہیں اور انسان اپنے افعال کا خود خالق بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے افعال سر انجاد دینے میں مختار ہے نہ کے مجبور محض۔

اعتراض 1 : بندہ کے فعل کے ساتھ اللہ کے علم و ارادے کے تعلق کے بعد یقیناََ جبر لازم آتا ہے۔ کیوںکہ بندہ کا فعل کسی صورت میں بھی علمِ الہٰی و ارادہ الہٰی خلاف نہیں ہو سکتا۔
جواب: اللہ تعالٰی علم رکھتے ہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بندہ اپنے اختیار سے فعل سر انجام دے۔ نہ اللہ کے علم و ارادہ میں تخلف آیا اور نہ بندہ سے اختیار سلب ہوا۔ لہذا کوئی اشکال نہیں۔ بندہ فعل کو کسب کرتا ہے یعنی فعل پر اپنی قدرت و ارادہ صرف کرتا ہے۔ اور اللہ اس فعل کو خلق کرتا ہے۔ لہذا اللہ خالق اور بندہ کاسب ہے۔

اعتراض 2 : جب لوحِ مفوظ میں لکھے ہوئے کے خلاف ہونا محال یعنی نا ممکن ہے۔ تو انسان کا اختیار سلب ہونا اور جبر لازم آنا ثابت ہوا۔
جواب: امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں "لوحِ محفوظ میں تحریر بطورِ وصف کے ہے، نہ کہ بطورِ حکم کے"۔ امام ابو حنیفہ کے اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری فرماتے ہیں "یعنی اللہ نے ہر شے کے حق میں لکھا ہے کہ ایسے ایسے ہوگا نہ کہ ایسا ایسا ہونا چاہیئے۔ اسکی وضاحت ایسے ہے کہ (لوحِ محفوظ میں ) کتابت کے وقت اشیاء موجود نہیں تھیں۔ پھر لوحِ محفوظ میں بطورِ وصف لکھا کہ اشیاء اس کے حکم کے مطابق ہوں گی۔ ایسا نہیں کہ بطورِ حکم کہ لکھا ہو کہ ایسا ہونا چاہیئے۔۔۔"۔

ایک دلچسپ واقعہ:
ایک چور نے حضر عمر کے سامنے اپنی چوری میں تقدیر کو بہانا بنایا کہ مقدر میں میرا چوری کرنا لکھا تھا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا تو پھر مقدر میں یہ بھی لکھا ہوگا کہ میں تیرا ہاتھ کاٹوں گا۔

اعتراض 3 : جب بندہ خود اپنے اختیار سے فعل سر انجام دے رہا تو لا محالہ بندہ ہی اپنے فعل کا خالق ہوا نہ کہ اللہ۔
جواب: جب بندہ کی اپنی ذات اور فعل کو سر انجام دینے میں استعمال کردہ اختیار و قدرت اللہ کی تخلیق و عطا کردہ ہیں، تو بندہ اس قدرت و اختیار یعنی کسب سے سرانجام دینے والے فعل کا خالق کس طرح ہو گیا؟ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں "جب فاعل مخلوق ہے تو اس کا فعل بدرجہ اولٰی مخلوق ہوگا"۔

اعتراض 4 : اگر اللہ بندہ کے سارے افعال کا خالق ہے تو امر و نہی باطل ہو گئے۔
جواب: اگرچہ اللہ بندہ کے سارے افعال کا خالق ہے لیکن ان افعال کو بندہ کسب اپنی قدرتِ حادثہ کے تحت کرتا ہے جو بندہ کے اختیار میں ہے۔ لہذا امر و نہی باطل نہ ہوئے۔

اعتراض 5 : جب کفر و معاصی اللہ نے تخلیق کئے ہیں تو بندہ کی طرف سے انکے ارتکاب پر اصل قصور وار بھی اللہ ہی کو ٹھہرایا جانا چاہیے (معاذاللہ)؟
جواب: اطباء نے ہی زہر بنایا ہے اور اس کا تریاق بھی۔ اور اس تریاق کے استعمال کا نسخہ و طریقہ بھی سمجھا دیا۔ اب اگر کوئی جان بوجھ کر زہر استعمال کرے اور تریاق استعمال نہ کرے تو اس میں اطباء کا کیا قصور۔ قصور تو اس کا ہے جس تجان بوجھ کر زہر پیا اور تریاق استعمال کو ترک کیا۔ اسی طرح اللہ نے کفر و معاصی بھی پیدا فرمائیں اور ایمان و طاعات بھی۔ اور ان کی طرف رہنامائی کے لیئے انبیؑاء کو بھی بھیجا۔ اب اگر کوئی انبیاء کی تعلیمات سے منہ موڑ کر ایمان ترک کرے اور کفر اختیار کرے تو اس میں اللہ کا کیا قصور۔ قصور تو اس کا ہے جس نے جان بوجھ کر کفر اختیار کیا اور ایمان کو ترک کیا۔

