• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ غلامی پرا عتراض کے جوابات

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مسئلہ غلامی، تاریخ اور اسلام

غلامی ان مسائل میں سے جن کے بیان میں مستشرقین نے اسلام کو سب سے ذیادہ اپنے طنز و تضحیک کا ہدف بنایا ہے ، یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اسلام نے غلامی کی ابتداء کی اور اس کو تحفظ دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ پہلے سے موجود تھا اور غلاموں کو سب سے ذیادہ حقوق اسلام نے ہی دلوائے اس دور میں جب انکو کسی قسم کا حق کہیں بھی حاصل نہیں تھا ۔ ذیل میں دنیا کے مختلف معاشروں میں غلامی کی شکلوں اور غلاموں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک اور اسلامی اصلاحات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
روم میں غلامی
غلامی کی بد ترین مثال سلطنت روم ماضی کی عظیم ترین سلطنت رہی ہے۔ اس کا اقتدار 200BC سے شروع ہو کر کم و بیش 1500 عیسوی تک جاری رہا۔ ان قوانین کو غلامی سے متعلق سخت ترین قوانین قرار دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کیتھ بریڈلے اپنے آرٹیکل “قدیم روم میں غلاموں کی مزاحمت (Resisting Slavery in Ancient Rome)” میں اس دور کی غلامی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
روم اور اٹلی میں، 200 قبل مسیح سے لے کر 200 عیسوی تک، کی چار صدیوں میں آبادی کا چوتھائی بلکہ تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ اس دوران کروڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے کسی بھی قسم کے حقوق کے بغیر رہتے رہے ہیں گویا کہ قانونی اور معاشرتی طور پر وہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ وہ انسان ہی نہیں سمجھے جاتے تھے۔
پلوٹرک کی بیان کردہ معلومات کے مطابق کسی غلام کا نام ہی نہ ہوا کرتا تھا۔ انہیں کوئی چیز اپنی ملکیت میں رکھنے، شادی کرنے یا قانونی خاندان رکھنے کی کوئی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ غلاموں کا مقصد یا تو محض محنت کرنے والے کارکنوں کا حصول ہوا کرتا تھا یا پھر یہ اپنے آقاؤں کی دولت کے اظہار کے لئے اسٹیٹس سمبل کے طور پر رکھے جاتے تھے۔ غلاموں کو جسمانی سزائیں دینا اور ان کا جنسی استحصال کرنا عام تھا۔اپنی تعریف کے لحاظ سے ہی غلامی ایک وحشی، متشددانہ اور غیر انسانی ادارہ تھا جس میں غلام کی حیثیت محض ایک جانور کی سی تھی۔

http://www.bbc.co.uk/history/ancient/romans/slavery_02.shtml

رومی غلام زیادہ تر وہ ہوا کرتے تھے جو یا تو جنگوں میں پکڑے جائیں یا پھر وہ جو اپنے قرضے ادا نہ کر سکیں۔کثیر تعداد میں موجود غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لئے انہیں دائمی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا دی جاتی تھیں جو وہ سوتے وقت بھی اتار نہ سکتے تھے۔آقاؤں کی تفریح کے لئے غلاموں کو ایک دوسرے یا وحشی درندوں سے لڑایا جاتا۔ ان غلاموں کو اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی اور ان لڑائیوں کا نتیجہ کسی ایک کی موت کی صورت ہی میں نکلتا۔ فتح یاب غلام کو آزادی دینا اس کے مالکوں اور تماشائیوں کی صوابدید پر منحصر ہوا کرتا تھا۔
کیتھ بریڈلے کا آرٹیکل انہی بغاوتوں کے بارے میں ہے۔ ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان میں سب سے مشہور بغاوت 73-71BC میں ہوئی جس کا لیڈر مشہور گلیڈی ایٹر اسپارٹکس تھا۔ اس بغاوت میں بہت سے غلاموں نے حصہ لیا اور اس بغاوت کے نتیجے میں سلطنت روما تباہ ہوتے ہوتے بچی۔ بغاوت ناکام رہی اور اسپارٹکس کو قتل کر دیا اور اس کے ہزاروں پیروکاروں کو صلیب پر چڑھا دیا گیا جو کہ رومیوں کا عام طریق کار تھا۔ غلاموں کے ساتھ اسی سلوک پر ایک ناول سپارٹکس بہت مشہور ہوا۔

قدیم یونان
قدیم یونانی معاشرہ میں پورا ایک طبقہ ہیلوٹس کا تھا جو غلاموں پر مشتمل ہوتا تھا۔ یونان میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنی زمین نہ تھی اور (مزارعت پر کاشت کرنے کی وجہ سے) انہیں اپنی فصل کا بڑا حصہ جاگیر داروں کو دینا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرض لینے پر مجبور ہوتے اور سوائے اپنے جسم و جان کے ان کے پاس کوئی چیز رہن رکھنے کے لئے نہ ہوا کرتی تھی۔ ان لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں ایتھنز شہر میں محض 2100 شہری اور 460,000 غلام موجود تھے۔۔ غلاموں کو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔ پہلے عبرانیوں کے ہاں اور پھر یونانیوں میں غلاموں سے نہایت ہی سخت برتاؤ رکھا جاتا تھا۔ یونان کی تمام شہری ریاستوں میں معاملہ ایک جیسا نہ تھا۔ ایتھنز میں غلاموں سے کچھ نرمی برتی جاتی جبکہ سپارٹا میں ان سے نہایت سخت سلوک کیا جاتا لیکن عمومی طور پر غلام بالکل ہی بے آسرا تھے۔
چین اور کنفیوشن ممالک
چین روم کی طرح مکمل طور پر ایک غلام معاشرہ نہیں بن سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے عام طور پر سستے کارکن موجود رہے ہیں۔ بعض غلاموں سے اچھا سلوک بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں بہت سے انسانی حقوق حاصل نہ رہے ہیں۔تفصیل

http://www.britannica.com/eb/article-24156/slavery

کنفیوشس (551 – 479BC) کے فلسفے اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے دیگر ممالک جیسے مشرقی چین، جاپان اور کوریا میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ اسمتھ کے مطابق ابتدائی طور صرف حکومت کو غلام بنانے کی اجازت دی گئی جو کہ جنگی قیدیوں اور دیگر مجرموں کو غلام بنانے تک محدود تھی۔ کچھ عرصے بعد پرائیویٹ غلامی اور جاگیردارانہ مزدوری کا نظام بھی آہستہ آہستہ پیدا ہو گیا۔
قدیم مصر
مصر میں بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح غلامی موجود رہی ہے۔ مصری قوانین کے تحت پوری رعایا کو فرعون کا نہ صرف غلام سمجھا جاتا تھا بلکہ ان سے فرعون کی عبادت کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اہرام مصر کی تعمیر سے متعلق جو تفصیلات ہمیں ملتی ہیں، ان کے مطابق اہرام کی تعمیر ہزاروں کی تعداد میں غلاموں نے کی تھی۔ کئی کئی ٹن وزنی پتھر اٹھانے کے دوران بہت سے غلام حادثات کا شکار بھی ہوئے تھے۔
دیکھیے http://nefertiti.iwebland.com/timelines/topics/slavery.htm )
مصر میں چوری جیسے جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنانے کے رواج کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہوا ہے۔ یہاں یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ایسے شخص کو ساری عمر کے لئے غلام بنا دیا جاتا تھا یا پھر کچھ مخصوص مدت کے لئے ایسا کیا جاتا تھا۔
مصر میں غربت کے باعث لوگوں میں خود کو فروخت کر دینے کا رجحان بھی موجود تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام کا قرآن میں ذکر ہے انکو بھی اسی طرح بیچا گیا ۔ مصر کی تاریخ میں سیدنا یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ پہلے ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے اس رواج کو ختم کرتے ہوئے کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی عطا کی۔
ہندوستان
کے ایس لا ل کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق قدیم ہندوستان میں بھی غلامی موجود رہی ہے البتہ دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت یہاں غلاموں سے بہتر سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ گوتم بد ھ نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ غلاموں سے صرف اتنا ہی کام لیں جو وہ کر سکیں۔
قدیم ہندوستان غلامی کی ایک اور شکل بھی تھی وہ تھا انکا ذات پات کا نظام ۔ اس نظام کے تحت معاشرے کو چار بنیادی ذاتوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں برہمن کا کام مذہبی رسومات سر انجام دینا، کھشتری کا کام فوج اور حکومتی معاملات دیکھنا، ویش کا کام تجارت کرنا اور شودر کا کام زراعت، صفائی اور دیگر نچلے درجے کے کام کرنا ہے۔
آواگون کے عقیدے کے تحت (کسی شخص کے ) غلام ہونے کو اس کے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا قرار دیا گیا،
عرب میں غلامی
غلاموں کا طبقہ عرب معاشرے میں “حقیر ترین” طبقہ تھا۔ عربوں کے زیادہ تر غلام افریقہ سے لائے گئے تھے۔ ان کے علاوہ سفید رنگت والے رومی غلام بھی ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔ یہ زیادہ تر عراق یا شام سے لائے جاتے تھے۔ان غلاموں کی خرید و فروخت جانوروں یا بے جان اشیاء کی طرح کی جاتی تھی۔ مالک غلام کی کسی غلطی پر مالک اسے موت کی سزا بھی دے سکتا تھا
آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دے تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔ بہت سے آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔
عربوں میں لڑائی جھگڑا اور بین القبائل جنگیں عام تھیں۔ ان جنگوں میں فاتح، نہ صرف مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بناتا بلکہ اس قبیلے کی خواتین اور بچوں کو بھی غلام بنانا فاتح کا حق سمجھا جاتا تھا۔

اسلام اور غلامی
غلامی کے موضوع پر اسلام کے متعلق پائے جانے والے غلط تاثر کی بنیادی وجوہات میں جہاں مستشرقین کی اسلامی احکام کے نزول کے طریق کار اور اسلامی تاریخ سے نا واقفیت اور تعصب کارفرما ہیں ، وہیں بعض اسلامی سلاطین کی طرف سے اسلام کے احکام سے روگردانی بھی ہے۔ ایک بنیادی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ لوگ “اسلام اور غلامی” کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کسی مسلمان بادشاہ کے عمل کی مثالیں دینے لگتے ہیں ۔ اس طریق کار کی بدولت کسی بھی مسلمان کا کوئی عمل خواہ وہ اسلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہو، “اسلام” قرار پاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی عیسائی ظالم بادشاہ کے مظالم کو عیسائیت کی تعلیم قرار دینا۔ ظاہر ہے یہ طریق غیر علمی ہے۔
جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلام سے پہلے غلامی موجود تھی۔ ہم دنیا بھر کے مختلف معاشروں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیں غلام بنائے جانے کے یہ طریقے معلوم ہوتے ہیں:
• بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔
• اگر کسی کو کوئی لا وارث بچہ یا لا وارث شخص ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔
• کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام باشندوں کو غلام بنا لیا جائے۔
• کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔
• قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔
• پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔
• غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔
• جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین جنگی قیدیوں کو غلام بنا دیں۔
اسلام نے جو اصطلاحات نافد کیں انکا ایک حصہ تو ان غلاموں سے متعلق ہے جو معاشرے میں پہلے سے ہی موجود تھے اور دوسرا حصہ آئندہ بنائے جانے والے غلاموں سے متعلق ہے۔
آئندہ بنائے جانے والے غلام
آئندہ بنائے جانے والے غلاموں کے ذیل میں اسلام نے غلامی کی آخری وجہ کے علاوہ باقی انسانی غلامی کے سارے طریقوں پر پابندی لگادی ۔ آخری وجہ (جنگی قیدیوں کو غلام بنانا) کو کیوں برقرار رکھا گیا اس کی اصل یہ ہے کہ اس میں مخلوق کی جان بچائی گی ہے، کیونکہ جب ایک دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں فوج کشی کرتا ہو اور اس کے ہزاروں لاکھوں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوں، تو اب ہمیں کوئی بتلا دے کہ ان قیدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک صورت تو یہ ہے کہ ان سب کو رہا کردئیے جائے، اس کا حماقت ہونا ظاہرہے کہ دشمن کے ہزاروں لاکھوں کی تعداد کو پھر اپنے مقابلے کے لئے مستعد کردیا۔
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو فورا قتل کردیا جائے، اگر اسلام میں ایسا کیا جاتا تو مخالفین جتنا شور و غل مسئلہ غلامی پر کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اس وقت کرتے کہ دیکھئے کہ کیا سخت حکم ہے کہ قیدیوں کو فورا قتل کردیا گیا؟
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو کسی جیل خانے میں بند کر دیا جائے اور وہاں رکھ کر ان کو روٹی کپڑا دیا جائے، اس سے جیل کا عملہ اور ہزاروں جنگی بے کار ہو جاتا ہے ۔ پھر تجربہ شاہد ہے کہ جیل خانے میں رکھ کر آپ چاہے قیدیوں کو کتنی ہی راحت پہنچائیں ، ان کی ان کو کچھ قدر نہیں ہوتی کیونکہ آزادی سلب ہونے کا غیظ ان کو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ آپکی ساری خاطر مدارات کو بے کار سمجھتے ہیں، تو سلطنت کا اتنا خرچ بھی ہوا اور سب بے سود کہ اس سے دشمن کی دشمنی میں کمی نہ آئے، پھر قید خانے میں ہزاروں لاکھوں قیدی ہوتے ہیں وہ سب کے سب علمی اور تمدنی ترقی سے بلکل محروم رہتے ہیں اور یہ سب بڑا ظلم ہے۔
اسلام نے اس کے بجائے معاشرے میں انویسٹ کردیا، انکو قیدی سے بہتر انسانی حقوق اور آزادی دی ۔ سوسائٹی نے انکو خوشی سے قبول کیا اور سلطنت بھی بار عظیم سے بچ گی ، چونکہ ہر شخص کو اپنے قیدی سے خدمات لینے کا حق ہوتا ہے اس لئے وہ اسکو روٹی کپڑا جو کچھ دے گا ، اس پر گراں نہیں ہوتا، اس کے لیے ایک نوکر کا معاملہ ہوگیا جس سے وہ خدمت لیتا اور اسے معاوزہ میں روٹی کپڑا اور مکان دیتا،پھر چونکہ غلام کو چلنے پھرنے سیر و تفریح کرنے کی آزادی ہوتی ہے ، قید خانے میں بند نہیں ہوتا ، اس لئے اسکو اپنے آقا پر غیظ نہیں ہوتا، جو جیل خانہ میں کے قیدی کو ہوتا ہے ۔
آقا کو غلاموں کے ساتھ احسان اور نرمی کا برتاو کرنے کا حکم شرعی بھی تھا اس لیے اچھے سلوک سے اس کا احسان دل میں گھر کر لیتا ہے اور وہ اس کے گھر کو اپنا گھر ، اس کے گھر والوں کو اپنا عزیز سمجھنے لگاتا ہے. یہ سب باتیں ہی نہیں بلکہ واقعات ہیں۔
اسلام نے غلاموں کی تربیت کا حکم دیا ۔ آقا خود چاہتا ہے کہ میرا غلام مہذب و شائستہ ہو، وہ اس کو تعلیم بھی دلاتا ہے، صنعت و حرفت بھی سکھاتا ، اسکو علمی اور تمدنی ترقی کا بھرپور موقع ملتا۔ چنانچہ اسلام میں صد ہا علماء زہاد ایسے ہوئے ہیں جو اصل میں موالی (آزاد کردہ غلام) تھے، غلاموں کے طبقہ نے تمام علوم میں ترقی حاصل کی، بلکہ غلاموں کو بعض دفعہ بادشاہت بھی نصیب ہوتی تھی. تاریخ اسلام میں سلطنت غلامان کا تذکرہ موجود ہے

