• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان اور کرسمس از شیخ حامد کمال الدین

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اہل کتاب کو اُن کے تہواروں پر مبارکباد دینا
مذاہب اربعہ کے نزدیک حرام ہے
شیخ عبد اللہ الحسینی الازہری
الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوٰۃ والسلام علیٰ أشرف الخلق أجمعین نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ ومن تبعہم بإحسان إلیٰ یوم الدین، وبعد:
یہ مسئلہ جس پر پچھلے چند ہفتوں سے ہمارے بحرین کے اخبارات و جرائد نے ایک بحث چھیڑ رکھی ہے دراصل شرعی مسائل کے زمرے میں آتا ہے۔ فاضل مشائخ نے اِس پر اپنی آراء ظاہر فرمائی ہیں مگر ہم چاہتے تھے کہ اہل کتاب کے تہواروں پر ان کو مبارک اور تہنیت پیش کرنے کے جواز پر یہ حضرات ہمیں شریعت سے دلائل دیتے اور ہمارے اسلامی فقہی ورثہ سے اس پر کچھ مستند شواہد پیش کرتے!
اِس مسئلہ پر گفتگو کے لیے ہمیں کئی ایک امور پر روشنی ڈالنا ہو گی:
اولاً۔ تہنیت (مبارکباد) کا مفہوم:
اہل لغت کا اتفاق ہے کہ ’’تہنیت‘‘ ضد ہے ’’تعزیت‘‘ کی۔ علامہ بجیرمی فرماتے ہیں: التَّہْنۃُ ضِدَّ التَّعْزِیَۃَ فَہِیَ الدُّعَاءُ بَعْدَ السُّرُوْرِ، وَالتَّعْزِیَۃُ حَمْلُ الْمُصَابِ عَلَی الصَّبْرِ بِوَعْدِ الأجْرِ وَالدُّعَاءِ لَہ ’’تہنیت ضد ہے تعزیت کی، یعنی یہ خوشی کے موقع پر دی جانے والی ایک دعاء ہوتی ہے (۱)۔جبکہ تعزیت کا مطلب ہے کسی آفت زدہ شخص کو صبر کی تلقین کرنا اُس کو اجر کی یاد دہانی کرانے اور اس کے لیے دعا کرنے کی صورت میں‘‘۔
مالکی فقیہ ابن الحاج کہتے ہیں: معمول یہ ہے کہ تہنیت اور مبارکباد وغیرہ لوگوں کے ہاں اس وقت پائی جاتی ہے جب ان کے مابین ایک خاص درجہ کی مودت، میل جول اور بھائی چارہ پایا جائے، برخلاف سلام آداب کے جوکہ سب کے لیے مشروع ہے، یعنی یہ (سلام آداب) اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے ہم جانتے ہوں اور اس شخص کو بھی جسے ہم نہ جانتے ہوں۔
ثانیاً۔ کیا یہ مسئلہ آج پیدا ہوا ہے؟ (۲)
شاید ہمارا گمان ہو کہ یہ ایک ’عصری‘ مسئلہ ہے، یعنی یہ اُن مسائل میں سے ہے جو آج جا کر پیدا ہوئے ہیں لہٰذا یہ مسائل ہمیں اپنے پرانے اسلامی فقہی ورثے میں تو کہیں ملیں گے ہی نہیں!
لیکن اگر آپ اپنے فقہی مراجع کی تھوڑی سی ورق گردانی کریں تو آپ کا یہ گمان غلط نکلتا ہے۔ اس کے برعکس؛ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ متقدمین اہل علم نے اس مسئلہ پر پوری تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ دعاء ہے کہ اللہ ان سب فقہاء کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔
بنابریں؛ یہ ہرگز ضروری نہیں رہ جاتا کہ اِس مسئلہ پر امت کے لیے ہم آج یکلخت نئے فتاویٰ صادر کریں، جبکہ ہمارے علمائے متقدمین نے ایک اعلیٰ علمی پائے کا حامل ہوتے ہوئے اور نہایت عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اِس موضوع پر جو مقررات ہمیں پہلے سے دے رکھے ہیں وہ ہمارے نزدیک کالعدم ٹھہریں۔
ثالثاً۔ اِس مسئلہ میں اہل علم کا مذہب
اختصار کے ساتھ میں اِس مسئلہ میں مذاہب اربعہ کے اہل علم کے اہم اہم اقوال آپ کے سامنے رکھوں گا:
۱۔ ساداتِ حنفیہ کا مذہب
قال أبو حفص الکبیر رحمہ اللہ: لو أن رجلاً عَبَدَ اللّٰہَ تعالیٰ خمسین سنۃً ثم جاء النیروز وأہدی اِلی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم فقد کفر وحبط عملہ.
وقال صاحب الجامع الأصغر: اِذا أہدی یوم النیروز اِلی مسلم آخر ولم یرد بہ تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس لا یکفر ولکن ینبغی لہ أن لا یفعل ذلک فی ذلک الیوم خاصۃ ویفعلہ قبلہ أو بعدہ لکی لا یکون تشبیہاً بأولئک القوم، وقد قال ﷺ: ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘
ابو حفص الکبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی آدمی نے پچاس سال تک اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت گزاری کی ہو، البتہ وہ نوروز کے تہوار پر کسی مشرک کو صرف ایک انڈہ پیش کرآئے، جس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم کرنا ہو؛ تو ایسا آدمی کافر ہو جاتا ہے اور اس کا سارا عمل برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔
صاحب الجامع الاصغر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نوروز کے دن اگر وہ کسی دوسرے مسلمان کو تحفہ تحائف دے، جبکہ اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم کرنا نہ ہو بلکہ رواج کے طور پر ہو تو اس سے وہ کافر تو نہیں ہوتا البتہ اس پر لازم یہی ہے کہ خاص اس روز وہ یہ کام نہ کرے؛ اس سے پہلے کر لے یا اس کے بعد کرلے تاکہ اُس قوم کی مشابہت میں نہ آئے۔ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہو جاتا ہے‘‘۔
وقال فی الجامع الأصغر: رجل اشتری یوم النیروز شیئاً یشتریہ الکفرۃ منہ وہو لم یکن یشتریہ قبل ذلک إن أراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ المشرکون کفر، وإن أراد الأکل والشرب والتنعم لا یکفر۔ أھ
فرمایا الجامع الاصغر میں: ایک آدمی نوروز کے دن کوئی ایسی چیز خرید کر لاتا ہے جس کو کافر خریدنے جاتے ہیں، جبکہ اس سے پہلے وہ اس کو خریدنے والا نہ تھا، اس سے اگر اس کا مقصد اُس دن کی تعظیم کرنا ہو جس طرح کہ مشرکین اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ شخص کافر ہو گیا۔ البتہ اگر اس کا مقصد محض کھاناپینا اور نعمت کا حظ اٹھانا ہو تو وہ کافر نہیں ہوتا۔
دیکھئے: البحر الرائق شرح کنز الدقائق للعلامۃ ابن نجیم ج ۸ ص ۵۵۵
۲۔ ساداتِ مالکیہ کا مذہب:
(فصل) فی ذکر بعض مواسم أہل الکتاب۔ فہذا بعض الکلام علی المواسم التی ینسبونہا إلی الشرع ولیست منہ۔ وبقي الکلام علی المواسم التی اعتادہا أکثرہم وہم یعلمون أنہا مواسم مختصۃ بأہل الکتاب فتشبہ بعض أہل الوقت بہم فیہا وشارکوہم فی تعظیمہا یا لیت ذلک لو کان فی العامۃ خصوصاً ولکنک تری بعض من ینتسب إلی العلم یفعل ذلک فی بیتہ ویعینہم علیہ ویعجبہ منہم ویدخل السرور علی من عندہ فی البیت من کبیر وصغیر بتوسعۃ النفقۃ والکسوۃ علی زعمہ بل زاد بعضہم أنہم یہادون بعض أہل الکتاب فی مواسمہم ویرسلون إلیہم ما یحتاجونہ لمواسمہم فیستعینون بذلک علی زیادۃ کفرہم ویرسل بعضہم الخرفان وبعضہم البطیخ الأخضر وبعضہم البلح وغیر ذلک مما یکون فی وقتہم وقد یجمع ذلک أکثرہم، وہذا کلہ مخالف للشرع الشریف ومن العتبیۃ۔
قال أشہب: قیل لمالک: أتری بأسا أن یہدی الرجل لجارہ النصرانی مکافأۃ لہ علی ہدیۃ أہداہا إلیہ؟ قال ما یعجبنی ذلک قال اللہ عزوجل: ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْہِم بِالْمَوَدَّۃِ ‘‘۔ (الممتحنۃ: ۱۱) قال ابن رشد رحمہ اللہ تعالی: قولہ مکافأۃ لہ علی ہدیۃ أہداہا إلیہ إذ لا ینبغی لہ أن یقبل منہ ہدیۃ؛ لأن المقصود من الہدایا التودد لقول النبی ﷺ: ’’ تہادوا تحابوا وتذہب الشحناء‘‘، فإن أخطأ وقَبِلَ منہ ہدیتہ وفاتت عندہ فالأحسن أن یکافۂ علیہا حتی لا یکون لہ علیہ فضل فی معروف صنعہ معہم۔
وسئل مالک رحمہ اللہ عن مؤاکلۃ النصرانی فی إناء واحد۔ قال: ترکُہ أحب إلي ولا یصادق نصرانیاً۔ قال ابنُ رشد رحمہ اللہ: الوجہ فی کراہۃ مصادقۃ النصرانی بیِّنٌ؛ لأن اللہ عزوجل یقول: ’’لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ‘‘ (الممتحنۃ: ۲۲)
فواجب علي کل مسلم أن یبغض فی اللہ من یکفر بہ ویجعل معہ إلٰہاً غیرہ ویکذب رسولہ ﷺ، ومؤاکلتہ فی إناءٍ واحد تقتضی الألفۃ بینہما والمودۃ فہی تکرہ من ہٰذا الوجہ وإن علمت طہارۃ یدہ۔ ومن مختصر الواضحۃ: سئل ابن القاسم عن الرکوب فی السفن التی یرکب فیہا النصاریٰ لأعیادہم۔ فَکَرِہَ ذٰلک مخافۃ نزول السخط علیہم لکفرہم الذی اجتمعوا لہ۔
قال: وکرہ ابن القاسم للمسلم أن یہدی إلی النصرانی فی عیدہ مکافأۃ لہ۔ ورآہ من تعظیم عیدہ وعوناً لہ علی مصلحۃ کفرہ۔ ألا تری أنہ لا یحل للمسلمین أن یبیعوا للنصاریٰ شیئاً من مصلحۃ عیدہم لا لحماً ولا إداماً ولا ثوباً ولا یعارون دابۃً ولا یعانون علی شیء من دینہم لأن ذٰلک من التعظیم لشرکہم وعونہم علیٰ کفرہم وینبغی للسلاطین أن ینہوا المسلمین عن ذلک، وہو قول مالک وغیرہ، لم أعلم أحداً اختلف فی ذٰلک۔ انتہیٰ
ویمنع التشبہ بہم کما تقدم لما ورد فی الحدیث ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ ومعنیٰ ذٰلک تنفیر المسلمین عن موافقۃ الکفار فی کل ما اختصوا بہ۔ وقد کان علیہ الصلاۃ والسلام یکرہ موافقہ أہل الکتاب فی کل أحوالہم حتی قال الیہود إن محمداً یرید أن لا یدع من أمرنا شیئا إلا خالفنا فیہ۔
وقد جمع ہؤلاء بین التشبہ بہم فیما ذکر والإعانۃ لہم علیٰ کفرہم فیزدادون بہ طغیاناً إذ أنہم إذا رأوا المسلمین یوافقونہم أو یساعدونہم، أو ہما معاً، کان ذٰلک سبباً لغبطتہم بدینہم ویظنون أنہم علی حق وکثر ہٰذا بینہم۔أعنی المہاداۃ حتی إن بعض أہل الکتاب لیہادون ببعض ما یفعلونہ فی مواسمہم لبعض من لہ ریاسۃ من المسلمین فیقبلون ذٰلک منہم ویشکرونہم ویکافؤنہم۔ وأکثر أہل الکتاب یغتبطون بدینہم ویسرون عند قبول المسلم ذٰلک منہم، لأنہم أہل صور وزخارف فیظنون أن أرباب الریاسۃ فی الدنیا من المسلمین ہم أہل العلم والفضل والمشار إلیہم فی الدین وتعدی ہٰذا السمُّ لعامۃ المسلمین فسری فیہم فعظموا مواسم أہل الکتاب وتکلفوا فیہا النفقۃ) ا۔ھ