اعتراض 6 : جب بندہ کے سارے اچھے و برے اعمال للہ نے مقدر فرمائیں تو جزا و سزا بندہ کو کیوں ملے گی (آخرت میں)؟
جواب: جزا و سزا اور ثواب و عقاب کسب و صدور اعمال پر مرتب ہوتے ہیں جو بندہ کا کام ہے۔ نہ کہ خلقِ افعال پر جو اللہ کا فعل ہے۔ مثلاََ پولیس بندوق سے کسی کو قتل کرنے والے کو پکڑتی ہے نہ کہ بندوق بنانے والے کو پکڑتی ہے۔

اعتراض 7 : جن لوگوں کے مقدر میں اسلام کا علم و اطلاع ہی نہیں رکھی ان کا حساب کس بنیاد پہ ہوگا؟
جواب: ایسے لوگ جن کو اسلام کی اطلاع ہی نہیں مل سکی ان کا محاسبہ توحید پر ہوگا۔ کیونکہ توحید انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ محقق مکس مولر اپنی کتاب میں لکھتا ہے "ہمارے اسلاف نے خدا کے آگے اس وقت سر جھکایا تھا جب وہ خدا کا نام بھی نہ رکھ سکے تھے"۔ جسمانی بت اس حالت کے بعد اس طرح پیدا ہوئے کہ فطرت اصلی مثالی صورت کے پردہ میں چھپ گئے۔

اعتراض 8 : اگر اللہ بندہ کے اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ چوری و شراب پینے جیسے افعال کا بھی خالق ہے تو اللہ کو چور اور شرابی کہنا درست ہوا (معاذ اللہ)۔
جواب: کسی شے کے ساتھ متصف وہ ذات ہوتی ہے جو اس شے کے ساتھ قائم ہو۔ نہ کہ وہ ذات جس نے اس شے کو وجود بخشا ہو۔ مثلاََ تلوار چلانے والے کو قاتل کہا جاتا ہے۔ تلوار بنانے والے کو کوئی بھی قاتل نہیں کہتا۔ ۔چاندکی روشنی اس کی اپنی روشنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی ہےلیکن اس کے باوجود چاند کی روشنی کو نورِ شمس نہیں بلکہ نورِ قمر کہا جاتا ہے ۔لہذا اعتراض مردود ہوا۔

اعتراض 9 : اگر اللہ بندہ کے اچھے افعال کے ساتھ ساتھ برے افعال کا بھی خالق ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے برے افعال تخلیق کر کے ایک برا کام کیا۔
جواب: برے افعال اگرچہ اپنی ذات میں برے ہیں لیکن ان کا تخلیق کرنا ہر گز برا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو کمال ہے۔ البتہ برے افعال کا صدور برا ہے کیونکہ صدور مصدر سے کسی کے وصف کے ظاہر ہونے کا نام ہے۔ مثلاََ پاخانہ اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے برا ہے لیکن قصرِشاہی کے لئے اس کا وجود ناگزیر و ضروری ہے۔ الخلاصہ برائی کا ایجاد و تخلیق کرنا ہر گز برا نہیں بلکہ بندہ کا اس برائی کا کسب کرنا برا ہے۔ جیسے طبیب کا زہر ایجاد کرنا برا نہیں بلکہ کمال ہے اور اس ایجاد کے لیئے وہ لائقِ تعریف ہے۔ لیکن طبیب کے ایجاد کردہ زہر سے کسی کا غلط استعمال کرنا برا ہے۔

مسئلہ: اگرچہ اللہ خیر کے ساتھ ساتھ شر کا بھی خالق ہے لیکن شرمحض کی نسبت اللہ کی تخلیق کی طرف کرنا سوءادب کے سبب جائز نہیں۔ یا تو خیرو شر کے مجموعہ کا ذکر کیا جائے یا اجمالی طور پر نسبت کی جائے۔

اعتراض 10: اگر اللہ اچھے و برے افعال کا خالق ہے تو اللہ اچھائی کے ساتھ ساتھ برائی کا بھی منبع ہوا۔
جواب: اللہ کی ذات ہر گز برائی کا منبع نہیں۔ بلکہ اس کی ذات میں خیر ہی خیر ہے۔ جیسے آفتاب کی شعائیں ہر پاک و ناپاک پر پڑتی ہیں لیکن اس ذات میں نور ہی نور ہے، ظلمت کا شائبہ بھی نہیں۔ اس کے باوجود اسے منبعِ نور کہا جاتا ہے منبعِ ظلمت ہر گز نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح اللہ کی ایجاد و خلق خیر و شر، ایمان و کفر، ہدایت و ضلالت سب پر واقع ہوتی ہے۔ مگر اس کی ذات میں سوائے خیر محغ کہ کچھ نہیں۔ روایت میں آتا ہے "ساری بھلائیاں آپ کے قبضہ میں ہیں اور کوئی برائی آپ کی طرف (منسوب) نہیں (کی جاسکتی)"۔

