طرفین کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد یہی موقف زیادہ درست اور احتیاط والا لگتا ہے۔
ایک بات نوٹ کیجیے۔ جن علماء نے مسجد میں دوسری جماعت کو جائز کہا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کسی شرعی عذر کی وجہ سے جماعت اولیٰ چھوٹ جائے۔ ہمارے کچھ سلفی حضرات بالخصوص سعودیہ میں جماعت ثانیہ کا جو رواج بن چکا ہے کہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں کہ جماعت تو مل ہی جائے گی پہلی نہ سہی دوسری، تیسری، حتی کہ نوبت دسویں باھویں جماعت تک جا پہنچتی ہے، یہ صورت کسی کے نزدیک بھی مستحسن نہیں ہے۔ میرے ایک جاننے والے اسے سلفیوں کی بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔
والسلام علیکم
جامع ترمذی وغیرہ میں صحیح روایت ہے کہ
نبی کریمﷺ نماز پڑھا چکے تھے کہ اس شخص مسجد میں داخل ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«أيكم يتجر علىٰ هذا؟ » کہ ’’تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟‘‘ بعض روایات میں ہے:
« من يتصدق علىٰ هذا فيصلي معه » کہ ’’کون اس کے ساتھ نماز پڑھ کر اس پر صدقہ کرے گا؟‘‘ تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ نماز پڑھی ...
صحیح الترمذی: 220
جب حدیث مبارکہ موجود ہے تو اسے بدعت کہنا چہ معنیٰ دارد؟؟؟
یہ بدعت تو تب بنے گی جب اسے ہر نماز کا ایک جز سمجھ لیا جائے کہ جب تک ایک نماز باجماعت کے بعد دوسری جماعت نہ ہو تو نماز مکمل نہیں ہوگی۔
اگر فتنہ ڈالنا مقصد نہ ہو تو
مساجد میں دوسری جماعت کے منع ہونے کی کوئی ایک دلیل؟؟؟