(فصل) اہل کتاب کے بعض تہواروں کا بیان۔
یہ کچھ کلام ہوا اُن تہواروں پر جنہیں وہ شرع کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ وہ شرع سے نہیں۔
البتہ اُن تہواروں پر کلام کرنا ابھی باقی ہے جن کو (ہماری) اکثریت نے معمول بنا لیا ہے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اہل کتاب کے تہوار ہیں۔ یوں ہمارے زمانے کا ایک طبقہ اُن کی مشابہت کرنے لگا ہے اور ان دنوں کی تعظیم میں اُن کے ساتھ شمولیت کرنے لگا ہے۔ کاش صرف اتنا ہوتا کہ عوام ہی اس میں گرفتار ہوتے۔ مگر تم دیکھتے ہو علم سے منسوب بعض لوگ بھی اپنے گھروں میں یہ کام کرنے لگے ہیں اور اُن کے مددگار ہونے اور ان (کے اس معمول کو) پسند کرنے لگے ہیں۔ یہ (ان مواقع پر) گھر میں سب چھوٹوں بڑوں کو آسودگی اور راحت پہنچاتے ہیں یعنی اُس دن گھر میں کھانا پینا اور پہناوا اپنے تئیں اچھا کر لیتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اس سے بھی بڑھ کر اہل کتاب کو تحفہ تحائف دینے لگے اور ان تہواروں پر ان کو ایسی اشیاء ارسال کرنا شروع کر دیں جن سے (شہ پا کر) وہ اپنے اس کفر میں اور بھی بڑھیں۔ چنانچہ بعض لوگ اِن تہواروں پر اُن کو باقاعدہ دنبے بھیجتے ہیں، بعض تربوز کا ہدیہ کرتے ہیں اور بعض کھجوروں کا یا جو چیز اُس موسم میں پائی جاتی ہو۔اکثریت تو اب یہ سبھی کام کر لینے لگی ہے۔ یہ سب کام شرع شریف کے خلاف ہیں اور قابل مذمت۔
اشہب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: امام مالک سے پوچھا گیا: کیا آپ اس میں کوئی حرج پاتے ہیں کہ آدمی اپنے عیسائی ہمسائے کو تحفہ دے جس سے مقصد یہ ہو کہ اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کردیا جائے جو وہ اس سے پہلے کبھی اس کو دے کر گیا ہو؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں اس کو پسند نہیں کرتا؛ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! مت بناؤ دوست میرے دشمن کو اور خود اپنے دشمن کو، کہ پیش کش کرو تم ان کو مودت و قرب خواہی کی‘‘
ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اوپر جو بات ہوئی کہ ’’مقصد اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کرنا ہو جو وہ اس سے پہلے کبھی اس کو دے کر گیا ہو‘‘ (امام مالک کا اس کے جواب میں ’’نہیں‘‘ کہنا) اس لیے کہ اس کے لیے یہی جائز نہیں
کہ وہ اس سے تحفہ قبول کرے؛ کیونکہ تحفہ تحائف سے مقصد مودت کو بڑھانا ہوتا ہے جیسا کہ نبی ا کا فرمان ہے: ’’تحفے دیا لیا کرو؛ تمہاری باہمی محبت میں اضافہ ہونے لگے گا اور آپس کی کدورت جاتی رہے گی‘‘۔ تاہم اگر وہ اُس سے تحفہ قبول کرنے کی غلطی کر چکا ہے اور وہ تحفہ اس کے ہاں باقی بھی نہیں رہا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ وہ اسکا حساب برابر کر دے تاکہ اُسکا کوئی فضل اور احسان باقی نہ رہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا: کیا عیسائی کے ساتھ ایک برتن میں کھایا جا سکتا ہے؟ فرمایا: ایسا نہ کرنا میرے نزدیک بہتر ہے؛ عیسائی سے دوستی ہی مت رکھے۔
ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: عیسائی سے دوستی کی کراہت نہایت بیّن ہے اِس لیے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’تم نہ پاؤ گے ایسے لوگوں کو جن کا ایمان ہو اللہ اور یوم آخرت پر اور وہ محبت رکھیں ان لوگوں سے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آرا ہوں‘‘
پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی خاطر بغض کرے ایسے شخص سے جو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہو اور اُس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ٹھہراتا اور اُس کے رسول ا کی تکذیب کرتا ہو۔ جبکہ اُس کے ساتھ ایک برتن میں کھانا دونوں کے مابین الفت اور مودت کا متقاضی ہوگا؛ لہٰذا یہ اس پہلو سے ناپسندیدہ ہے، اگرچہ ہمیں معلوم بھی ہو کہ اس (کافر) کا ہاتھ ناپاک نہیں ہے۔
مختصر الواضحہ میں آتا ہے: ابن القاسم (تلمیذِامام مالک) سے پوچھا گیا: ایسے بحری جہازوں میں سوار ہونا کیسا ہے جن میں عیسائی اپنے تہواروں پر روانہ ہوتے ہوں؟ جواب میں، آپ نے اس بات کو ناپسند فرمایا؛ کہ کیا بعید ان پر قہر نازل ہو اس کفر کے باعث جس کے لیے وہ جمع ہوئے ہیں۔
نیز کہا کہ: ابن القاسم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمان کے لیے ناپسند ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک نصرانی کو اُس کی عید کے دن تحفہ دے اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کرنے کے لیے۔ ابن القاسم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نصرانیوں کی عید کی تعظیم باور کیا اور اس کے کفر پر اُس کو اعانت دینے میں شمار کیا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے لیے تو یہ جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ کو اُن کی عید کی مناسبت سے کوئی بھی چیز فروخت کریں، نہ گوشت، نہ سالن، نہ کپڑا۔ اور نہ سواری کا جانور اُن کو عاریہ کیا جائے گا۔ غرض اُن کے دین کے معاملہ میں اُن کی کوئی معاونت نہ ہو گی؛ کیونکہ یہ اُن کے شرک کی تعظیم میں آجاتا ہے اور اُن کے کفر پر اُن کو مدد دینا شمار ہوتا ہے۔ مسلمان سلاطین پر فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو اِس سے روکیں۔ امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے اور دیگر فقہاء کا بھی۔ میرے علم میں کوئی ایک بھی فقیہ نہیں جس نے اِس معاملہ میں اختلاف کیا ہو۔
اُن کے ساتھ مشابہت منع ہے ، جیسا کہ پیچھے گزرا، کیونکہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘ جس سے آپ ﷺ کا مقصود کہ مسلمانوں کو کفار کی موافقت سے دور رکھنا ہے ہر اُس چیز میں جو کفار کا خاصہ ہے۔ خود آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ کفار کی موافقت سے جملہ امور میں کراہت فرماتے، یہاں تک کہ یہود یہ کہنے لگے کہ محمد (ا) کوئی ایک بھی معاملہ ہماری مخالفت کیے بغیر رہنے نہیں دینا چاہتے۔
پیچھے جو حال بیان ہوا، تو یہ (مسلمان) ہر دو برائی کو جمع کرتے ہیں: کفار کی مشابہت اور اُنکے کفر پر اُنکی اعانت؛ جس سے وہ اپنی سرکشی میں اور بھی بڑھتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان اُن کی موافقت یا اُن کی مدد کرنے میں لگے ہیں، یا یہ دونوں کام کرنے میں لگے ہیں، تو وہ اپنے باطن میں خوب اتراتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر جاننے لگتے ہیں۔ اب یہ چیز مسلمانوں اور کفار کے مابین بہت بڑھ گئی ہے۔ میرا مقصد ہے ان کے مابین تحفہ تحائف۔ یہاں تک نوبت آچکی کہ اہل کتاب کے بعض لوگ اپنے تہواروں پر تیار ہونے والی اشیاء میں سے کچھ سوغات مسلمانوں کے اہل اقتدار طبقوں کی نذر کرنے آتے ہیں جسے یہ قبول کر لیتے ہیں اور اس پر انکے شکرگزار ہوتے اور پھر اس کے جواب میں انکو تحائف دیتے ہیں۔ اکثر اہل کتاب کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان جب ان سے یہ سب کچھ قبول کرتا ہے تو وہ اپنے دین پر فخر کرتے اور خوشی سے بے حال ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ وہ ظاہری صورت اور نقش ونگار پہ جانے والے لوگ ہیں ، اس لیے وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کے دنیوی اربابِ اقتدار ہی مسلمانوں کا اہل علم وفضل طبقہ اور دین میں مسلمانوں کیسربرآوردہ لوگ ہیں۔ یہی زہر حکمرانوں سے گزر کر عامۃ المسلمین میں سرایت کر گیا ہے، اور اب یہ بھی اہل کتاب کے تہواروں کو کوئی چیز جاننے لگے ہیں اور اس پر خرچہ پانی بھی کرنے لگے ہیں۔ (۳)
دیکھئے : المدخل لابن الحاج المالکی ج ۲ ص ۴۶ ۔ ۴۸
۳۔ ساداتِ شافعیہ کا مذہب:
امام دمیری رحمۃ اللہ علیہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب ’’المنہاج‘‘ کی شرح کرتے ہوئے، فصل ’’تعزیر‘‘ کے اختتام پر ایک تتمہ باندھتے ہیں:
(تتمۃ: یُعَزَّرُ من وافق الکفار فی أعیادہم، ومن یمسک الحیۃ، ومن یدخل النار، ومن قال لذمی: یا حاج، ومن ہنَّأَہ بعیدٍ، ومن سمّیٰ زائر قبور الصالحین حاجاً، والساعی بالنمیمۃ لکثرۃ إفسادہا بین الناس، قال یحییٰ بن أبی کثیر: یفسد النمَّام فی ساعۃٍ ما لا یفسد الساحر فی سنۃٍ) أھ
تتمہ: ایسے شخص کو تعزیر (دُرّے وغیرہ) لگائے جائیں گے جو کفار کے ساتھ اُن کی عیدوں میں موافقت کرے، یا جو (تماشے کے طور پر) سانپ پکڑ کر دکھائے، یا جو آگ میں داخل ہو کر دکھائے، یا جو ذمی کو ’حاجی صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرے، یا جو ذمی کو اُس کی عید پر مبارکباد دے، یا جو صالحین کی قبروں کی زیارت کرنے والے کو حاجی کا لقب دے، یا جو لوگوں میں لگائی بجھائی کرتا پھرے (یعنی نمام)۔ یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں: نمام ایک ساعت میں وہ فساد برپا کر لیتا ہے جو ساحر پورے سال میں نہ کر سکے۔
دیکھئے: النجم الوہاج فی شرح المنہاج للعلامۃ الدمیری ج ۹ ص ۲۴۴۔
واضح رہے، کتاب المنہاج ہی کی ایک دوسری شرح مغنی المحتاج إلیٰ معرفۃ معانی ألفاظ المنہاج میں (ج ۴ ص ۱۹۱ پر) علامہ الخطیب الشربینی بھی یہی بات کہتے ہیں)
شافعی فقیہ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ ’’باب الرِّدَّۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
ثم رأیت بعض أئمتنا المتأخرین ذکر ما یوافق ما ذکرتہ فقال: ومن أقبح البدع موافقۃ المسلمین النصاریٰ فی أعیادہم بالتشبہ بأکلہم والہدیۃ لہم وقبول ہدیتہم فیہ وأکثر الناس اعتناء بذلک المصریون وقد قالؐ: ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘۔ بل قال ابن الحاج لا یحل لمسلم أن یبیع نصرانیاً شیئاً من مصلحۃ عیدہ لا لحماً ولا أدماً ولا ثوباً ولا یعارون شیئا ولو دابۃ إذ ہو معاونۃ لہم علیٰ کفرہم وعلیٰ ولاۃ الأمر منع المسلمین من ذلک۔ ومنہا اہتمامہم فی النیروز بأکل الہریسۃ واستعمال البخور فی خمیس العیدین سبع مرات زاعمین أنہ یدفع الکسل والمرض وصبغ البیض أصفر وأحمر وبیعہ والأدویۃ فی السبت الذی یسمونہ سبت النور وہو فی الحقیقۃ سبت الظلام۔ ویشترون فیہ الشبث ویقولون إنہ للبرکۃ ویجمعون ورق الشجر ویلقونہا لیلۃ السبت بماءٍ یغتسلون بہ فیہ لزوال السحر ویکتحلون فیہ لزیادۃ نور أعینہم ویدہنون فیہ بالکبریت والزیت ویجلسون عرایا فی الشمس لدفع الجرب والحکۃ ویطبخون طعام اللبن ویأکلونہ فی الحمام إلیٰ غیر ذلک من البدع التی اخترعوہا ویجب منعہم من التظاہر بأعیادہم۔ أ ھ
پھر میں نے دیکھا ہمارے بعض متاخرین ائمہ نے بھی وہ چیز ذکر کی جو میری ذکر کردہ بات کے موافق ہے۔ چنانچہ اِن ائمہ نے ذکر کیا ہے: قبیح ترین بدعات میں یہ چیزیں آتی ہیں: مسلمانوں کا نصاریٰ کی عیدوں میں اُن کی موافقت کرنا جس کی صورت یہ ہے کہ کھانوں میں اُن کی مشابہت ہو، ان کو تحفے دیے جائیں اور ان کے تحفے قبول کئے جائیں۔ اس کا سب سے زیادہ اہتمام مصریوں کے ہاں ہونے لگا ہے، جبکہ نبی ا نے فرمایا ہے: ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت کی و ہ انہی میں سے ہوا‘‘۔ ابن الحاج نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ ایک نصرانی کو اُس کی عید کی ضروریات تک بیچے، نہ گوشت، نہ سالن اور نہ کپڑا۔ نہ ان کو کوئی چیز عاریہ کی جائے گی خواہ وہ سواری کا جانور ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ یہ اُن کو اُن کے کفر پر معاونت کرنا ہے۔ مسلم حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس چیز سے منع کریں۔ اسی میں مسلمانوں کا نوروز کو ہریسہ ایسے پکوان کا اہتمام کرنا آتا ہے۔ نیز ان کے تہوار ’’خمیس العیدین‘‘ پر سات سات اگربتیاں لگانا، یہ تصور کرتے ہوئے کہ یہ فعل ان سے سستی اور بیماری کو دفع کرنے کا باعث ہے۔ اسی طرح اُس روز انڈے کو زرد یا سرخ رنگ میں رنگ کر فروخت کرنا۔ اور ان کے سبت پر پنسار لگانا، جس کو وہ ہفتۂ روشنی بولتے ہیں اور جوکہ درحقیقت ہفتۂ ظلمت ہوتا ہے۔ نیز وہ اس تہوار پر اجوائن کے پتے خرید کر لاتے ہیں کہ یہ باعث برکت ہے۔ علاوہ ازیں درختوں کے پتے جمع کر کے رکھتے ہیں پھر سبت کی شب وہ اس کو پانی میں ڈال کر اس سے غسل کرتے ہیں کہ یہ جادو کا اثر زائل کرتا ہے۔ اس روز سرمہ ڈالتے ہیں کہ اس سے آنکھوں کی روشنی بڑھتی ہے، اور گندھک اور تیل کی مالش کرتے ہیں اور غسل آفتاب لیتے
ہیں کہ اس سے جلد کی بیماری اور خارش چلی جاتی ہے۔ اس روز کڑھی پکاتے ہیں اور اس کو غسل خانے میں لے جا کر کھاتے ہیں۔ غرض اسی طرح کی دیگر بدعات جو ان لوگوں نے گھڑ لی ہیں۔ واجب یہ ہے کہ کفار کو بھی اس بات سے روکا جائے کہ ہمارے ہاں وہ اپنے یہ تہوار سرعام منائیں۔
دیکھئے: الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ للعلامۃ ابن حجر الہیتمی ج ۴ ص ۲۳۸ ۔ ۲۳۹
۴۔ ساداتِ حنابلہ کا مذہب:
(و) یکرہ (التعرض لما یوجب المودۃ بینہما) لعموم قولہ تعالیٰ ’’لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ‘‘ (الممتحنۃ: ۲۲)
(وإن شمَّتَہ کافرٌ أجابہ)؛ لأن طلب الہدایۃ جائزٌ للخبر السابق۔
(ویحرم تہنئتہم وتعزیتہم وعیادتہم)؛ لأنہ تعظیمٌ لہم أشبہ السلام۔
(وعنہ تجوز العیادۃ) أی: عیادۃ الذمی (إن رجی إسلامہ فیعرضہ علیہ واختارہ الشیخ وغیرہ) لما رویٰ أنس ’’أن النبی ﷺ عاد یہودیاً، و عرض علیہ الإسلام فأسلم فخرج وہو یقول: الحمد للہ الذی أنقذہ بی من النار‘‘ رواہ البخاری ولأنہ من مکارم الأخلاق۔
(وقال) الشیخ (ویحرم شہود عید الیہود والنصاری) وغیرہم من الکفار (وبیعہ لہم فیہ)۔ وفی المنتہیٰ: لا بیعنا لہم فیہ (ومھاداتہم لعیدہم) لما فی ذلک من تعظیمہم فیشبہ بدائتھم بالسلام۔
(ویحرم بیعہم) وإجارتہم (ما یعملونہ کنیسۃ أو تمثالاً) أی: صنماً (ونحوہ) کالذی یعملونہ صلیباً؛ لأنہ إعانۃٌ لہم علیٰ کفرہم۔ وقال تعالیٰ: ’’وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ‘‘ (و) یحرم (کل ما فیہ تخصیصٌ کعیدہم وتمییزٌ لہم وہو من التشبہ بہم، والتشبہ بہم منہیٌّ عنہ إجماعاً) للخبر (وتجب عقوبۃ فاعلہ) أ ھ
اور اس بات کی کراہت ہے کہ کوئی بھی ایسا کام اختیار کیا جائے جو مسلمان اور کافر کے مابین مودت کا موجب ہو۔ اس آیت کے عموم کی رُو سے: ’’اے ایمان والو! مت بناؤ دوست میرے دشمن کو اور خود اپنے دشمن کو، کہ پیش کش کرو تم ان کو مودت و قرب خواہی کی‘‘۔
کافر اگر مسلمان کو چھینک لینے پر یرحمک اللہ کہے تو اس کا جوا دینا جائز ہے، کیونکہ اس کے لیے ہدایت مانگنا جائز ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزر چکا۔
اور حرام ہے ان کو مبارکباد دینا اور ان سے تعزیت کرنا اور ان کی عیادت کرنا؛ کیونکہ یہ ان کی ایسی تعظیم بنتی ہے جو سلام سے متشابہ ہے۔
امام احمد سے ایک روایت ہے کہ ذمی کی عیادت کر لینا جائز ہے اگر اسلام لے آنے کی امید ہو تو وہ اسلام کو اُس پر پیش کرے جس کو شیخ اور دیگر اصحابِ مذہب نے اختیار کیا
ہے؛ کیونکہ انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے ایک یہودی کی عیادت فرمائی اور اس پر اسلام کو پیش کیا اور وہ مسلمان ہو گیا تو آپ ا یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ ’’حمد اللہ کی جس نے اُس کو میرے ذریعے آگ سے بچا لیا‘‘ (بروایت بخاری) نیز اس لیے بھی کہ یہ مکارم اخلاق میں آتا ہے۔
فرمایا: یہود، نصاریٰ اور دیگر کفار کی عید کے مقام پر حاضر ہونا حرام ہے۔ اور اس موقع پر اُن کو چیزیں بیچنا۔ کتاب المنتہیٰ میں ہے: ان کی عید پر پر نہ ان کو ہم بیع کریں کریں گے اور نہ ان کے ساتھ تحفہ تحائف کریں گے، کیونکہ اس میں ان کی تعظیم ہے تو یہ اُن کو سلام میں پہل کرنے سے مشابہ ہے۔
اور حرام ہے ان کو فروخت کرنا یا کرائے پر دینا جس قطعہ زمین کو یہ گرجا یا بت خانہ بنائیں گے۔ یعنی جس میں یہ کوئی بت یا صلیب وغیرہ نصب کریں گے۔ یہ اس لیے بھی حرام ہے کہ یہ اعانت ہے ان کی کفر کرنے میں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور مت تعاون کروگناہ میں اور زیادتی کے کام میں ‘‘۔ نیز حرام ہے ہر وہ چیز جو اُن (کفار) کے ساتھ خاص ہے، مثلاً ان کی عید۔ نیز وہ چیز جس کے ذریعے سے وہ ممیز ہوتے ہیں جس میں ان کی مشابہت اختیار کرنا آتا ہے؛ جبکہ ان کے ساتھ مشابہت کے منع ہونے پر اجماع پایا جاتا ہے ، بنا بر حدیث۔ اور واجب ہے کہ ایسا کام کرنے والے شخص کو سزا دی جائے۔
دیکھئے: کشف القناع عن متن الإقناع للعلامۃ البہوتی ج ۳ ص ۱۳۱
فضیلت مآب علی محفوظ الازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ایک مصیبت جس میں مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں اور وہ عوام و خواص میں سرایت کر گئی ہے، یہ ہے کہ اہل کتاب یہود و نصاری کے بہت سے تہواروں میں آنا جانا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح ان کی بہت سی روایات کو مستحسن جانا جا رہا ہے۔ جبکہ ہمارے نبی ﷺ ہر معاملے میں اہل کتاب کی موافقت سے دور رہتے، یہاں تک کہ یہودی یہ کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کوئی معاملہ ہماری مخالفت کیے بغیر رہنے نہیں دینا چاہتے۔ ادھر اپنا حال دیکھ لیجئے یہاں کفار کے تہواروں اور ان کے خاص مواقع پر کیا کچھ ہوتا ہے ۔ اُن کے تہواروں پر مسلمان اپنے صنعت و حرفت کے معمولات موقوف کر لیتے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں معطل کر لیتے ہیں، اور ان تہواروں کو ایسے ایام کے طور پر لیا جاتا ہے کہ ان میں خوب شغل میلہ اور راحت و آسودگی ہو اور ان کو اچھے اچھے رنگ برنگے پہناووں کا موقع بنا دیا جائے۔ مسلمانوں کے گھروں میں یہودونصاریٰ ہی کی طرح انڈے رنگے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات درحقیقت نبی ﷺ کی اس حدیث کا مصداق بن رہے ہیں:
’’لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ وَذِرَاعاً بِذِرَاعٍ، حَتّیٰ لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبِّ لَتَبِعْتُمُوْہُمْ‘‘ قلنا: یا رسول اللہ، الیہودو والنصاریٰ؟ قال: ’’فَمَنْ غَیْرُہُمْ‘‘ (رواہ البخاری عن أبی سعید الخدری)
’’تم ضرور اپنے سے پہلووں کے طور طریقے اپناؤ گے، کوئی ایک بالشت یا ایک ہاتھ برابر فرق نہ رہنے دو گے، یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے تک جاؤ گے‘‘ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کی مراد ہے یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایا: تو اور کون‘‘
ہر وہ شخص جس کو اپنے دین اور اپنی آبرو کی سلامتی مطلوب ہے اس کو چاہیے کہ جس وقت گلی محلوں میں ایسے تہوار کی نحوست زوروں پر ہو، اپنے گھر کی چاردیواری میں رہے اور اپنے بال بچوں اور ہر ایسے شخص کو جو اس کے زیر اختیار ہے باہر جانے سے روکے تاکہ وہ نہ تو یہود و نصاری کے تہواروں میں شرکت کا گناہ لے اور نہ اُن کے ساتھ شریک فاسقوں کی رونق میں اضافہ کا باعث ہو؛ بلکہ وہ اس سے اجتناب کرکے اللہ کے فضل و احسان کا حقدار بنے۔
(اختصار از کتاب الإبداع فی مضار الابتداع ص ۲۷۴ ۔ ۲۷۶)
اِس مسئلہ کی یہ علمی حیثیت جب ہم دیکھ چکے تو پھر کچھ عجب نہیں کہ محققِ بے مثال ابن قیم الجوزیہؒ اپنی کتاب أحْکَامُ أہلِ الذِّمَّۃ میں اہل کتاب کی عیدوں پر اُن کو مبارکباد دینے کی حرمت پر فقہاء کا اتفاق نقل کریں اور پھر اِن شدید الفاظ میں اس فعل کی شناعت بیان کریں:
وأما التہنءۃ بشعائر الکفر المختصۃ بہ فحرام بالاتفاق، مثل أن یہنۂم بأعیادہم وصومہم فیقول: عید مبارک علیک أو تہنأ بہٰذا العید ونحوہ، فہٰذا إن سَلِمَ قائلُہ من الکفر فہو من المحرمات وہو بمنزلۃ أن یہنۂ بسجودہ للصلیب بل ذلک أعظم إثماً عند اللہ وأشد مقتاً من التہنءۃ بشرب الخمر وقتل النفس وارتکاب الفرج الحرام ونحوہ وکثیر ممن لا قدر للدین عندہ یقع فی ذٰلک ولا یدری قُبْحَ ما فعل، فمن ہنأ عبداً بمعصیۃٍ أو بدعۃٍ أو کفرٍ فقد تعرض لمقت اللہ وسخطہ۔
وقد کان أہل الورع من أہل العلم یتجنبون تہنءۃ الظلمۃ بالولایات وتہنءۃ الجہال بمنصب القضاء والتدریس والإفتاء تجنباً لمقت اللہ وسقوطہم من عینہ وإن بلی الرجل بذٰلک فتعاطاہ دفعاً لشرٍ یتوقعہ منہم فمشی إلیہم ولم یقل إلا خیر ودعا لہم بالتوفیق والتسدید فلا بأس بذٰلک وباللہ التوفیق۔ ا ھ
ایسے شعائر پر جو کفر کے ساتھ خاص ہوں مبارکباد پیش کرنا بالاتفاق حرام ہے مثلاً کفار کو اُن کی عیدوں یا اُن کے روزوں پر تہنیت پیش کرنا۔ مثال کے طور پر ان کو کہنا کہ تمہیں یہ تہوار مبارک ہو وغیرہ۔ ایسا شخص اگر کفر کے ارتکاب سے بچ بھی گیا ہو تو محرمات کا مرتکب تو بہرحال ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ یہ اُسے صلیب کو سجدہ کر آنے پر مبارکباد دے! یہ چیز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ آدمی کسی شخص کو شراب پینے پر یا ناحق قتل پر یا حرام شرمگاہ کے ساتھ بدکاری کرنے پر مبارکباد پیش کرے۔ یا اسی طرح کے کسی کام پر تہنیتی الفاظ بولے۔ بہت سے لوگ جو دین کی شان سے ناشناس ہیں اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ جانتے تک نہیں کہ وہ کیسا گھناؤنا فعل کر بیٹھے ہیں۔ لہٰذا وہ شخص جو کسی کو مبارکباد دے خدا کی نافرمانی پر، یا بدعت پر، یا کفر پر، تو دراصل وہ خدا کے غضب اور قہر کو دعوت دے رہا ہوتا ہے۔
ادھر خداخوفی رکھنے والے اہل علم کا یہ حال رہا ہے کہ کسی ظالم شخص کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملتا یا کسی جاہل شخص کو قضاء یا تدریس یا اِفتاء ایسا کوئی منصب تفویض ہوتا تو یہ اُس کو مبارکباد دینے سے بچتے اللہ کے غضب سے بچنے کے لیے اور اس لیے کہ وہ اللہ کی نگاہ سے گرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت میں پھنس ہی جائے اور اس کو اپنے سر سے مصیبت ٹالنے کے لیے دو لفظ بولنا ہی پڑیں تو بھی اُس (عہدہ دار) کے پاس جاکر خیر ہی کی کوئی بات کہے اور اس کے لیے توفیق اور سیدھا رہنے کی دعا کر دے۔
اور توفیق دینے والا اللہ ہے
دیکھئے: احکام اھل الذمۃ مؤلفہ امام ابن القیم۔ ج ۱ ص ۴۴۱ ۔ ۴۴۲
اسی کے ساتھ یہ بات شامل کر لی جائے جو پیچھے امام ابن القاسمؒ (امام مالکؒ کے شاگرد) کے کلام میں گزری ہے کہ وہ کوئی ایسا فقیہ نہیں جانتے جس نے اِس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو۔ خود میں نے اپنی اِس تحقیق کے دوران فقہی مراجع کے اندر کسی ایسے فقیہ یا عالم کی بات نہیں دیکھی جو اِس مسئلہ میں تساہل کا قائل ہو۔ ہاں معاملہ اس کے برعکس ضرور پایا ہے؛ جیساکہ ان میں سے بہت سے فقہاء اس مسئلہ کو تعزیر اور ارتداد ایسے ابواب میں زیربحث لے کر آئے ہیں!
فقہاء کے کلام کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ: کفار کے تہواروں پر انکو تہنیت پیش کرنے میں:
۔ اگر اس تہوار کی تعظیم بھی شامل ہو تو خدشہ ہے کہ ایسا شخص کفر کا ارتکاب کر بیٹھا ہے، العیاذ باللہ۔
۔ ہاں اگر اس میں تعظیم شامل نہ ہو، تو یہ (کفر نہیں بنتا البتہ) محرمات میں آتا ہے جس پر اس پر تعزیر لگانا بنتا ہے؛ کیونکہ ایسے شخص نے اہل کتاب کی عیدوں میں شمولیت کر لی ہے، نیز اس لیے بھی کہ یہ اہل کتاب کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور اس لیے بھی کہ یہ ان کے دین کو ایک طرح کی سند دینے کا معنیٰ رکھتا ہے۔
رابعاً: اُن کو مبارکباد کس بات پر، اور پھر اُن کو دعوت کس چیز کی!
ذرا یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اُن کو مبارکباد کس چیز پر دیتے ہیں؟ اور کیا ہمیں اُس چیز کی حقیقت کا علم بھی ہے جس پر ہم اُنہیں مبارکباد دینے چل پڑتے ہیں؟ واضح سی بات ہے وہ اپنے اِس تہوار پر عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی یادتازہ کرتے ہیں۔ اور عیسی ؑ وہ ہستی ہیں جن کو وہ رب مانتے ہیں! اور رب کا بیٹا ! اور ثالث ثلاثہ! قارئین کرام یہ تو آپ کے بنیادی عقیدہ ہی کے ساتھ سیدھا سیدھا تصادم نہیں ہے؟ آپ کا وہ بنیادی ترین عقیدہ جس کو منوانے کے لیے اللہ نے سب کے سب انبیاء اور سب کے سب رسول بھیجے ہیں بشمول عیسیؑ کے!
کیا اس پر ہم ان کو مبارکباد کے کارڈ بھیجیں گے ۔۔۔ یا جہنم کی وعید سنائیں گے:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْئاً إِدّاً تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدّاً أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمَنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِیْ الرَّحْمَنِ عَبْداً لَقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدّاً وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً (مریم: ۸۸ ۔ ۹۵)
اور وہ بولے: خدا بیٹا رکھتا ہے۔ یقیناًتم نے ایک نہایت گھناؤنی بات بول ڈالی۔ قریب ہے کہ آسمان اِس سے پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس لیے کہ انہوں نے رحمن کے لیے بیٹا تجویز کر ڈالا۔ اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد رکھے۔ ہر ذی نفس جو آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اُس کے حضور بندہ ہو کر حاضر ہونے والا ہے۔ یقیناًاُس نے اِن کا احاطہ کر لیا ہے اور ان کے ایک ایک کی گنتی کر لی ہے۔اور روزِ قیامت یہ سب اُس کے حضور اکیلے اکیلے حاضر ہونے والے ہیں۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی ﷺ قال:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہ ذٰلِکَ، وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَکُنْ لَہ ذٰلِکَ، فَأمَّا تَکْذِیْبُہُ إیَّایَ فَزَعْمُہ أنِّیْ لا أَقْدِرُ أنْ أُعِیْدَہ کَمَا کَانَ، وَأمَّا شَتْمُہ إیَّایَ فَقَوْلُہ لِیْ وَلَدٌ، فَسُبْحَانِیْ أنَ أتَّخِذَ صَاحِبَۃً أوْ وَلَداً (رواہ البخاری)
روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، کہ نبیو نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم نے میری تکذیب کی اور یہ اس کو سزاوار نہ تھا۔ ابن آدم نے مجھے دشنام بکی اور یہ اس کو سزاوار نہ تھا۔ جہاں تک اس کا میری تکذیب کرنا ہے تو وہ اس کا یہ اعتقاد کہ میں اس کو پہلی حالت میں ازسر نو تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ رہ گیا اس کا مجھ کو دشنام بکنا تو وہ اس کا یہ کہنا کہ میری اولاد ہے، حالانکہ میں پاک ہوں اس سے کہ کوئی جورو یا اولاد رکھوں‘‘

