• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ فلسطین بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں(2)

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
مسئلہ فلسطین بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں(2)

اسلام ٹائمز: بین الاقوامی قوانین پر غور کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کا نظام کسی حد تک بیسویں صدی کے اوائل میں وجود پا چکا تھا، پھر جنگ عظیم اول و جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کو بین الاقوامی قوانین کے ایک موثر نظام کی اشد ضرورت محسوس ہوئی، خصوصاً آخری دو دہائیوں میں بین الاقوامی قوانین کے اس نظام کو کافی پذیرائی ملی ہے۔ دنیا کے بہت سارے مسائل کے حل میں اس نظام نے کافی موثر کردار ادا کیا ہے، مگر فلسطین کے مسئلے میں عالمی سیاست کے غلبے و عالمی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین کا یہ نظام اپنی افادیت سے بہرہ مند کرنے سے قاصر ہے۔

تحریر: سید حسن بخاری

انسانی حقوق اور فلسطین:
انٹرنیشنل ہیومن رائٹ ڈکلیریشن 1848 کے مطابق حق زندگی، حق آزادی، حق امن و امان، حق مالکیت وغیرہ تسلیم شدہ حقوق ہیں۔ اسی طرح 1949ء کے جنیوا کنونشن کے مطابق جنگ کے دوران نہتے اور غیر مسلح افراد کی حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری قابض حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ جینوا کنونشن کے معاہدے کے آرٹیکل 27 کے تحت ہر قسم کی شرایط میں نہتے اور غیر مسلح افراد اپنی شخصیت، حرمت، مذہب اور رسم و رواج کے عنوان سے آزاد ہوں گے، اسی معاہدے کے آرٹیکل 32،33،49 اور 53 بالترتیب بے گناہوں کو سزا دینے، دہشتگردی، غارتگری، دست جمعی سزا دینے، نقل مکانی پر مجبور کرنے، منقول یا غیر منقول جائیداد کو منہدم کرنے سے روکتے ہیں۔

ان سب قوانین کے باوجود 1948ء سے لے کر آج تک غاصب حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا ہے، جس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ غاصب اسرائیل کو ایک ایسی لابی چلا رہی ہے، جس کی سرشت میں قوانین و اصولوں کی خلاف ورزی شامل ہے، دوسرا یہ کہ عالمی قوانین بنانے والے ادارے اتنے کمزور اور ناتوان ہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کروانے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بین الاقوامی قانون بنانے اور ان پر ناظر ادارے اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کی طاقت نہیں رکھتے تو یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ یہی ادارے دنیا میں بہت سارے مقامات پر ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالی پر فوراً نوٹس بھی لیتے، قانون بھی بناتے اور پھر ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔

ٹوکیو اور نور مبرگ کی عدالتوں کے بنانے اور سزائیں دینے سے لے کر یوگو سلاویہ، روانڈا، مشرقی تیمور، دارفور (سوڈان) اور دوسرے بہت سارے مسائل میں فوراً عدالتیں اور ٹربیونل تشکیل پاتے ہیں اور کام بھی شروع کر دیتے ہیں۔ 14 فروری 2005ء کو لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل پر اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1759 کے ذریعے فوراً بین الاقوامی عدالت تشکیل دے دی جاتی ہے مگر 1948ء کے ناجائز قبضے، 1967ء کی ہمسایہ ممالک پر فوجی چڑھائی، 1982ء کی نسل کشی، 2007ء کے محاصرہ، اور اب 2012ء کے یکطرفہ حملے پر کوئی عالمی ادارہ حرکت میں نہیں آتا۔ ایسے میں یہ کہنے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ عالمی ادارے جن کے نرغے میں ہیں، ان کے مفادات دنیا میں امن و آتشی و صلح کی بجائے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی میں پوشیدہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی انسانی حقوق کی پابندی ہر رکن ملک کا اولین فریضہ ہے، مگر اس کے ساتھ ہر رکن ملک پابند ہے کہ وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اپنی طرف سے اقدام کرے، جن ممالک نے غاصب اسرائیل کے ان خلاف قانون اور ظالمانہ اقدام پر سکوت اختیار کیا ہے، دراصل ان کا یہ سکوت جینوا کنونشن کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایک ملک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو دوسرے ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی برادری کو ساتھ ملا کر ان قوانین کی خلاف ورزی کا راستہ روکیں۔

