• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد میں دوسری جماعت سے متعلق ایک مرفوع روایت کا درجہ

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ، نَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ نَوَاحِيَ الْمَدِينَةِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، فَذَهَبَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَجَمَعَ أَهْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ إِلَّا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، وَلَا رَوَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ "

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ۖ مدینہ کے اطراف میں واقع کسی علاقہ سے آئے آپ نمازپڑھنے کاارادہ کررہے توآپ نے لوگوں کوپایاکہ وہ نمازپڑھ چکے ہیں ،پھر آپ ۖ اپنے گھر تشریف لے گئے اوران کوجمع کیا پھران کو نماز پڑھائی۔
اس حدیث کوخالد الحذاء سے صرف معاویہ بن یحیی نے روایت کیاہے،اورمعاویہ سے صرف ولید بن مسلم نے روایت کیاہے،اوراسے ولید بن مسلم سے روایت کرنے میں ھشام بن خالد منفردہیں ۔
(أخرجہ الطبرانی فی الأوسط:(٥٠٧ـ٥١رقم٦٨٢٠)و اخرجہ فیہ (٣٥٥رقم٥٦٠١) عن شیخہ عبدان بن أحمد بہ، وأخرجہ ابن عدی فی الکامل فی ضعفاء الرجال :(٤٠٢٦)فقال:ثنا محمد بن الفیض الغسانی ثنا ہشام بن مخلد بہ ، وأخرجہ أیضاابن حبان فی المجروحین(٤٣) فقال : أخبرناالحسن بن سفیان قال:حدثنا ہشام بن خالد الازرق بہ )۔
ہمارے علم کی حدتک مذکورہ حدیث کوکسی بھی محدث نے صحیح نہیں کہاہے،بلکہ کئی محدثین وباحثین نے صراحةً یااشارةً اسے ضعیف قراردیاہے،چندکے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
(١):ـ ابوحاتم،محمد بن حبان التمیمی ،البستی،متوفی٣٥٤ھ۔
آپ کے نزدیک مذکورہ بالاروایت میں موجود راوی ''معاویہ بن یحیی الاطرابلسی '' ضعیف ہے،نیز آپ نے مذکورہ روایت کو،راوی مذکورکی ضعیف و منکر روایات میں شمارکیاہے،(المجروحین:٤٣)
(٢):ـ ابواحمد،عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی،متوفی٣٦٥ھ۔
آپ نے مذکورہ روایت کو معاویہ بن یحیی کی منکر روایات میں گنایاہے، (الکامل فی ضعفاء الرجال :١٤٣٨رقم١٨٨٦)۔
(٣):ـمحمدبن طاہرالمقدسی،متوفی٥٠٧ھ۔
آپ نے بھی ''معاویہ بن یحیی'' کوضعیف کہاہے ،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،(ذخیرة الحفاظ:٣٣٨١رقم٣٥٢)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمارکیاہے،(ذخیرةالحفاظ:٦٩٢ ٢رقم١٢٥٠)۔بلکہ اپنی کتاب''تذکرة الموضوعات'' میں بھی اسے نقل کیاہے،دیکھیں( تذکرة الموضوعات:باب الألف،ص٢٢،ط.مطبع السعادة،١٣٢٣)۔
(٤):ـأبوعبداللہ ،شمس الدین محمدبن احمد الذہبی، متوفی٧٤٨ھ۔
آپ نے بھی معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کوضعیف قراردیاہے ،(دیوان الضعفائ:ص٣٩٢رقم٤١٧٥، المغنی فی الضعفاء : رقم٦٣٢٦)،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،دیکھیں :(مستدرک ج٢ص١٩،دارالمعرفہ ،بیروت)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمار کیاہے، (میزان الاعتدال:ج٤ص١٣٩)۔
(٥):ـ حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب الدمشقی،متوفی٧٩٥۔
آپ نے واضح طورپراس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قراردیاہے(فتح الباری لابن رجب : ج٤ص٢٥)۔
(٦):ـ علامہ انورشاہ الکاشمیری،صاحب الفیض الباری،متوفی١٣٥٢ھ۔
آپ نے حنفی ہونے کے باوجود بھی اس روایت کے راوی معاویہ کومجروح قراردے کراس روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیاہے،(العرف الشذی:ج١ص٢٣٢)۔
(٧):ـ علامہ عبدالرحمن المبارکفوری،صاحب تحفة الأحوذی،متوفی١٣٥٣ھ۔
آپ نے اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اوراس پرہرلحاظ سے بحث کرکے جماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قراردیاہے،(تحفة الاحوذی:ج١ص١٣)۔
(٨):ـ علامہ عبیداللہ رحمانی المبارکفوری،صاحب المرعاة،متوفی١٤١٤ھ۔
آپ نے بھی اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قرار دیاہے،(مرعاة المفاتیح : ج٤ص١٠٥)۔
(٩):ـ الشیخ عبداللہ بن صالح الفوزان۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل اعتبار قرار دیاہے،(احکام حضورالمساجد:ص١٥٢ )
(١٠):ـ الشیخ حمد بن عبد اللہ الحمد۔
آپ اس روایت کوضعیف قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما ما ذكروه من حديث أبي بكرة، ففيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه، وفيه علة أخرى وهو أنه من رواية معاوية بن يحيى وهو مختلف فيه توثيقاً وتضعيفاً، وله مناكير وقد ذكر ابن عدي والذهبي هذا الحديث من مناكيره.[شرح زاد المستقنع للحمد 7/ 86، بترقيم الشاملة آليا]

