• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان اور کرسمس از شیخ حامد کمال الدین

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
(مسلمان اور کرسمس؟! 4)

کیا یہ عجیب نہیں کہ ہماری عبادات اور ہماری تراویح اُن کو ’’مغضوب علیہم‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کہے بغیر اور اُن پر ’’خدا کے غضب‘‘ اور ’’قہر‘‘ اور ’’لعنت‘‘ کا باربار ذکر کئے بغیر نامکمل رہیں.. جبکہ اُن کے شعائر اور کرسمس ہماری ’’نیک تمناؤں‘‘ اور ہمارے ’’ہدیہ ہائے تبریک‘‘ کے بغیر نامکمل!
حامد کمال الدین

سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ پر کیا چودہ سو سال سے امت کا کوئی دستور نہیں رہا؟ اس دستور کو بدلنے کی ضرورت آج آپ کو کیوں پڑی ہے؟

دورِ عمرؓ میں نصارائے شام کے ساتھ جو صلح نامہ دستخط کیا جاتا ہے اُس کی ایک باقاعدہ شق یہ ہے کہ وہ اپنے شعائرِ دینی اپنے عبادت خانوں میں بند رہ کر انجام دیں گے اور ان کو اپنے عبادت خانوں سے باہر لا کر مسلم معاشرے کے لیے باعث اذیت نہ بنیں گے (رب العالمین کے ساتھ شرک اور شرکیہ شعائر سے بڑھ کر کونسی چیز مسلم معاشرے کے لیے باعثِ اذیت ہو سکتی ہے؟)۔ ’’شروط عمریہ‘‘ کے عنوان سے یہ چیز نہ صرف کتب تاریخ میں جابجا مذکور ملتی ہے بلکہ فقہ کی بے شمار کتب میں اِس سے استدلال و استشہاد کیا گیا بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک مسلم معاشرے میں وہ بخوشی رہیں البتہ اپنے شرکیہ شعائر کو مسلمانوں کے سامنے نہ لائیں؛ کیونکہ مسلم سرزمین میں کفر کا کلمہ ظہور کا مجاز ہے اور نہ علو کا۔ اِسی وجہ سے ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اہل اسلام کا کفر کے تہواروں میں جاکر شریک ہونا تو رہی دور کی بات، اِن کفریہ شعائر کا اہل اسلام کے سامنے ظاہر ہونا ہی کب جائز تھا؟ مگر آج عام اہل اسلام کی بات چھوڑ دیجئے، فاسق فاجر حکمرانوں اور بے دین سیاستدانوں کی بات بھی بہت پیچھے رہ گئی؛ اہل شرک کے نخرے اور فرمائشیں اب اِس سے کہیں آگے جا چکیں؛ آج یہ حال ہے کہ عمامے اور جبے ہی جب تک رونق افزائی نہ کریں تب تک اُن کی ’’کرسمس‘‘ ادھوری اور بے مزہ رہنے لگی ہے! یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بتوں اور صلیبوں کو جہان بھر میں توڑ کر آنے والی اِس امتِ بیضاء کی تاریخ میں اِس بڑی سطح پر پہلی بار رونما ہو رہا ہے اور اگر آپ خبروں اور تجزیوں سے کچھ بھی سروکار رکھتے ہیں تو آنے والے دنوں اور سالوں میں اب یہ رجحان ناقابل اندازہ ترقی کرنے والا ہے۔ آج آپ دیکھنا چاہیں تو ’علمائے کرام‘، ’وارثانِ علومِ نبوت‘ کو جوق درجوق ’سفارت خانوں‘ کا رخ فرماتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ہوٹلوں اور گرجوں کے اندر اِن تہواروں کے لیے منعقد تقریبات میں (العیاذ باللہ) ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کی نمائندگی فرماتا دیکھ سکتے ہیں۔ ’علمبردارانِ شریعتِ مصطفوی‘ اور بندگانِ صلیب کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر ’کرسمس کیک‘ کاٹتا اور مسکراہٹوں سے ایک دوسرے پر فدا ہوتا ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اپنی مسجدوں اور تراویح میں خوش الحانی کے ساتھ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ أَفَلاَ یَتُوبُونَ إِلَی اللّہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ مَّا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأُمُّہُ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَأْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّی یُؤْفَکُونَ قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ قُلْ یَا أَھْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَھْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ کَثِیْراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ کَانُواْ لاَ یَتَنَاھَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ تَرَی کَثِیْراً مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیۡھِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ھُمْ خَالِدُونَ وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہ والنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوھُمْ أَوْلِیَاء وَلَکِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُمْ فَاسِقُون[1] کی تلاوت کرنے والے اِس عیدِ شرک پر البتہ صرف ’گلے ملنے‘ اور ’تہنیت دینے‘ کے روادار ہیں!

یعنی مذکورہ بالا قرآنی آیات کی صورت میں :

» اہل کفر کو جہنم کی وہ سب وعیدیں، اُن پر کفر کی وہ سب فردہائے جرم اور اُن پر خدا کی وہ سب لعنتیں ہماری مسجدوں میں، بغیر شرح و تفسیر..
» جبکہ مبارکبادیں اور تہنیتیں اور قربت و محبت کی مکرر یقین دہانیاں اُن کے گرجوں اور اُن کی عید تقریبات کے لیے، واضح الفاظ میں اور پورے شدومد کے ساتھ!
کیا یہ عجیب نہیں کہ...:

» ہماری عبادات اور ہماری تراویح اُن کو مغضوب علیہم اور ضالین کہے بغیر اور اُن پر ’’خدا کے غضب‘‘ اور ’’قہر‘‘ اور ’’لعنت‘‘ کا ذکر کئے بغیر نامکمل..
» جبکہ اُن کے شعائر اور کرسمس ہماری ’’نیک تمناؤں‘‘ اور ہمارے ’’ہدیہ ہائے تبریک‘‘ کے بغیر نامکمل!
*****

حضرات! آنے والے سالوں میں آپ یہاں جو کچھ دیکھنے جارہے ہیں فی الحال اس کا تصور ہی ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہاں ایسے ایسے فکری طاعون اور سماجی وبائیں پھوٹنے والی ہیں کہ خدا ہی بچائے ورنہ بڑی خلقت کا ’لقمہ اجل‘ بننا یقینی ہے۔ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِناً وَیُمْسِی کَافِراً، أوْ یُمْسِی مُؤمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا[2] خدا سے سلامتی مانگئے۔ ’’حفاظتی تدبیر‘‘ جس کا ہمارے پچھلے ایک مضمون میں ذکر ہوا اور جوکہ یقینی اثر رکھنے والی ہے، صرف ایک ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جوکہ أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار کے الفاظ میں باربار بیان ہوتا ہے۔ اِس نسخہ نے آپ پر کوئی تاثیر کی ہے یا نہیں، اِس کا بہت آسان چیک ہے: ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتی بات پر شدید درجے کا چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ کوئی چیز ان شاء اللہ آپ کا بال بیکا نہ کرسکے گی۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ


[1] (المائدۃ: ۷۲- ۸۱):

’’یقیناًکافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مریم کا بیٹا مسیح درحقیقت اللہ ہے۔ جبکہ مسیحؑ صاف کہہ گیا: ’’اے اولادِ اسرائیل عبادت کرو ایک اللہ کی جو میرا پروردگار ہے اور تمہارا پرودگار ہے؛ خبردار! جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر ڈالی اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور نہیں ہے ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار‘‘۔یقیناًکافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ حالانکہ نہیں کوئی خدا مگر ایک ہی خدا۔ اگر یہ اپنی اِس جسارت سے باز نہیں آتے تو اِن میں سے جتنوں نے اِس کفر کا ارتکاب کیا ہے وہ سب عذاب پا کر رہیں گے۔ آخر کیوں یہ خدا کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اُس سے اپنے اِس پاپ کی معافی نہیں مانگ لیتے اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔مسیح بن مریم کچھ نہیں سوائے یہ کہ رسول ہے۔ اور رسول اس سے پہلے بھی ہو گزرے ہیں۔ اور اس کی ماں ایک راستباز عورت تھی۔ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔دیکھ لو کس طرح ہم ان کے سامنے نشانیاں واضح کیے جاتے ہیں اور پھر دیکھ لو وہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں۔ کہو: کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا، جبکہ اللہ سننے جاننے والا ہے۔ کہو: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُن لوگوں کے تخیلات کی پیروی مت کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے۔ بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر لعنت فرمائی گئی داود ؑ اور عیسی بن مریم ؑ ہر دو کی زبان سے۔ یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا۔ وہ جو برے کام کرتے اس پر ایک دوسرے کو روکتے ٹوکتے نہ تھے؛ بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ تم ان میں بہت کو دیکھو گے کہ کفار سے دوستی کرتے ہیں؛ بہت برا ہے جو ان کے نفس ان کے لیے آگے بھیجتے ہیں؛ یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ دائمی عذاب میں رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ ایمان لائے ہوتے اللہ پر اور نبی پر اور اس پر اترنے والی (ہدایت) پر تو ہرگز دوستی نہ کرتے کافروں سے، مگر ان کے اکثر نافرمان ہیں‘‘۔
[2] ’’آدمی صبح مسلمان ہوگا تو شام تک کافر، یا شام کو مسلمان ہوگا تو صبح تک کافر، دنیوی مفاد کے عوض اپنا دین بیچ ڈالے گا‘‘ ( صحیح مسلم، عن أبی ھریرۃ: کتاب الایمان، باب الحثِّ علی المبادرۃ بالأعمال قبل تظاھر الفتن، رقم الحدیث: 118

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کرسمس سے دیوالی تک

’اجتہاد‘ درکار ہے!



اِن لکیروں کو جو ’’انسان‘‘ کو تقسیم کردینے کا سبب چلی آئی ہیں اور جوکہ ’’ادیان‘‘ کے نام پر کھینچ ڈالی گئی ہیں، مٹادینا اِس عقیدۂ ’’ہیومن ازم‘‘ کا اَوجب الواجبات ہے۔ اِس پوری کہانی سے جو شخص باخبر ہے، وہ جانتا ہے کہ ’مولوی اور پادری‘ کا یہ فوٹوسیشن، معاذاللہ ثم معاذاللہ ’قرآن اور صلیب کی یہ دوستی‘ اپنی دلالت میں آج کتنی بڑی اور کتنی بھیانک حقیقت کا بیان ہیں۔
حامد کمال الدین

بھیانک حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ میں چھپانا کوئی اِس تہذیبِ سامری سے سیکھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر الفاظ اور تعبیرات جو آپ کو مسحور کرتے چلے جاتے ہیں، جس پر ’ابلاغ‘ اور سے اور رنگ بکھیرتا اور روشنیاں انڈیلتا چلا جاتا ہے۔ ’روشنیوں‘ کے اِس سیلاب میں قریباً ہر آدمی بہہ جانے کو ہے۔ الفاظ کی اِس شیشہ گری کے پیچھے البتہ جو ’’کہانی‘‘ ہےوہ انتہائی بھیانک ہے۔ آپ صریح لفظوں میں سننا چاہیں تو یہاں آپ کے ایمان کا سودا مطلوب ہے۔ آپ کی اس امت کو بھی تاریخ کے اُسی بھاڑ میں جھونکنے کا ’ہدف‘ درپیش ہے جس میں پہلی امتوں نے برضاورغبت اپنا آپ جھونک لیا اور وہ کُوڑا بالآخر تاریخ کی راکھ بن گیا یا زیادہ سے زیادہ ایک تہذیبِ فاسد کی مشینوں اور گراریوں کو چلانے میں کام آتا ہے۔

اس ’پروسیجر‘ کے لیے جو اصل ٹیکنیکل لفظ مستعمل ہے وہ تو ہے اسلام کا ’’ری فارم‘‘ بحقِ سالمیت و استحکامِ عالم! یعنی اُس اسلام اور مسلمان سے اب دنیا کی جان چھڑاؤ جس نے اس کی ناک میں دم کرکے رکھا تھا، جس نے روم وفارس و ہند کو زیروزبر کرڈالا تھا، جو چودہ صدیوں تک دنیا میں شرک کو موت کا پیغام سناتا رہا اور دوردراز تک ملکوں کے ملک صاف کراتا، بتکدے گراتا اور صنم کدے خاک میں ملاتا رہا ہے اور ایک خالص آسمانی نقشے پر دنیا کی تہذیبی ساخت کرتا رہا ہے، یعنی وہ اسلام اور مسلمان جو ’’بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے پروردگار کی بندگی میں، بندوں کو ادیان کے ظلم وجہل سے نکال کر اسلام کے عدل میں، اور دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی وسعت میں لے آنے‘‘[1]کے اُس خدائی آسمانی مشن پر گامزن رہا ہے۔ اُس اسلام اور مسلمان کا محض مغلوب ہوجانا آج اُن کی نظر میں کافی نہیں، کیونکہ اس طرح تو یہ ’خطرہ‘ جوں کا توں رہا؛ کیا معلوم آج کا مغلوب کل کا غالب اور آج کا غالب کل کا مغلوب ہو اور قدیم سے چلی آنی والی اِس کہانی میں کسی بھی لحظہ کوئی نیا موڑ آجائے؛ لہٰذا پیرس اور مین ہیٹن کے نائٹ کلب اِس دنیا میں اُس مطلق بےفکری کا حظ کیونکر اٹھاسکتے ہیں جب تک کہ دنیا کا یہ سیناریو بدل جانے کا اندیشہ ہی ہمیشہ کےلیے ختم نہ کردیا جائے؛ لہٰذا اُس ’اسلام اور مسلمان‘ کا محض مغلوب ہونا اور پابندِسلاسل ہونا کافی نہیں؛ بلکہ اب یہ کہانی دنیا میں ختم ہی ہوجانی چاہئے؛ اب یہاں ’اسلام اور مسلمان‘ ہی اور قسم کا چاہئے جو یہ سبق پڑھائے کہ شرک کو موت کا پیغام سنانا ظلم اور جہالت ہے اور شرک کے ساتھ ہاتھ ملانا اور عبادتِ غیراللہ کے ساتھ سازگاری اختیار کرنا شریعتِ آسمانی کا اصل الاصول! ری فارم آف اسلام! یعنی اسلام کی ’تشکیل نو‘ یا پھر اسلام میں عصری تقاضوں کے مطابق کچھ ’ہلکی پھلکی‘ اصلاحات! جس کےلیے اگر ہم اپنی ٹھیٹ شرعی اصطلاح استعمال کریں تو کہیں گے: اسلامی احکام کی کھلم کھلا تحریف۔ جبکہ تکلفات کے عادی طبقے اس کو ایک ’نئے اجتہاد‘ کا نام دیں گے۔ یعنی کل تین طبقے ہوئے:

‌أ. باہر کے لوگ اس کو ’اسلام کے ری فارم‘ کے تحت بیان کریں گے؛ کیمبرج، ہارورڈ، یا آکسفورڈ کا ایک پروفیسر اِس کےلیے یہی لفظ بولے گا۔ البتہ ’ملک کے اندر‘ ایسے ناشائستہ الفاظ اور اسلوب اپنا’دانشمندی‘ کی زمرے میں نہ آئے گا!
‌ب. ہم اہل شرع اس کو ’’اسلام میں تحریف‘‘ کا نام دیں گے۔ ہمارے نزدیک یہ اسلام کو اس کی تاریخی پٹڑی سے ہٹا دینے کی ایک ایسی صریح کوشش ہے کہ دینِ محمدﷺ پر اس سے بڑھ کر تباہ کن حملہ بنی یہود اپنی پوری تاریخ میں نہ کرپائے ہوں گے۔
‌ج. جبکہ بیچ کی مخلوق عین اسی چیز کو ’اجتہاد‘ یا ’ارتقاء‘ سے تعبیر کرے گی۔
مختصر یہ کہ کچھ نئے عالمی تقاضوں پر ’کما حقہ‘ پورا اترنے کےلیے۔۔۔ یہاں آپ کو اسلام میں کچھ ایسی اشیاء کےلیے ’’گنجائش‘‘ نکالنا ہوگی جن سے ’’اسلام‘‘ کے نام پر آپ کبھی واقف نہیں رہے تھے!