اب اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ممالک نے خصوصاً عرب ممالک نے، جو سب عالمی قوانین اور معاہدوں کا حصہ بھی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے فلسطین کے مظلوم عوام کے قرابتدار بھی ہیں، اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟ مصر ہی کو دیکھ لیں 2007ء میں غاصب اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے کے دوران غزہ جانے والی تنہا گذرگاہ رفح کو بند کر دیتے ہیں اور فلسطینیوں کی بھوک و اشیا خورد و نوش کی قلت سے اجتماعی نسل کشی میں غاصب حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

اسلامی سربراہی کانفرنس کہ صرف اور صرف فلسطین کے ایشو پر وجود میں آئی تھی، دنیا کے 57ملکوں کی نمایندگی کے باوجود اس سلسلے میں کسی قسم کا موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔
ان سب قوانین و مقررات کے ساتھ ساتھ غاصب اسرائیل اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا رکن ہونے کی وجہ سے نسل کشی اور جنگی جرائم کے اپنے فوجی اور سیاسی مجرموں کو اپنی داخلی عدالتوں میں سزا دینے کا پابند ہے، مگر قاتل سے انصاف کی توقع ایک عبث خیال کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ بحث عالمی قوانین کے عنوان سے تھی، لہذا اس کا ذکر بھی کر دیا، لیکن تعجب ہے غاصب حکومت کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر کہ جس کی عدالتیں ایک جھوٹے افسانے ہولوکاسٹ کے انکار پر تو مقدمہ درج بھی کرتی ہیں، سماعت بھی ہوتی ہے اور اس افسانے کا منکر سزا بھی پاتا ہے، مگر فلسطین کے مہاجر کیمپوں میں بچوں اور خواتین کے قتل پر ان کے کسی فوجی یا سیاست دان کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔

عالمی فوجداری عدالت اور مسلئہ فلسطین:
عالمی فوجداری عدالت بھی اپنے 1997ء میں پاس ہونے والے منشور کے خلاف کہ جس کے تحت صرف جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم ہی اس عدالت کے دائرہ کار میں شامل ہیں، فلسطین میں ہونے والے ان جرائم پر مناسب اقدام کرنے سے قاصر ہے، عالمی فوجداری عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 اور 13 کے مطابق اس عدالت میں تین طریقوں سے سماعت شروع ہو سکتی ہے۔

پہلی صورت یہ کہ نسل کشی، جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم میں سے کوئی ایک جرم اس عدالت کے رکن ممالک کی سرزمین پر یا اس اس عدالت کے رکن ممالک کے شھریوں کی طرف سے انجام پائے، اس وقت 121 ممالک اس فوجداری عدالت کے رکن ہیں۔ دوسری صورت یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں کسی جگہ ہونے والے مذکورہ تین میں سے کسی جرم کی شکایت کرے تو عالمی فوجداری عدالت اس مسئلے کی سماعت کرسکتی ہے، اس میں اس سرزمین یا ملک کا اس عدالت کا باقاعدہ رکن ہونا ضروری نہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اب تک فلسطین میں ہونے والے جنگی جرائم، فلسطینیوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں سے کسی جرم کی بھی عالمی فوجداری عدالت میں شکایت نہیں کی، جبکہ اسی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر1593 کے ذریعے دارفور (سوڈان) کی صورت حال اور اس ملک میں ہونے والے جنگی جرائم کی عالمی فوجداری عدالت میں شکایت کی، جس پر اس عدالت نے فوراً نوٹس لیا اور ان جرائم میں ملوث افراد کو سزا بھی دی۔

تیسری صورت کسی بھی ملک کی طرف سے اپنی سرزمین پر مذکورہ بالا تین جرائم میں سے کسی بھی جرم کے ارتکاب کی شکایت ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اس شکایت پر سماعت شروع کر سکتی ہے۔ اس صورت میں بھی عالمی فوجداری عدالت کا باقاعدہ رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔ 21 جنوری 2009ء کو عالمی فوجداری عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 کی بنیاد پر فلسطین کے اس وقت کے وزیر قانون کی طرف سے اس عدالت میں غزہ میں ہونے والے اسریئلی جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی باقاعدہ شکایت دائر کی گئی، جسے اس عالمی عدالت نے یہ کہ کر رد کر دیا کہ فلسطین عالمی فوجداری عدالت کا باقاعدہ رکن نہیں ہے، لہذا یہ عدالت اس سرزمین میں ہونے والے جرائم کی سماعت کا حق نہیں رکھتی، جبکہ اس عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 اور 13 اسے غیر رکن ممالک کی شکایت پر بھی سماعت کا پابند بناتے ہیں۔ یوں اس عالمی ادارہ نے بھی ایک کمزور قانونی عذر پیش کرکے اس خطے میں ہونے والے عظیم انسانی سانحہ سے چشم پوشی کر لی۔

