• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسائل اور احکام رمضان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسائل اور احکام رمضان

روزوں کی فرضیت کا بیان:
ہر عاقل وبالغ مسلمان پر رمضان کے روزے فرض ہیں، ارشاد فرمایا:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ: ۱۸۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا فرض کر دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر فرض کیا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘
روزوں کی فضیلت کا بیان:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
(بخاری: ۱۸۹۹۔ مسلم: ۱۰۷۹)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص ایمان کے ساتھ خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پہلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری: ۲۰۱۴۔ مسلم: ۷۵۹)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ابن آدم کا ہر (نیک) عمل بڑھا دیا جاتا ہے، اس طرح کہ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، سوائے روزے کے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وہ (خالصتاً) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا، اس لیے کہ ابن آدم میری رضا کے لیے اپنی شہوت اور اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔ روز دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی جب اس کی اس کے پروردگار سے ملاقات ہوگی اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
(مسلم: ۱۶۴/ ۱۱۵۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چاند دیکھنے کا بیان:
جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب (عید) کا چاند دیکھ لو تو افطار کر دو لیکن اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کے لیے اندازہ لگا لو‘‘ پھر اس کے لیے تیس دن کی گنتی پوری کرو۔
(صحیح مسلم۱۰۸۰ )
روزوں کے آداب بیان:
استقبال رمضان کے نام سے روزہ رکھنا جائز نہیں، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے، البتہ جو شخص کسی دن (یعنی سوموار یا جمعرات وغیرہ) کا روزہ رکھتا آ رہا ہو تو وہ رکھ لے۔‘‘
(بخاری: ۱۹۱۴۔ مسلم: ۱۰۸۲)

اگر کسی کی نفل روزے رکھنے کی عادت نہ ہو تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد نفل روزےرکھنا جائز نہیں، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ نہ رکھو۔‘‘
(ابوداؤد: ۲۳۳۷)

فجر سے پہلے فرض روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔
[نسائی: ۲۳۳۸، ۲۳۴۵]

نفل روزے کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔
[مسلم: ۱۱۵۴]

نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، نیت کے مروجہ الفاظ ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ‘‘ یہ بے اصل ومن گھڑت ہیں۔

سحری سے متعلق رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
[بخاری: ۱۹۲۳۔ مسلم: ۱۰۹۵]
’’سحری میں برکت ہے، لہٰذا اسے مت چھوڑو، اگر چہ تم میں سے کوئی پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لے، یقینا اﷲ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمتیں نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے ان کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔‘‘
(مسند احمد: ۳/ ۱۲، ۴۴،ح: ۱۰۹۱، ۱۱۴۰۲)

سحری کھاتےہوئے آذان فجر شروع ہو جائے اور اسے علم ہو کہ یہ آذان طلوع فجر کے بعد ہو رہی ہے تو اس کے لیے واجب ہے کہ کھانا پینا بند کر دے اور اگر وہ مؤذن کا حال نہیں جانتا کہ اس نے آذان طلوع فجر کے بعد کہی ہے یا پہلے تو بہتر اور احتیاط اسی میں ہے کہ آذان سنتے ہی کھانا پینا بند کر دے البتہ اگر اس کے ہاتھ میں برتن ہو تو اسے اپنی حاجت پوری کر لینے کی رخصت ہے ۔
(ابوداؤد۲۳۵۰)

سحری تاخیر سے کرنی چاہیے اور افطاری جلدی، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یقینا ہم انبیاء کا گروہ ہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی سحری میں تاخیر کریں اور افطاری میں جلدی کریں۔‘‘
(صحیح ابن حبان: ۱۷۰۷۰)

افطار کی یہ دعا مسنون ہے:
((ذَھَبَ الظَّمَاُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اﷲ))
’’پیاس دور ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا۔‘‘
(ابوداؤد: ۲۳۵۷سندہ حسن )

سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کروایا، تو اسے ان روزے داروں کے برابر ثواب ملے گا، باوجود اس کے کہ ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہو گی۔‘‘
(ابن ماجہ: ۱۷۴۶)

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاں روزہ افطار کیا تو انہیں یہ دعا دی:
((اَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّائِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ))
’’تمہارے ہاں روزے دار روزہ افطار کرتے رہیں، تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور فرشتے تمہارے لیے رحمت کی دعائیں کریں۔‘‘
(صحیح ابن ماجہ: ۱۷۴۷، صحیح ابی داود: ۳۸۵۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزہ دار کے لیے جائز اُمور کا بیان:

