• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد میں ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت بناکر نماز پڑھنا

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
جامع ترمذی وغیرہ میں صحیح روایت ہے کہ
نبی کریمﷺ نماز پڑھا چکے تھے کہ اس شخص مسجد میں داخل ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: «أيكم يتجر علىٰ هذا؟ » کہ ’’تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟‘‘ بعض روایات میں ہے: « من يتصدق علىٰ هذا فيصلي معه » کہ ’’کون اس کے ساتھ نماز پڑھ کر اس پر صدقہ کرے گا؟‘‘ تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ نماز پڑھی
السلام علیکم،
محترم بھائی، میری پچھلی پوسٹ پر غور کریں تو آپ کے سوال کا جواب وہیں پر مل جائے گا۔ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صحابہ کو نماز پڑھا کر فارغ ہو چکے تھے جب تاخیر سے آنے والے شخص مسجد میں داخل ہوئے۔ پھر جس صحابی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی وہ فرض نماز پہلے ہی باجماعت پڑھ چکے تھے، اب جو نماز انہوں نے پڑھی وہ نفل تھی پس اس حدیث سے "صلاۃ المتنفل خلف المفترض" کا جواز نکلتا ہے جسے دوسری جماعت میں "المفترض خلف المفترض" پر منطبق کرنا درست نہیں۔ یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کونسا گروہ اس بارے میں قیاس سے کام لے رہا ہے۔
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبداللہ حیدر صاحب !
آپ نے بعض خاص نوعیت کی مساجد میں دوسری جماعت کو جائز بتلایا ہے ۔
آپ برائے کرم اس کی خاص دلیل پیش کردیں یعنی مسئلہ جس نوعیت کا ہے دلیل بھی اسی نوعیت کی ہو، آپ کے فلسفہ "صلاۃ المتنفل خلف المفترض" کے پیش نظر ہم آپ سے اس طرح کے دلائل کامطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔

اوراگر عام دلائل پیش کرتے ہیں تو خاص مساجد کے ساتھ اس کی تخصیص کی دلیل پیش کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم،
محترم بھائی، میری پچھلی پوسٹ پر غور کریں تو آپ کے سوال کا جواب وہیں پر مل جائے گا۔ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صحابہ کو نماز پڑھا کر فارغ ہو چکے تھے جب تاخیر سے آنے والے شخص مسجد میں داخل ہوئے۔ پھر جس صحابی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی وہ فرض نماز پہلے ہی باجماعت پڑھ چکے تھے، اب جو نماز انہوں نے پڑھی وہ نفل تھی پس اس حدیث سے "صلاۃ المتنفل خلف المفترض" کا جواز نکلتا ہے جسے دوسری جماعت میں "المفترض خلف المفترض" پر منطبق کرنا درست نہیں۔ یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کونسا گروہ اس بارے میں قیاس سے کام لے رہا ہے۔
والسلام علیکم
میرے علم کے مطابق تو حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ امام یا مقتدی میں سے کون متنفل اور مفترض تھا ۔۔۔ لہذا ’’ صلاۃ المتنفل خلف المفترض ‘‘ کی تعیین کرنا صحیح نہیں ہے ۔۔ اور دوسری بات یہ کہنا کہ صلوۃ المفترض خلف المفترض اس سے ثابت نہیں ہو سکتا یہ بات بھی محل نظر ہے ۔۔

قرآن میں ہے فلا تقل لہما أف ماں باپ کو اف نہ کہو ۔
تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ یہاں صرف اف سے منع کیا گیا ہے لہذا بافی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی سب کچھ جائز ہے ؟؟؟
اسی وجہ سے علماء ترجمہ کرتے ہیں کہ’’ ان کو اف تک بھی نہ کہو ‘‘
کیونکہ جب اف کہنا حرام ہے تو باقی چیزیں تو بالأولی حرام ہیں ۔۔

یہاں بھی ( واللہ اعلم ) بقول حیدر بھائی کے اگر صلوۃ المتنفل خلف المفترض جائز ہے تو المفترض خلف المفترض تو بالأولی جائز ہو گی ۔۔
یہ تو ایک الزامی جواب دینےکی کوشش کی ہے پتہ نہیں صحیح ہے یا نہیں ۔۔