(١١):ـ ڈاکٹرمحمدطاہرحکیم۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قرار دیاہے،(حکم تکرار الجماعة فی المسجد: ص ٨( الشاملہ))۔
(١٢):ـ ڈاکٹرابراہیم طہ القیسی،عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٣):ـ ڈاکٹرحمدی محمدمراد،نائب عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٤):ـ علی حسن علی الحلبی ۔
مؤخرالذکرتینوں حضرات نے مل کر ضعیف وموضوع احادیث وآثار کاایک ضخیم مجموعہ پندرہ(١٥) جلدوں میں تیارکیا ہے، اور مذکورہ روایت کو دوسری جلد میں نقل کیاہے،ملاحظہ ہو:(موسوعة الأحادیث والآثار الضعیفة والموضوعة :ج٢ص١١٥رقم٢٩٤٤)۔


 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تنبیہ اول:
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے بارے میں کہاہے کہ ''رجالہ ثقات''(مجمع الزوائد:١٧٣٢رقم٢١٧٧)، اس سے کسی کویہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کوصحیح کہہ رہے ہیں ،کیونکہ یہ جملہ حدیث کی تصحیح ہرگزنہیں ہے،بلکہ بسااوقات ''رجالہ ثقات'' کہناسند کے معلول ہونے کی طرف اشارہ ہوتاہے ،
دیکھئے:
قول المحدث’’رجاله ثقات‘‘و نحو ذلک لا يفيد تصحيح السند بل ربما يفيد خلافه: - ملتقى أهل الحديث

تنبیہ ثانی:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ''تمام المنہ'' میں زیر بحث روایت سے متعلق کہاہے کہ ''وھوحسن''(تمام المنة:ص٥٥ا)۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا قدیم فیصلہ ہے غالبایہ بات انہوں نے اس وقت کہی ہے جب وہ اس حدیث کی سند میں موجود علتوں سے واقف نہیں تھے ،لیکن بعدمیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے بہت ساری احادیث کوانہیں علتوں کے سبب ضعیف قراردیاہے جیساکہ ان کی بعد کی تحریروں سے واضح ہے،لہٰذا ان کی جدید تحقیق کے پیش نظرمذکورہ فیصلہ کوعلامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنامحل نظرہے،تفصیل آگے آرہی ہے۔

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ہماری نظرمیں حدیث مذکوردوعلتوں کے سبب ضعیف و ناقابل احتجاج ہے ،ملاحظہ ہو:
پہلی علت:
سند میں ''الولید بن مسلم ''ہیں یہ تدلیس کی سب سے بدترین قسم ''تدلیس تسویة''کی صفت سے متصف ہیں۔
حافظ ابن حجر متوفی٨٥٢ھ فرماتے ہیں:
'' الولید بن مسلم القرشی مولاہم أبو العباس الدمشقی ثقة لکنہ کثیر التدلیس والتسویة''۔(تقریب التہذیب،رقم٧٤٥٦)۔
ولید بن مسلم کی تدلیس تسویة سے متعلق مزید تفصیل کے لئے یہ صفحہ دیکھیں:
http://www.ahlalisnad.com/vb/showthr...=4315#post4315

اورزیر بحث روایت میں ولید بن مسلم نے اپنے شیخ الشیخ اوران سے اوپرموجودراویوں کے سماع یاتحدیث کی صراحت نہیں ہے جوکہ مسوی کی روایت کی قبولیت کے لئے لازم ہے،تدلیس تسویہ میں راوی اپنے شیخ سے اوپرسند سے کسی راوی کوساقط کرتاہے اس لئے سند کے تمام طبقات میں تحدیث یاسماع کی صراحت ضروری ہوتی ہے (أنظر:التدلیس فی الحدیث،للدمینی:١١٩ـ١٢١)۔