یعنی ایسی ایسی اشیاء جن کا اسلام میں کبھی دستور ہی نہیں تھا۔ ایک بالکل نئی ریت جو آج چلائی جارہی ہے اور میڈیا کی اندھی طاقت کو کام میں لاکر اس وقت عام کرائی جارہی ہے۔ حضرات و خواتین! یہ جو ’ری فارم آف اسلام‘ المعروف ’اجتہاد‘ اور ’ارتقاء‘ کا عمل ہے اور جوکہ استشراق کے شاگردوں کے دم سے ہمارے یہاں زوروشور سے ترقی کررہا ہے۔۔۔ اس کی نشاندہی کرنا ان شاء اللہ ہمارا کام رہا۔ اِس کےلیے شرعِ محمدﷺ کے اندر ’گنجائش‘ کتنی ہے اور کس شدومد کے ساتھ اپنے یہاں اِس کی پزیرائی کرائی جانا ہے، یہ طے کرنا البتہ آپ پر ہےاور آپ کے ایمان پر!

بنیادی طور پر یہ ایک طویل موضوع ہے اور اس کے بےشمار جوانب۔ اگر ہمارے وقت نے ساتھ دیا تو شاید یہ ایک کتاب بن جائے، مگر اختصار کے ساتھ یہاں ہمارا موضوعِ سخن عالمی تحریکِ یکجہتیِ ادیان interfaith harmony اور اس سے پھوٹنے والے کچھ مباحث ہوں گے۔

*****

حضرات! ’گلوبلائزیشن‘ کی زبان میں ’’زمانہ‘‘ آپ سے اب کن نئی نئی اشیاء کی فرمائش کرنے لگا ہے، یہ آپ سے آپ واضح ہے۔ اور اگر آپ ’زمانے‘ کے یہ اشارے سمجھ کر نہیں دیتے تو ’ترقی‘ کی خواب تو رہے ایک طرف، اور ’پتھر کا دور‘ بھی ایک طرف، اس تیزی دنیا میں اب آپ کی بقاء ہی ممکن نہیں۔

سیدھی بات ہے، اِس گلوبل ولیج کا اپنا ایک دستور ہے، جو وہ آپ سے پوچھ کر نہیں بناتا اور نہ آپ سے پوچھنا اُس پر فرض ہے۔ البتہ جب و ہ بن جائے تو اس پر پورا اترنا آپ پر فرض ہے۔ اِس کے ’فرض‘ ہونے کی دلیل آپ اپنی قومی لغت سے لینا چاہیں تو دستیاب ہے۔ اور اگر اس پر ’اسلام‘ کو زحمت دینا چاہیں تو اب وہ حاضر ہے! صاف صاف، اِس گلوبل بستی کا ایک دستور ہے اور اِس کی ’شہریت‘ اِس کے دستور کو ماننے کے ساتھ مشروط۔ دنیا کا ہر مذہب، ہر دھرم، ہر فلسفہ آج اس بات کا پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس عالمی دستور کے موافق کرے۔ وہ یہ کام کس طرح کرے، یہ اُس کا داخلی مسئلہ ہے۔ اِسی کا نام ’مذاہب کا ریفارم‘ ہے۔ ایک مذہب ’گلوبلائزیشن‘ کا دیا ہوا یہ ہدف کس طرح پورا کرے، تحریفِ لفظی کا سہارا لے یا تحریفِ معنوی سے ہی گزارا کرے، یہ اُس کا اپنا دردِسر ہے۔ آپ کو اس سلسلہ میں تعلیم وابلاغ کی صورت کچھ سہولیات میسر ضرور ہیں جن سے کام لے کر آپ عالمی فری میسن کا دیا ہوا یہ ہدف سر کرسکتے ہیں، مگر یہ آپ کا استحقاق بہرحال نہیں؛ اِس جہانی مطالبے پر پورا اتر کر دکھانا آپ کا اپنا بوجھ ہے۔ ہر مذہب ا ِس ’باربر‘ سے اپنی حجامت کراکر اچھا خاصا ہلکا پھلکا ہوچکا ۔۔۔ اور ان کا خیال ہے کہ صرف ہم باقی رہ گئے ہیں جن کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’’فسق و فجور‘‘ ہی آسکا ہے ان کا مذہب ابھی تک اِس ’اصلاح‘ کے عمل سے نہیں گزارا جاسکا ہے؛ وہ آج بھی اُسی طرح شرک کی مذمت کرتا اور اہل شرک سے براءت کا سبق دیتا ہے جس طرح آج سے چودہ سال پہلے دیتا تھا اور اپنی کسی ایک بات میں تبدیلی لانے پر تیار نہیں!

ہمارا ’فسق و فجور‘ کبھی اُن کو بےحد عزیز تھا۔ مگر اِس سے اب اُن کا دل بھر چکا، اب یہ شدید ناکافی ہے۔ وہ کام جو ’فسق وفجور‘ کے تحت ہوتے تھے اب وہ کام ’’دینداری‘‘ ہی کے تحت ہونے چاہئیں۔ ’کرسمس کیک‘ اب بسم اللہ پڑھ کر کاٹا جانا چاہئے! (معاذاللہ ثم معاذاللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی سالگرہ کی تقریب میں اب تلاوتِ کلام پاک کی کارروائی کے ساتھ شریک ہونا چاہیے! شرک کے شعائر میں اب ’’اسلام‘‘ کی نمائندگی ہونی چاہئے! اِس پر آسمان گرپڑے یا زمین شق ہوجائے، مگر کچھ شقی دلوں کو جنبش نہ ہوپائے گی اور وہ برابر اس پر ’اجتہاد اجتہاد‘ کے نعرے الاپتے رہیں گے۔ آج کرسمس، کل دیوالی اور پرسوں نہ جانے کیا! سوائے دورِاکبری کے، بھلا کب ہماری ملت کے لوگ اہل شرک کی ان تقریبات کو رونق بخش آنے کے روادار ہوئے ہوں گے؟ صحابہؓ جوکہ آدھی دنیا میں پھیل گئے تھے اور ہر مذہب ہر ملت کے لوگوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی اعلیٰ ترین مثال خود اپنے ہاتھوں قائم کرگئے اور جبکہ یہ ملتیں اُس وقت بھی اپنے یہ تہوار مناتی ہی رہی تھیں۔۔۔ اِس معاملہ میں اُن صحابہؒ کا بھی تو کوئی دستور رہا ہوگا، اور اُن کے متبعین فقہاء و محدثین نے بھی تو نسل درنسل صحابہؓ کے اس دستور کو چلایا ہوگا!

حضرات وخواتین! کوئی ہماری اِس گفتگو سے یہ نہ سمجھ لے کہ ہم محض ایک مسئلہ کرسمس کے پیچھے پڑگئے ہیں۔۔۔ مسلم ’جبہ ودستار‘ کو کرسمس تقریبات میں رونق افروز کرانا آج اِس ایک بھیانک کہانی کا محض عنوان ہے۔ یہ محض ایک علامتی اہمیت symbolic significance کی حامل چیز ہے۔ اِس کے پیچھے جو اصل کہانی ہے اُس کا نام ہے ’’تقاربِ ادیان‘‘۔ یعنی ادیان کے فرق کو زیادہ سے زیادہ حاشیائی اور غیرمؤثر کرانا اور دنیا کو عملاً ایک ملت بنانا۔ وقت کے نبیؐ پر ایمان لانے اور کفر کرنے والوں کو ایک سطح پہ لاکر اور بھائی بھائی بنا کر دکھانا۔ اِس کے پیچھے ابلیس کی ٹکسال سے نکلے ہوئے بہت سے عقیدے بیک وقت بول رہے ہیں جن میں سے ایک ’’ہیومن ازم‘‘ ہے۔ یعنی آدمی کی پہچان، آدمی کی ولاء، آدمی کی دوستی، آدمی کی وابستگی اور آدمی کی برادری، اور آدمی کو پابند کرنے والی شریعت آدمی کی ’’انسانیت‘‘ ہے جس کا کل تعلق اِس زمین سے ہے نہ کہ آسمان سے اترنے والی کوئی حقیقت جو کسی خدائی شریعت اور کسی ’مافوق الفطری‘ چیز پر قائم ہو۔ اس کی رو سے انبیاء پر اتری ہوئی کسی چیز پر آدمی کا ایمان لانا یا اس سے کفر کرنا وہ چیز ہے ہی نہیں جو ’’انسان‘‘ کو ملتوں میں تقسیم کردے۔ لہٰذا اِن لکیروں کو جو ’’انسان‘‘ کو تقسیم کردینے کا سبب چلی آئی ہیں اور جوکہ ’’ادیان‘‘ کے نام پر کھینچ ڈالی گئی ہیں، مٹادینا اِس عقیدۂ ہیومن ازم کا اَوجب الواجبات ہے۔اِس پوری کہانی سے جو شخص ذرہ بھر باخبر ہے، وہ جانتا ہے کہ ’مولوی اور پادری‘ کا یہ فوٹوسیشن، معاذاللہ ثم معاذاللہ ’قرآن اور صلیب کی یہ دوستی‘ اور کرسمس کیک پر کھلتی چلی جانے والی یہ باچھیں اپنی دلالت میں آج کتنی بڑی اور کتنی بھیانک حقیقت کا بیان ہیں۔ ذرا اِس پہلو سے دیکھیں تو آپ اتفاق کریں گے کہ یہ ’ایک مسئلے‘ کے پیچھے پڑنا نہیں بلکہ ایک ممکنہ تباہی کی نشاندہی ہے۔

حضرات! اِس سے بڑا ظلم کوئی ہے ہی نہیں کہ اس کو ’اجتہاد‘ کا نام دیا جائے۔ ذرا نگاہ اٹھا کر اُس طوفان کو دیکھئے جو آپ کا سب کا کچھ تہ وبالا کردینے والا ہے بلکہ کرچکا ہے۔فی الحال ہماری یہ گفتگو ’’تقاربِ ادیان‘‘ کے حوالے سے ہے، مگر یہ طوفان اپنے دوش پر بہت کچھ لارہا ہے۔ یوں سمجھئے یہ دجالی ’گلوبلائزیشن‘ ایک بڑے دیوہیکل عمل کا نام ہے۔ اِس دیو کا کوئی لقمہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ اِس کا پیٹ بھرنے کے لیے فی الوقت جس ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت ہے اُس کو پورا کرنے سے بڑوں بڑوں کی سانس پھولتی ہے۔ ناواقف طبقہ گو یہی خیال کرتا ہے کہ کسی چھوٹی موٹی تواضع سے اِس کا پیٹ بھرا جائے گا، اور اپنے اُن مدارس اور مساجد میں جہاں صدیوں سے قال اللہ وقال الرسول کے دل پذیر نغمے گونجتے ہیں ’پادریوں اور بشپوں‘ کے اعزاز میں ایک آدھ ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ اسٹیج سجا کر اور چند مسکراہٹوں کا تبادلہ کرکے مسئلہ اختتام کو پہنچے گا۔ مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایک سیاہ منحوس چیز کی یہ کچھ نہایت معمولی اور ناقابل ذکر شروعات ہیں؛ جس کا.. انجام۔۔۔ خدا جانے! منہ پر آنا تو ناممکن ہے، بس سوچئے اور جھرجھری لیجئے۔

بڑے بڑے دیندار اور اصحابِ جبہ ودستار آج اپنا دین بیچنے جارہے ہیں۔ ہمارے نبیؐ نے شاید ایسے ہی کسی دور کی بابت یہ کہا ہوگا کہ جس میں: الْقَابِضُ عَلَی دِیْنِہٖ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ اپنے دین کو تھام کر رکھنے والا گویا جلتے انگاروں کو تھام کر بیٹھا ہے!

آئیے اپنا فرض پورا کیجئے۔ بےعلم کو اِس فتنہ سے آگاہ کیجئے۔ جاہل کو پڑھائیے۔ غافل کو جگائیے۔ ظالم کو روکئے۔ اور دین فرشوں کو معاشرے میں مسترد کروائیے۔


[1] ربعی بن عامرؓ کے تابناک کلمات جو آپؓ نے رستمِ فارس کے دربار میں کھڑے ہوکر کہے تھے، جب رستم نے یہ سوال کیا تھا: تمہیں کونسی چیز یہاں اٹھا لائی ہے۔

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کرسمس، شرک اور سیکولرزم کا سنگم

ابو زید

یورپ کے زمانہ قدیم جب کہ شرک کا دور دورہ تھا، 25 دسمبر مشرکین کا ایک خاص سردیوں کا تہوار ہوا کرتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہندؤوں کے ہاں دیوالی اور بسنت ہوتے ہیں۔ قبل از مسیح پچیس دسمبرکی باریخ کے بارے میں کئی کہاناں مشہور ہیں، لیکن یورپ کے مورخین کے درمیان اس کی اصلیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن یہ بات طئے شدہ ہے کہ عیسی علیہ اسلام کی پیدائش 25 دسمبر کو ہونے کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔جب مسیحیت میں بدعات در آئیں اور غلط عقائد کی بنیاد پر یہ ایک شرکیہ مذہب بن گیا تو وہی قدیم یورپ کے شرکیہ تہوار کو ہی مسیح کی پیدائش کا دن قرار دے کے کرسمس منایا جانے لگا۔ یہ امر بالکل ہی طئے شدہ ہے کہ پچیس دسمبر کا کوئی تعلق عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے نہیں ہے اور اس بارے میں عیسائی علماء کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن چونکہ انہیں بھی عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا کوئی پتہ نہیں ہے اس لئےعلامتی طور پر ایک مشرکانہ تہوار کو پیدائش مسیح کے طور پر منانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔

مسیحیوں کے نزدیک عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ اور جب مسیحی عیسی علیہ السلام کی پیدائش مناتے ہیں تو گویا وہ اس دنیامیں نعوذ باللہ خدا کے بیٹے کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔ اب ہم مسلمان اپنی طرف سے جو بھی سمجھ کر انہیں مبارک باد دیں، اس کے معنی بہرحال یہی بنتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے جس کو وہ انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں کی آمد پر ان کی خوشیوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اللہ کے بارے میں جھوٹی صفات گھڑنا اور خاص طورپر اس کے لئے بیٹا تجویز کرنا شرک کی انتہائی سنگین صور ت ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں اس قسم کے عقیدے کے لئے سخت سے سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔

اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے ۔ (ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ۔ کہ انہوں نے خدا کے لئے بیٹا تجویز کیا۔ اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ سورہ مریم 88-92

پہلے تو یہ ایک زمانہ قدیم کے شرک کا تسلسل ہے اور اوپر سے خدا کے اوپر بد ترین قسم کا افتراء کا جشن، کوئی بھی توحید کا دعویدار کرسمس کو ہلکے انداز میں نہیں لے سکتا چہ جائیکہ مسیحیوں کی "خوشی" میں خود جاکر شریک ہوجائے یا انہیں تاریخ انسانی کے بدترین شرک پر مبارک باد دیں۔

مزید یہ کہ آج کے دورمیں کرسمس کسی اور ہی چیز کا رمز بن گیا ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں پر یہ دباؤ پڑا ہوا ہے ہم بھی میری کرسمس کہیں۔ مسیحی ہمیں کتنی خوش دلی سے عید مبارک کہتے۔ انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ اور ایک ہم ہی اتنے بد اخلاق ٹھہرے کہ "اپنے مسیحی بھائیوں" کو عید مبارک کہتے ہوئے عقائد کے بارے میں سوچتے ہیں۔یہ کتنی غلط بات لگتی ہے کہ وہ ہمیں عیدمبارک کہیں اور ہم "میری کرسمس" جیسے "بے ضرر" الفاظ کہتے ہوئے ہچکچائیں۔

آج کا دین سیکولرزم کا دین ہے جس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دین اس دنیا میں چلنے نہ پائے۔ کرسمس کا تہوار، کرسمس ٹری، سانتا کلاز اور اسکے تحفے گویا کہ پوری دنیا پر رواداری کے نام پر مسلط کئے جارہے ہیں۔ کچھ خلیجی ممالک تک میں یہ "خوشیوں" کا موسم بن گیا ہے اور جگہ جگہ پر کرسمس ٹری اور سانتا کلاز کے مجسمے نظر آنے لگے ہیں۔ مسلمان بچوں کو سکولوں میں کرسمس کے ترانے سکھائے جارہے ہیں۔ مسیحیت کے کرسمس میں عیسی علیہ السلام کو مرکزیت حاصل تھی اور آج کے جدید کرسمس میں سانتا کلاز کو مرکزیت حاصل ہے۔اور یہ سب کچھ ہورہا ہے رواداری اور خوشیوں کے نام پر۔

ہماری عیدیں ہماری تاریخ کے برے سے برے دور میں بھی ہمیں ولاء اور براء کا سبق بھلانے نہیں دیتی تھیں۔ لیکن اس مسیحی جشن کی سیکولرائزیشن سے آہستہ آہستہ ہمارا دینی امتیاز ہم سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

الغرض ایک طرف قبل از مسیح کی شرکیہ گندگی، پھر مسیحیت کا بدترین شرک اور اب جاکر سیکولزم کا وسیلہ، گویا کہ یہ کرسمس تین تاریکیوں کا مجموعہ ہے۔ شرک سے براءت چاہے وہ مشرکین کا شرک ہو، اہل کتاب کا خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا ہو یا اجتماعی زندگی سے اللہ کے احکامات کو خارج کرنا ہو، بہرحال مسلمانوں کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی کو کرسمس کی "مبارک باد" دے یا وہ اس تہوار میں شریک ہو۔اور پھر جس طرح سے دینی حساسیت کو ختم کرکے سیکولرزم کو تقویت دینے کے لئے اس تہوار کو استعمال کیا جارہا ہے اس بنا پر جتنا اس سے براءت کا اظہار کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔



Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کرسمس تا دیوالی
’اِشکالات‘ آج ہی کیوں؟