پہلے سے موجود غلاموں کا مسئلہ
جو لوگ پہلے سے غلام تھے یا جنگی قیدیوں کی صورت میں بعد میں آئے انکو اسلام نے بدتریج غلامی سے نکالا۔ اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہ چیز ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ، ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ، انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کے پاس بیس ، تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا، بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کر رہے تھے۔عرب کے طول و عرض اور عراق ، شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تو اس سارے علاقے میں کروڑوں غلام کام کر رہے تھے۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین، مرد اور بچے بے گھر اور لا وارث ہو جاتے۔چوروں ، ڈاکوؤں ، بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔
چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا، ان کو حقوق دینا شروع کردیے ، انکو معاشرے میں حیثیت متعارف کروائی ،حکم دیا جو خود کھاؤ ، غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔ پھر انکو مختلف بہانوں سے غلامی سے نکالنے کی کوششیں شروع کروائیں ، مثلا لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کو دہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ ی نیکی قرار دیا۔ مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ، جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کر کے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا وغیرہ وغیرہ ۔

غلاموں کی آزادی کے متعلق چند آیات و احادیث
أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ. وَلِسَاناً وَشَفَتَيْنِ. وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔ فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ۔ فَكُّ رَقَبَةٍ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ۔ يَتِيماً ذَا مَقْرَبَةٍ۔ أَوْ مِسْكِيناً ذَا مَتْرَبَةٍ۔ (90:11-15)
کیا ہم نے اس (انسان) کے لئے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور دونوں نمایاں راستے اسے نہیں دکھائے۔ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی ہے کیا؟ کسی گردن کو غلامی سے آزاد کروانا، یا فاقے میں مبتلا کسی قریبی یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا۔
وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ۔
اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کے برابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے ؟(النحل 16:71)
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ۔ (2:177)
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی اللہ، یوم آخرت، فرشتوں، آسمانی کتب، اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنے مال کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے خرچ کرے۔
وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْراً وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ۔ (النور 24:33)
تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں، ان سے مکاتبت کر لو اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ (التوبة 9:60)
یہ صدقات تو دراصل فقرا، مساکین اور سرکاری ملازموں (کی تنخواہوں) کے لئے ہیں، اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مقصود ہو۔ یہ غلام آزاد کرنے، قرض داروں کی مدد کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور مسافروں کی مدد کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
لا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ۔ (المائدة 5:89)
تم لوگ جو بغیر سوچے سمجھے قسمیں کھا لیتے ہو، ان پر تو اللہ تمہاری گرفت نہ کرے گا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو، ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ تم دس مساکین کو اوسط درجے کا وہ کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں لباس فراہم کرو یا پھر غلام آزاد کرو۔ جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔ (المجادلة 58:3)
جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں قرار دے بیٹھیں اور پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو ان کے لئے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔ اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنْ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيماً حَكِيماً۔ (النساء 4:92)
کسی مومن کو یہ بات روا نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کرے سوائے اس کے کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ تو جو شخص غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر بیٹھے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو قانون کے مطابق دیت ادا کرے، سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں۔

احادیث
ابو بردہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا، “تین قسم کے افراد کے لئے دوگنا اجر ہے : اہل کتاب میں سے کوئی شخص جو اپنے نبی پر ایمان لا یا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لا یا۔ ایسا غلام جو اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے مالکان کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ ایسا شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جس سے وہ ازدواجی تعلقات رکھتا ہو، وہ اسے بہترین اخلاقی تربیت دے، اسے اچھی تعلیم دلوائے، اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے بھی دوہرا اجر ہے۔(بخاری، کتاب العلم، حديث 97)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے خود اس کی مثال قائم فرمائی۔ آپ نے سیدہ صفیہ اور ریحانہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی لونڈی سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کی۔ آپ نے اپنی ایک لونڈی سلمی رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی ابو رافع رضی اللہ عنہ سے کی۔

ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا: “جو شخص بھی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہے ، اللہ تعالی اس (غلام) کے ہر ہر عضو کے بد لے (آزاد کرنے والے کے ) ہر ہر عضو کو جہنم سے آزاد کرے گا۔” سعید بن مرجانہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے ایک غلام کی طرف رخ کیا اور اسے آزاد کر دیا۔ اس غلام کی قیمت عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار لگا چکے تھے۔
(بخاری، کتاب العتق، حديث 2517)

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم سے پوچھا، کس غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے ؟” آپ نے فرمایا، “جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور اپنے آقاؤں کے لئے سب سے پسندیدہ ہو۔” میں نے عرض کیا، “اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟” آپ نے فرمایا، “تو پھر کسی کاریگر یا غیر ہنر مند فرد کی مدد کرو۔” میں نے عرض کیا، “اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں؟” آپ نے فرمایا، “لوگوں کو اپنی برائی سے بچاؤ۔ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم خود اپنے آپ پر کرو گے۔”(بخاری، کتاب العتق، حديث 2518)

ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: “جو شخص بھی مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے ، وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو (گناہوں سے) اچھی طرح سیر ہونے کے بعد (نیکی کی طرف) ہدایت پاتا ہے۔(سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4873)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کو غلاموں کی آزادی سے ذاتی طور پر دلچسپی تھی۔ اوپر بیان کردہ عمومی احکامات کے علاوہ آپ بہت سے مواقع پر خصوصی طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ بہت سی جنگوں جیسے غزوہ بد ر، بنو عبدالمصطلق اور حنین میں فتح کے بعد آپ نے جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے اور انہیں آزاد کروا کر ہی دم لیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف غلاموں کے بارے میں ان کے مالکوں سے انہیں آزاد کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔آپ خود بھی جب یہ محسوس فرماتے کہ آپ کا کوئی غلام آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے تو اسے آزاد فرما دیتے۔ یہ سلسلہ آپ کی پوری زندگی میں جاری رہا حتی کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے برادر نسبتی عمرو بن حارث جو ام المومنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے اپنی وفات کے وقت درہم، دینار، غلام، لونڈی اور کوئی چیز نہ چھوڑی تھی۔ ہاں ایک سفید خچر، کچھ اسلحہ (تلواریں وغیرہ) اور کچھ زمین چھوڑی تھی جسے آپ صدقہ کر گئے تھے۔(بخاری، کتاب الوصايا، حديث 2739)

آپ نے حکومتی سطح پر بھی بہت سے غلاموں کو خرید کر آزاد کرانے کی روایت ڈالی ، بعض مکاتبوں کو اپنی رقم کی ادائیگی کے لئے ان کی مدد کی گئی، اس کی ایک مثال سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں۔ بعد میں خلفاء راشدین کے دور میں بھی بیت المال سے غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کیا جاتا تھا۔ اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہوتا تو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو بیچ کر اس سے بھی غلام آزاد کئے جاتے۔
طارق بن مرقع نے ایک غلام کو اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ وہ فوت ہو گیا اور اس نے کچھ مال ترکے میں چھوڑا۔ یہ مال اس کے سابقہ مالک طارق کے پاس پیش کیا گیا۔ وہ کہنے لگے، “میں نے تو اسے محض اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا تھا، میں اس میں سے کچھ نہ لوں گا۔” یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجی گئی کہ طارق مال لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا، “اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے غلام خرید کر آزاد کرو۔” راوی کہتے ہیں کہ اس مال سے پندرہ غلام آزاد کئے گئے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المیراث، حدیث 32086)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا، “مکاتب کے مال میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے جب تک وہ مکمل آزاد نہ ہو جائے۔
”(دارقطنى، سنن، كتاب الزكوة)

سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، “میں ہلاک ہو گیا۔ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔” آپ نے فرمایا، “غلام آزاد کرو۔” وہ کہنے لگا، “میرے پاس کوئی غلام نہیں ہے۔” آپ نے فرمایا، “دو مہینے کے لگاتار روزے رکھو۔” وہ کہنے لگا، “مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے۔” آپ نے فرمایا، “پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔” وہ بولا، “میرے پاس یہ بھی تو نہیں ہے۔”
اسی اثنا میں آپ کے پاس کھجوروں کو ایک ٹوکرا لا یا گیا۔ آپ نے فرمایا، “وہ سائل کہاں ہے ؟” اسے ٹوکرا دے کر ارشاد فرمایا، “اسی کو صدقہ کر دو۔” وہ بولا، “مجھ سے زیادہ اور کون غریب ہو گا۔ اللہ کی قسم اس شہر کے دونوں کناروں کے درمیان میرے خاندان سے زیادہ غریب تو کوئی ہے نہیں۔” یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم ہنس پڑے اور آپ کے دانت ظاہر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا، “چلو تم ہی اسے لے جاؤ۔”
(بخاری، کتاب الادب، حديث 6087)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مسئلہ غلامی اور اسلامی اصلاحات

ابتدا میں ھی اگر ھم چند باتیں ذھن میں رکھ لیں تو آگے کی بات سمجھنا آسان ھو جائے گا !

1 – اسلام سے سلیبس کے اندر کا سوال کیا جائے آؤٹ آف سلیبس سوال بد دیانتی ھو گی !
2- اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ھے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رھی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ھڈی بنی ھوئی تھی !
3- جس طرح تیل کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ھیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ھرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ھیں !
4 – اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ھیں !

اصل سوال یہ بنتا ھے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟
اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ھو کر ختم ھو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا ؟؟؟

اسلام اگر آتے ھی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ھر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ھزاروں قاتل فراھم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ھوتا !
نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ھوئی نہیں تھی لہذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ھو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ھیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے،، جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ھیں،،وھاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ھی منڈلاتے رھتے ھیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ھے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ھیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !

اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،
مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا !
جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا،
بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،،
روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا،
اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،،
اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !
اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !
مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا !
نیز(مسلمانوں کے ہاں ) لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !
،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !
ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،،
جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !
جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !

جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !

جنگی قیدیوں کے متعلق حکمت عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،
اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !

البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کو reborn کرنا چاھتا ھے !

لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث سے اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔
اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں !
یہ تو ایک لونڈی کا آزاد ھوتے ھی پہلا حق تھا کہ نکاح اپنی مرضی سے کرے اس کے سارے اختیارات اور آپشنز آزاد ھو گئے تھے،، ھم لوگ جو اپنی بیٹی کی پسند اور ناپسند پوچھنا اپنی چودھراھٹ کی توھین سمجھتے ھیں اور بیٹی کا اپنی پسند بتانا ایک گستاخی سمجھتے ھیں،، کیا ھم نے آزاد پیدا ھونے والی کو ایک آزاد کردہ لونڈی کا حق دینا بھی پسند نہیں کیا ! ھمارا سارا زور استخارے اور پھر استخارے اور پھر استخارے پر ھوتا ھے،، دوسروں کی زندگی کے فیصلے دوسروں سے مشورہ کر کے ھوتے ھیں،، ذاتی معاملات پر استخارہ فرما لیجئے،،ویسے بھی آج کل ایک مثال بن گئ ھے کہ” جب عرب کہے کہ ان شاء اللہ تو اس کا مطلب ھوتا ھے کہ اللہ پکڑ کر ہی کرائے تو کرائے ویسے میں نے نہیں کرنا،، اور جب جماعت والے کہیں کہ مشورے میں رکھیں گے تو سمجھ لیں یہ کام نہیں ھونا اور جب لڑکی دیکھنے والی کہے کہ استخارہ کریں گے تو بے شک سمجھ لیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا !

انسانوں کو غلام بنانا اور غلاموں کی تجارت:
یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر بات کرتے ہوئے ہم مسلمان بالعموم ”مدافعانہ“ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جا بجا غلام اور لونڈی کا تذکرہ ملتا ہے اور یہ کہیں نہیں ملتا کہ اسلام اب غلام اور لونڈی کو ”اون“ نہیں کرتا یا اب مسلمان لونڈی اور غلام نہیں رکھ سکتے جیسا کہ جدید تہذیب نے غلام اور لونڈی کو ”ڈس اون“ کرتے ہوئے اس کا ”خاتمہ“ کردیا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ ”غلط فہمی“ دور ہوجانی چاہئے کہ آج کے نام نہاد جدید تہذیب یافتہ دنیا میں غلام اور لونڈی کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی اس جنس کی تجارت نہیں ہوتی۔ مسلم دنیا سمیت پوری دنیا میں آج بھی مرد و زن کو اغوا کرکے، انہیں بہلا پھسلا کر، انہیں اپنے مالی شکنجہ میں کس کر ”غلام اور لونڈی“ بنایا جاتا ہے، انہیں آگے فروخت کیا جاتا ہے، ان سے عصمت فروشی کرائی جاتی ہے اور عصمت فروشی کے یہ کاروبار ساری دنیا میں ”لیگل“ حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے منتظمین اپنی اپنی ریاستوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں ریاستی سیکیوریٹی فورسز سے اپنا اور اپنے کاروبار کو تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی سر پھرا صحافی لڑکیوں اور عورتوں کے ان تاجروں کے کاروبار کی اپ ڈیٹس میڈیا میں چلا دیتا ہے بعد ازاں یہی میڈیا مالکان، حکومتی ادارے ایسی خبروں کو ”کِل“ کروادیتے ہیں اور پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ اور ہم جیسے نادان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا سے غلامی اور لونڈیوں کا ”خاتمہ“ ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمارا بھی یہ ”فرض“ بنتا ہے کہ ہم اسلام سے اس جنس کے ”خاتمے“ کا اعلان کردیں کہ پہلے بھی اسلام نے اس کا آغاز نہیں بلکہ اس کو ”کٹ ڈاؤن“ کیا تھا۔ اور اب تو اسلامی تعلیمات میں اس کے ”جاری“ رہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارا دین دنیا کی تہذیب سے بھی زیادہ مہذب ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کبھی بھی غلام اور لونڈیوں کے ”خاتمہ“ کا اعلان نہیں کیا۔ اور قرآن و حدیث میں لونڈی اور غلام سے متعلق تمام احکامات آج بھی اسی طرح ”نافذ العمل“ ہیں، جیسے اسلام کے ابتدائی صدیوں میں نافذ تھے ۔ اگر کسی کو اس بات سے ”اختلاف“ ہو تو قرآن یا صحیح احادیث سے (علماء کے اقوال سے نہیں) یہ بتلادے کہ قرآن و احادیث میں موجود لونڈی اور غلام سے متعلق جملہ اسلامی احکامات ”نافذالعمل“ نہیں رہے یا بتدریج ختم کردئے گئے ہیں جیسا کہ شراب کے معاملہ میں ہوا کہ پہلے اسے بُرا قرار دیا گیا، پھر صرف دوران نماز پینے پر پابندی لگائی گئی اور آخر میں کلیتاً شراب پینے کو حرام قرار دیا گیا۔

اسلام جس چیز سے روکتا اور منع کرتا ہے وہ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا اور اسے آگے فروخت کرنا ہے۔ یہ طرز عمل روز اول سے مسلمانوں کے لئے ”جائز“ نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔ لیکن اسلام کا یہ حکم غیر مسلموں کو نہ تو پہلے ایسا کرنے سے روکتا تھا اور نہ آج روکتا ہے۔ بلکہ اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتیجہ میں انسانوں کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت میں تو آج (نام نہاد سہی) کے مسلمان بھی غیر مسلم سے پیچھے نہیں ہیں۔ جبھی تو ”مال“ کی سپلائی میں کمی کے سبب کبھی بھی مسلم دنیا (بشمول پاکستان اور بہ استثنیٰ سعودی عرب) کے بازار حسن کا کاروبار کبھی ماند نہیں پڑا۔

آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں مرد و زن پکڑ کر ”غلام اور لونڈی“ بنائے جاتے ہیں۔ بس ان کے نام بدل دئے گئے ہیں۔ ان غلام مرد و زن سے جبری مزدوری بھی کرائی جاتی ہے اور عصمت فروشی بھی۔ اور بالعموم مسلمان یہ دونوں کام کرتے ہیں۔ اسلام ایک ”دین فطرت“ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس دنیا میں شیطان اور اس کے چیلے تا قیامت آزاد مرد و زن کو غلام بنا کر ان سے ”غیر انسانی“ کام کرواتے رہیں گے۔ غلام اور لونڈی تا قیامت دنیا میں موجود رہیں گے اور ان کے آقا ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے رہیں گے۔

چنانچہ اسلام نے ”لونڈی اور غلام“ کے لئے تا قیامت ایک ایسا ”نظام“ پیش کیا ہے جس میں لونڈی اور غلام بنائے جانے والے بھی اپنی زندگی ”معیار انسانی“ سے گرے بغیر گزار سکیں۔ بازار حسن کی ایک لونڈی آج بھی ایک مسلم آقا کے حرم میں بخوشی رہنا پسند کرے گی، اگر اسے یہ ”آپشن“ دیا جائے، خواہ وہ مسلمہ ہو یا غیر مسلمہ ۔ اسی طرح ”بیگار کیمپوں“ میں قید مرد غلام بھی ایک مسلم آقا کے گھر میں غلام بن کر رہنا پسند کرے گا۔ کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ اسلام میں غلام کے جو حقوق موجود ہیں وہ کسی بیگار کیمپ یا بازار حسن میں پھنسے مرد و زن کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح اگر آج کوئی مسلمان بیگار کیمپ یا بازار حسن سے لونڈی اور غلاموں کو خرید کر اپنے گھر یا حرم میں لے آتا ہے تو وہ اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی کئے بغیر ان مظلوموں پر احسان عظیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام کے ”نام نہاد ٹھیکیداروں“ کا کیا کیجئے کہ وہ غیر مسلم تہذیب سے اتنے ”مرعوب اور متاثر“ ہیں کہ لونڈی اور غلامی کے ”اسلامی احکامات“ ہی کو ”اپنے خود ساختہ اختیارات“ سے ”کالعدم“ قرار دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجکتے۔

قاری حنیف ڈار
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اسلام اور لونڈی غلام-اخلاقی جواز کی بحث

اس موضوع پر چار بنیادی سوالات ایک عام آدمی کے ذہن میں ہوسکتے ہیں
۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی کا کیا اخلاقی جواز تھا۔؟
۲۔ لونڈی سے مباشرت کا کیا اخلاقی جواز ہے۔؟
۳۔ آج کے دور میں غلامی کا کیا جواز ہے۔؟
۴۔ اسلام نے غلامی کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جبکہ امریکہ نے کیا۔؟

۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی کا اخلاقی جواز
۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی تھی اور غلام پائے جاتے تھے۔ اسلام نے اس کو شروع نہیں کیا۔ لیکن اسلام نے اس پر اس اعتبار سے پابندی لگادی کے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکے۔تو یہاں پر اگر کسی قسم کا اعتراض ہو تو صرف اس اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو کیوں غلام بنایا جائے۔؟
اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کہیں پر جنگ ہو اور اسلام کے اعتبار سے وہ جنگ جائز ہو تو قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔؟
اس بارے میں مندرجہ ذیل امکانات ہیں۔

  1. قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ اسلام میں یہ منع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ خاص قیدیوں کو کسی مصلحت کی وجہ سے قتل کیا جائے۔ لیکن عمومی اعتبار سے قیدیوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
  2. قیدیوں کو فدیہ دے کر رہا کردیا جائے۔ یہ کرنا جائز ہے۔ اگر اس بات کو خدشہ ہو کہ یہ قیدی رہا ہو کر پھر دوبارہ جمع ہوکر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے تو پھر یہ ایک غلط حکمت علمی ہوگی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے گی۔
  3. انہیں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے اور ایک طرح سے دوسری کیٹگری کی ہی توسیع ہے۔
  4. انہیں احسان کر یوں ہی رہا کردیا جائے، یا تو ذمی بنا کر مسلم معاشرے کا ایک فرد بنادیا جائے یا اپنے علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے۔ یہاں پر وہی خدشہ ہے کہ جو کہ میں نے کیٹگری “ب” میں بیان کیا۔ اس صورت میں ایک اور خدشہ یہ تھا کہ اگر کفار کو یہ معلوم ہوجائے کہ مسلمان جنگی قیدیوں کو یوں ہی رہا کرتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے معاملے اور زیادہ جری اور بے خوف ہوجاتے۔ یہ مسلمانوں کو اور زیادہ خطرے میں ڈالنے والی بات ہوجاتی۔
  5. انہیں غلام بناکر اسلامی معاشرے کے تیسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔ غلاموں کو انفرادی ملکیت میں دے کر ان کے مالک کو اختیار دیا جائے کہ مکاتبہ کر کے یا احسان کر کے انہیں رہا کردیا جائے۔ یا پھر مالک کو یہ بھی اختیار ہو کہ انہیں غلام ہی بنا کر رکھے یا دوسروں کو بیچ دے۔ اس سے ان کی آزادی چھین لی جاتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے دب کر یہ اسلامی معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
  6. انہیں ساری عمر قیدی بنا کر رکھا جائے۔ اس طرح انسانوں کی ایک بڑی تعداد بے کار اور ان پروڈکٹیو ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ مسلم معاشرے پر ایک معاشی بوجھ بن جاتے۔ ایک انسان کو پورے معاشرے سے کاٹنا ایک غیر انسانی سلوک ہے۔
قرآنی احکامات کے مطابق پہلا اور آخری آپشن اختیار نہیں کیا جاسکتا یعنی عمومی طور پر قتل کرنا یا عمر قید کرنا جائز نہیں ہے۔(جبکہ باقی اقوام میں یہی دو آپشن اختیار کیے جاتے رہے اور کیے جاتے ہیں ) اسلامی شوری کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ باقی امکانات میں جو بھی ممکنہ صورت ہو اسے اختیار کرے۔
اس پوری صورت حال میں ایک بات ذہن میں رکھنی ہے کہ اوپر مذکورہ لوگ وہ مجرم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی اور اگر وہ جیت جاتے تو اس بات کو پورا امکان تھا کہ مسلمان قیدیوں کو قتل کرتے یا انہیں غلام بناتے۔
مسلمانوں کی شوری ان تمام امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ 2 ،3، 4 ، 5 میں جو بھی چاہے صورت اختیار کرسکتی ہے۔
اب ان مذکورہ امکانات کو دیکھ کر کوئی ہمیں بتائے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا کیوں غلط ہے۔
ویسے اس میں ایک انتہائی حیرت انگیز چیز بھی ہے۔ جن لوگوں کو غلامی پر اعتراض ہے ان لوگوں کو عمر قید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گویا کہ ان کو لگتا کہ کسی کو چار بائی چار کے کمرے میں پوری زندگی پابندرکھنا غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے۔ ہے نا حیرت کی بات؟؟ حالانکہ ایک اسلامی معاشرہ ایک غلام کو باقاعدہ فیملی لائف گزارنے کا ماحول فراہم کرتا ہے۔
ایک صاحب نے یہ سوال پوچھا تھا کہ “جو چیز ایک انسان اپنے لئے گوارا نهیں کرتا اسے کسی دوسرے انسان کے لئے کیسے گوارا کرے ؟” عرض ہے کہ جناب آپ خود بتائیں کہ اگر میں خدا نہ خواستہ جنگی قیدی بن گیا تو کیا کوئی یہ پوچھے گا کہ میں کس چیز کو گوارا کرتا ہوں؟؟ جب ایک بندہ جنگ میں حصہ لے ہی رہا ہے تو اسے پتہ ہے کیا کیا نتائج بھگتنے کے امکانات ہے اور وہ جان کر ہی اس جنگ میں حصہ لے رہا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں میرا گورار کرنا اور نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