علامہ البانی اورتسویة الولید:
عصرحاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ کابھی یہی مانناہے ( الرواة الذین ترجم لہم الالبانی ا:ج٤ ص٣٦٩ تا ٣٧١) بلکہ آپ نے تومیرے سرسری مراجعہ کے مطابق اپنی کتابوں میں اسّی (٨٠)سے بھی زائد مقامات پرولید بن مسلم کو ''تدلیس تسویہ '' سے متصف کیاہے،اب ہمیں نہیں معلوم کوجولوگ ایک مقام پربھی علامہ البانی کی غلطی ماننے کے لئے تیارنہیں ہیں وہ ان اسّی مقامات پرعلامہ البانی کے بارے میں کیارائے قائم کریں گے؟
فائدة:
علامہ البانی فرماتے ہیں:
تدليس التسوية ، وهو الذي يسقط غير شيخه من فوق؛ كما كان يفعل الوليد بن مسلم؛ فمن شيوخه الإمام الأوزاعي، فكان يدلس عنه: يحذف شيخ الأوزاعي؛ إذا كان ضعيفاً، فلما نوقش في ذلك؟ قال: أنبل الأوزاعي أن يروي عن مثل هؤلاء! ولذلك، فيشترط في المدلس تدليس التسوية أن يصرح بالتحديث بين كل رواة الإسناد، فتنبه لهذا؛ فإنه مهم جداً، فإني كنت من الغافلين عنه سنين تبعاً لبعض من سلف من الجارحين والمخرجين، والله يغفر لنا ولهم!
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 13/ 1083]

اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ چندسالوں تک اس تعلق سے لاعلم رہے اوراس کی وجہ ان کے بقول یہ رہی کہ وہ بعض جارحین اور حدیث کی تخریج کرنے والوں کی متابعت کرتے رہے،نیزموصوف نے نادانستہ اپنی اس غلطی اوراپنے سابقین کی غلطی پرمغفرت طلب کی ہے۔لہٰذا اس وضاحت کے بعد اگرکہیں آپ کاکوئی ایسافیصلہ ملتاہے جس میں آپ نے مذکورہ بات کی رعایت نہیں کی ہے تواس فیصلے کوآپ کی طرف منسوب کرنادرست نہیں ، زیربحث روایت پرآپ کافیصلہ اسی قبیل سے ہے لہٰذا علامہ موصوف کی مذکورہ وضاحت کے بعد اسے آپ کی طرف منسوب کرنازیادتی وناانصافی ہے۔
تنبیہ:
عصرحاضر کے بعض لوگوں نے دعوی کیاہے کہ ولید بن مسلم بے شک تدلیس تسویہ سے متصف ہے لیکن ان کایہ عمل صرف ان کے ایک استاذ امام اوزاعی ہی کے ساتھ ہے یہ دعوی کئی لحاظ سے مردود ہے تفصیل کے لئے دیکھئے:
تدليس الوليد بن مسلم وتسويته ليس بخاص عن الأوزاعي - ملتقى أهل الحديث
خلاصہ کلام:
زیربحث روایت کی سندمیں موجود''ولیدبن مسلم ''تدلیس کی سب سے بدترین قسم تدلیس تسویة کے وصف سے متصف ہے،اورسند کے تمام طبقات میں سماع یاتحدیث کی صراحت موجودنہیں ہے نیزاس روایت کاکوئی دوسراطریق سرے سے موجودہی نہیں ہے جیساکہ خود اس کے راوی امام طبرانی نے صراحت کردی ہے اس لئے شاہد اورمتابع کاسوال ہی نہیں پیداہوتا،لہٰذایہ روایت اس علت قادحہ کے سبب ضعیف ومردود ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسری علت:
سندمیں ایک دوسرے راوی''أبومطیع،معاویہ بن یحیی الاطرابلسی الدمشقی ''ہیں انہیں جمہورمحدثین نے ضعیف قراردیاہے،ذیل میں تاریخ وفات کی ترتیب سے ان محدثین کے حوالے پیش خدمت ہیں:
(١):ـ أبوزکریا ،یحیی بن معین،متوفی ٣٥٩ھ۔
آپ اس راوی پرشدید جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''معاویة بن یحیی الصدفی روی عن الزہری ومعاویة بن یحیی الآخر الاطرابلسی وأبو مطیع ضعاف لیسوا بشیء ''(من کلام أبی زکریا فی الرجال:رقم٣٥٩)۔
امام ابن شاہین متوفی٣٨٥ھ،نے راوی مذکورپرآپ کی جرح ان الفاظ میں روایت کی ہے :
'' معاویة بن یحیی الآخر أطرابلسی أبو مطیع لیس بشیئ'' (تاریخ أسماء الضعفاء والکذابین لابن شاہین : رقم ٦٣٣)۔
واضح رہے کہ ''لیس بشیٔ ''یہ سخت قسم کی جرح ہے،جیسامتعددمحدثین نے صراحت کی ہے دیکھیں :(ألفاظ وعبارات الجرح والتعدیل:٣٠٧،فتح المغیث:١٢٣٢،تدریب الراوی:٤٠٩١ـ٤١٠)اورابن معین کے نزدیک بھی عام حالات میں یہ اسی معنی میں ہے، اسماء الرجال کے ماہر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے ،دیکھئے:
فائدة :: معنى قول ابن معين ليس بشيء - ملتقى أهل الإسناد