پھیری والے کی آوازیں مسلسل آرہی ہوں۔۔۔ تو ’بوجھنے‘ کی ضرورت نہیں ہوتی کہ گھر میں ایک چیز کی کیوں یکدم مانگ ہوگئی ہے!
عہد نبوت سے چلی آنے والی ہماری ایک ریت ہے، مگر اُس پر نظرثانی کے لیے فرمائشیں مسلسل زور پکڑ رہی ہیں۔ اس کا تعلق علمی دلائل سے کتنا ہے اور زمانے کی اَھواء intellectual whims of your own times سے کتنا، یہ جائزہ لینے کے لیے لمبی چوڑی تحقیقات درکار نہیں؛ ’باہر‘ کا سماں ایک بار دیکھ آئیے، پورا نقشہ سمجھ آجاتا ہے!
شیخ الاسلام کی ’’اقتضاء الصراط المستقیم: مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ جس کے اقتباسات پر مبنی ایک طویل مضمون پیچھے ہم دے آئے، نیز مذاہب اربعہ کی تقریرات جوکہ پیچھے گزر چکیں۔۔۔ بہت کافی ہیں کہ اِس موضوع پر ہمارا دین کیا کہتا ہے اور زمانۂ نبوت سے ہماری ریت اور روایت کیا چلی آتی ہے؟
اصل مسئلہ اِس وقت وہ ایجنڈا ہے جس کو بے تکلف لوگ ’اسلام کی ری فارمیشن‘کا نام دیتے ہیں جبکہ تکلفات کے عادی طبقے ’ایک نئے اجتہاد کی ضرورت‘ کا۔
یہ ’’نیا اجتہاد‘‘ فی الوقت پراسیس میں ہے ۔ اِس کے ’’مکمل‘‘ ہونے کا انتظار رسدکاروں کے لیے بھی مشکل ہے اور طلب گاروں کے لیے بھی۔ جیسے ہی اِس کے کچھ اجزاء پک کر تیار ہوتے ہیں، استعمال کے لیے پیش ہو جاتے ہیں۔
تاہم یہ دنیا ایسی ہے کہ ایک ہی چیز کو مختلف کوالٹیوں میں مانگتی ہے۔ ’’نئے اجتہاد‘‘ کی زیادہ پیداوار تو یہاں پر مدرسۂ سرسید نے اپنے متنوع دبستانوں سے کر کے دی ہے اور تاحال دے رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اِس کی مصنوعات کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ یہ بدستور یہاں کے سکہ بند علماء کی طرف دیکھتا ہے اور اِنہی کی جاری کردہ اشیاء کو قابل اعتناء جانتا ہے۔ ہماری علمی روایات کا امین یہ طبقہ جس کو دوسرے لوگ ’’روایتی علماء‘‘ کا نام دیتے ہیں، بلاشبہ ایک بڑی خیر کا حامل ہے اور اسلام کا بہت کچھ آج اِسی کے دم سے بچا ہوا ہے ورنہ مدرسۂ سرسید نے تو اب تک امت کا سب کچھ بیچ باٹ لیا ہوتا۔ البتہ لگتا ہے مستشرقین کو اِس طبقہ کی اہمیت کا اصل اندازہ کچھ تاخیر سے ہوا ہے۔ تاہم قیامِ پاکستان سے لے کر، آپ بہت بڑے بڑے نام ’روایتی‘ اہل علم کے بھی دیکھیں گے جنہوں نے ’’نئے اجتہاد‘‘ میں اچھا خاصا حصہ ڈالا۔ ’ڈیموکریسی‘ سے لے کر ’نیشن سٹیٹ‘ اور وقت کے رائج العمل ’دستوری ڈھانچوں‘ کی درآمد تک ہر ’اجتہاد‘ روایتی علماء کی ایک معتدبہٖ تعداد سے شرکت اور حمایت پاتا رہا؛ اور یہ رجحان مسلسل روبہ ترقی ہے۔ یہ ہمارا آخری قلعہ تھا جو اَب پوری طرح حملے کی زد میں ہے؛ ہم اپنے آپ کو شدید فریب میں رکھیں گے اگر یہ سمجھیں کہ دشمن کی یہاں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی۔
ہاں البتہ یہ مسئلہ اب پہلے سے بہت بڑا ہوگیا ہے۔ ’گلوبلائزیشن‘ ایک بڑے دیوہیکل عمل کا نام ہے؛ اور اس کا کوئی لقمہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ اِس کا پیٹ بھرنے کے لیے اب جس ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت ہے اُس کو پورا کرنے سے بڑوں بڑوں کی سانس پھولتی ہے۔ ناواقف طبقہ گو یہی خیال کرتا ہے کہ کسی چھوٹی موٹی تواضع سے اِس کا پیٹ بھرا جائے گا، اور اپنے اُن مدارس اور مساجد میں جہاں صدیوں سے قال اللہ وقال الرسول کے دل پذیر نغمے گونجتے ہیں ’پادریوں اور بشپوں‘ کے اعزاز میں ایک آدھ ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ اسٹیج سجا کر اور چند مسکراہٹوں کا تبادلہ کرکے مسئلہ اختتام کو پہنچے گا۔ مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایک سیاہ منحوس چیز کی یہ کچھ نہایت معمولی اور ناقابل ذکر شروعات ہیں؛ جس کا.. انجام۔۔۔ خدا جانے! منہ پر آنا تو ناممکن ہے، بس سوچئے اور جھرجھری لیجئے
یہاں سے؛ یہ مسئلہ شدید سنگین بھی ہوگیا ہے، پیچیدہ بھی اور تشویشناک بھی۔ الْقَابِضُ عَلَی دِیْنِہٖ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ اپنے دین کو نہ چھوڑنا جلتے انگاروں کو ہاتھ میں پکڑ رکھنے کے مترادف! حدیث کی یہ پیشین گوئی کیا آنے والے سالوں کی بابت کوئی خصوصی دلالت رکھتی ہے؟
آنے والے سال یہاں جو چیز لا رہے ہیں (خدا اپنی امان میں رکھے، اللّٰہمَّ عافِنَا فیمن عافیت) اور جس کی شروعات ہو چکی ہیں: وہ اُن کی جانب سے ہمارے دین ہی کے اندر ایک کمال درجے کا تصرف ہے۔ ہمارے دین کی حفاظت خدا نے آپ اپنے ذمے لے رکھی ہے، البتہ ہمارے اپنے بہت سے بند ضرور بہہ جانے والے ہیں۔ اُن کی جانب سے ہماری اساس کو ہاتھ بہرحال ڈال دیا گیا ہے۔
حق یہ ہے کہ ’ڈیموکریسی‘ اور ’دستوریات‘ وغیرہ اِس وقت چھوٹے مسئلے ہوگئے ہیں۔ مغرب کی یہ فرمائشیں ساٹھ ستر سال پرانی ہیں جو اَب جاکر ہمارے کچھ طبقوں کو سمجھ آنے لگی ہیں (جبکہ ایک بڑے طبقے کو اب بھی نہیں!)۔ اِس وقت اُس کی جو ایک بڑی فرمائش ہے وہ ہے ادیان کا فرق ہی ملیامیٹ کرا دینا۔ اُس کا سیکولرزم اور ڈیموکریسی دراصل ایک خاص قسم کے معاشرے کے لیے ہیں؛ ہمارے یہاں وہ اِس سے تخریب کی حد تک ہی کوئی کام لے سکے تو لے سکے؛ اُس کے تعمیراتی عمل کو البتہ کچھ اور قسم کا مواد چاہئے۔ مختصراً: ویسا ہی ایک معاشرہ جو ’ڈیموکریسی‘ کی چھت ڈالنے سے پہلے اُس نے خود اپنے یہاں قائم کیا تھا۔ تو پھر یہاں پر ضروری ہے کہ ’’دین‘‘ کے جوڑ ہی ڈھیلے کرلیے جائیں۔ یہاں؛ ’’دین‘‘ کو ہی پہلے اُس پراسیس سے گزارنا ہوگا جو ’’پیک‘‘ ہونے میں آسکے! درست ہے کہ سیکولرزم دین کو عبادت خانے اور پرسنل لائف میں قید کرتا ہے۔۔۔؛ مگر ’’دین‘‘ بھی تو وہ ہو جو عبادت خانے اور پرسنل لائف میں قید ہونے پر راضی ہو! کسی دیرپا منصوبے میں فوجداری کی گنجائش نہیں ہوتی؛ چیزیں آپ سے آپ ہوں تو ہی ایک ’’سسٹم‘ چلتا ہے! خود اپنے یہاں اُس نے دین کو ’پرسنل لائف‘ کے کھونٹے سے باندھ لیا تو اُس کی اپنی تدبیر سے بڑھ کر اِس میں اصل کردار تو اُس دین کا ہے جس نے بڑے آرام سے اُس کے آگے ’دل رکھ دیا، سر رکھ دیا‘۔ یہ ہے اُس کا اصل تقاضا جو اب وہ ہمارے دین سے کرنے چلا ہے؛ اور یہی حالیہ عشروں کا اصل پراجیکٹ۔ خود اُس کی زبان میں: ’’اسلام کی ری فارمیشن‘‘ جبکہ ہماری قاموس: ’’ایک نئے اجتہاد کی ضرورت‘‘۔ اِس سے بڑھ کر کسی چیز کی مانگ نہیں اور اِس سے بڑھ کر کوئی منصوبہ اُس کے زیرغور نہیں۔ سب منصوبوں کی کامیابی (خصوصاً اُس کے تعمیراتی منصوبوں کا آگے بڑھنا) اِسی ایک منصوبے کے سرے لگنے پر منحصر ہے اور پورا زور آج اِسی پر صرف ہونے لگا ہے۔
اُس کی نظر سے، اِس بازار میں مال کی کمی نہیں، کوالٹی کی کمی ہے۔ مدرسۂ سرسید جتنے بھی بڑے پیمانے پر یہ ضرورت پوری کر رہا ہے اور مزید کر سکتا ہے لیکن عوامی زبان میں آپ اِس کو ’چائنا کا مال‘ کہیے۔ بلکہ یہ تو فیکٹری ہی اُس کی اپنی لگائی ہوئی ہے؛ اُس کو اب ہماری فیکٹری کا مال چاہئے؛ کیونکہ اسلام پر یہی اب تک سند ہے!
چنانچہ ’آرتھوڈکس اسلام‘ ہی کو تبدیلی کے ایک عمل سے گزارنا یہاں کا اصل پراجیکٹ ہے۔ اِسی کے پیچ اور جوڑ ڈھیلے کرنا اصل میدان ہے اور دامے درمے سخنے قدمے اِسی میں سب کو حصہ ڈالنا ہے.. اور جس کو کچھ بھی توفیق نہ ہو اس کو سب سے بڑا حصہ ڈالنا ہے؛ اور جس کا نام ’’خاموشی‘‘ ہے۔ یہ بات ہم طنزاً نہیں کہہ رہے؛ واقعتا منصوبہ یہی ہے: چند سفہاء بولیں گے اور اچھے اچھے علماء خاموش رہیں گے؛ اور ’چیزیں‘ خودبخود آگے بڑھتی چلی جائیں گی۔۔۔ تاآنکہ اگلا گیئر لگانے کی نوبت آئے اور عمل کا وتیرہ mode of action تبدیل کردیا جائے۔
آپ اندازہ نہیں کر سکتے، اِس پہلے مرحلے میں ’’صالحین‘‘ کی خاموشی اُس کے زاویۂ نگاہ سے، کیسی زبردست شےء ہے! یہاں فی الحال جو اُن کی مرضی کی چیز نہ بول سکے اُس کا تو خاموش رہنا ہی ضروری ہے؛ بلکہ اُس کو خاموش کرانے کے لیے کروڑوں ارب ڈالر صرف کرنا پڑیں تو کر دیے جائیں؛ کجا یہ کہ ایسی مہنگی اور نایاب چیز فی الوقت اُس کو رضاکارانہ بنیادوں پر دستیاب ہو!
ہاں کچھ دیر بعد __ خدانخواستہ __ ضرور وہ وقت آنے والا ہے جب عالم اسلام میں اُن کی ضرورت کی یہ مہنگی ترین اور نایاب ترین چیز __ صالحین کی خاموشی __ اپنی سب وقعت کھو دے گی، یعنی جب بولنے کا وقت جاتا رہے گا؛ اور جب باطل بولنے والے کچھ ایسے بڑے بڑے نام میسرآجائیں گے جن کو غلط ٹھہرانا اسلام کے بنیادی مسلمات کو مسترد کردینے کے مترادف باور کرایا جاسکتا ہو! اور یہ بات سچ بھی ہے۔ جو صالحین آج میدان خالی پانے کے باوجود یہاں پر بولنے کے روادار نہیں ہوئے وہ کل اپنا یہ سکوت توڑنے کی ہمت کیسے کریں گے جب میدان ہی اُن سے لیا جاچکا ہوگا؟
المختصر، یہ دو چیزیں اُس کو ہمارے ہاں سب سے بڑھ کر مطلوب ہیں:
۱۔ خود وہ ’’دین‘‘ ہی جو مسلم اور کافر کا فرق کراتا ہے، ری فارم کر دینا۔ اور اس میں کچھ بنیادی اور جذری سطح کے تصرفات کرنا
۲۔ اپنے اِس ہدف کو محض ’جدت پسندوں‘ کی سطح پر نہیں بلکہ اُس سطح پہ جاکر حاصل کرنا جس کے لیے تاحال اُس کے ہاں ’قدامت پسند‘ کا لفظ چلتا ہے۔
پہلی چیز پر کچھ بات پچھلے مضامین میں ہو چکی۔ ایک ’’اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘ ہی اگر ہماری دورِ گلوبلائزیشن والی مسلم نسل کو ازبر کروا دی جائے تو کافر کا یہ سارا ایجنڈا اللہ کے فضل سے یہاں منہ کی کھائے گا۔ ہمارا دشمن بہت معلومات رکھتا ہوگا پھر بھی جو چیز اُس کے ذہن سے سب سے بڑھ کر محو ہوتی ہے وہ ہمارے دین اور عقیدہ کی اصل قوت ہے جس کی ایک ہی ضرب اُس کے سب تار و پود بکھیر دیتی ہے۔ البتہ جہاں تک دوسری چیز کا تعلق ہے تو وہ بہرحال تشویش ناک ہے۔ ہمارا ’’ٹھیٹ طبقہ‘‘ اِس وقت آندھیوں کی زد میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اِس موضوع پر __ بلکہ اکثر موضوعات پر __ ’جدت پسندوں‘ کے شبہات کو توجہ دینے سے بڑھ کر، ایک تو اسلام کی بنیادوں کو اَذہان میں راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا، اپنے گھر کو بچانے اور اسی کی فصیلوں کو پختہ کرنے کی کوشش؛ اور جوکہ یہاں کا موحد اہل سنت طبقہ ہے اپنی اُن تمام فقہوں اور مسلکوں سمیت جو قرونِ سلف سے چلے آتے ہیں۔
اب یہاں؛ اپنے اِس پیارے گھر کا ہی کچھ تذکرہ ہے۔۔۔
ہمارا گھر؛ یعنی ہمارا وہ طبقہ جو قرونِ سلف سے چلے آنے والے اپنے اس فقہی ورثے کو اون own کرتا اور اپنے اس علمی تسلسل کو ہی اپنے فہم و استنباط کی بنیاد بناتا ہے۔۔۔ برخلاف اُن جدت پسندوں کے جن کو ہم اپنے فقہاء و محدثین کے علمی اتفاقات کا حوالہ دیں گے اور وہ دیدے پھیر کر فرمائیں گے، کیا؟
اپنے اِس ’’گھر‘‘ کی بابت تشویش ہم اوپر بیان کرآئے۔ چودہ سو سال سے چلی آتی ایک علمی وفقہی ریت اگر یہاں متاثر ہوتی ہے، اور وہ بھی دین کے کچھ نہایت اہم ابواب میں.. اور حالیہ ’گلوبل‘ نزاکتوں کے حوالہ سے کچھ نہایت دُکھتی جگہوں پر۔۔۔ تو اِس سے بہرحال اِس گھر کا بہت کچھ چلاجانے کا خطرہ ہے۔ ہمارے اِن اہل علم وفضل کا تو کفر کی اِس پیش قدمی پر خاموش رہنا تشویش ناک ہے، کجا یہ کہ اِن کے ڈپو سے دشمن ایجنڈا کو کوئی گولہ بارود بھی ملے!
ہمارے اِس شمارہ کے مضامین سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اہل کفر کی عیدوں یا اُن کے دیگر شعائر کو پذیرائی دلانے کا مسئلہ اِس پورے معاملے کی صرف ایک دُکھتی جگہ ہے۔ کل معاملہ البتہ اس سے بڑا ہے اور وہ دیگر بے شمار مسائل میں بھی سامنے آتا ہے۔ البتہ ہم نے اپنے مضامین میں اِس ایک دُکھتی جگہ کو جس طرح ہاتھ ڈالا ہے اس سے اِس پورے معاملے کا ہی اچھا خاصا علاج ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایک مسئلہ کو ’’اصول‘‘ کی سطح پر حل نہ کیا جائے ’’فروع‘‘ کی سطح پر اُس کا حل ڈھونڈنا ایک سرسری اور سطحی اپروچ ہے۔ اِس مسئلہ کو ایک ایسے اصولی انداز میں لینا جو جسم میں عین اِسی مرض سے متاثرہ دیگر بہت سی جگہوں کا بھی خودبخود ایک علاج کردے یہ چیز اِن شاء اللہ آپ کو اِن مضامین میں ضرور ملے گی؛ کیونکہ اِس پورے بیان میں ہمارا کل انحصار اللہ کے فضل سے امت کے مانے ہوئے متقدمین و متاخرین اہل علم پر رہا ہے۔
یہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے اِس پورے مقدمہ کو محض یہ کہہ کر نہ اڑادیا جائے کہ ہم تو ایک ہی ’چھوٹے سے مسئلے‘ کے پیچھے پڑگئے! یہ مسئلہ اول تو چھوٹا نہیں اور اگر کسی کو اِسے یہ نام دینے پر ہی اصرار ہے تو اِس ’چھوٹے سے مسئلے‘ کے علاج میں البتہ ہم نے جو منہج اختیار کیا ہے وہ ان شاء اللہ کچھ خاصے بڑے بڑے مسئلے حل کردینے کی اساس بننے والا ہے۔
اب چونکہ یہ مسئلہ اپنی اصولی جہتوں کے اعتبار سے بے حد بڑا مسئلہ ہے، پھر کفر کے عالم اسلام سے متعلق حالیہ ایجنڈا کو سامنے رکھیں تو یہی امت کا ایک بہت بڑا محاذ بھی ہے۔۔۔اِس لیے ہم حرج محسوس نہیں کرتے کہ ’’گھر‘‘ کے کچھ لوگوں پر بھی گرفت کریں۔
کافر ملتوں سے بیزاری کا مسئلہ اصولِ دین میں سے ہے۔ کافر ملتوں کے شعائر کے لیے ہرگز کوئی موافقت ظاہر نہ کرنا بلکہ اِس موافقت یا اِظہارِ موافقت یا شرکت وغیرہ کو حرام جاننا امتِ اسلام کے معروف مسلمات میں سے ہے۔ شرک کے کسی تہوار پر خالی ’مبارک سلامت‘ ایسے الفاظ بول آنا خدا کی ایسی معصیت ہے کہ اِس کے حرام ہونے پر اجماع تک نقل ہوا ہے، جیساکہ پیچھے بعض علماء کے کلام میں گزر چکا۔ خود کتاب وسنت کی، ہزارہا جہت سے یہی دلالت ہے اور مسلمانوں کے فقہاء و محدثین نے اگر اس بات پر اتفاق کیا ہے تو وہ اسی لیے کہ کتاب و سنت کی دلالتوں کو یہی لوگ سب سے بڑھ کر سمجھنے والے ہیں۔ یہ کسی ایک دو فقہ کا مسئلہ نہیں اہل سنت کے جملہ مذاہب اور فقہیں اِس مسئلہ کو ایک ہی طرح اور ایک ہی اصولی بنیاد پر طے کرتی ہیں ۔ غرض متقدمین اہل علم کے ہاں معاملہ کا اِس حد تک واضح اور صریح ہونا اگر اِس سے پہلے آپ پر واضح نہ تھا تو اِن مضامین کے بعد اب ضرور واضح ہو چکا ہوگا۔ البتہ دوسری جانب آپ کی نظر اُن عوامل پر ہونا بھی ضروری ہے جو اِس وقت پوری شدت اور بے رحمی کے ساتھ عالم اسلام سے ’’ایک نیا اجتہاد‘‘ طلب کر رہے ہیں۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اِس پورے قضیہ میں ’نئی بات‘ صرف ایک ہے اور وہ یہی ’بیرونی تقاضوں‘ والا فیکٹر ہے جو روز بروز شدیدتر اور بے رحم تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک عامل ہے جو سلف تا خلف متفق علیہ چلے آئے اِس مسئلہ کی پوری فائل آج نئے سرے سے کھلوانا چاہتا ہے بلکہ اِس موضوع پر سلف تا خلف چلے آئے اتفاقات کو ردی کے ڈھیر میں پھنکوانے کے درپے ہے، بلکہ اتفاقاتِ سلف سے پہلے کتاب و سنت کی واضح دلالتوں اور عقیدہ توحید کی بہت سی مسلمہ بنیادوں کو ہی دریابرد کرانا چاہتا ہے۔
جیساکہ ہم کہہ چکے، جدت پسند طبقے تو پورے دین کی ہی فائل آج ایک نئے سرے سے کھولنے بیٹھے ہیں؛ ان کے جیالا طبقے مسلمان عورت کو ہندو مرد کے نکاح میں بڑی دیر ہوئی دے آئے ہیں (۱)اور اب تو نہ جانے کیسے کیسے مشن پر ہیں، لہٰذا اُن کے ساتھ تو ایسی ایک فرع پر بحث کرنا تقریباً فضول ہے۔۔۔ اِس وقت جو چیز ہمارے لیے سب سے بڑھ کر پریشان ہونے کی ہے وہ خود ہمارا ’’گھر‘‘ ہے اور اِس گھر کے لوگوں میں پرورش پانے والے ’نئے رویے‘۔
یہ تو ماننا چاہئے ہمارے اِس گھر میں بھی عرصہ سے کھسرپھسر جاری ہے۔ لیکن وہ ’حرفِ اجتہاد‘ صاف زبان پر آجائے، یہ چیز تاحال آسان نہیں۔ خصوصاً اِس ’اجتہاد‘ کی طرح ڈالنے کے لیے کوئی بڑا نام آگے آنا ابھی تک مسئلہ ہے۔ آج بھی اِس ’اجتہاد‘ کا حوالہ دینے کے لیے کوئی بڑا نام پوچھا جائے تو آپ کو اچھا خاصا ذہن پر زور ڈالنا پڑے گا اور پھر بھی کوئی نام شاید سامنے نہ آئے۔ یعنی ایک چیز دھیرے دھیرے چل بھی پڑی ہے، مقبول بھی ہونے لگی ہے مگر اس کو باقاعدہ ’لائسنس‘ ابھی تک نہیں ملا ہے۔
یہ بھی ماننا چاہئے کہ چند نام زمانہ حاضر سے مل بھی جائیں گے (یہ ان شاء اللہ طے ہے کہ وہ زمانہ حاضر کے ہی ہوں گے؛ متقدمین میں نہ ملیں گے)۔ مگر ایک تو یہ نام ایسے بڑے نہیں، اور برصغیر میں تو معروف ہی نہیں۔ دوسرا، وہ باقاعدہ ’’علمائے عقیدہ‘‘ میں تو آتے ہی نہیں )جبکہ اختصاص specialization کا تصور مسلمانوں میں اب بھی ختم نہیں ہوگیا ہے(۔ معاشیات میں اگر ان کا کوئی نام ہے بھی تو عقیدہ کے میدان میں تو وہ کبھی حوالہ نہیں مانے گئے؛ پھر حوالہ بھی وہاں جہاں مذاہب اربعہ اور سلف تا خلف ایک متفق علیہ چلے آتے دستور کو صاف غلط ٹھہرانا ہو اور اس کے بعد ہی ایک ’نئے اجتہاد‘ کی نوبت آسکتی ہو۔
یورپ میں اسلامی سنٹروں کی کسی نمائندہ کمیٹی کا ذکر یہاں اِس لیے غیر متعلقہ ہے کہ ہم فی الوقت علمی ناموں کی بات کررہے ہیں۔
لے دے کر ایک نام ہے (ہمارے علم کی حد تک) جس سے برصغیر کے بعض سنی طبقوں نے فی الحال استفادہ کی ٹھانی ہے۔ اور وہ ہیں شیخ یوسف قرضاوی۔ بنیادی طور پر قرضاوی صاحب اخوان کی فکری تاریخ میں ایک نئے چیپٹر کا نام ہیں، جسے کھولنے سے پہلے آپ کو اخوان کا پرانا چیپٹر بند کرنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ وہ کثیر محاسن بھی رکھتے ہیں۔ طاغوت کی جیلوں میں رہے۔ مصر سے جلاوطن ہوئے۔ یہود کے خلاف اور جہادِ فلسطین کے حق میں زوردار فتویٰ دے رکھنے، پھر خصوصاً انتفاضہ ثانیہ اور بعد ازاں ڈنمارک کے توہین رسالت والے مسئلہ کے بعد مغربی مصنوعات کے عام بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کرنے کے باعث امریکہ میں اُن کا داخلہ آج تک بند ہے۔ دیگر بہت سے مواقع پر وہ اچھے اچھے مواقف اپنا چکے ہیں۔ مسلم ایشوز سے متعلقہ بہت سی مجالس کی سربراہی کرتے ہیں۔ کئی ایک عرب طواغیت کے خلاف بھی اچھا سٹینڈ لے چکے ہیں۔ فقہ میں ان کا خاصا کام ہے۔ مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کو کچھ مسکت جواب دیے ہیں۔ تربیت سے متعلقہ بعض موضوعات کو اچھا نبھایا ہے۔ جدت پسندوں کے مدمقابل اسلام کے فقہی ورثے کی اچھی وکالت کرچکے ہیں۔ اسلام کی تحریکی شاعری میں کچھ سحرانگیز اضافے کیے ہیں۔۔۔ تاہم دین کے بعض نہایت حساس ابواب میں شیخ قرضاوی سے کچھ تباہ کن کام بھی سرزد ہوئے ہیں اور وہ کچھ انحرافات کی مستقل اساس بھی رکھ کر جارہے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، اچھے اچھے علمائے عقیدہ نے اِن مسائل میں اُن پر شدید گرفت کی ہے بلکہ کڑوی کسیلی بھی سنائی ہیں۔ یہ خطرناک جہتیں جو الاخوان المسلمون کے اِس جدید چیپٹر کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ان میں یہ مسئلہ بھی آتا ہے؛ یعنی کفار کے ساتھ تعامل کا مسئلہ۔ اِس حوالہ سے جو نرم سے نرم الفاظ ہماری زبان پر آسکتے ہیں وہ یہ کہ: ’’تقاربِ ادیان‘‘ سے متعلقہ بعض مسائل میں شیخ بہک گئے ہیں ۔ یہ بات کتنی بھی شدید ہو، سب متقدمین و متاخرین امت کو اِس موضوع پر بیک جنبش قلم غلط ٹھہراجانے کی نسبت کمتر ہے۔ واضح رہے، ہم نے صرف متقدمین نہیں کہا، کہ مبادا کوئی یہ نکتہ نکالے کہ آج حالات اور ہیں لہٰذا جن حالات کے حوالے سے متقدمین نے ایک چیز کو حرام اور عقیدہ کے لیے خطرہ قرار دیا تھا، قرضاوی صاحب کے اِس ’نئے اجتہاد‘ سے متقدمین کے اُس موقف کو غلط ٹھہرانا سرے سے لازم نہیں آتا! متاخرین فقہاء و علمائے عقیدہ کا ذکر ہم نے ساتھ اِسی لیے کیا کہ یہ، قرضاوی صاحب کے اِسی زمانہ حاضر میں، اِس چیز کو نہ صرف حرام کہتے ہیں بلکہ امت کو اِس سے شدید ترین انتباہ کرتے ہیں کہ اُن کے دین کے لیے جتنا بڑا فتنہ یہ آج اٹھا ہے اس سے پہلے کبھی نہ اٹھا ہوگا لہٰذا آج پہلے سے بڑھ کر اِس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ (سعودی عرب کے ایک بڑے محدث اور فقیہ، رکن کبار علماء کمیٹی شیخ بکر ابو زید کی ایک تصنیف الإبطال لنظریۃ الخلط بین دین الإسلام وغیرہ من الأدیان ہی اگر اِس موضوع پر دیکھ لی جائے تو اِن شاء اللہ کفایت کر جائے گی)، فتاویٰ کے وہ سب دفاتر ایک طرف جو اِس نئے رجحان کو آج کا ایک عظیم ترین فتنہ قرار دیتے ہیں۔
پس ایک تو امت کے سربرآوردہ ترین معاصر علماء کے فتاویٰ جوکہ متقدمین کے فتاویٰ کا ہی فی زمانہ تسلسل ہیں (اِن میں سے چند، ہمارے حالیہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں) ، دوسرا اِن علمائے عقیدہ کا یہ اصرار کہ پہلے کسی بھی دور سے بڑھ کر آج اِس مسئلہ پر ڈٹ جانا امت کے حق میں ضروری ہے۔ پس قرضاوی صاحب جن ’بدلتے حالات‘ کی جانب باربار اشارہ فرماتے ہیں اور ان کے اعتبار میں مسئلہ کو ڈھیلا کردینے کی سفارشات کرتے ہیں اور پھر ان کے پیروکاروں کو خیال ہوا کہ ہو نہ ہو ہمارے علمائے عقیدہ ضرور اِن ’بدلتے حالات‘ کو نظرانداز کیے بیٹھے ہیں۔۔۔ قرضاوی صاحب کے یہ ’بدلتے حالات‘ بلکہ ’چیختے حالات‘ ہی تو وہ چیز ہیں جن کی جانب ہمارے علمائے عقیدہ باربار ہماری آنکھیں کھولتے ہیں! (علامہ بکر ابو زید کی مذکورہ بالا تصنیف ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے) کہ دجالی گلوبلائزیشن ہماری سب سے قیمتی متاع لوٹنے کے لیے ہمارے گھروں میں وارد ہورہی ہے؛ لہٰذا دورِ متقدمین سے چلا آنے والا امت کا عین وہی دستور جو دوزخی ملتوں کے ساتھ دینی و دنیاوی معاملہ کرنے سے متعلق ہے۔۔۔ اُس پر ڈٹ کر دکھانا آج کا ایک عظیم ترین چیلنج ہے۔ لہٰذا کتاب و سنت کی دلالت تو اِس مسئلہ پر ہے ہی بہت واضح، متقدمین کے فتاویٰ بھی نہایت واضح اور صریح اور شدید ہیں، خود ’بدلتے حالات‘ کی دلالت بھی ہمارے ان علمائے عقیدہ کے بیان کردہ موقف ہی کی توثیق کرتی ہے؛ قرضاوی صاحب کے پاس اپنے اِس موقف کی تائید میں کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ نہ صرف اصولِ عقیدہ اور نصوصِ کتاب وسنت اور فقہائے امت، بلکہ اُن کی واحد دلیل ’حالات‘ بھی اُن کے خلاف جاتی ہے۔
ذیل میں ہم قرضاوی صاحب کا یہ ’اجتہاد‘ اُن کے اپنے الفاظ کے ساتھ نقل بھی کردیتے ہیں:
یُعَدُّ تغیر الأوضاع الاجتماعیۃ والسیاسیۃ أمراً واقعاً تقتضیہ سنۃ التطور، وکثیر من الأشیاء والأمور لا تبقی جامدۃ علی حال واحدۃ، بل تتغیر، وتتغیر نظرۃ الناس إلیہا، ومن ذلک قضیۃ غیر المسلمین فی المجتمع الإسلامی (أہل الذمۃ) وہو ما یعبر عنہ بقضیۃ العلاقۃ بین (الأقلیات الدینیۃ) فی المجتمعات الإسلامیۃ۔ ہذہ قضایا أصبح لہا فی العالم شأن کبیر، ولا یسعنا أن نبقیٰ علیٰ فقہنا القدیم کما کان فی ہذہ القضایا۔