۲۔ لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔
میں اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔

  1. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ قرون اولی کے دور میں
  2. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ موجودہ دور میں
فی الحال قرون اولی والی بحث کرتا ہوں۔ موجودہ دور سے متعلق بحث تیسرے نکتے آج کے دور میں غلامی کا کیا جواز ہے’پر بحث کرنے کے بعد کروں گا۔
یہ معاملہ تھوڑا بہت حساس ہے یا موجودہ دور کے ذہن کی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ یہ حساس بن گیا ہے ورنہ پہلے یہ سرے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔چونکہ معاملہ جنسی ملاپ سے متعلق ہے اس لئے کچھ باتیں کھل کر کرنی ضروری ہے اور نہ کرنے کی صورت میں بہت ساروں کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات تشنہ رہ جائیں گے۔
صحیح تجزیہ کرنے کے لئے پہلے اس نکتہ پر بحث کرتے ہیں کہ مختلف تہذیبوں میں عورت اور مرد کے جنسی ملاپ کے کیا کیا اخلاقی جوازات رہے ہیں اور لونڈی سے جنسی ملاپ ان اخلاقی جوازات کے تناظر میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔؟جنسی ملاپ کے ویسے تو بہت سارے شرائط یا جوازات ہوسکتے ہیں، لیکن دو چیزیں بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۱۔ شادی یا نکاح۔
۲۔ آپسی رضامندی

۱۔ شادی:

معاشرتی، قانونی اور مذہبی منظوری کے لئے جو لفظ عام طور مشہور ہے وہ نکاح یا شادی ہے۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کرتے ہیں تو گویا کہ وہ پورے معاشرے میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں اور ان کے جنسی ملاپ کے حق کو پورا معاشرہ، میاں بیوی کے رشتہ دار، حکومت اور مذہب تسلیم کرتا ہے۔ اور عورت کا جو بچہ ہوگا اس کے بارے میں تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اس کے میاں کا بچہ ہے اور اس بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے میاں کی ہوگی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس پر تقریباً دنیا کی تمام تہذیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ یعنی یہ اتفاق پہلے پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب نے اس کے معنی مکمل طور پر بدل دئے ہیں۔
آج کے مغرب میں جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی اور مذہبی منظوری ضروری نہیں ہے۔ اور قانون کی طرف سے سرے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ مغرب میں شادی کے بغیر بھی جنسی ملاپ کو جائز سمجھا جاتا ہے، شادی کا مطلب وہاں پر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص شادی کرلے وہ صرف اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے، اسے کسی اور کے ساتھ جنسی ملاپ کی اجازت نہیں ہے۔ اور شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے جس سے چاہے جنسی ملاپ کی آزادی ہوتی ہے۔
پرانی تہذیبوں میں، آج کے مشرق میں اور خاص طور پر اسلام کے معاملے میں معاملہ الٹا ہے۔ یہاں پر جنسی ملاپ بغیر شادی کے جائز ہی نہیں ہے۔ شادی کے بعد اسے جنسی ملاپ کا لائسنس مل سکتا ہے لیکن صرف اس کے ساتھ جس سے نکاح ہوا ہے۔
اس اعتبار سے شادی کا مطلب ہی مغرب اور اسلام میں الگ ہے۔
اسلام میں شادی کے ذریعے ایک پابندی ہٹا کر جنسی ملاپ کی آزادی دی جاتی ہے۔ اور یہ آزادی صرف ان کے درمیان ہوگی جو آپس میں شادی شدہ ہیں۔ یعنی مکمل پابندی سے ایک یا زیادہ سے زیادہ چار کی پابندی لاگو ہوتی ہے۔
مغرب میں شادی سے پہلے ہر قسم کی جنسی آزادی ہوتی ہے، لیکن شادی کے ذریعے اس کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سے جنسی ملاپ قائم کرے۔ یعنی لامحدود سے ایک کی پابندی ڈالی جاتی ہے۔
میں نے شادی کے بارے میں جو تشریح کی تھی اس میں بنیادی طور پر تین اداروں کا ذکر کیا تھا۔ معاشرہ، حکومت اور مذہب۔ عام طور پر یہ شادی کے بارے میں یہ تینوں ادارے ہم آہنگی کے ساتھ کا کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ان کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑکی کی شادی کی عمر پر یہ تینوں ادارے متفق نہیں ہوتے۔ کزن میریج ان تینوں ادارے خاص طور پر مذہب اور حکومت متفق نہیں ہوتے۔ بھارت میں ایک کونسپٹ ہوتا ہے جسے گوتر کہتے ہیں جو کہ وہاں پر خاندانوں کی تقسیم کا ایک نظام ہے۔ بھارتی قانون ایک ہی گوتر کے لڑکا لڑکی کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔

ایک دین کو ماننے والے فرد یا معاشرے کے لئے خدا کا حکم اور اس کی اجازت فائنل آتھارٹی ہوتی ہے۔ یعنی، معاشرہ جو چاہے کرے یا حکومت جیسا چاہے زبردستی قانون نافذ کرے، بہرحال اگر یہ شادی خدا کے حکم کے مطابق ہے تو پھر جنسی تعلق کا اخلاقی جواز موجود ہے ورنہ نہیں۔ ہاں خواہ مخواہ کے تنازعوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی قانون اسلام کے مطابق بنایا جائے تاکہ اسلام پر بھی عمل ہو اور قانون کی بھی مخالفت نہ ہو۔
اب لونڈی سے مباشرت کا معاملہ لیں۔ جب اسلام لونڈی اور آقا کے درمیان جنسی ملاپ کی منظوری دے رہا ہے اور جب اس پر قرآن واضح ہے۔ تو پھر اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ جس طرح میاں بیوی کے درمیان جنسی ملاپ کا اخلاقی جواز موجود ہے بالکل ہی اسی طرح لونڈی اور آقا کے درمیان اخلاقی جواز موجود ہے۔
تاریخی اعتبار سے تو حکومت اور معاشرہ بھی اس کو منظور کر رہا تھا اور مذہب تو کر ہی رہا ہے۔ اس لئے اس پر اعتراض کی بنیاد پوری طرح سے ڈہ جاتی ہے۔
۲۔ آپسی رضامندی
اب رہ جاتا ہے رضامندی والا اعتراض۔ مغربی معاشرے میں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے میں رضامندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس رضامندی کے نظریے کو مغرب میں کونسٹ (Consent) کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر واضح ہوگیا پرانی تہذیبوں میں اور آج کی مشرقی تہذیبوں میں اور خصوصاً اسلام میں جنسی ملاپ کے اخلاقی جواز کے لئے نکاح یا شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن آج کے مغربی معاشرے یا جن علاقوں میں مغربی تہذیب کو پوری طرح قبول کیا گیا ہے وہاں پر جنسی ملاپ کے جواز کے لئے شادی کے بجائے کونسنٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں شادی کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لونڈی سے جنسی ملاپ کو اس فرق کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کو اپنی اصول کے لئے ایک مغرب کے عقیدے کو کیوں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے؟
اس معاملے ایک اور بنیادی سوال ذہن میں آتا ہے۔ نکاح کے معاملے میں باقاعدہ ایجاب و قبول ہوتا ہے۔ لیکن لونڈی بنانے کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ لونڈی کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے۔
ایک عورت دو طرح سے لونڈی بن سکتی ہے۔
۱۔ ایک یہ کہ وہ باقاعدہ جنگ میں حصہ لے رہی ہو اور جنگ کے دوران مسلمانوں کی قیدی بن گئی۔ جب وہ جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو اسے پتہ تھا کہ اگر وہ قید ہوگی تو لونڈی بنائے جانے کا پورا امکان ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمان عورتوں کو قید کیا گیا تو اس بات کی بہت کچھ گنجائش ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی لونڈی بنایا جائے۔ وہ جب جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو وہ اس پوری انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ میں فوج کا حصہ بنی۔ اگر اس کو پکڑے جانے کی صورت میں لونڈی نہیں بننا تھا تو اس کے پاس پورا آپشن موجود تھا کہ وہ لونڈی نہ بنے یعنی جنگ میں حصہ نہ لے۔ جب لونڈی بننے کے ایک پورے پراسس کا حصہ خود اپنی مرضی سے بن چکی ہے تو پھر یہ کہنا ہے کہ اس کی مرضی نہیں تھی کا کیا مطلب ہے؟
2 ۔دوسری صورت یہ ہے کہ جنگ میں پورا قبیلہ ملوث تھا اور جنگ کے نتیجے میں پورا قبیلہ بکھر گیا اور عورتوں اور بچوں کا نگران کوئی نہیں رہا۔ اُس دور میں ایسی صورت حال میں عورت کا پاس کوئی چوائس ہوتی ہی نہ تھی۔ اگر ان عورتوں کو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ انہں کوئی اور قبیلہ غلام اور لونڈی بنالیتا یا پھر بصورت مجبوری وہ عورتیں خود طوائف بن کر زندگی گزار لیتی۔ اور پھر جب وہ خود لونڈی بن گئی اور انہیں پتہ ہے کہ ملکیت میں آنے کے بعد ان کا کوئی اختیار نہیں ہے تو جس معشرتی جبر میں وہ رہتی ہے وہاں پر کونسٹ خود سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
جنسی معاملے میں کونسنٹ کی پوری حقیقت کو سمجھنے کے لئے میں یہاں پر کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ لونڈی کے معاملے میں کونسنٹ ایک غیر اہم مسئلہ ہے۔
ا۔ مغربی یا مشرقی معاشرے میں ایک عورت اپنی معاشی ضرورت پوری کرنے کے لئے طوائف کا پیشہ اختیار کرتی ہے۔ اس نے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے طوائف کے پیشے کو اختیار کیا۔ وہ ہر روز ایک نئے مرد کے ساتھ سوتی ہے اور اس کا مقصد جنسی لذت حاصل کرنا نہیں بلکہ مرد کو خوش کر کے پیسے کمانا ہوتا ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ب۔ ایک جوان عورت زیادہ عمر والے مالدار مرد سے شادی کرتی ہے۔ مقصد اس مرد کے پیسے سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ اس عورت کو اس مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اس مرد کی جنسی خواہش پوری نہ کرنے کی صورت میں جو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے پیش نظر وہ مجبوری میں اس کے ہر جنسی مطالبہ کو پوری کرتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ج۔ مشرقی معاشرے میں کچھ خاص حالات کی وجہ سے ایک ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ شادی ہوچکی ہے اور طلاق کی صورت میں کئی قسم کی سماجی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے اس لئے وہ لڑکی اپنے ناپسندیدہ شوہر کے جنسی مطالبات کو مجبوری میں تسلیم کر لیتی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
د۔ ایک مغربی معاشرے میں لڑکا لڑکی کی دوستی ہوجاتی ہے جس کو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کہا جاتا ہے۔ لڑکی صرف دوستی رکھنا چاہتی ہے اور ابھی جنسی تعلق کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ لیکن لڑکا جنسی تعلق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انکار کی صورت میں بریک اپ یعنی دوستی ٹوٹنے کا پورا امکان ہے۔ نتیجتا لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ہ۔ ایک بیوی ہے جو کہ اپنے شوہر سے محبت بھی کرتی ہے اور اس کی خواہشات کا احترام کرتی ہے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا پسند بھی کرتی ہے۔ لیکن مرد کی جنسی طلب عورت سے زیادہ ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد جنسی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے لیکن عورت کا “موڈ” نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود عورت صرف اپنے شوہر کی خاطر اس کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
و۔ ایک مسلمان دین دار عورت اپنے شوہر کے جنسی مطالبے کو صرف اس وجہ سے تسلیم کرتی ہے کیوں کہ بلاوجہ شوہر کو انکار کرنے کی صورت میں فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔ کیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے؟
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ کونسنٹ کتنی غیر حقیقی اور غیر متعین شئے ہے۔ میں نے ہر سوال کے آخر میں ایک سوال پوچھا ہے کہ آیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ اگر ان مثالوں میں کونسنٹ پایا جاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ معاشی ضرورت، سماجی مجبوری، نفسیادی دباؤ اور مذہبی اصول ایک عورت کے اندر خود سے کونسنٹ پیدا کرتے ہے۔ کونسنٹ فی نفسہ اندر سے پیدا ہونا والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کا بیرون ہے جو کونسنٹ پیدا کرتا ہے۔ جب ایک عورت لونڈی بنتی ہے اور جب اس کو خود معاشرتی اور سیاسی حالات کا پتہ ہوتا ہے تو اس کے حالات خود اس کے اندر کونسنٹ پیدا کر لیتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب غلط ہے اور یہاں پر پونسنٹ نہیں پایا جاتا تو مغرب کے اصول کے مطابق، پہلی، دوسری اور چوتھی صورت مغرب میں بالکل جائز اور عام ہے۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ مغرب میں بھی کونسنٹ ایک غیر ضروری چیز ہے۔
اب ذرا صورت حال دیکھیں۔ ایک عورت ہے جو کہ کسی صورت حال کی وجہ سے لونڈی بن گئی۔ اسے پتہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر آقا کا اپنی لونڈی سے مباشرت کرنا قابل قبول ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مزاحمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ(مسلم معاشرے میں ) آقا کا اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی صورت میں وہ اپنے آقا کی بیوی کا شیر حاصل کر رہی ہے اور بچہ ہونے کی صورت میں اسے بیچا نہیں جاسکتا۔
اور ذرا سیاسی پس منظر بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس عورت کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس ماحول میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا قابل قبول ہے اور اگر اس کی اپنی سائڈ والے جییتے تو اس کا اپنا شوہر بھی ایک ادھ لونڈی گھر لے آتا۔
اس پورے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر کونسنٹ کا مسئلہ پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟ کیا ایسا ہوتا ہے کہ لونڈی سے جنسی ملاپ کرتے ہوئے مرد اس کا ہاتھ پاؤ باندھتا ہے یا دو چار ہٹے کٹے مردوں کو اندر لے کر جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں کو مضبوطی سے پکڑے رکھے؟ ایسا قطعی نہیں ہے۔ حالات اور معاشرہ اس کے اندر خود سے کونسنٹ پیدا کرتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح اوپر کی مثالوں میں یہ کونسنٹ پیدا ہوجاتا ہے۔

