• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان آدمی کو خوشی عطا کرنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلمان آدمی کو خوشی عطا کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلٌّ سَرُوْرٌ تَدْخُلُہُ عَلیٰ مُسْلِمٍ۔)) 1
’’اللہ عزوجل کے ہاں تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی بھی ہے کہ جو تم کسی دوسرے مسلمان کو عطا کرو۔‘‘
شرح… : حدیث مذکورہ بالا میں لفظ ’’سرور‘‘ سے مراد فرح و شادمانی ہے کہ جو حزن و ملال اور غم کے برعکس ہوتی ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت ساری احادیث مبارکہ میں خیر اور بھلائی کے بہت سارے اعمال و افعال اور مسلم معاشرے کے اجتماعی آداب کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ خیر اور بھلائی والے ان افعال اور اجتماعی و اخلاقی آداب کے ذریعے مسلمان آدمی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو بہت ساری خوشیاں عطا کر سکتا ہے۔ بھلائی اور اخلاقی آداب والے کاموں میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(۱)… مسکراہٹ: … وہ خوشی کہ جو مسلمان آدمی اپنے مسلمان بھائی کو بآسانی دے سکتا ہے؛ یہ ہے کہ اس سے وہ ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے ملے۔‘‘ سیّدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
((’’ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ‘‘ 2وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ۔‘‘3 وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ ، وَإِنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ أَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ ، وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ إِنبَائِ أَخِیْکَ۔)) 4
’’نیکی میں سے کسی چیز کو بھی حقیر نہ جانو۔ چاہے تم اپنے (مسلمان) بھائی کو ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی ملو۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: ’’تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرا دینا بھی تمہارے لیے نیکی ہے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: ’’ہر بھلائی ، خیر کا کام نیکی ہے اور خیر کے کام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو ہشاش بشاش چہرے سے ملو۔ اور یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے ( کنویں والے)ڈول میں سے اپنے بھائی کے برتن میں بھی کچھ ڈال دو۔‘‘ (یوں تمہارے مسلمان بھائی کے دل میں بھی خوشی پیدا ہو گی۔)
ان حادیث مبارکہ میں نیکی اور بھلائی کی فضیلت پر رغبت دلاتے ہوئے ان میں سے جو بھی میسر ہو اس کا عطا کرنا ہے ، چاہے وہ کم سے کم مقدارمیں ہی میں نہ ہو۔ حتی کہ ملاقات کے وقت ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی آمنا سامنا کیوں نہ ہو۔ اس سے اُس کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے ، اور بھائیوں، دوستوں کے درمیان مودت و اُلفت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(۲)… مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع :…جب کوئی مسلمان آدمی یہ سنے کہ کوئی شخص اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کر رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا دفاع اس طرح سے کرے گویا وہ وہاں موجود ہے اور اس چغلی کو سن رہا ہے۔ اس مسلمان آدمی کو چاہیے کہ اپنے غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں ایسی بات کہے کہ جو بات وہ اُس کی جگہ اپنے متعلق پسند کرتا ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((مَنْ رَدَّ عَنْ عِْرضِ أَخِیْہِ ، رَدَّ اللّٰہُ عَنْ وَّجْہِہِ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃَ۔)) 5
’’جو مسلمان آدمی اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اُس کے چہرے سے جہنم کی آگ کو دُور کر دیں گے۔‘‘
(۳)… مسلمان کی مدد اور اس کی ستر پوشی:… ایک مسلمان آدمی کے دل میں خوشی کو داخل کرنے والے اسباب و عوامل میں سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان پر عمل بھی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح الجامع الصغیر ، رقم: ۱۷۶ ۔
2- صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء ، ح: ۶۶۹۰۔
3-صحیح سنن الترمذی ، رقم: ۱۵۹۴۔
4- صحیح سنن الترمذی ، رقم: ۱۶۰۵۔
5- صحیح سنن الترمذی ، رقم: ۱۵۷۵۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرمایا:
((مَنَّ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا ، نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلیٰ مُعْسِرٍ ، یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا ، سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ ، مَا کَانَ الْعَبْدُ فِيْ عَوْنِ أَخِیْہِ۔ وَمَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ اِلَّا یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَوَمَتَدَاوَ سُوْنَہُ بَیْنَہُمْ ، اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ ، وَغَشِیَتْہُمْ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ ، وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہُ ، وَمَنْ بَطَّأَبِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ۔)) 1
’’(سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:) جو مسلمان شخص کسی مومن آدمی سے دنیا کی کوئی سختی دُور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دُور کر دے گا۔ اور جو شخص کسی مفلس کو مہلت دے گا ( یعنی اُس پر اپنے قرض کے بارے میں تقاضا کے لیے سختی نہ کرے ) اللہ تعالیٰ اس پر آخرت اور دنیا میں آسانی فرما دیں گے۔ اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کا عیب ڈھانکے گا ، اللہ عزوجل اس کا عیب دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ڈھانکیں گے۔ اللہ عزوجل اُس وقت تک اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہے گا۔ اور جو شخص (قرآن و سنت کا ) علم حاصل کرنے کے لیے کسی راہ پر چلتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے گھروں ( مساجد)میں سے کسی گھر ( مسجد) میں اللہ کی کتاب پڑھنے کے لیے جمع ہوں، قرآن پڑھنے، پڑھانے کے لیے ، اُن پر اللہ کی رحمت اُتر آتی ہے اور اُس کی رحمت اُن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ رحمت کے فرشتے اُن کو گھیر لیتے ہیں۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ اُن لوگوں کا ذکر اپنے پاس والے فرشتوں میں کرتا ہے۔ اور جس کا عمل کوتاہی کرے تو اس کا خاندانی حسب و نسب ( کل قیامت والے دن) اُس کے کچھ کام نہ آئے گا۔‘‘
اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جملہ افعال و اعمال اور آداب کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جو ایک مسلمان آدمی پر لازم ہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں انہیں سر انجام دے۔ ان سے خوشی و شادمانی اور فرحت و مسرت اُس کے دل میں جا داخل ہو گی۔ چنانچہ کسی دُکھ تکلیف کا کسی مسلمان آدمی سے دُور کر دینا اپنے بھائی سے فکر و غم اور حزن و ملال کو دُور کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اُس کا بدلہ و اجر بھی اسی نوع سے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اُ س سے غم، فکر اور تکلیف کودُور فرما دیں گے ۔ اسی طرح کسی مفلس و تنگدست کے لیے قرض وغیرہ کے معاملے میں آسانی پیدا کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے اس مفلس بھائی پر صبر کرے کہ جو قرض کی ادائیگی نہیں کر پا رہا۔ اس کا حکم تو اللہ عزوجل نے بھی دیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح مسلم، کتاب الذکر ، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر ، حدیث: ۶۸۵۳۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ فرمایا:
{وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo} [البقرہ: ۲۸۰]
’’ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو آسانی تک مہلت دینا لازم ہے اور یہ بات کہ صدقہ کر دو تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا ، أَوْ وَضَعَ عَنْہُ ، أَظَلَّہُ اللّٰہِ فِیْ ظِلِّہِ۔)) 1