ومراعاۃ تغیر الأوضاع العالمیۃ ہو الذی جعلنی أخالف شیخ الإسلام ابن تیمیۃ فی تحریمہ تہنءۃ النصاریٰ وغیرہم بأعیادہم وأجیز ذلک إذا کانوا مسالمین للمسلمین، وخصوصاً من کان بینہ وبین المسلم صلۃ خاصۃ، کالأقارب والجیران فی المسکن والزملاء فی الدراسۃ، والرفقاء فی العمل، وہو من البر الذی لم ینہنا اللہ عنہ بل یحبہ کما یحب الإقساط إلیہم ’’إن اللہ یحب المقسطین‘‘ (الممتحنۃ: ۸) ولا سیما إذا کانوا ہم یہنؤن المسلمین بأعیادہم، واللہ تعالیٰ یقول: وإذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا أو ردوہا(النساء: ۸۶)
یجب أن نراعی ہنا مقاصد الشارع الحکیم، وننظر إلی النصوص الجزئیۃ فی ضوء المقاصد الکلیۃ، وبربط النصوص بعضہا ببعض، وہا ہو القرآن یقول: لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنۃ: ۸)
سماجی وسیاسی حالات کا بدل جانا ایک معتبر واقعاتی امر ہے۔ یہی تغیروتبدل کے قاعدہ کا تقاضا ہے۔ بہت سی اشیاء اور امور ایک ہی حال پر جامد نہیں رہ سکتے بلکہ خود بھی بدلتے ہیں اور ان کی بابت انسانوں کا زاویہ نگاہ بھی بدلتا ہے۔ اسی میں: یہ مسلم معاشرے میں اہل ذمہ کا مسئلہ آتا ہے اور جس کو مسلم معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعلقات کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مسائل اس وقت دنیا میں بہت اہم ہوگئے ہیں، اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم اپنی اُسی پرانی فقہ پر رہیں جو اِن مسائل میں چلتی رہی تھی۔
عالمی حالات کے بدل جانے کا اعتبار ہی اس بات کا سبب بنا ہے کہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے اختلاف کروں جو نصاریٰ وغیرہ کو ان کی عیدوں پر مبارکباد دینے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ میں اس (فعل) کی اجازت دیتا ہوں بشرطیکہ وہ انوں کے ساتھ پُراَمن رہتے ہوں، خاص طور پر ایسے غیرمسلم کو (مبارکباد دینا) جس کا مسلمان سے خاص تعلق ہو جیسے رشتہ داری، پڑوس، ہم جماعت یا ملازمت میں کولیگ ہونااور یہ وہ نیک سلوک ہے جس سے اللہ نے ہم کو نہیں روکا بلکہ اللہ کو پسند ہے، جس طرح کہ اُن کے ساتھ انصاف سے پیش آنا اللہ کو پسند ہے (آیت ممتحنہ) ’’بے شک اللہ انصاف مسلم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب وہ بھی مسلمانوں کو ان کی عیدوں پر مبارکباد دیتے ہوں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (آیت النساء) ’’اور جب تمہیں آداب کہیں جائیں تو اس سے بہتر آداب کہو، یا اسی کو لوٹا دو‘‘۔
ضروری ہے کہ ہم شریعت کے مقاصد کا اعتبار کریں، اور جزئی نصوص کو شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں دیکھیں، نیز نصوص کو ایک دوسرے سے جوڑ کر مطالب اخذ کریں۔ قرآن خود کہہ رہا ہے: (آیت ممتحنہ) اللہ تمہیں منع نہیں کرتا اُن لوگوں کی بابت جنہوں نے دین کے معاملہ میں تمہارے ساتھ قتا ل نہیں کیااور تمہیں بے گھر نہیں کیا کہ تم اُن کے ساتھ نیک سلوک کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آتے رہو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
بحوالہ:
http://qaradawi.net/fatawaahkam/30/1425.html
اِس فتویٰ پر علمائے سنت کی جانب سے شدید ترین گرفت کی گئی۔ نرم سے نرم الفاظ میں __ ہمارے علم کی حد تک __ اس کا جو جواب آیا اُس کا عنوان تھا الرَّدُّ الکاوی علیٰ یوسف القرضاوی http://www.al-sunna.net/articles/file.php?id=3015
جوکہ شیخ ماہر بن ظافر قحطانی کی طرف سے تھا۔ خود آپ نے دیکھا، قرضاوی صاحب اپنی رائے کو محض ابن تیمیہ کے ساتھ اختلاف قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ مذاہب اربعہ کا متفقہ قول ہے، حتیٰ کہ اس پر اجماع تک نقل ہوا ہے۔ رہ گیا اُن کا استشہاد ’بدلتے حالات‘ سے، تو اِس پر ہم بات کرچکے کہ یہ اگر کوئی دلیل ہے تو یہ تو خود اس بات کی متقاضی ہے کہ ’’تقاربِ ادیان‘‘ کے ابلیسی ایجنڈا کے پیش نظر اِس مسئلہ پر سختی پہلے سے بڑھا دی جائے۔ اور رہ گئی بات مقاصدِ شریعت کی، تو اس کے لیے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ ایک نظر دیکھ لیں، آپ پر کھل جائے گا کہ اِس باب میں ( یعنی مغضوب علیہم اور ضالین سے دوری اختیار کرنے کے معاملہ میں، خصوصاً ان کے شعائرِ دین کے حوالہ سے) ملتِ حنیفیہ کے مقاصد درحقیقت ہیں کیا؟ ابن تیمیہ نے کوئی ’فتوے‘ تھوڑی دیے ہیں یا اپنے ’زمانے کے حالات‘ پر تصنیف تھوڑی لکھی ہے؛ انہوں نے تو بنیادیں کھڑی کی ہیں اور اِس باب میں اصولِ شریعت کی تقریر فرمائی ہے۔ علم اصولِ شریعت کا کوئی قدردان اُن کی یہ کتاب پڑھ لے، اَش اَش کر اٹھے گا۔
۔ رہ گئی ’’حسن سلوک‘‘ والی دلیل۔۔۔ تو یہاں ابن تیمیہ یہی تو سوال اٹھاتے ہیں کہ ذمیوں کے ساتھ یہ حسن سلوک رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ سے بڑھ کر کس نے کیا ہے اور کون کرسکتا ہے؟ ابن تیمیہ یہی تو پوچھتے ہیں کہ ’غیر حربی‘ کفار کی صنف دنیا کے اندر کیا آج پیدا ہوئی ہے کہ اِس ’’حسن سلوک‘‘ کا دستور آج ہم نئے سرے سے وضع کریں اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ سے نہ لیں؟ یہ ’’ذمی‘‘ جن کا ذکر آپ کتابوں میں پڑھتے ہیں کیا یہ کفار کی وہی قسم نہیں ہے جو مسلمانوں کے ساتھ پُراَمن رہتے ہوں بلکہ جو مسلمانوں کی بھلی مانس رعایا بن کر رہنا قبول کر چکے ہوں؟ (۲)کوئی ایک چوتھائی کے قریب جزیرۂ عرب رسول اللہ ﷺ کا ذمی ہی تو تھا! یمن تا فارس تا شام تا مصر صحابۂ کرام ؓ کا ذمی ہی تو تھا! صحابہؓ نے ان کے ساتھ وہ نیک برتاؤ کیا اور ان کو وہ اعلیٰ انصاف فراہم کیا جس پر تاریخ دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کے اِس مثالی حسن سلوک نے کیا شعائرِ کفر کے ساتھ کسی نرمی یا رواداری کی طرف بھی رخ کیا؟ سوال تو اصل میں یہ ہے۔ ابن تیمیہ یہی تو پوچھتے ہیں کہ ذمی اقوام نے کیا آج پہلی بار اپنے یہ تہوار منانا شروع کیے ہیں یا اُن کے یہ تہوار اصحابِؓ رسول اللہ ﷺسے بھی پہلے سے چلے آرہے تھے؟ پھر جو تعامل صحابہؓ نے اِن جاہلی تہواروں کے ساتھ اختیار کیا آج ہمارے لیے وہ اسوہ اور نمونہ کیوں نہیں رہا؟ جبکہ یہ واضح ہے کہ صحابہؓ نے ان تہواروں میں کبھی شرکت نہیں کی؛ بلکہ اِن تہواروں کو مسلم پبلک میں لائے جانے پر پابندی عائد کی، اِدھر عامۃ المسلمین کو اُس روز اُن کے گرجوں میں قدم رکھنے سے منع فرمایا، اور تنبیہ کی کہ یہ خدا کا غضب برسنے کے مقامات ہیں۔ (اِن چیزوں کے حوالے پیچھے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں گزرچکے)۔ یہ حسن سلوک جس کا ہمارے یہ اصحاب یوں باربار حوالہ دیتے ہیں گویا قرآن کا یہ حکم ہماری نظر سے اوجھل ہے۔۔۔ یہ ’’حسن سلوک‘‘ کیا اُسی وقت معتبر ہوگا جب ہم اُن مقامات پر جو خدا کے غضب کا محل ہیں اُن کو مبارک سلامت کہہ کر آئیں؟ خود اِس ’’حسن سلوک‘‘ پر ہی قرونِ اولیٰ کے اندر کیا عمل ہو نہیں چکا؟
۔ اب ایک ’دلیل‘ یہ سامنے لائی جانے لگی ہے کہ فی زمانہ کرسمس کوئی مذہبی تہوار نہیں رہ گیا بلکہ ایک سماجی تہوار بن چکا، جس میں شرکت یا تہنیت کی کوئی حرمت ہی دین کے اندر باقی نہیں رہ جاتی! سبحان اللہ کتنا سوچا گیا تو جاکر یہ ’دلیل‘ ملی ہوگی اور وہ بھی زیادہ تر یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے سے ہی ذہن میں آسکی! مگر ہم حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں، ابن تیمیہ نے اِس کا جوب دینے سے بھی نہیں چھوڑا! (کسی نے ابن تیمیہ کے علمی مقام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ابن تیمیہ صرف اپنے عہد کا نہیں بلکہ آنے والے زمانوں کا امام تھا۔ ہمارے خیال میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابن تیمیہ ’’عہدِ گلوبلائزیشن‘‘ کا امامِ سنت ہے)۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ذرا اُس حدیث پر ہی غور کر لو جس میں (یثرب کے جاہلی تہواروں کو ختم فرماتے وقت) رسول اللہ ﷺ اُن لوگوں سے دریافت فرماتے ہیں: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ (اِن دو تہواروں کی کیا حقیقت ہے؟) تو وہ جواب دیتے ہیں: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ (دورِ جاہلیت میں یہ ہماری کھیل تفریح کے دن تھے)(۳) ۔ بتائیے ’’سماجی تہوار‘‘ اور کیا ہوتے ہیں؟ بلکہ ابن تیمیہ یہاں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ حدیث میں عموماً ایسی کوئی دلالت نہیں ملتی کہ اہل مدینہ کے یہ تہوار کسی ’’مذہبی پس منظر‘‘ کے حامل تھے۔ یہ حدیثِ انسؓ کے حوالے سے ہے۔ پھر ثابت بن ضحاکؓ کی حدیث میں مسئلہ کی مذہبی اور سماجی جہت بیک وقت بیان کر دی جاتی ہے؛ یہاں آپ ﷺ ایک نہیں دو سوال پوچھتے ہیں: ایک: وہاں جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ (جاہلی ’مذہب‘) دوسرا: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی میلہ تو نہیں لگتا تھا؟ فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟(۴) (جاہلی ’کلچر‘)۔ آج بھی آپ کلچر اور ٹورازم والوں سے دریافت فرما لیجئے کہ ’فوک میلے‘ ایک قوم کی (جاہلی) تاریخ اور شناخت اور جڑوں کو زندہ رکھنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔ پھر اُس نئی صبح کا نظارہ کریں جو رسول اللہﷺ کے دم سے اللہ رب العزت نے جزیرۂ عرب میں طلوع کروائی اور جس کی آب و تاب درحقیقت پوری دنیا کے لیے ہے۔ اقوامِ دیگر کو اُن کے طور طریقوں اور تہواروں پر چھوڑ رکھنا یقیناًہمارے دین کی تعلیم ہے کہ وہ جیسے چاہیں اُنہیں منائیں (ان کو مجبور کرنے کے ہم مجاز نہیں کہ وہ اپنا دین اور طورطریقے اور تہوار چھوڑ کر ہمارے دین اور ہمارے شعائر کو قبول کریں)، لیکن ہم ان آثارِ جاہلیت پر کسی بھی انداز میں اُن کو سندِ موافقت دیں یا اپنے تیوروں سے کوئی تاثر دیں کہ وہ جن چیزوں پر ہیں وہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی نہیں، یہ البتہ ہمارے حق میں حرام ہے، وہ جاہلیت کا ’مذہبی عمل‘ ہے تب اور ’سماجی عمل‘ ہے تب۔
ہرگز دھوکہ نہیں کھانا چاہئے؛ کرسمس کا مذہبی سٹیٹس ختم کرکے اور اس کو سماجی تہوار قرار دے کر اِس راہ سے شرعی رکاوٹیں ہٹانے والے یہ ’اجتہادات‘ اپنی انتہائی صورتوں کے لحاظ سے ایک بھیانک روٹ ہے۔ یہ چوردروازہ جو عالم اسلام میں پہلے ’’تقاربِ ادیان‘‘ اور بالآخر ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی واردات کو ممکن بنانے کے لیے کھلوایا جا رہا ہے، آگے اور بہت سے محلوں تک جاتا ہے۔ ’امن کی آشا‘ کو تو اِس اجتہاد کی بھنک پڑنے کی دیر ہے! ’’کرسمس‘‘ کے محلے تو یہاں زیادہ نہیں، ’سماجی‘ دلیل والا یہ پھاٹک اصل میں تو ہمارے پڑوس میں کھلتا ہے۔ ’امن کی بھاشا‘ کو کرسمس سے کہاں اتنی غرض ہوگی جتنی کہ ’’دیوالی‘‘ سے! یعنی۔۔۔ ایک دلیل سے اَن گنت شکار!
*****
غرض، آنے والے دنوں میں یہاں کے بیشتر ’نقش کہن‘ خطرے میں ہیں۔ اپنے بہت سے مسلمات ’بے بنیاد‘ ثابت کیے جانے والے ہیں۔ بڑی بڑی فصیلیں گرائی جانے والی ہیں۔ اُن کی تعمیرات ہو نہیں سکتیں جب تک یہاں کا سب کچھ ’ہموار‘ نہ کردیا جائے۔ اِس بھاری بلڈوزر کی سست روی پر مت جائیے، یہ دیکھئے جہاں جہاں اب تک یہ پھرا ہے اس نے پیچھے چھوڑا کیا ہے۔ یہاں کے کچھ محلے اُس نے بوجوہ چھوڑ رکھے تھے، اب اِدھر ہی کو رُخ ہے۔
یہ تخریبی عمل جو دو سو سال سے جاری ہے، اس کا صرف یہی پہلو نیا ہے۔ یعنی ہمارے ’بچے ہوئے محلے‘۔ یہیں پر ’نئے رجحانات‘ کا بلیڈ لگایا جا چکا ہے۔ تو پھر اب۔۔۔ اپنا ایک ایک محکم مسئلہ اٹھائیے اور ’اختلافی‘ اور ’جزوی‘ والے پورشن میں ڈالتے جائیے، نہ ہمیں اعتراض اور نہ اُن کو تردد؛ سب کچھ لقمہ اجل ہوتا جائے گا!
چنانچہ حالیہ مرحلہ میں سب سے بڑھ کر جو ’طرزِ استدلال‘ یہاں آپ ملاحظہ فرمائیں گے وہ یہی دونکاتی اپروچ:
۔ کتاب و سنت کی ایک دلالت پر مذاہب اربعہ تک متفق ہیں تو کیا ہے، اِس پر ’اور آراء‘ بھی پائی تو جاتی ہیں! اور اگر نہیں پائی جاتیں تو تھوڑا ٹھہر لیں، شاید مل جائیں یا اب کوئی ہمت کر لے! غرض ’رائے‘ کی گنجائش ہے تو سہی!
۔ نیز۔۔۔ ایک مسئلہ کو قربان کرنے سے پہلے اُس کو ’معمولی‘ اور ’جزوی‘ ضرور ٹھہرالیجئے۔ کوئی مسئلہ جو اِس عفریت کے منہ میں جارہا ہے ’بڑا‘ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر ہو تو پہلے اُس کو چھوٹے چھوٹے اجزاء کر لیں! اُس کو تو چھوٹے بڑے سے کچھ فرق نہیں پڑتا مگر ہماری اپنی دینی حمیت کے اعتبار سے یہی مناسب تر ہے!
غرض ہمار ا یہ گھر جس کو وہ ’’ٹھیٹ مذہبی طبقہ‘‘ کا نام دیتے ہیں اس وقت تبدیلیوں کی زد میں ہے اور خدا بچائے اس کا بہت کچھ تہ و بالا ہونے کو ہے۔
اِس موقع پرحضرت حذیفہ بن الیمان ؓ (نبی ﷺکے رازدارِ خاص اور ماہرِ امراضِ فتن) کا ایک انتباہ، جو گویا ہمارے ہی اِس دورِ گلوبلائزیشن کے لیے کیا گیا:
عن مولی لابن مسعود، قال: دخل أبو مسعود علی حذیفۃ فقال: اعْہَدْ إلَیَّ۔ فَقَال ألَمْ یَأتِکَ الْیَقِیْنُ؟ قَالَ بَلیٰ وَعِزَّۃِ رَبِّیْ۔ قَالَ: فَاعْلَمْ أنَّ الضَّلالَۃَ حَقَّ الضَّلالَۃِ أنْ تَعْرِفَ مَا کُنْتَ تُنْکِرُ وَأنْ تُنْکِرَ مَا کُنْتَ تَعْرِفُ، وَإیَّاکَ وَالتَّلَوُّنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ؛ فَإنَّ دِیْنَ اللّٰہِ وَاحِدٌ
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ للالکائی ص ۱: ۹۰، صحیح جامع بیان العلم وفضلہ لاین عبد البر ص ۳۸۴)
مولیٰ ابن مسعود سے روایت ہے، کہا: ابو مسعود حذیفہؓ کے ہاں داخل ہوئے اور عرض کی: کچھ ارشاد ہو جس پر میں پختہ ہوجاؤں۔ فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں آیا؟ عرض کی: کیوں نہیں، میرے پروردگار کی عزت کی قسم۔ فرمایا: تو پھر جان لو کہ ضلالت اور صحیح ضلالت یہ ہے کہ جس چیز کو تم کل تک منکر جانتے تھے آج اُس کو معروف جاننے لگو اور جس چیز کو کل تک معروف جانتے تھے آج اُس کو منکر جاننے لگو۔ خبردار اللہ کے دین میں نئے نئے رنگ اختیار نہ کرنا؛ کیونکہ اللہ کا دین ایک متعین حقیقت ہے‘‘۔
حل کیا ہے؟ عقیدہ کے دبنگ لہجے۔ اِس کے بعد دیکھئے ان شاء اللہ باطل کس طرح پسپا ہوتا ہے۔ ہمارا کل زور اور قوت ہمارے عقیدہ میں ہے اور اس کا باطل کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ باقی ہر چیز کا اُس کے پاس نہایت خوب علاج ہے۔
اللّٰہُمَّ أبْرِمْ لِہٰذِہِ الأمَّۃِ أمْرَ رُشْد، یُعَزُّ فِیْہِ أہْلُ طَاعَتِکَ، وَیُذَلُّ فِیْہِ أہْلُ مَعْصِیَتِکَ، وَیُؤمَرُ فِیْہِ بِالْمَعْرُوْفِ ، وَیُنْہیٰ فِیْہِ عَنِ المُنْکَرِ، إنَّکَ عَلیٰ مَا تَشَاءُ قَدِیْرٌ۔
وصلی اللہ علی النبی وآلہٖ
_________________
(۱) چند سال پیشتر ’’المورد‘‘ سے منسلک ایک ویب سائٹ ’’انڈرسٹینڈنگ اسلام‘‘ پر کسی مسلم سائلہ نے پوچھا تھا کہ وہ ایک ہندو مرد کی زوجیت میں جانا چاہتی ہے، جس پر اس کو جواب دیا گیا تھا کہ یہ سماجی طور پر نامناسب ہوسکتا ہے البتہ شریعت میں یہ حرام نہیں ہے۔ جنوری ۲۰۰۹ ؁ء میں اپنے ایک مضمونhttp://www.eeqaz.com/main/articles/09/20090103.htm
کے اندر ہم نے اس کا حوالہ بمع لنک
http://urdu.understanding-islam.org/related/text.aspx?type=question&qid=137&scatid=25
نیز
http://urdu.understanding-islam.org/related/text.aspx?type=discussion&did=7
دیا تھا۔ بعد ازاں المورد سے منسلک اِس ویب سائٹ نے یہ دونوں فتوے وہاں سے ہٹا دیے تھے۔ البتہ مختلف ویب سائٹوں پر اِس کے حوالے اب بھی ملتے ہیں، مثلاً:
http://bazwah.freehostia.com/hadaayaboard/viewtopic.php?p=987&sid=6628fc5ab98be6d0a873679288c96849
ان کے انگریزی سیکشن میں یہ چیز اِس سے ملتے جلتے معنیٰ میں اب بھی ملتی ہے:
http://www.understanding-islam.com/q-and-a/other-religions/marriage-with-non-muslims-5331
البتہ وہ اردو فتویٰ جو اَب وہاں سے ہٹا دیا گیا، خباثت کا شاہکار تھا۔ یہ انگریزی کی چیز اُس کے مقابلے کی نہیں۔ وہ اردو فتویٰ بمع اُن کی ویب سائٹ کا فوٹو اب بھی آپ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں:
http://www.eeqaz.com/link/201201b.htm
نیز
http://www.eeqaz.com/link/201201a.htm
(۲)وہ حضرات جن کا سہارا ’آج حالات اور ہیں‘ کی دلیل ہے ۔۔۔ تعین سے یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ جذری تبدیلی آخر ہے کیا جو ایسے عظیم اقدام کی متقاضی ہوئی کہ دوزخی ملتوں کے ساتھ برتاؤ کے معاملہ میں ہم اپنا چودہ سو سالہ دستور بدل لیں، اور اب ان کی عید اور دیوالی پر کیک کاٹ کر آیا کریں؟ خاصی دور دور کی کوڑیاں ضرور لائی جارہی ہیں، مثلاً : کفار کے ساتھ اُن کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے اور مبارکبادیں دے کر آنے کا دستور قرونِ اولیٰ میں نہیں رہا تو وہ اس لیے کہ کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگیں ہورہی تھیں، مگر آج زمانہ بدل گیا ہے! گویا اُس زمانے میں ذمی اور معاہد اقوام نہیں ہوا کرتی تھیں، سب کفار مسلمانوں کے ساتھ مصروف جنگ تھے!اور گویا آج تو کوئی جنگیں نہیں ہورہیں، سب کفار مسلمانوں کے ساتھ پرامن رہ رہے ہیں! حالانکہ ہردو طرح کے کفار دنیا میں تب بھی تھے آج بھی ہیں۔
(۳)حدیثِ انس ؓ: رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث
(۴)حدیث ثابت بن ضحاکؓ: رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ۔ البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
دو قوموں کے مابین سیاسی طور پر کچھ امور متنازعہ ہوں تو حرج کی بات نہیں کہ ان کو حل کرنے کے لیے فریقین کچھ مشترکہ نکات پر آجائیں اور متنازعہ امور کو نظرانداز یا رفع دفع ہوجانے دیں۔ مگر دو ملتوں کے مابین دین کا کوئی تنازعہ ہو، اور وہ تنازعہ نبیؐ نے اٹھایا ہو، تو اس تنازعہ کو نظرانداز یا حاشیائی کروانا.. اور مشترکہ امور کو ہی ’’ہم آہنگی‘‘ کی بنیاد ٹھہرانا گمراہی ہے۔ البتہ یہ گمر اہی سنگین تر ہوجاتی ہے جب اس کی ’دلیل‘قرآن سے دی جارہی ہو۔
’’گلوبلائزیشن‘‘ کی ضرورتوں کیلئے پریشان ’تقاربِ ادیان‘ کے داعی یہاں پر قرآن کی آیت قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَبَیْنَکُم (آل عمران: ۶۴) سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے ساتھ ’مشترک نکات‘ ہی کو نمایاں کرنا اور سب گروہوں اور فریقوں کو ایسے ہی کچھ ’مشترک نکات‘ پر آنے کے لیے کہنا دین کا ایک مشروع عمل ہے!
قرآن اللہ کے فضل سے وہ کتاب ہے کہ باطل نہ سامنے سے اِس کے اندر راہ پاسکتا ہے اور نہ پشت سے۔ اِس موضوع پر تفصیل سے بات کسی اور مقام پر ہو گی، لیکن مختصراً یہاں یہ چند نکات بیان کردیے جانا ہی اللہ کے حکم سے کفایت کرے گا:
۱) سورۂ آل عمران کی یہ آیت توحید کی نہایت صریح اور واشگاف دعوت ہے اور خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں سے برگشتہ ہو جانے اور شرک سے دستبردار ہو جانے کا ایک ’’شدید حد تک‘‘ صریح مطالبہ:
أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِأنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: ۶۴)
یہ کہ ہم (ہر دو فریق) نہ پوجیں مگر اللہ کو۔ اور یہ کہ نہ شریک کریں اُس کے ساتھ کچھ بھی۔ اور یہ کہ نہ پکڑے ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو ارباباً من دون اللہ۔ اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو: پھر گواہ رہنا ہم تو فرماں بردار ہوئے
یہ ہے آل عمران کی وہ آیت جس کا یہ تقارب ادیان کے داعی حوالہ دیتے ہیں!
بتائیے اِس سے زیادہ صریح دعوت باطل معبودوں کی نفی کے باب میں کیا ہوسکتی ہے؟ بلکہ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ کے الفاظ لا إلٰہَ اِلا اللّٰہ کا ترجمہ ہی تو ہے!
توحید کا اِس سے زیادہ قوی بیان کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اِس آیت کا مطلب واضح نہیں کہ ہمارا اشتراک ہو سکتا ہے تو باطل خداؤں کی نفی پر اور خدا کی بلا شرکتِ غیرے عبادت پر، جوکہ موسی ؑ کی بھی دعوت تھی اور عیسی ؑ کی بھی، بلکہ خدا کے ہر نبی اور ہر رسول کی دعوت، جسے ان کے نام لیوا آج چھوڑ بیٹھے ہیں؟ ’’اشتراک‘‘ کی بنیاد کوئی ہو سکتی ہے تو انبیاء کی دعوت کے اُن حصوں کو سامنے لا کر جنہیں اہل کتاب نے شرک کا شکار ہو کر اب طاقِ نسیاں میں رکھ چھوڑا ہے۔ یعنی ’’اشتراک‘‘ کی کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو انبیاء کی دعوت کے وہی حصے جن کو اپنے شرک کے باعث اہل کتاب اب ’متنازعہ‘ کر چکے ہیں۔ پس یہ تو ایک ’’تنازعہ‘‘ کو ریکارڈ پر لانا ہے نہ کہ اُس کو روپوش کرا دینا۔ اور بفضلہ تعالیٰ یہ بات قرآن کی اسی آیت سے واضح ہے جسے یہ لوگ اپنی گمراہی کے ثبوت کے لیے لاتے ہیں۔
۲) پھر اِس آیت کا سیاق بھی قابل غور ہے۔ سورۂ آل عمران کی یہ آیت اُن آیات کے متصل بعد آتی ہے جن میں اہل کتاب کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ مفسرین آپ کو بتائیں گے کہ یہ وفد نجران کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا وہ مناظرہ ہے جس میں نجران کے پادریوں کو جواب دینے سے آپ ﷺ کو اس لئے روک دیا گیا تھا کہ ان کا جواب خود قرآن کو دینا تھا، اور تب سورۂ آل عمران کی یہ آیات اتری تھیں! خود اِس آیت کو دیکھئے اور اِس سے متصل پہلے گزرنے والی آیتِ مباہلہ کو دیکھئے، دونوں آیتوں کا اختتام فَإنْ تَوَلَّوْا ’’اگر یہ منہ موڑیں‘‘ کے الفاظ پر ہوتا ہے، جس سے واضح ہے کہ آیتِ مباہلہ اور اِس زیر نظر آیت کا ایک ہی سیاق ہے اور ایک ہی تسلسل۔
۳) پھر یہ بھی واضح ہے کہ وفد نجران نے آپ ﷺا کی اِس دعوت کو قبول کرنے سے منہ موڑ لیا تھا۔ نہ مباہلہ کرنا قبول کیا جو کہ پہلی آیت میں ان کو کہا گیا، اور نہ اِس ’’کلمۃٌ سواء‘‘ پر آنا قبول کیا جو کہ اِس زیر بحث آیت میں مذکور ہوا۔ جس پر وہ جزیہ دینا قبول کرکے نجران واپس لوٹ گئے، گو واپسی میں ان میں سے کچھ لوگ مشرف بہ اسلام بھی ہوئے۔ کوئی تقاربِ ادیان کے اِن داعیوں سے سوال کرے، اِس آیت میں وہ کونسے ’مشترکہ نکات‘ تھے جو وفد نجران کو جزیہ دے دینے سے بھی بڑھ کر ناقابل قبول تھے؟
(ماخوذ از: شرح شروط لا الٰہ الا اللہ فصل: میثاق لا الٰہ الا اللہ ص ۸۹۔۹۰)



Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
إکفارالملحدین از انور شاہ کشمیری، جس شخص پر غیر مسلموں کو کافر کہنا گراں گزرے
:عنوان
:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
جس شخص پر غیر مسلموں کو کافر کہنا گراں گزرے
علامہ انور شاہ کاشمیریؒ
ماخوذ از: إکفار الملحدین
جو اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں کو کسی بھی وجہ سے کافر نہ کہے:
فرماتے ہیں:
’’اسی لیے (یعنی صریح اور مجمل علیہ نصوص میں تاویل و تحریف کرنے والے کی تکفیر کے یقینی ہونے کی وجہ سے)ہم ہر اس شخص کو بھی کافر کہتے ہیں جو اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو کافر نہ کہے، یا ان کو کافر کہنے میں توقف(وتردد) کرے،یا ان کے کفر میں شک وشبہ کرے،یاان کے مذہب کو درست کہے،اگرچہ یہ شخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو،اور اسلام کے علاوہ ہر مذہب کو باطل بھی کہتا ہو،تب بھی یہ غیر مذہب کو کافر نہ کہنے والا،خود کافر ہے، اس لیے کہ یہ شخص ایک مسلّم کافر کو کافرکہنے کی مخالفت کر کے خود اسلام کی مخالفت کرتا ہے، اور دین پر کھلا ہو طعن اور اس کی تکذیب ہے(مختصر یہ ہے کہ کسی بھی دین اسلام کے نہ ماننے والے کو کافر نہ کہنا،دین اسلام کی مخالفت اور تکذیب کے مترادف ہے،لہٰذا یہ شخص کافر ہے)۔‘‘
(اِکفَارُ المُلحَدِین صفحہ نمبر 221 )
اتمامِ حجت سے کیا مراد ہے؟
حضرت مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تصانیف میں تکفیر سے پہلے(منکرین پر)اقامتِ حجت کاجو تذکرہ فرماتے ہیں،اس سے مراد صرف ’’ادلہ‘‘واحکام شرعیہ کی تبلیغ ہے،(نہ کہ ان کو منوا لینا اور لاجواب کردینا) جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (جو کہ صفحہ 201 پر آتی ہے)’’فادعہ‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہے(کہ مرتدکو صرف اسلام کی دعوت دیناکافی ہے،اگر قبول نہ کرے تواس کو قتل کر دو) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خیبر کے یہودیوں کو صرف دعوتِ اسلام دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسی اکتفاتبلیغ پر’’اخبارالاحاد‘‘کے ذیل میں ایک باب قائم کیا ہے،حضرت مصنف فرماتے ہیں سورۂ انعام کی آیت کریمہ : ’’وَاُوحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْانُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَ مَنْ بَلَغَ‘‘سے بھی اس پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔
(اِکفَارُ المُلحَدِین صفحہ نمبر 232