تنبیہ:
ابن معین سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے راوی مذکورکے بارے میں'' لیس بہ بأس'' کہاہے(ھذیبین وغیرہ)۔
یہ قول تہذیبین وغیرہ میںبے سندہے البتہ اس کی سند تاریخ دمشق میں موجودہے ،لیکن ضعیف ہے ،ملاحظہ ہو:
قرأت علی أبی الفضل السلامی عن أبی الفضل المکی أنا عبید اللہ بن سعید بن حاتم أنا أبو الحسن الخصیب بن عبد اللہ أخبرنی عبد الکریم بن أحمد بن شعیب أخبرنی أبی أنا معاویة بن صالح عن یحیی بن معین قال معاویة بن یحیی أبو مطیع الأطرابلسی لیس بہ بأس،(تاریخ دمشق:٢٩٢٥٩واسنادہ ضعیف)۔
اس سندمیں ایک راوی '' أبوموسی ،عبدالکریم بن أحمدبن شعیب ،النسائی''ہے ،مجھے کسی کتاب میں اس کی توثیق نہیں ملی،لہٰذایہ مجہول الحال ہے ۔

(٢):ـ أبوأحمد،عبداللہ بن عدی بن عبداللہ ،الجرجانی،متوفی ٣٦٥ھ۔
آپ نے راوی مذکور کاتذکرہ اپنی کتاب''الکامل فی ضعفاء الرجال''میں کیاہے اورکہاہے:''فی بعض روایاتہ ممالایتابع علیہ''(الکامل : ٤٠١٦ ت١٨٨٦،تھذیب التھذیب:٢٢٠١٠)۔آپ نے اس راوی کی منکرروایات میں زیربحث روایت کوبھی ذکرکیاہے،(أیضاً)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق یہ جرح مفسرہے،دیکھئے:(الضعیفة: ٣٠١٢ تحت الرقم ٨٩٨، أیضا :٤٧٨١٤ تحت الرقم٦٧١٦)۔
(٣):ـ أبوحفص،عمربن أحمد المعروف بان شاہین ،مولود٢٨٦ھ متوفی٣٨٥۔
آپ نے راوی مذکور کواپنی کتاب ''تاریخ أسماء الضعفاء والکذابین''میں ذکرکیاہے اوراس پرابن معین متوفی ٣٥٩ھ کی شدید جرح ''لیس بشیٔ''نقل کی ہے اورکسی قسم کی تعدیل وتوثیق کاتذکرہ نہیں کیاہے،(تاریخ أسماء الضعفاء والکذابین لابن شاہین :رقم٦٣٣)۔
(٤):ـ أبوالحسن،علی بن عمرالدارقطنی،مولود٣٣٠ھ متوفی٣٨٥ھ۔
آپ راوی مذکورکے بارے میں فرماتے ہیں:
''ھوأکثرمناکیر من الصدفی وانمافسدت روایة الصدفی لأنہ غابت عنہ کتبہ'' ،(تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین لابن حبان:٢٥٦١،وانظر:اکمال تھذیب الکمال: ٢٧٩١١ت٤٦٥٢)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق یہ جرح مفسرہے،دیکھئے:(الضعیفة: ٣٠١٢ تحت الرقم ٨٩٨ ، أیضا: ٤٧٨١٤ تحت الرقم ٦٧١٦)۔
نیزامام دارقطنی نے راوی مذکورکواپنی کتاب''الضعفاء والمتروکین''میں ذکرکیاہے،دیکھیں:(کتاب الضعفاء والمتروکین:رقم٥١١)۔
(٥):ـ أبوبکر،أحمد بن الحسین البیہقی،متوفی٤٥٨ھ۔
آپ نے اسے ''منکر'' کہاہے،دیکھیں :(شعب الایمان:٣٤٧،تحت الرقم٩٣٦٥،الدرالنقی من کلام البیھقی فی الرجال: ص٣٠٣ )
(٦):ـ محمد بن طاہر ،المقدسی،متوفی٥٠٧ھ۔
آپ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:''ولا أعلم رواہ عن أبی الزناد غیر عبداللہ ہذا ، ومعاویة بن یحیی الأطرابلسی، وکلاہما ضعیفان''(ذخیرة الحفاظ: ١ ٣٣٨ت٣٥٢)،نیزآپ نے زیربحث روایت کواپنی کتاب'' تذکرة الموضوعات''میں نقل کیاہے اوراس کے راوی معاویہ بن یحیی پرشدیدجرح کرتے ہوئے کہاہے:''لیس بشیٔ''دیکھیں:(تذکرة الموضوعات:ص٢٢،ط.مطبع السعادہ،١٣٢٣)،بلکہ ایک مقام پرفرماتے ہیں '' معاویة بن یحیی الطرابلسی لیس بشیء فی الحدیث'' (أیضا: ص٣ وانظر:اکمال تھذیب الکمال:٢٧٩١١ت٤٦٥٢)۔
(٧):ـ أبوالقاسم،عبداللہ بن محمد البغوی،متوفی ٥١٦ھ۔
آپ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :''لم یرو ہذا الحدیث غیر أبی مطیع معاویة بن یحیی وہو ضعیف الحدیث''(معجم الصحابة لأبی القاسم البغوی:١٢٦٥تحت الرقم٢٠٨٤،میزان الاعتدال:٤٦٢٦رقم٨٦٤٢،)۔
تاریخ دمشق میں بھی یہ قول بسندصحیح منقول ہے، (تاریخ دمشق:٢٩٣٥٩)۔
(٨):ـ أبوالفرج،عبدالرحمن بن علی،ابن الجوزی،متوفی٥٧٩ھ۔
آپ نے راوی مذکورکواپنی کتاب''الضعفاء والمتروکون''میں ذکرکرکے اس پردارقطنی کی جرح ''ہو أکثر مناکیر من الصدفی''نقل کی ہے جوکہ علامہ البانی کے اصول کے مطابق جرح مفسرہے دیکھئے:(الضعیفة:٣٠١٢تحت الرقم٨٩٨،أیضا:٤٧٨١٤تحت الرقم٦٧١٦)،اورکسی امام سے ان کی توثیق کاتذکرہ نہیں کیا ہے،دیکھئے:(کتاب الضعفاء والمتروکین:رقم٣٣٦٣)۔