فلسطین کے مسئلے کا واحد راہ حل:
بین الاقوامی قوانین پر غور کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کا نظام کسی حد تک بیسویں صدی کے اوائل میں وجود پا چکا تھا، پھر جنگ عظیم اول و جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کو بین الاقوامی قوانین کے ایک موثر نظام کی اشد ضرورت محسوس ہوئی، خصوصاً آخری دو دہائیوں میں بین الاقوامی قوانین کے اس نظام کو کافی پذیرائی ملی ہے۔ دنیا کے بہت سارے مسائل کے حل میں اس نظام نے کافی موثر کردار ادا کیا ہے، مگر فلسطین کے مسئلے میں عالمی سیاست کے غلبے و عالمی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین کا یہ نظام اپنی افادیت سے بہرہ مند کرنے سے قاصر ہے۔

ایسے میں جب ایک غاصب حکومت بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہو اور ساری عالمی برادری مل کر بھِی اس غاصب حکومت کو ان خلاف ورزیوں سے نہ روک سکے یا روکنا نہ چاہے تو قوانین کے نظریات دینے والے دانشوروں کی یہ بات ذھن میں آتی ہے کہ قانون طاقت ور کی لاٹھی ہے، وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی اسرائیل کے سامنے ناتوانی و کمزوری اور اسرائیل کی 60 سالہ ہٹ دھرمی و قانون شکنیاں اس نتیجہ کی طرف راھنمایی کرتی ہیں کہ اقوام متحدہ کی حال حاضر میں پاس ہونے والی قرارداد کہ جس میں فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیا گیا ہے اس مسلئے کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے گی۔

العمل کمیٹی فلسطیں کے سربراہ سمیع الخلف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس نکتے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا حال بھی اقوام متحدہ کی گذشتہ قراردادوں اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین جیسا ہوگا۔ مسئلہ فلسطیں کے حل میں اصل رکاوٹ اسرائیل کی ھٹ دھرمی، عالمی طاقتوں کی چالیں، عالمی اداروں کی اسرائیل کے سامنے ناتوانی اور امت مسلمہ کی کمزوری ہے، جب تک یہ روکاوٹیں دور نہیں ہوتیں مسئلہ کا حل یا اس راہ میں کوئی پیش رفت بعید دکھائی دیتی ہے۔

ان ساری باتوں کے بعد فلسطین کے مسئلے کا آخری حل صرف اور صرف فلسطینی عوام کی استقامت و پائیداری کے ساتھ مقاومت اور اس راہ میں صبر دکھائی دیتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی کئی بار اس نکتے کی طرف متوجہ کیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل استقامت اور پائیداری ہے۔ اگر ایک ملت اپنے آزادی اور استقلال کے حق سے محروم ہو جائے تو تا ابد غلامی اس کا مقدر ہو جاتی ہے، یعنی اگر آج ملت مظلوم فلسطین اپنے آزادی اور استقلال کے حق سے دستبردار ہو جائے تو تا ابد غلامی ان کا مقدر ہو جائے گا۔

حق استقامت یعنی اپنی ناموس، آزادی اور استقلال کا حق بین الاقوامی قوانین اور عرف و اصولوں کے مطابق ایک تسلیم شدہ حق ہے۔ جنگ عظیم دوم میں جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا تو فرانس کی ملت اس قبضے کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھی رہی بلکہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ قابض جرمنی کے پنجوں سے اپنے ملک کو چھڑا سکیں۔ آزادی اور استقلال کے لئے استقامت بین الاقوامی قوانین سے ہٹ کر دنیا کے ہر مذہب میں تسلیم شدہ حق ہے، قرآن مجید کی سورہ مبارکہ شوری کی آیہ 39میں آیا ہے کہ "والذین اذا اصابتھم البغی ھم ینتصرون"۔
 
Top