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک شاہکار تصنیف: اقتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ مُخَالَفَۃَ أصْحَابِ الْجَحِیْمِ۔ اِس عنوان کا لفظی ترجمہ یوں بنے گا:
’’تقاضا کرنا صراط مستقیم کا، کہ راستہ علیحدہ کیا جائے اصحابِ دوزخ سے‘‘۔
کتاب کا یہ عنوان اور اس کے جملہ موضوعات سورۃ فاتحۃ کے جزوِ ثانی کے گرد گھومتے ہیں } قَسَمْتُ الصَّلاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ’’میں نے نماز (فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے مابین تقسیم کر دیا ہے‘‘ { کی رو سے سورت فاتحہ میں ’’بندے کا حصہ‘‘۔ ’’عبد کی طلب‘‘۔
یعنی منزل: خدا (رحمٰن ورحیم، مالکِ یوم الدین، جس کی یکتا ذات عبادت اور استعانت کا اصل محل ہے ) اور راستہ: شرائع کا۔ سورت کے مختصر ہونے کے باوجود ’’راستے‘‘ کا مبحث البتہ طویل ہو جاتا ہے؛ اور جوکہ ’’نمازی‘‘ کی ڈھیروں توجہ چاہتا ہے: صراطِ مستقیم (سیدھا راستہ) ایک مجرد تصور رہتا ہے اور اس کا تعین ہونا شدید مشکل، جب تک کہ دو کام نہ ہو لیں:
۱۔ ایک اُن لوگوں کی شناخت جو اِس راستے میں آپ کے پیشرو ہیں۔ یعنی ’’أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘۔ یہاں سے ایک ’’وابستگی‘‘ اور ’’اتباع‘‘ کا معنیٰ پھوٹتا ہے۔
۲۔ دوسرا : وہ لوگ جن کا راستہ اِس شاہراہ سے جدا ہو گیا مگر ان کا دعویٰ بدستور ہے کہ وہ شاہراہِ حق پر ہیں، اُن کی راہ سے بیزار ہونا؛ یعنی ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ‘‘۔ یہاں سے ’’علیحدگی‘‘ اور ’’دوری‘‘ اور ’’براء ت‘‘ کا ایک معنیٰ نکلتا ہے۔
یہاں سورت ختم ہوتی ہے اور یہاں؛ آپ کا مدعا پورا ہوتا ہے۔۔۔ یا یوں کہیے آپ بندگی کی ’’شاہراہ‘‘ پر چڑھ آتے ہیں اور ’’آمین‘‘ کہہ کر اپنی اِس طلب کو سربمہر کر دیتے ہیں!
ابن تیمیہؒ کی یہ کتاب سورۃ فاتحۃ کے اِسی جزو دوم سے بحث کرتی ہے، یعنی ’’راستے کے مباحث‘‘۔ سورۃ فاتحۃ کے یہ مباحث ابنی پوری عمارت اِس بنیاد پر اٹھاتے ہیں کہ: دو فریقوں کے مابین آب کو ایک لکیر کھینچنا ہے اور اسی کو گہرے سے گہرا کرتے جانا ہے؛ ’’راستہ‘‘ خود بخود واضح ہوتا چلا جائے گا! یہاں سے؛’’دو فریقوں‘‘ کا وجود پانا اور ان کے مابین ایک بعد المشرقین کا جنم لینا دنیا و آخرت کی سب سے بڑی حقیقت بن جاتا ہے؛ اور اِسی چیز کو اسلامی تصورِ اور اسلامی عقیدہ کی بنیاد بننا ہے:
دنیا کے لحاظ سے:
ایک جانب وہ جن پر انعام ہوا اور ہدایت نصیب ہوئی۔۔۔::۔۔۔ اور ایک جانب وہ جن پر غضب ہوا یا جن سے ہدات کا دامن چھوٹ گیا۔
اور آخرت کے لحاظ سے:
فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (الشوریٰ: ۷)
اِس ’’فرق‘‘ کا روپوش ہونا درحقیقت ’’راستہ‘‘ گم ہونا ہے۔ اور راستے کا گم ہونا ’’منزل‘‘ کا چھوٹ جانا!
اردو استفادہ کی صورت میں یہاں ہم کتاب کے چیدہ چیدہ مقامات پیش کریں گے۔
گھپ اندھیرا تھا تو محمد ﷺ مبعوث ہوئے
یہ بات نہایت خوب سمجھ لو:
دنیا میں رسولوں کی آمد کا سلسلہ بڑی دیر سے بند تھا (عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ) جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺکو مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا۔ یعنی وہ وقت جب اہل زمین، عرب کیا عجم، سب خدا کے ہاں رَدّ اور ناقبول تھے (۱)۔ کچھ ہوں گے تو اہل کتاب کے اکادکا باقیات؛ اور یہ بھی دنیا چھوڑ نہیں چکے تو عنقریب چھوڑنے والے تھے۔
دنیا تب دو ہی قسم کے انسانوں پر مشتمل رہ گئی تھی:
أ۔ یا کتابی: یعنی جو کسی آسمانی کتاب سے وابستہ ہو لیکن وہ کتاب تبدیل ہوچکی ہوگی، یا بیک وقت تبدیل بھی ہوگی اور منسوخ بھی، یا پھر سرے سے ناپید یعنی اس کا علم نابود اور عمل متروک۔
ب۔ یا اُمی: یعنی جو سرے سے کوئی کتاب نہیں رکھتا خواہ وہ عرب سے ہو یا عجم سے، بس اِس کو جو اچھا لگا یہ اس کو پوجنے لگا اور خیال کیا کہ یہی اُس کے لیے بھلا ہے، کوئی ستارہ پوجنے میں لگا ہے کوئی بت تو کوئی قبر تو کوئی مورت۔ وغیرہ
غرض انسانیت جاہلیت کی بدترین حد کو چھوتی تھی۔ جن عقائد کو علم سمجھا جاتا وہ جہل ہوتا۔ جن اعمال کو صلاح سمجھا جاتا وہ فساد ہوتا۔ کوئی بڑا ہی خوش قسمت ہوا تو اُس کو علم یا عمل کی کوئی ایسی صورت میسر آگئی جو انبیاء کے ترکے سے باقی رہ گئی تھی؛ البتہ حق اور باطل اس میں بھی گڈمڈ، اور تمیز دوبھر۔ عبادت کے اعمال ہو رہے تھے مگر ان کا کچھ ہی حصہ ہوگا جو خدا کی جانب سے مشروع ہو؛ اکثر انسان ساختہ تھا جو اصلاحِ نفس کی صلاحیت سے قریباً عاری تھا۔
یا پھر عقل اور فلسفہ کی پیشوائی تھی۔ قلب و نظر کی سب دولت طبیعیات اور ریاضیات کی نذر ہو جاتی۔ اصلاحِ اخلاق کے نسخے مشقت کا دوسرا نام تھا؛ جان جوکھوں کی محنت بھی کچھ ثمر نہ دیتی اور اگر دیتی تو وہ انتہائی ناکافی ، جس سے انسانیت کی بھوک مٹے اور نہ پیاس۔ پھر وہ بھی ایک ایسی مضطرب حالت میں کہ اس کا باطل عنصر، حق سے کئی گنا بڑھ کر۔ ساتھ میں سرپھٹول اور کثرتِ آراء؛ بحثیں حد سے زیادہ اور دلیلیں ناپید۔
یہ وہ وقت تھا جب اللہ نے نبوتِ محمدﷺ کی برکت سے انسانیت کو ہدایت بخشی۔ آپﷺ کی لائی ہوئی بینات اور ھدیٰ کے ذریعے اہل زمین کا بیڑہ پار لگایا۔ ایک ایسی ہدایت جس کی تجلی لفظوں کے بیان سے بالاتر ہے اور بڑے بڑے عارفوں کے اندازے سے بڑھ کر ہے۔ تاآنکہ آپ ا پر ایمان لانے والی امت کو عموماً اور اس امت کے اہل علم کو خصوصاً ایک ایسا کمال کا علم نصیب ہوا اور ایک ایسے اعلیٰ عمل صالح ، برگزیدہ اخلاق اور راستی پر مبنی سنتوں اور ضابطوں کا سراغ ملا.. کہ اگر تمام قوموں کی حکمت اور دانائی جمع کر لی جائے، علم کی صورت میں بھی اور عمل کی صورت میں بھی، اور اس کے سب شوائب بھی اُس سے نکال دیے جائیں، تو اقوام عالم کی یہ سب حکمت و دانائی مل کر بھی اُس علم و دانش کے آگے جسے لے کر محمد ﷺ مبعوث ہوئے پرکاہ کی حیثیت نہ رکھے۔ جس پر تعریف کیجئے تو اللہ وحدہٗ لاشریک کی۔
اِس مبحث کے دلائل اور شواہد بیان کرنے کا البتہ یہ مقام نہیں۔
اور یہ بھی خوب سمجھ لو:
اللہ رب العزت نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا دینِ اسلام دے کر جوکہ مطلق حق ہے؛ صراطِ مستقیم ہے تو بس یہ۔
تب اُس نے مخلوق پر فرض ٹھہرا دیا کہ یہ ہر نماز میں اُس سے سوالی ہوں کہ وہ اِنہیں اس صراط کو پانے اور اس پر برقرار رہنے کی ہدایت نصیب کرے۔ ساتھ اس صراطِ مستقیم کا وصف بیان فرما دیا کہ یہ اُن خاص لوگوں کا راستہ ہے جن پر اُس نے اِنعام کیا، اور وہ ہیں اُس کے نبی، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اتنا ہی نہیں؛ یہ بھی بتادیا کہ یہ اُن لوگوں کے راستے سے ہٹ کر ایک راستہ ہے جن پر اُس کا غضب ہوا یعنی یہود یا جو راہ بھٹک گئے، یعنی عیسائی۔
ہر رکعت میں تمہیں اِسی بنیادی سبق کا اعادہ کرنا ہوتا ہے؛ اور یہ سبق دہرائے بغیر تمہاری نماز نہیں۔ (کتاب کا صفحہ ۶۳۔۶۴)
مقصد یہ کہ واضح ہو جائے:
۱۔ صراط مستقیم کے لیے بندے کی ضرورت اور فاقہ مندی کس قدر شدید ہے،
۲۔ اور اس سے انحراف کے راستوں سے واقف اور خبردار ہونا کس قدر ضروری۔
(ص ۸۰)
"تمیز" ظاہر میں بھی مطلوب ہے۔
یہ بھی جان لو کہ صراطِ مستقیم ایک وسیع حقیقت ہے:
۱۔ صراطِ مستقیم میں باطن سے متعلقہ امور بھی آتے ہیں، یعنی وہ حقائق جو دل میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں اعتقادات بھی آتے ہیں اور اِرادات (عزائم اور ارادے) وغیرہ بھی۔
۲۔ صراطِ مستقیم میں امورِ ظاہرہ بھی آتے ہیں مثل: اقوال اور افعال۔ یہ اقوال اور افعال ’’عبادات‘‘ بھی ہو سکتے ہیں جیسے نماز و روزہ وغیرہ، اور ’’عادات‘‘ بھی ہو سکتے ہیں جیسے طعام، لباس، نکاح، رہن سہن، اجتماع، افتراق، سفر، اقامت اور نقل وحرکت وغیرہ۔
اِن امورِ باطنہ وظاہرہ کے مابین ایک خاص برجستگی اور مناسبت ہے۔ دل میں جو شعور اور احوال گزرتے ہیں وہ امورِ ظاہرہ کا موجب بنتے ہیں اور ظاہر میں جو اقوال اور اعمال چلتے ہیں وہ دل کے شعور اور احوال کو جنم دیتے ہیں۔
اب وہ جو حکم تھا کہ مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ سے ہٹ کر چلنا ہے، وہ حکم امورِ باطن کی بابت بھی ہے اور امورِ ظاہر کی بابت بھی۔
ظاہری طریقہ و سیرت تک میں مغضوب اور ضالین کی مخالفت کا حکم کیوں؟
یہ کئی وجہ سے ہے، جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے:
۱۔ ظاہری وصف میں مشترک ہونا دو متشابہ چیزوں کے مابین ایک نسبت کراتا ہے؛ جو بالآخر اخلاق اور اعمال میں موافقت لے آنے پر منتج ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ نے محمد ﷺ کو اِس تاریک جہان میں جس حکمت اور دانائی کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور جوکہ آپﷺ کی سنت ہے اور آپ ﷺ کی شریعت اور آپ ﷺ کا منہاج جس کو اللہ رب العزت نے اپنی جناب سے باقاعدہ سند دی ہے.. آپ ﷺ کی لائی ہوئی اس حکمت اور دانائی کا ایک امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے ظاہری اقوال اور افعال بھی اپنے پیروکاروں کو مغضوب علیہم اور ضالین سے چھانٹ کر رکھ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے احوال اور اعتقادات ہی میں نہیں ظاہری امور میں بھی اُن کی مخالفت کا حکم فرمایا چاہے اکثریت کو یہ امور بے ضرر ہی کیوں نہ نظر آئیں۔
۲۔ ظاہری وصف میں مختلف ہونا ہردو کے مابین ایک مغایرت کراتا ہے؛ جوکہ تمہیں غضب اور ضلال کے اسباب اور موجبات سے ہی دور کر دیتی ہے اور ھدیٰ وانعام کے اسباب و موجبات سے ہی قریب کر دیتی ہے۔ نیز یہ حزب اللہ (جوکہ فلاح پانے والا ہے) اور حزب الشیطان (جوکہ گھاٹا کھانے والا ہے) کے مابین موالات کے رشتے کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے ختم کرنے پر منتج ہوتی ہے۔
اور یہ ایک نہایت عظیم حقیقت ہے: دل جتنا زندگی سے پُراور اسلام سے آشنا ہو گا __ اور اسلام بھی وہ نہیں جو چند ظاہری اعمال اور باطنی اعتقادات کا مجموعہ ہو __ میرا مقصد ہے دل جتنا اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوگا اُس میں یہود اور نصاریٰ سے مفارقت کا جذبہ اُتنا ہی توانا ہوگا اور مسلمانوں میں عام ہو جانے والے یہود و نصاریٰ کے اخلاق اور اعمال سے اُس کا گھن کھانا اُتنا ہی شدید ہوگا۔
۳۔ ظاہری وصف میں مشترک ہونا ہردو کے مابین خلط کا موجب بنتا ہے۔ یہاں تک کہ آنکھ یہ تمیز کرنے سے عاری ہو جاتی ہے کہ ایک جانب وہ ہیں جن کو ہدایت بخشی گئی اور انعام کیا گیا اور خوشنودی کے وعدے فرمائے گئے اور دوسری جانب وہ جن پر غضب کیا گیا اور جو راہ بھٹک چکے۔
یہ ساری بحث ابھی وہاں ہے جہاں ظاہری اشتراک میں سوائے مشابہت کے کوئی اور خرابی نہ ہو۔ رہ گیا اشتراک اُن اشیاء میں جو اُن اقوام کے موجباتِ کفر میں آتی ہیں تو یہ کفر کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہوگا۔ یہاں؛ جس درجہ کی معصیت اُن کا فعل ہوگا اُسی درجہ کی معصیت اُن کی موافقت کرنے میں ہوگی۔
دین کا یہ ایک نہایت اہم اصل ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
(ص ۸۰ ۔ ۸۳)
ایک خاص مسئلہ پر گفتگو سے پہلے آپ کو کچھ عمومی قواعد سے گزرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ مسئلہ اُن قواعد کی ذیل میں لا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم نے ابتداء میں کتاب، سنت اور اجماع سے اِس اصول کے دلائل ذکر کر دیے کہ ہمارے دین میں کفار کی مخالفت کا حکم ہے اور اُن سے مشابہت کی ممانعت۔ یہ ایک اجمالی حکم ہے؛ آگے اِس مخالفت و عدم مشابہت کی بعض صورتیں عام ہوں گی تو بعض صورتیں خاص۔ بعض چیزیں واجب ہوں گی تو بعض چیزیں مستحب۔
اِس عمومی قاعدہ کو بیان کر دینے کے بعد ہم اس ذیلی مسئلہ پر آئیں گے، یعنی کفار کے تہواروں میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ممانعت۔
اب یہاں ایک نکتہ ہے جس کی میں نے اس کتاب میں خصوصی نشاندہی کی ہے۔ اس کو خوب ذہن نشین کرلیجئے:
شریعت کا کسی قوم کی موافقت یا کسی قوم کی مخالفت کا حکم دینا کسی وقت محض اس لیے ہوگا کہ ایک قوم کی موافقت بجائے خود مصلحت تھی اور ایک قوم کی مخالفت بجائے خود مصلحت۔ یعنی ایک فعل جس میں (اچھے لوگوں کی) موافقت یا (برے لوگوں کی) مخالفت ہوئی اُس سے اگر یہ موافقت یا مخالفت والا عنصر نکال دیا جائے تو خود اس فعل میں مصلحت یا مفسدت والی کوئی بھی بات نہ رہ جائے۔ لہٰذا ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مصلحت ہوگا اور ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مفسدت۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا، نبی ﷺ اور سابقین کی، اُن اعمال میں متابعت کرنا بجائے خود فائدہ مند ہے جن کو اگر ان برگزیدہ نفوس نے نہ کیا ہوتا تو اِن اعمال کی اپنی کوئی خوبی نہ ہوتی۔ اِس لیے کہ ان اعمال میں نبی ا اور سابقین کی متابعت بجائے خود وہ چیز ہے جو ہم میں اُن پاک روحوں کے ساتھ ایک لگاؤ اور وابستگی پیدا کراتی ہے، نیز دل کو دل سے راہ ہونے کا ایک معنیٰ دیتی ہے، نیز ہمارا یہی رویہ کچھ دیگر امور میں ان نیک ہستیوں سے موافقت اختیار کروانے کا محرک بنتا ہے۔ غرض اسی طرح کے کچھ دیگر فوائد۔
عین اسی طرح.. کافروں کی، اُن اعمال میں ہمارا متابعت کر لینا، بجائے خود نقصان دہ ہے جن کو اگر یہ کافر نہ کر رہے ہوتے تو ان اعمال کے اپنے اندر کوئی برائی نہ تھی۔
پس موافقت اور مخالفت کا ایک باب تو یہ ہے جو اوپر بیان ہوا۔
پھر کسی وقت مخالفت اور موافقت کا حکم اُن افعال میں ہوگا جن کے اپنے ہی اندر مصلحت یا مفسدت کا کوئی پہلو ہے۔ یعنی ایک فعل آپ اپنی ذات میں ہی برا یا اچھا ہے چاہے ایک قوم نے اس کو نہ بھی کیا ہو۔ یہ وہ باب ہے جہاں موافقت یا مخالفت کا ذکر ازراہِ دلالت و نشان دہی آتا ہے۔ یہاں شریعت کا موافقت سے منع کرنا مفسدت کی جانب محض ایک اشارہ اور دلیل کی حیثیت رکھے گا اور مخالفت کا حکم دینا مصلحت کی جانب اشارہ و دلیل ۔ چنانچہ اس باب میں موافقت اور مخالفت کا اعتبار ’’قیاسِ دلالت‘‘ میں آئے گا جبکہ اوپر والے باب میں اس کو ’’قیاسِ علت‘‘ کہیں گے۔ یہ دونوں مجتمع بھی ہوسکتے ہیں؛ یعنی اُس فعل کی جس میں موافقت یا مخالفت ہورہی ہے اپنی ایک حکمت ہو اور وہ قوم جس کی موافقت یا مخالفت ہورہی ہے اُس کا اپنا ایک شرعی اعتبار ہو۔ اور یہی بات اُن امور پر غالب ہے جو شریعت میں موافقت یا مخالفت کے ابواب سے وارد ہوئے ہیں۔
اِس نکتے کو پا لینا نہایت اہم ہے۔ اِس کے بغیر ہمارے پرودگار کا ہمیں کفار کی اتباع اور موافقت سے منع فرمانا اپنے مطلق اور مقید ہردو معنیٰ میں سمجھ نہیں آسکتا۔
(ص ۸۲ ۔ ۸۴)