اعتراض 11 : جب کفر و معاصی بھی اللہ کے طرف سے مقدر ہیں تو ان کے ارتکاب پر راضی ہونا بھی جائز ہوا کیونکہ تقدیر پر راضی رہنا واجب ہے۔
جواب: تقدیر اور مقدر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کیونکہ تقدیر اللہ کا فعل ہے اور مقدر اس فعل کا مفعول ہے۔ پس کفر و معاصی خود تقدیر نہیں ہیں بلکہ محلِ تقدیر ہیں۔ لہذا تقدیر پر راضی رہنا لازم ہے لیکن اس کا محلِ تقدیر سے کوئی تعلق نہیں۔ مچلاََ زہر کا ایجاد کرنا ایک کمال ہے لیکن اس کے ایجاد کے پسندیدہ ہونے سے یہ لازم نہیں زہر بھی کوئی ایسی پسندیدہ چیز ہے جس کا استعمال جائز ہو جائے۔

اعتراض 12 : ایک مقدور میں اللہ کی قدرت اور بندہ کی قدرت یعنی دو قدرتوں کا جمع ہونا محال ہے۔
جواب: ایک مقدور میں دو قدرتوں یعنی ایک قدرت اختراعی اور دوسری قدرت کسبی کا جمع ہونا محال نہیں۔ بلکہ محال یہ ہے کہ دو مستقل موثر اثرِ واحد میں جمع ہو جائیں۔

اعتراض 13 : اللہ نے ایسا کیوں نہ مقدر فرمایا کہ سب کفار ایمان لے آئیں حالانکہ وہ بھی تو اس ہی کی مخلوق ہیں؟
جواب: اللہ جس طرح رحم و کرم کا مالک ہے اس ہے طرح عقاب و الم کا بھی مالک ہے، معز بھی ہے مذل بھی ہے، انعام کرنے والا بھی ہے انتقام لینے والا بھی ہے، غفار بھی قہار بھی ہے، نجات دینے والا بھی ہے عذاب دینے والا بھی ہے۔ پس اگر بعض صفاتِ کمالیہ کے مظاہر پیدا کیئے جائیں اور بعض کے نہ کیئے جائیں تو مقصد ناتمام رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ انعام و انتقام، رحم و قہر دونوں ہی کے مظاہر پیدا کئے جائیں۔ یعنی مومن بھی ہوں، کافر بھی، جنت بھی ہو جہنم بھی، ابو جہل و ابو لہب بھی ہوں، ابو بکر و عمر بھی۔ پس کفار کے مقدر میں اسلیئے ایمان کی نجائے کفر لکھا تاکہ تعذیب کی صورت میں صفتِ قہر و غضب کااظہار ہو۔ جس طرح موءمنین کو اس لیئے ایمان مقدر فرمایا تاکہ ان کو مورد الطاف بنائے اور صفتِ ترحم کا اظہار ہو۔

اعتراض 14 : اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ اپنی صفات کے اظہار میں مظاہر کا محتاج ہے۔
جواب: ہر گز نہیں۔ اللہ اپنے غفار و قہار ہونے میں عذاب و نجات دینے کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ وہ کفار کو عذاب اور موءمنین کو نجات دیئے بغیر بھی غفار و قہار ہے۔ اور اس کی صفات میں کوئی نقص نہیں آتا۔ مثلاََ جس طرح آفتاب منور کو منور کیئے بغیر بھی نار یعنی منور کرنے والا ہے اور اس کی صفتِ تنویر میں کوئی فرق نہیں آتا۔

اعتراض 15 : کافر کے مقدر میں کفر کے سبب عذاب لکھ دئیے جانے کے باوجود کیا اللہ اس کی مغفرت کر کے اسے جنت میں نہیں ڈال سکتا؟
جواب: بے شک اللہ کافر کی مغفرت اور اسے جنت میں داخل کرنے سے عاجز نہیں بلکہ اس پر قادر ہیں۔ لیکن اللہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کافر کی نہ مغفرت کرے گا اور نہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور اللہ اپنی فرمائی ہوئی بات کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس لئے نہ کافر کی مغرت ہوگی اور نہ وہ جنت میں جائے گا۔

اعتراض 16 : اللہ جو چاہے وہ ہو جاتا ہے تو جب اللہ چاہتا ہے کہ سب کفار ایمان لے آئیں تو پھر اللہ کے چاہنے کے باوجود کفار کے لیئے ایمان متحقق کیوں نہ ہوا یعنی کفار ایمان کیوں نہ لائے؟
جواب: اللہ کا چاہنا دو طرح ہے۔ ایک چاہنا بمعنی ارادہ دینیہ شرعیہ امریہ ہے جو رضا کو متضمن ہے۔ اللہ اس ہی معنی میں کفار کے ایمان لانے کو چاہتے ہیں۔ اسلئے یہ کہنا ٹھیک ہوا کہ اللہ چاہتے ہیں کہ کفار ایمان لے آہیں۔ دوسرا چاہنا بمعنی ارادہ قدریہ ہے۔ اللہ اس معنی میں کفارکے ایمان نہ لانے کو چاہتے ہیں۔ اس لئے انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا۔ اور یہ کہنا بھی ٹھیک رہا کہ اللہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔

اعتراض 17 : اگر کوئی کافر عمدہ اخلاق کا مالک ہو اور فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہو تو وہ جھنم میں جائے گا جبکہ ایک مسلمان برے اخلاق کا مالک ہو اور مفسد ہو وہ بالآخر جنت میں جائے گا؟ کیا یہ ناانصافی نہیں؟
جواب: اس کا جواب ایک مثال سے سمجھیں۔ ایک ریاست کے دو شہری ہیں۔ ایک شہری عمدہ اخلاق کا مالک ہے اور فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے لیکن ہے وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والا باغی جبکہ دوسرا شہری برے اخلاق کا مالک ہے اور چوری وغیرہ میں بھی ملوث ہے لیکن ریاست کو مانتا ہے، نہ اس کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور نہ بغاوتِ کرتا ہے۔ ایسی صورتِ میں ریاستی نقطہ نظر سے ہر کوئی پہلے شہری کو دوسری شہری سے بدتر کہے گا۔ دوسرا شہری تو پھر اپنے جرائم کی چھوٹی موٹی سزائیں کاٹ کر واپس اپنی زندگی بحال کرلے گا۔ لیکن پہلے شہری کو قتل یا ملک بدر کے ہی ہونا پڑے گا کیوںکہ اس نے سرے سے ریاست کو ہی ماننے سے انکار کردیا ہے، اور اس سلسلے میں اسکے اچھے اعمال و عمدہ اخلاق اسے ہر گز فائدہ نہ دیں گے۔۔۔یہی معاملہ ہے بد عمل مومن اور نیک عمل کافر کے درمیان۔ بدعملم مومن اپنے اعمال کی سزا بھگت کے بالآخر جنت میں چلا جائے گا کیوںکہ اس ے خالقِ کائنات سے بغاوت نہیں کی۔ جبکہ نیک عمل کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اور اس سلسلے میں اسے اچھے اعمال اس کے کام نہ آئیں گے کیونکہ وہ سرے سے خالقِ کائنات کا ہی باغی ہے۔
مستفاد از:
1۔ شرح فقہ اکبر از ملا علی قاری
2۔ شرح عقائد نسفیہ از علامہ سعدالدین تفتازانی
3۔ تمہید از ابو شکور سالمی
5۔ تکمیل الایمان از شیخ عبدالحق محدث دہلوی
5۔ تقریر دلپذیر از مولینا قاسم نانوتوی
6۔ اشرف الجواب افادات مولینا اشرف علی تھانوی
7۔ عقائد اسلام از مولینا ادریس کاندھلوی
8۔ علم الکلام از مولینا ادیس کاندھلوی
9۔ الدین القیم از مولینا مناظر احسن گیلانی
10۔ الکلام اور علم الکلام از علامہ شبلی نعمانی
11۔عقائد اہل سنت از مشتاق احمد نظامی
12۔ رسالہ محث، 344
شبرمہ حمیدی
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
الاکسیر فی توضیح مسئلہ تقدیر:

(مسئلہ تقدیر سے متعلق 17 اعتراضات کے جوابات بمع مختصر تعارف مسئلہ تقدیر)
ہدایت: مضمون مکمل پڑھیئے۔

مسئلہ تقدیر
مشہور چھ ایمانیات میں سے ایک تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اور اس پر ایمان لانا ہم پر فرض ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے "البتہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے"۔ (الطلاق، 3)

مسئلہ تقدیر کی حساسیت:
مسئلہ تقدیر انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اور اس میں گفتگو کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسے شہسوارِِ علم فرماتے تھے "میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو"۔

مسئلہ تقدیر ایک مشکل الفہم مسئلہ ہے:
اسی طرح مسئلہ تقدیر کوئی عام فہم مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ انتھائی باریک اور دقیق مسئلہ ہے۔ جسے سمجھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس تک پہنچنے میں بعض اوقات فکر و فہم کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور ٹھوکروں، لغزشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ امام وہب بن منبہ فرماتے ہیں "میں نے مسئلہ تقدیر میں غور کیا تو حیران ہو گیا پھر دوبارہ غور کیا تو مزید حیران ہو گیا۔۔۔"۔

مسئلہ تقدیر کی تعریف:
امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں "اللہ تعالٰی ہی اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ان شیاء کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اللی تعالٰی ازل سے ان کے بارے میں پورا پورا علم رکھتے تھے اور اسی نے ان اشیاء کو مقدر فرمایا اور دنیا و آخرت میں اس کی مرضی و مشیت اسکے علم اور قضاء و قدر اور لوح محٖفوظ میں تحریر کردہ طریقے سے ہٹ کر نہ تو کچھ ہے اور نہ ہوگا"۔

