• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں

شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے جواب میں فریق مخالف نے اپنے کلی علم غیب کی عطاءکے دعوی کے دفاع میں یہ میدان(کلی مفاتح الغیب کی عطاء) سر کر نے کا بہت آسان راستہ ڈھونڈا اور قرآن و حدیث کی صریح اور واضح نصوص کا یوں جواب فرمایا کہ ’’ان پانچوں غیبوں کا(کلی) علم عطاء ہوا لیکن چھپانے کا حکم ہوا‘‘
اور اس ’’تاویل‘‘ کی تائید کے لئے کہیں غیر معتبر مجہول صوفی حضرات کے اقوال کا سہارا لیا ۔۔۔۔ تو کہیں معتبر بزرگوں کی غیر واضح اور مبہم عبارتوں کو لے کر توڑ موڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں فریق مخالف کے چند دلائل :
احمد رضا صاحب علامہ عثماوی کی کتاب مستطاب عجب العجائب سے نقل کرتے ہیں کہ
”یعنی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطاءہوگیا ،مگر ان کو چھپانے کا حکم تھا اور یہی قول صحیح ہے ۔(خالص الاعتقاد ص53)
نیز احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یار نعیمی وغیرہ فرماتے ہیں کہ
علامہ حسن بن علی اور فاضل ابن عطیہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو علم قیامت عطاءہونے کے باب میں فرماتے ہیں کہ :
’’یعنی حق مذہب وہ ہے جو ایک جماعت علماءنے فرمایا کہ اللہ عزوجل ہمارے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا یہاں تک کہ جو وکچھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے مخفی رہا اُس سب کا علم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاءفرمادیا ہاں بعض علوم کی نسبت حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتائیں اور بعض کو بتانے کا حکم دیا “
بلفظہ (خالص الاعتقاد ص52,53 و جاءالحق ص 112)
نیز لکھتے ہیں کہ :
علامہ ابراھیم بیجوری شرح بردہ شریف میں فرماتے ہیں کہ :
نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے نہ تشریف لے گئے مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان پانچوں غیبوں کا علم دے دیا بلکہ علامہ شنوائی نے جمع النہایہ میں اسے بطور حدیث بیان کیا کہ بے شک وارد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا جب تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام اشیاءکا علم نہ فرمادیا“
( خالص الاعتقاد ص ۰50و جاءالحق ص 111,112)
(نوٹ : علامہ شنوائی کے حوالہ سے عرض ہے کہ ہم لفظ ”کل “ کی تفصیلی وضاحت پیش کر چکے ہیں کہ لفظ ”کل “ استغراق حقیقی میں نص قطعی نہیں )
مفتی احمدیار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
تفسیر عرائس البیان زیر آیت ”یعلم مافی الارحام “ میں ہے ”میں نے بعض اولیاءکو سنا کہ انہوں نے پیٹ کے بچہ لڑکی یا لڑکے کی خبر دی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ دیکھا جس کو انہوں نے خبر دی “بلفظہ (جاءالحق ص 109)
(واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو امور خمسہ کے بعض بعض جزئیات پر مطلع فرمادے اس پر نزع نہیں ہمارا نزع امور خمسہ کے کلیات پر ہے ۔)
نیز لکھتے ہیں کہ :
تفسیر روح البیان یہ ہی آیت بعض مشائخ ادھر گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کے وقت کو جانتے تھے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے اور یہ قول اس آیت کے حصر کے خلاف نہیں ،روح البیان میں یہ ہی عبارت پارہ 9 زیر آیت ”یسا ءلونک کانک حفی عنھا “ میں بھی ہے اور وہاں یہ بھی ہے کہ دنیا کی کل عمر7 ہزار سال ہے یہ بروایت صحیحہ ثابت ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم ہے “(جاءالحق ص104)
مولوی عمر صاحب لکھتے ہیں کہ
” تفسیر صاوی (ج2 ص 111) میں ہے ”اور جس کے ساتھ ایمان واجب ہے یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے نہ منتقل ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جمیع مغیبات کا علم سکھایا ”کانک حفی عنھا “ کے ماتحت ملاحظہ ہو (مقیاس حنفیت ص 384)
معزز قارئین کرام!
یہ ہے فریق مخالف کے دلائل کا ایک چھوٹا سا نمونہ ۔
یعنی قرآن کریم کی نصوص قطعیہ اور متواتر احادیث کے جوا ب میں چند لوگوں کے اقوال کہ فلاں نے کہا کہ ان پانچوں غیبوں کا (کلی)علم بھی عطاءہوا اور چھپانے کا حکم تھا ؟؟؟
حتی کہ فریق مخالف اپنے دعوی کو ثابت کرنے کی جستجو میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اُس کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ صحیح احادیث پاک میں جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا واضح اور صراحت کے ساتھ فرمان ہے کہ”مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)
اور میں کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہوں ؟؟؟
ویسے توفریق مخالف بزعم خود اپنے آپ کو سب سے بڑا عاشق رسول سمجھتا ہے۔۔۔۔لیکن دوسری طرف محبوب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان”مگر ان پانچ چیزوں کی عطاءنہیں کی گئیں“کو نظر انداز کرتے ہوئے خود سے ادھر ادھر کی تاویلیں پیش کرکے ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں عطاءہونا“ ثابت کرنے کی کوشش کی؟؟؟
اور کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ ”ان پانچ چیزوں کودوسروں کے سامنے سرعام کھول کربیان کرنے کے لئے چابیاں نہ ملیں“
کیا یہی ہے عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم؟؟
کیا اس طرح کیا جاتا ہے محبوب سے محبت کا دعوی ؟؟؟
کہ محبوب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کاتو فرمان ہے کہ ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں نہیں ملیں “۔۔۔۔اور نام نہاد عاشق کہے ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں ملیں “؟؟؟؟
آگے ہم کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔فیصلہ آپ قارئین کرام پر چھوڑا۔
محترم قارئین کرام !
اس ”تاویل“کے جواب میں خود احمد رضا صاحب کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں:
وقف کے ایک اختلافی مسئلہ پر بعض علماءنے ایک مالکی المذہب عالم عبد الرحمن ابن القاسم (المتوفی 191ھ)کی عبارت پیش کی تھی ۔
جس پر احمد رضا صاحب سیخ پا ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ”ذرا براہ مہربانی تھوڑی دیر کو ہوش میں آکر فرمائیے کہ ابن القاسم نے کہا کہ مقبرے کوبعد بے نشانی کردینا اور ابوالقاسم محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقابر پر مسجد بنانا حرام ۔۔۔آپ کے نزدیک یہ دونوں حکم حالت واحد پر وارد جب تو آپ کا ایمان ہے کہ ابن قاسم کی بات حق جانیں اور ابو القاسم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہ مانیں “انتہیٰ بلفظہ (اہلاک الوہابین ص 33)
تو فریق مخالف سے اب پوچھنا یہ ہے کہ
اگر کسی بزرگ یا صوفی اور مولوی کے کسی قول سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو امور خمسہ کا علم حاصل تھا اوراس کو چھپانے کا حکم ہو ا؟؟؟
اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول برحق صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرمائیں کہ ان امور کا علم اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کو حاصل نہیں۔
تو فریق مخالف انصاف سے یہ ارشاد فرمائیں کہ کس کا قول و ارشاد کو تسلیم کرنا ہوگا ؟؟؟
اور یہ دونوں حکم حالت واحد پر وارد ہیں ۔
تو فیصلہ کریں کس کی بات ماننی ہے ؟؟؟
محترم قارئین کرام !
فریق مخالف کی اس ”تاویل“ کا جواب سمجھنے کے لئے دوسرا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ :
شرح مواقف ص 727 و شرح فقہ اکبر ص 68 ،مسامرہ ج 2ص78 ،شرح عقائد ص 101اور فتح الباری ج8 ص 431 وغیرہ میں ہے :واللفظہ لہ
’’الاحادیث اذا کانت فی مسائل عملیة یکفی الاخذ بھا صحتھا افادتھا الظن اما اذا کانت فی العقائد فلا یکفی فیھا الا مایفیدا القطع ۔
یعنی جن مسائل کا تعلق عمل کے ساتھ ہے ان میں صحیح احادیث سے استدلال کافی ہے کیوں کہ اعمال کے لئے ظنی دلائل ہی کافی ہیں لیکن جب عقائد کی باری آئے گی تو ان میں صرف وہ حدیثیں قابل قبول ہوں گی جو یقین کا فائدہ دیں (مثلا یہ کہ متواتر ہوں )

یعنی عقیدت اور چیز ہے اور عقیدہ اور چیز ہے ۔۔۔اثبات عقیدہ کے لئے نص قطعی یا خبر متواتر درکار ہے ۔یہاں خبر واحد صحیح سے بھی گاڑی نہیں چل سکتی اور قرآن کریم کے مقابلہ میں خبر واحد کا پیش کرنا ہی درست نہیں ۔
فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب خود فرماتے ہیں :
ان نصوص القراٰن لاتعارض بالاحاد (الفیوض المکیہ ص 22)
یعنی اخبار احاد نصوص قرآن کے معارضہ میں نہیں پیش کی جاسکتیں ۔

نیز لکھتے ہیں کہ ’’اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے نہ حدیث احاد اگر چہ کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص کرسکے بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائے گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ ناممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس اعتماد سے کسی ظنی سے تخصیص ہوسکے “بلفظہ (انباءالمصطفیٰ ص 4)
بلکہ یہ ہی خان صاحب لکھتے ہیں کہ ”عموم آیات قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض ہرزہ بانی (ہے)انباءالمصطفیٰ ص 4)
اور مفتی احمد یار صاحب دوسروں سے مطالبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”وہ آیت قطعی الدلالت ہو جس کے معنی میں چند اور احتمال نہ نکل سکتے ہوں اور حدیث ہو تو متواتر ہو (جاءالحق ص 40)
(ان شاءاللہ تعالیٰ عقائد کے لئے ان اصول و ضوابط کی اہمیت کی تفصیل آگے اپنے مقام پر عرض کی جائے گی)
محترم قارئین کرام !
کوئی ان فریق مخالف سے یہ پوچھے کہ احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یا ر صاحب تو دوسروں سے مطالبہ قطعی الدلالت آیت اور حدیث متواتر کا کرتے ہیں اور خود اپنے دعوی پر دلیل بیجوری ،عشماوی اور صاوی وغیرہ جیسے حاطب لیل متفسرین اور متصوفین کی عبارتوں سے قرآن کریم کی قطعی الدلالت اور صحیح احادیث کو رد کرتے پھریں ؟؟؟
فریق مخالف کو کس نے اس تخصیص اور نسخ کا حق دیا ہے؟؟؟
اور کیا اخبار میں ان کے اقوال سے نسخ جائز ہے ؟؟؟
عقیدہ اور نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں تو تمہارے مسلمات کے رو سے بھی صحیح حدیث جبکہ خبر واحد ہو نہیں پیش کی جاسکتی تو پھر فریق مخالف کی بیجوری اور صاوی وغیرہ کوکون پوچھتا ہے ؟؟؟

امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی 456 ھ) نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ :
”ولم یکلفنا اللہ تعالیٰ ان نا خذ دیننا عمن لانعرفہ (کتاب القرا ءة ص127)
یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ہرگز مکلف نہیں ٹہرایا کہ ہم اپنا دین غیر معروف لوگوں سے حاصل کریں ۔

باقی فریق مخالف اپنے دعوی کی تائید میں چند معتبر بزرگان دین کی مبہم اور غیر واضح عبارتیں لے کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں چند مثالیں:
فریق مخالف کے وکیل مولوی عمر فرماتے ہیں کہ:
خصائص کبریٰ (ج 2ص 195) میں ہے کہ ” بعض اس طرف گئے ہیں کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پانچ چیزوں کا بھی علم دیا گیا ہے ،قیامت کے وقت بھی اور روح کا بھی اور آپ کو ان کے چھپانے کا حکم دیا گیا “بلفظہ (مقیاس حنفیت ص 385)
الجواب :
ہم اپنی پچھلی پوسٹ میں واضح کرچکے ہیں کہ غیوب خمسہ کے جزئیات کی عطاءپر اختلاف نہیں بلکہ ہمارا اختلاف غیوب خمسہ کے اصول و کلیات پر ہے ۔
اور جہاں تک قیامت کے وقت کی عطاءکا تعلق ہے تو امام سیوطی رحمہ اللہ نے ایک مستقل کتاب لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جو لوگ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے وہ غلط کار ہیں اور یہ روایت جھوٹی ہے ،اللہ تعالیٰ نے قیامت کا علم اور تو اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا ۔۔۔اس رسالہ کا نام ہے ” الکشف عن مجاوزة الامة عن الالف “ جس کا یہ مضمون ملا علی قاری رحمہ اللہ نے موضوعات کبیر ص 119 میں نقل فرمایا ہے ۔

احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب فرماتے ہیں کہ :
’’علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تفسیر سورہ رعد کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ”کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اُس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ اللہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دیتا ہے یعنی وقت قیامت کا علم اُن پر بند نہیں ہے الخ ( خالص الاعتقاد ص 52و جاءالحق ص110)
الجواب
حالانکہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی صریح عبارت دوسرے مقام پر موجود ہے کہ
”ولا یعلم متی تقوم الساعة الا اللہ فلم یعلم ذالک نبی مرسل ولا ملک مقرب الخ (قسطلانی شرح بخاری ج10 ص 296)
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی بجز اللہ تعالیٰ کے نہ تو قیام ساعت کا وقت کسی نبی مرسل کو معلوم ہے اور نہ فرشتہ مقرب کو

نیز خان صاحب لکھتے ہیں‌کہ :
’’ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ شرح مشکوة میں اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
”مراد یہ ہے کہ قیامت وغیرہ غیب بے خدا کے بتائے معلوم نہیں ہوتے (خالص الاعتقاد ص 50)
نیزمدارج النبوة جلد دوم ص 40 و ’’فصل ایذاءرسانی کفار فقراءصحابہ‘‘ میں ہے :
وبعضے علماءعلم ساعت نیز مثل ایں معنی گفتہ اند
یعنی بعض علماءنے روح کی طرح حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم بھی مانا ہے ۔

الجواب
ایک حدیث پاک کی شرح میں شیخ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک ماہ قبل سنا ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم مجھ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کرتے ہو حالانکہ اس کے وقت معین کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں یعنی قیامت کبریٰ آنے کا وقت خود مجھ کو معلوم نہیں اور اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا “(اشعتہ اللمعات ج 4ص 377)
مفتی احمد یار نعیمی صاحب فرماتے ہیں کہ :
تفسیرات احمدیہ زیر آیت مذکورہ ۔اور تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ان پانچوں باتوں کو اگر چہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن جائز ہے کہ خدائے پاک اپنے ولیوں اور محبوبوں میں سے جس کوچاہے سکھائے ۔اس قول کے قرینہ سے کہ اللہ تعالیٰ جاننے والا بتانے والا ہے خبیر بمعنی مخبر(جاءالحق ص 109)
الجواب
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ان پانچوں چیزوں کے کلیات کا علم حضرات اولیاءاللہ کو حاصل ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ان میں سے بعض بعض جزئیات کی اطلاع اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دے دیتا ہے ۔۔۔۔چناچہ اس کی مبسوط بحث کرتے ہوئے قاضی بیضاوی رحمہ اللہ کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ :
”فلم من کلا مہ ان اللہ یطلع الاولیاءعلیٰ بعض ما یشاءمن الغیوب الخمسة الخ (تفسیرات الاحمدیہ ص 397)
یعنی قاضی صاحب کے کلام سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ غیوب خمسہ میں سے بعض پر جس مقدار میں چاہے حضرات اولیاءکرام کو مطلع کردیتا ہے ۔

محترم قارئین کرام !
اسی طرح فریق مخالف کے اور بھی ایسے ہی کچھ دلائل اور بھی ہیں۔۔۔۔ جن کا حال بھی تقریبا ایسا ہی ہے جیسا ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔۔۔۔جن کو ہم طولت کے خوف سے نقل نہیں کررہے ۔
لیکن قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ قارئین کرام باآسانی ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ ہر مقام پر فریق مخالف کواپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تاویل سے ہی کام لینا پڑتا ہے ۔۔۔۔یعنی فریق مخالف کے پاس نہ تو اپنے دعوی پر کوئی صریح دلیل موجود ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے دعوی کی تائید میں کسی ایک بھی معتبر بزرگ کا صریح اور واضح قول موجود ہے ؟؟؟
حتی کہ بزرگوں کی لکھی ہوئی دو جلدوں سے لے کر بیس بیس جلدوں پر مشتمل شروحات اور تفاسیر کے ہوتے ہوئے بھی فریق مخالف کوئی ایک بھی صریح اور واضح عبارت اپنے مدعے کی تائید میں نہیں پیش کرسکتا ۔۔۔جس سے آپ حضرات فریق مخالف کے دلائل کابخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فریق مخالف کے دلائل کی بنیادیں کس حد تک مضبوط ہیں ؟؟؟

اب آجاتے ہیں امور خمسہ پر فریق مخالف کے چند مختصر دلائل اور اُن کی وضاحتوں کی طرف :
علم قیامت
مولوی محمد عمر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو علم قیامت ہے ۔۔مستدرک ج 4 ص 567 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ دن کون سا ہے ؟تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی اللہ اور اُس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو علم قیامت ہے “
(بلفظہ مقیاس حنفیت ص384,385)
الجواب
یہ حدیث اس پر ہرگز دلالت نہیں کرتی کہ قیام ساعت کا وقت جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا بلکہ اسی حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے کہ :
فینا ریہ ربہ فیقول یا اٰدم ابعث بعث النار من کل الف تسع مائة وتسعة وتسعین فی النار وواحد فی الجنة (مستدرک ج 4ص 567) (الحدیث )
یعنی اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو ندا کرکے فرمائے گا اے آدم دوزخ کے گروہ کو کھڑا کر تو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے دوزخ میں اور صرف ایک جنت میں داخل کیا جائے گا ۔

تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو قیام ساعت کے بعد کا واقعہ ہے جو محشر میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش آئے گا ،قیامت کی خاص گھڑی کا (جس میں نزع ہے) اس سے کیا تعلق ہے ؟؟؟
مولوی عمر صاحب نے اس حدیث سے کہ ’’قیامت جمعہ کے دن آئے گی “ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وقت قیامت کا علم تھا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ قیامت جمعہ کے دن آئے گی مگر وہ جمعہ کتنے سالوں بعد آئے گا اور کس مہینے کا کون سا جمعہ ہوگا ؟اور جمعہ کے دن کس وقت قیامت قائم ہوگی وغیرہ وغیرہ امور اس سے نہیں حل ہوتے ۔
اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت قائم ہونے کا دن بتایا ہے ،مشکوة باب الجمعة میں ہے کہ ”قیامت قائم نہ ہوگی مگر جمعہ کے دن ۔کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر فرمایا کہ ہم اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں
یعنی ہمارے زمانے کے بعد بس قیامت ہی ہے اور اس قدرعلامات قیامت ارشاد فرمائیں کہ ایک بات بھی نہ چھوڑی ،آج قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ابھی قیامت نہیں آسکتی کیوں کہ نہ ابھی دجال آیا اور نہ مسیح و مہدی نہ آفتاب مغرب سے نکلا اُن علامات نے قیامت کو بالکل ظاہر فرمادیا پھر قیامت کا علم نہ ہونے کے کیا معنی ؟
بس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنہ نہ بتایا کہ فلاں سنہ میں قیامت ہوگی لیکن حضور علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ پاک میں سنہ مقرر ہی نہیں ہوئی تھی سنہ ہجری عہد فاروقی میں مقرر ہوئی الیٰ ان قال نیز ہم ثبوت علم غیب میں وہ حدیث پیش کرچکے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت ختم ہونے تک من و عن واقعات بیان فرمادئیے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کا علم نہ ہو ،کیوں کہ دنیا ختم ہونے ہی قیامت ہے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہے کہ کون سا واقعہ کس کے بعد ہوگا تو جو آخری واقعہ ارشاد فرمایا وہی دنیا کی انتہا ہے اور قیامت کی ابتدا دو ملی ہوئی چیزوں میں سے ایک کی انتہا ءکا علم دوسری کی ابتداءکا علم ہوتا ہے ،اس پر خوب غور کرلیا جائے نہایت نفیس تحقیق ہے جو حضرت الافاضل مرشدی اُستاذی مولانا نعیم الدین مرادآبادی نے ایک تقریر کے دوران ارشاد فرمائی “
انتہی بلفظہ (جاءالحق ص 107,108)
الجواب
جمعہ کے دن قیامت قائم ہونے سے اس کے صحیح وقت کا اثبات مفتی صاحب وغیرہ کی خوش فہمی ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے ۔
باقی ”انا والساعة کھاتین “ کی روایت سے قیامت کی ٹھیک مقدار اور وقت پر استدلال کرنا نری جہالت ہے ۔
چناچہ امام رازی رحمہ اللہ اور خطیب شربیننی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں ۔

اور یہی امام رازی رحمہ اللہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ :
”المراد ان العلم بالوقوع غیر العلم بوقت الوقوع فالعم الاول حاصل عندی وھو کاف فی الا نذاروالتحذیر واما العلم الثانی فلیس الاللہ ولا حاجة فی کونی نذیرا مبینا الیہ الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 191)
یعنی مطلب یہ ہے کہ قیامت کے نفس و وقوع کا علم اور چیز ہے اور اس کے وقت وقوع کا علم علیحدہ چیز ہے پس پہلا علم تو مجھ کو حاصل ہے اور انذاروتخویف کے لئے وہی کافی ہے اور دوسرا علم خدا تعالیٰ کے سواکسی کو نہیں ہے اور میرے نذیر مبین ہونے کے لئے اُس کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔

یہ بالکل ٹھیک ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور اور دجال لعین کے خروج وغیرہ کا ذکر فرمایا ہے اور اس میں کسی ادنی مسلمان کو شک نہیں ہوسکتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان نزول اور ظہور و خروج کا وقت بھی بتایا ہے کہ فلاں وقت ان کا نزول اور ظہور و خروج ہوگا ؟
نزع تو وقت کی تعین کے علم اور عدم علم کا ہے ،اگر اس بارے میں کوئی دلیل ہے توفریق مخالف وہ پیش فرمائیں ۔۔۔یوں گول مول باتوں سے یہ گاڑی نہیں چل سکتی ۔
علامہ الذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھم اللہ علی بن احمد الحرافی المغربی (المتوفی 638ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ :
’’وزعم انہ استخرج من علم الحروف وقت خروج الدجال و وقت طلوع الشمس من مغربھا وھذہ علوم و تحدیدات ماعلمتھا رُسل اللہ بل کل منھم حتی نوح علیہ السلام یتخوف من الدجال وینذر امتہ الدجال وھذ نبینا صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجہ وھو لاءالجھلة اخوتہ یدعون معرفة حتی یخرج نساءل اللہ السلامة انتھی (میزان الاعتدال ج 3ص 114)(لسان المیزان ج 4 ص 204)
یعنی اس نے یہ گمان کیا ہے کہ اس نے علم حروف سے دجال کے خروج کا وقت اور مغرب سے طلوع آفتاب کا وقت نکالا ہے حالانکہ یہ علوم اور ان کی تعین اور تحدید وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو بھی نہ تھا بلکہ سب کے سب رسول حتی کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی امت کو دجال لعین کے فتنہ سے ڈراتے رہے اور یہ ہمارے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ اگر میری موجودگی میں دجال نکلا تو میں (امت کی طرف سے ) اس کے ساتھ جھگڑا کروں گا اور یہ جاہل دجال کے بھائی یہ دعوے کرتے ہیں کہ ان کو دجال کے خروج کا وقت معلوم ہے ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ایسے گندے عقائد سے محفوظ رکھے ۔
انتہی
فرمائیے کہ فریق مخالف پر کیا گذری ؟؟؟

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ تمام حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو حتی کہ خود جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوعلیٰ التعییین دجال کے خروج کا وقت اور اسی طرح طلوع شمس من المغرب کا وقت معلوم نہ تھا ؟؟؟؟