(٩):ـ أبوعبداللہ ،شمس الدین محمدبن أحمدالذہبی،متوفی٧٤٨ھ۔
آپ نے راوی مذکورکوضعفاء میں ذکرکیاہے،دیکھئے:(دیوان الضعفائ: رقم٤١٧٥،المغنی ،رقم٦٣٢٦)،اورایک دوسری کتاب میں فرماتے ہیں: ''لہ غرائب وافراد''دیکھئے:(تاریخ الاسلام:٣٦٤١١)، علامہ البانی کے اصول کے مطابق یہ جرح مفسرہے دیکھئے:(الضعیفة:٣٠١٢تحت الرقم٨٩٨، أیضا: ١٤ ٤٧٨تحت الرقم ٦٧١٦)۔معلوم ہواکہ راوی مذکورامام ذہبی کے نزدیک ضعیف ہے نیزآپ نے اس راوی کے ضعف کی وجہ سے کئی روایات کوضعیف قراردیا ہے، مثلاًمستدرک حاکم کی ایک روایت پرامام حاکم کی تصحیح کارد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''قلت:معاویة ضعیف''(مستدرک: ج٢ ص١٩) بلکہ اپنی کتاب ''میزان الاعتدال''میں راوی مذکور کی منکروضعیف روایات میں بطورمثال زیربحث روایت کوبھی پیش کیاہے،دیکھئے(میزان الاعتدال:٤٦٣٦)۔
(١٠):ـ أبوالفداء ،اسماعیل بن عمربن کثیر،الدمشقی،متوفی٧٧٤ھ۔
آپ ایک سندپرکلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''وہذا السناد ضعیف فن معاویة بن یحیی ہو الصدفی أو الأطرابلسی، وأیہما کان فہو ضعیف(تفسیر ابن کثیر(مقدمة):٩٨١مکتبہ أولادالشیخ ،وانظرأیضا:فضائل القرآن لابن کثیر:ص٤٦وفی نسخة:ص١٠٤)۔
(١١):ـ حافظ أبوالفرج،عبدالرحمن بن أحمدبن رجب الدمشقی،متوفی٧٩٥ھ۔
آپ فرماتے ہیں''معاویة بْن یَحْیَی ، لا یحتج بِہِ ''(فتح الباری لابن رجب:٢٥٤)،آپ نے اس جرح کے ساتھ اسی مقام پرزیر بحث روایت کوضعیف قراردیاہے۔
(١٢):ـ شہاب الدین أحمدبن أبی بکر ،البوصیری،متوفی٨٤٠ھ۔
آپ سنن ابن ماجہ میں موجود،راوی مذکورکی ایک روایت کوضعیف قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ہذا سناد ضعیف، لضعف معاویة بن یحیی''(مصباح الزجاجة:٩٩٢ت٩٨٨)۔
(١٣):ـ خاتمة الحفاظ ،أحمد بن علی بن حجر،العسقلانی،متوفی٨٥٢ھ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
''وروي الطبراني في الصغير من طريق حماد بن أبي سليمان عن إبراهيم عن علقمة عن بن مسعود أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لرجل أ نت ومالک لأبيک وفيه معاوية بن يحيي وهو ضعيف''،وقال بن أبي حاتم عن أبيه'' إنما هو حماد عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة بلفظ إن أطيب ما أکل الرجل من کسبه وإن ابنه من کسبه ''فأخطأ فيه إسنادا ومتنا،[تلخيص الحبير :3/401].
غورکریں کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نہ صرف یہ کہ معاویہ کوضعیف کہہ رہے ہیں بلکہ صاف اعلان کررہے ہیں کہ اس نے ایک ہی روایت میں سند ومتن دونوں کے بیان میں غلطی کی ہے ،ایسا سی ٔ الحفظ کبھی بھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتاخصوصااپنی منفردروایت میں جیساکہ زیربحث حدیث کاحال ہے۔
(١٤):ـ زین الدین محمد،المعروف بابن المناوی،متوفی١٠٣١ھ۔
آپ ایک سندپرکلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''ومعاویة ہو ما الصدفی أو الطرابلسی وکلاہما ضعیف''(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:٥٢٩١)۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہواکہ راوی مذکور کو محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قراردیاہے اوران میں سے ایک درجن سے زائدمحدثین کے اقوال ان کی مطبوعہ کتابوں میں یاصحیح سندوں کے ساتھ دیگرکتب میں محفوظ ہیں،نیزاس سلسلے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ ،امام دارقطنی رحمہ اللہ ،امام ابن الجوزی رحمہ اللہ ،امام ذہبی رحمہ اللہ ،اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ کی جرح، علامہ ألبانی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق جرح مفسرہے کمامضی۔