فرقہ قدریہ:
صحابہ کے اخیر زمانہ میں ایک منکرینِ تقدیر کا گروہ نکلا جس کا نظریہ تھا کہ پہلے سے کوئی شے مقدر نہیں بلکہ انسان خود اپنے افعال کا خالق ہے۔ (الیعاذباللہ تعالٰی) اس گروہ کے علمبرداروں میں معبد جہنی، غیلان دمشقی اور جعد بن درہم تھے۔ یہ قدریہ کا گروہ تھا جو انسان کو اپنے افعال میں مختارِ مطلق سمجھتا تھا۔

فرقہ جبریہ:
قدریہ کے بالمقابل ایک اور گروہ نکلا جس کا یہ نظریہ تھا کہ انسان شجر و حجر کی طرح ہے۔ یعنی اپنے افعال میں مجبور محض ہے۔ لہذا بندہ اپنے اعمال پر ناقابلِ مواخذہ ہے۔ یہ جبریہ کا گروہ تھا۔

اہل سنت و جماعت:
اہل سنت و جماعت قدریہ و جبریہ کی افراط و تفریط کے برعکس کہتے ہیں کہ نہ تو جبر محض ہے اور نہ ہی اختیارِ مطلق ہے۔ بلکہ بندہ کی حالت اس کے بین بین ہے۔ یعنی انسان کے تمام افعال مقدر میں لکھے جا چکے ہیں اور انسان اپنے افعال کا خود خالق بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے افعال سر انجاد دینے میں مختار ہے نہ کے مجبور محض۔

اعتراض 1 : بندہ کے فعل کے ساتھ اللہ کے علم و ارادے کے تعلق کے بعد یقیناََ جبر لازم آتا ہے۔ کیوںکہ بندہ کا فعل کسی صورت میں بھی علمِ الہٰی و ارادہ الہٰی خلاف نہیں ہو سکتا۔
جواب: اللہ تعالٰی علم رکھتے ہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بندہ اپنے اختیار سے فعل سر انجام دے۔ نہ اللہ کے علم و ارادہ میں تخلف آیا اور نہ بندہ سے اختیار سلب ہوا۔ لہذا کوئی اشکال نہیں۔ بندہ فعل کو کسب کرتا ہے یعنی فعل پر اپنی قدرت و ارادہ صرف کرتا ہے۔ اور اللہ اس فعل کو خلق کرتا ہے۔ لہذا اللہ خالق اور بندہ کاسب ہے۔

اعتراض 2 : جب لوحِ مفوظ میں لکھے ہوئے کے خلاف ہونا محال یعنی نا ممکن ہے۔ تو انسان کا اختیار سلب ہونا اور جبر لازم آنا ثابت ہوا۔
جواب: امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں "لوحِ محفوظ میں تحریر بطورِ وصف کے ہے، نہ کہ بطورِ حکم کے"۔ امام ابو حنیفہ کے اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری فرماتے ہیں "یعنی اللہ نے ہر شے کے حق میں لکھا ہے کہ ایسے ایسے ہوگا نہ کہ ایسا ایسا ہونا چاہیئے۔ اسکی وضاحت ایسے ہے کہ (لوحِ محفوظ میں ) کتابت کے وقت اشیاء موجود نہیں تھیں۔ پھر لوحِ محفوظ میں بطورِ وصف لکھا کہ اشیاء اس کے حکم کے مطابق ہوں گی۔ ایسا نہیں کہ بطورِ حکم کہ لکھا ہو کہ ایسا ہونا چاہیئے۔۔۔"۔

ایک دلچسپ واقعہ:
ایک چور نے حضر عمر کے سامنے اپنی چوری میں تقدیر کو بہانا بنایا کہ مقدر میں میرا چوری کرنا لکھا تھا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا تو پھر مقدر میں یہ بھی لکھا ہوگا کہ میں تیرا ہاتھ کاٹوں گا۔

اعتراض 3 : جب بندہ خود اپنے اختیار سے فعل سر انجام دے رہا تو لا محالہ بندہ ہی اپنے فعل کا خالق ہوا نہ کہ اللہ۔
جواب: جب بندہ کی اپنی ذات اور فعل کو سر انجام دینے میں استعمال کردہ اختیار و قدرت اللہ کی تخلیق و عطا کردہ ہیں، تو بندہ اس قدرت و اختیار یعنی کسب سے سرانجام دینے والے فعل کا خالق کس طرح ہو گیا؟ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں "جب فاعل مخلوق ہے تو اس کا فعل بدرجہ اولٰی مخلوق ہوگا"۔

اعتراض 4 : اگر اللہ بندہ کے سارے افعال کا خالق ہے تو امر و نہی باطل ہو گئے۔
جواب: اگرچہ اللہ بندہ کے سارے افعال کا خالق ہے لیکن ان افعال کو بندہ کسب اپنی قدرتِ حادثہ کے تحت کرتا ہے جو بندہ کے اختیار میں ہے۔ لہذا امر و نہی باطل نہ ہوئے۔