باقی مفتی صاحب کی طرف سے پیش کی گئی روایت ”آپ نے قیامت تک من و عن واقعات بتادئیے تھے“ کی تفصیلی وضاحت پچھلے صفحات میں بیان ہوچکے ہیں ۔
اور جہاں تک مفتی صاحب کے مایہ ناز استاد اور صدر الافاضل سے یہ نقل کرنا کہ ”دو ملی ہوئی چیزوں میں ایک کی ابتداءاور دوسری کی انتہا ءہوتی ہے “روایتہ و داریتہ باطل ہے ۔
اول اس لئے کہ اشراط ساعت اور علامات قیامت کی جملہ روایات کو پیش نظر رکھ کر بھی جمہور شارح حدیث بجز چند واقعات کے ان کی صحیح ترتیب بیان نہیں کرسکے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ واقعات قیامت سے قبل ضرور رونما ہوں گے مگر کون سا واقعہ پہلے اور کون سا واقعہ بعد کو ہوگا سوائے معدودے چند واقعات کے اور کسی میں ٹھیک ترتیب معلوم نہیں ہے ۔
اور صدر الافاضل اگر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی ایک روایت دیکھ لیتے تو ان کی آنکھیں روشن ہوجاتیں :
’’قال سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول ان اول الایات خروجا طلوع الشمس من مغربھا و خروج الدابة علی الناس ضحی وایھما ما کانت قبل صاحبتھا فالاخری علیٰ اثرھا الخ (مسلم)(مشکوة ج 2ص 472)
یعنی میں نے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ (ایمان کے نفع نہ دینے کی) نشانیوں میں سے پہلی نشانی مغرب سے طلوع آفتاب اور خروج دابة ہے ۔چاشت کے وقت یہ لوگوں پر ظاہر ہوں گی ،ان دونوں میں جونسی نشانی پہلے ظاہر ہوئی تو دوسری اس کے بعد ظاہر ہوجائیگی ۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان دونوں کی ٹھیک ترتیب کہ پہلے کون سی ہوگی اور بعد کو کون سی ہوگی نہیں بتلائی گئی بلکہ یہی بتلایا گیا ہے کہ ان میں جو نسی ایک پہلے ظاہر ہوئی تو دوسری اس کے بعد ظاہر ہوجائے گی ۔
تو جب واقعات کے اندر ترتیب معلوم نہیں تو مفتی صاحب کا یہ دعوی کیسے درست ہو ا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہے کہ کون سا واقعہ کس کے بعد ہوگا ؟؟
علاوہ ازیں اگر بالفرض تمام واقعات کی ترتیب بھی معلوم ہو اور من و عن تمام واقعات اور حوادث اس میں شامل بھی ہوں تو اس سے صرف یہی ثابت ہوگا کہ بڑے بڑے اور اہم واقعات کا علم مراد ہے ۔غیر ضروری واقعات کا اس سے کیا تعلق ہے ؟؟؟
پھر واقعات کے معلوم ہونے سے بھی یہ کیوں کر ثابت ہوگا کہ ان کا علیٰ التعیین ٹھیک وقت بھی معلوم ہو؟؟؟کس قطعی دلیل سے اس کا ثبوت ہے ؟؟
مفتی صاحب کو محض اپنی رائے سے تعین کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟؟؟جبکہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں صراحت سے نفی موجود ہے ؟؟؟
اوراس کی تائید میں آثار صحابہ اور بے شمار بزرگان دین رحمھم اللہ کے واضح اور صریح اقوال موجود ہیں ۔
مولوی عمر صاحب لکھتے ہیں کہ ”اسی بنا پر آپ نے اپنے سبابہ اور وسطی کو لمبا کرکے اپنا اور قیامت کا تعلق ظاہر فرمایا ،اگر کہو کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے تعین کا امر ہمیں کیوں نہیں ارشاد فرمایا تو آپ کا ظاہر نہ فرمانا آپ کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا “انتہی بلفظہ (مقیاس حنفیت ص 371)
الجواب
بلاشک عدم اظہار عدم علم کی دلیل نہیں ہوا کرتا ۔۔۔مگر جب سائل آپ سے یہ پوچھے کہ قیامت کب ہوگی ۔۔۔۔اور آپ فرمائیں کہ ”غیب وما یعلم الغیب الااللہ “ ۔۔۔۔یا سائل پوچھے کیا ایسے علوم بھی ہیں جو آپ کو معلوم نہیں تو اس کے جواب میں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ’’ گو اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے بھلائی کے علوم عطاءکئے ہیں مگر ان پانچ کا علم مجھے نہیں دیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔تو عدم علم کی اس تصریح کے بعد بھی مولوی محمد عمر صاحب یہ کہتے جائیں کہ آپ کا ظاہر نہ فرمانا آپ کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا ۔۔۔۔سراسر بہتان اور خالص افتراءہے۔
محترم قارئین کرام !
”علم قیامت “ بذات خود ایک مستقل موضوع ہے ۔۔۔۔ لیکن کیوں کہ ہم بالخصوص اس موضوع پر بات نہیں کررہے ہیں اس لئے ہم اختصار کو ملحوظ رکھتے ہیں اپنی یہ وضاحت اسی مقام پر ختم کرتے ہیں ۔۔۔۔ اس امید کے ساتھ کہ جو لوگ واقعی کچھ سمجھنا چاہتے ہیں اُن کے لئے چند دلائل ہی کافی ہوتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جن لوگوں نے نہ ماننے کا تہیہ کیا ہو اُن کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ حق کے متلاشی حضرات کے لئے یہ مختصروضاحت بھی کافی ہوگی ۔
ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علم نزول غیث
فریق مخالف کے وکیل مولوی محمد عمر صاحب سُرخی یہ قائم کرتے ہیں کہ ”علم نزول غیث“ پھر اس کے اثبات کے لئے بخاری ج 1 ص 138 اور مسلم ج 1 ص 294 کی یہ روایت پیش فرماتے ہیں کہ ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ،فرمایا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے ،اچانک ایک آدمی آیاتو اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم بارش کا کال پڑ گیا ہے ،اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ،آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو بارش شروع ہوگئی ہمیں اپنے مکانوں تک پہنچنا مشکل ہوگیا الخ
پھر آگے لکھتے ہیں کہ ”اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ بارش کا برسنا آپ کے فرمان اور اشارے سے ہوتا تھا ۔۔۔جس کے اشارے سے بارش برسے اور جس کے اشارہ پاک سے بادل پھٹ جائے ،بادل کیا چاند ٹکڑے ہوجائے ،سورج واپس لوٹ آئے اُس ذات کی نسبت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کو بارش کا علم نہ تھا تو اس سے زیادہ کم فہمی اور کیا ہوسکتی ہے ؟(مقیاس حنفیت ص 345،346)
محترم قارئین کرام !
ازروئے انصاف ودیانت یہ فرمائیں کہ اس حدیث پاک سے”علم نزول غیث“ کا کیا تعلق ہے ؟؟؟
نیز فریق مخالف جواب دے کہ کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ ہی بارش کا علم ہوگیا تھا یا ہر دفعہ کی اور ہر ہر جگہ کی بارش کا علم تھا ؟؟؟
اور کیا یہ بارش آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے برسائی تھی یا جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے برسائی تھی ؟؟
اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے برسائی تھی تو اللہ تعالیٰ سے سوال اور دعا کرنے کا کیا مطلب ؟؟؟
اوراس ایک دفعہ کے معجزے سے مولوی عمر صاحب نے (اشارہ سے ہوتاتھا، کہہ کر) ماضی استمراری کیسے بنادی ؟؟؟
اور پھر مولوی عمر صاحب نے علم نزول غیث کے ثبوت میں مسلم ج 2 ص 401 کی یہ روایت کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال آسمان (یعنی بادل ) کو حکم کرے گا تو بارش شروع ہوجائے گی الخ (مقیاس حنفیت ص347)پیش کرکے علم و انصاف کا وہ جنازہ نکالا جو ناقابل فراموش ہے ۔
کیوں کہ دجال لعین کا یوں بارش برسانا جادو اور مسمریزم کے طور پر ہوگا اور آج بھی مغربی حکومتیں مصنوعی بادل بنا کر اس سے بارش برساتی ہیں ۔
اور سحر بقول علامہ شمس الدین الخیالی رحمہ اللہ (المتوفی 870 ھ) خارق عادت نہیں بلکہ اسباب پر مرتب ہوتا ہے (الخیالی ص 41)
اورباقی حضرات فرماتے ہیں کہ خارق عادت کام اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اگر یہ کافر کے ہاتھ پر صادر ہو اور اس کی غرض کے موافق ہو تو استدراج کہلاتا ہے (الخیالی ص 141) یہ کافر کے بس کا روگ نہیں ہوتا ۔
یعنی دعوی اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
علم مافی الارحام
مولوی محمد عمر صاحب جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ”علم مافی الارحام “ ثابت کرتے ہوئے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ”دلائل النبوة ج 3 ص 220 ،201 و تاریخ الخلفاءص 15 میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی والدہ حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا (لبابہ بن الحارث ) آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذریں تو آپ نے فرمایا کہ تیرا حمل لڑکے کا ہے جب تو اسے جنے تو لڑکا میرے پاس لانا چناچہ ایسا ہی کیا گیا “
پھر مولوی عمر صاحب آگے فرماتے ہیں کہ:
”تو نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے داہنے کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت دی ،پھر بچہ کا نام عبداللہ رکھا جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مشہور ہیں ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ خلفاء(عباسیہ )کا باپ ہے جس کی نسل سے سفاح اور مہدی اور وہ شخص پیدا ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اقتداءمیں نماز پڑھے گا “محصلہ (مقیاس حنفیت ص 339،340)
پھر اس حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے یوں ارقام ہیں :
’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا پردے میں عورت کے حاملہ ہونے کی غیبی اطلاع دیناآپ کا علم مافی الارحام کی حقیقت کا مطلع ہونا اور قبل از ولادت لڑکے کی مبارک باد دینا “
پھر چند فوائد اور زیب قلم فرما کر یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
”کیوں جناب تم تو کہتے ہو کہ سوائے خدا کے مافی الارحام کا علم اور مافی غد کا علم کسی کو ہے ہی نہیں ۔۔نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو قیامت تک نسلوں کا ثبوت دے دیا کیا اس پر بھی ایمان گے یا نہ ؟؟(بلفظہ مقیاس ص 341)
معزز قارئین کرام !
کاش کہ فریق مخالف کے وکیل محمد عمر صاحب ”مافی الارحام “ کا مفہوم سمجھتے (جس کی تفصیل ہم پچھلی پوسٹوں میں بیان کرچکے ہیں )اور پھر کوئی جواب دیتے ۔۔۔لیکن محمد عمر صاحب ”مافی الارحام “ کا مفہوم سمجھے بغیر اپنے دلائل پیش فرمانا شروع فرمادئیے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت صحیح نہیں کیوں کہ اس کی سند میں احمد راشد بن خثیم الہلالی ہے ۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ (میزان ج 1 ص97 میں) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (لسان ج 1 ص 171 میں)لکھتے ہیں کہ ”بخبر باطل “ (کہ اس نے یہ باطل حدیث روایت کی ہے )پھر آگے لکھتے ہیں ”فرد حدیث رکیکا “(نہایت ضعیف اور رکیک روایت اس نے بیان کی ہے )اور پھر لکھتے ہیں ”احمد بن راشد فھو الذی اختلقہ بجھل (لسان ج 1 ص 172) کہ احمد بن راشد ہی نے حماقت سے یہ روایت گھڑی ہے ۔
فریق مخالف بتائے کہ کیا ان کا یہ ایمان ہے کہ قرآن کریم کی قطعی الدلالہ نصوص کو رد کرنے کے لئے ایسی ہی باطل اور من گھڑت روایت سے کام چلتا ہے ؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ کیا جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو صرف ام فضل رضی اللہ عنہا کے حمل کا علم تھا یا تمام روئے زمین کی مادہ (یعنی انسان و حیوان) کے ارحام کا بھی علم تھا ؟؟؟
اور کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے چند خلفاءکے متعلق یہ فرمایا ہے یا قیامت تک تمام نسلوں کے لئے ؟؟؟
اسی طرح مفتی احمد یار نعیمی صاحب جاءالحق ص 111 میں اور مولوی محمد عمر صاحب لکھتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم مافی الارحام تھا ۔۔۔پھر موطا امام مالک ص 314 ،بیہقی ج 6 ص 170 ،طحاوی ج 2 ص 245 ،تاریخ الخلفاءص 61 اور اصابہ ج 8 ص 286 کی روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت وراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ارشاد فرمایا جس کا آخری حصہ یہ ہے (ترجمہ عمر صاحب کا ہے)
’’دو تیرے بھائی ہیں اور دو تیری بہنیں ہیں تو اللہ کی کتاب کے مطابق تم اس کو تقسیم کرلو ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ،قسم اللہ کی اگر ایسے ایسے ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی (میری ہمشیرہ ) وہ اسماء رضی اللہ عنہا ہی تو ہے اور کوئی نہیں دوسری کون ہے ؟ تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیری والدہ کے پیٹ میں حمل لڑکی کا ہے جو پیدا ہونے والی ہے ،میں اس حمل کو لڑکی دیکھ رہا ہو ں “
اس کے بعد مولوی عمر صاحب فرماتے ہیں کہ ”کیوں جناب تم تو کہتے ہو نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پیٹ کا علم نہیں ہے ،یہاں تو آپ کے نام لیوا پیٹ کا علم ظاہر کررہے ہیں اور ساتھ ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمادیا کہ میں تیری والدہ کے پیٹ میں لڑ کی دیکھ رہا ہوں “(بلفظہ مقیاس حنفیت ص 344،345)
اس روایت سے فریق مخالف کا احتجاج چند وجوہ سے باطل ہے :
اول
اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صرف ایک رحم کی خبر دی ہے ،مافی الارحام کے علم کی خبر نہیں دی ۔۔۔۔اور مولوی عمر صاحب وغیرہ کا دعوی یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم مافی الارحام تھا ۔۔۔صرف ایک رحم کی خبر دینے سے جمیع مافی الارحام کا علم کیسے حاصل ہوا ؟؟؟
دلیل اور دعوی میں کوئی مطابقت نہیں ۔
ثانیا
اس لئے کہ”اُراھاجاریة“ کے یہ معنی جو مولوی عمر صاحب اور بریلوی حضرات فرماتے ہیں ”میں اس حمل کو لڑکی دیکھ رہا ہوں “یہ فن عربی سے ناواقفی کی روشن اور واضح دلیل ہے ۔”اُرھا“(بضم الہمزة)”ظن“ کے معنی میں آتا ہے نہ کہ علم کے معنی میں؟؟؟
چناچہ امام ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرزی الحنفیؒ(المتوفی 616 ھ) لکھتے ہیں کہ:
وما اُراہ یفعل کذا ای ما اظنہ ومنہ وذوبطن بنت خارجة اُراھا جاریة ای الظن ان مافی بطنھا انثی“(مغرب جلد 1 صفحہ 197)
ما اُرہ یفعل کذا کا یہ معنی ہے کہ میرا اس کے متعلق ظن یہ ہے کہ وہ ایسا کریگا اور اسی سے ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے حمل کے متعلق فرمایاکہ ”اُراھاجاریة“ یعنی میرا ظن اور گمان یہ ہے کہ وہ لڑکی ہوگی۔

اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اُراھا بضم الھمزة ای اظھر مافی بطنھاجاریة وفیہ حصول الظن بمثل و ذلک وانما الممتنع العلم فلا یخالفة قولہ تعالیٰ ”ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام “(محلی بر موطا ص 314)
”اُرھا“بضم ہمزہ ہے یعنی میں ظاہر کرتا ہوں کہ اس کے پیٹ میں لڑکی ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ اس طرح کا ظن حاصل ہوسکتا ہے ،ہاں البتہ علم کا حاصل ہونا ممتنع ہے تو یہ روایت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مخالف نہیں ہے کہ اللہ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا ،اور نازل کرتا ہے بارش کو اور علم رکھتا ہے مافی الارحام کا“

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس چیز کا اظہار فرمایا تھا ،وہ ظن ہے اور آیت مبارکہ میں جس چیز کا ذکر ہے وہ یقینی علم ہے اور علم یقینی کلی طور پر مافی الارحام کا کسی کو حاصل نہیں ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ علامہ ابن سعد رحمہ اللہ کے حوالہ سے روایت میں یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا”قد القی فی روعی انھا جاریة“یعنی میرے دل میں یہ خیال ڈالا گیا ہے کہ وہ لڑکی ہوگی چناچہ لڑکی ہی پیدا ہوئی اور اس کا نام ام کلثوم رکھا گیا“(تاریخ الخلفاءص 61)
مفتی احمد یار کا کمال ملاحظہ فرمائیں کہ وہ انجاح الحاجة سے مفید طلب حوالہ اور عبارت تو نقل کرتے ہیں (فراست اور ظن ہے اللہ تعالیٰ مومن کی فراست کو سچا کردیتا ہے ۔جاءالحق ص 111) مگر آگے کی یہ عبارت شیر مادر سمجھ کر ہضم کرجاتے ہیں کہ :
ومع ھذا الایخرج عن درجة الظن ولا ید خل فی حدا لعلم فافترقا الخ (انجاح الحاجة ص302)
یعنی باوجویکہ یہ(فراست اور ظن ہے اللہ تعالیٰ مومن کی فراست کو سچا کردیتا ہے ۔جاءالحق ص 111) واقعہ صحیح ثابت ہو ا مگر پھر بھی ظن اور گمان کے درجہ سے خارج نہیں اور نہ علم کی حد میں داخل ہے اور دونوں میں فرق ہے ۔

ملاحظہ فرمایا آپ نے فریق مخالف کے مفتی صاحب کا حال ؟؟؟
ثالثا
فریق مخالف کی یہ دلیل اس لئے بھی باطل ہے کیوں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند لمحات پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:
”لکھ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ یہ وہ وصیت ہے جو ابو بکربن ابی قحافہ (رضی اللہ عنہ )دنیوی زندگی کے آخری لمحات میں اور دنیا سے جدائی اختیار کرتے ہوئے اور آخرت کی پہلی منزل میں داخل ہوتے ہوئے کر رہا ہے ،یہ وہ وقت ہے جس میں کافر ایمان لانے اور فاجر یقین کرنے اور جھوٹا سچ بولنے پر مجبور ہوتا ہے میں تمہارے اوپر عمربن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ بنایا ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین اور اپنے نفس اور تمہارے ساتھ بھلائی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اگر عمر(رضی اللہ عنہ) عدل اور انساف سے کام لے تو میرا خیال اور دانست بھی اس کے متعلق یہی ہے اور اگر عدل اور انصاف سے ہٹ کر اور کوئی طریقہ اختیار کرے تو ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ہے،میں نے نیکی کا ہی ارادہ کیا ہے اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ وہ پھرتے ہیں ۔والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ“(تاریخ الخلفاءص 60)(شرح عقائد جلالی ص 100)(الکامل للمبرد جلد 1 صفحہ 9)(الامامة و السیا ستہ جلد 1 صفحہ 19 لا بن قیتبةؒ)
ملاحظہ فرمایا کہ افضل البشر بعد الانبیاءحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات سے چند لمحات قبل کیا فرمایا؟؟؟
اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو علم غیب نہیں تو کسی اور ولی اور بزرگ کو کیسے اور کہاں سے ہوگا؟؟؟
اور اگر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنے بعد کے خلیفہ کے عدل اور انصاف اور رعایا پروری کے نشیب و فراز سے آگاہی نہیں تو فرمائیے اور کون ہوسکتا ہے؟؟؟
باقی فریق مخالف اسی طرح اولیاءکرام کے لئے بھی ”مافی الارحام “وغیرہ ثابت فرمانے کی کوششیں کرتے ہیں ۔۔۔۔حالانکہ علماءکرام نے واضح کیا ہے کہ اولیاءکرام کو جو مکاشفہ یا الہام وغیرہ سے جو علوم حاصل ہوتے ہیں وہ ظنی ہیں قطعی نہیں ۔۔۔۔چناچہ ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واما ما اشتھر من بعض الاولیاءمن اخبار المغیبات فظنی انہ مادام یستقیم صرفہ عن ظاھرہ یصرف بان نقول فیما یخبرون بما فی الرحم من الذکروالانثیٰ او بنزول الغیث انھم لایطلعون علیٰ مافی الرحم ولا علیٰ نزول الغیث وانما یقولون ذٰلک ابشار ابولادة الذکر و دعاءبنزول الغیث ولکن یکون دعائھم مستجابا ویکون موافق التقدیر فی اکثر الحال لاانھم کانو اعالمین بہ اوانھم لایقولون ذٰلک علما یقینا بل ظنا والممنوع ھو العلم بہ (التفیرات احمدیة ص 397)
”بعض حضرات اولیا ءکرام سے غیب کی خبریں جو مشہور ہوئی ہیں تو میرے خیال میں جب ان کو ظاہر سے پھیر کر کوئی ممکن تاویل کی جاسکی تو کی جائے گی ۔مثلا ہم یہ کہیں گے کہ رحم میں لڑکا یا لڑکی یا نزول بارش کی جو خبر وہ دیتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رحم کے اندر کا اور نزول غیث کا علم رکھتے ہیں بلکہ وہ محض لڑکے کی ولادت اور نزول غیث کی بشارت سناتے ہیں لیکن اکثر حالات میں اُن کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور موافق تقدیر ہوکر خبر پوری ہوجاتی ہے ۔یہ نہیں کہ وہ اس کے جانتے ہیںیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علم یقینی کے طور پر پر نہیں جانتے بلکہ ”ظن “ سے ایسا کہتے ہیں اور ممنوع تو علم ہے ظن نہیں “

اور قاضی ثنا ءاللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والمراد بالعلم العلم القطعی والعلم القطعی والعلم الحاصل للاولیاءبالا لھام وغیرہ ظنی لیس بقطعی (تفسیر مظہری ج 10 ص 96)
”مراد علم سے علم قطعی ہے اور حضرات اولیا ءکرام کو الہام وغیرہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ظنی ہے قطعی نہیں ہوتا“

اور ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”مکاشفہ یا الہام یا خواب کے ذریعہ جو علوم حاصل ہوتے ہیں”ھی ظنیات لاتسمی علوما یقینیات
یعنی یہ سب ظنی امور ہیں ان کو علوم یقینیہ کا درجہ حاصل نہیں ہے“
(مرقات ج 1 ص 66)(فتح الملہم ج 1 ص 172)
علم ”مافی غد“اور ’’بای ارض تموت‘‘
فریق مخالف کے وکیل مولوی محمد عمر لکھتے ہیں کہ:
ابو داﺅد ج 2 ص 8 ،نسائی ج 1 ص 293،مسلم ج 2 ص 387 و ج 3 ص 102،مسند ابو داﺅد طیالسی ص 9 ،خصائص کبریٰ ج 1 ص199میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ ہے کل فلاں کے گرنے کی جگہ اور آپ نے اپنے دست پاک کو زمین پر رکھا اور یہ ہے فلاں کے گرنے کی جگہ اور آپ نے اپنے دست پاک کو زمین پر رکھا تو فرمایا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دست پاک کی جگہ سے اُن فرمودہ آدمیوں سے کوئی بھی پس و پیش نہیں ہوا تو بمطابق حکم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُن کو پاﺅں سے پکڑ کر گھسیٹ کر قلیب بدر میں ڈالا گیا ۔
فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے امور خمسہ سے امرین کی اطلاع قبل از وقت فرمائی (1) ’’ماذاتکسب غدا“ کا علم یعنی کل کیا ہوگا (2) ’’وبای ارض تموت‘‘ کا علم یعنی کون سی زمین میں مرے گا ؟تو نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظ میں ”غد“ یعنی کل کا علم ظاہر فرمایا
الخ (مقیاس حنفیت ص 328 )
اور مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں کہ:
’’خیال رہے کہ کون کس جگہ مرے گا یہ علوم خمسہ میں سے ہے جس کی خبر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے ایک روز پہلے ہی سنا رہے ہیں (جاءالحق ص 65)
معزز قارئین کرام !
ہم پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ نزع امور خمسہ میں سے بعض امور کی بعض بعض جزئیات کے علم پر نہیں ۔۔۔وہ تو ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بعض بعض جزئیات پر مطلع فرماتا ہے ۔۔۔۔بلکہ نزع تو اس چیز پر ہے کہ کیا امور کلیات کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل ہے ؟؟؟
اہل حق اس کا انکار کرتے ہیں اور فریق مخالف اس پر اہل حق کی مخالفت کرتا ہے اور اس پر بضد ہے ۔
الحمد للہ ہمارا ایمان ہے کہ جو خبر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی سے ایک دن قبل دی تھی وہ بالکل صحیح اور حق ہے ۔۔۔۔مگر وہ خبر یہ تھی کہ فلاں کافر اس جگہ قتل کیا جائے گا۔
رہا یہ کہ اس کو کون قتل کرے گا ؟اور کل کی جملہ گھڑیوں میں سے کون سی گھڑی میں قتل ہوگا وغیرہ کیا اس کا علم بھی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا ؟؟؟
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے مقتولوں کے سرغنہ ابو جہل کے قتل کی سرسری خبر سنی تو:
’’قال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر من ینظر ما فعل ابو جھل فا نطلق ابن مسعود فوجدہ قد ضربہ ابنا عفرآء(بخاری ج 2 ص 565)(مسلم ج 2 ص 110)
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا کون ہے جو جاکر دیکھے کہ ابو جہل اس وقت کس حال میں ہے اور کیا کررہا ہے ؟تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے اور جاکر دیکھا کہ اُ س کو عفراءرضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں نے مارا ہے ۔

اگر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان مقتولوں کے اور خصوصیت سے ان کے سرکردہ سردار ابوجہل کے قتل کے مکمل تفصیلی حالات معلوم ہوتے تو آپ یہ کیوں فرماتے کہ وہ اس وقت کیا کر رہا ہے ؟؟؟
نیز جب دونوں قاتل آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ابو جہل کا قصہ بیان کرتے ہیں تو آپ مزید قرائن اور شواہد کو دیکھ کر طمانیت قلب کا سامان تلاش فرماتے ہیں ۔آخر میں صحیح روایت ہی کے اندر یہ بھی موجود ہے کہ :
ثم انصرنا الیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فا خبراہ فقال ایکما قتلہ فقال کل واحد منھما انا قتلتہ فقال ھل مستحما سیفیکما فقالا لا فنظر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم الی السیفین فقال کلا کما قتلہ وقضی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لبلبہ لمعاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ بن الجموح والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح و معاذ بن عفراء(بخاری ج 1 ص 444) (مسلم ج 2 ص 88 )(مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی پھر وہ دونوں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے ابو جہل کے قتل کی خبر آپ کو سنا ئی آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے ؟ ان دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اس کو قتل کیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھیں ہیں ؟دونوں بولے نہیں ۔جب آپ نے دیکھا تو دونوں کی تلواریں خون آلود تھیں ۔آپ نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو قتل کیا ہے مگرآپ نے ابوجہل کا سلب کا کل سامان معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ کو دیا اور یہ دونوں آدمی معاذ بن عمرو اور دوسرا معاذ بن عفراءتھے۔