۳۔ آج کے دور میں غلامی جواز کیا ہے؟
اصولی طور پر قانون تو ایک ہی ہے چاہے وہ پہلے والا دور ہو یا آج کا دور۔ لیکن علمی صورت حال اس سے مختلف ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہو کہ لونڈی یا غلام بنانا دین کا کوئی باقاعدہ حکم نہیں ہے۔(جنگ کے بعد اگر لوگ قید ہوکر آئیں تو) مسلمان حکمرانوں کو باہم مشورے سے اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اس چیز کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوتی جب کسی خاص موقعے پر قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا ضروری ہوجاتا ہے تو پھر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا کہ اس بات کا فیصلہ حکمران قوتیں پہلے بھی مسلمانوں کے مجموعی فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کرتی تھیں۔ اگر آج کے دور میں کسی جنگ میں کافر قیدی ہاتھ آئیں تو بھی بہت زیادہ امکان یہی ہے کہ مسلمان حکمران ان کو غلام نہیں بنائیں گے خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ مسلمان قیدیوں کو غلام بنائے جانے کا امکان نہ ہو۔۔!
اقوام متحدہ کا ایک قانون ہے جسے جنیوا کنونشن کہتے ہیں۔ یہ فوجی قیدیوں، شہری قیدیوں اور جنگی زخمیوں کے ساتھ سلوک کرنے کے کچھ اصول ہیں جن کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔ یہ گویا کہ تمام ممبر ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ جب ایک مسلم ملک اس معاہدے پر دستخظ کرچکا ہے اور جب اس معاہدے کی بنا پر اس کے قیدیوں کو بھی فائدہ ہورہا ہے تو ایسے میں اس کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے۔ اس لئے اُس ملک کے لئے عملاً یہ ناجائز ہوگا کہ وہ قیدیوں کو غلام بنائے اگرچیکہ اسلام کا قانون اپنی جگہ پر جوں کا توں رہے گا۔
ایسی جنگ جس میں باقاعدہ کسی ملک کی فوجیں شرکت نہیں کرتی بلکہ غیر منظم فوجیں ہوں جنہیں آج کل دہشت گرد کہا جاتا ہے تو ان پر جنیو کنونشن لاگو نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ فوجیں جن پر جنیوا کنونشن لاگو نہیں ہوتا اگر وہ کسی دشمن ملک کے جنگی قیدیوں کو غلام بنالیں تو اس میں کوئی اخلاقی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ عملاً تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا مہذب ترین ملک جنہیں دہشت قرار دیتا ہے اس کے لئے وہ کسی بھی قانون و ضابطے کو نہیں مانتا۔
اس بارے میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ہوگا۔ جب جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنایا جاتا ہے تو مسلم معاشرہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ آج کے مسلم معاشرے اس ابلاغی دور میں غلام اور لونڈیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

کہیں ایسا تو نہیں اس سے بہت سارے خاندانی مسائل پیدا ہوجائیں؟

اگر مسلم حکمران اس قسم کا کوئی خدشہ محسوس کریں تو انہیں غلام بنانے سے احتراز کرنے کا پورا حق ہے۔
ان باتوں سے تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ قانونی اجازت ہونے کے باوجود اس پر عمل فی الحال معطل رہے گا اور اس قانون کو معطل رکھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے کل کو عالمی حالات ایسے پلٹ جائیں کہ مسلم حکمران محسوس کریں کہ قیدیوں کو غلام بنانا ہی اس وقت مناسب ترین آپشن ہے تو اس پر عمل بھی ہوسکتا ہے۔
یہیں سے اس سوال کا بھی جواب ملتا ہے کہ آج کے دور میں لونڈی سے مباشرت کی کیا گنجائش ہے۔ غلام اور لونڈی کا رکھنا کوئی دین کا باقاعدہ حکم نہیں ہے۔ بلکہ ایک اجازت ہے جس پر جبھی عمل ہوسکتا ہے جب اس دور کی سیاست اور معاشرت اس عمل سے مناسبت رکھتی ہو۔ اور اگر کبھی ایسا دور آیا کہ جب غلام رکھنے کا عمل اس دور کی سیاست اور معاشرت سے مناسبت رکھے تو پھر یہ ماحول اس لونڈی کے اندر بھی کونسنٹ پیدا کردیتا ہے۔

۴۔ اسلام نے غلامی کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جبکہ امریکہ نے کیا۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے اس غلامی کو ختم کردیا تھا جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا تھا اور صرف اس غلامی کے جواز کو باقی رکھا تھا جس کا اخلاقی جواز بنتا تھا جیسا کہ پہلے پؤائنٹ میں لکھا جاچکا ہے۔ امریکہ میں جو غلام تھے ان کی غلامی کا سرے سے کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھا اور اس بارے میں امریکہ یا پورا مغرب اپنی بنائی ہوئی غلامی کے جواز دینے کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔ افریقیوں پر حملہ صرف غلام بنانے کی نیت سے ہی ہوتا تھا اور ان کو جانوروں کی طرح پکڑ کر پنجرے میں ڈال کر جہازوں میں بٹھا کر باقاعدہ غلامی کے لئے ہی لے جایا جاتا تھا۔
اسلام میں غلاموں کو آزاد کرنے کا باقاعدہ نظام تھا جو کہ علمی طور پر نافذ تھا جس کی وجہ سے بنے ہوئے غلام جو کہ مسلم معاشرے میں جذب ہوچکے ہوتے تھے آزاد ہوتے رہتے تھے۔ مغرب میں ایسا کوئی نظام تھا نہیں۔
اگر اسلام نے تمام غلاموں کو بیک وقت آزاد کرنے کا حکم دیا ہوتا تو بہت سارے معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا ہوجاتے۔ امریکہ میں جب یک قلم غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم نافذ ہوا تو آج تک اس کا جھٹکا امریکہ میں محسوس ہو رہا ہے۔ اس یکدم سے آزاد کرنے کے عمل کی وجہ سے آج بھی امریکہ کی جیلیں کالوں سے بھری ہوئی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے بعد معاشرے کے لئے آسان نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی آزاد انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے کوئی انتظام کر سکے۔ اس کی وجہ سے آج بھی امریکہ میں کالے زیادہ غریب اور زیادہ مجرم ہیں۔ مسلمانوں میں جو غلاموں کو آزاد کرنے کا نظام بنا اس کی وجہ سے ایک نسل کے بعد غلام اور آزاد کا فرق ہی مٹ گیا۔
الغرض امریکہ کا غلاموں کو آزاد کرنا مکمل طور پر ایک دوسرا ہی پہلو رکھتا ہے جو کہ ان کے تاریخی مجرمانہ کردار کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔ اسلام نے غلامی کی جو اجازت باقی رکھی اس کے لئے اسلام کے پاس اخلاقی جواز موجود ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق چند بڑے اعتراضات کے جوابات

قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی، دوسرے آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب دنیا بھر کا معاشرہ ان تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی و معاشرتی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا حل کیا ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر سے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدرجہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہوسکا اور سیاہ فام لوگوں (Negroes) کی ذلت کا مسئلہ بہرحال باقی رہ گیا۔ اس احمقانہ طریقِ اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فَکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب، مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعے سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں۔ اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 63 غلام آزاد کیے۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس ؓ نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن حزامؓ نے 100، عبداللہ بن عمرؓ نے ایک ہزار، ذوالکلاع حمیریؓ نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے۔

اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا (بخاری)۔ البتہ جنگی قیدیوں سے متعلق اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کر لیا جائے لیکن اگر یونہی رہا کر دینا جنگی مصالح کے خلاف ہو اور فدیہ وصول نہ ہوسکے اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضا مند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بنا کر رکھیں۔

البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک اور رحمت و رأفت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، ان کی تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائٹی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئ ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائ کے لیے پیدا کی گئ ہیں۔ ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت (معاہدہ) کر کے رہائ حاصل کر لیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے بارے میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے یا کوئ شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہی وہ آزاد ہو جائے گا (جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں) یا کوئ شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے اس صورت میں مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے۔ معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر اس امر واقع کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا۔

غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق چند سوالات
سوال

“اکثر علماء لونڈیوں سے بلا نکاح تمتع کے جواز میں

’إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون ۶)

سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔‘

پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا جواب کیا ہے؟

  1. لونڈیوں سے بلا نکاح تمتع محض شہوت رانی ہے اور اسلام اس کے خلاف ہے۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (النساء ۲۴)

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

  1. اگر ملکیت کی بناء پر مالک کو حقِ وطی حاصل ہو جاتا ہے تو ایک غلام کی مالکہ جو غیر شادی شدہ ہو اس کو بھی اپنے غلام سے استفادہ کا موقع حاصل ہونا چاہیے۔ مخلوط نسل کی پیدائش کو روکنے کے لیے وہ مانعات حمل استعمال کرسکتی ہے۔
  2. غیر مسلم محارب قومیں اگر گرفتار شدہ مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں تو عقلاً اس کے خلاف مسلمانوں کو احتجاج کا کیا حق ہے؟
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور بے لوث زندگی بالخصوص عالمِ شباب میں خانگی زندگی بہترین مثال ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے کہ آخری عمر میں جب کہ متعدد ازواج مطہرات موجود تھیں آپ نے بھی لونڈیوں سے تمتع کیا؟
  4. اگر ملکیت سے حق وطی حاصل ہوتا ہے تو
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النساء ۲۵)

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔

کی صورت میں جب لونڈی کا نکاح کسی شخص سے کر دیا جائے تو کیا اس لونڈی پر دو اشخاص کو مباشرت کا حق ہو گا؟ ایک خاوند کو بلحاظ نکاح اور دوسرے مالک کو بلحاظ ملکیت۔ اگر نہیں تو کیوں؟“

جواب
ان سوالات کے جوابات میں پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ حق ملکیت کی بنا پر تمتع کی اجازت قرآن مجید کی متعدد آیات میں صریح طور پر وارد ہوئ ہے۔ بہت سے لوگ اس معاملہ میں بڑی بے باکی کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے اعتراضات کر ڈالتے ہیں کہ یہ شاید محض “مولویوں” کا گھڑا ہوا مسئلہ ہو گا۔ اور بعض منکرین حدیث اس کو اپنے نزدیک “حدیث کے خرافات” میں سے سمجھ کر زبان درازی کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا ایسے سب لوگوں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ ان کا معاملہ “مولویوں” کی فقہ اور محدثین کی روایات سے نہیں بلکہ خود خدا کی کتاب سے ہے۔ اس کے لیے حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ۔ (النساء ۳)