جو صحیح بات محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضور سے اس کی اجازت ثابت ہے تو اس کو کسی خاص حالت کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور جو خاص کرتے ہیں ان کو اس کی دلیل پیش کرنی چاہیے ۔۔ واللہ اعلم ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جس صحابی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی وہ فرض نماز پہلے ہی باجماعت پڑھ چکے تھے، اب جو نماز انہوں نے پڑھی وہ نفل تھی پس اس حدیث سے "صلاۃ المتنفل خلف المفترض" کا جواز نکلتا ہے جسے دوسری جماعت میں "المفترض خلف المفترض" پر منطبق کرنا درست نہیں۔
ہمارے پاس اس کے متعدد جوابات ہیں:
پہلا جواب:
اس حدیث میں جماعت بنانے والوں میں ایک صحابی کی نماز بے شک نفل تھی لیکن یہ حقیقی نفل نہیں تھی کیونکہ اصل میں وہ فرض نماز ہی تھی لیکن چونکہ اس نماز کو یہ صحابی ایک بار پڑھ چکے تھے اس لئے دوبارہ پڑھنے کی صورت میں یہ فرض نماز ان کے حق میں نفل ہوئی ، لہٰذا جب یہ بات ہے کہ اس حدیث میں نفل پڑھنے والے صحابی کی اصلا فرض نماز ہی تھی تو پھر کسی کے حق میں اس کے نفل بن جانے سے اس کے احکام نہیں بدل جائیں گے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی صورت پہلی جماعت میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ یہ پہلی جماعت ہوئی ہی نہیں بلکہ یہ تو کوئی اور جماعت ہے ، مثلاملاحظہ ہوں درج ذیل احادیث:

(الف):
نماز خوف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں میں ہر ایک کو دو دو رکعتیں پڑھائیں ، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل تھی جبکہ مقتدی دونوں مرتبہ فرض ادا کررہے تھے جیساکہ حدیث میں ہے ’’وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ، وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ‘‘ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھیں اور لوگوں نے دو،[بخاري 4136]۔

(ب) :
صحابی جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ، فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ‘‘ یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھرواپس آکر اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے[بخاري:700]۔

غورکیجئے کہ ان تمام صورتوں میں مقتدی حضرات نے اپنی پہلی جماعت ادا کی لیکن ان میں امام کی نماز نفل تھی اور مقتدی حضرات کی فرض !!!!!!!!!!
تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ یہ کوئی اور جماعت تھی اور اس میں شریک ہونے والوں نے پہلی جماعت ادا ہی نہیں کی جو کہ خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے بقول فرض ہے؟؟؟

ہمارے اس سوال کا سوچ سمجھ کر جواب دیا جائے کہ مذکورہ صورتوں میں مقتدی حضرات نے پہلی جماعت جو ان پر فرض تھی ، جسے فرض پڑھنے والے امام کے ساتھ ادا کرنا لازم تھا ، اسے پورا کیا یا نہیں؟؟ ان کے کندھوں سے پہلی جماعت کا فریضہ ساقط ہوا یا نہیں ؟؟؟

اگرکہاں جائے کہ ہاں مذکورہ صورت میں بھی ان مقتدی حضرات سے اس جماعت کا فریضہ ساقط ہوگیا جسے اصلا فرض پڑھنے والے امام کے ساتھ ادا کرنا ضروری تھا تو عرض ہے کہ:

اگر پہلی جماعت میں یہ صورت آجانے سے یہ جماعت اس جماعت کے برابر ہے جس میں سب کے سب فرض پڑھنے والے ہوتے ہیں تو پھر دوسری جماعت میں بھی یہ صورت آجانے سے یہ جماعت بھی اس جماعت کے برابر ہوگی جس میں سب کے سب فرض پڑھنے والے ہوں۔

لہٰذا مذکورہ احادیث میں :
جس طرح مقتدی حضرات کی پہلی جماعت میں پہلی صورت (اجتماع نفل وفرض ) والی جماعت ادا کرنے سے دوسری صورت (صرف فرض) والی جماعت ادا ہوجاتی ہے۔
ٹھیک اسی طرح دوسری جماعت میں پہلی صورت (اجتماع نفل وفرض ) والی جماعت کے جائز ہونے سے ، دوسری صورت (صرف فرض) والی جماعت بھی جائز ہوگی۔