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
واجب الاحترام فضیلت مآب_______________________ دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت الشیخ!___________پچھلے چند برس سے آپ نوٹ فرما رہے ہوں گے، ہمارے کچھ دینی حلقوں کے یہاں ’’کرسمس‘‘ پر نصاریٰ کے ساتھ قربتِ باہمی کی ایک غیر معمولی فضا تشکیل پانے لگی ہے۔ اِس سے پہلے امت کے فساق و فجار سے ہی ایسے کچھ رویے سرزد ہوئے ہوں گے، البتہ علماء و داعیانِ اسلام کی سطح پر ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں شاید ہی اس کی کوئی نظیر ملتی ہو؛ یعنی کچھ سربرآوردہ دینی شخصیات کا مسلمانوں کے نمائندہ بن کر ’’کرسمس کی خوشیوں‘‘ میں شریک ہونا، اور ان کے اِس مقدس تہوار پر (جوکہ اُن کے تئیں ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش پر منایا جاتا ہے ۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوّاً کَبِیْراً) مبارکبادیں دے کر آنا، اور کرسمس کیک کاٹنے میں شریک ہونا، وغیرہ۔ یہ تشویش ناک رجحان ایک غیرمعمولی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا ہے۔
یہ حقیقت بھی جنابِ شیخ کی نگاہ سے روپوش نہ ہو گی کہ ’’تقاربِ ادیان‘‘ اور ’’ادیان کی تشکیل نو‘ اِس وقت کے دو سرگرم ترین عالمی ایجنڈے ہیں، اور ہردو کا ہدف درحقیقت اسلام کو ’قابو میں لانا‘ ہے۔ اِس عمل کا ابتدائی مرحلہ اُن کی نظر میں یہی ہے کہ:
وہ امور جو پچھلے چودہ سو سال سے اہل اسلام کا دستور چلے آتے ہیں، یکسر ہلا کر رکھ دیے جائیں، یا کم از کم بھی ’مشکوک‘ اور ’اختلافی‘ ٹھہرا دیے جائیں؛ جس کے بعد مسلم عوام کی جہالت نیز میڈیا کی طاقت کا فائدہ اٹھاکر مسلم معاشروں کو کچھ نئے قسم کے ’’مسلمات‘‘ تھما دیے جائیں اور جوکہ ایسے مسلمات ہوں جو اُن کے عالمی ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔
فضیلت مآب شیخ! فتنوں کا سدباب ہر دور میں علماء و ائمۂ دین ہی کا فرض رہا ہے۔ اِس سلسلہ میں ایک اجتماعی فتویٰ کا متن ڈرافٹ کیا گیا ہے جوکہ مکتوب ھٰذا کے ساتھ لف ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ:
۱۔ اگر آپ اِس عبارت کو درست سمجھیں تو اِس کی تائید میں اپنے دستخط ثبت فرمادیں، تاکہ اِس موضوع پر ملک کے کچھ معروف علمائے سنت کا ایک متفقہ فتویٰ عوام المسلمین میں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جا سکے۔
۲۔ اگر آپ اِس پر کچھ جملوں کا اضافہ فرما کر اپنے تائیدی دستخط کرنا چاہیں تو وہ کر دیجئے۔
۳۔ اگر آپ اِس عبارت کی اصلاح فرمانا چاہیں تو متبادل عبارت درج فرما کر اُس پر اپنے دستخط عنائت فرمائیے۔
۴۔ اِس موضوع پر عوام الناس کے استفادہ ومطالعہ کے لیے کوئی تالیف یا کوئی لٹریچر تجویز کرنا چاہیں تو اس کا ذکر فرما دیجئے۔
اس مکتوب کے ساتھ متقدمین فقہاء کے فتاویٰ واقوال پر مبنی کچھ مواد بھی آپ کی خدمت میں ارسال کیا جا رہا ہے۔
ادارہ ایقاظ
ادارہ ایقاظ کی جانب سے علمائے پاکستان کو بھیجا گیا ایک مراسلہ۔ یہ مراسلہ پاکستان میں کبار مفتیانِ احناف و اہل حدیث کی خدمت میں روانہ کیا گیا تھا۔ ساتھ فتوائے عام کے لیے ایک مجوزہ عبارت لف کی گئی تھی جو اگلے صفحہ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جواب میں جن مفتیان کرام کی جانب سے مجوزہ فتویٰ کے لیے عمومی تائید آئی وہ بھی اگلے صفحہ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ البتہ مفتیان کے مفصل جواب ہماری ویب سائٹ www.eeqaz.org پر ہی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ
فتوائے عام:
کرسمس کی ’خوشیوں‘ میں شریک ہونا اور اِس کفریہ شعار پر عیسائیوں کو مبارکباد پیش کرنا
بالاتفاق حرام ہے اور ایمان کے لیے خطرہ

تمام اہل اسلام کو معلوم ہو:

۱۔ عیسائیوں کا کرسمس خالصتاً ایک کافرانہ تہوار ہے۔ یہ اُس کفریہ ملت کی ایک باقاعدہ پہچان اور شعار ہے جو حضرت عیسیٰؑ کو ’خدا کا بیٹا‘ کہہ کر پروردگارِ عالم کے ساتھ شرک کرتی ہے۔ نیز نبی آخر الزمان حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ کو مسترد کر کے وقت کی آسمانی رسالت کی منکر اور عذابِ الٰہی کی طلبگار ٹھہرتی ہے۔ ’’کرسمس‘‘ کے اِس شرکیہ تہوار کی وجہِ مناسبت ہی یہ ہے کہ ان ظالموں کے بقول اس دن ’خدا کا بیٹا یسوع مسیح پیدا ہوا تھا‘۔
کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاھِہِمْ إِن یَقُولُونَ إِلَّا کَذِبا (الکہف:۵)
’’بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، نہیں بولتے یہ مگر بہتان‘‘۔
۲۔ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک ایسی قوم کو جو (معاذ اللہ) ’خدا کے ہاں بیٹے کی پیدائش‘ پر جشن منا رہی ہو مبارکباد پیش کرنے جائے اور اِس ’’خوشی‘‘ میں اُس کے ساتھ کسی بھی انداز اور کسی بھی حیثیت میں شریک ہو۔ یہ عمل بالاتفاق حرام ہے بلکہ توحید کی بنیادوں کو مسمار کر دینے کا موجب۔ ہر مسلمان خبردار ہو، اِس باطل ’’کرسمس‘‘ کی خوشیوں میں کسی بھی طرح کی شمولیت آدمی کے اپنے ایمان کے لیے خطرہ ہے۔
۳۔ اِس گناہ کے مرتکب پر واجب ہے کہ وہ اِس سے تائب ہو۔ تاہم اگر وہ اہل اسلام کے کسی حلقہ میں راہبر جانا جاتا ہے تو اس کے حق میں لازم ہے کہ وہ اپنی توبہ کا کچھ چرچا بھی کرے تاکہ روزِ قیامت اُس کو دوسروں کا بارِگناہ نہ سمیٹنا پڑے۔
۴۔ ’’کرسمس‘‘ ایسے معلوم شعائرِ کفر سے دور رہنا تو فرض ہے ہی، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان اس ملتِ کفر سے کامل بیزاری کرے۔
۵۔ ’’کرسمس‘‘ ایسے معروف نصرانی تہوار کو محض ایک ’سماجی تہوار‘ کہہ کر اس کے لیے جواز پیدا کرنا گمراہ کن ہے۔
۶۔ ہمارے اسلامی تصورات اور اصطلاحات کو مسخ کرنے کی جو سرتوڑ کوششیں اس وقت ہورہی ہیں، اہل اسلام پر ان سے خبردار رہنا واجب ہے۔ ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک سب سے بڑھ کر صحابہؓ کے عہد میں ہوا ہے۔ مگر ان کے دین اور دینی شعائر سے بیزاری بھی سب سے بڑھ کر صحابہؓ کے ہاں پائی گئی ہے۔ یقیناًیہ حسن سلوک آج بھی ہم پر واجب ہے، مگر اس کے جو انداز اور طریقے اس وقت رائج کرائے جا رہے ہیں وہ دراصل اسلام کو منہدم کرنے کے لیے ہیں۔

مفتیانِ کرام:
اِس فتویٰ پر درج ذیل مفتیان کرام نے عمومی تائید فرمائی ہے (ایک استفتاء کے جواب میں جو ادارہ ایقاظ کی جانب سے انکو بھیجا گیا تھا)۔ ان علماء کے تفصیلی کلمات ہماری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

مفتی محمد زکریا
مفتی محمد زکریا دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
مولانا عبد العزیز علوی
شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد
مولانا مفتی محمد اسحاق
جامعہ خیر المدارس ملتان
مولانا عبد المالک
مدیر شعبہ استفسارات جامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ لاہور
حافظ صلاح الدین یوسف
مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان
مفتی شاہد عبید
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
مولانا الطاف الرحمن بنوی
شیخ الحدیث جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
مولانا امین اللہ پشاوری
دار الافتاء الجامعہ تعلیم القران والسنہ گنج گیٹ پشاور
مولانا محمد قاسم حقانی
جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ
حافظ عبدالمنان نورپوری
شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ ، گوجرانوالہ
مفتی مبشر ربانی
جماعۃ الدعوۃ پاکستان
مولانا غلام اللہ رحمتی
مدیر دارالقرآن و الحدیث السلفیۃ ، قاضی آباد، پشاور۔
مولانا محفوظ احمد
دار الافتاء جامعۃ الصابر بہاول پور
مولانا عبد السلام رستمی
دار الافتاء جامعہ عربیہ بڈھ بیر پشاور
مولانا نقیب اللہ
استاذ الحدیث جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
سبحان اللہ جان
دارالافتاء جامعہ امداد العلوم، پشاور صدر
مولانا بشیر احمد حامد حصاری
تلمیذِ رشید علامہ یوسف بنوریؒ رحیم یار خان
مولانا محمد حسن
شیخ الحدیث دار الحدیث محمدیہ جلال پور پیروالا ملتان
مفتی محمد رضوان
دار الافتاء والاصلاح ادارہ غفران راولپنڈی