حالت روزہ میں بغیر مبالغہ کے کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا جائز ہے۔
(ابوداؤد:۲۳۸۵۔ ابن ماجہ: ۴۰۷)

بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کوئی بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، کیوں کہ اسے اﷲ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
(بخاری: ۱۹۳۳)

روزہ دار کے لیے دن کے کسی بھی حصے میں مسواک کرنا جائز ہے اور ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے بچنے میں ہی احتیاط ہے۔
(ارواء الغلیل: ۱/ ۶ا۔ بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۴)

روزہ دار کے لیے گرمی، پیاس یا کسی اور وجہ سے غسل کرنا جائز ہے۔
(ابوداؤد: ۲۳۶۵)

روزہ کی حالت میں مذی خارج ہو، یا احتلام ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتاہے، جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا ۔‘‘
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۸]

حالت روزہ میں سر پر تیل لگانا اور کنگھی کرنا جائز ہے۔
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۰]

روزہ دار کے لیے سرمہ استعمال کرنا جائز ہے۔
[ابوداؤد: ۲۳۷۹]

اگر ہنڈیا یا کسی اور چیز کاذائقہ چکھ لیا جائے، بشرطیکہ وہ چیز حلق سے نیچے نہ جائے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
اس میں کوئی حرج نہیں۔
[بخاری، تعلیقا، قبل الحدیث: ۱۹۳۰]

منہ میں موجود اپنا تھوک نگل لینے سے، یا مکھی کے حلق میں داخل ہو جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیوں کہ ان چیزوں سے روزہ ٹوٹنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔

سینگی یا پچھنے لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اور روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔
[بخاری: ۱۹۳۸، ۱۹۳۹]

حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کرنا جائز ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ فجر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ صحبت کی وجہ سے جنبی ہوتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے ہیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔
[بخاری: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶۔ مسلم: ۱۱۰۹، ۱۱۱۰]

خود بخود قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
[البیھقی: ۴/ ۲۱۹۔ ابن ابی شیبہ: ۳/ ۳۸]

امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ناک میں دوا (وغیرہ) ڈالنے میں، اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
[بخاری، بعد الحدیث: ۱۹۳۴]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزہ دار کے لیے حرام افعال کا بیان:
روزہ دار کے لیے غیبت کرنا، لڑائی، جھگڑا کرنا، جھوٹ بولنا اور گالی دینا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہیں، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
[بخاری: ۱۹۰۳]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم میں سے کوئی روزے دار ہو تو اسے چاہیے کہ فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور مچائے اور اگر کوئی اسے گالی دے، یا اس سے لڑنا چاہے تو اسے یہ جواب دے کہ میں روزہ دار ہوں۔‘‘
[بخاری: ۱۹۰۴]

روزہ دار کے لیے بے ہودہ، فحش اور جہالت کے کام یا گفتگو کرنا منع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو لغو (یعنی ہر بے فائدہ کام) اور رفث (یعنی ہر بے ہودہ حرکت) سے بچنے کا نام ہے، لہٰذا اگر تمہیں کوئی (دوران روزہ) گالی دے، یا جہالت کی باتیں کرے تو اسے کہہ دو کہ میں تو روزہ دار ہوں، میں تو روزہ دار ہوں۔‘‘
[صحیح ابن خزیمۃ: ۳/ ۲۴۲، ح: ۱۹۹۶]

جو شخص ضبط نفس کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کے لیے اپنی بیوی سے بوس وکنار کرنا اور اس سے بغل گیر ہونا جائز نہیں، کیوں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو اس کام کی اجازت دی تھی اور نوجوان کو روک دیا تھا۔
[ابوداؤد: ۲۳۸۷]

یاد رہےکہ حالت روزہ میں بیوی کو بوسہ دینا اور جماع کے علاوہ مباشرت کرنا، بشرطیکہ ضبط نفس کی طاقت ہو، جائز ہے۔
[بخاری: ۱۹۲۷، ۱۹۲۸۔ مسلم: ۱۱۰۶]

روزہ کی حالت میں ناک میں مبالغہ سے پانی چڑھانے سے منع کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(وضو کرتے ہوئے) ناک میں خوب پانی چڑھاؤ، سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔‘‘
[ابوداؤد: ۲۳۶۶۔ ابن ماجہ: ۴۰۷]
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزہ کو توڑنے والے امور کا بیان:
جان بوجھ کر حالت روزہ میں کھاپی لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
[البقرۃ: ۱۸۷۔ مسلم: ۱۶۴/ ۱۱۵۱]

