• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مستور الحال کی اقتداء میں نماز

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مستور الحال کی اقتداء میں نماز
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و من أصول أھل السنۃ و الجماعۃأنھم یصلون الجمع والأعیاد و الجماعات،لا یدعون الجمعۃ والجماعۃ کما فعل أھل البدع من الرفضۃ وغیرھم۔فان کان الامام مستوراًلم یظہر منہ بدعۃ ولا فجور صُلِّی خلفہ الجمعۃ والجماعۃ باتفاق الائمۃ الاربعۃ وغیرھم من أئمۃ المسلمین،ولم یقل أحد من الائمۃ:انہ لاتجوز الصلاۃ الاخلف من عُلِم باطن امرہ،بل مازال المسلمون من بعد نبیھم یصلون خلف المسلم المستور۔۔
وأمااذالم یکن الصلاۃ الاخلف المبتدع أو الفاجر کالجمعۃ التی امامھا مبتدع أو فاجر و لیس ھناک جمعۃ اخری فھذہ تصلیٰ خلف المبتدع و الفاجر عند عامۃ أھل السنۃ و الجماعۃ۔
وکان بعض الناس اذا کثرت الأھواءیجب أن لا یصلی الاخلف من یعرفہ علی سبیل الاستحباب،کمانقل ذلک عن احمد أنہ ذکر ذلک لمن سألہ،ولم یقل أحمد انہ لا تصح الاخلف من أعرف حالہ۔
فالصلاۃ خلف المستور جائزۃ باتفاق علماء المسلمین،ومن قال:الصلاۃ محرمۃ أو باطلۃ خلف من لا یُعرَف حالہ۔فقدخالف اجماع أھل السنۃ و الجماعۃ۔۔
فالو جب علیٰ المسلم اذا صار فی المدنیۃ من مدائن المسلمین أن یصلی معھم الجمعۃ و الجماعۃ و یوالی المومنین ولا یعادیھم۔وان رأی بعضھم ضالاً أو غاویاً وأمکن أن یھدیہ ویرشدہ فعل ذلک،والافلا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا۔واذکان قادراً علی أن یولی فی امامۃ المسلیمن الأفضل ولَّاہ،وان قدرأن یمنع من یظہر البدع و الفجور منعہ۔وان لم یقدر علیٰ ذلک فالصلاۃ خلف الأعلم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ الأسبق الیٰ طاعۃ اللہ ورسولہ أفضل،کما قال النبیﷺ فی الھدیث الصحیح:(یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللہ،فان کانوا فی القراۃ سواء فأعلمھم بالسنۃ،فان کانوا فی السنۃ سواءفاقدمھم ھجرۃ،فان کانوا فی الھجرۃ سواء فأقدمھم سناًّ)وان کان فی ھجرہ لمظھر البدعۃ والفجورمصلحۃ راجحۃ ھجرہ،کماھجر النبیﷺ الثلاثۃ الذین خلِّفوا حتی تاب اللہ علیھم۔وأما اذا وُلِّی غیرہ بغیر اذنہ و لیس ترک الصلاۃ خلفہ مصلحۃ شرعیۃ کان تفویت ھذہ الجمعۃ والجماعۃ جھلاً و ضلالاً وکان رد بدعۃ ببدعۃ‘‘