یہ فتوى مذکورہ بالا علماء کی جانب سے ایک استفتاء کا اجتماعی جواب ہے۔ وہ استفتاء اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
مولانا حمید حسین مد ظلہ
باسمہ سبحانہ و تعالیٰ
شا ہ عبد العز یز محدث دہلو ی رحمہ اللہ تعا لیٰ سے کفا ر کی مشابہت کے متعلق سوا ل کیا گیا ۔اس کے تفصیلی جوا ب میں شا ہ عبدالعز یز محدث دہلو ی ؒ نے عبا دا ت اور عید میں کفا ر کی مشابہت مطلقاً ہو نے کا قول کیا۔ (ص ۴۱۷ )
بلکہ مجلس تعز یہ دا ری میں شر کت کے با رے میں ایک سوا ل کے جوا ب میں ایسی مجا لس میں حا ضر ہو نا یا ایسی مجالس کی ما نند مجا لس منعقد کر نے کو اس حدیث مبا رک:
مَنْ کَثَّرَ سَوَا دَ قَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ وَ مَنْ رَضِیَ عَمَلَ قَوْمٍ کَانَ شَرِ یْکاً لِمَنْ عَمِلَ۔ (رواہ الدیلمی عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کذا ذکرہ السیوطی فی جمع الجوامع) کے مصدا ق میں دا خل بتا یا ہے ۔ بلکہ ایسی مجالس میں بعض امو ر مباحہ مستحبہ کو بھی بے اد بی ذکر کیا ہے۔ اس واسطے کہ ایسی مجلس اس قابل ہے کہ مٹا دی جائے۔ (ص ۱۸۶ فتاویٰ عزیزی۔ مطبوعہ ایچ، ایم، سعید کمپنی)۔
یو م عا شو راء میں زینت اختیار کر نے کے با رے میں علا مہ عبد الحئی لکھنو ی ؒ نے ایک طو یل عبارت نقل کر نے کے بعد اسے بدعت قبیحہ قرا ر دیا ۔ (مجمو عہ الفتا وی ص ۱۷۵)
کفا ر کی عید کے دن اُن کے اُس دن کو معظم سمجھ کر ہد یہ بھیجنا کفر ہے ۔ در مختا ر کے حوا لے سے طو یل عبارت در ج کی۔ جس میں ان دنوں کے ہدیہ بھیجنے کو حرا م اور اگر مشرکین کی طرح ان دنوں کی تعظیم کے قصد سے ایسا کیا تو کا فر ہو گیا۔
(مجمو عہ الفتا وی۔ مولا نا عبد الحی رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ ص ۲۹۳ جلد دوم)
آگے لمبی تفصیل ہے جس میں ابو حفص کبیر رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول بھی منقول ہے۔
مفتی کفا یت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے غیر مسلمو ں کے مذہبی اجتما عا ت کے بارے ایک تفصیلی سوال کیا گیا ۔ مو لا نا نے جوا باً تحر یر فر ما یا۔ شریعت مقدسہ نے مسلمانوں کو ایسے مجمع میں شر یک ہو نے اور بیٹھنے سے منع کیا ہے ۔
(کفا یت المفتی ۔جلد نہم ص ۳۳۵)
اسی طرح کفا یت المفتی میں لکھا ہے۔ جو علا مت کفر اختیا ر کر ے یا اس میں شریک ہو یا اس کا انتظام برضا رغبت خود کر ے وہ کا فر ہے ۔ اور بعض صورتو ں کو مکروہ تحریمی یا حرا م لکھا ہے۔ (ص ۳۳۹)
اسی طرح کفار کی مذہبی دعوتوں میں مسلمانوں کی شرکت کو نا جائز کہا گیا۔
(امداد الاحکام ص۳۹۷ مولانا ظفر احمد عثمانی زیر نگرانی مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ)


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
پروفیسر محمد افضل
عیسا ئی مذہبی تقر یب میں شرکت:
سوا ل: ]9545 [: یو کے [ U.K ] میں بسنے وا لے سب حضرا ت عیسا ئی مذہب کی کبیر شمس ۲۵،۲۶/
دسمبر کا دن آتا ہے تو عیسا ئی مذاہب وا لے بخشیش دیتے ہیں، اسی طرح عیسا ئی مذہب والے کا کبیر شمس کا کا رڈبھی ہوتا ہے ، وہ بھی ایک دو سرے کو دیتے ہیں،تو یہ سب لینا اور دینا جا ئز ہے ؟
الجوا ب حامداً و مصلیاً:
اگر یہ ان کی مذہبی عبا دت ہے تو اس میں ہر گز شرکت جا ئز نہیں ہے(۱) ۔ اگر مذہبی عبادت نہیں، محض قو می یا ملکی خوشی کا دن ہے تو اس کا حکم زیا دہ سخت نہیں،اگر چہ اس سے بھی بچنے کا حکم ہے ،مگر ہلکا ہے ۔ واللہ اعلم
حر رہ العبد محمو د عفی عنہ ،دارا لعلو م دیو بند ، ۱۹ / ۵/ ۹۰ھ
الجواب صحیح: بندہ نظا م الد ین عفی عنہ ، دارالعلو م دیو بند ، ۱۹ /۵/ ۹۰ھ
(حوالہ:فتا وی محمو دیہ جلد نوزدھم ( ۱۹) ص ۵۷۵، ۵۷۶ از مفتی محمود الحسن گنگو ہیؒ ، مفتی اعظم ہند۔ ناشر دا را الا فتاء جامعہ فاروقیہ کراچی، ۲۰۰۵ء )
سوال : اگر کو ئی مسلما ن ،ہندؤ و ں کے مذہبی تہوار وں میں ان سے دوستی یا کاروباری تعلق ہو نے کی وجہ سے شر کت کرے تو شرعی لحا ظ سے کیسا ہے؟
جواب : غیر مسلو ں کی مذہبی تقریبات ورسوم میں شرکت جا ئز نہیں،حدیث میں ہے کہ جس شخص نے کسی قوم کے مجمع کو بڑھا یا وہ انہی میں شمار ہو گا ۔
(مو لا نا محمد یو سف لد ھیا نوی ۔ آپ کے مسا ئل اور ان کا حل ج 2ص 132 ناشر مکتبہ لد ھیا نو ی ، کرا چی)
غیر مسلموں کے تہواروں میں شر کت :
غیر مسلمو ں کے تہواروں میں شر کت در ست نہیں۔ اسلام اس معا ملے میں بہت غیر ت مند اور متجس وا قع ہوا ہے ۔ اسی لیے ااسلا م نے ان آستا نو ں(نصب ) پر قر با نی کو درست نہیں قرار دیا جہاں بت پرست قربا نی کیا کر تے تھے ۔ بعض صحابہؓ نے حضو ر ﷺ سے اہل ایرا ن کی طر ح نیروز و مہر جا ن کی عید منانے کی اجا زت چا ہی ،لیکن آپ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فر ما یا۔ طلوع آفتا ب ،غروب آفتا ب اور استوا ء کے وقت نما ز سے اس لیے منع کیا گیاکہ اس وقت آفتا ب پر ست اور بت پر ست قومیں عبادت کیا کر تی تھیں، یوم عا شو را ء کا روزہ یہو د بھی رکھتے تھے ،اس لیے امتیاز کے لیے اس کے سا تھ ایک اور روزہ ملا نے کا حکم فر ما یا گیا۔
جو دین اسلا م وکفر کے معا ملہ میں اس قدر غیرت مندہو ،کیو ں کر سو چا جاسکتا ہے کہ وہ غیر اسلا می تہواروں میں اور ان کی رنگ رلیوں میں شرکت کی اجا زت دے گا اور اسے پسند ید گی کی نظر سے دیکھے گا یہ ایک طرح کاکفر کا تعا ون ہے جس سے قرآن نے منع کیا ہے ۔
( جدید فقہی مسا ئل حصہ اول ص ۲۷۶ از مو لا نا خالد سیف اللہ رحما نی ۔ انڈیا ) نا شر پر و گر یسو بکس ، لا ہور۔
_____
(۱) (حاشیہ میں یہ عبادرت درج ہے) ویکفر بخروجہ الی نیر وزالمجوس والموافقۃ معھم فیما یفعلونہ فی ذالک الیوم (مجمع الانھر،کتاب السیر،باب ألفاظ الکفرانواع: ۴/۵۱۳، غفاریہ کوئٹہ

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
شیخ عبد العزیز بن بازؒ :
کسی مسلمان مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ یا یہود یا دیگر کفار کے ساتھ ان کے تہواروں میں شرکت کریں۔۔۔
نہ ان کے تہواروں میں شرکت جائز ہے اور نہ ان کے منانے والوں کے ساتھ اس معاملہ میں کوئی تعاون۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں حصہ لینا جائز نہیں، نہ چائے نہ کافی اور کسی برتن کی حد تک تعاون۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/30.htm
شیخ محمد بن عثیمینؒ :
کفار کو اُن کی عید کرسمس یا ان کے دیگر شعائرِ دینی پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ابن قیم نے اپنی کتاب احکام اہل الذمہ میں اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔۔۔
اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو بھی ہم ان کو جواباً مبارکباد نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری عیدیں نہیں ہیں اور کیونکہ یہ ایسی عیدیں ہیں جن پر اللہ راضی نہیں ہے، اور خود ان کے دین میں یہ من گھڑت عیدیں ہیں۔۔۔
مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ ان مواقع پر کفار کی مشابہت میں تقریبات کریں، یا تحفہ تحائف دیں، یا مٹھائی یا کھانے کھلائیں، یا تعطیل عام کریں۔ کیونکہ نبی ﷺنے فرمایا ہے: جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔۔۔
جو شخص ان میں سے کسی بھی فعل کا ارتکاب ہو وہ گناہگار ہے، خواہ یہ کام اس نے لحاظ ملاحظہ میں کیا ہو، یا پذیرائی پانے کے لیے، یا کسی کی شرم میں ایسا کر لیا ہو یا کوئی بھی سبب ہو؛ کیونکہ یہ اللہ کے دین میں مداہنت ہے اور کفار کے نفوس کو تقویت دینے اور ان کو اپنے دین پر فخر کا ایک موقع فراہم کا سبب۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/18.htm
شیخ عبد اللہ بن جبرینؒ :
کرسمس یا نوروز یا مہرجان وغیرہ ایسے ان خانہ ساز تہواروں کو منانا جائز نہیں۔۔۔
عیسائی مشرکوں نے اپنے اس تہوار پر جو کھانا تیار کیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ وہ اپنی اس تقریب میں بلائیں تو اس پر جانا حرام ہے۔ کیونکہ ان کی یہ دعوت قبول کرنا ان کی حوصلہ افزائی میں آتا ہے اور یہ ان کی ان مذہبی خانہ سازیوں کو ایک طرح کا سرٹیفکیٹ دینا ہے۔ جس سے جاہل فریب کھاتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھنے لگتے ہیں کہ وہ لوگ کوئی ایسا غلط کام نہیں کر رہے۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/21.htm
مفتی محمد ابراہیمؒ :
(سعودی وزیر تجارت کو لکھے گئے ایک مراسلے میں۔ جوکہ ان کے فتاویٰ ج۳ ص ۱۰۵ پر درج ہے)
ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال کچھ تاجروں نے ایسے تحائف درآمد کیے ہیں جو نصرانیوں کی عید کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں؛ جن میں کرسمس ٹری بھی شامل تھے۔ اور یہ کہ ہمارے بعض باشندے یہ تحائف خرید خرید کر غیر ملکی عیسائیوں کو ان کی عید پر پیش کرتے رہے ہیں۔
یہ ایک منکر چیز ہے اور ان کے لیے ہرگز روا نہیں تھی۔ ہمارا نہیں خیال کہ آپ اس چیز کی حرمت سے ناواقف ہیں یا اہل علم کے اُس متفق علیہ فتویٰ سے لاعلم ہیں جس کی رو سے کفار و مشرکین و اہل کتاب کے تہواروں میں شرکت حرام ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ آپ اس پر نظر رکھیں گے کہ ملک میں یہ کرسمس تحائف یا اس کے حکم میں جو دیگر چیزیں آتی ہیں اور جوکہ کفار کی عید کے ساتھ مختص ہیں، ملک میں درآمد نہ کی جائیں۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=120325
شیخ سفر الحوالی:
کفار کے تہواروں میں شمولیت کرنا یا اس پر تہنیت دینا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اُن کے تہوار ہیں۔۔۔ ان چار صورتوں سے باہر نہیں:
۱۔ محض ایک سماجی لحاظ ملاحظہ ہو؛ ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ (الفرقان: ۷۲) کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘ ہی مراد لیا ہے۔ نیز نبی ﷺ کا فرمان: إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً (حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، وغیرہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ ؑ کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ا کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم: یہ بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے؛ کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو؛ آدمی ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو؛ جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’وحدتِ ادیان‘ اور ’اخوتِ مذاہب‘ ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔۔۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آل عمران: ۸۵)
’’اِس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/17.htm
شیخ ابراہیم بن محمد الحقیل:
بہ عنوان: أعیاد الکفار وموقف المسلم منہا
جب تک دنیا باقی ہے حق اور باطل کے مابین کشمکش باقی ہے۔ امتِ محمدیہ میں سے کچھ طبقوں کا اہل باطل کا پیروکار ہونے لگنا اور یہود، نصاریٰ، مجوس یا بت پرست اقوام کی تقلید کرنے لگنا.. جبکہ ایک گروہ کا اپنے نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسی حق پر جمے رہنا اور کسی ’عالمی پریشر‘ یا کسی ’سیاسی‘ یا ’سماجی‘ رکاوٹ کو خاطر میں نہ لانا۔۔۔ یہ ایک دائمی خدائی سنت ہے اور اس کو آج بھی روپذیر ہو کر دکھانا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے حق میں اس خدائی سنت کے پورا ہو کر رہنے کی بابت پیشین گوئی فرمائی ہے۔ تاہم اس کے خدائی سنت ہونے یا رسول اللہﷺ کے یہ پیش گوئی کر جانے کا یہ مطلب نہیں کہ آج ہم میں سے وہ لوگ جو مغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں کا تتبع کرنے لگے ہیں ہم ان پر نکیر کرنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ جس ہستیؐ نے اِس واقعہ کی پیش گوئی فرمائی ہے وہی ہستیؐ اِس خطرناک راستے کو اپنانے سے خبردار بھی فرما گئی ہے۔ اُس مقدس ہستیؐ نے ہمیں بار بار یہ تاکید فرما دینے کے بعد دنیا چھوڑی ہے کہ اس کے بعد زمانہ کیسی بھی آندھیاں چلائے ہم اس کے دین پر ہی جمے رہیں اور اس کے چھوڑے ہوئے راستے پر ہی ثابت قدم رہیں خواہ اس سے بہک جانے والوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے اور اس سے انحراف کر لینے والے کتنی طاقت کیوں نہ پکڑ لیں۔ اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ خوش بخت وہ ہوگا جو اس حق پر جما رہے خواہ اس سے پھیر دینے والے عوامل کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں۔۔۔ اور یہ کہ اس زمانہ میں حق پر چلنے والے ایک آدمی کو دورِ صحابہؓ کی نسبت پچاس آدمیوں جتنا اجر ملنے والا ہے، جیساکہ ابوثعلبہ خشنی ص کی حدیث سے ثابت ہے۔ (ابو داود: ۴۳۴۱، ترمذی ۳۰۶۰، ابن ماجہ ۴۰۱۴)
امتِ محمد ومیں یہ ہو کر رہنا ہے کہ کچھ طبقے آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے اس حق سے منحرف ہو کر باطل کی طرف لپکیں اور یہاں تغیر و تبدل کرنے لگیں ؛ جن کی سزا __ازروئے فرمانِ نبوی __ یہ ٹھہری کہ حوض کوثر پر یہ آپ ﷺ سے پرے کر دیے جائیں اور آپ وکے دستِ مبارک سے اِن کو وہ جام پینا نصیب نہ ہو جو صرف اُن لوگوں کو ملنے والا ہے جو آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے راستے پر ہی جمے رہے تھے۔
فرمایا:
أنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ؛ وَلَیُرْفَعَنَّ إلَیَّ رِجَالٌ مِنْکُمْ حَتّیٰ إذَا أَہْوَیْتُ إلَیْہِمْ لأنَاوِلَہُمْ اخْتُلِجُوْا دُوْنِیْ فَأقُوْلُ: أیْ رَبِّ! أصْحَابِی! فَیُقَالُ: إنَّکَ لا تَدْرِیْ مَا أحْدَثُوا بَعْدَکَ‘‘ وفی روایۃ: فَأقُوْلُ: سُحْقاً لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِیْ (متفق علیہ۔ البخاری: ۶۵۷۶، مسلم: ۲۲۹۷)
’’میں تم سے پہلے حوض پر پہنچا ہوں گا (منتظر ہوں گا)۔ ضرور ایسا ہو گا کہ کچھ لوگ میرے سامنے کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب میں ارادہ کروں کہ ان کو (جام) تھماؤں تو ان کو مجھ سے پرے دھکیل دیا جائے گا۔ میں کہوں گا پروردگار! میرے ساتھی ہیں! تو کہا جائے گا: تو نہیں جانتا انہوں نے تیرے بعد کیاکچھ گھڑا ہے‘‘۔ جبکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’تب میں کہوں گا: دفع اے وہ لوگو جو میرے بعد تغیر و تبدل کرتے رہے ہیں‘‘۔
اس ’’تغیر وتبدل‘‘ کا ایک بدترین مظہر اور دینِ محمد سے بیگانہ ہو جانے کی ایک بدترین صورت یہ ہے کہ آج آپ اُس رَو کا شکار ہوں جو اللہ کے دشمنوں کا اتباع کروا رہی ہے اور اس کو ’ترقی‘ اور ’تہذیب‘ اور ’ارتقاء‘ کا نام دیتی ہے، پھر کسی وقت اس کو ’پرامن بقائے باہمی‘ کا عنوان دیتی ہے تو کسی وقت ’انسانی بھائی چارے‘ کا۔ کبھی اس کو ’نظامِ عالم جدید‘ کے تحت فٹ کرتی ہے تو کبھی ’گلوبلائزیشن‘ کے تحت۔ آج یہ رَو نہایت عروج پر ہے۔ غیرت مند مسلمان نظر دوڑاتا ہے تو اس وباء کو اپنے چاروں طرف پاتا ہے، اِلا من رحم اللہ۔ ایک بڑی تعداد تقریباً بہہ گئی ہے؛ یہاں تک کہ اب یہ اُن کے شعائر دینی کے اخص الخاص امور کے اندر ان کی اتباع کرنے لگی ہے اور ان کی وہ روایات جو ان کی خاص پہچان ہیں انہی کو اختیار کرنے لگی ہے، یعنی اُن کی عیدیں اور اُن کے تہوار جوکہ باقاعدہ شرائع کا حصہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ عَمَّا جَاء کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’اور مت پیچھے چل ان کی اھواء کے، اُس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آچکا ہے؛ ہم نے تم میں سے ہر کسی کے لیے الگ الگ شریعت اور منہاج مقرر کر رکھا ہے‘‘ لِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ (۶۷) ’’ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک دستورٹھہرا دیا ہے اور اس کو وہی دستور بجا لانا ہے‘‘
http://ar.islamway.com/article/2712
شیخ ناصر بن سلیمان العمر:
مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ کے تہواروں میں کسی بھی انداز یا کسی بھی حیثیت میں شرکت کرے؛ خواہ یہ مبارکباد دینے کی صورت میں ہو، یا تحفہ تحائف کی صورت میں ، یا ان کی تقریب میں میں شریک ہوکر، یا ان کے اعزاز میں کوئی تقریب منعقد کرکے، یا کسی بھی اور شکل میں۔
http://ar.islamway.com/fatwa/12762?ref=search
ایک عرب ریاست میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے نوٹس لیا گیا کہ مساجد میں یہود اور نصاریٰ سے متعلق آیات واحادیث کا تذکرہ زیادہ ہونے لگا ہے۔ ہدایت جاری کی گئی کہ خطباء اس رجحان کو کم کریں۔ عرض کی گئی: یہود و نصاریٰ کے ذکر کو کتنا کم کرلیں گے، :کیا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ پڑھنا بھی چھوڑ دیں؟ ارشاد ہوا: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ پڑھتے رہو، اس کی تفسیر سے ذرا احترا