دوسرا جواب:
اعتراض میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسری جماعت بنوائی اس میں ایک صحابی نفل پڑھنے والے تھے ۔
ہم کہتے ہیں کہ اس نکتے سے تو ہماری دلیل میں اورمضبوطی آجاتی ہے ، کیونکہ جب دوسری جماعت بنانے کے لئے وہ شخص بھی شامل ہوسکتا ہے جس نے ایک بارنماز پڑھ لی ہو ، اورجسے دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہ ہو ، تو پھر جس شخص نے ابھی نماز ہی نہ پڑھی ہو وہ تو بدرجہ اولی دوسری جماعت بنا سکتاہے کیونکہ اسے تو اس کی ضرورت ہے۔
نیز جب ایک نفل پڑھنے والےکے ساتھ جماعت بنانے سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے تو فرض پڑھنے والے کے ساتھ جماعت بنانے سے بدرجہ اولی ثواب ملنا چاہئے۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قُلْتُ إِذَا ثَبَتَ مِنْ حَدِيثِ الْبَابِ حُصُولُ ثَوَابِ الْجَمَاعَةِ بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ فَحُصُولُ ثَوَابِهَا بِمُفْتَرِضَيْنِ بِالْأَوْلَى وَمَنِ ادَّعَى الْفَرْقَ فَعَلَيْهِ بَيَانُ الدَّلِيلِ الصَّحِيحِ [تحفة الأحوذي:2/ 10]۔
میں کہتا ہوں: جب اس حدیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایک فرض پڑھنے والا اورایک نفل پڑھنے والا دونوں جماعت بنائیں توجماعت کا ثواب مل جاتا ہے تو پھر اگر دو فرض پڑھنے والے جماعت بنائیں تو انہیں بدرجہ اولی جماعت کا ثواب ملے گا اور جو فرق کا دعوی کرے گا اسے صحیح دلیل پیش کرنا ہوگا۔
تیسرا جواب:
مذکورہ حدیث سے محدود مشروعیت پر استدلال اس وقت درست ہوتا کہ جب اصلا دوسری جماعت کی ممانعت ہو ، یعنی شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ دوسری جماعت ممنوع ہے اس لئے جس نوعیت کا ثبوت ملے گا ، جواز بھی محض اسی نوعیت کے ساتھ محدود ہوگا۔
لیکن ایسا نہیں ہے یعنی اصلا دوسری جماعت ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے ، اور اسی اصل ہی کی بناپر بعض مساجدمیں دوسری جماعت کے جواز پر سب کا اتفاق ہے ، ورنہ اگر اصلا دوسری جماعت ممنوع ہوتی تو کسی بھی مسجد میں اس کے جواز کے لئے واضح ثبوت درکا ر ہوتے ۔
الغرض جب اصلا دوسری جماعت جائز ہے تو مذکورہ حدیث سے استدلال کو محدود نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جب اصلا دوسری جماعت جائز ہے تو پھر کس بنیاد پر درج بالا حدیث سے استدلال کو محدود کیا جارہاہے۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ عَدَمُ جَوَازِ تَكْرَارِ الْجَمَاعَةِ أَصْلًا لَا بِمُفْتَرِضَيْنِ وَلَا بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ فَالْقَوْلُ بِجَوَازِ تَكْرَارِهَا بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ وَعَدَمِ جَوَازِ تَكْرَارِهَا بِمُفْتَرِضَيْنِ مِمَّا لَا يُصْغَى إِلَيْهِ [تحفة الأحوذي:2/ 10]۔
اصلا دوسری جماعت کے ناجائز ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، خواہ دو فرض پڑھنے والے جماعت بنائیں یا ایک فرض اور ایک نفل والے ، لہٰذا یہ کہنا کہ ایک نفل اورایک فرض پڑھنے والے دوسری جماعت بناسکتے ہیں اور دو فرض پڑھنے والے دوسری جماعت نہیں بناسکتے ، ناقابل التفات ہے۔
چوتھا جواب:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے تمام المنہ میں ایک طرف تو مذکورہ حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں ایک شخص کی نماز نفل تھی اورنفل سے فرض کا مسئلہ ثابت نہیں ہوگا، جبکہ دوسری طرف موصوف نے خود بھی نفل سے فرض کا مسئلہ ثابت کررکھا ہے اوروہ بھی اسی کتاب تمام المنہ میں ۔