اہلسنت و الجماعت کے اصول میں ہے کہ وہ جمعہ،عید اورجماعت کی نمازوں میں شرکت کرتے ہیں اور جمعہ و جماعت کو نہیں چھوڑتے،جیسا کہ روافض یا دیگر اہل بدعت کرتے ہیں۔چنانچہ اگر امام مستورالحال ہو اور انسان اس کےہاں کوئی بدعت یا فسق وفجور نہ پائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کے پیچھے جمعہ وجماعت کی نماز ادا کرنی چاہیے۔ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ جب تک آدمی اس کی اصل حقیقت حال معلوم نہ جان لے اس وقت تک اس کے پیچھے نماز جائز نہیں،بلکہ نبی کریمﷺکے عہد سے لے کراب تک مسلمان مستور الحال مسلمان کے پیچھے نماز ادا کرتے آئے ہیں۔۔۔تاہم جب ایک بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نمازادا کرنے کے علاوہ اور کہیں جماعت ممکن نہ ہو مثلاً امام جمعہ بدعتی یا فاجر ہو اور وہاں کہیں دوسرا جمعہ نہ ہوتا ہوتوایسی صورت میں عام اہلسنت و الجماعت کے ہاں اس بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نماز ادا کی جائے گی۔
تاہم جب اھواء و شہوات کی بھرمار ہوئی تو بعض حضرات بطور استحباب کسی شخص کے بارے میں جان کے ہی اس کے پیچھے نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے،
جیسا کہ امام احمدرحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک سائل کو یہ بات کہی تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب تک کسی کا حال معلوم نہ ہوجائے تب تک اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
ایک مستور الحال کی اقتداء میں نماز کے جواز پر جملہ مسلمان ائمہ کا اتفاق ہےاورجو شخص یہ کہتا ہے کہ جس آدمی کے بارے میں علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز حرام یا باطل ہے تو وہ اہلسنت و الجماعت کے اجماع کامخالف ہے
۔۔۔چنانچہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہریا علاقہ میں ہو تو وہ ان کے ساتھ جمعہ و جماعت میں شرکت کرے اور مسلمانوں سے تعلق،وفاداری اور دوستی رکھے اور ان سے دشمنی یا بیر نہ رکھے۔اگر ان میں سے کسی کو گمراہ یا غلط راستے پر پڑا ہو ا دیکھے اور اسےہدایت واور رشدونصیحت کا راستہ دکھا سکتا ہو تو یہ کام ضرور کرے،بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر زیادہ مکلّف نہیں کرتا۔امامت کے منصب پر کسی افضل آدمی کو فائز کرانے میں اسکی چلتی ہو توضرور ایسا کرے۔بدعت اور فسق و فجور عام کرنے والوں کو روکنے کی طاقت رکھتا ہوتویہ کام بھی ضرور کرے۔تاہم اگر مذکور استطاعت نہ ہو تو ایسے شخص کے پیچھے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺکا علم زیادہ رکھتا ہو اور دوسروں سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت کرتا ہو نماز ادا کرنا افضل ہے
جیسا کہ نبی کریمﷺسے صحیح حدیث مروی ہے:’’کہ امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا زیادہ قاری ہو،اگر قرأت میں سب برابر ہوں تو ان میں سے جو سنت کا بڑا عالم ہو اور اگر سنت کے علم میں برابر ہوں تو جس نے ہجرت پہلے کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بزرگ ہو
۔۔۔۔۔بدعت و فجور کے اعلانیہ کرنے والے سے ہجر وکنارہ کشی اور روکجی اختیار کرنے میں کوئی رائج مصلحت ہوتو اس سے یہی رویہ روارکھے جیسا کہ نبی کریمﷺنےان تین صحابیوں سے یہ رویہ رکھا تھا جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما کی تاہم جب اس کی رضا مندی کے بغیر ایسے شخص کو امام بنایا جائے اور اس کی امامت میں نماز ترک کرنے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو جمعہ اور جماعت کو فوت کرنا جہالت اور گمراہی ہے اور ایسا آدمی بدعت کا جواب بدعت سے دیتا ہے‘‘(مجموع الفتاوی،ج۳ص۲۸۰۔۲۸۶)
الجنۃ الدائمہ للافتاء سے سوال کیا گیا:
اگر ذبح کرنے والے کے عقیدے کو علم نہ ہو تو اس کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اگر وہ ظاہراً مسلمان ہو اور انسان اس کے عقیدے کو نہ جانتا ہو،اسی طرح اس کے متعلق یہ بھی علم نہ ہو کہ اس کے عقیدے میں انحراف پایا جاتا ہے،تو ایسے مجہول الحال شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا اور اس کا ذبح کیا ہواگوشت کھانا صحیح ہے‘‘(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:7/365)
 
Top