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کرسمس... شرک کا تہوار

رسول اللہﷺ نے اہل کتاب کو انکی عیدوں سے منع نہیں فرمایا البتہ اُنکے ساتھ شرکت یا اس پر انکو ’مبارک سلامت‘ کہنا آپؐ سے ثابت تو کیا متصور تک نہیں۔ حضرت عمرؓ نے عیسائی آبادیوں کو اپنی عیدیں سرعام منانے اور دوسری جانب اہل اسلام کو وہاں جانے سے باقاعدہ ممانعت فرمائی۔ کسی جاہلی تہوار کے ساتھ خیرسگالی اسلام کی ریت نہیں۔ یہاں ’مذہبی‘ و’غیر مذہبی‘ کی تمیز فضول ہے۔ دراصل یہ ایک چوردروازہ ہے جو ’کلچر‘ کے نام پر آج کھلوایا جارہا ہے اور جوکہ ’کرسمس‘ سے گزرتا ہوا ’دیوالی‘ اور نجانے کون کونسی دوزخ تک جانے والا ہے۔

حامد کمال الدین

hamid@eeqaz.org

ہر شخص کو معلوم ہے عیسائی، حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ہر سال ۲۵ دسمبر کو یہ اپنے اعتقاد کے مطابق (نعوذ باللہ) خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ کرسمس خدا پر ایسا ہی ایک کھلا بہتان ہے یعنی خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کا تہوار؛ ایک ایسی بات جس پر آسمان کانپ اٹھتا ہے اور زمین لرز جاتی ہے۔قرآن شریف میں اِس پر حیرت ناک وعید آتی ہے:

’’اور وہ بولے: رحمن بیٹا رکھتا ہے۔ یقیناًتم نے ایک نہایت گھناؤنی بات بول ڈالی۔ قریب ہے کہ آسمان اِس سے پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس لیے کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے بیٹا تجویز کر ڈالا۔ رحمن کے تو لائق ہی نہیں کہ اولاد رکھے‘‘۔ (مریم: ۸۸۔۹۲)

پھر بھی اسلام وہ دین ہے جس میں کوئی زبردستی نہیں۔ دنیا کی زندگی زندگی اُنہیں اپنے اِس کفر پر رہنے کی آزادی ہے اور سزا کا ایک دن مقرر ہے۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم پرامن طورپر اُن کو خدا پر یہ بہتان لگانے سے خبردار کریں۔ اپنے نبیﷺ کا یہ مشن اب ہمیں انجام دینا ہے کہ: عیسائی اقوام کو اُن کے اِس شرک پر خدا کی پکڑ سے ڈرائیں۔ البتہ ایسی کوئی رواداری ہمارے دین میں نہیں کہ جس وقت وہ اپنے اس بہتان پر خوشیاں منارہے ہوں کہ آج کے دن (نعوذ باللہ) خدا کے بیٹے کی سالگرہ ہے تو ہم اُن کو مبارک سلامت کہہ کر اُن کی خوشیوں کو دوبالا کریں۔ آدمی کی غیرتِ دینی سلامت ہو تو یہ بات خودبخود سمجھ آتی ہے۔ فقہاء نے اس چیز کے حرام ہونے پر شریعت سے باقاعدہ دلائل ذکر کئے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں (بہ اختصار):

۱۔ قرآن مجید میں رحمٰن کے بندوں کی صفت بیان ہوئی:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (الفرقان: ۷۲)

اور وہ لوگ جو باطل پر حاضر نہیں ہوتے اور کسی بیہودہ چیز پر ان کا گزر ہو تو متانت کے ساتھ گزرتے ہیں۔

اوپر آیت میں جس باطل کا ذکر ہوا: ابن کثیر ودیگر معروف کتب تفسیر نے تابعی مفسرین کی ایک بڑی تعداد کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ اہل جاہلیت کے تہوار ہیں۔ اِس تفسیر کی رو سے ’’عباد الرحمٰن‘‘ کا شیوہ یہ ٹھہرا کہ وہ ایسی جگہوں کے پاس نہ پھٹکیں جہاں اہل جاہلیت اپنے شرکیہ تہوار منانے میں مگن ہوں۔

۲۔ ابو داود، مسند احمد اور ابن ماجہ میں حدیث آتی ہے:

عن ثابت بن ضحاکؓ : (نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ) فَقَالَ النَّبِیُّﷺ: (ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟) قَالُوْا: (لا) قَالَ: (فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟) قَالُوْا: (لا) فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: (أوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإنَّہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ أوْ فِیْمَا لا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ

یعنی دورِ رسالت مآبﷺ میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اونٹ قربان کرے گا۔ تب نبیﷺ نے فرمایا: کیا وہاں پر جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تو کیاوہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی نذر پوری کر لو کیونکہ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں جو معصیت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو‘‘۔

اِس حدیث کے ضمن میں اہل علم یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں: وہ صحابیؓ تو مسلمان موحد تھا اور قطعاً کسی بت پر چڑھاوا دینے یا کوئی جاہلی تہوار منانے نہیں جارہا تھا لیکن رسول اللہﷺ نے اِس بات کی تسلی فرمانا چاہی کہ ماضی میں بھی وہاں نہ تو کوئی بت پوجا جاتا تھا اور نہ کوئی جاہلی تہوار منایا جاتا تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ مسلمان کا جاہلی تہواروں سے دور رہنا شریعت کو کس شدت کے ساتھ مطلوب ہے۔

۴۔ فقہاء نے کفار کے تہواروں سے دور رہنے کے مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے۔ امیر المومنین عمر بن الخطابؓ نے شام کے عیسائیوں کو باقاعدہ پابند فرمایا تھا کہ دار الاسلام میں وہ اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں منائیں گے؛ اور اِسی پر سب صحابہؓ اور فقہاء کا عمل رہا ہے۔ چنانچہ جس ناگوار چیز کو مسلم معاشرے کے سامنے آنے سے ہی ممانعت ہو، مسلمان کا پہنچ کر وہاں جانا کیونکر جائز ہوگا؟ اس کے علاوہ کئی روایات سے حضرت عمرؓ کا یہ حکم نامہ منقول ہے: لا تَعَلَّمُوْا رَطَانَۃَ الأعَاجِمِ، وَلا تَدْخُلُوْا عَلیٰ الْمُشْرِکِیْنَ فِیْ کَنَائِسِہِمْ یَوْمَ عِیْدِہِمْ فَإنَّ السُّخْطَۃَ تَنْزِلُ عَلَیْہِمْ ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے روز مت جاؤ، کیونکہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔ (اقتضاء الصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ )

علاوہ ازیں کفار کے تہوار میں شرکت اور مبارکباد کی ممانعت پر حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں۔ (فقہ حنفی: البحر الرائق لابن نجیم ج ۸، ص ۵۵۵، فقہ مالکی: المدخل لابن حاج المالکی ج ۲ ص ۴۶۔۴۸، فقہ شافعی:مغنی المحتاج للشربینی ج ۴ ص ۱۹۱، الفتاویٰ الکبریٰ لابن حجر الہیتمی ج ۴ ص ۲۳۸۔۲۳۹، فقہ حنبلی:کشف القناع للبہوتی ج ۳ ص ۱۳۱)۔ فقہائے مالکیہ تو اس حد تک گئے ہیں کہ جو آدمی کفر کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔ (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۳۵۴)

کافر کو اُس کے شرک کے تہوار پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟ اس پر امام ابن القیم الجوزیؒ لکھتے ہیں:

’’یہ ایسا ہی ہے کہ مسلمان اُسے صلیب کو سجدہ کر آنے پر مبارکباد پیش کرے! یہ چیز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ آدمی کسی شخص کو شراب پینے پر یا ناحق قتل پر یا حرام شرمگاہ کے ساتھ بدکاری کرنے پر مبارکباد پیش کرے‘‘۔ (اَحکام اھل الذمہ: ج ۳ ص ۲۱۱)

چند اشکالات اور ان کا جواب:

۱۔ ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کرسمس اب کوئی مذہبی تہوار نہیں رہ گیا بلکہ ایک سماجی تہوار بن چکا ہے۔

مدینہ میں نبیﷺ نے جو جاہلی تہوار ختم کروائے خود اُن کے متعلق ثابت نہیں کہ وہ اہل مدینہ کے کوئی خاص مذہبی تہوار تھے؛ پھر بھی آپؐ نے سب جاہلی تہوار ختم کروادیے۔ دراصل یہ ایک چوردروازہ ہے جو ’کلچر‘ کے نام پر اس وقت کھلوایا جارہا ہے۔جس سے ’’کرسمس‘‘ ہی نہیں ’’دیوالی‘‘ کی راہ بھی کھل جائے گی۔ یعنی ہندو ’امن کی آشا‘ کو بھی یہی ’دلیل‘ کام دے جائے گی!

۲۔ ایک اشکال یہ کہ شریعت نے ہمیں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم کرسمس پر اُن کو مبارک باد پیش کیاکریں اور ان کے ساتھ مل کر کرسمس کیک کاٹیں!

ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کے ساتھ پیش آنے کا یقیناًشریعت میں حکم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک رسول اللہﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے بہتر کون کرسکتا ہے؟ جبکہ رسول اللہﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے کرسمس ایسے کسی تہوار میں شرکت کرنا یا مبارک باد دے کر آنا نہ تو ثابت ہے اور نہ ہی (نعوذ باللہ) اس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اِس کے برعکس، صحابہؓ سے یہ ثابت ہے کہ دورِ عمرؓ میں جب نئی اقوام داخل اسلام ہوئیں تو مسلمانوں کو کفار کے تہواروں میں شرکت سے ممانعت فرمائی گئی، جیساکہ اوپر حضرت عمرؓ کا حکم نامہ ذکر ہوا۔ پس ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم ہے لامحالہ وہ عام دنیوی معاملات میں ہے نہ کہ ان کے کفریہ شعائر میں شرکت اور شمولیت

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
مسلمانوں میں شعائرِ کفر کو پزیرائی دلوانے کی کوشش

(مسلمان اور کرسمس؟! 1)

یہ اقوام ہمارے ان ملکوں میں اپنے اپنے طریقے پر اپنے تہوار مناتی رہی ہیں، مسلمانوں نے کبھی انکو اس سے نہیں روکا البتہ خود کبھی اس میں شریک نہیں ہوئے، اور نہ ہمارے ائمہ و محدثین کو کبھی ’کیک کاٹنے‘ اور ’خیرسگالی‘ ریکارڈ کرانے کی یہ بپتا پڑی۔ آخر کیا وجہ ہے نئے نئے سوالات کا یہ پورا ایک پنڈورابکس آج ہی ہمارے سامنے کھولا جارہا ہے... آج جب ہمارے معاشرے اسلام کی حقیقت سے قریباً بےبہرہ ہیں اور جب ہمیں علم اور علماء کے ایک بدترین قحط کا سامنا ہے؟

حامد کمال الدین

hamid@eeqaz.org



ہم مسلمان جو چودہ صدیوں سے اِن شہروں اور بستیوں میں اپنے ایک دستور سے بستے چلےآئے تھے، آج کچھ ہیجان خیز تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور گویا یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ہمیں اپنے اُس دستور پر کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔

ملحد گلوبلائزیشن کی سرکش موجیں یہاں کا کوئی جزیرہ سلامت چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔

آپ اپنے گھر کو اُسی پہلے والے نقشے پر برقرار رکھیں؛ اور اس میں تعلیم اور ابلاغ کے ذریعہ سے سامنے آنے والی ان ’مجوزہ‘ تبدیلیوں کو جو آپ کو یورپ کا چربہ بنانے پر بضد ہیں مسترد کردیں، یہ آپشن ہی آپ کے پاس نہیں ہے!

یہ ’گھر‘ بچانا ہے تو اس کا نقشہ لازماً تبدیل کرنا ہوگا اور اس کی جگہ ’کوئی سا بھی نقشہ‘ نہیں بلکہ عین وہ نقشہ اختیار کرنا ہوگا جو تعلیم اور ابلاغ کی رمزیں بڑی دیر سے آپ کے ذہن نشین کرارہی ہیں!

کہنے کو آپ ’ناں‘ کرسکتے ہیں کہ یہ ’آزادی‘ اور ’جمہوریت‘ کا زمانہ ہے... لیکن وہ ’تیزاب‘ جس کی حضرت اقبال صدی بھر پہلے نشاندہی کرگئے، اور جوکہ آپ کے اِس گھر کی جڑوں میں وافر طور پر ڈالا گیا تھا، اب بہت آگے تک اپنا اثر دکھاچکا ہے اور کٹاؤ erosion کا یہ مسلسل بےرحم عمل اس کی بہت سی مٹی اس کی بنیادوں سے نکال نکال کر اِسے ایک کھگر بنا چکا ہے (جُرٌفٍ ھَارٍ)، لہٰذا اگر آپ سمجھدار ہیں تو ’نان‘ کرنے کی آپ کے پاس ’آزادی‘ تو ہے مگر ’آپشن‘ نہیں ہے!

سبھی کو معلوم ہے، آج ہمیں ’’تبدیلیوں ‘‘ کے دھانے پر رکھنے کی یہ کوششیں... ’’تبدیلیوں‘‘ کا یہ پورا نقشہ اور اس کا سب مواد اور اس کی ’انسپائریشن‘ کہاں سے آرہی ہے۔ بدبو کے بھبھکے اس وقت کہاں سے اٹھ رہے ہیں، یہ کسی پر اوجھل نہیں۔ یہ ایک سے ایک بڑھ کر گھناؤنی اشیاء جو بزور آج ہمارے حلق سے نیچے اتاری جارہی ہیں اور جوکہ اس سے پہلے ہم نے کبھی دیکھیں اور نہ سنیں... اپنے شہروں اور بستیوں میں کفریہ شعائر کی یہ آؤبھگت... عیسائیوں، ہندؤوں اور یہودیوں (اور شاید اگلے کسی مرحلے میں قادیانیوں) کےلیے فرشِ راہ ہونے کی یہ زوردار تاکیدیں جو میڈیا میں ہم صبح شام سننے لگے ہیں، غرض یہ سب رنگ ہمارے لیے سوفیصد نئے ہیں اور ہمارے معاشرے کبھی بھی ان سے آشنا نہیں رہے۔ یہ ایک نہایت کھلی حقیقت ہے۔ پھربھی... اپنے گھر میں ہونے والی اِن ’’تبدیلیوں‘‘ کے خلاف مزاحمت میں اگر آپ کچھ ہاتھ پیر مارتے ہیں تو ’’شدت پسندی‘‘، ’’انتہاپسندی‘‘ اور ’’جنون پرستی‘‘ کے خلاف تیار کی گئی ایک خصوصی عالمی لٹھ آپ کے سر میں دے ماری جاتی ہے! اور جوکہ آپ کے ہوش ٹھکانے لے آنے میں نہایت مجرب اور زوداثر دیکھی گئی ہے؛ اور جس کے اثر سے اب یہاں کے بہت سے ’نقشِ کہن‘ پہ اڑنے کی شہرت رکھنے والے طبقے ’’تبدیلیوں‘‘ کے اِس میلے میں جوق درجوق شرکت کرنے چلے ہیں۔ ’کیرٹ اینڈ سٹک‘ کا مقولہ بھی بلاشبہ اُنہی کا تھا مگر یہ ’’تیزاب اور لٹھ‘‘ کا نسخہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، گو ’کیرٹ‘ کا استعمال اور ’پیش کش‘ بھی ہرگز متروک نہیں ہوئی ہے!

