محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۳۲ قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۙ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۳۳ وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۰ۤۡوَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۳۴
پھر اس لیے کہ فرشتوں کو انسان کی حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو، اللہ نے تمام کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کو کہا۔سب کوآدم علیہ السلام کے سامنے جھکایا۔ اسلامی فلسفۂ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔ وَخَلَقَ لَـکُمْ مَا فِی اْلاَرْضِ جَمِیْعًا۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لیے ہے ۔ حتیٰ کہ شمس وقمر بھی اسی کے خادم ہیں۔ وَسَخَّرَلَـکُمُ الشَّمْسَ وَالْـقَمَرَ دَآئِبَیْنِ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آدم قبلۂ مقصود ہے ہرچیز کا۔ ساری کائنات کا محور انسان ہے ۔ شیطان جو ایک مشخص برائی ہے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا۔ وَکَانَ مِنَ الْـکَافِرِیْنَ۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کردے۔
{تُبْدُوْنَ وَتَکْتُمُوْنَ} ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ مصدر ابداء وکتم {سجدوا} فعل ماضی۔ مادہ سجدہ ۔ جھکنا۔ اظہار تذلل کرنا۔ {ابلیس}شیطان کا نام ہے۔ ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں۔ ابلیس چونکہ خائب وخاسر شخص کا نام ہے اس لیے ابلیس کہا جاتا ہے ۔
وہ بولے توپاک ہے ۔ ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر تونے ہمیں سکھلایااور تو اصل دانا اور پختہ کار ہے۔(۳۲)فرمایا اے آدم (علیہ السلام) تو ان کو ان چیزوں کے نام بتلادے۔ پھر جب آدم (علیہ السلام )نے ان کو ان کے نام بتادیے۔ تب فرمایا کیا میں نے نہ کہا تھا کہ میں آسمان وزمین کی چھپی باتیں جانتاہوں اور جو تم ظاہرکرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو، مجھے معلوم ہے۔(۳۳) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ ۱؎ کرو۔ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔اس نے نہ مانا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔(۳۴)
پھر اس لیے کہ فرشتوں کو انسان کی حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو، اللہ نے تمام کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کو کہا۔سب کوآدم علیہ السلام کے سامنے جھکایا۔ اسلامی فلسفۂ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔ وَخَلَقَ لَـکُمْ مَا فِی اْلاَرْضِ جَمِیْعًا۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لیے ہے ۔ حتیٰ کہ شمس وقمر بھی اسی کے خادم ہیں۔ وَسَخَّرَلَـکُمُ الشَّمْسَ وَالْـقَمَرَ دَآئِبَیْنِ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آدم قبلۂ مقصود ہے ہرچیز کا۔ ساری کائنات کا محور انسان ہے ۔ شیطان جو ایک مشخص برائی ہے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا۔ وَکَانَ مِنَ الْـکَافِرِیْنَ۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کردے۔
حل لغات