• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبریں؟؟

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم شیوخ کیا یہ روایت صحیح ہے

5769 عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ : " فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قُبِرَ سَبْعُونَ نَبِيًّا " .
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد كتاب الحج باب في مسجد الخيف
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیوخ کیا یہ روایت صحیح ہے
5769 عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ : " فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قُبِرَ سَبْعُونَ نَبِيًّا " .
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد كتاب الحج باب في مسجد الخيف
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی جواب میں تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ،

یہ روایت امام طبرانی ؒ کی کتاب المعجم الکبیر میں ہے :
13525 - حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا عِيسَى بْنُ شَاذَانَ، ثنا أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِينَ نَبِيًّا»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبریں ہیں "

یہ حدیث کئی علتوں کے سبب ضعیف ہے :

اس کی اسناد کا مدار ( إِبْرَاهِيم بن طهْمَان اور عيسى بن شاذان ) پر ہے ،
إبراهيم بن طهمان کو امام ذہبیؒ نے ۔۔ ديوان الضعفاء ۔۔ میں درج فرمایا ،وقال : ( ضعفه محمد بن عبد الله بن عمار
ديوان الضعفاء للذهبي ص 17 رقم 195 )

اور عيسى بن شاذان کے متعلق امام أبو داود السجستاني کہتے ہیں : ( عنده مناكير ) اس کے ہاں منکر روایات ہیں ،
[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل ص 210 رقم 238] ،
اور امام ابن حبان اسے الثقات میں درج فرمایا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی روایات میں غرابت پائی جاتی ہے : ( عِيسَى بن شَاذان من أهل الْبَصْرَة يروي عَن أَبِي الْوَلِيد الطَّيَالِسِيّ وَكَانَ من الْحفاظ مِمَّن يغرب )[الثقات لابن حبان 8/494 رقم 14625].
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ناصر الدین الالبانی ؒ (تحذیر الساجد ) میں اس حدیث کے متلق لکھتے ہیں :

الأول: أننا لا نسلم صحة الحديث المشار إليه لأنه لم يروه أحد ممن عني بتدوين الحديث الصحيح ولا صححه أحد ممن يوثق بتصحيحه من الأئمة المتقدمين ولا النقد الحديثي يساعد على تصحيحه فإن في إسناده من يروي الغرائب وذلك مما يجعل القلب لا يطمئن لصحة ما تفرد به "
قال الطبراني في معجمه الكبير " (3 / 204 / 2) : حدثنا عبدان بن أحمد نا عيسى بن شاذان نا أبو همام الدلال نا إبراهيم بن طمهان عن منصور عن مجاهد عن ابن عمر مرفوعا بلفظ: " في
مسجد الخيف قبر سبعين نبيا "
وأورده الهيثمي " المجمع " (3 / 298) بلفظ: قبر سبعون نبيا "
وقال: " رواه البزار ورجاله ثقات "
وهذا قصور منه في التخريج فقد أخرجه الطبراني أيضا كما رأيت
قلت: ورجال الطبراني ثقات أيضا غير عبدان بن أحمد وهو الأهوازي كما ذكر الطبراني في " المعجم الصغير " (ص 136) ولم أجد له ترجمة وهو غير عبدان بن محمد المروزي وهو من شيوخ الطبراني أيضا في " الصغير " (ص 136) وغيره وهو ثقة حافظ له ترجمة في " تاريخ بغداد " (11 / 135) و " تذكرة الحفاظ " (2 / 230) وغيرها
لكن في رجال هذا الإسناد من يروي الغرائب مثل عيسى بن شاذان قال فيه ابن حبان في " الثقات ": " يغرب "
وإبراهيم بن طمهان قال فيه ابن عمار الموصلي: ضعيف الحديث مضطرب الحديث "
وهذا على إطلاقه وإن كان مردودا على ابن عمار فهو يدل على أن في حديث ابن طهمان شيئا ويؤيده قول ابن حبان في " ثقات أتباع التابعين " (2 / 1) :