قصہ کوتاہ... آج یہاں آپ کو اپنے ’غیرمذہبی‘ ہی نہیں بلکہ ’مذہبی‘ رویوں میں بھی سرتاپیر بدلنا ہے! خود سیکولرزم کی رو سے وہ آپ کے ’مذہب‘ میں عدم مداخلت ہی کے پابند ہیں، اور بلاشبہ یہ عید اور کرسمس کے مسئلے سیکولرزم کی اپنی تعریف کی رو سے ’مذہب‘ ہی کے دائرہ میں آتے ہیں جس میں ’اصولاً‘ تو یہی فرض ہے کہ لوگوں کو اُن کے اپنے دستور پر چھوڑ دیا جائے اور باہر سے اس میں مداخلت اور اثراندازی maneuvering کی ہرکوشش سے اجتناب برتا جائے... مگر کیا کریں یہ ’تیزاب‘ کچھ اس قدر ضرورت سے زیادہ استعمال کربیٹھے اور یہ ’لٹھ‘ تو ہلکی بھی ماریں تو خودبخود اس زور سے لگتی ہے کہ یہاں پر کچھ نتائج اب ’آپ سے آپ‘ نکل رہے ہیں! یقین کیجئے مذہبی طبقے خود بہت سمجھدار ہیں (نہ جانے کیوں کندذہن تصور کرلیے گئے تھے!)، یہاں کوئی ان کو سبق نہیں پڑھا رہا، یہ آپ اپنی رغبت اور اپنی ’تحقیق‘ سے یک لخت میلادِ مسیح کی جانب مائل ہوجانے لگے ہیں (حالانکہ ’میلادِ مسیح‘ کی خبر اِن کو چودہ صدیاں پہلے سے ہے اور میلادِ مسیح منانے والے بھی اِن کے معاشرے میں چودہ صدیوں سے ہی چلے آتے ہیں، مگر اِس ’رجحان‘ کی نوبت آج ہی آنے لگی ہے) جس کے نتیجے میں دنوں کے اندر یہاں ’کرسمس کیک‘ کی پزیرائی ہونے چلی ہے اور عنقریب آپ کی ’سویوں‘ کے ساتھ اس کا ذکر ہونے والا ہے! یقین کیجئے یہ سب کچھ آپ سے آپ ہورہا ہے! یہاں کچھ ’نیا‘ ہے تو وہ یہاں کے مذہبی طبقوں کا اپنا فکری سفر ہے۔ ان کے اِس ’اجتہاد‘ کو ممکن بنانے کےلیے میڈیا نے تو اپنے ہاتھ میں صرف وہ ’لائٹ‘ پکڑ رکھی ہے یا کچھ ایسے ’عدسے‘ کا انتظام کردیا ہے جس سے مدد پاکر ’اسلام میں غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک‘ کے الفاظ جلی ہوکر اپنی اس ’اصل‘ صورت میں نظر آنے لگے ہیں جو اس سے پہلے امتِ محمدؐ کے فقہاء و محدثین کو کبھی نظر نہیں آسکے تھے۔ میڈیا نے کچھ کیا ہے تو صرف وہ ’اندھیرا‘ ختم کرڈالا ہے اور اب اِس ’روشنی‘ میں دینِ اسلام کے بہت سے حروف اپنی ’صحیح صورت‘ میں پڑھے جانے لگے ہیں؛ لہٰذا اس کو آپ کسی قوم کے ’مذہبی‘ دستور میں مداخلت اور اثراندازی maneuvering کیسے کہہ سکتے ہیں! حالیہ عرصے کےدوران یہاں کے مذہبی طبقے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ’زیارت‘ کی جانب مائل ہونے لگے یا یہاں پر امریکی ڈپلومیٹس کے پھیرے لگنا کچھ بڑھ گیا تو اس کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی عالمی ’حقائق‘ کارفرما ہیں۔ امریکی یہاں کے مذہبی طبقوں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں آنے لگے ہیں اور تعلقات کی یہ گرمجوشی یہاں کے ’قال اللہ و قال الرسول‘ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھنے والے دینی مدارس میں کسی امریکی سفیرِمحبوب کی آمد پر گل پاشی کرانے لگی ہے تو اس کا سبب بھی یہی ہے۔ یعنی یہاں کے مذہبی طبقوں کو وقت کے ان ’بدلتے تقاضوں‘ کے روبرو خود ہی اپنے ’فرائض‘ اور ’ذمہ داریوں‘ کا احساس ہوچلا ہے! پس سیکولرزم کا یہ اصول اپنی جگہ برقرار ہے کہ کسی قوم کے مذہبی دستور میں مداخلت سے پرہیز کیا جائے، لیکن تعلیم اور میڈیا کے شعبوں سے اگر محض کچھ ’روشنی‘ پیدا کرکے دےدی جائے، جس کے نتیجے میں ایک قوم کی مذہبی قیادتیں ’خودبخود‘ چیزوں کو ایک نئے انداز سے دیکھنے لگیں اور جس سے ’آپ سےآپ‘ یہاں پر کچھ نئے مذہبی رجحانات پرورش پانا شروع کرلیں تو اس میں کسی سے کیا گلہ! کیا آپ ’ارتقاء‘ پر بھی پابندی لگادیں گے؟!

’ارتقاء‘ جو آپ کے اِس دینِ کامل و اکمل کی حامل امت کےسامنے آج باقاعدہ لاکھڑا کیا گیا ہے، اور جس کے مقابلے پر اپنی ’ناں‘ سامنے لانے کےلیے آپ کے علماء کو سیرتِ ابن حنبلؒ کے اعادہ کی ضرورت ہے!

بس یہ ایک سادہ اور آسان سی وجہ ہے کہ آج ہم مسلمان اپنے اِن شہروں اور بستیوں میں کیوں یکایک کچھ نئے سوالات کا سامنا کرنے لگے ہیں۔ ورنہ کونسی چیز نئی ہوئی ہے جو آج ہمیں کچھ ایسے سوالات، ایسے اشکالات اور ایسے شبہات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن سے ہم اپنی طویل تاریخ کے دوران کبھی واقف نہیں رہے؟ ہمارے یہاں سکونت پزیر عیسائی، یہودی، ہندو ودیگر اقوام ہمیشہ امن وچین سے زندگی گزارتی آئی ہیں، یہ اقوام بلاشبہ ہمارے ان ملکوں میں اپنے اپنے طریقے پر اپنے تہوار مناتی رہی ہیں، مسلمانوں نے ان کو کبھی اس سے نہیں روکا البتہ خود بھی کبھی اس میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہمارے ائمہ و محدثین کو کبھی ’کیک کاٹنے‘ اور ’خیرسگالی‘ ریکارڈ کرانے کی یہ بپتا پڑی جو آج ہمارے یہاں سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔ ذمی کفار بھی اِنہی شہروں اور ملکوں میں آباد تھے اور ہم بھی، اُن کو بھی مذہبی آزادی حاصل تھی اور ہم بھی اپنے دین پر عمل پیرا (جس میں دوزخی ملتوں سے بیزاری بھی آتی ہے)۔ وہ بھی اپنے مذہب پر کاربند اور ہم بھی اپنے دین پر گامزن، مگر ملتوں کی یہ جدائی جو ایک پیغمبرؐ کی بعثت سے ہمارے اور ان کے مابین قیامت تک کےلیے پڑگئی تھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہی۔ دوزخی ملتوں سے یہ علیحدگی علیٰ حالہٖ برقرار رہی۔ ’’انعمت علیہم‘‘ اور ’’مغضوب علیہم وضالین‘‘ کے راستوں کا یہ فرق جو ہماری ہر ہر رکعت کا موضوع ہوتا ہے ہمارے معاشروں کے اندر بھی برابر بولتا رہا۔ ’’انعمت علیہم‘‘ اور ’’مغضوب علیہم وضالین‘‘ کی راہیں یہاں ہر ہر معنیٰ میں جدا رہیں۔ ’’اہل کفر سے براءت‘‘ اور ’’ان کے ساتھ حسنِ سلوک‘‘ کےمابین ’تعارض‘ کی نشاندہی کرنے کا آج تک ہمارے کسی جینئس کو خیال نہیں آیا تھا۔ ذمیوں کے ساتھ ہمارا حسن سلوک جو طویل صدیوں تک مہذب دنیا کو دعوتِ نظارہ دیتا رہا، تاریخ میں خدا کے فضل سے آج تک ذکر ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہم مذہب بادشاہوں اور راجاؤں سے بڑھ کر ہماری رعایا بننے میں سکون پاتی رہیں اور ہماری پناہ میں آکر اپنے جان و مال اور عزت وآبرو کو کہیں محفوظ تر جانتی رہیں۔ پس کافر اقوام کا ہمارے اِن مسلم معاشروں میں ’’پایا جانا‘‘ ہمارے لیے کوئی نئی بات ہے اور نہ ان کی وہ ’’مذہبی آزادی‘‘ جو اُنہیں ازروئے شریعتِ اسلام ہمارے یہاں حاصل رہی ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ہمارے لیے نئی نہیں ہے اور ہمارا دین جوکہ کامل واکمل ہے کسی بھی سیکولر اصول یا کسی بھی بین الاقوامی حوالے کا ضرورتمند ہوئے بغیر ہمیں اس باب میں نہایت اعلیٰ اور کامل و مکمل راہنمائی دیتا رہا ہے۔ اقلیتیں ہمارے یہاں موج سے رہتی رہی ہیں بغیر اس کے کہ ہمیں اُن نئےنئے سوالات کا سامنا کرنا پڑے جو ہمارے تہذیبی مسخ کے اِس حالیہ عمل کے دوران ایک پنڈوراباکس کی صورت ہمارے سامنے لاکھڑے کیےگئے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب ہمارے معاشروں میں اسلام کی حقیقت سے آگاہی کا گراف آخری حد تک نیچے جاچکا ہے اور ہمیں علم اور علماء کے ایک بدترین قحط کا سامنا ہے۔ دنیا کے سب چور ’دانش‘ کے بہروپ میں اس ’تاریخی موقع‘ سے فائدہ اٹھانے کےلیے ہمارے گھر میں نقب لگاچکے اور آج وہ ہمارے گھر کی ہرچیز زیروزبر کرتے پھررہے ہیں...

یہ سب آفتیں اس تابڑتوڑ انداز میں آخر آج ہی ہمارے گھر کا پتہ کیوں پوچھنے لگی ہیں؟

ہمارے گھر کی جو ایک دیوار تھی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تو بڑی دیر سے منہدم ہو رہی تھی مگر اب دو ڈھائی صدی ہونے کو ہے یہ دیوار ہی دھڑام سے آگری ہے؛ جس سے اِس کی چھت بھی جاتی رہی۔ اب بڑی دیر سے ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جہاں ہر طرح کے موسمی حالات ہم پر حملہ آور ہونے کا سو فیصد موقع پاتے ہیں؛ جس کا سب سے زیادہ اثر ہمارا دانشور طبقہ قبول کرتا ہے۔ اِس مسئلہ کی اصل تشخیص بس اتنی ہے۔ باقی سب کچھ؛ اِس کی علامات symptoms کہئے۔ کتاب و سنت میں ہر طرف ’سوشل ازم‘ کا نظر آنا، پورا دینِ اسلام ’جمہوریت‘ کی دہائی دیتا نظر آنا، جگہ جگہ ’سیکولر ازم‘ کے دلائل دکھائی دینا، نصوصِ شریعت میں جابجا تقاربِ ادیان Religious Rapprochement کے ثبوت نظر آنا اور قرآن کے ذکرکردہ ’’کلمۃٌ سواءٌ‘‘ [1] کی تفسیر اُس ’مذہبی ہم آہنگی‘ سے کرنا جو ہماری مادرہائے علمی میں مستشرقین کے تیارکردہ کورسز پڑھائے جانے سے پہلے ہم نے یہاں کبھی دیکھی اور نہ سنی... یہ اِس جان لیوا عارضہ کی محض کچھ علامات ہیں۔ اصل روگ یہ ہے کہ اِس امت کا گھر ڈھ گیا ہے اور فی الوقت یہ کھلے آسمان تلے بیٹھی ہے؛ جہاں کوئی ادنیٰ ترین موسمی تبدیلی بھی اِس پر اثرانداز ہوکر رہتی ہے...!

جہاں تک ان موسمی وباؤں سے ’’تحفظ‘‘ immunization کا سوال ہے، تو وہ ایک ہی ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جس کا پیش لفظ ہے: أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار۔ یعنی ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتے دستور پر ہی چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ یہ ایک ایسا کمال کا تحفظ immunization ہے کہ ’موسم‘ خواہ کتنا ہی بے رحم ہو لے، وہ سب مہلک وبائیں اور استشراق کی لیب سے تیار ہوکر آنے والے وہ سب خطرناک وائرس اِس چٹان سے ٹکراکر اپنا ہی سر پھوڑتے ہیں۔ پس کچھ عجب نہیں کہ یہ حفاظتی نسخہ immunization ایک مسلم معاشرے میں آپ کو ہر خطبے اور ہر مجلس میں دیا جائے... اور اہل اسلام کی ہر تقریب اس کے بغیر ادھوری سمجھی جائے!


[1] مراد ہے سورہ آل عمران میں مذکور کَلِمَۃٌ سَوَاء: وہ بات جس پر آنے کے لیے قرآن نے اہل کتاب کو کھلی دعوت دی ہے اور جوکہ سب انبیاء اور شریعتوں کا پڑھایا ہوا بنیادی ترین سبق ہے، یعنی خالص توحید۔ سورہ آل عمران: ۶۴ میں جہاں یہ لفظ ملتا ہے وہاں اسی آیت کے اندر اس کا نہایت واضح بیان بھی ملتا ہے، یعنی شرک کی کھلی نفی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ’بین المذاہب مکالمہ‘ کی مارکیٹنگ کرنے والے مسلمان پوری آیت کو سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔ ہمارے اس ضمیمہ میں اس پر علیحدہ سے ایک تحریر دی جارہی ہے۔



Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
وتَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ

محض ’دوقومیں‘؟... یا ’’دو ملتیں‘‘؟

ایک ہی قوم، ایک ہی دھرتی کے فرزند، ایک ہی سانجھی معیشت معاشرت اور مشترکہ مفادات کے حامل ’ہم وطن‘... نبی کی بعثت کے ساتھ ہی دو ملتوں میں بٹ جاتے ہیں؛ ان میں ہمیشہ کے لیے جدائی اور بیر پڑجاتا ہے... یہاں؛ ایک بالکل نیا اور یکسر مختلف جہان وجود میں آتا ہے جس کو ’’دار الاسلام‘‘ (اسلام کا گھر) کہتےہیں۔ یعنی وطن تھا سو وہ بدلا۔ قومیت اور اجتماعی شناخت تھی سو وہ پہلے والی نہ رہی۔ شریعت تھی سو اَب وہ سراسر اور ہے۔ دستور تھا سو وہ دفن ہوا اور اب بالکل ایک نیا دستور ہے اور ان دونوں میں نام کو بھی کوئی خلط نہیں۔ اِس نئی اجتماعیت میں دوسری ملت کے لیے کوئی گنجائش ہے تو وہ ’’ذمی‘‘ کی حیثیت میں؛ ایک ایسی ’کیٹگری‘ جو آج کفار کو ہی نہیں بہت سے مسلمانوں بلکہ مسلم ’داعیوں‘ کو حیرت زدہ کرتی ہے! اِس نئی اجتماعیت کو دَارِ اسلام کہتے ہیں.. اور دَورِ اسلام بھی۔ اِسی کو اسلامی کیلنڈر اور اسلام کی حیاتِ اجتماعی کا نقطۂ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ اِس سے ماقبل جو اجتماعیت پائی جاتی تھی اُس کے لیے صرف ایک لفظ ہے: دَورِ جاہلیت۔ اور اِس سے باہر جو اجتماعیت ابھی تک پائی جارہی ہے اُس کا صرف ایک وصف ہے: دَارِ جاہلیت۔ محمدﷺ کا جہان میں مبعوث ہونا ایک مسلمان کے لیے یہ سب دلالتیں ساتھ لےکر آتا ہے؛ اور اِن دلالتوں کو مانے بغیر اپنے آپ کو محمد ﷺ کا حلقہ بگوش جاننا اور محض آپﷺ کی سیرتیں اور نعتیں پڑھ آنے کو آپﷺ سے وابستگی کے لیے کافی خیال کرنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔
’’وَمَن یَّرۡغَبُ عَن مِّلَّۃِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ‘‘