چنانچہ ص ٢٢٤ پر لکھتے ہیں کہ دوتشہدی والی نمازوں کے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا جائز ہے پھرانہوں نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی ہے جس میں مذکورہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں تہجد کی نماز دو تشہد اورایک سلام سے پڑھی اور دونوں تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود پڑھا چونکہ یہ نفل نماز تھی اس لئے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
ففيه دلالة صريحة على أنه صلى الله عليه و سلم صلى على ذاته صلى الله عليه و سلم في التشهد الأول كما صلى في التشهد الآخر وهذه فائدة عزيزة فاستفدها وعض عليها بالنواجذ ولا يقال : إن هذا في صلاة الليل لأننا نقول : الأصل أن ما شرع في صلاة شرع في غيرها دون تفريق بين فريضة أو نافلة فمن ادعى الفرق فعليه الدليل [تمام المنة ص: 225]۔
اس حدیث میں اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری تشہد کی طرح پہلے تشہد میں بھی اپنے آپ پر درود پڑھا ، یہ بہت اہم چیز ہے اسے نوٹ کرلو اور اس پرمضبوطی سے جم جاؤ ، اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیز تو رات کی نفل نماز میں ثابت ہے (نہ کہ فرض میں ) ، کیونکہ ہمارا جواب یہ ہوگا کہ اصلا جو چیز کسی ایک نماز میں مشروع ہوگی وہ دوسری نماز میں بھی مشروع ہوگی ، اس بارے میں فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں کیاجائےگا ، اور جوشخص فرق کا دعوی کرے گا اسے دلیل پیش کرنا ہوگا ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہی بات ہم دوسری جماعت کے بارے میں کہیں گے کہ جب ایک نماز میں دوسری جماعت کی مشروعیت ثابت ہوگئی تو دوسری نمازمیں بھی یہ مشروعیت ثابت ہوگی اس بارے میں فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا، اور جو فرق کا دعوی کرے گا اسے دلیل پیش کرنا ہوگا۔
یادرہے مصلحت کسی دلیل کا نام نہیں ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
آپ کے فلسفہ "صلاۃ المتنفل خلف المفترض" کے پیش نظر ہم آپ سے اس طرح کے دلائل کامطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔
اوراگر عام دلائل پیش کرتے ہیں تو خاص مساجد کے ساتھ اس کی تخصیص کی دلیل پیش کریں۔
السلام علیکم،
شیخ صاحب! دوسری جماعت کی کراہت امام سفیان الثوری، امام مالک بن انس، امام شافعی، امام ابوحنیفہ، عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے منقول ہے، دور حاضر میں شیخ ناصر الدین البانی اور ان کے شاگردوں کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہی مسئلے میں اختلاف کو آپ میرا فلسفہ قرار نہ دیں۔ اول تو فلسفے سے میرا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، دوم میں نے انہی علماء کا موقف پیش کیا ہے جن کے منہج کی درستگی آپ کے نزدیک بھی مسلم ہونی چاہیے۔ میرے پاس بحث میں الجھنے کا وقت نہیں۔ جو حضرات اس مسئلے کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں انہیں شیخ البانی کے ایک شاگرد مشھور بن حسن آل سلیمان کی کتاب اعلام العابد في حكم تكرار الجماعه في المسجد الواحد کے مطالعے کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ لنک بھی دیکھیے:
الحكم الشرعي في صلاة الجماعة الثانية في المسجد - منتديات بوابة العرب
الدرر السنية - إعلام العابد في حكم تكرار الجماعة في المسجد الواحد - الخاتمة
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
وعلیکم السلام ۔
بھائی ہمارا سوال کیا تھا اور جواب کیا ملا۔
سوال یہ تھا کہ بعض خاص مساجد میں دوسری جماعت کے جواز کی کیا دلیل ہے؟؟؟؟؟
اگرکوئی خاص دلیل ہے تو پیش کریں ، اور اگرعام دلیل ہے تو خصوصیت کی وجہ بتلائیں؟؟