یعنی مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبروں کی روایت کی صحت ناقابل تسلیم ہے ،کیونکہ صحیح احادیث کی جمع وتدوین کرنے والے معتبر ائمہ محدثین نے اسے روایت نہیں کیا ،اور متقدمین ائمہ حدیث جن کی تصحیح اور نقد پر اعتماد کیا جاتا ہے ان میں سے کسی نے اس حدیث کو صحیح نہیں کہا ،

نہ اصول حدیث کی رو سے اسے صحیح کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے بعض راوی ایسے ہیں جو ایسی عجیب و غریب باتیں روایت کرتے ہیں ، جو دوسرے ثقہ رواۃ کے ہاں نہیں ملتیں ، اسلئے تنہا ایسے راوی کی روایت کردہ حدیث کی صحت پر اعتماد و اطمینان نہیں کیا جاسکتا۔
اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں ۔عبدان بن احمد ۔عیسی بن شاذان کی سند ذکر کیا ہے ، اور یہاں عبدان بن احمد سے مراد عبدان اھوازی ہیں ، کتب رجال میں مجھے ان کا تذکرہ و ترجمہ نہیں ملا ، یہ عبدان بن محمد المروزی کے علاوہ ہیں جو طبرانی کے شیخ ہیں اور ثقہ ہیں ،
اس سند میں مذکور دوسرا راوی عیسی بن شاذان ہیں ، اور یہ غرائب یعنی غریب روایات نقل کرتے ہیں ، امام ابن حبان انکے متعلق لکھتے ہیں : یغرب ،
اس سند کے چوتھے راوی ابراہیم بن طہمان ہیں ، ابن عمار الموصلي ان کے بارے کہتے ہیں
: ضعيف الحديث مضطرب الحديث " یعنی ضعیف اور مضطرب الحدیث راوی ہیں۔
علامہ البانی آگے لکھتے ہیں :

وأنا أخشى أن يكون الحديث تحرف على أحدهما فقال: " قبر " بدل " صلى " لأن هذا اللفظ الثاني هو المشهور في الحديث فقد أخرج الطبراني في " الكبير (3 / 1551) بإسناد رجاله ثقات عن سعيد بن جبير عن ابن عباس مرفوعا:
صلى في مسجد الخيف سبعون نبيا. . .) الحديث وكذلك رواه الطبراني في
الأوسط " (1 / 119 / 2زوائده) (75) وعنه المقدسي في " المختارة " (249 / 2) والمخلص في "
الثالث من السادس من المخلصيات " (70 / 1) وأبو محمد بن شيبان العدل في " الفوائد " (2 / 222 / 2) وقال المنذري (2 / 116) : رواه الطبراني في الأوسط وإسناده حسن
ولا شك في حسن الحديث عندي فقد وجدت له طريقا اخرى عن ابن عباس
رواه الأزرقي في " أخبار مكة " (ص 35) عنه موقوفا عليه وإسناده يصلح للإستشهاد به كما بينته في كتابي الكبير " حجة الوداع "

یعنی مجھے ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں کسی راوی کی طرف سے تحریف و تصحیف ہوگئی ہے ، یعنی اصل لٖفظ تھا (صلى في مسجد الخيف سبعون نبيا ، یعنی مسجدِ خیف میں ستر انبیاء کرام نے نماز ادا کی)
جو تحریف کے سبب «فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِينَ نَبِيًّا» مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبریں ہیں " ہوگیا ۔
کیونکہ : طبرانی نے المعجم الکبیر میں ثقہ رجال کی سند سے بحوالہ سعید بن جبیر ، ابن عباس
رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مسجد خیف میں ستر انبیاء نے نماز پڑھی ہے " اور اسے طبرانی نے الاوسط میں بھی بعینہ روایت فرمایا ،
اور انہی سے دیگر محدثین نے نقل کیا ،اور امام منذریؒ نے اسے " حسن " کہا ، اور اس کے حسن ہونے میں کوئی شک نہیں ،
اسے ایک اور طریق سے علامہ ازرقیؒ نے اخبار مکہ میں ابن عباس ہی سے موقوفاً نقل فرمایا ، اس کی اسناد شاہد بننے کے لائق ہے ،
جیسا کہ میں نے اپنی کتاب
" حجة الوداع " میں واضح کیا ہے "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حدیث صحیح اسناد اور محفوظ متن سے حسب ذیل ہے :


