• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو!

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
بسم الله الرحمن الرحیم

اہل سنت والجماعت کا منہج دو بنیادی ارکان پر استوار ہے، پہلا: اعتقاد، قول اور عمل میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت سے چمٹے رہنا اور دوسرا: مسلمانوں کی جماعت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا۔ جس قدر بندہ ان دو ارکان کو بحسن و خوبی بجا لاتا ہے اسی قدر طائفہ منصورہ اور اللہ کے غالب آکر رہنے والے گروہ کے قریب تر ہو جاتا ہے اور پھر اللہ کے حکم سے دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔

جہاں تک پہلے رکن کی بات ہے تو اس کے بغیر ہدایت کا کوئی وجود ہی نہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم رو گردانی کرو گے توان (رسول اللہﷺ) کے ذمہ تو وہی کچھ ہے جس کے وہ مکلف ہیں اور تمہارے ذمہ وہ کچھ ہے جس کے تم مکلف ہو اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول کے ذمہ تو صرف صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہے۔

[سورۃ النور: ۵۴]

پس اس رکن کو قائم کرنابدعات و خواہشات سے جنم لینے والی تمام گمراہیوں سے حفاظت کا ضامن ہے، اور جہاں تک دوسرے رکن کی بات ہے تو اس کو قائم کرنے سے دنیا میں مسلمانوں کے درمیان جھگڑے اور دین میں اس اختلاف سے نجات کا سبب ہے جو کہ مسلمانوں کو گروہ بندی، فرقہ واریت اور کُشت خون کی طرف لے جاتا ہے،اور بزدلی و ہوا اکھڑنے کا سبب ہے۔

جیسا کہ فرمان باری تعالٰی :

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو، اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں، اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آجانے کے بعد بھیاختلافات کا شکار ہوکر رہ گئے، یہی لوگ ہیں جن کیلئے بہت بڑا عذاب ہے ۔

[سورۃ آلِ عمران:۱۰۳- ۱۰۵]

علماء ِسلف نے اس کی تفسیر فرماتے ہوئے بیا ن کیا ہے کہ اللہ کی وہ رسی جسے تھامنے کا حکم ہے وہ مسلمانوں کی جماعت ہے۔

ہمارے رب سبحانہ نے اپنے بندوں پر اسلام اور جماعت کے ساتھ احسان فرمایا ، بایں طور کہ ان کو گزشتہ حالات کی یاددہانی کروائی کہ جب وہ بغض و عداوت اور جنگ میں مبتلا تھے اور سابقہ امتوں کے گمراہی والے راستوں سے خبردار کیا جو اپنے پاس ہدایت ہونے کے باوجود اختلافات کا شکار ہوکر فرقہ فرقہ ہوگئیںاور نتیجتاًبڑے عذاب کی مستحق بن گئیں، ان کے سامنے مسلمانوں کی جماعت میں موجود پاکباز لوگوں کے راستے کوواضح کیا، کہ جب کبھی وہ اپنے امام یا رعایا میں کوئی برائی، ظلم، نافرمانی یا بدعت کو دیکھتے تو اس مبارک جماعت کے افراد بن کر اس سے وابستہ رہتے ہوئے ان کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے نہ کہ اس سے خارج ہو کر اس کی صفوں کو توڑنے اور اس کی عمارت کو منہدم کرنے کی طرف بلانےلگتے، جب تک کہ وہ ایسا کھلا کفر نہ ہو کہ جس کے بارے میں ان کے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو کیونکہ یہ (جماعت سے نکلنا اور اس کی صفوں کو توڑنا)اس سے کہیں بڑھ کر برا ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے وہ کھڑے ہونگے۔

جیسا کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کی جماعت کو تھامنے کی تاکید کی اور اس جماعت کی حقیقت اور اس سے چمٹے رہنے کے معیار کو واضح کیا ، خصوصاً بڑے بڑے فتنوں کے ظہور اور خواہشات کی کثرت کے دور میں، جیسا کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے فتنوں کے متعلق دریافت کرتے ہوئے کہا: کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعی ہوں گے،جو شخص ان کی پکار پر لبیک کہے گا تو وہ اس کو جہنم میں دھکیل دیں گے، (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا: آپ ہمیں ان کے اوصاف بیان فرما دیجئے: آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں! وہ ہماری ہیطرح کے لوگ ہوں گے،وہ ہماری زبان بولیں گے، میں نے کہا: آپ میرے لئے کیا بہتر سمجھتے ہیں اگر میں ان کے دور میں ہوا؟ توآپ ﷺ نے فرمایا :مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑلینا،میں نے کہا: اگر ان کی جماعت یا کوئی امام ہی نہ ہوا تو؟ تو آپﷺ نے فرمایا :تمام فرقوں سے الگ ہو جانا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ کھانی پڑ ے، اور اسی حالت میں رہنا حتی کہ تجھے موت آ جائے (متفق علیہ)۔