’’(بروایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ) جس مسلمان شخص نے کسی مومن مفلس کو مہلت دی ( اور اُس سے اپنا قرض واپس لینے میں جلدی نہ کی) یا اُسے اپنا قرض معاف کر دیا، اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے (کل قیامت والے دن) اپنی ذاتِ اقدس کا سایہ عطا فرمائیں گے۔‘‘
(( وَعَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: ’’ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَہُ صَدَقَۃٌ؟ ‘‘ قَالَ: ثُمَّ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: ’’مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَۃٌ‘‘ قُلْتُ: سَمِعْتُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ تَقُوْلُ: ’’ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَہُ صَدَقَۃٌ۔‘‘ ثُمّ سَمِعْتُکَ تَقُوْلُ: ’’ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَۃٌ۔‘‘ قَالَ: لَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ صَدَقَۃٌ قَبْلَ أَنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ ، فَإِذَا حَلَّ الدَّیْنُ فَأَنْظَرَہُ فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَۃٌ۔‘‘ )) 2
آدمی نے کسی تنگدست کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دی ، اس کے لیے ہر دن کے بدلے اس قرض سے دُگنا اجر و انعام ملے گا۔ ‘‘ سیّدنا بریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے کسی مفلس آدمی کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دی ، اسے ہر دن کے بدلے اس قرض جتنا ( برابر کا) ثواب ملے گا۔ ‘‘ پھر میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے : جس شخص نے ( اپنے) کسی مفلس ( مسلمان بھائی) کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دی، اس۔ے ہر روز کے بدلے اس قرض سے دُگنا اجر و ثواب ملے گا۔ ‘‘ ( تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ ) فرمایا: ’’اُسے ہر دن کے بدلے برابر کا اجر ملے گا جب تک قرض کی ادائیگی کا وقت نہیں آجاتا۔ اور جب قرض کی ادائیگی کا وعدہ گزر گیا اور قرض خواہ نے اپنے مسلمان قرض دار بھائی کو مزید مہلت دی تو اس وقت اسے ہر ہر دن کے بدلے اس قرض سے دُگنا اجر و انعام ملے گا۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح مسلم، کتاب الزہد، باب حدیث جابر الطویل ، ح: ۷۵۱۲۔
2- صحیح الجامع الصغیر ، رقم: ۶۱۰۸، واللفظ فی مسند احمد، رقم: ۲۲۹۴۲، وقال حمزۃ احمد الزین: إسنادہ صحیحٌ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مفلس آدمی پر آسانی یہ بھی ہے کہ قرض خواہ اُ سے قرض کی کچھ رقم یا کچھ حصہ معاف کر دے یا یہ کہ سارے کا سارا قرض معاف کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے درج ذیل فرمان میں اس عمل پر خیر ، بھلائی اور بڑے اجر وانعام کا وعدہ فرمایا ہے:
{وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo} [البقرہ: ۲۸۰]
’’اور اگر اصل قرض بھی معاف کر دو(سارے کا سارا معاف کر دو یا اس میں سے کچھ حصہ) تو اور اچھا ہے تمہارے لیے اگر تم سمجھ لو۔‘‘
اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ:
((کَانَ تَاجِرٌ یُدَایِنُ النَّاسَ ، فَإِذَا رَأَیَ مُعْسِرًا قَالَ لِفِتْیَانِہِ : تَجَاوَزُوا عَنْہُ لَعَلَّ اللّٰہُ أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا ، فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) 1
’’ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب وہ کسی قرض دار کو تنگ دستی کی حالت میں دیکھتا تو اپنے لڑکوں سے کہتا: اس سے در گزر کرو۔ شاید اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سے در گزر فرما دے۔ چنانچہ اللہ کریم نے بھی ا س سے در گزر فرما دیا۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح بخاری ، کتاب البیوع ، باب من أنظر معسراً، رقم: ۲۰۷۸۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جہاں تک اس مسلمان آدمی کا تعلق ہے کہ جس نے کسی مومن آدمی کی پردہ پوشی کی اور اس کے راز کو افشاء نہ کیا اور نہ ہی لوگوں کے درمیان اس کے عیبوں کی تشہیر کی تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اور جو آدمی اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہتا ہے، تو چاہے وہ اس کی کوئی حلال ضرورت پوری کر دے یا اسے علم و تعلم، مال و دولت، مدد و معاونت یا کسی مصلحت کے اشارہ یا نصیحت وغیرہ کے ذریعے اس کی مدد کرے، ا س معنی میں یہ سب افعالِ خیر برابر ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تب تک اس مدد گار مسلمان آدمی کی مدد میں رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ سُرُوْر تَدْخُلَہُ عَلیٰ مُسْلِمٍ ، أَوْ تَکْشِفَ عَنْہُ کُرْبَۃً ، أَوْ تَقْضيْ عَنْہُ دِیْنًا ، أَوْ تَطْرُدُ عَنْہُ جُوْعًا ، وَلَأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخِي الْمُسْلِمَ فِيْ حَاجَۃٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَکِفَ فِیْ الْمَسْجِدِ شَہْرًا وَمَنْ کَفَّ غَصَبَہُ ، سَتَرَ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ وَمَنْ کَظَلَمَ غَیْلًا وَلَوْ شَآئَ أَنْ یَمْضِیَہُ اَقْضَاہُ مَلَا اللّٰہُ قَلْبَہُ رِضًی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ وَمَنْ مَشٰی مَعَ أَخِیْہِ الْمُسْلِمِ فِیْ حَاجَتِہٖ حَتَّی یَثْبُتُہَا لَہُ ،أَثْبَتَ اللّٰہُ تَعَالیٰ قَدَمَہُ یَوْمَ تَزَلُّ الْاَقْدَامُ وَاِنَّ سُوْئَ الْخَلْقِ یُفْسِدُ الْعَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الْخلُّ الْعَسِلَ۔)) 1
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب اعمال سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ فرحت و مسرت ہے جو تم کسی مسلمان بھائی کو عطا کر سکو۔ یا اس سے کوئی دُکھ، غم دُور کر سکو۔ یا اس سے کوئی قرض اد اکر سکو یا اس کی بھوک مٹا سکو۔ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری کے لیے میں پیدل اس کے ہمراہ چلوں میرے نزدیک یہ عمل اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں مسجد ( نبوی) میں ایک ماہ تک اعتکاف کروں۔ جو آدمی اپنے اوپر ہونے والے جبر کا بدلہ لینے سے باز رہا اللہ عزوجل اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ جس نے اپنے غصہ پر قابو پا لیا اور اگر وہ چاہے کہ اس کو گزار دے تو وہ اسے گزار دے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس کے دل کو رضا مندی سے بھر دیں گے۔ جو آدمی اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری کے لیے اس کے ساتھ چلا حتی کہ یہ ضرورت اس کے لیے وہ یقینی بنا دے تو اللہ عزوجل قیامت والے دن کہ جب قدم ڈگمگا رہے ہوں گے اسے ثابت قدمی عطا فرمائیں گے۔ بلاشبہ بد خلقی اس طرح سے عمل کو خراب، برباد کر دیتی ہے جس طرح سرکا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح الجامع الصغیر ، رقم: ۱۷۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۴)… مسلمان آدمی سے اللہ کی خاطر ملاقات کے لیے جانا:…نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان
فرمایا ہے کہ:
((أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَہُ فِيْ قَرْیَۃٍ أُخْرٰی ، فَأَرْصَدَ اللّٰہُ لَہُ عَلیٰ مَدْرَجَتِہِ مَلَکًا ، فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْہِ قَالَ: أَیْنَ تُرِیْدُ؟ قَالَ: أَرِیْدُ أَخًا لِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ۔ قَالَ : ہَلْ لَکَ عَلَیْہِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّہَا؟ قَالَ: لَا ، غَیْرَ أَنِي أَحْبَبْتُہُ فِي اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ قَالَ: فَإِنِّيْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتُہُ فِیْہِ۔1
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ مَنْ عَادَ مَرِیْضًا ، أَوْ زَارَ أخًا لَہُ فِي اللّٰہِ نَادَاہُ مُنَادٍ: أنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاکَ وَتَبَوَّاْتَ مِنَ الْجَنَّۃَ مَنْزِلًا۔‘‘ )) 2