اعتراض 5 : جب کفر و معاصی اللہ نے تخلیق کئے ہیں تو بندہ کی طرف سے انکے ارتکاب پر اصل قصور وار بھی اللہ ہی کو ٹھہرایا جانا چاہیے (معاذاللہ)؟
جواب: اطباء نے ہی زہر بنایا ہے اور اس کا تریاق بھی۔ اور اس تریاق کے استعمال کا نسخہ و طریقہ بھی سمجھا دیا۔ اب اگر کوئی جان بوجھ کر زہر استعمال کرے اور تریاق استعمال نہ کرے تو اس میں اطباء کا کیا قصور۔ قصور تو اس کا ہے جس تجان بوجھ کر زہر پیا اور تریاق استعمال کو ترک کیا۔ اسی طرح اللہ نے کفر و معاصی بھی پیدا فرمائیں اور ایمان و طاعات بھی۔ اور ان کی طرف رہنامائی کے لیئے انبیؑاء کو بھی بھیجا۔ اب اگر کوئی انبیاء کی تعلیمات سے منہ موڑ کر ایمان ترک کرے اور کفر اختیار کرے تو اس میں اللہ کا کیا قصور۔ قصور تو اس کا ہے جس نے جان بوجھ کر کفر اختیار کیا اور ایمان کو ترک کیا۔

اعتراض 6 : جب بندہ کے سارے اچھے و برے اعمال للہ نے مقدر فرمائیں تو جزا و سزا بندہ کو کیوں ملے گی (آخرت میں)؟
جواب: جزا و سزا اور ثواب و عقاب کسب و صدور اعمال پر مرتب ہوتے ہیں جو بندہ کا کام ہے۔ نہ کہ خلقِ افعال پر جو اللہ کا فعل ہے۔ مثلاََ پولیس بندوق سے کسی کو قتل کرنے والے کو پکڑتی ہے نہ کہ بندوق بنانے والے کو پکڑتی ہے۔

اعتراض 7 : جن لوگوں کے مقدر میں اسلام کا علم و اطلاع ہی نہیں رکھی ان کا حساب کس بنیاد پہ ہوگا؟
جواب: ایسے لوگ جن کو اسلام کی اطلاع ہی نہیں مل سکی ان کا محاسبہ توحید پر ہوگا۔ کیونکہ توحید انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ محقق مکس مولر اپنی کتاب میں لکھتا ہے "ہمارے اسلاف نے خدا کے آگے اس وقت سر جھکایا تھا جب وہ خدا کا نام بھی نہ رکھ سکے تھے"۔ جسمانی بت اس حالت کے بعد اس طرح پیدا ہوئے کہ فطرت اصلی مثالی صورت کے پردہ میں چھپ گئے۔

اعتراض 8 : اگر اللہ بندہ کے اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ چوری و شراب پینے جیسے افعال کا بھی خالق ہے تو اللہ کو چور اور شرابی کہنا درست ہوا (معاذ اللہ)۔
جواب: کسی شے کے ساتھ متصف وہ ذات ہوتی ہے جو اس شے کے ساتھ قائم ہو۔ نہ کہ وہ ذات جس نے اس شے کو وجود بخشا ہو۔ مثلاََ تلوار چلانے والے کو قاتل کہا جاتا ہے۔ تلوار بنانے والے کو کوئی بھی قاتل نہیں کہتا۔ ۔چاندکی روشنی اس کی اپنی روشنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی ہےلیکن اس کے باوجود چاند کی روشنی کو نورِ شمس نہیں بلکہ نورِ قمر کہا جاتا ہے ۔لہذا اعتراض مردود ہوا۔

اعتراض 9 : اگر اللہ بندہ کے اچھے افعال کے ساتھ ساتھ برے افعال کا بھی خالق ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے برے افعال تخلیق کر کے ایک برا کام کیا۔
جواب: برے افعال اگرچہ اپنی ذات میں برے ہیں لیکن ان کا تخلیق کرنا ہر گز برا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو کمال ہے۔ البتہ برے افعال کا صدور برا ہے کیونکہ صدور مصدر سے کسی کے وصف کے ظاہر ہونے کا نام ہے۔ مثلاََ پاخانہ اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے برا ہے لیکن قصرِشاہی کے لئے اس کا وجود ناگزیر و ضروری ہے۔ الخلاصہ برائی کا ایجاد و تخلیق کرنا ہر گز برا نہیں بلکہ بندہ کا اس برائی کا کسب کرنا برا ہے۔ جیسے طبیب کا زہر ایجاد کرنا برا نہیں بلکہ کمال ہے اور اس ایجاد کے لیئے وہ لائقِ تعریف ہے۔ لیکن طبیب کے ایجاد کردہ زہر سے کسی کا غلط استعمال کرنا برا ہے۔