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (النساء ۲۴)

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون۶ ، ۵)

اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ (الاحزاب ۵۰)

اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مہَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور ان عورتوں کو جو (احکامِ الٰہی کے مطابق) آپ کی مملوک ہیں، جو اللہ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں، جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مؤمنہ عورت بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح) کے لئے دے دے اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی) اسے اپنے نکاح میں لینے کا ارادہ فرمائیں (تو یہ سب آپ کے لئے حلال ہیں)، (یہ حکم) صرف آپ کے لئے خاص ہے (امّت کے) مومنوں کے لئے نہیں، واقعی ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن (مسلمانوں) پر اُن کی بیویوں اور ان کی مملوکہ باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے، (مگر آپ کے حق میں تعدّدِ ازواج کی حِلّت کا خصوصی حکم اِس لئے ہے) تاکہ آپ پر (امتّ میں تعلیم و تربیتِ نسواں کے وسیع انتظام میں) کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔

آگے چل کر پھر فرمایا:

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا۔ (الاحزاب ۵۲)

اس کے بعد (کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے) آپ کے لئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

ان آیات سے یہ بات صریح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کی رو سے ملک یمین کی بنا پر تمتع جائز ہے۔ اب تحقیق طلب امر یہ ہے کہ یہ اجازت کن حالات میں دی گئی ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اور اس سے استفادہ کی کیا کیا صورتیں شارع نے تجویز کی ہیں؟

جنگ میں گرفتار ہونے والے سبایا (لونڈی غلاموں) کے حق میں اسلام نے جو قوانین وضع کیے تھے ان کو سمجھنے میں آج لوگوں کو اس لیے دقتیں پیش آ رہی ہیں کہ اس زمانے میں وہ حالات باقی نہیں رہے ہیں جن کے لیے یہ قوانین وضع کیے گئے ہیں مگر قدیم ترین زمانے سے اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز تک دنیا میں اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے اور انہیں خرید و فروخت کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ اس زمانہ میں بہت ہی کم ایسا ہوتا تھا کہ دو محارب سلطنتیں صلح کے بعد اسیران جنگ کا مبادلہ کرتیں یا ان کو فدیہ دے کر چھڑاتیں۔ زیادہ تر قاعدہ یہی تھا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوتے وہ اسی سلطنت کے قبضہ میں رہتے جس کی فوج ان کو گرفتار کر کے لے جاتی۔ اس طرح آبادیوں کی آبادیاں قید ہو کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں چلی جاتی تھیں اور کسی سلطنت کے یے یہ ممکن نہ تھا کہ ان کثیر التعداد قیدیوں کو مقید رکھ کر ان کے کھانے کپڑے کا بار اٹھاتی۔ اس لیے سلطنتیں اپنی ضرورت کے مطابق قیدیوں کو اپنے قبضے میں رکھتی تھیں اور باقیوں کو فوج کے افراد میں تقسیم کر دیتی تھیں، جن کے پاس وہ لونڈی غلام بن کر رہتے تھے۔

یہ حالات تھے جن سے اسلام کو سابقہ درپیش تھا۔ اس نے ان حالات میں دنیا کے سامنے یہ اصول پیش کیا کہ جو لوگ جنگ میں قید ہوں ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دو یا اسیران جنگ سے مبادلہ کر لو یا بطریق احسن رہا کر دو۔ لیکن اس اصلاحی تعلیم کا نفاذ تنہا مسلمانوں کے عمل سے نہ ہوسکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان غیر مسلم قوموں کا راضی ہونا بھی ضروری تھا جن سے مسلمانوں کو جنگ پیش آتی تھی اور وہ اس وقت اس اصلاح کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھیں نہ اس کے بعد بارہ صدیوں تک آمادہ ہوئیں۔ اس لیے اسلام نے بدرجۂ آخر اس کی اجازت دی کہ دشمن کے اسیرانِ جنگ کو اسی طرح غلام بنا کر رکھا جائے جس طرح دوسری قومیں مسلمانوں کے اسیران جنگ کو رکھتی ہیں۔

مگر اس اجازت سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں بھی ایک پست طبقہ (Depressed Class) پیدا نہ ہو جائے۔ جیسا کہ ہر اس قوم کے اجتماعی نظام میں ہوا ہے جس نے دوسری قوموں کو مغلوب کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اسیران جنگ کے ساتھ یہ معاملہ خلاف انسانیت تھا اس سے ان بہت سے اخلاقی و تمدنی مفاسد کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ تھا جو کسی نظامِ اجتماعی میں ایک ایسے طبقہ کی پیدائش کا لازمی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا اسلام نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے کی اجازت تو ضرورت کی بنا پر دی مگر اس کے ساتھ ایسے قوانین بھی مقرر کیے جن کا منشاء یہ تھا کہ غلامی کی حالت میں بہتر سے بہتر سلوک جو ان کے ساتھ ممکن ہو وہ کیا جائے اور ایسے اسباب مہیا کیے جائیں جن سے وہ رفتہ رفتہ اسلامی سوسائٹی میں جذب ہو جائیں۔

یہی مقصد ہے جس کے لیے لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے تصور کو اب سے چند سو برس پیچھے لیے جائیے۔ فرض کیجئے کہ ایک غیر قوم سے مسلمانوں کی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں ہزاروں عورتیں ان کے ہاتھ آتی ہیں۔ ان میں بہت سی جوان اور خوبصورت عورتیں بھی ہیں۔فریق مخالف نہ ان کو فدیہ دے کر چھڑا تا ہے نہ ان مسلمان عورتوں سے ان کا تبادلہ کرتا ہے جو اس کے قبضہ میں چلی گئی ہیں۔ مسلمان ان عورتوں کو بطریق احسان بھی نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اس طرح تو ان کی اپنی عورتوں کے چھوٹنے کی کوئ امید کی ہی نہیں جاسکتی۔ ناچار وہ ان کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ اب فرمائیے کہ اتنی کثیر تعداد میں جو عورتیں دار الاسلام میں آ گئی ہیں ان کو کیا کیا جائے۔ ان کو دائم الحبس کر دینا ظلم ہے۔ ان کو ملک میں آزاد چھوڑ دینا گویا فسق و فجور کے جراثیم پھیلا دینا ہے۔ ان کو جہاں جہاں بھی رکھا جائے گا، ان سے اخلاقی مفاسد پھیلیں گے۔ ایک طرف سوسائٹی خراب ہو گی اور دوسری طرف خود ان کی پیشانیوں پر ہمیشہ کے لیے ذلت کے داغ لگ جائیں گے۔ اسلام اس مسئلہ کو یوں حل کرتا ہے کہ انہیں افرادِ قوم میں تقسیم کر دیتا ہے اور ان افراد کو ہدایت کرتا ہے کہ خبردار ان کو رنڈیاں نہ بنا دینا کہ ان سے حرام کراؤ اور ان کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بناؤ، بلکہ یا تو خود ان کو اپنے تصرف میں لاؤ نہیں تو ان کے نکاح کر دو تاکہ یہ بد کاریاں اور آشنائیاں نہ کرتی پھریں۔ اس قانون کی مختلف دفعات قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں (1)۔ سورۂ نور کے چوتھے رکوع میں ہے:

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النور ۳۳)

اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں (2)، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

اس مقام پر یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسیران جنگ میں سے کوئ عورت کس شخص کی ملکیت میں صرف اسی وقت آتی ہے جبکہ وہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کے حوالے کی جائے اور اس کے بعد اس عورت کے ساتھ مباشرت کا حق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر تقسیم ہونے سے پہلے کسی عورت سے مباشرت کرنا زنا ہے۔ اور اس طرح تقسیم کے بعد ایک مالک کے سوا کسی اور آدمی کا اس کے ساتھ ایسا فعل کرنا زنا ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا ایک قانونی جرم ہے۔

عرب جاہلیت میں بہ کثرت لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی لونڈیوں کے ذریعہ سے باقاعدہ قحبہ خانے کھول رکھے تھے۔ وہ ان کی کمائی کھاتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد کو پال کر اپنے خدم و حشم میں اضافہ کرتے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہاں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کا ایک قحبہ خانہ موجود تھا جس میں اس نے چھ لونڈیاں اسی غرض سے رکھ چھوڑی تھیں۔ اسی چیز کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے۔

یہ اس قانون کی پہلی دفعہ ہے جس نے لونڈیوں کے ایک برے مصرف کا دروازہ قطعی بند کر دیا۔

مگر یہ ان کے لیے ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی ہوں۔ رہیں وہ لونڈیاں جو آپ ہی بدکاری کی طرف مائل ہوں تو ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا:

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النساء ۲۵)

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔

اس طرح ان لونڈیوں کے لیے بدکاری کاراستہ تو بالکل بند کر دیا گیا، خواہ مجبورانہ ہو یا رضاکارانہ۔ مگر نفس تو وہ بھی رکھتی ہیں اور ان کے داعیاتِ فطرت کی تکمیل بھی ضروری ہے ورنہ ظلم بھی ہو گا اور اخلاقی مفاسد کے چور دروازے بھی کھلیں گے۔ اس لیے ان کی نفسیاتی ضرورتوں کو با عزت طریقہ سے پورا کرنے کی دو صورتیں تجویز کی گئی ہیں:

1۔ ایک صورت یہ ہے کہ ان کے آقا ان کے نکاح کر دیں

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔ (النور ۳۲)

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے با صلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔

اسی طرح جو نادار لوگ زیادہ مہر دے کر معزز خاندانوں میں شادیاں کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو بھی ترغیب دی گئی کہ تھوڑے مہر پر لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

اور جو شخص تم میں اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ شریف خاندانوں کی مومن عورتوں سے نکاح کرسکے تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرے (النساء25)

لونڈی کو جب اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر اس مالک کو اس لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے کا حق باقی نہیں رہتا، کیونکہ کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا یہ حق مہر کے عوض دوسرے شخص کی طرف منتقل کر چکا ہے۔ اس بنا پر ایسی لونڈیاں بھی محصنات میں داخل ہو جاتی ہیں جن کو نصِ قرآنی نے شوہر کے سوا سب کے لیے حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ کے بعد اس کی تصریح کر دی گئی ہے:

پس ان کے مالکوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور دستور کے مطابق ان کے مہر ادا کر دو۔ وہ قید نکاح میں لائ جائیں نہ کہ کھلی اور چھپی بد کاریاں کریں۔ پھر جب وہ نکاح سے پابند ہو جائیں اور اس کے بعد بدکاری کریں تو ان پر اس سزا کا نصف ہے جو شریف خاندانی عورتوں کے لیے ہے (النساء25)

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خود مالک ان سے تمتع کرے۔ اس کی تین شکلیں ہیں ایک یہ کہ محض ملک یمین ہی کو قید نکاح سمجھ کر تمتع کیا جائے۔ دوسری یہ کہ لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا جائے اور اس آزادی ہی کو اس کا مہر قرار دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس کو آزاد کر کے جدید مہر کے ساتھ نکاح ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری اور تیسری شکل کو ترجیح دی ہے اور اس کی فضیلت میں متعدد احادیث آئی ہیں:

جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو اچھا ادب سکھائے پھر اس کو آزاد کر دے اور اس کے بعد خود اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (بخاری، کتاب النکاح)

دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ “اس کو آزاد کر کے مہر دے کر اس کے ساتھ نکاح کرے” ابوداؤد الطیالسی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

جب کسی شخص نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا پھر اس کو جدید مہر دے کر اس سے نکاح کیا تو اس کے لیے دو اجر ہوں گے۔

خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ کے ساتھ اسی طرح نکاح کیا ہے کہ پہلے ان کو آزاد کیا پھر قیدِ نکاح میں لائے۔ اس باب میں روایات مختلف ہیں کہ آپ نے جدید مہر ادا کیا تھا یا آزادی ہی کو مہر قرار دیا، لیکن اغلب یہ ہے کہ آپ نے جواز کی دونوں صورتیں ظاہر کرنے کے لیے دونوں طریقوں پر عمل فرمایا ہے۔ کسی کو جدید مہر دیا ہے اور کسی کی آزادی ہی کو مہر قرار دیا ہے۔

اس اجازت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بنی قریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ ، غزوۂ بنی المصطلق کے سبایا میں سے حضرت جویریہؓ ، غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مقوقس مصر کی بھیجی ہوئ حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا لیکن حضرت ماریہ قبطیہؓ سے بربنائے ملک یمین تمتع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی حیات طیبہ کے اخیر زمانے میں تین لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اصل مقصد اسلامی سوسائٹی میں لونڈیوں کے لیے عزت کی جگہ پیدا کرنا تھا۔ اور آپ خود اپنے عمل سے مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ انسانی برادری کے اس بدقسمت گروہ کے ساتھ ان کو ایسا سلوک کرنا چاہیے۔ مگر دشمنان اسلام کی بدطینتی نے آپ کے اس انتہائ شریفانہ فعل کو بھی نفسانیت پر محمول کر کے چھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان عیب چینی پر اتر آئے تو دنیا کا کوئ نیک سے نیک فعل بھی ایسا نہیں جس میں وہ بدی کا پہلو نہ نکال سکتا ہو۔