اورآپ نے ممانعت کا قول بعض اہل علم کی طرف منسوب کیا ہے تو عرض ہے کہ :
اول:
تو ممانعت نہیں بلکہ کراہت یا ممانعت بمعنی کراہت کا قول مذکورہ شخصیات کی طرف منسوب ہے۔
دوم:
ان اہل علم میں سوائے امام شافعی کے کسی سے بھی ممانعت یا کراہت کا قول بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ متعدد اہل علم نے خلیفہ دوم عمرفاررق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیاکہ جہنم فنا ہوجائے گی لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا قول ماننے سے انکار کردیا کیونکہ یہ قول ان سے بسندصحیح ثابت نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ جب تک کسی امام کا قول بسندصحیح ثابت نہ ہو تب تک اس امام کی طرف بالجزم اس قول کی نسبت درست نہیں ہے۔

اس کے برخلاف بسندصحیح درجنوں سے زائد ائمہ و محدثین بشمول صحابہ کرام سے ، جماعت ثانیہ کے جواز کا قول مروی ہے ۔
صحابہ میں عبداللہ بن مسعود ، انس رضی اللہ عنہما سے جواز کا قول بسندصحیح منقول ہے اورصحابہ میں کوئی بھی ان کا مخالف نہیں ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هَذَا مِمَّا لَا يُعْرَفُ فِيهِ لِأَنَسٍ مُخَالِفٌ مِنْ الصَّحَابَةِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ [المحلى لابن حزم: 3/ 156]۔
جماعت ثانیہ کے جواز کی بابت انس رضی اللہ عنہ کی مخالفت صحابہ میں کسی ایک سے بھی منقول نہیں ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی جواز کا قول صحابہ کی طرف منسوب کیا ہے اور کراہت کا قول کسی ایک بھی صحابی کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ، اس بناپر ہما موقف یہ ہے کہ جماعت ثانیہ کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
السلام علیکم،
ایک بات نوٹ کیجیے۔ جن علماء نے مسجد میں دوسری جماعت کو جائز کہا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کسی شرعی عذر کی وجہ سے جماعت اولیٰ چھوٹ جائے۔ ہمارے کچھ سلفی حضرات بالخصوص سعودیہ میں جماعت ثانیہ کا جو رواج بن چکا ہے کہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں کہ جماعت تو مل ہی جائے گی پہلی نہ سہی دوسری، تیسری، حتی کہ نوبت دسویں باھویں جماعت تک جا پہنچتی ہے، یہ صورت کسی کے نزدیک بھی مستحسن نہیں ہے۔ میرے ایک جاننے والے اسے سلفیوں کی بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔
بہت شکریہ ۔ عبداللہ بھائی ۔ آپ کی بات ہم نے اچھی طرح نوٹ کرلی ہے ۔::) ۔ آپ کا نوٹ کچھ اس طرح ہونا چاہے تھا کہ '' عموما سعودیہ میں دیکھا گیا ہے کہ جماعت ثانیہ کا کچھ رواج بنتا جا رہا ہے ، لوگ سستی کر کے بیٹھے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ پہلی جماعت نکل جاتی ہے '' بات سسلفیوں کی ہو اور مبالغہ آرائی نہ ہو ، تحریر آپ کی ہے ،، لیکن ،، ، ،، ،، مجھے بتائیے سعودیہ کی کس مسجد میں ایک نماز کے لیے بارہ جماعتیں ہوتی ہیں ؟ ،،، صورت تو یہ بھی مستحسن نہیں کہ آپ چند لوگوں کی غفلت کو پورے سعودیہ اور سلفیوں کے گلے میں ڈال دیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں دوسری جماعت کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے ، لیکن بہت سے لوگ مذاہب اورجماعت باطلہ کے عشق میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ اللہ انہیں ہدایت دے ، آمین
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