حامد کمال الدین

hamid@eeqaz.org



اِس وقت جو فتنہ کالی آندھی کی طرح چڑھا آرہا ہے وہ ہے مسلمان کی زندگی میں ’’دین‘‘ کی مرکزیت کو ختم کر دینا۔ سیکولرازم ہے تو وہ اس فتنہ کا محض ایک شیڈ shade ہے، یعنی ’’دین‘‘ کو مسلمان کی اجتماعی زندگی سے نکال کر انفرادی زندگی میں قید کرنا۔ نیشنلزم ہے تو وہ اسی فتنہ کا ایک دوسرا شیڈ ہے، یعنی ’’دین‘‘ کو مسلمان کی اجتماعی شناخت نہ رہنے دینا۔ اور اب یہ ’مذہبی ہم آہنگی‘ Inter-faith Harmony کی عالمی رَو ہے جوکہ بڑی تیزی کے ساتھ عالم اسلام کا رخ کر رہی ہے... تو یہ عین اسی فتنہ کا ایک تیسرا شیڈ ہے، یعنی ’’دین‘‘ کو انسان کی دوستی اور دشمنی کی بنیاد نہ رہنے دینا۔ یہاں ایک ایسی دنیا تعمیر کی جارہی ہے جہاں ’’دین‘‘ رہے تو اپنی ایک حاشیائی حیثیت میں اور معاشرے کے کونوں کھدروں میں پڑا رہنا قبول کرتے ہوئے۔ ’’دین‘‘ نہ تو انسان کی دوستی دشمنی میں جھلکے ، نہ ’’دین‘‘ انسان کی بنیادی ومرکزی شناخت ہو، نہ ’’دین‘‘ انسان کے قومی و اجتماعی سیٹ اپ کا اساسی جوہر ہو، اور نہ ’’دین‘‘ انسان کی سِول لائف میں شریعت اور قانون کا درجہ پا کر رہے۔ مالکِ کائنات کی آسمانوں میں جو بھی شان ہے اور عبادت خانوں میں اُس کا جوبھی مقام ہے، برسرزمین __ معاذ اللہ __ اُس کی یہ حیثیت نہیں کہ دنیا اِس بنیاد پر تقسیم ہو کہ کون اُس کا مومن ہے اور کون اُس کا کافر؛ کون اُس کو معبودِ لاشریک مان کر اپنی پوری دنیا کو اُس کے آگے جھکادینا قبول کرتا ہے اور کون اُس کی زمین میں اُس کے ہمسر اور اُس کے مدمقابل لا کھڑے کرتا ہے۔ سب رشتوں اور بندھنوں کا سرچشمہ اُسی کی ذات ہو اور انسانی اجتماعیت اُسی کے لیے محبت اور اُسی کے لیے بغض، اُسی کے لیے دوستی اور اُسی کے لیے دشمنی کا دم بھرے، اُسی کے لیے ٹوٹنے اور اُسی کے لیے جڑنے کے قاعدہ و اصول پر استوار ہو اور صرف اُسی کی شریعت پر قائم... ایسے ’’دین‘‘ کے لیے اُن کے اِس مجوزہ جہان میں کوئی جگہ نہیں۔ اس کو ہمارے یہاں سے رخصت کروا دینے کے لیے اب وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور اِس جنگ میں ہر حد گزر جانے پر آمادہ۔

دوسری جانب، انبیاء ہمیں جس ’’دین‘‘ کا پتہ دے گئے وہ اُس وقت تک وجود میں ہی نہیں آتا جب تک آدمی ملتِ کفر سے بیزاری نہ کر دے اور جب تک اللہ لاشریک کی عبادت کو اور اُس کے رسول سے اٹوٹ وابستگی اور اُس کی شریعت کے مطلق اتباع کو اپنی زندگی اور اپنے اجتماع کی واحد بنیاد نہ مان لے:

’’انبیاء‘‘ کی بعثت کے ساتھ ہی جہان میں دو ملتیں وجود میں آجاتی ہیں اور دونوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی عداوت۔ سب دوریاں اور ہجرتیں اِسی ایک چیز کی پیداکردہ ہوتی ہیں؛ کوئی ’حقوق‘ کا مسئلہ اور نہ ’محرومیتوں‘ کی کہانی۔ صرف اور صرف... ’’عبادۃُ اللہ وحدہٗ‘‘ اور ’’عبادتِ غیر اللہ‘‘ کا مسئلہ اِن دونوں کے بیچ ایک لکیر کھینچتا ہے اور پھر یہ لکیر تاقیامت انمٹ ہوتی ہے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، یہ لکیر اپنی جگہ رہتی ہے۔ توحید کی قاموس نسلِ آدم کے مابین ’’سرحد‘‘ کا کوئی معنیٰ اور مفہوم بتلاتی ہے تو وہ بس یہی۔ ’’سرحد‘‘ کا یہ وہ تصور ہے جو آج ایک بڑی سطح پر غائب ہے (کیونکہ توحید کا مجرد علم ہی ایک بڑی سطح پر آج مفقود ہے) اور جوکہ باقی سب لکیروں کو ملیامیٹ کر دینے کے بعد ہی اَذہان میں جگہ پاتا ہے۔ ’’نبی کی بعثت‘‘ ایک باہم شیروشکر قوم کی زندگی میں ایسے ہی ایک ’’نئے‘‘ واقعے کو جنم دے ڈالنے کا نام ہے: ایک ہی قوم، ایک ہی دھرتی کے فرزند، ایک ہی سانجھی معیشت اور معاشرت اور مشترکہ مفادات کے حامل ’ہم وطن‘... نبی کی بعثت کے ساتھ ہی دو متوازی ملتوں میں بٹ جاتے ہیں؛ ان میں ہمیشہ کے لیے جدائی پڑجاتی ہے اور دونوں کے مابین ایک کھلے بیر اور عداوت کا رشتہ جنم لے لیتا ہے... تاآنکہ اِس عمل کے نتیجے میں ایک بالکل نیا اور یکسر مختلف جہان وجود میں آتا ہے جس کو ’’دار الاسلام‘‘ (اسلام کے گھر) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی وطن تھا سو وہ بدلا۔ قومیت تھی سو وہ کچھ سے کچھ ہو گئی۔ اجتماعی شناخت تھی سو وہ بالکل اور ہو گئی۔ شریعت تھی سو اَب وہ بالکل اور ہے۔ دستور تھا سو وہ دفن ہوا[1] اور اب بالکل ایک نیا دستور ہے اور ان دونوں میں نام کو بھی کوئی خلط نہیں۔ اِس نئی اجتماعیت میں دوسری ملت کے لیے کوئی گنجائش ہے تو وہ ’’ذمی‘‘ کی حیثیت میں؛ ایک ایسی ’کیٹگری‘ جو آج کفار کو ہی نہیں بہت سے مسلمانوں بلکہ مسلم داعیوں کو حیرت زدہ کرتی ہے! اِس نئی اجتماعیت کو دَارِ اسلام کہتے ہیں.. اور دَورِ اسلام بھی۔ اِسی کو اسلامی کیلنڈر اور اسلام کی حیاتِ اجتماعی کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے، جبکہ اِس سے ماقبل جو اجتماعیت پائی جاتی تھی اُس کے لیے صرف ایک لفظ ہے: دَورِ جاہلیت۔ اور اِس سے باہر جو اجتماعیت ابھی تک پائی جارہی ہے اُس کا صرف ایک وصف ہے: دَارِ جاہلیت۔ محمدﷺ کا جہان میں مبعوث ہونا ایک مسلمان کے لیے یہ سب دلالتیں ساتھ لے کر آتا ہے؛ اور اِن دلالتوں کو مانے بغیر اپنے آپ کو محمد ﷺ کا حلقہ بگوش جاننا اور محض آپﷺ کی سیرتیں اور نعتیں پڑھ آنے کو آپﷺ سے وابستگی کے لیے کافی خیال کرنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ملتِ شرک سے بیزاری دکھانا.. نہ صرف بتوں سے بلکہ بتوں کی عبادت کرنے والوں سے نہ صرف عداوت کرنا بلکہ اِس عداوت کو باقاعدہ ریکارڈ پر لے کر آنا اور اس کے مقابلے میں صرف اہل توحید سے اپنی وفاداری اور وابستگی کو ہی اپنی پہچان اور اپنی اجتماعیت کی بنیاد ماننا... یہی ملتِ ابراہیم ؑ ہے؛ یعنی ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ کے اس طریقے سے جو اُس ؑ نے خدا کی فرماں برداری میں ملتِ شرک کے مدمقابل اختیار کیا تھا بے رغبتی برتنے والے ’نیکوکار‘ جو خدا کو محض ایک ’مجموعۂ عقائد‘ اور ایک ’مجموعۂ اَخلاق‘ اور ایک ’مجموعۂ عبادات‘ کے ذریعہ سے ہی راضی کرلینے پر مصر ہوں، اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔

وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاھِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ (البقرۃ: ۱۳۰)

’’اور کون ہے جو ملت ابرہیم ؑ سے اعراض کرے، سوائے یہ کہ اپنے آپ ہی کو بے وقوف بنائے‘‘

قَالَ أَفَرَأَیْتُم مَّا کُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُکُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ وَالَّذِیْ أَطْمَعُ أَن یَغْفِرَ لِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ (الشعراء: ۷۵ ۔ ۸۲)

ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔ جو مجھ کو کھلانے اور پلانے والا ہے اور جب بیمار پڑوں تو مجھ کو شفایاب کرنے والا۔ اور جو مجھ کو مارنے اور جِلانے والا ہے۔ اور جس سے میری یہ طمع وابستہ ہے کہ روزِ جزا وہ میری خطائیں بخش دے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِ إِنَّنِیْ بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَإِنَّہُ سَیَہْدِیْنِ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (الزخرف: 26-28)

جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا: میں بیزار ہوا ان تمام ہسیتوں سے جنہیں تم پوجتے ہو، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے۔ اِسی چیز کو ابراہیم ؑ اپنے پیچھے باقی رہنے والا کلمہ بناگیا، تاکہ وہ (بعد والے) اس کی طرف لوٹ آتے رہیں۔
وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ وَأَدْعُو رَبِّیْ عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاء رَبِّیْ شَقِیّاً (مریم: 48)

میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اُنہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا (ترجمہ جوناگڑھی)
قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ھَدَانِ (الانعام: 78۔80)

ابراہیم ؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! میں بیزار ہوا ان سب چیزوں سے جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں اپنا رخ سونپتا ہوں اُس ہستی کو جس نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دیا، ایک اُسی کا ہو کر، اور اب میں مشرکوں کا حصہ نہیں۔ یہاں؛ اُس کی قوم اُس سے الجھ پڑی۔ ابراہیم ؑ نے کہا: کیا تم مجھ سے الجھتے ہو اللہ رب العزت (کے حق) کے بارے میں؟ حالانکہ اُس نے مجھے راہِ راست دکھلا دی ہے..
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَء اؤ مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ (الممتحنۃ: 4)

تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ کفر کیا ہم نے تم سے۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ۔[2]
بہت کم حجاجِ کرام ہوں گے جو پورے شعور کے ساتھ خدا کے اُس ’’گھر‘‘ کا طواف کر کے آتے ہوں جس کی تعمیر کی کہانی میں ایک ’’بت خانے‘‘ کے ڈھائے جانے کا ذکر اِس گھر کی تعمیر سے پہلے آتا ہے! وہ حجاجِ کرام جو ہزاروں میل کا سفر توحید کے اُس قدیم ترین مرکز کی زیارت کے لیے اختیار کرتے ہوں اور اس میں پائی جانے والی ایک ایک یادگار (مشاعر) پر مناسک ادا کرکے آتے ہوں جو شرک کی ایک دنیا کو خیرباد کہہ دینے کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا.. اور جوکہ ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ ایسے کچھ کلمات کا ہی ایک زندہ اور جیتا جاگتا ترجمہ تھا۔ اور پھر اس سے تین سو میل کے فاصلے پر ایک اور مقدس شہر: جس کی تاسیس کا کوئی اور سبب بیان ہونے میں نہیں آتا سوائے توحید اور شرک کی اُس لڑائی کے جو سید البشر ا کے اپنی قوم، قبیلہ، ملک اور دھرتی سے ناطہ توڑ لینے.. اور اُس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ایک پردیس کو ہی اپنا دیس قرار دے لینے.. نیز اِسی ’’پردیس‘‘ کو اپنے ملکی وقومی رشتہ داروں کے خلاف جہاد کا بیس کیمپ بنا لینے کا موجب ہوئی تھی...؛ وہ زائرین جو اِس شہر سے جس کو ’یثرب‘ کہنا متروک ہوچکا، ’’مدینہ‘‘ اور ’’تمدن‘‘ اور ’’اجتماع و عمران‘‘ کے کچھ برگزیدہ آسمانی مفہومات لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں!

*****
آج ہمارے ہاتھ سے ہماری اُس قیمتی ترین متاع کو جو ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوتی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں انبیاء کے کیمپ کا بلاشرکتِ غیرے وارث اور امین بناتی اور ہمیں معیتِ خدواندی کا استحقاق دیتی اور نصرتِ خداوندی کا امیدوار ٹھہراتی ہے، ہمارے ہاتھ سے چھین لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ اِس ہدف کو مختصرترین وقت میں حاصل کرنے کے لیے ناقابل اندازہ وسائل جھونک دیے گئے ہیں۔ ’تعلیم‘، ’ابلاغ‘، ’ذہن سازی‘ اور ’تہذیبی روّیوں کی تشکیلِ نو‘ کے نام پر آج ہمارے گھر میں ہزاروں چور گھس آئے ہیں۔[3] آپ ہی سوچئے، اِس گھر کے پاسبان ہمارے اہل علم و دانش کے سوا کون ہو سکتے تھے جو قرآنی ہتھیاروں سے کام لے کر ہمارے گھر میں ہونے والی اِس واردات کے آڑے آتے؟ کسے معلوم نہیں، ہمارے یہ پاسبان اگر جاگ رہے ہوتے تو چور یہاں پر کامیابیوں کے جھنڈے نہ گاڑتے۔ ہمارے حاملینِ قرآن چاہے کچھ نہ کرتے اپنی زوردار آواز سے ماحول کو خبردار ہی رکھتے تو چوروں کو یہاں ایک حیران کن مزاحمت ملتی۔ یہ بیدار ہوتے تو امت بیدار ہوتی اور تب ہر چوک اور چوراہے پر یہاں چوروں کی درگت بنتی۔ اِس عظیم الشان امت کو کمی ہے کس چیز کی، سوائے ’’جاگتے رہو‘‘ کی گونج دار آوازوں کے؟! حق تو یہ ہے کہ خود چور ہی جوکہ حد سے بڑھ کر سمجھدار ہیں اور ’شماریات‘ میں طاق، اِس گھر کا رخ نہ کرتے اگر اُنکی اپنی ’تحقیقات‘ نے اُن پر واضح نہ کردیا ہوتا کہ اِس گھر کے محافظ خوابِ خرگوش میں مست ہیں؛ ایک ایسا نایاب و ناقابل یقین موقع جو اِس گھر میں نقب زنوں کو شاید ہی کبھی نصیب ہوا ہو!

مگر حق یہ ہے کہ یہ ’’موقع‘‘ جو اُن کو آج دستیاب ہے، اِس سے کہیں بڑھ کر گھناؤنا اور تشویشناک ہے...
اِس سے پہلے بھی شاید بہت بار ایسا ہوا ہو کہ ہمارے مسلم داعی اور ہماری اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مضمحل اور غیرفعال ہو گئی ہوں اور نتیجتاً؛ وقت کے چیلنج پر پورا نہ اتر پارہی ہوں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ہمارے مسلم داعی اور مسلم تحریکیں بیرونی حملہ آوروں کے ایجنڈا میں ہی ’’اپنے لیے مخصوص جگہ‘‘ تلاش کرنے نکل کھڑی ہوئی ہوں! ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کا ترجمان طبقہ ہی باطل کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہونے لگا ہو... آج ہمارا بحران درحقیقت اِس حد کو چھو چکا ہے۔

پس یہ ایک دہرا نہیں بلکہ تہرا چیلنج ہے۔ صرف اتنا نہیں کہ آج آپ ’جگانے والوں‘ کو جگائیں؛ نوبت یہاں پہنچی ہوئی ہے کہ...: ’جگانے والوں‘ کو پہلے آپ باطل کی نظریاتی قید سے آزاد کروائیے! ایک عرب موحد عالم نے بڑی دیر پہلے یہ دکھ بھرا جملہ کہا تھا کہ: آج ہمارا داعی طبقہ ہی سب سے بڑھ کر ’’دعوت‘‘ کا ضرورت مند ہے!

وائے ناکامی!

ہمارے وارثانِ دین ودانش ہی آج باطل کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر نہ ہوتے، اور یہ اپنے فرض سے آگاہ ہوتے تو دینِ اسلام کی حقیقت پر اِس قدر مٹی کیسے ڈالی جاسکتی تھی! کیا کوئی ہے جو اس قوت کا اندازہ کرے جو ایک مسلم معاشرے میں حق تعالیٰ کی جانب سے علمائے حق کو دے رکھی گئی ہے!

ایسے انہونے دن ہم نے اپنی پوری تاریخ میں بھلا کب دیکھے تھے!


[1] نبی ﷺ کے ان زندہ جاوید کلمات میں جو آپ ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخ ساز موقع پر فرمائے، ہمارے غوروفکر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے:

ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ أمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ (صحیح مسلم کتاب الحج، عن جابربن عبد اللہ، باب حجۃ النبی ﷺ رقم الحدیث: 1218 )

’’خبردار رہو، جاہلیت کے دستور کی ہر شےْ منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے ‘‘
[2] ابراہیم عليہ السلام اور اُن کے اصحاب کایہ رویہ جس کو اہل کفر کے مدمقابل اپنانے کے حوالہ سے قرآن ہمارے لئے ’’اسوۃُ حسنۃٌ‘‘ قرار دیتا ہے (بحوالہ سورۃ الممتحنہ آیت ۴)، اس کی بابت آپ کو یہاں کچھ عجیب و غریب توجیہات سننے کو ملیں گی۔
مثلاً یہ اشکال کہ: یہ اعلانِ عداوت تو ابراہیم عليہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے اُس وقت کیا گیا جب اُن کی قوم کا ظلم و تعدی حد سے بڑھ گیا۔ مراد یہ کہ اگر وہ اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑ رہے ہوتے (اور ’بین المذاہب قربت و ہم آہنگی‘ کی وہ پیش کش کھلی رکھتے جوکہ آج زوروں پر ہے!) تو اِس اعلانِ عداوت کی ضرورت ہی سرے سے پیش نہ آتی! حالانکہ اس کا جواب اِسی آیت کے اندر موجود ہے: ابراہیم ں اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے یہ اظہارِ عداوت محض قوم کے ظلم و ستم کے باعث ہوتا تو اُن کو حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ یعنی ’’تاوقتیکہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ‘‘ کی بجائے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ’تاوقتیکہ تم اپنا یہ ظلم و ستم نہ چھوڑ دو اور ہمیں حریتِ فکر یا حریتِ اظہار سے بہرہ مند نہ ہو جانے دو‘! جبکہ حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ کے الفاظ واضح دلیل ہیں کہ یہ عداوتِ دینی ہے جوکہ اہل توحید اور اہل شرک کے بیچ ہوتی ہے نہ کہ محض ’مذہبی تشدد‘ کا کوئی رونا۔
ایک اور اشکال یہ کہ: یہ آیت فتح مکہ سے ماقبل منظرنامے سے متعلق ہے جب دو فریقوں کے مابین ویسے ہی تلواریں نکل آئی ہوئی تھیں اور ہوتے ہوتے یہ جنگ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس کا جواب بھی خود اِسی آیت کے اندر موجود ہے۔ جو نمونہ اِس عداوت کے معاملہ میں آیت کے اندر واجب الاتباع ٹھہرایا گیا وہ ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں کا ہے، جن کی زندگیوں میں ’تلواریں نکل آنے‘ کی صورت ہی سرے سے پیش نہیں آئی! پس یہ کوئی ’جنگی حالت‘ سے متعلقہ ہدایات نہیں بلکہ اُس عداوت کا بیان ہے جو اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین منجانبِ خداوندی رکھ دی گئی ہے اور جس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو توحید کی ابجد سے ناواقف ہے۔

[3] مزید تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیے ہمارا پمفلٹ ’’مسلم معاشرے پڑھے لکھے بھیڑیوں کے نرغے میں‘‘۔ اسی عنوان سے ہماری ایک ویڈیو سیریز بھی اب دستیاب ہے۔

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
’اجتہاد‘ برائے کرسمس!
:عنوان
. Featured :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
فائل ڈاؤن لوڈ کرین
’اجتہاد‘ برائے کرسمس!