رہی پہلی شکل، یعنی حقِ ملکیت کی بنا پر تمتع کرنا، تو وہ بھی جائز ہے اس لیے کہ قرآن مجید میں ملک یمین کی بنا پر تمتع کی صریح اجازت دی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ کوئ شرط یا قید نہیں لگائ گئی ہے۔ اس میں بظاہر جو کراہت نظر آتی ہے وہ محض ایک وہمی کراہت ہے۔ چونکہ طبیعتیں نکاح کے عام اور معروف طریقے کی خوگر ہو چکی ہیں اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت اور مرد کا صرف وہی تعلق جائز ہے جس میں قاضی صاحب آئیں، دو گواہ ہوں، ایجاب و قبول ہو اور خطبہ نکاح پڑھایا جائے۔ اس کے سوا جو صورت ہے وہ محض شہوت رانی ہے۔ لیکن اسلام کوئی رسمی مذہب نہیں بلکہ ایک عقلی مذہب ہے۔ وہ رسم کو نہیں حقیقت کو دیکھتا ہے۔ نکاح سے ایک عورت جو ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے تو آخر اسی بناء پر تو حلال ہوتی ہے کہ اللہ کے قانون نے اس کو حلال کیا ہے۔ اسی طرح اگر ملکِ یمین کی بنا پر اللہ کا قانون اس کو حلال کرے تو اس میں کراہت کی کون سی بات ہے؟ نکاح کا مقصد انسان کے جذبۂ شہوت رانی کو ایک حد کے اندر محدود کرنا اور ایک ضابطہ سے منضبط کرنا اور مرد و زن کے تعلق کو ایک باقاعدہ تمدنی تعلق کی صورت میں قائم کرنا ہے۔ اسی لیے اعلان کی شرط لگائ گئی ہے کہ سوسائٹی میں یہ امر معلوم و مشتہر ہو جائے کی فلاں عورت فلاں مرد کے لیے مختص ہو چکی ہے، اس کے بطن سے جو اولاد ہو گی وہ فلاں شخص کی ہو گی۔ اور اس عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کا زوجی تعلق نہ ہو گا۔ یہ سب اغراض ملکِ یمین سے بھی پوری ہوسکتی ہیں۔ سوسائٹی میں یہ امر معلوم و مشتہر ہوتا ہے کہ فلاں لونڈی فلاں شخص کی مملوکہ ہے۔ کسی دوسرے شخص کے لیے اس لونڈی سے زوجی تعلق پیدا کرنا جائز نہیں ہوتا جب تک کہ مالک اپنی رضا مندی سے اس کو نکاح میں نہ دے دے۔ لہٰذا ایک عورت کا مرد کے لیے مخصوص ہونا اس صورت میں بھی ویسا ہی قطعیت اور شہرت کے ساتھ واقع ہوتا ہے جس طرح کہ نکاح کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ مالک کے تصرف میں آ جانے کے بعد ایک عورت اگر صاحبِ اولاد ہو جائے تو وہ اس خاندان کی ایک فرد بن جاتی ہے۔ اس کو ام ولد کہا جاتا ہے۔ مالک کی وفات کے بعد وہ آپ سے آپ آزاد ہو جاتی ہے۔ اس کی اولاد جائز سمجھی جاتی ہے اور اپنے باپ سے شرعی ورثہ پاتی ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ پھر کیا یہ نکاح کی طرح باقاعدہ زوجی تعلق نہیں ہے؟۔

ہاں اس طریقہ میں ایک کراہت ضرور ہے۔ مگر وہ ایک دوسرے پہلو سے ہے۔ ملک یمین کی بنا پر جس لونڈی سے نکاح کیے بغیر تمتع کیا جاتا ہے وہ اصلاً لونڈی ہی رہتی ہے۔ اس کو محصنات کے برابر مرتبہ حاصل نہیں ہوتا اور اس کی اولاد پر بھی پرستار زادگی کا داغ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت اس طریقے کو دی ہے کہ پہلے اس کو آزاد کر کے شریف عورتوں کے مرتبہ میں لے آؤ، پھر اس سے بطریق احسن معروف نکاح کرو تاکہ اس میں عزتِ نفس کا وہ احساس پیدا ہو جائے جو شریف عورتوں میں ہوتا ہے، اور وہ مساویانہ حیثیت سے تمہاری سوسائٹی میں داخل ہو جائے اور اس پر لونڈی پن کا اور اس کی اولاد پر پرستار زادگی کا داغ نہ رہے۔

اب آپ کے صرف دو سوالوں کا جواب باقی ہے۔ ایک یہ کہ اگر مرد کو ملک یمین کی بناء پر تمتع کا حق حاصل ہے تو عورت کو یہ حق حاصل کیوں نہیں؟ دوسرے یہ کہ اگر غیر مسلم محاربین مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں تو ہم کو اس پر احتجاج کا کیا حق ہے؟

ذیل میں ان دونوں کا جواب علی الترتیب دیا جاتا ہے۔

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ملک یمین کی بنا پر تمتع کا حق صرف مردوں ہی کو دیا گیا ہے، عورتوں کو نہیں دیا گیا۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون ۶،۵)

اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں

اسی طرح دوسری تمام آیات میں بھی خطاب صرف مردوں سے ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زوجی تعلق کے معاملہ میں عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ سے انسان نے امتیاز کیا ہے، اور یہ امتیاز خود اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے (جو لوگ اس کو سمجھنا چاہتے ہوں وہ ہماری کتاب “پردہ” میں “قوانین فطرت” کا باب بغور مطالعہ فرمائیں)۔ عورت میں عصمت کا احساس مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔ عورت سے با عصمت رہنے کی توقع بھی مرد کی بہ نسبت زیادہ کی جاتی ہے۔ اگر مرد فحش کاری کا مرتکب ہو تو اس کو اتنی بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس سے عورت کی فاحشہ گری کو دیکھا جاتا ہے۔ عورت کی قد و قیمت ازالۂ بکارت کے بعد آدھی رہ جاتی ہے، مگر مرد دس بیویاں بھی کر چکا ہو تو اس کی قدر و قیمت میں کوئ فرق نہیں آتا۔ عورت اگر کسی غیر قوم کے مرد کے پاس چلی جاتی ہے تو اس کی ساری قوم اس کو اپنے لیے بے عزتی سمجھتی ہے۔ لیکن مرد کا غیر قوم کی عورت سے تعلق پیدا کرنا کچھ زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یہ انسانی فطرت ہے اور اس کو اسلام نے ایک حد خاص تک ملحوظ رکھا ہے۔ مگر جب یہ چیز جہالت کی حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کو پامال کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔ مثلاً اسلام مردوں کو کتابیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے، مگر عورتوں کو اہل کتاب سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں تک اس نے انسانی فطرت کا لحاظ کیا ہے۔ لیکن اگر یہودی یا نصرانی مسلمان ہو جائے تو اسلام بلا تامل اس کے ساتھ نکاح کرنے کی ہر مسلمان عورت کو اجازت دیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی شریف گھرانے کی ہو۔ محض نومسلم ہونے کی بنا پر اس سے نکاح کو مکروہ سمجھنا اسلام کی نگاہ میں خود مکروہ ہے۔

اس قاعدے کو اگر آپ سمجھ لیں تو یہ بات آپ کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے کہ اسلام عورت کو اپنے غلام سے تمتع کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو معاشرے میں ایسی عورت کی قدرو قیمت گھٹ جائے اور اس کے بعد اگر وہ اس غلام سے قطع تعلق کر کے کسی شخص سے نکاح کرنا چاہے تو امید نہیں کی جاسکتی کہ اس کے کفو میں کوئ مرد اس کو قبول کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ اگر عورت اپنے غلام سے تمتع کرے تو خود اپنے خاندان میں اس کا مرتبہ گھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے کہ عورت کو عائلی زندگی میں جو وزن حاصل ہوتا ہے وہ اس کے شوہر کی بدولت ہوا کرتا ہے اور یہاں شوہر خود غلام ہے جس کو آزاد مرد کا سا مرتبہ حاصل نہیں۔ اس حد تک اسلام نے فطرت انسانی کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ لیکن اگر کوئ غلام آزاد کر دیا گیا ہو تو شریف سے شریف خاندان کی عورت کا بھی اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام سے کیا۔

عورت کو غلام سے تمتع کی اجازت نہ دینے کی دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ملک یمین مرد کے لیے تو منزلۂ نکاح ہوسکتا ہے مگر عورت کے لیے نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے خانگی زندگی کے لیے جو قانون مقرر کیا ہے اس کا اصل الاصول یہ ہے کہ مرد کو عورت پر قوام ہونا چاہیے۔ اسی لیے عورت کا مہر مرد پر واجب کیا گیا ہے۔ اور عورت پر مرد کو اقتدار کا ایک درجہ دیا گیا ہے تاکہ وہ عورت کی خبر گیری اور حفاظت کرے اور اپنے گھر میں وہ حاکمانہ قوت استعمال کرسکے جو خانگی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ مصلحتِ عظمیٰ غلام سے تمتع کرنے کی صورت میں فوت ہو جاتی ہے۔ اپنے غلام سے کسی عورت کا تعلق شہوت رانی کی غرض تو پوری کرسکتا ہے مگر اسلامی نظام تمدن کے اندر ان دوسری اغراض کو پورا نہیں کرسکتا جن کو شریعت نے عورت اور مرد کے ازدواجی تعلق میں ملحوظ رکھنا ضروری سمجھا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں مرد غلام ہونے کی حیثیت سے عورت کا تابع فرمان ہو گا اور اسے گھر میں وہ اقتدار حاصل نہ ہوسکے گا جو اخلاق و معاشیات کی نگرانی کے لیے اور خاندانی نظام کو درست رکھنے کے لیے مرد ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونا چاہیے۔

رہا آپ کا آخری سوال تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال کرتے وقت آپ نے یہ فرض کر لیا تھا کہ دشمن کے قبضے میں جو مسلمان عورتیں جاتی ہوں گی ان کو تو وہ بالکل گھر کی بیٹیاں بنا کر رکھتے ہوں گے۔ کیا واقعی آپ کا مفروضہ صحیح ہے؟ اور آپ کا یہ کہنا کہ اس پر ہمیں احتجاج کا کیا حق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم عورتوں ہی کو نہیں مردوں کو بھی غلام بنا کر رکھنا نہ چاہتے تھے اگر دشمن اسیرانِ جنگ کے تبادلے پر راضی ہوتے تو ہم ان کے ایک مرد یا عورت کو بھی اپنے پاس غلام بنا کر رکھنے پر اصرار نہ کرتے لہٰذا اگر صدیوں تک دنیا میں غلامی کا رواج رہا اور ایک قوم کی شریف عورتیں لونڈیاں بن بن کر دوسری قوموں کے تصرف میں آتی رہیں تو یہ ہمارے کسی قصور کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کے ذمے دار وہ لوگ تھے جو صدیوں تک اسیرانِ جنگ کے بارے میں کسی مہذب اور معقول رویے کو اختیار کرنے پر راضی نہ ہوئے۔

سوال
“اسلامی شریعت میں نکاح کے لیے تو چار کی حد مقرر ہے کہ ایک وقت میں آدمی چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتا لیکن لونڈیوں کے لیے کوئ حد سرے سے رکھی ہی نہیں گئی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت نے چار کی حد مقرر کرنے کے سارے فوائد کو باطل کر دیا۔ اس نے خوش حال لوگوں کے لیے بے تحاشہ عیاشی کا دروازہ کھول دیا۔ امراء و رؤسا کے لیے یہ گنجائش نکال دی کہ بے شمار عورتوں کو خرید خرید کر گھروں میں ڈال لیں اور خوب دادِ عیش دیں۔ یہ محض مفروضہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی پچھلی تاریخ میں عملاً یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ کیا آپ اس کی کوئ معقول توجیہ کرسکتے ہیں؟“

جواب
آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ لونڈیوں سے تمتع کی اجازت جن اہم تمدنی مصالح کی بنا پر دی گئی ہے وہ تعداد کے تعین سے فوت ہو جاتے ہیں۔ اس امر کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ کس زمانے اور کس لڑائی میں کتنی عورتیں سبایا کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں گی اور ایک خاص وقت میں مسلمان آبادی کے اندر سبایا کا تناسب کس قدر ہو گا۔ اب اگر تمتع کی اجازت دینے کا مقصد ہی عورتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی تمدنی خطرات کا سب باب تھا تو آپ خود غور کیجیے کہ اضافہ کی مقدار متعین نہ ہونے کی صورت میں تمتع کی حد کا تعین آخر کس طرح کیا جاسکتا تھا۔ جس حکیم نے یہ قانون بنایا ہے وہ یک چشم نہیں ہے کہ ایک وقت میں معاملہ کے ایک ہی رخ کو دیکھ سکتا ہو۔ اس کی حاوی نگاہ بیک وقت تمام پہلوؤں پر پڑتی ہے۔ اسی لیے اس سے وضع قانون میں وہ بے اعتدالی صادر نہیں ہوئ جس کے صادر نہ ہونے کی شکایت انسان نے اکثر اس سے کی ہے۔