رمضان میں حالت روزہ میں، یا فرض روزہ کی قضائی کے وقت جماع کرنے سے مرد وعورت دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ مرد ایک غلام آزاد کرے، اگر طاقت نہیں تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے، اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
[بخاری: ۱۹۳۶۔ مسلم: ۱۱۱]

مرد کے لیے کفارہ کے ساتھ روزہ کی قضائی دینا ہوگی۔
(ابن ماجہ، ۱۶۷۱/ الالبانی۔ اور صحیح ابوداؤد، ۲۳۹۳الالبانی)

قضاء، کفارہ اور اللہ تعالیٰ سے توبہ تینوں کام لازم ہیں
فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ للبعوث العلمیہ والافتاء (۱۰/ ۳۰۴ )

عورت روزہ ٹوٹنے کی وجہ سے روزہ کی قضائی اور استغفار کرے گی۔ (واﷲ اعلم)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں مشت زنی رمضان اور غیر رمضان میں جائز نہیں بلکہ یہ گناہ اور جرم ہے ۔اس کا کفارہ یہ ہے کہ سچی توبہ اور نیک اعمال کیے جائیں۔ رمضان کے دن کے وقت اگر اس فعل بد کا ارتکاب ہوا ہوتو اس سے اُس کے گناہ میں اور بھی اضافہ ہو گا اور اس دن کے روزے کی قضاء بھی ضروری ہے۔
(فتاویٰ اسلامیہ جلد۲،ص،۱۷۸)

عمدًا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کسی کو قے آ جائے، جب کہ وہ روزہ سے ہو تو اس پر کوئی قضا نہیں ہے لیکن اگر وہ قصدا قے کرے تو قضا دے کیونکہ ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘
[ابودؤد: ۲۳۸۰]

عورت کو حیض یا نفاس شروع ہو جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو جاتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے، یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔‘‘
[بخاری: ۱۹۵۱]

دوران روزہ میں ٹیکہ لگوانے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ایسا ٹیکہ جس کا مقصد خوراک یا قوت کی فراہمی نہ ہو، بلکہ صرف بیماری کا علاج ہو، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، لیکن احسن وبہتر یہی ہے کہ اس سے بھی بچا جائے۔ اور اس کو افطاری کے بعد یا سحری کے وقت لگایا جائے۔ (واﷲ اعلم)

نکسیر پھوٹنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ اس سے روزہ ٹوٹنے کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔

بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے اس کی ماں کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔


کسی مریض کو خون کا عطیہ دینے، یا ٹیسٹ وغیرہ کہ لیے خون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزوں میں رخصت کا بیان:
مسافر کے لیے روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں طرح جائز ہے، سیدنا حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’کیا میں سفر میں روزہ رکھوں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو چھوڑ دو۔‘‘
[بخاری: ۱۹۴۳]

حیض ونفاس والی عورت کو مذکورہ حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزے رکھتی ہے۔‘‘
[بخاری:۱۹۵۱]
لیکن یہ عورت بعد میں روزوں کی قضا دے گی۔
[مسلم: ۶۹/ ۳۳۵]

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے بھی مسافر کی طرح روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں طرح جائز ہے، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز اور روزہ معاف کر دیا ہے اور دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت سے بھی روزہ معاف کر دیا ہے۔‘‘
[ابوداؤد: ۲۱۰۷۔ ابن ماجہ: ۱۶۶۸]
لیکن یہ بعد میں روزوں کی قضادیں گی۔

بیمار آدمی کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔‘‘
[البقرہ: ۱۸۵]

بڑھاپا یا اسی دائمی بیماری جس کے ختم ہونے کی امید نہ ہو، تو اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
’’بوڑھے شخص کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دی گئی ہے، وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو (دو وقت کا) کھانا کھلا دے اور اس پر قضا نہیں۔‘‘
[مستدرک حاکم: ۱/ ۴۴۰۔ الدارقطنی: ۲/۲۰۵]

مشقت والے عمل کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں ۔البتہ دوران روزہ اگر ہلاکت کا خدشہ ہو تو روزہ کھولا جا سکتا ہے جس کی بعد میں قضا دی جائے گی ۔اگر کام پر مشقت ہو تو رمضان میں اس کام کو ترک کر دے ،اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ایسا کام کرنا جائز نہیں جس کے سبب روزے چھوڑنے پڑیں ،لہٰذا کوئی اور نوکری تلاش کرے۔
(اسلام سوال وجواب :65803)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزوں کی قضا کا بیان:
جو شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے کوئی روزہ چھوڑ دے تو اس کے لیے بعد میں اس کی قضا دینا ضروری ہے، اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔‘‘
[البقرۃ: ۱۸۴]