’’ ایک آدمی اپنے مومن ، مسلمان بھائی کی ملاقات کے لیے دوسرے گاؤں کی طرف گیا۔ اللہ عزوجل نے اس کی راہ میں ایک فرشتے کو ( انسانی شکل و صورت میں) کھڑا کر دیا۔ جب یہ آدمی وہاں پہنچا تو اس فرشتے نے پوچھا: ہاں بھائی! کہاں جا رہے ہو؟ وہ کہنے لگا: اس ( قریب والی ) بستی میں میرا ایک بھائی ہے، میں اس سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا اس آدمی کا تمہارے اوپر کوئی احسان ہے؟ جس کا بدلہ چکانے کے لیے تم اس کے پاس جا رہے ہو؟ کہنے لگا: نہیں، اس کا میرے اوپر کوئی احسان نہیں ہے۔ میں تو اس سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتہ کہنے لگا: میں اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواتمہارے پاس آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے جس طرح تم اس کی ذات کے لیے اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرتے ہو۔‘‘اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’جس مسلمان آدمی نے کسی مسلمان مریض کی تیمار داری کی یا وہ ایک اللہ کی خاطر اپنے مومن ، مسلمان بھائی کی ملاقات کے لیے گیا، اُسے ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے، تیرے لیے بھی مبارک بادی ہو اور تیرا چلنا بھی مبارک ہو۔ تو نے تو جنت میں داخل ہونے کی جگہ بنا لی ہے۔‘‘
ان دونوں ( صحیح مسلم و ترمذی کی ) حدیثوں میں مسلمان بھائیوں اور ساتھیوں کی اللہ کے لیے ملاقات کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح ان میں ایک اللہ کے لیے محبت کی فضیلت بھی مذکور ہے اور یہ کہ بلاشبہ یہ محبت، بندے اللہ کریم کی محبت کا ذریعہ و سبب بھی بنتی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی ملاقات اور بیماروں کی تیمار داری بھی ایک مسلمان بھائی کو خوشی عطا کرنے کے ذرائع میں سے ہیں۔ اور یہ کہ ایسے کام اخوت و صداقت کے روابط کو تقویت پہنچانے کے ذریعہ بھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب فضل الحب في اللّٰہ تعالیٰ ، رقم: ۶۵۴۹۔
2- صحیح سنن الترمذی ، رقم: ۱۶۳۳، کتاب البر والصلۃ ، حدیث: ۲۰۰۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۵)… چھینک آنے پر مسلمان آدمی کی الحمد للہ کا جواب دینا:…سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذَا عَطِسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلْیَقُلْ لَہُ أَخُوْہُ ـ أَوْ صَاحِبْہُ ـ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ، فَإِذَا قَالَ لَہُ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ، فَلْیَقُلْ : یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔)) 1
’’تم میں سے جب کوئی آدمی چھینک مارے تو اُسے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا چاہیے ۔ اور پھر اس کا مسلمان بھائی اُسے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے۔جب یہ بھائی چھینک مارنے والے کو یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہے تو اُسے چاہیے کہ جواب میں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحْ بَالَکُمْ کہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں سیدھی راہ کی ہدایت نصیب فرمائے اور آپ لوگوں کے اللہ احوال درست فرما دے۔ )
مسلمان آدمی کا اپنے مسلمان بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ چھینک مارنے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ (سب خاص تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) کہے تو وہ اس کا جواب یَرْحَمُکَ اللّٰہُ (اللہ آپ پر رحم فرمائے) سے دے۔دوسری ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحت اپنے فرمانِ گرامی میں یوں فرمائی ہے:
(( فَإِذَا عَطِسَ أَحَدُکُمْ وَحَمِدَ اللّٰہَ کَانَ حَقًّا عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَہُ أَنَّ یَقُوْلَ لَہُ: یَرْحَمْکَ اللّٰہُ۔)) 2
’’تو جب کوئی تم میں سے چھینک مارے اور اللہ عزوجل کی حمد بیان کرے ہر مسلمان پر کہ جو اس الحمد للہ کو سنے یہ اس کا حق ہے کہ اُ س سے کہے:یَرْحَمُکَ اللّٰہُ … اللہ تم پر رحم فرمائے۔ ‘‘
لیکن چھینک مارنے والا اگر الحمد للہ نہیں کہتا تو پھر پاس والا آدمی اسے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ بھی نہ کہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح بخاری ، کتاب الأدب، باب اذا عطس کیف یسمت، حدیث: ۶۲۲۴۔
2- صحیح بخاری ، کتاب الأدب ، باب إذا تثاء ب فلیضع یدہ علی فیہ ، حدیث: ۶۲۲۶۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top