اس جم غفیراورجمہورکے فیصلہ کے خلاف صرف اورصرف چار محدثین نے راوی مذکورکی مبہم تعدیل کی ہے، ملاحظہ ہو:

(١)ـأبوحاتم،محمد بن ادریس،الرازی۔
(٢)ـأبوزرعہ،عبیداللہ بن عبدالکریم،الرازی۔
عبد الرحمن ابن أبی حاتم کہتے ہیں:''سألت أبی وأبا زرعة عن أبی مطیع معاویة بن یحیی فقال صدوق مستقیم الحدیث وقال أبو زرعة ہو ثقة'' (الجرح والتعدیل:٣٨٤٨ت١٧٥٤) ۔
(٣)ـأبوعلی،حسین بن منصور،النیسابوری۔
امام ابن عساکرفرماتے ہیں:''قرأت علی أبی القاسم زاہر بن طاہر عن أبی بکر البیہقی أنا أبو عبد اللہ الحافظ قال سمعت أبا علی الحافظ یقول أبو مطیع معاویة بن یحیی الأطرابلسی شامی ثقة''(تاریخ دمشق:٢٩٣٥٩وسندہ صحیح)۔
(٤)ـأبوالولید،ہشام بن عمار،السلمی۔
عمروبن أبوعاصم ،الشیبانی فرماتے ہیں:''حدثنا ہشام بن عمار ، حدثنا أبو مطیع معاویة بن یحیی ثقة ، حدثنا محمد بن الولید الزبیدی عن عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ عن سبرة بن أبی فاکہة الأسدی قال قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الموازین بید الرحمن یرفع قوما ویضع آخرین''(السنة لابن أبی عاصم:٣٦١٢رقم٧٧٨)۔
تنبیہ:
راوی مذکور کے سلسلے میں جر ح وتعدیل کے وہ اقوال ہم نے نظراندازکردئے ہیں جوبے سندہیں یاان کی سندضعیف ہے ،کیونکہ اس قسم کے اقوال پراعتماددرست نہیں ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ صرف چارمحدثین سے راوی مذکورکی تعدیل ثابت ہے،لیکن ان محدثین کے یہ اقوال مردودہیں کیونکہ ان کے بر خلاف محدثین کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس راوی پرجر ح کرکے اسے ضعیف قراردیاہے،اوران جارحین کی تعدادمعدلین کی تعدادکی بنسبت تقریباچار گنا ہے، کمامضی،حتی کہ اگرمعدلین کے غیرثابت اقوال بھی لے لئے جائیں تب بھی جارحین کی تعداد زیادہ ہی رہتی ہے ،مزیدبرآں یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق جارحین میں سے کئی نے جرح مفسرکی ہے،لہٰذابہرصورت جارحین کے اقوال ہی قابل قبول ہیں ،اوراس کے نتیجہ میں راوی مذکورکاضعیف ہونا طے ہے۔
واضح رہے کہ جرح وتعدیل میں تعارض کے وقت جمہورمحدثین کافیصلہ ہی قابل قبول ہے،اسی پرتمام محدثین کاعمل ہے


علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسی اصول پرعمل کیاہے،ایک مقام پرفرماتے ہیں:
ملاحظہ ہو:(الضعیفة:١١١ـ١٣)، اورایک مقام پرعلامہ البانی نے عتبہ بن أبی حکیم سے متعلق(١٠)دس جارحین(جن میں سے بعض سے توثیق کا قول بھی منقول ہے)کے مقابلہ میں (٥) پانچ معدلین (جن میں دحیم،أبوزرعہ،أبوحاتم بھی ہیں )کے اقوال کوردکردیاہے،دیکھئے:(الضعیف ة:١١١٣رقم١٠٣١ )۔


علامہ البانی اور معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کی تضعیف:
علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض معتقدین نے(معجم اسامی الرواة الذین ترجم لہم العلامہ الالبانی جرحاوتعدیل:١٥٤٤)میں راوی مذکورسے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ کاجوموقف پیش کیاہے وہ علامہ موصوف کاسابق موقف ہے ،جس کی نسبت علامہ موصوف کی طرف درست نہیں کیونکہ علامہ رحمہ اللہ نے اپنی آخری تحقیقات میں جمہورکے اقوال پراعتمادکرکے راوی مذکورکوضعیف ماناہے اوراس کی مرویات کوضعیف قراردیاہے،چندحوالے ملاحظہ ہوں:
حوالہ نمبر(١):
الضیعفہ میں رقم(٤٦٥١)کے تحت یہ حدیث ہے:
''من لقي العدو ، فصبر حتي يقتل أو يغلب ؛ لم يفتن في قبره''
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے''أبومطیع معاویة بن یحیی''کے اورعلامہ البانی محض اسی راوی کی وجہ سے اس حدیث کوضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''قال الحاکم:''صحيح الإسناد''ورده الذهبي بقوله:''قلت:معاوية ضعيف''وقال الحافظ في''التقريب''صدوق له أوهام ، وغلط من خلطه بالذي قبله (يعني: الصدفي) ؛ فقد قال ابن معين وأبو حاتم وغيرهما: الطرابلسي أقوي من الصدفي، وعکس لدارقطني''[الضعيفة:10/181تحت الرقم4651].

حوالہ نمبر(٢):
ابن ماجہ میں رقم(١٩٧٥)کے تحت ایک حدیث کی سندپرکلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وفيه معاوية بن يحيي الأطرابلسي ضعيف''[الضعيفة:7/188تحت الرقم3203].

حوالہ نمبر(٣):
الضیعفہ میں رقم(٣٦٢٧)کے تحت ایک سندپرکلام کرتے ہوئے علامہ البانی لکھتے ہیں:
''قلت:وهذا إسناد ضعيف جداً ؛ ابن يحيي(يعني:'أبامطيع معاوية بن يحيي) وابن المختار وابن حميد ، ثلاثتهم ضعفاء ، وأولهم أشدهم ضعفاً''[الضعيفة:8/118تحت الرقم3627].

حوالہ نمبر(٤):
الضیعفہ میں رقم(٤٢٦٥)کے تحت ایک سندپرکلام کرتے ہوئے علامہ البانی لکھتے ہیں:
''...ومعاوية بن يحيي -وهو أبو مطيع الأطرابلسي -؛ ضعيف''[الضعيفة:9/262تحت الرقم4265

حوالہ نمبر(٥):
الضیعفہ میں رقم(٤٢٦٥)کے تحت ایک سندپرکلام کرتے ہوئے علامہ البانی لکھتے ہیں:
''قلت:وهذا إسناد ضعيف ، ليث - وهو ابن أبي سليم - ضعيف مختلط،وأبو مطيع الدمشقي ؛ صدوق له أوهام ؛ کما في ''التقريب''[الضعيفة:6/105تحت الرقم2595].