مسئلہ: اگرچہ اللہ خیر کے ساتھ ساتھ شر کا بھی خالق ہے لیکن شرمحض کی نسبت اللہ کی تخلیق کی طرف کرنا سوءادب کے سبب جائز نہیں۔ یا تو خیرو شر کے مجموعہ کا ذکر کیا جائے یا اجمالی طور پر نسبت کی جائے۔

اعتراض 10: اگر اللہ اچھے و برے افعال کا خالق ہے تو اللہ اچھائی کے ساتھ ساتھ برائی کا بھی منبع ہوا۔
جواب: اللہ کی ذات ہر گز برائی کا منبع نہیں۔ بلکہ اس کی ذات میں خیر ہی خیر ہے۔ جیسے آفتاب کی شعائیں ہر پاک و ناپاک پر پڑتی ہیں لیکن اس ذات میں نور ہی نور ہے، ظلمت کا شائبہ بھی نہیں۔ اس کے باوجود اسے منبعِ نور کہا جاتا ہے منبعِ ظلمت ہر گز نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح اللہ کی ایجاد و خلق خیر و شر، ایمان و کفر، ہدایت و ضلالت سب پر واقع ہوتی ہے۔ مگر اس کی ذات میں سوائے خیر محغ کہ کچھ نہیں۔ روایت میں آتا ہے "ساری بھلائیاں آپ کے قبضہ میں ہیں اور کوئی برائی آپ کی طرف (منسوب) نہیں (کی جاسکتی)"۔

اعتراض 11 : جب کفر و معاصی بھی اللہ کے طرف سے مقدر ہیں تو ان کے ارتکاب پر راضی ہونا بھی جائز ہوا کیونکہ تقدیر پر راضی رہنا واجب ہے۔
جواب: تقدیر اور مقدر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کیونکہ تقدیر اللہ کا فعل ہے اور مقدر اس فعل کا مفعول ہے۔ پس کفر و معاصی خود تقدیر نہیں ہیں بلکہ محلِ تقدیر ہیں۔ لہذا تقدیر پر راضی رہنا لازم ہے لیکن اس کا محلِ تقدیر سے کوئی تعلق نہیں۔ مچلاََ زہر کا ایجاد کرنا ایک کمال ہے لیکن اس کے ایجاد کے پسندیدہ ہونے سے یہ لازم نہیں زہر بھی کوئی ایسی پسندیدہ چیز ہے جس کا استعمال جائز ہو جائے۔

اعتراض 12 : ایک مقدور میں اللہ کی قدرت اور بندہ کی قدرت یعنی دو قدرتوں کا جمع ہونا محال ہے۔
جواب: ایک مقدور میں دو قدرتوں یعنی ایک قدرت اختراعی اور دوسری قدرت کسبی کا جمع ہونا محال نہیں۔ بلکہ محال یہ ہے کہ دو مستقل موثر اثرِ واحد میں جمع ہو جائیں۔

اعتراض 13 : اللہ نے ایسا کیوں نہ مقدر فرمایا کہ سب کفار ایمان لے آئیں حالانکہ وہ بھی تو اس ہی کی مخلوق ہیں؟
جواب: اللہ جس طرح رحم و کرم کا مالک ہے اس ہے طرح عقاب و الم کا بھی مالک ہے، معز بھی ہے مذل بھی ہے، انعام کرنے والا بھی ہے انتقام لینے والا بھی ہے، غفار بھی قہار بھی ہے، نجات دینے والا بھی ہے عذاب دینے والا بھی ہے۔ پس اگر بعض صفاتِ کمالیہ کے مظاہر پیدا کیئے جائیں اور بعض کے نہ کیئے جائیں تو مقصد ناتمام رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ انعام و انتقام، رحم و قہر دونوں ہی کے مظاہر پیدا کئے جائیں۔ یعنی مومن بھی ہوں، کافر بھی، جنت بھی ہو جہنم بھی، ابو جہل و ابو لہب بھی ہوں، ابو بکر و عمر بھی۔ پس کفار کے مقدر میں اسلیئے ایمان کی نجائے کفر لکھا تاکہ تعذیب کی صورت میں صفتِ قہر و غضب کااظہار ہو۔ جس طرح موءمنین کو اس لیئے ایمان مقدر فرمایا تاکہ ان کو مورد الطاف بنائے اور صفتِ ترحم کا اظہار ہو۔

اعتراض 14 : اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ اپنی صفات کے اظہار میں مظاہر کا محتاج ہے۔
جواب: ہر گز نہیں۔ اللہ اپنے غفار و قہار ہونے میں عذاب و نجات دینے کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ وہ کفار کو عذاب اور موءمنین کو نجات دیئے بغیر بھی غفار و قہار ہے۔ اور اس کی صفات میں کوئی نقص نہیں آتا۔ مثلاََ جس طرح آفتاب منور کو منور کیئے بغیر بھی نار یعنی منور کرنے والا ہے اور اس کی صفتِ تنویر میں کوئی فرق نہیں آتا۔