آپ کا نوٹ کچھ اس طرح ہونا چاہے تھا کہ '' عموما سعودیہ میں دیکھا گیا ہے کہ جماعت ثانیہ کا کچھ رواج بنتا جا رہا ہے ، لوگ سستی کر کے بیٹھے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ پہلی جماعت نکل جاتی ہے '' بات سسلفیوں کی ہو اور مبالغہ آرائی نہ ہو ، تحریر آپ کی ہے ،، لیکن ،، ، ،، ،، مجھے بتائیے سعودیہ کی کس مسجد میں ایک نماز کے لیے بارہ جماعتیں ہوتی ہیں ؟ ،،،
میں نے "کچھ سلفی حضرات" کا لفظ استعمال کیا تھا جس کا مطلب ظاہر ہے کہ سب ایسا نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بھی خاصی تعداد میں ہیں جو تکبیر اولیٰ کی فضیلت پانے کے لیے اپنے کام بروقت سمیٹ کر پہلی صف میں موجود ہوتے ہیں۔ درست کہا کہ دس بارہ جماعتیں ہر جگہ ہر وقت نہیں ہوتیں لیکن تکرار جماعت کی کثرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
صورت تو یہ بھی مستحسن نہیں کہ آپ چند لوگوں کی غفلت کو پورے سعودیہ اور سلفیوں کے گلے میں ڈال دیں ۔
میرا اشارہ انہی چند لوگوں کی طرف تھا جو دوسری جماعت کے جواز کے موقف سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ورنہ سعودیہ کی بعض مساجد کی پہلی جماعت کے حاضرین کی تعداد ہمارے ہاں پورے محلے کے نمازیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں دوسری جماعت کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے ،
صحابہ کے اجماع والی بات ٹھیک نہیں لگ رہی۔ اوپر جس کتاب کا ذکر کیا گیا ہے اسے ایک دفعہ پڑھ لیں۔
لیکن بہت سے لوگ مذاہب اورجماعت باطلہ کے عشق میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ اللہ انہیں ہدایت دے ، آمین
یہ اشارہ اگر میری طرف ہے تو میں کسی جماعت کے عشق میں مبتلا نہیں ہوں اور یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوں کہ فقہی مسئلے میں ایک اختلاف کی وجہ سے مذاہب کا فرق کیسے پیدا ہو گیا۔
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
صحابہ کے اجماع والی بات ٹھیک نہیں لگ رہی۔ اوپر جس کتاب کا ذکر کیا گیا ہے اسے ایک دفعہ پڑھ لیں۔
صحابہ کرام میں انس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دوسری جماعت بسند صحیح ثابت ہے اس کے برخلاف بات کسی ایک بھی صحابی سے سرے منقول ہی نہیں ، نہ صحیح سند سے اورنہ ضعیف سند سے ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور بعض صحابہ سے جو عمل نقل کیا جاتا ہے اول تووہ بسندصحیح ثابت نہیں ، دوم اس میں دوسری جماعت سے ممانعت یا کراہت کی بات سرے سے موجود ہی نہیں۔
لہٰذا ابن حزم رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ:
هَذَا مِمَّا لَا يُعْرَفُ فِيهِ لِأَنَسٍ مُخَالِفٌ مِنْ الصَّحَابَةِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ [المحلى لابن حزم: 3/ 156]۔
جماعت ثانیہ کے جواز کی بابت انس رضی اللہ عنہ کی مخالفت صحابہ میں کسی ایک سے بھی منقول نہیں ۔

آپ نے جس کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے اس کتاب تک تو ہماری رسائی نہیں ہے لیکن اس کتاب کے مولف نے اپنی اس کتاب کا خلاصہ اپنی دوسری کتاب القول المبین میں پیش کیا ہے اس میں ہمیں ایسی کوئی بات نہیں ملی جس کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں۔

اصل کتاب اگر آپ کے پاس ہو تو مجھے ہدیہ کریں اگر واقعی اس کے اندر ان کے موقف کے دلائل مل گئے تو سرتسلیم خم کردیں گے۔
دیگر بھائیوں سے گذارش ہے کہ اگر مذکورہ کتاب کے بارے میں انہیں علم ہو اوراس کتاب کو یا اس کی فوٹو کاپی حاصل کرنا ممکن ہو تو مطلع کریں ۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
Top