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
’’ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا۔‘‘
[مسلم: ۶۹/ ۳۳۵]

فرض روزے کی قضا جتنی جلد ممکن ہو دینی چاہیے، اگر استطاعت نہ ہو تو آئندہ رمضان سے پہلے کسی وقت بھی قضا دی جا سکتی ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میرے ذمے رمضان کے روزے ہوتے تو میں شعبان کے علاوہ ان کی قضا دینے کی طاقت نہ رکھتی۔‘‘
[بخاری: ۱۹۵۰]

حیض ونفاس کی وجہ سے اگر کسی عورت کے روزے رہ جائیں تو اس عورت پر ان کی قضا واجب ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
[مسلم: ۲۹/ ۳۳۵]

اگر میت کے ذمے فرض یا نذر کے روزوں کی قضا ہو تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے روزے رکھنے چاہئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے (فرض) روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘
[بخاری ۱۹۵۲۔ مسلم: ۱۱۴۷]

بعض لوگ رمضان کے آخری جمعہ کو قضائے عمری کے نام سے ایک نماز ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضائی ہو گی، یہ صریح بدعت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیام اللیل کا بیان:

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے رمضان میں قیام کیا اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
[بخاری: ۲۰۰۹]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں (رات کی نماز) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(بخاری :۱۱۴۷۔مسلم:۷۳۸)

قیام اللیل دو دو رکعت کر کے ادا کرنا چاہیے۔
[مسلم: ۷۳۶۔ بخاری: ۹۹۰]

عورتیں بھی مسجد میں قیام اللیل کی جماعت میں شرکت کر سکتی ہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو قیام اللیل میں شریک فرمایا۔
[ابوداؤد: ۱۳۷۵]
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتکاف کا بیان:
اعتکاف سنت ہے، لیکن اگر کوئی اعتکاف کی نذر مان لے تو نذر پوری کرنا ضروری ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جو اپنی نذر پوری کرتے ہیں۔‘‘ [الدھر: ۷]

اعتکاف کے لیے نیت ہے، لیکن نیت ضروری کے لیے ’’نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتَکَافِ‘‘ یا دیگر الفاظ بدعت ہیں، نیت دل کا فعل ہے۔

اعتکاف رمضان کے علاوہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ایام کی کوئی حد بندی نہیں، ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف بھی کیا جا سکتا ہے۔
[بخاری: ۲۰۳۲]

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف تھا
[بخاری:۲۰۲۶،۲۰۲۵]
البتہ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے عشرے کا بھی اعتکاف کیا تھا۔
[بخاری: ۲۰۳۳]

اعتکاف کرنے والے کا زیادہ وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں گزرنا چاہیے، میل ملاقات اور ہنسی مذاق رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، موبائل فون پر کاروبار کی باتیں اور ہنسی مذاق سے بچنا ضروری ہے۔ معتکف کا کاروبار کے لیے یا کسی کی عیادت اور جنازے کے لیے مسجد سے باہر جانا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔

سگریٹ حرام چیز ہے، معتکف کیلئے راتوں کو سگریٹ اور حقہ پینا قطعا جائز نہیں ہے۔

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تو کسی ضروری حاجت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
[بخاری: ۲۰۲۹]

معتکف کی بیوی کا معتکف سے ملاقات کے لیے مسجد میں آنا، اس سے باتیں کرنا، اس کے سر میں کنگھی کرنا اور معتکف کا اسے گھر تک چھوڑنے کے لیے جانا جائز ہے۔
[بخاری: ۲۰۲۹، ۲۰۳۵، ۲۰۳۸]
لیکن اس سے جماع وبوس وکنار جائز نہیں۔
[البقرۃ: ۱۸۷]

معتکف اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اعتکاف چھوڑنا چاہتا ہے تو چھوڑ سکتا ہے اور اگر اعتکاف بوجہ نذر نہیں تھا تو اس کی قضاء ضروری نہیں، لیکن قضاء دینا بہتر ہے۔
[بخاری: ۲۰۳۳]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لیلۃ القدر کا بیان
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌ ﴿٥[القدر: ۳تا۵]
’’قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں۔ وہ رات فجر طلوع ہونے تک سراسر سلامتی ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
[بخاری: ۲۰۱۴]

لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں کوئی ایک رات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
[بخاری: ۲۰۱۷]
 
Top