حوالہ نمبر(٦):
علامہ البانی الضیعفہ میں رقم(١٥٤٨)کے تحت فرماتے ہیں:
''ورواه هشام بن عمار: أخبرنا أبو مطيع معاوية بن يحيي عن أرطاة بن المنذر عمن حدثه عن أبي الدرداء به ، دون ذکر الفتح وبيت المقدس. وهذا ضعيف أيضا ، لضعف أبي مطيع''[الضعيفة:4/54تحت الرقم1548].

حوالہ نمبر(٧):
علامہ البانی الضیعفہ میں رقم(٤٧٧٥)کے تحت فرماتے ہیں:
''قلت:وهذا إسناد ضعيف ؛ معاوية بن يحيي ؛ اثنان کلاهما دمشقي: أحدهما أبو روح الصدفي ، والآخر أبو مطيع الأطرابلسي ، وکلاهما ضعيف''[الضعيفة:10/316تحت الرقم4775].

یہ صرف'' الضعیفہ ''کے کل سات حوالے،قارئین غورفرمائیں کہ خودعلامہ البانی بھی ''أبومطیع معاویہ بن یحیی الاطرابلسی الدمشقی'' کی مرویات کوضعیف قراردیتے ہیں ،اب ہمیں نہیں معلوم کوجولوگ ایک مقام پربھی علامہ البانی کی غلطی ماننے کے لئے تیارنہیں ہیں وہ ان سات مقامات پرعلامہ البانی کے بارے میں کیارائے قائم کریں گے؟
ہمارامانناتویہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جس وقت زیربحث روایت کوحسن کہاتھااس وقت اس کے راوی'' معاویہ بن یحیی الاطرابلسی''کی توثیق ان کے نزدیک راجح تھی لیکن بعدمیں علامہ موصوف کے نزدیک اس کاضعیف ہوناہی راجح قرارپایاجس کے سبب انہوں نے اس کی حدیثوں کوضعیف کہنا شروع کردیا۔
نیز خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ اصول پیش کیاہے کہ اگرایک محدث سے کسی ایک ہی راوی سے متعلق توثیق وتضیعف کے دومختلف اقوال ملیں تو تضعیف کاقول بعدکاماناجائے گا،یہ اصول خودعلامہ البانی ہی کاپیش کردہ ہے، (الضعیفة:111/13تحت الرقم١٠٣١)۔
ان دلائل سے ثابت ہواکہ علامہ البانی کے نزدیک بھی راوی مذکورضعیف ہے،اورجن مقامات پرآپ نے اسے حسن الحدیث ماناہے یہ آپ کاپراناقول ہے جس سے آں موصوف رجوع کرچکے ہیں، اس بنیادپراگرزیربحث حدیث سے متعلق آپ کے قول کااستخراج کیاجائے توکہاجاسکتاہے کہ یہ روایت ''ضعیف عندالالبانی''ہے۔
خلاصہ کلام:
زیربحث روایت کی سندمیں دوسراراوی ''معاویہ بن یحیی الاطرابلسی''ہے اوریہ جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے لہذازیربحث روایت کے ضعیف ہونے کی یہ دوسری علت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ بحث :
دوسری جماعت سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جانے والی مذکورہ روایت میں دوعلتیں موجودہیں جوا س کی تصحیح یاتحسین سے مانع ہیں،یہی وجہ ہے کہ متقدمین نے بالاتفاق اس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورمتأخرین میں سے بھی جمہوراہل علم اس کی تضعیف ہی کے قائل ہیں ،جیساکہ مضمون کے شروع میں پندرہ(15)محدثین وباحثین سے اس کی تضعیف نقل کی گئی ہے ۔
عصرحاضرکے عظیم محدث علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ ابتداء میں اس روایت کے اندموجودمذکورہ دونوں علتوں سے آگاہ نہ ہوسکے جس کے سبب انہوں نے اس روایت کی تحسین کردی لیکن بعدمیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ دونوں علتوں کوتسلیم کیاہے،بلکہ پہلی علت سے عدم آگاہی کے سبب آں موصوف نے جن روایات کی تصحیح یاتحسین کی ہے اس میں اپنی غلطی کوتسلیم بھی کرلیاہے اوراس سے رجوع بھی فرمالیاہے،لہٰذامذکورہ روایت محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک نیزان کے اصول کے مطابق بھی ضعیف ہی ہے،لہٰذا اس سچائی کے سامنے آجانے کے بعدکسی بھی شخص کے لئے جائزنہیں کہ وہ اس مردودروایت کی نسبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرے۔
 
Top