(مسلمان اور کرسمس 2)

یہاں آج آپکو جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین اجتہاد ہے۔ یعنی آپکا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار آپ پر بند کرے گا اور آپکو ’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا...! یہی وجہ ہے کہ وہ ’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام ہے! اِس میں رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمد ﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے حدوحساب رکھ دیا ہے اور ’’مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً‘‘ اِس وافر انداز میں یہاں خال خال کسی روسیاہ کو ملتی ہے۔ محسوس وہ بھی کررہے ہیں کہ قرآن پڑھنے والا یہ معاشرہ نہ تو ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال‘‘ کا سدھایا ہوا کوئی لکیر کا فقیر انبوہ۔
حامد کمال الدین

hamid@eeqaz.org



دنیا جانتی ہے، نظریاتی سطح پر اِس وقت عالم اسلام میں دشمن کے دو بڑے پراجیکٹ ہیں:

ایک: دین اسلام کی حقیقت کو دھندلا کرنا، خاص طور پر کفر و اسلام کے فرق کو ملیامیٹ کرنا؛ (وہ جانتے ہیں، اس محاذ پر اگر وہ کامیاب ہوگئے تو اسلام کے بےشمار مسلَّمات کا خود ہی گھونٹ بھرا جائے گا، خصوصاً مسلمانوں کے تصورِ جہاد کا)۔ ’’بین الملل رواداری‘‘ کی تحریک سمجھئے اس کا ہراول ہے۔ اس سے پچھلی صف میں ’’فکرِ ارجاء‘‘ کے تہہ در تہہ غول کھڑے ہیں جو کچھ نہایت ’علمی بنیادوں‘ پر مسئلہ ایمان و کفر کو ’وہابی خوارج‘ کا کھڑا کیا ہوا ایک فتنہ ثابت کریں گے (ورنہ صوفیہ نے کہاں کبھی ’’مسلم‘‘ اور ’’کافر‘‘ کا فرق کیا تھا؛ یہاں تو ہندو، مسلمان، سکھ سبھی ہم پیالہ وہم مشرب رہے ہیں اور ’’ملتوں‘‘ کا فرق کبھی موضوع تک نہیں رہا!)، پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!

دوسرا: مسلمانوں کا عقائدی و فقہی انفراسٹرکچر تباہ کرنا۔ شریعت کے فہم و تعبیر کے سلسلہ میں مسلمان جس طرح قدم قدم پر ’’پیچھے‘‘ مڑ کر دیکھتا اور دستورِ سلف کا اتباع کرتا ہے.. ’طرزِ کہن پہ اڑنے‘ کی اِس ذہنیت سے عالم اسلام کو اب نجات دلوانا۔ اِس ’اینلائٹنمنٹ‘ کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں اب وہ ہر کسی کو سمجھ آتے ہیں: کچھ علمی پیمانے اور فقہی دستور جو مسلمانوں کے یہاں چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور اُن کے مجوزہ ’جہانِ نو‘ کی راہ میں کسی ہمالیہ کی طرح حائل ہیں، اب ناقابل برداشت ہیں؛ اور ان کو لازماً متروک ٹھہرایا جانا ہے۔ (عالم اسلام میں اصل تصرف!) البتہ وہ دیدہ دلیر طبقے ابھی یہاں بہت تھوڑے ہیں جو منہ پھاڑ کر کہہ دیں کہ اپنے فقہاء و محدثین کے ہاں اگر کچھ اصول اور قواعد طے پا گئے اور صدیوں چلتے رہے تو بھی ان کی کیا حیثیت ہے ہم تو دین کے ہر ہر مسئلہ کا فائل ہی آج ازسرنو کھولیں گے اور اس کے لیے سب اصول ہم خود ہی وضع کریں گے (اپنے فقہی ورثے کو چیلنج کرنے والا طبقہ جس کی ایک مثال ’’المورد‘‘ ہے) اور جبکہ دشمن کی اصل امیدیں ہمارے اِسی دیدہ دلیر طبقے سے وابستہ ہیں، البتہ اِس ہونہار بروا کے جوان ہونے کا انتظار مشکل ہوا جاتا ہے۔ تاہم ایک بڑی تعداد یہاں ایسی ہے جو اپنی فقہی روایات کے ساتھ ’’تصادم‘‘ کی بجائے ان کو ’’نظرانداز‘‘ کردینے کی روش پر ہے؛ لہٰذا اِس عمومی طبقہ کے ذریعے بھی فی الحال یہ کام نکالا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسے جدید نظائر new precedents یہاں پر جاری کروالیے جائیں اور کچھ ایسے بے نظیر رجحانات unprecedented trends اور انوکھی روایات first-time practices کو فروغ دلوا لیا جائے جن سے یہ امت چودہ سو سال ناواقف رہی ہے، جبکہ یہ سب جدید نظائر اور یہ سب بے نظیر رجحانات اور یہ سب انوکھی روایات اُن کے اس مجوزہ جہان کی ہی تشکیل کررہی ہوں!... ہاں، البتہ اُس فریق کے ساتھ ایک کھلی جنگ.. جو ہر قول کے لیے متقدمین کے نظائر ڈھونڈتا پھرے ، جو امت میں پہلے سے طے شدہ مسائل کے فائل آج نئے سرے سے کھولنے پر معترض ہو، اور جو امت کو قرونِ سلف سے چلے آنے والے علمی دساتیر کی پابندی کروائے.. اور سب سے بڑھ کر؛ جو دنیا کو ’’کفر اور اسلام‘‘ کا فرق بتائے۔ یہ طبقہ تو بلاشبہ گردن زدنی ہے! ’’وھابیت‘‘ اور ’’سَلَفِیت‘‘[1] سے بڑھ کر بھلا اِس ’جدید‘ دور میں کیا جرم ہوسکتا ہے اور ’مذاہبِ اربعہ‘ کا پابند رہنے سے بڑھ کر بری بات دنیا میں کیا ہوسکتی ہے!

آپ تسلیم کریں گے... یہ دونوں پراجیکٹ ایسے ہیں جن میں دینی طبقوں کا پورا پورا تعاون درکار ہے! صرف عدمِ مزاحمت نہیں... بلکہ باقاعدہ تعاون! سیاستدان، ڈپلومیٹ، تعلیم کار، میڈیا، سب اپنی اپنی جگہ اہم ہوں گے مگر ’مذہبی قیادتوں‘ کی اپنی ایک برکت ہے؛ اور یہ ’مذہبی خانہ‘ کسی اور کے پُر کرنے کا نہیں!

آپ اس بربادی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اندھادھند وسائل کے مالک ادارے، این جی اوز اور قونصل خانے آج ہمارے مولویوں اور مذہبی پیشواؤں کی قدرافزائی کی جانب متوجہ ہو جائیں!

حضرات! یہ واقعہ عملاً ہو چکا ہے اور مسلسل رُو بہ ترقی ہے۔ آنے والے سالوں میں اب آپ اِس کے ثمرات دیکھنے والے ہیں!

فاللّٰھم لا تقتلنا بغضبک، ولا تھلکنا بعذابک، وعافِنا قبل ذٰلک۔

*****

یہ منظرنامہ اگر آپ پر واضح ہے... تو اِس وقت یہاں مقبول کروایا جانے والا ایک ایک ’’نیا رجحان‘‘ اہم ہو جاتا ہے۔ ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا آپ کے حق میں نہایت کافی ہوتا ہے؛ کہ کیا بعید دشمن وہاں سے جو راستہ بنائے وہ آپ کے باقی سب محاذ الٹ کر رکھ دے۔ وہ کوئی انتہائی ناعاقبت اندیش سپہ سالار ہو گا جو یہ طرزِفکر رکھے کہ ’صرف ایک محاذ چلا جانے سے کیا فرق پڑتا ہے‘! اور یوں وہ اپنے سب محاذ ’ایک ایک‘ کر کے دشمن کو دیتا چلا جائے! (ذرا دو سو سال پیچھے نگاہ دوڑا کر دیکھئے؛ آپ کیا کیا کچھ دے آئے ہیں؛ اور اپنے ’ہنوز دلی دور است‘ والے اس طرزِ فکر کا جائزہ لیجئے، جس کی رُو سے ہر بار ’’اِتنا سا‘‘ دے دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہوتا! اور جس کی رُو سے کسی ایک ہی ایشو کو ’’بڑھا چڑھا دینا‘‘ ایک معیوب روّیہ ہے!)... جہاں آپ کو ایسے سپہ سالار نصیب ہوں وہاں دشمن شدید بے وقوف ہوگا اگر سب کچھ آپ سے ایک ہی بار طلب کرے؛ جبکہ ہمارا دشمن بے وقوف نہیں ہے! وہ ایک ہنڈیا کو دھیمی آنچ پر پکانا خوب جانتا ہے اور اگر آپ نظر اٹھاکر دیکھیں تو وہ یہاں اپنے پکوانوں کا ایک عظیم بازار سجا چکا ہے۔ جبکہ ہم اپنے اُسی منہج پر قائم کہ ہم اِن بدیسی اشیاء کو ایک پیکیج کے طور پر کبھی نہ لیں گے بلکہ pick & chose کا وہ ’زریں اصول‘ ہی لاگو رکھیں گے جس نے چند عشروں میں اِس گھر کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’حکومتی اقدامات‘ کا رونا اب بہت پیچھے رہ گیا؛ یہاں ہمارا وہ سماجی فیبرک ہی تار تار ہو چکا جس سے آج تک ہم نے اپنا تن ڈھانپا تھا! کہاں وہ وقت جب اِس گھر کے گر جانے پر ہمارا آہ و گریہ نہ تھمتا تھا؛ اور کہاں یہ وقت کہ اپنی تن برہنگی کا رونا رونا بھی آج خبط اور انتہاپسندی ہے!

اِس پر دشمن سے زیادہ اپنے اس منہج کو داد دینا بنتا ہے جو اپنی نہاد میں ’مرحلہ در مرحلہ پسپائی‘ کا پورا ایک پروگرام رکھتا ہے اور جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قوم کو ’’شکست‘‘ کے ہر بیدارکن جھٹکے سے محفوظ رکھتا ہے!

*****

ایک ایک محاذ پر ڈٹ جانے کی رِیت البتہ ہمیں آج بھی زندہ کر سکتی ہے؛ خصوصاً عقیدہ کے محاذوں پر؛ جوکہ ہماری زندگی کا اصل راز ہے اور دشمن کو مات دینے کا اصلی اور یقینی نسخہ۔ اور اب تو ہمای جنگ کا اصل میدان۔ جس میں اگر ہم ثابت قدم رہ کر دکھا دیں تو ان شاء اللہ ہماری فتح یقینی ہے:
ادْخُلُواْ عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ

’’عقیدہ‘‘ کے محاذوں پر رباط[2] آج سب سے بڑھ کر ضروری ہے۔ جس کا ایک ایک مورچہ اِس وقت خطرے میں ہے؛ اور جس کا ایک ایک میدان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے!

اِس محاذ پر مسلسل پسپائی آج ہمیں اِس مقام پر لا چکی ہے کہ شرک کے تہواروں پر صرف کیک ہی نہیں کاٹے جارہے، بلکہ اِس پورے معاملے میں ہمیں اپنے چودہ سوسالہ دستور سے ہٹ کر ایک ’نئے اجتہاد‘ کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی ہے، بلکہ کچھ لوگ ہمت کر کے گول مول الفاظ میں ’’لاحَرَج‘‘ کے راگ الاپنے بھی لگے ہیں؛ کہ جانتے ہیں باطل کو اپنا آغاز کرانے کے لیے ایک گول مول اسلوب ہی بہت کافی ہوتا ہے؛ ’وقت‘ ایک ایسا بے رحم فیکٹر ہے کہ ہر ’گول مول‘ خودبخود ’’سپاٹ‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابھی یہ رونا ’جدت پسندوں‘ کا نہیں بلکہ روایات کے محافظ طبقوں کا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ’پیچ ڈھیلے کرنے‘ کا کام کس سطح پر جا پہنچا ہے!

*****

یہاں سے آپ پر اُس ’اجتہاد‘ کی حقیقت کھلتی ہے جس کا تقاضا اِس وقت آپ کا ’’دین‘‘ نہیں بلکہ ’حالات‘ اور ’ضرورتیں‘ کروا رہی ہیں... اور جس میں آگے بڑھتے وقت آپ ہربار ایک داخلی خلجان سے گزرتے ہیں!

آپ کی الجھن آج یہ ہوگئی ہے کہ: وہ راہ ہی جس پر آپ قدم رکھ چکے[3] اپنی انتہائی صورت میں باطل کے گھر جاتا ہے ۔ آپ کی اِس راہ کو بند کرنے والا خود آپ کا دین ہے۔ پس یہاں آپ کو جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین اجتہاد ہے۔ یعنی آپ کا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار آپ پر بند کرے گا اور آپ کو ’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا!

اِس کا پائیدار حل یا تو یہ ہے کہ آپ اُس راستے سے جان چھڑا لیں جو اپنی انتہائی صورت میں آپ کو باطل کا پیروکار بناتا ہے... اور یا پھر اِس دین سے جان چھڑا لیں جو اُس راستے کو آپ پر باربار بند کرتا ہے!

اور یہی آپ کا اصل مخمصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام ہے! ’حالات‘ مسلسل زور لگا رہے ہیں مگر اُن کی فرمائش کا ’اجتہاد‘ عالم اسلام سے ہو کر نہیں دےرہا۔ پورا جہان اِس کے لیے چیخ چیخ کر رہ گیا، مگر ہمارا یہ ’اجتہاد‘ ہے کہ سامنے آنے سے مسلسل جھجک رہا ہے! اِس میں رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمد ﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے حدوحساب رکھ دیا ہے اور مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً[4] کی ہمت یہاں خال خال کسی روسیاہ کو ہوتی ہے ۔ محسوس وہ بھی کر رہے ہیں کہ قرآن پڑھنے والا یہ معاشرہ نہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال‘‘ کا سدھایا ہوا کوئی لکیر کا فقیر انبوہ۔

یہاں سے؛ اُن کا یہ مخمصہ بے اندازہ بڑھ جاتا ہے!

اور اگر صاحب بصیرت داعیوں کی کوئی باصلاحیت جماعت آج میدان میں اترآتی ہے اور اُن مقامات پر جہاں اس دین کی قوت پوشیدہ ہے اپنی پورا زور دے لیتی ہے... تو یہ ’مخمصہ‘ دلچسپ بھی بے اندازہ ہے!

*****

مسئلہ کی یہ سنگینی اگر آپ پر واضح ہو جاتی ہے تو قوم کو خبردار کرنے کا کوئی ایک بھی موقع ضائع جانا آپ کو گوارا نہ ہونا چاہئے..

ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا کافی اور کاری ہوسکتا ہے... تو کسی ایک محاذ پر دشمن کو پسپا کر دینے میں کامیاب ہونا ایک پوری جنگ جیت جانے کے لیے بنیاد بھی بن سکتا ہے!

اور یہ تو عقیدہ کا مسئلہ ہے جو اہل ایمان کے ہاں ہمیشہ سنجیدگی کا متقاضی رہا ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ ہمارے نظریاتی وجود کا ہی دوسرا نام ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے لیے حساس نہیں ہوتی۔ اِس پر کوئی مصلح خاموش کیسے رہ سکتا ہے؟


[1] ہم ’’سلفیت‘‘ کے ایسے کسی معنیٰ سے واقف نہیں جو بدقسمتی سے آج برصغیر کے ایک طبقہ کے ہاں ’’سلفیت‘‘ کے تحت درج ہونے لگا ہے: یعنی ’’مذاہبِ اربعہ‘‘ میں سے کسی ایک کے التزام کی مخالفت! ’’مذاہبِ اربعہ‘‘ دستورِ سلف کا حصہ ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کا التزام ہمارے نزدیک ’’سلفیت‘‘ ہی میں آتا ہے۔ ’’سلفیت‘‘ سے ہماری جو مراد ہوتی ہے وہ یہ کہ کتاب و سنت کے فہم وتطبیق میں نئی نئی اپج نہ نکالی جائے بلکہ پہلوں کے دستور کا ہی التزام کیا جائے۔’’پہلوں کے دستور‘‘ کا اتباع نہ کرنا ہمارے نزدیک ’’سلفیت‘‘ کے معنیٰ سے ناواقفیت اور ’’سلفیت‘‘ کی روح سے انحراف ہے؛ اس کو کوئی بھی نام دےلیا جائے، مگر خود اسی کو ’’سلفیت‘‘ کہنا ہمارے نزدیک عجائبِ زمانہ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔

[2] ’’رباط‘‘: یعنی محاذ پر پایا جانا یا اُن خطوں میں ہوشیار اور چوکنا حالت میں موجود رہنا جو دشمن کے حملوں کا ہدف ہو سکتے یا جہاں سے اہل ایمان دشمن پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔

[3] ’’آپ‘‘ سے مراد: یہاں کا وہ دینی طبقہ جو باطل کے ساتھ مفاہمت اور قربت کی راہ اختیار کرتا ہے

[4] وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً (النحل: 106) ’’بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے‘‘ (جالندھری

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 
Top