• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم مسلح کشاکش

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلح کشاکش



ہجرت کے بعد مسلمانوں کے خلاف قریش کی فتنہ خیز یاں
اور عبد اللہ بن اُبی سے نا مہ وپیام


پچھلے صفحات میں بتایا جاچکا ہے کہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے اور جب مسلمانوں نے ہجرت شروع کی تو ان کے خلاف کیسی کیسی کارروائیاں کی تھیں جن کی بنا پر وہ مستحق ہوچکے تھے کہ ان کے اموال ضبط کر لیے جائیں اور ان پر بزن بول دیا جائے۔ مگر اب بھی ان کی حماقت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُر امن جائے قرار مل گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ بن اُبی کو...جو ابھی تک کھلم کھلا مشرک تھا...اس کی حیثیت کی بنا پر ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ وہ انصار کا سردار ہے۔ کیونکہ انصار اس کی سربراہی پر متفق ہوچکے تھے اور اگر اسی دوران رسول اللہﷺ کی تشریف آوری نہ ہوئی ہوتی تو اس کو بادشاہ بھی بنا لیے ہوتے ...مشرکین نے اس خط میں عبد اللہ بن اُبیّ اور اس کے مشرک رفقاء کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں لکھا :
''آپ لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دے رکھی ہے ، اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یاتو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجیے یا اسے نکال دیجیے یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کردیں گے اور آپ کی عورتوںکی حرمت پامال کرڈالیں گے۔'' 1
اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبیّ مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ پڑا۔ اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبیﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپﷺ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے ، چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست رفقاء کو موصول ہو ا تو وہ رسول اللہﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔ جب نبیﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ''قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ تم اپنے بیٹو ں اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابوداؤد : باب خبر النضیر ۲/۱۵۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ نبیﷺ کی یہ بات سن کر لوگ بکھر گئے۔ 1
اس وقت تو عبد اللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا کیونکہ اس کے ساتھی ڈھیلے پڑ گئے تھے یا بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی لیکن حقیقت میں قریش کے ساتھ اس کے روابط درپردہ قائم رہے کیونکہ مسلمان اور مشرکین کے درمیان شَر وفساد کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا۔ پھر اس نے اپنے ساتھ یہود کو بھی ساٹ رکھا تھا تاکہ اس معاہدے میں ان سے بھی مدد حاصل کرے ، لیکن وہ تو نبیﷺ کی حکمت تھی جو رہ رہ کر شَرّوفساد کی بھڑ کنے والی آگ بجھا دیا کرتی تھی۔ 2
مسلمانوں پر مسجد حرام کا دروازہ بند کیے جانے کا اعلان:
اس کے بعد حضرت سعد بن معاذؓ عمرہ کے لیے مکہ گئے اور اُمَیّہ بن خلف کے مہمان ہوئے۔ انہوں نے اُمیہ سے کہا : ''میرے لیے کوئی خلوت کا وقت دیکھو ذرا میں بیت اللہ کا طواف کر لوں۔'' اُمیّہ دوپہر کے قریب انہیں لے کر نکلا تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے (اُمیہ کو مخاطب کرکے ) کہا : ابوصفوان تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا: یہ سعد ہیں۔ ابوجہل نے سعد کو مخاطب کرکے کہا: ''اچھا ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے امن واطمینان سے طواف کررہے ہو حالانکہ تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ زعم رکھتے ہو کہ ان کی نصرت واعانت بھی کرو گے۔ سنو ! اللہ کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جاسکتے تھے۔'' اس پر حضرت سعدؓ نے بلند آواز میں کہا :''سن ! اللہ کی قسم اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو میں تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی۔'' (یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا۔ (تجارتی ) راستہ ) 3
مہاجرین کو قریش کی دھمکی:
پھر قریش نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا : ''تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کرنکل آئے ، ہم یثرب ہی پہنچ کر تمہارا ستیاناس کردیتے ہیں۔''4
اور یہ محض دھمکی نہ تھی بلکہ رسول اللہﷺ کو اتنے مؤکد طریقے پر قریش کی چالوں اور بُرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا کہ آپ یا توجاگ کر رات گزارتے تھے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پہرے میں سوتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد ایک رات رسول اللہﷺ جاگ رہے تھے کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابوداؤد: باب مذکورہ ۲/ ۵۶۳
2 اس معاملے میں دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۵۵ ، ۶۵۶، ۹۱۶، ۹۲۴
3 بخاری ، کتاب المغازی ۲/۵۶۳
4 رحمۃ للعالمین ۱/۴۰۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرمایا :'' کاش! آج رات میرے صحابہؓ میں سے کوئی صالح آدمی میرے یہاں پہرہ دیتا۔'' ابھی ہم اسی حالت میں تھے کہ ہمیں ہتھیار کی جھنکار سنائی پڑی۔ آپ نے فرمایا : ''کون ہے ؟'' جواب آیا : ''سعد بن ابی وقاص '' فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ َ بولے : ''میرے دل میں آپﷺ کے متعلق خطرے کا اندیشہ ہوا تو میں آپﷺ کے یہاں پہرہ دینے آگیا۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے انہیں دُعا دی، پھر سو گئے۔1
یہ بھی یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام بعض راتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اور دائمی تھا ، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ رات کو رسول اللہﷺ کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:
(۵: ۶۷) (اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ) تب رسول اللہﷺ نے قبے سے سر نکالا اور فرمایا : ''لوگو ! واپس جاؤ اللہ عزّوجل نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔''2پھر یہ خطرہ صرف رسول اللہﷺ کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ سارے ہی مسلمانوں کو لاحق تھا ، چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعبؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ اور آپ کے رُفقاء مدینہ تشریف لائے ، اور انصار نے انہیں اپنے یہاں پناہ دی تو سارا عرب اُن کے خلاف متحد ہوگیا۔ چنانچہ یہ لوگ نہ ہتھیار کے بغیر رات گزارتے تھے اور نہ ہتھیار کے بغیر صبح کرتے تھے۔
جنگ کی اجازت:
ان پُر خطر حالات میں جو مدینہ میں مسلمانوں کے وجود کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے اور جن سے عیاں تھا کہ قریش کسی طرح ہوش کے ناخن لینے اور اپنے تمرد سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی ، لیکن اسے فرض قرار نہیں دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کا جوارشاد نازل ہو ا وہ یہ تھا:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِ‌هِمْ لَقَدِيرٌ‌ (۲۲: ۳۹)
''جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا ً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔''
پھراس آیت کے ضمن میں مزید چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ یہ اجازت محض جنگ برائے جنگ کے طور پرنہیں ہے بلکہ اس سے مقصود باطل کے خاتمے اور اللہ کے شعائر کا قیام ہے۔ چنانچہ آگے چل کر ارشاد ہوا :
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌ (۲۲: ۴۱)
'' جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار سونپ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ اداکریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم باب فضل سعدؓ بن ابی وقاص ۲/۲۸۰ ، صحیح بخاری باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ ۱/۴۰۴
2 جامع ترمذی : ابواب التفسیر ۲/۱۳۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحیح بات جسے قبول کرنے کے سوا چارہ ٔ کار نہیں یہی ہے کہ یہ اجازت ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہوئی تھی ، مکے میں نازل نہیں ہوئی تھی، البتہ وقت ِ نزول کا قطعی تعین مشکل ہے۔
قتال کی یہ اجازت پہلے پہل قریش تک محدود تھی۔ پھر حالات بدلنے کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی۔ چنانچہ آگے چل کر یہ اجازت وجوب سے بدل گئی اور قریش سے متجاوز ہوکر غیر قریش کو بھی شامل ہوگئی۔ مناسب ہوگا کہ واقعات کے ذکر سے پہلے اس کے مختلف مراحل کو مختصراً پیش کردیا جائے:
پہلا مرحلہ : قریش کو برسر جنگ شمار کیا گیا کیونکہ انہیں نے ظلم کا آغاز کیا تھا، لہٰذا مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ ان سے لڑیں اور ان کے اموال ضبط کریں لیکن دوسرے مشرکین عرب کے ساتھ یہ بات درست نہ تھی۔