قال الطبراني في المعجم الاوسط
5407 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَيْثَمَةَ قَالَ: نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الطُّوسِيُّ قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَّى فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُونَ نَبِيًّا، مِنْهُمْ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ عَبَاءَتَانِ قِطْرَانِيَّتَانِ، وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِ شَنُوءَةَ، مَخْطُومٍ بِخِطَامِ لِيفٍ لَهُ ضَفِيرَتَانِ»
وقال المنذري (2/ 116) رواه الطبراني في الأوسط , وإسناده حسن , ولا شك في حُسْن الحديث عندي.
سیدناعبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجدِ خیف میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام نے نماز ادا کی ، جن میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں اور ان پر دو قطوانی چادریں تھیں اور وہ حالتِ احرام میں قبیلہ شنوہ کے اُونٹوں میں سے ایک اونٹ پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی جس کی دو رسیاں تھیں۔‘‘

امام منذری ؒ فرماتے ہیں اسے طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا ، اور اسکی سند حسن ہے " (الترغيب والترهيب )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفي المعجم الكبير
12283 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَيْثَمَةَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَاشِمٍ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَّى فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُونَ نَبِيًّا مِنْهُمْ مُوسَى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ عباءتانِ قَطْوانِيَّتانِ وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِ شَنُوءةَ مَخْطُومٍ بِخِطَامِ لِيفٍ لَهُ ضَفْرَانِ»
سیدناعبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجدِ خیف میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام نے نماز ادا کی جن میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں اور ان پر دو قطوانی چادریں تھیں اور وہ حالتِ احرام میں قبیلہ شنوہ کے اُونٹوں میں سے ایک اونٹ پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی جس کی دو رسیاں تھیں۔‘‘
تخریج :
(معجم الطبراني الأوسط) 5407، (مستدرك الحاكم) 4169 , (سنن البيهقي الكبرى) 9618 , (الضياء) 309 ,
انظر : سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2023 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 1127 , ومناسك الحج والعمرة ص26 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبروں والی روایت اس لئے بھی صحیح نہیں کہ
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے مسجد خیف میں نماز ادا فرمائی ،
سنن الترمذی ، سنن النسائی ، سنن الدارمی میں حدیث شریف ہے کہ :
حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الخَيْفِ، ۔۔۔۔ الی آخرہ
یزید بن اسود عامری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی،۔۔۔۔۔ الخ
اگر وہاں قبریں ہوتیں تو آپ اس مسجد میں نماز ادا نہ فرماتے کیونکہ
آپ کی تعلیم یہ تھی کہ قبر والی جگہ کو مسجد نہ بنایا جائے ، اور مسجد میں قبر نہ لگائی جائے ،جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے :
عَنْ عَائِشَةَ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا -، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا -، ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَنِيسَةً رَأَتْهَا بِأَرْضِ الحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ، فَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - : «أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ، وَ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ »

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبش کے ملک میں دیکھا اس کا نام ماریہ (یعنی میری ، مریم ) تھا۔ اس میں جو مورتیں دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدتر ہیں۔
رواه البخاري في صحيحه حديث رقم 434, ورواه مسلم في صحيحه حديث رقم 528
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه : » أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يبنى على القبور أو يقعد عليها أو يصلى عليها «
رواه أبو يعلى في مسنده رقم 1020 وإسناده صحيح

سیدنا ابوسعیدروایت کرتے ہیں کہ : جناب رسول اللہ ﷺ نے قبر پر عمارت بنانے اور قبر پر بیٹھنے سے ، یا ان پر نماز پڑھنے سےمنع فرمایا "
 
Last edited:
Top