رہا آپ کا یہ شبہ کہ لونڈیوں کی ان گنت تعداد سے تمتع کرنے کی اجازت جنسی آوارگی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اور یہ کہ لونڈیوں کے قابل بیع و شراء ہونے کی وجہ سے اس کا امکان ہے کہ مال دار لوگ لونڈیاں خرید خرید کر عورتوں کا ایک پورا بیڑہ فراہم کر لیں اور اپنے گھروں کو عیاشی کا اڈا بنا کر رکھ دیں تو یہ اور اس نوعیت کے اکثر شبہات عموماً اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ معاملہ کا ایک ہی پہلو نگاہ کے سامنے ہوتا ہے اور دوسرے پہلو چھپے رہتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ شارع نے اپنا قانون انسانی کی بھلائ کے لیے بنایا ہے اور اس قانون میں جو سہولتیں اور گنجائش رکھی ہیں وہ ان حقیقی ضرورتوں کے لیے رکھی ہیں جو عموماً انسان کو پیش آتی ہیں یا پیش آسکتی ہیں۔ اگر بعض لوگ ان گنجائشوں سے اس قسم کے غلط فائدے اٹھاتے ہیں جن کے لیے دراصل شارع نے یہ گنجائش نہیں رکھی تھی تو یہ ان کی اپنی نا فہمی ہے یا شرارت نفس۔ لیکن اس قسم کی انفرادی غلطیوں کے امکان یا وقوع سے ڈر کر قانون میں ایسی تنگی پیدا کرنا جس سے عام لوگوں کی حقیقی ضرورتیں پوری ہونے میں مشکلات واقع ہوں، کسی حکیم کا کام نہیں ہوسکتا۔

خدا کی شریعت مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید خرید کر عیاشی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ دراصل یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی منکوحہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب گر کوئ شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے تو یہ قانون کی گنجائشوں سے ناروا فائدہ اٹھانا ہے جس کی ذمہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر ان کو چھڑا کے لیے تیار نہ ہو، لونڈی بنانے کی اجازت دی اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دے دی جائیں ان کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کرسکیں تاکہ ان کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئ تعداد معین نہیں ہوسکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئ حد معین نہیں کی جاسکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہوسکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہوسکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔

شارع نے لونڈیوں کی غیر محدود تعداد سے تمتع کی اجازت اس لیے نہیں دی تھی کہ ایک ایک مسلمان اپنے گھر میں راجہ اندر بن جائے اور بے شمار عورتوں کے جھرمٹ میں بس رات دن دادِ عیش ہی دیتا رہے۔ بلکہ دراصل مقصد یہ تھا کہ اگر کبھی غیر معمولی حالات پیش آ جانے کی وجہ سے سوسائٹی میں عورتوں کی تعداد یکا یک بہت بڑھ جائے تو اس کو آسانی کے ساتھ جذب کیا جاسکے اور اس کی بدولت اخلاقی مفاسد نہ پھیلنے پائیں۔ اس غرض کے لیے کئی صورتیں رکھی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لونڈیوں کے نکاح غلاموں سے کر دیے جائیں۔ لونڈیوں کے نکاح کم استطاعت مردوں سے کر دیے جائیں۔ لونڈیوں کو آزاد کر کے خود مالک ان سے نکاح کر لیں۔ جن لوگوں کے پاس لونڈیاں ہوں وہ خود آزاد کیے بغیر ہی ان سے تمتع کریں۔

اسی طرح لونڈیوں کی بیع و شراء کو جائز کرنے کا مقصد بھی یہ نہیں تھا کہ آوارہ مزاج لوگ محض عیاشی کی خاطر بہت سی لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیا کریں اور جب دل بھر جائے تو انہیں بیچ کر دوسرا بیڑا بھرتی کر لیں۔ بلکہ دراصل یہ سہولت ان ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر دی گئی تھی جو عموماً انسان کو پیش آتی ہیں مثلاً ایک شخص مفلس ہو گیا ہے اور لونڈی غلام رکھنے کی استطاعت اس میں نہیں رہی ہے یا اس کے پاس ضرورت سے زائد لونڈی غلام جمع ہو گئے ہیں یا ان میں سے کسی کو وہ پسند نہیں کرتا۔ کیا ان حقیقی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے محض اس خوف سے لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت ممنوع کر دی جاتی کہ بعض لوگ اس قانون حق سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے؟ ایسی برائیوں کے امکانات تو خود نکاح و طلاق کے قانون میں بھی ہیں۔ اگر کوئ شریر آدمی “جائز زناکاری” پر اتر آئے تو وہ روز ایک عورت سے چند روپوں پر نکاح کرسکتا ہے اور دوسرے دن اسے طلاق دے کر کسی دوسری عورت کو تلاش کرسکتا ہے۔ پھر کیا ایسی انفرادی شرارتوں کے خوف سے یہ صحیح ہو گا کہ طلاق اور نکاح کے قانون میں ایسی بندشیں بڑھا دی جائیں جن سے عام لوگوں کی زندگی تنگ ہو جائے۔

سوال
“کیا نظام شریعت میں جنگ کے قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت ہو گی؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیوں کو فروخت کرنے کا بھی حق حاصل ہو گا؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیوں سے بیویوں کے علاوہ تمتع جائز ہو گا اور اس پر تعداد کی کوئ قید نہ ہو گی؟“

جواب
نظام شریعت میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت ایسی حالت میں دی گئی ہے جب کہ وہ قوم جس سے ہماری جنگ ہو ، وہ نہ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو، نہ فدیہ لیکر ہمارے قیدی چھوڑے اور نہ فدیہ دے کر اپنے قیدی چھڑائے۔ آپ خود غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ااس صورت میں جو قیدی کسی حکومت کے پاس رہ جائیں وہ یا تو انہیں قتل کرے گی یا انہیں عمر بھر اس قسم کے انسانی باڑوں میں رکھے گی جنہیں آج کل (Concentration Camp) کہا جاتا ہے اور کسی قسم کے انسانی حقوق دیے بغیر ان سے جبری محنت لیتی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت بے رحمانہ بھی ہے اور خود اس ملک کے لیے کچھ بہت مفید نہیں ہے جس میں اس طرح کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خارجی عنصر کی حیثیت سے موجود رہے۔ اسلام نے ایسے حالات کے لیے جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ان قیدیوں کو فرداً فرداً مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ان کی ایک قانونی حیثیت مشخص کر دی جائے۔ اس طرح جو انفرادی رابطہ ایک ایک قیدی کو ایک ایک مسلم خاندان سے پیدا ہو گا اس میں اس امر کا امکان زیادہ ہے کہ ان سے انسانیت اور شرافت کا برتاؤ ہو اور ان کا ایک اچھا خاصا حصہ بتدریج مسلمانوں کی سوسائٹی میں جذب ہو جائے۔

جن مسلمانوں کو ایسے اسیران جنگ پر حقوق ملکیت حاصل ہوتے ہیں ان کے لیے شریعت نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ اگر کوئ لونڈی یا غلام اپنے مالک سے درخواست کرے کہ میں محنت مزدوری کر کے اپنے فدیہ کی رقم فراہم کرنا چاہتا ہوں تو مالک اس کی درخواست کو رد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اسے ازروئے قانون ایک خاص مدت تک کے لیے اس کو مہلت دینی ہو گی اور اس مدت میں اگر وہ فدیہ کی رقم ادا کرے تو اسے آزاد کر دینا پڑے گا۔ کوئ غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان ایک طرح سے معاہدہ طے پا گیا۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو۔ آقا کے لیے کوئ خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے وہ اس کو معاہدے کی رو سے معاوضہ ادا کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام اپنے ذمے کی رقم یا خدمت انجام دے دے وہ اس کو آزاد کر دے گا۔ حضرت عمر کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے معاہدہ کیا اور مدتِ مقررہ سے پہلے ہی طے کی گئی رقم فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نہ کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے۔ پھر مالکہ کو کہلا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے (دار قُطنی بروایت ابو سعید مقبری)

اس قسم کے لونڈی غلاموں کو بیچنے کی اجازت دراصل اس معنی میں ہے کہ ایک شخص کو ان سے فدیہ وصول کرنے اور فدیہ وصول نہ ہونے تک ان سے خدمت لینے کا جو حق حاصل ہے اس کو وہ معاوضہ لے کر دوسرے شخص کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ قانون میں یہ گنجائش جس مصلحت سے رکھی گئی ہے اس کو آپ پوری طرح اسی صورت میں سمجھ سکتے ہیں جبکہ دشمن فوج کے کسی سپاہی کو بطور قیدی رکھنے کا آپ کو اتفاق ہوا ہو۔ فوجی سپاہیوں سے خدمت لینا کوئ آسان کام نہیں ہے اور اسی طرح دشمن قوم کی کسی عورت کو گھر میں رکھنا بھی کوئ کھیل نہیں ہے، اگر کسی شخص کے لیے یہ گنجائش نہ چھوڑی جاتی کہ جس قیدی مرد یا عورت سے وہ عہدہ برا نہ ہوسکے اس کے حقوق ملکیت کسی دوسرے کی طرف منتقل کر دے تو یہ لوگ جس کے بھی حوالے کیے جاتے اس کے حق میں بلائے جان بن جاتے۔

جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لیے (جبکہ نہ ان کا تبادلہ ہو اور نہ فدیہ کا معاملہ ہی طے ہوسکے) اس سے بہتر حل اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دی جائے اس کے ساتھ اس شخص کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ عورتیں ملک میں بد اخلاقی پھیلنے کا ایک مستقل ذریعہ بن جاتیں۔ قانونی حیثیت سے ملکِ یمین اور عقدِ نکاح میں کوئ خاص فرق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو خود حکومت باقاعدہ طریقہ سے ایک عورت کو ایک مرد کے حوالے کرتی ہے۔ پھر جو معاشرتی حیثیت ان عورتوں کو شریعت میں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کی ملکِ یمین میں جانے کے بعد اس عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو جنسی تعلق رکھنے کا حق نہیں ہوتا۔ جو اولاد اس سے ہو اس کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کی اسی طرح جائز وارث ہوتی ہے جس طرح کسی آزاد بیوی کی اولاد۔ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے اسے بیچنے کا مالک کو حق نہیں رہتا اور مالک کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جاتی ہے۔

لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کی قید اس لیے نہیں لگائ گئی کہ ان عورتوں کو تعداد کا کوئ تعین ممکن نہیں ہے جو کسی جنگ میں گرفتار ہو کر آسکتی ہیں۔ بالفرض اگر ایسی عورتوں کی بہت بڑی تعداد جمع ہو جائے تو سوسائٹی میں انہیں کھپانے کی کیا تدبیر ہرسکتی ہے جب کہ لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کا تعین پہلے ہی کر دیا گیا ہو؟

بعد کے زمانوں میں امراء و رؤسا نے اس قانونی گنجائش کو جس طرح عیاشی کا حیلہ بنا لیا وہ ظاہر ہے کہ شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف تھا۔ کوئ رئیس اگر عیاشی کرنا چاہے اور قانون کے منشاء کے خلاف قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھانے پر اتر آئے تو نکاح کا ضابطہ ہی کب اس کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ وہ روز ایک نئی عورت سے نکاح کرسکتا ہے اور دوسرے دن اسے طلاق دے سکتا ہے۔

٭٭٭

(مسئلہ غلامی ،تنقیحات حصہ دوم، ابوالاعلیٰ مودودی)

ٹائپنگ: خاور بلال

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اسلام اور غلامی

اس معاملے میں لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں، تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ۔!
اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول سے ایک دفعہ نکل آئے !
یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ! اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ! یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے، (شریعت نے بہت سے گناہوں کا کفارہ غلام آزاد کرنا رکھا اور اسے بڑے درجات کی چیز قرار دیا) یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے !
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ! اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا۔
غور کیا جائے تو اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو آج کی مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر ‘ویلفئر نیشن سٹیٹ ‘ اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔
سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجھ کر ترک کیا (انکے ہاں گزشتہ صدی تک افریقہ سے لوگ غلام بنا بنا کے اپنے ہاں کام کروانے کے لیے لائے جاتے رہے )انہوں نے اس طبقے کو سوائے گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تحریر : زاہد مغل , محمد حنیف
 
Top