غیر قریش میں سے وہ فریق جس نے قریش کا ساتھ دیا اور ان سے اتحاد کیا ، یاجس نے بذات خود مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ان سے جنگ کرنا۔

جن یہود کے ساتھ رسول اللہﷺ کا عہد وپیمان تھا ، مگر انہوں نے خیانت کی اور مشرکین کا ساتھ دیا، ایسے یہود کے عہد وپیمان کو ان کے منہ پر دے مارنا اور ان سے جنگ کرنا۔

اہل کتاب مثلاً: نصاریٰ میں سے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ عداوت کا آغاز کیا اور مد مقابل آئے۔ ان سے جنگ کرنا، یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر اپنے ہاتھوںسے جزیہ اداکریں۔

جو اسلام میں داخل ہوجائے اس سے ہاتھ روک لینا۔ خواہ وہ مشرک رہا ہو یا یہودی یا نصرانی یا کچھ اور۔ اب اس کی جان یا مال سے اسلام کے حق کے مطابق ہی تعرض کیا جاسکتا ہے اور اس کے باطن کا حساب اللہ پر ہے۔
جنگ کی اجازت تو نازل ہوگئی لیکن جن حالات میں نازل ہوئی وہ چونکہ محض قریش کی قوت اور تمرد کا نتیجہ تھے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی ہے ، اسی لیے رسول اللہﷺ نے تسلط کے اس پھیلاؤ کے لیے دو منصوبے اختیار کیے :

(۱) ایک:... جو قبائل اس شاہراہ کے اردگرد یا اس شاہراہ سے مدینے تک کے درمیانی علاقے میں آبادتھے ان کے ساتھ حلف (دوستی وتعاون) اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔
(۲) دوسرا منصوبہ:... اس شاہراہ پر گشتی دستے بھیجنا۔
پہلے منصوبے کے ضمن میں یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ پچھلے صفحات میں یہود کے ساتھ کیے گئے جس معاہدے کی تفصیل گزر چکی ہے ، آپﷺ نے عسکری مہم شروع کرنے سے پہلے اسی طرح کی دوستی وتعاون اور عدم ِ جنگ کا ایک معاہدہ قبیلہ جُہینہ کے ساتھ بھی کیا۔ ان کی آبادی مدینے سے تین مرحلے پر -- ۴۵ یا ۵۰ میل کے فاصلے پر -- واقع تھی۔ اس کے علاوہ طلایہ گردی کے دوران بھی آپﷺ نے متعدد معاہدے کیے جن کاذکر آئندہ آئے گا۔
دوسرا منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے جس کی تفصیلات اپنی اپنی جگہ آتی رہیں گی۔
 
Top