(فائدہ ) بعض روایات میں معوذ اور معاذ کا نام آتا ہے ۔ان دونوں کی والدہ ایک تھی مگر باپ الگ الگ تھے ،اور بعض روایات میں آتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کا سر کاٹا تھا۔
امام ابو داﺅ د طیالسی رحمہ اللہ (المتوفی 204 ھ ) کی روایت میں ہے کہ:
جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قتل ابو جہل کے بعد سخت گرمی کے دن آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر یہ فرمایا کہ:
’’یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھذا عدو اللہ ابو جھل قد قتل فقال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لقد قتل قلت اللہ لقد قتل فانطلق بنا فا رینا ہ فجاءہ فنظر الیہ فقال ھذا کان فرعون ھذہ الامة ( ابو داﺅ طیالسی ص 42)
یعنی یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ،یہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ابو جہل قتل کردیا گیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا بخدا ابو جہل قتل ہوچکا ہے ؟ میں نے کہا ہاں حضرت خدا کی قسم وہ قتل ہوچکا ہے ۔پس آپ ہمارے ساتھ تشریف لے گئے اور ہم نے ابو جہل آپ کو دکھایا اور آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا۔

یہ روایت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ابو جہل کے قتل کے تفصیلی حالات اور جملہ کیفیات معلوم نہ تھیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’قالو ا وانما اخذالسیفین لیستدل بھما علی حقیقة کیفیة قتلھما فعلم ان ابن الجموح اثخنہ ثم شارکہ الثانی بعد ذلک و بعد استحاق السلب فلم یکن لہ حق فی السلب “
(نووی ج 2 ص 88 )(ہامش مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی حضرات علماءکرام نے فرمایا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دودونوں کی تلواریں اس لئے لیں اور دیکھیں تھیں تاکہ ان کے ذریعہ سے ان دونوں کے قتل کی کیفیت کی حقیقت کو معلوم کرسکیں جب آپ نے تلواریں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوا کہ ابن جموح کے زخم کاری ہیں اس کے بعد دوسرا قاتل اس کے ساتھ شریک ہوا ہے اور چونکہ ابن جموح اپنے کاری زخموں کی وجہ سے سلب کا مستحق ہوچکا تھا اس لئے دوسرے کو سلب سے کچھ نہ مل سکا (مگر تطییب خاطر کے لئے آپ نے دونوں کو قاتل فرمایا)

معزز قارئین کرام !
کوئی پوچھے جا کر مولوی عمر اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب کے چاہنے والوں سے کہ ”مافی غد“ کے اندر جو کھرب ہا کھرب حوادث اور واقعات شامل ہیں ۔۔۔۔ان کا تو قصہ چھوڑئیے ۔۔۔جن مقتولین بدر کے قتل کی خبر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پہلے سنائی تھی ،ان کے قتل کی کیفیات ،قاتلوں کا صحیح علم ،اور یہ کہ کس کی تلوار سے وہ قتل ہوں گے وغیرہ یہ بھی معلوم نہ تھا ۔۔۔۔لیکن فریق مخالف تو رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے ۔۔۔۔نصوص قطعیہ اور صریح روایات کو چھوڑ کر صرف ادھورے جملوں پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
اسی طرح فریق مخالف کے وکیل مولوی عمر ”علم ما غد “پر چند اور روایات بھی پیش کیں ہیں ۔۔۔مثلا یہ کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر نازل ہوں گے اور شادی کریں گے ان کی اولاد ہوگی اور کم و بیش پینتالیس سال حکومت کریں گے ،پھر ان کی وفات ہوگی اور میری قبر کے پاس ہی دفن ہوں گے۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ روایت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لُد کے پاس دجال کو قتل کریں گے وغیرہ وغیرہ (دیکھئے مقیاس حنفیت ص 329،330)
مگر ان روایات سے استدلال باطل ہے کیوں کہ یہ اشراعت ساعت اور علامات قیامت سے ہیں اور ان کے بارے میں کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوسکتا ان سے ”علم جمیع مافی غد“ ثابت کرنا دوراز کار بات ہے ۔۔۔۔اگر فریق مخالف خود ہی اپنے دعوی اور دلیل پر غور کرلیں تو ہمارے خیال میں اس کو خود ہی با آسانی سمجھ آجانا چاہیے کہ دعوی اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں۔
باقی اسی طرح مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”مشکوة باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے خیبر کے دن فرمایا کہ ہم کل یہ جھنڈااس کو دیں گے جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح فرمائے گا ۔اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے “(جاءالحق ص65)
اگر اس سے یہ مراد ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کل کے واقعات میں سے ایک واقع کی اطلاع دی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر قلع فتح ہوگا تو بالکل صحیح ہے اس میں کسی کو کلام نہیں ہے ۔
اوراگر مراد یہ ہو کہ کل کے اندر رونما ہونے والا ہرہر واقعہ آپ کو معلوم تھا اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے تو یہ قطعا غلط ہے ۔
کیوں کہ اس ارشاد کے بعد ہی خیبر میں زنیب نامی ایک یہودیہ عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ڈال کر آپ کو اور آپ کے چند ساتھیوں کو کھلایا جس کی وجہ سے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ بن براءبن معرور کی شہادت ہوگئی (دیکھئے ابو داﺅد ج 2 ص 264 )(مستدرک ج 3 ص 219 )
بلکہ یہ روایت بھی آتی ہے کہ :
”وتوفی اصحابہ الذین اکلو امن الشاة الخ (مشکوة ج 2 ص 542)اور (ابو داﺅد ج 2 ص 264) میں ”وتوفی بعض اصحابہ “(الحدیث) ہے ۔کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ کرام جنہوں نے وہ زہر آلود بکری کھائی تھی وفات پاگئے ۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ وفات پانے والے متعدد صحابہ کرام تھے ۔
لہذا ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کل کے ہر ہر واقعہ کی خبر نہ تھی ۔۔۔ ورنہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو وہ زہر آلود گوشت ہرگز کھانے نہ دیتے۔
میرے مسلمان بھائیوں ،دوستواور بزرگو!
یہ ہے فریق مخالف کے دلائل کی کل کائنات ؟؟؟
کہیں مفہوم کو توڑنا ۔۔۔کہیں موڑنا۔۔۔۔کہیں تاویلات۔۔۔۔۔۔تو کہیں ادھورے جملوں کو لے کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوششیں کرنا؟؟؟
کیااب بھی آپ کو لگتا ہے کہ فریق مخالف کا موقف درست ہے ؟؟؟
اور کیا فریق مخالف کی تاویلات ایسی وزنی ہیں کہ جو قرآن کریم کی قطعی اور صریح آیات اور بے شمار صحیح احادیث کا تسلی بخش جواب بن سکیں ؟؟؟؟
اگر تو آپ کا ضمیر اثبات میں جواب دے تب تو ٹھیک ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر جواب نفی میں آئے تب تو فریق مخالف کے لئے بڑی فکر کی بات ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
(ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔

 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حدیث : سلونی عما شئتم ۔۔۔۔۔​
السلام علیکم ورحمة اللہ !
مولوی محمد عمر صاحب بحوالہ بخاری ج 2 ص1083 اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب بحوالہ بخاری و خازن ایک روایت پیش کرتے ہیں (جس کا ترجمہ مفتی صاحب کی زبانی یوں ہے )
’’حضور علیہ السلام منبر پر کھڑے ہوئے ،پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں ۔پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے نہ پوچھوگے مگر تم کو اس کی خبر دیں گے۔ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا ،میرا ٹھکانہ کہاں ہے ؟ فرمایا جہنم میں ۔حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا حذافہ ،پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو “
مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ:
”خیال رہے کہ جہنمی یا جنتی ہونا علوم خمسہ میں سے ہے کہ سعید یا شقی اسی طرح کون کس کا بیٹا ہے ؟یہ ایسی بات ہے کہ جس کا علم سوائے اس کی ماں کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا ۔قربان جاﺅں ان نگاہوں کے جو کہ اندھیرے اُجالے دنیا و آخرت سب کو دیکھتی ہیں “انتہیٰ بلفظہ (جاءالحق ص 64)(مقیاس حنفیت ص462)
الجواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔۔ اختلاف کلیات میں ہے جس کی فریق مخالف کے پاس ایک بھی دلیل نہیں ۔۔۔۔ اور جو دلائل پیش فرماتے ہیں وہ ان کے دعوی کے مطابق نہیں ۔۔۔۔یعنی دعوی عام ہے اور جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ خاص ہیں ۔۔۔۔ اور یہ بات اصول و قاعدے کے اعتبار سے درست نہیں ۔
آسانی کے لئے یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص دعوی کرتا ہے کہ زید ساری رات چلتا رہا ۔۔۔۔ اور ثبوت میں یہ شخص رات کو بارہ بجے چلنے کا یا تین بجے چلنے کا پیش کرے ۔۔۔ تو یہ ثبوت ایسے شخص کے دعوی کے اثبات کے کافی نہیں ۔۔۔۔کیوں کہ دعوی عام ہے کہ زید رات بھر چلتا رہا۔۔۔۔ اور دلیل خاص ہے کہ بارہ بجے یا تین بجے چلا۔۔۔۔بس یہی حال فریق مخالف کے دعوی اور دلیل کا ہے ۔
ثانیا
اس روایت سے فریق مخالف کا علم غیب کلی پر استدلال اس لئے بھی باطل ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”سلونی“کہ مجھ سے سوال کرو،اظہار ناراضگی کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔۔کیوں کہ لوگوں نے دور ازکار اور لایعنی سوالات کرنے شروع کردیئے تھے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بطور ناراضگی کے یہ فرمایا۔۔۔۔چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ:
’’قال سئل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر و اعلیہ المساءلة غضب وقال سلونی (الحدیث)(بخاری ج2 ص1083) (مسلم ج 2ص264)
”یعنی آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ایسی اشیاءکے بارے میں سوال کیا گیا جن کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے جب لوگوں کے سوالات بڑھ گئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے طیش میں آکر فرمایا پوچھو مجھ سے الخ“

جب بعض لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاءکو نہ سمجھا اور سوالات شروع کردئیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ان کے جوابات آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بتلائے جاتے رہے ۔چناچہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
’’قال العلماءھٰذا القول منہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم محمول علیٰ انہ اوحی الیہ والا فلا یعلم کل مایساءل عنہ من المغیبات الا باعلام اللہ تعالیٰ قال القاضی وظاھر الحدیث ان قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی انما کان غضبا کما فی الروایة الاخریٰ سئل النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر علیہ غضب ثم قال للناس سلونی وکان اختیارہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ترک تلک المسائل لکن وافقھم فی جوابھا لانہ لایمکن رد السوال لما راءمن حرصھم علیھا واللہ اعلم “ بلفظہ (شرح مسلم ج 2 ص263)
”حضرات علماءکرام کا کہنا ہے کہ یہ قول جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا س بات پر محمول ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس کی وحی ہوئی تھی ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام مغیبات کا جن کے بارے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوالات ہوتے تھے کوئی علم نہ تھا ہاں مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اطلاع دے دیتا تھا ۔حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا سلونی فرمانا اظہار ناراضگی پر مبنی تھا کیوں کہ دوسری روایت میں موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جب بکثرت ایسی چیزی پوچھی گئیں جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غصہ میں آکر لوگوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صرف اسی امر کو پسند کرتے تھے کہ یہ سوالات نہ ہوں لیکن جب لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دینے میں (نظر با خلاق کریمہ )موافقت کی کیوں کہ لوگ جب پوچھنے میں حریص واقع ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو بے نیل مرام واپس کردیتے“

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ جلیل القدر صحابی جو صحیح معنی میں مزاج شناسِ رسول تھے ،انہوں نے اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا گہرا احساس کرتے ہوئے:
”فبرک عمر رضی اللہ عنہ علیٰ رکبتیہ فقال رضینا باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولا قال فکست رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حین قال عمر رضی اللہ عنہ ذٰلک الخ (بخاری ج 2 ص1083)(مسلم ج 2ص263)
دوزانو ہوکر بیٹھ گئے اور یہ فرمایا کہ ”ہم اللہ تعالیٰ پر راضی ہیں جو ہمارا رب ہے اور اسلام پر راضی ہیں جو ہمارا دین ہے اور حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر راضی ہیں جو ہمارے رسول ہیں ،جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تو پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا “

ان جملہ صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ”سلونی “فرمانا اس امر پر مبنی نہیں تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب تھا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اس کا اظہار لوگوں پر کرنا چاہتے تھے بلکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لایعنی اور بے کار سوالات کا دروازہ بند کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا تھا۔
اور اگر اس ارشاد کو غصہ پر محمول نہ بھی کیا جائے تب بھی صحیح روایت میں اس امر کی واضح اور روشن دلیل موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے امور عظام اور بڑے بڑے اہم مسائل کے بارے میں سوال کرنے کی اجازت دی تھی ،نہ یہ کہ ہر دمہ امر کی اجازت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دی تھی ۔چناچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے کہ:
’’قام علیٰ المنبر فذکر الساعة وذکر ان بین یدیھا امورا عظاما ثم قال من احب ان یساءل عن شئی فیساءل عنہ فواللہ لاتسالونی عن شئی الا اخبر تکم بہ مادمت فی مقامی ھذا (الحدیث )(بخاری ج 2ص 1083)(مسلم ج 2ص263)
”آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا ذکر فرمایا اور یہ بیان فرمایا کہ قیامت سے قبل بڑے بڑے واقعات رونما ہوں گے جو شخص کسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے تو پوچھ لے بخدا جب تک میں اس مقام پر موجود ہوں تم مجھ سے جو کچھ بھی پوچھو گے تو میں تم کو بتادوں گا “

ضرورت تو نہیں مگرصرف بطور شاہد و تائید حضرت عمر رضی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت بھی ملاحظہ فرمالیں کہ:
’’وخص رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابواب الغیب وقال سلونی ولا تساءلونی عن شئی الانباءتکم بہ (الحدیث)(ابو داﺅد طیالسی ص 8)
”آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کے بعض ابواب اور امور کی تخصیص فرما کر یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ سے پوچھو تم مجھ سے جو کچھ بھی (ان مخصوص امور غیب میں سے)سوال کرو گے تو میں تمہیں اس کی اطلاع دے دوں گا “

اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ابواب غیب کی ان باتوں کو بیان کرنا یا پہلی صورت میں ناپسندیدہ اور لایعنی امور کے جوابات سے اجتناب کرنا اوربصورت اصرار سائل بذریعہ وحی اس کا جواب دینا آپ کے منصب ِنبوت سے متعلق تھا ۔جیسا کہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت میں اس کی تصریح گذر چکی ہے ۔۔۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی اسی کا متقاضی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا الخ المائدۃ 101 پارہ 7
(ترجمہ:مت سوال کرو تم ایسی اشیاءکے بارے میں کہ جب وہ تم پر ظاہر کردی گئیں تو تم پریشان ہوگے اور اگر تم اس وقت ان کے بارے میں سوال کرو گے جب کہ قرآن کریم نازل ہورہا ہے تو وہ اشیاءتم پر ظاہر کردیں جائیں گی“

اور نزول قرآن کے زمانہ سے نزول وحی کا زمانہ مراد ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ای وان تساءلو عن ھذا الاشیاءالتی نھیتم عن السوال عنھا حین ینزل الوحی علیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم تبین لکم الخ (تفسیر ابن کثیر ج 2ص 106)
یعنی اگر تم ان اشیاءکے بارے میں سوال کروگے جن سے تمہیں روکا گیا ہے جب جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہورہی ہے تو وہ اشیاءضرور تم پر واضح کردی جائیں گی (اور تم پھر پریشان ہوگے)

بعض اوقات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سلونی ضروری مسائل دریافت کرنے کے لئے بھی ارشاد فرمایا ہے مگر صرف وہ امور جن کی لوگوں کو حاجت تھی اور وہ منصب نبوت کے مناسب بھی تھے ۔چناچہ ایک مقام پر سلونی کی شرح میں امام نوو ی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی ،ھذا لیس بمخالف للنھی عن سوالہ فان ھذا المامور بہ ھو فیما یحتاج الیہ وھو موافق لقولہ تعالیٰ فسئلوا اھل الذکر “انتہیٰ بلفظہ (نووی شرح مسلم ج 1 ص29)
”آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ مجھ سے پوچھو یہ اس قول کے مخالف نہیں ہے جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سوال سے منع کیا تھا کیوں کہ جس سوال کی اجازت آپ نے دی تھی وہ تو صرف ان امور میں ہے جن کی لوگوں کو حاجت ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق ہے کہ اہل علم سے پوچھ لو “

ان تمام دلائل سے روزروشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ’’سلونی‘‘ سے علم غیب کلی کا اثبات خدا تعالیٰ اور اُس کے جناب رسول برحق صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور علماءامت کی تصریحات کے بالکل خلاف ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی حدیث کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’واشد من ذٰلک فی کثرة السﺅال البحث عن امور مغیبة وردالشرع بالایمان بھا مع ترک کیفیتھا ومنھا مالا یکون لہ شاھد فی عالم الحس کالسﺅال عن وقت الساعة وعن الروح وعن مدة ھذہ الامة الیٰ امثال ذٰلک مما لا یعرف الا بالنقل الصرف والکثیر لم یثبت فیہ شئی فیجب الایمان بہ من غیر بحث الخ (فتح الباری ج 13 ص 225)
”اور اس سے بڑھ کر کثرت سوال میں وہ بحث ہے جو ایسے امور غیبیہ کے بارے میں ہو جن کے بارے میں شریعت نے صرف ایمان لانے کا حکم دیا ہے بغیر اس کے کہ ان کی کیفیت معلوم کی جائے اوران میں ایسے امور بھی ہیں جن کی عالم حس میں کوئی مثال ہی نہیں جیسے قیامت کے وقت کا علم اور روح اور اس امت کی مدت کا علم وغیرہ جو صرف خالص نقل ہی سے معلوم ہوسکتے ہیں اور ان میں کثیر امور کے بارے میں کوئی حدیث اور نقل ثابت ہی نہیں ہے کہ یہ امور کب ہوں گے ؟لہذا ان پر ایمان لانا ضروری ہے “

اور شیخ السلام علامہ بدرالدین عینی الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’فان قلت من این عرف رسول اللہ علیہ الصلوة والسلام انہ ،ابنہ قلت اما بالوحی وھو الظاھر او بحکم الفراسة او بالقیاس او بالاستلحاق الخ (عمدة القاری ج 9ص 509)
”سو اگر تو یہ کہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ خذافہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ؟تو میں جواب میں کہوں گا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا تھا اور یہی ظاہر ہے یا فراست یا قیاس یا استلحاق کے حکم سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاتھا“

اگر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو علم غیب کلی ہوتا (جیسا کہ فریق مخالف کا دعوی ہے)تو جب عبد اللہ بن خدافہ نے سوال کیا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایا تو شیخ الاسلام علامہ عینی رحمہ اللہ کو صاف فرمادینا چاہیے تھا کہ چونکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی غیب تھا اس لئے یہ فرمادیا ۔۔۔انہوں نے یہ کیوں فرمایا کہ اس وقت آپ پر وحی آئی تھی اور اس کے مطابق آپ نے جواب فرمایا ۔۔۔اور فرماتے ہیں کہ وھو الظاھر کہ ظاہر بات یہ ہے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی تھی (منصف ابن ابی شیبتہ (ج 11 ص 496)میں اسی روایت میں ہے کہ ”عن انس بن مالک قال خرج الینا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذات یوم وھو غضبان و نحن نریٰ ان معہ جبرائیل الخ“)۔۔۔ ۔ نیز فرماتے ہیں کہ یاآپ نے فراست یا استلحاق کے اصول کے پیش نظر جواب دیا ۔۔۔۔۔جس کو علم غیب کلی حاصل ہو اس کو فراست اور قیاس وغیرہ کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟
غرضیکہ فریق مخالف کا اس روایت سے علم غیب کلی پر استدلال کرنا باطل ہے ۔
باقی مفتی احمد یار نعیمی صاحب تفسیر خازن پارہ 4 زیر آیت ”ماکان اللہ لیذر (الآیة ) ایک روایت پیش کرتے ہیں (جس کا ترجمہ مفتی صاحب کی زبانی یوں ہے کہ :
”حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیش فرمائی گئی ،اپنی اپنی صورتوں میں مٹی میں جس طرح حضرت آدم علیہ السلام پر پیش ہوئی تھی ،ہم کو بتایا گیا کون ہم پر ایمان لاوے گا اور کون کفر کرے گا یہ خبر منافقین کو پہنچی تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہین کہ ان کو لوگوں کی پیدائش سے پہلے ہی کافر و مومن کی خبر ہوگئی ہم تو ان کے ساتھ ہیں اور ہم کو نہیں پہچانتے یہ خبر حضور علیہ السلام کو پہنچی تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا کہ قوموں کا کیا حال ہے کہ ہمارے علم میں طعنے کرتے ہیں اب قیامت تک کی کسی چیز کے بارے میں جو بھی تم ہم سے پوچھوگے ہم تم کو خبر دیں گے “
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ :
’’اس حدیث دوباتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ حضور علیہ السلام کے علم میں طعنے کرا منافقوں کا طریقہ ہے دوسرے یہ کہ قیامت تک کے واقعات سارے حضور علیہ السلام کے علم میں ہیں “(بلفظہ جاءالحق ص 66)
محترم قارئین کرام !
مفتی صاحب نے تفسیر خازن کی یہ روایت نقل تو فرمائی ۔۔۔۔لیکن مفتی صاحب نے شاید اس روایت کی سند پر غور نہیں فرمایا۔
اس روایت کی سند یوں ہے ”قال السُدی قال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم“(دیکھیے معالم و مظہری )
سب سے پہلے تو ملاحظہ فرمایئے ”سُدی “کے بارے میں حضرات محدثین کرام کی رائے :
السُدی الکبیر کا نام اسمعیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ ہے ۔۔۔اگر چہ یہ فن تفسیر کے امام ہیں مگر فن حدیث کے بارے میں حضرات محدثین کرام کی رائے ان کے بارے میں اچھی نہیں ہے۔
چناچہ امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ان کی روایت میں ضعف ہوتا ہے ۔
امام جوزجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”ھو کذاب شتام “(وہ جھوٹا اور تبرائی تھا)
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:وہ کمزور ہے ۔
امام ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
اس کی حدیث تو لکھی جاسکتی ہے مگر اس سے احتجاج درست نہیں ہے ۔
عقیلی کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے ۔
ساجی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ”صدوق فیہ نظر“۔
امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”لا یحتج بحدیثہ“کہ اس کی حدیث سے احتجاج سے و استدلال جائز نہیں “
(تہذیب التہذیب ج 1 ص231)(معالم التنزیل ج4 ص231)(مجموعہ التفاسیر ج3 ص176)
اس کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ سُدی اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے درمیان کتنے راوی ہیں ؟اور ہیں وہ کیسے ؟ثقہ ہیں یا ضعیف ؟
یہ فریق مخالف کی ہی ہمت ہے کہ بیک جنبش پھاند کر آگے چلے جانا ۔اور بلاکسی تحقیق سند اور صحت کے جہاں اپنے مطلب کی بات نظر آئی اور اس کو لے کر احتجاج اور استدلال فرمالیا۔
ملاحظہ فرمائیں قاضی ثناءاللہ صاحب رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :
قال الشیخ جلال الدین سیوطی لم اقف علیٰ ھذا الروایة اھ (تفسیر مظہری ج 2ص185)
”یعنی امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس روایت (کی سند اور صحت )پر مطلع نہیں ہوسکا “

ممکن ہے کہ مفتی صاحب کو اس روایت کی سنداور صحت کا علم کشف اور الہام سے ہوگیا ہو؟؟؟بحرحال ہماری فریق مخالف سے درخواست ہے کہ اگر اُن کے پاس اس روایت کی سند ہو تو ہمیں ضرور مطلع فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میں نے یہ اعتراضات اسی تھریڈ میں کہ جہاں مضمون موجود ہے، پیش کرنا مناسب سمجھا، کیونکہ اتنا لمبا مضمون پڑھنے کے بعد دوسرے تھریڈ میں جا کر اعتراضات کو پڑھنا اکثر قارئین کے مزاج کے خلاف ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قارئین اس سے مستفید ہو سکیں! ان شاءاللہ! انتظامیہ متفق ہو گی!!
مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں
مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں اور ان وضاحتوں میں مغالطے
اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطاءنہیں،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں ،نہ تو کلی علم غیب پر مطلع ہیں ۔
مندرجہ بالا عبارت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!!
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطلاع علی الغیب، انباء الغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ علوم عطا کئے ۔
اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق نبی کریم ﷺ ہی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نہ عالم الغیب ہیں اور نہ کلی علم غیب پر مطلع ہیں۔
اب یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور کو اطلاع علی الغیب، انباء الغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ کوئی علم نہیں کیا۔ یعنی کہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کوغیب کی کوئی خبر نہیں دی اس کی دلیل بھی بیان کئے جاتے ہیں:
﴿ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران 179) ﴾
"جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑ دے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ الگ نہ کر دے، اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لیتا ہے، اس لئے تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے۔"
نیز فرمایا:
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (27) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (28) الجن ﴾
’’ وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ (26) سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے۔ (27) تاکہ ان کے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے اللہ تعالیٰ نے انکے آس پاس (کی تمام چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے۔ (28)"


قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ (لقمان 34)میں جس علم کی اللہ تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے ،وہ علم کلی ہے ۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ ان اشیاءکے کلیات کا بطور کلی علم صرف ذات خدوندی کے ساتھ مخصوص ہے۔اور بعض احادیث پاک اور آثار اور اقوال علماءمیں سے ان میں سے جن بعض جزئیات کا علم غیر اللہ کے لئے ثابت ہواہے تو وہ صرف علم جزئی ہے۔۔۔اور ایجاب جزئی اور رفع ایجاب کلی میں کوئی منافات نہیں ہوتی۔
چناچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’فاللائق ان لا یعتبر فی الآیة سلب العموم بل یعتبر عموم السلب ویلتزم ان القاعدة اغلبیة وکذا یقال فی السلب والعموم فی جانب الفاعل الخ (روح المعانی ج20ص 12)
”یعنی یہ امر قابل غور ہے اور لائق فکر ہے کہ آیت میں سلب عموم معتبر نہیں ہے بلکہ عموم سلب مراد ہے اور یہ بات بھی قابل التزام ہے کہ یہ قاعدہ اکثر یہ ہے اور اسی طرح جانب فاعل میں سلب اور عموم کو ملحوظ رکھنا چاہیے“
بلکہ اس سے بھی زیادہ صاف اور واشگاف الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:
’’انہ یجوازن یطلع اللہ تعالیٰ بعض اصفیاءہ علیٰ احدی ھذہ الخمس ویرزقہ عزوجل العلم بذلک فی الجملة وعلمھا الخاص بہ جل وعلا ماکان علیٰ وجہ الاحاطة والشمول لاحوال کل منھا وتفصیلہ علیٰ الوجہ الاتم وفی شرح المناوی للجامع الصغیر فی الکلام علیٰ حدیث بریدة السابق خمس لا یعلمھن الا اللہ علیٰ وجہ الاحاطة والشمول کلیا وجزئیا فلا نیا فیہ اطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصہ علیٰ بعض المغیبات حتی من ھذہ الخمس لانھا جزئیات معدودة اھ (تفسیر روح المعانی،جلد 21،صفحہ:100)
”یعنی یہ جائز کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض برگزیدہ بندوں کو ان پانچ امور میں سے کسی چیز پر مطلع کردے اور اللہ تعالیٰ ان کو فی الجملہ ان کا علم عطا فرمادے ان علوم خمسہ میں سے جو علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے وہ ایسا علم ہے جو علےٰ وجہ الاحاطہ اور علی سبیل الشموں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا علیٰ وجہ الاتم تفصیلی علم اس پر مشتمل ہو،جامعہ صغیر کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے باری تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ ان تمام کلیات اور جزئیات کا علیٰ سبیل الاحاطة والشمول علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص خاص بندوں کو ان پانچ میں سے بعض مغیبات پر مطلع کردے ،کیوں کہ یہ تو چند گنے چنے واقعات اور معدودے چند جزئیات ہیں“

اس طرح احادیث پاک ،اقوال صحابہ ،سلف صالحین کے اقوال میں غیر اللہ کے لئے ”بعض غیوب خمسہ“پر مطلع یا منکشف ہونے کا ذکر آتا ہے۔
یہاں "غیر اللہ " اور "بعض برگزیدہ بندوں" کی وضاحت کر دیں کہ صرف انبیاء کا تذکرہ ہے یا انبیاء کے علاوہ بھی کوئی شامل حال ہیں!!!

اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قلت قد اخبر الانبیاءوالاولیاءبشیئی کثیر من ذٰلک فکیف الحصر قلت الحصر باعتبار کلیا تھا دون جزئیتھاالخ (مرقات ج 1ص 66) (فتح الملہم ج1 ص 172)
”اگر تو یہ کہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعظام نے ان پانچ میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ حصر کیسے صحیح ہے کہ اللہ ہی کے پاس اس کا علم ہے؟تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حصر کلیات کے اعتبار سے ہے جزئیات کے اعتبار سے نہیں“
خیر سے یہاں تو اس بات کی صراحت موجود ہے کہ انبیاء کے علاوہ "اولیاء عظام" بھی شامل حال ہیں۔
انبیاء کو غیب کے متعلق خبر دئیے جانے کی دلیل تو قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ جیسا کہ تحریر کے آغاز میں پیش کر دی گئی۔
اب آپ ان اولیاء عظام کو غیب کی خبر دئیے جانے کی دلیل پیش کر دیں!

اور یہ ہی ہمار ا فریق مخالف سے اختلاف ہے ۔
کہ غیوب خمسہ کے اصول اور کلیات کا جاننے والا تنہا اللہ رب العزت ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے ان غیوب خمسہ میں سے بعض بعض جزئیات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرمادیتا ہے ۔
ناصر نعمان بھائی! یہ اختلاف آپ کا یعنی کہ دیوبندیوں کا بریلویوں سے تو ہو سکتا ہے ، مگر اہل السنت و الجماعت کا آپ دیوبندیوں سے بھی اس معاملہ میں اختلاف ہے۔ کہ آپ اپنے اولیاء کرام کو غیب کی بعض بعض جزئیات پر مطلع اور منکشف مانتے ہو!
اس کی دلیل پیش کریں
ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واما ما اشتھر من بعض الاولیاءمن اخبار المغیبات فظنی انہ مادام یستقیم صرفہ عن ظاھرہ یصرف بان نقول فیما یخبرون بما فی الرحم من الذکروالانثیٰ او بنزول الغیث انھم لایطلعون علیٰ مافی الرحم ولا علیٰ نزول الغیث وانما یقولون ذٰلک ابشار ابولادة الذکر و دعاءبنزول الغیث ولکن یکون دعائھم مستجابا ویکون موافق التقدیر فی اکثر الحال لاانھم کانو اعالمین بہ اوانھم لایقولون ذٰلک علما یقینا بل ظنا والممنوع ھو العلم بہ (التفیرات احمدیة ص 397)
بعض حضرات اولیا ءکرام سے غیب کی خبریں جو مشہور ہوئی ہیں تو میرے خیال میں جب ان کو ظاہر سے پھیر کر کوئی ممکن تاویل کی جاسکی تو کی جائے گی ۔مثلا ہم یہ کہیں گے کہ رحم میں لڑکا یا لڑکی یا نزول بارش کی جو خبر وہ دیتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رحم کے اندر کا اور نزول غیث کا علم رکھتے ہیں بلکہ وہ محض لڑکے کی ولادت اور نزول غیث کی بشارت سناتے ہیں لیکن اکثر حالات میں اُن کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور موافق تقدیر ہوکر خبر پوری ہوجاتی ہے ۔یہ نہیں کہ وہ اس کے جانتے ہیں یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علم یقینی کے طور پر پر نہیں جانتے بلکہ ”ظن “ سے ایسا کہتے ہیں اور ممنوع تو علم ہے ظن نہیں “
ملا جیون کی یہ تاویل باطل ہے کہ خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد!! اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایسی تاویل کوئی وقعت نہیں رکھتی! لیکن ابھی ہمارا سوال یہ نہیں ! کہ اسے کیا کہا جاتا ہے یا کیا نہیں !!
ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ کے ان اولیاء کو یہ غیب کی خبر کیسے مل گئی!!! اس کی دلیل پیش کریں!!
ناصر نعمان بھائی! جیسا کہ آپ رقم طراز ہیں:
(کیوں کہ فریق مخالف کے خود کے دلائل کی رو سے بھی ”عموم “ میں قیاس ،احاد سے قید نہیں لگائی جاسکتی)
اور آپ اپنا اصول بیان کرتے ہیں :
یعنی عقیدت اور چیز ہے اور عقیدہ اور چیز ہے ۔۔۔اثبات عقیدہ کے لئے نص قطعی یا خبر متواتر درکار ہے ۔یہاں خبر واحد صحیح سے بھی گاڑی نہیں چل سکتی اور قرآن کریم کے مقابلہ میں خبر واحد کا پیش کرنا ہی درست نہیں ۔
ایک اور جگہ آپ رقم طراز ہیں:
عقیدہ اور نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں تو تمہارے مسلمات کے رو سے بھی صحیح حدیث جبکہ خبر واحد ہو نہیں پیش کی جاسکتی
خیر سے یہ آپ کا اصول بھی ہے!!
یہ اصول صرف حنفی بریلوں کا ہی نہیں بلکہ حنفی دیوبندیوں کا بھی ہے! ناصر نعمان آپ بھی حنفی ہیں اور احناف کے نزدیک عقیدہ میں صرف قرآن کی آیات اور احادیث متواتر دلائل ہو سکتے ہیں، اور احناف عقیدے میں خبر احاد کے قطعی منکر ہیں!!
یاد رہے یہ اصول آپ احناف کا ہے۔ اہل سنت و الجماعت آپ کے اس اصول سے بری ہیں!
اور کسی بھی خبر واحد کو پیش کرنے سے قبل فقہا احناف کے اس اصول کو رد کرنے کا اعلان ضرور کر دیجئے گا!! اور اگر خبر متواتر پیش کریں تو اس کی کم سے کم چار (4) اسانید ضرور پیش کیجئے گا کہ اس حدیث کا شمار متواتر میں کیا جا سکے!!
ہم آپ کے دلائل کے منتظر ہیں!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
یہ اس زمانے کی بات ھے جب میں حنفی تھا اور طالب العلم تھا تو ایک استاد کیلیے دورہ تفسیر کی اشتھار چپھوانے پریس گیا تھا تو وھاں مجھے ایک آدمی ملا اس نے مجھے بتایا کہ آپ اس مولوی سے کیوں پڑھتے ھو یہ تو گمراہ ھے میں نے پوچھا کیوں اس نے کھاں اس لیے کہ یہ کھتاھےھے نبی غیب نھی جانتا میں نے کھاں کہ ھاں نا نبی غیب نھی جانتا صرف اللہ جانتاھےقرآن شریف میں ھے نبی علیہ السلام نے کھاخود کھاھے لوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء تو انھوں نے مجھے
کھا کہ یہ قرآن کی آیت ھےنا قرآن کی تفسیر آپ بھتر جانتے ھیں یا اشرف علی تھانوی اور شاہ ولی اللہ تو میں نے جواب دیا کہ شاہ ولی اللہ اور اشرف علیتھانوی بھتر جانتا ھے جبکہ یھی میری غلطی تھی انھوں کھا اگر میں ان دونوں کی کتابوں
میں دکھادو کہ انبیاء اور اولیاء غیب جانتے ھیں تو مان لوگے میں نے کھاں مان لونگا تو انھوں نے شاہ ولی اللہ کی تصوف کی کتابیں لاے اور تھانوی صاحب کے اور مجھے دکھادیا انھوں نے لکھا تھا کہ اولیاء غیب جانتے ھیں واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ھے علم غیب کی مسءلے پر بحث کرنے کیلیے ضروری ھے کہ ھم قرآن وحدیث اور حدیث میں بحث کرنے والے کیلیے ضروری ھے کہ صحیح حدیث کا قید لگایا جاے ورنہ درجنوں ضعیف اور موضوعی احادیث موجود ھے کہ نبی اور ولی علم غیب جانتاھے اور کسی امام یا مولنا کو تو دلیل بنانا نھی چاھیے کیونکہ انسان سے تو غلطی ھوسکتاھے نا
اب اوپر کی بحث کو دیکھو سارے دلایل منطقی ھے صرف باتوں سے تو مسءلہ ثابت نھی ھوتا نا ابن داود صاحب بھت بھترین دلایل دی ھے جب قرآن وصحح حدیث موجود ھے تو پھر کسی کی بات نھی ماننا چاھیے
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
ابن داؤد بھائی ہمیں دوسری فورم پر آپ سے بات چیت کے تجربہ کےبعد آپ کے اعتراضات کی نوعیت کےمتعلق تھوڑا سا اندازہ تھا ۔۔۔۔لیکن پھر بھی آپ کے لئے حسن ظن رکھتے ہوئے آپ سے کمی کوتاہیوں کی نشادہی کی درخواست کی تھی ۔۔۔۔لیکن آپ کے اعتراضات ہماری امیدوں کے مطابق وارد ہوئے ہیں ۔
پہلی بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہم بحث برائے بحث کے قائل نہیں، دوسری بات آپ کا پہلا اعتراض ’’اولیاء کرام سے متعلق کا جواب ہم انس نضر بھائی کے اعتراض کے جواب میں دے چکے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعد اس مسئلہ پر مزید بات چیت بحث برائے بحث ہوگی ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمارا موضوع علم غیب ہے ۔۔۔عقائد کے اصول نہیں۔۔۔عقائد کے اصول ضمنا اس بات چیت کے درمیان آگئے ہیں ۔۔۔جس کی مختصروضاحت آنے والے مراسلات میں شامل ہے
لیکن کیوں کہ ہمارا موضوع عقائد کے اصول نہیں ۔۔۔۔لہذا ہم اس مسئلہ پر بات چیت سے قاصر رہیں گے۔

دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک طالب علم ہیں ۔۔عالم نہیں ۔۔۔۔جو ہر موضوع پر کلام کرسکیں ۔۔۔۔ہم نے علم غیب پر مضمون اپنے علماء کرام کی کتب کی مدد سے ترتیب دیا ہے ۔۔۔جبکہ عقائد کے اصول پر ہمارا مطالعہ نہیں ۔۔لہذا ہم اس لئے بھی اس ٹاپک پر بات چیت سے قاصر ہیں۔

باقی آخری گذارش عرض یہ ہے کہ یقینا آپ کی علمی حیثیت کے آگے ہماری حیثیت ایک بچہ سے زیادہ نہ ہو ۔۔۔ہماری محدود مطالعہ کے مطابق(ہوسکتا ہے ہم غلط ہوں) ہر اختلاف مضر بھی نہیں ہوتا(کہ ہر اختلاف کو لازمی کریدا جائے) ۔۔۔کیوں اگر ہر اختلاف ایسا ہی مضر ایمان ہوتا جیسا کہ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں ۔۔۔تو دنیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ایسے اختلافات میں مبتلا نہیں ہوتی(یعنی ایسے امور پر عمل پیرا نہیں ہوتی جن پرکچھ لوگوں شدید تحفظات رہتے ہیں)۔۔۔اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں سے امید رکھی جائے ۔۔۔۔اور اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرلیا جائے ۔۔۔۔۔اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ایسابھائی چارہ محبت اور حسن ظن رکھا جائے ۔۔۔جیسا کہ مااناعلینا وانا اصحابی کی راہ ہے(کہ منافقین جیسے لوگوں پر نہ تو طعن تشنیع کی اور (کچھ کے بارے میں)یقین سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے دلوں میں کیا ہے لیکں اپنی جماعت سے علیحدہ نہیں کیا)
اگر ہم سب مسلمان ناجی فرقہ میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تو یقینا ایک طرف اگر ہمیں اپنے عقائد و افعال و اعمال مااناعلیہ وانا اصحابی کی طرح کرنے ہوں گے تو دوسری طرف ہمیں اپنا کردار ،اخلاق اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن ظن اور محبت بھی مااناعلیہ وانا اصحابی کے مطابق کرنے ہوں گے۔
باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔۔۔اگر کوئی بات ناگوار گذری ہو تو ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں ۔۔۔۔اپنا چھوٹا نادان بھائی سمجھ کر معاف کردییجے گا ۔
باقی ہمیں محترم ابوالحسن علوی صاحب کا ایک مضمونتنقید یا تنقیص بے حد پسند آیا اگرکبھی وقت ملے تو ضرور مطالعہ فرمائیے گا ان شاء اللہ تعالیٰ مفید رہے گا۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
(ہماری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے، ابوداؤد بھائیاور مفتی عبداللہ صاحب کے مراسلہ کو دوسرے دھاگہ میں منتقل فرمادیں تاکہ ہمارے موضوع کا ربط برقرار رہے ۔جزاک اللہ)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد بھائی ہمیں دوسری فورم پر آپ سے بات چیت کے تجربہ کےبعد آپ کے اعتراضات کی نوعیت کےمتعلق تھوڑا سا اندازہ تھا ۔۔۔۔لیکن پھر بھی آپ کے لئے حسن ظن رکھتے ہوئے آپ سے کمی کوتاہیوں کی نشادہی کی درخواست کی تھی ۔۔۔۔لیکن آپ کے اعتراضات ہماری امیدوں کے مطابق وارد ہوئے ہیں ۔
ناصر نعمان ! ابھی تو ہم نے کوئی اعتراض پیش ہی نہیں کیا! ابھی تو آپ سے صرف آپ کے عقیدہ کی دلیل مطلوب ہے!!
پہلی بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہم بحث برائے بحث کے قائل نہیں، دوسری بات آپ کا پہلا اعتراض ’’اولیاء کرام سے متعلق کا جواب ہم انس نضر بھائی کے اعتراض کے جواب میں دے چکے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعد اس مسئلہ پر مزید بات چیت بحث برائے بحث ہوگی ۔
انس نضر بھائی نے بھی آپ سے دلیل ہی طلب کی تھی ، جو آپ نے وہاں بھی پیش نہیں کی ۔ اگر کوئی دلیل آپ نے اپنے اس عقیدہ پر پیش کی ہو تو وہاں سے اقتباس پیش کر دیں!!!
تیسری بات یہ ہے کہ ہمارا موضوع علم غیب ہے ۔۔۔عقائد کے اصول نہیں۔۔۔عقائد کے اصول ضمنا اس بات چیت کے درمیان آگئے ہیں ۔۔۔
یہ اصول آپ نے ہی تحریر فرمائے ہیں!!! اور ہم نے بھی آپ کے اصولوں پر کوئی بحث نہیں کی، صرف ضمنا بتلا دیا ہے کہ دالائل پیش کرتے ہوئے آپ اپنے ہی بیان کردہ اصولوں کو مدنظر رکھئے گا!!
جس کی مختصروضاحت آنے والے مراسلات میں شامل ہے
لیکن کیوں کہ ہمارا موضوع عقائد کے اصول نہیں ۔۔۔۔لہذا ہم اس مسئلہ پر بات چیت سے قاصر رہیں گے۔
ہم آپ کے اصول کوپربات چیت کر ہی نہیں رہے، بس صرف آپ کے عقیدہ پر دلیل کا مطالبہ ہے کہ وہ لائل آپ کے ہی پیش کردہ اصول کے مطابق ہوں!!
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک طالب علم ہیں ۔۔عالم نہیں ۔۔۔۔جو ہر موضوع پر کلام کرسکیں ۔۔۔۔ہم نے علم غیب پر مضمون اپنے علماء کرام کی کتب کی مدد سے ترتیب دیا ہے ۔۔۔جبکہ عقائد کے اصول پر ہمارا مطالعہ نہیں ۔۔لہذا ہم اس لئے بھی اس ٹاپک پر بات چیت سے قاصر ہیں۔
آپ کا عقائد کے اصول پر مطالعہ نہیں!!! لیکن یہ اصول آپ نے ہی بیان کئے ہیں!!!!! اور بات چیت ان اصولوں پر نہیں ، بلکہ آپ سے آپ کے عقیدہ کی دلیل مطلوب ہے!!
باقی آخری گذارش عرض یہ ہے کہ یقینا آپ کی علمی حیثیت کے آگے ہماری حیثیت ایک بچہ سے زیادہ نہ ہو ۔۔۔ہماری محدود مطالعہ کے مطابق(ہوسکتا ہے ہم غلط ہوں) ہر اختلاف مضر بھی نہیں ہوتا(کہ ہر اختلاف کو لازمی کریدا جائے) ۔۔۔کیوں اگر ہر اختلاف ایسا ہی مضر ایمان ہوتا جیسا کہ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں ۔۔۔تو دنیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ایسے اختلافات میں مبتلا نہیں ہوتی(یعنی ایسے امور پر عمل پیرا نہیں ہوتی جن پرکچھ لوگوں شدید تحفظات رہتے ہیں)۔۔۔اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں سے امید رکھی جائے ۔۔۔۔اور اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرلیا جائے ۔۔۔۔۔اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ایسابھائی چارہ محبت اور حسن ظن رکھا جائے ۔۔۔جیسا کہ مااناعلینا وانا اصحابی کی راہ ہے(کہ منافقین جیسے لوگوں پر نہ تو طعن تشنیع کی اور (کچھ کے بارے میں)یقین سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے دلوں میں کیا ہے لیکں اپنی جماعت سے علیحدہ نہیں کیا )
ناصر نعمان! ہم نے آپ سے صرف آپ کے عقیدہ کی دلیل طلب کی ہے، اس میں حسن ظن ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں!!! آپ اپنے عقیدہ پر دلیل پیش کر دیں!!!
اگر ہم سب مسلمان ناجی فرقہ میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تو یقینا ایک طرف اگر ہمیں اپنے عقائد و افعال و اعمال مااناعلیہ وانا اصحابی کی طرح کرنے ہوں گے تو دوسری طرف ہمیں اپنا کردار ،اخلاق اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن ظن اور محبت بھی مااناعلیہ وانا اصحابی کے مطابق کرنے ہوں گے۔
جی ناصر نعمان! آپ اپنے عقیدہ کی دلیل پیش کر دیں!!!
باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔۔۔اگر کوئی بات ناگوار گذری ہو تو ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں ۔۔۔۔اپنا چھوٹا نادان بھائی سمجھ کر معاف کردییجے گا ۔
ناصر نعمان! آپ معذرت نہ کریں!! اپنے عقیدہ کی دلیل پیش کر دیں!!!
باقی ہمیں محترم ابوالحسن علوی صاحب کا ایک مضمونتنقید یا تنقیص بے حد پسند آیا اگرکبھی وقت ملے تو ضرور مطالعہ فرمائیے گا ان شاء اللہ تعالیٰ مفید رہے گا۔جزاک اللہ
ماشاء اللہ ابوالحسن علوی بھائی بہت علمی اور اصلاحی تحریر پیش کرتے ہیں! آپ بس اپنے عقیدہ پر دلیل پیش کر دیں!!
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
آمین!!
(ہماری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے، ابوداؤد بھائیاور مفتی عبداللہ صاحب کے مراسلہ کو دوسرے دھاگہ میں منتقل فرمادیں تاکہ ہمارے موضوع کا ربط برقرار رہے ۔جزاک اللہ)
اور ہماری انتظامیہ سے گذارش پہلے سے موجود ہے کہ جو شبہات جس تھریڈ میں ہوں اس کا ازالہ بھی اسی تھریڈ میں ہونا چاہئے!!!
ناصر نعمان! آپ بریلویوں کے عقیدہ کا رد جن علماء کی کتب سے کر رہے ہوں انہیں علماء سے آپ اپنے عقیدہ کی دلیل بھی معلوم کرلیں!! اور وہ دلائل پیش کریں!!!


ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
:):):):):):)

اگر انتظامیہ کو ابن داؤد بھائی کا مشورہ(تبصرے کے مراسلات کی منتقلی کے بارے میں) زیادہ معقول نظر آتا ہے تو جیسے انتظامیہ کی مرضی۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب آپ ان اولیاء عظام کو غیب کی خبر دئیے جانے کی دلیل پیش کر دیں!
السلام و علیکم
حضرت حضر علیہ السلام کا واقع قرآن مجید میں بیان ہوا اگر آپ انہیں اللہ کا ولی مانتے ہیں تو یہ قصہ ہی اولیاء عظام کے علم غیب عطائی کی دلیل ہے اور اگر ولی اللہ نہیں بلکہ اللہ کا نبی مانتے ہیں تو اس کے لئے صحیح بخاری سے دلیل حاضر ہے ایک ولی اللہ کے علم غیب عطائی پر
حدثني محمد بن عبد الله الرقاشي،‏‏‏‏ حدثنا معتمر،‏‏‏‏ قال سمعت أبي يقول،‏‏‏‏ حدثنا أبو مجلز،‏‏‏‏ عن قيس بن عباد،‏‏‏‏ عن علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنه ـ أنه قال أنا أول،‏‏‏‏ من يجثو بين يدى الرحمن للخصومة يوم القيامة‏.‏ وقال قيس بن عباد وفيهم أنزلت ‏ {‏ هذان خصمان اختصموا في ربهم‏}‏ قال هم الذين تبارزوا يوم بدر حمزة وعلي وعبيدة أو أبو عبيدة بن الحارث وشيبة بن ربيعة وعتبة والوليد بن عتبة‏.
ترجمہ داؤد راز
مجھ سے محمد بن عبداللہ رقاشی نے بیان کیا، ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابو مجلز نے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دوزانو ہو کر بیٹھے گا۔ قیس بن عباد نے بیان کیا کہ انہیں حضرات (حمزہ، علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم) کے بارے میں سورۃ الحج کی یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ ”یہ دوفریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں لڑائی کی“ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں لڑنے نکلے تھے، مسلمانوں کی طرف سے حمزہ، علی اور عبیدہ یا ابوعبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم (اور کافروں کی طرف سے) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تھے۔

یعنی علی ولی اللہ قیامت کے حالات جو کہ پردہ غیب میں ہیں ان پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے ارشاد فرمارہے ہیں کہ
قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دوزانو ہو کر بیٹھے گا
امید ہے قرآن و حدیث کو ماننے کاصرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی دلیل کو مان بھی لیں گے اور اس کے جواب میں اپنے اماموں کے اقوال پیش نہیں فرمائیں گے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یاد رہے یہ اصول آپ احناف کا ہے۔ اہل سنت و الجماعت آپ کے اس اصول سے بری ہیں!
کہاں وہابیہ نجدیا اور کہاں اہل سنت و الجماعت اسی لئے کہتے کہ
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
اسے کہتے ہیں چلتی گاڑی میں بیٹھنا کہ ابھی مضمون چل رہا ہی تھا (جاری ہے) کہ کوئی اس چلتی گاڑی میں سوار ہوا اس سبز قدم کی وجہ سے یہ گاڑی (مضمون) ہی روک گیا
 
Top