اعتراض 15 : کافر کے مقدر میں کفر کے سبب عذاب لکھ دئیے جانے کے باوجود کیا اللہ اس کی مغفرت کر کے اسے جنت میں نہیں ڈال سکتا؟
جواب: بے شک اللہ کافر کی مغفرت اور اسے جنت میں داخل کرنے سے عاجز نہیں بلکہ اس پر قادر ہیں۔ لیکن اللہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کافر کی نہ مغفرت کرے گا اور نہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور اللہ اپنی فرمائی ہوئی بات کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس لئے نہ کافر کی مغرت ہوگی اور نہ وہ جنت میں جائے گا۔

اعتراض 16 : اللہ جو چاہے وہ ہو جاتا ہے تو جب اللہ چاہتا ہے کہ سب کفار ایمان لے آئیں تو پھر اللہ کے چاہنے کے باوجود کفار کے لیئے ایمان متحقق کیوں نہ ہوا یعنی کفار ایمان کیوں نہ لائے؟
جواب: اللہ کا چاہنا دو طرح ہے۔ ایک چاہنا بمعنی ارادہ دینیہ شرعیہ امریہ ہے جو رضا کو متضمن ہے۔ اللہ اس ہی معنی میں کفار کے ایمان لانے کو چاہتے ہیں۔ اسلئے یہ کہنا ٹھیک ہوا کہ اللہ چاہتے ہیں کہ کفار ایمان لے آہیں۔ دوسرا چاہنا بمعنی ارادہ قدریہ ہے۔ اللہ اس معنی میں کفارکے ایمان نہ لانے کو چاہتے ہیں۔ اس لئے انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا۔ اور یہ کہنا بھی ٹھیک رہا کہ اللہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔

اعتراض 17 : اگر کوئی کافر عمدہ اخلاق کا مالک ہو اور فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہو تو وہ جھنم میں جائے گا جبکہ ایک مسلمان برے اخلاق کا مالک ہو اور مفسد ہو وہ بالآخر جنت میں جائے گا؟ کیا یہ ناانصافی نہیں؟
جواب: اس کا جواب ایک مثال سے سمجھیں۔ ایک ریاست کے دو شہری ہیں۔ ایک شہری عمدہ اخلاق کا مالک ہے اور فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے لیکن ہے وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والا باغی جبکہ دوسرا شہری برے اخلاق کا مالک ہے اور چوری وغیرہ میں بھی ملوث ہے لیکن ریاست کو مانتا ہے، نہ اس کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور نہ بغاوتِ کرتا ہے۔ ایسی صورتِ میں ریاستی نقطہ نظر سے ہر کوئی پہلے شہری کو دوسری شہری سے بدتر کہے گا۔ دوسرا شہری تو پھر اپنے جرائم کی چھوٹی موٹی سزائیں کاٹ کر واپس اپنی زندگی بحال کرلے گا۔ لیکن پہلے شہری کو قتل یا ملک بدر کے ہی ہونا پڑے گا کیوںکہ اس نے سرے سے ریاست کو ہی ماننے سے انکار کردیا ہے، اور اس سلسلے میں اسکے اچھے اعمال و عمدہ اخلاق اسے ہر گز فائدہ نہ دیں گے۔۔۔یہی معاملہ ہے بد عمل مومن اور نیک عمل کافر کے درمیان۔ بدعملم مومن اپنے اعمال کی سزا بھگت کے بالآخر جنت میں چلا جائے گا کیوںکہ اس ے خالقِ کائنات سے بغاوت نہیں کی۔ جبکہ نیک عمل کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اور اس سلسلے میں اسے اچھے اعمال اس کے کام نہ آئیں گے کیونکہ وہ سرے سے خالقِ کائنات کا ہی باغی ہے۔
مستفاد از:
1۔ شرح فقہ اکبر از ملا علی قاری
2۔ شرح عقائد نسفیہ از علامہ سعدالدین تفتازانی
3۔ تمہید از ابو شکور سالمی
5۔ تکمیل الایمان از شیخ عبدالحق محدث دہلوی
5۔ تقریر دلپذیر از مولینا قاسم نانوتوی
6۔ اشرف الجواب افادات مولینا اشرف علی تھانوی
7۔ عقائد اسلام از مولینا ادریس کاندھلوی
8۔ علم الکلام از مولینا ادیس کاندھلوی
9۔ الدین القیم از مولینا مناظر احسن گیلانی
10۔ الکلام اور علم الکلام از علامہ شبلی نعمانی
11۔عقائد اہل سنت از مشتاق احمد نظامی
12۔ رسالہ محث، 334
اس تحریر میں کوئی بات اہل حدیث کے مسلک کے خلاف تو نہیں ہے ۔کیونکہ یہ تحریر حنفی کی ہے
@خضر حیات
@انس
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
Top