مسلمانوں کی وہ جماعت کہ جس سے چمٹ جانے کا حکم ہوا ہے ، اس کا مفہوم امامت کے ساتھ مربوط ہے، اور یہ کہ مسلمانوں کے ائمہ کی ہر معروف میں سمع و اطاعت کی جائے، اور اگر مسلمانوں کا امام ایک نہ ہو تو ان کی جماعت بھی ایک نہیں ہو گی،پھر وہ متعدد فرقے بن جائیں گے پس اس وقت نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب سے الگ ہوجانے کا حکم دیا ہے ، جیسا کہ اس حدیث شریف میں اس کی صریح وضاحت ہے ، جس نے فتنوں سے اجتناب اور ان کے دروازے بند کرنے کی اہمیت کو واضح کیا، مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ چمٹے رہنے کی وضاحت کی، اور فتنوں کی کثرت اور ان کی طرف بلانے والوں کی وضاحت کی جو لوگوں کو جہنم میں دھکیلیں گے، اور اس کے ساتھ ساتھ ایک جماعت و ایک امام کے (ممکنہ)فقدان کی بھی وضاحت کی۔

ان تمام باتوں کی بدولت ہمیں علماء سلف کے ہاں منصبِ امامت کی حفاظت اور مسلمانوں کی جماعت کے ڈھانچے میں فرقہ واریت و گروہ بندی کی ممانعت کی بابت بہت تاکید دیکھنے کو ملتی ہے یہاں تک کہ انہوں نے اطاعتِ الہیہ میں ائمہ کی سمع و اطاعت، ان کی قیادت میں قتال، ان کو زکوۃ کی ادائیگی اور جب تک وہ اسلام پر قائم ہوں توان کے خلاف خروج ، تیغ زنی یا عہد شکنی کی حرمت کےوجوبی مسائل کو ان اعتقادی مسائل میں سے قرار دیا ہے کہ جن کے سبب اہل سنت والجماعت اپنے ماسوا یعنی اہل بدع و اھواء سے ممتاز ہوتےہیں۔

یہ اس وجہ سے ہے کہ امامت کی حفاظت سے مسلمانوں کی جماعت کی حفاظت ہوتی ہے، اس میں کوتاہی برتنے سے مسلمانوں کی جماعت کمزورپڑسکتی ہے یہاں تک کہ اس کی عمارت منہدم بھی ہوسکتی ہے اگر اسے یکجان کرکے رکھنے والا کوئی مسلمان امام باقی نہ رہے، جیسا کہ عباسیوں کے آخری دور میں خلفاء پر امراء کے تسلط کے بعد سے مسلمانوں کوجس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی وحدتپارہ پارہ ہوتی گئی اور دشمن سر چڑھتے گئےحتی کہ منصبِ امامت عملی طور پر مفلوج ہوگیا بس اس کے خدو خال باقی رہ گئے، اور پھر اس کے بعد وہ بھی مکمل طور پر زائل ہو گیا نہ نام بچا نہ ڈھانچہ۔

اس سارے تناظر میں ہم دورِ حاضر کے مسلمانوں پر اللہ کی اس عظیم نعمت کودیکھ رہے ہیں کہ اس نےانہی میں سے ایک گروہ کی مدد و نصرت کی، جس نے اس امت میں فوت شدہ اس فریضہِ امامت کو جلا بخشی،اس کے مٹے ہوئے خدوخال کی از سرِ نو تجدید کی، جس نے مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو پھر سے ایک جماعت میں سمو دیا، ان کو فرقہ پرستوں کے برپا کردہ فتنوں کے تند و تاریک طوفان سے بچالیا جس نے بعضوں کو دوزخ کی اندھی کھائیوں میں جاگرایا، اوراسی جماعت نے جہنم کے کتنے ہی دروازوں کو بند کردیا کہ جن میں گمراہی کی طرف بلانے والےداعیوں اور بد بخت و منافق امراء کے پیروکاردھڑا دھڑ گررہے تھے، پس اسی وجہ سے آج مجاہدین اس نعمت کی حفاظت پر حد درجہ حریص ہیں خواہ انہیں کس قدر فتنوں اور زلزلوں سے نبرد آزما ہونا پڑے،بس اللہ ہی ان کا بہترین مددگار و حمایتی ہے، والحمد للہ رب العالمین۔
 
Top