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کتاب اللہ کی دلالت: عموم اور اجمال،
جبکہ سنت: اس کا بیان اور تفسیر

خوب سمجھ لو:
اعمال پر کتاب کی خصوصی دلالت جو ان کی جزئیات تک کو واضح کرے، قرآن کے اندر صرف اجمال اور عموم کے اسلوب میں آئے گی، یا استلزام کے اسلوب میں (یعنی ایک بات بیان ہوئی تو اس سے بہت سی چیزیں خودبخود لازم آگئیں)۔ البتہ سنت آئے گی تو وہ کتاب (کے اُس اجمال یا عموم)کی تفسیر و بیان ہوگی۔ یعنی سنت، کتاب کے اجمال کو کھولتی چلی جائے گی اور اپنی تفصیلات کی صورت میں کتاب میں مذکور قواعد اور جواہر پر دلالت کرتی جائے گی۔ اِس طرح سنت کتاب کی عملی تعبیر بنتی چلی جائے گی۔
بنابریں، ہم کتاب اللہ سے وہ آیات ذکر کریں گے جو اِس قاعدے کی اساس پر دلالت کر دے، اپنے ایک مجمل انداز میں۔ اِس کے بعد ہم اُن احادیث کی طرف جائیں گے جو اِن آیات میں مذکور حقائق کی عملی تفسیر بنتی ہیں۔
اہل کتاب کی متابعت سے انتباہ پر: کتاب اللہ کی دلالت
۱۔ سورۃ جاثیہ کی آیات:
وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ وَآتَیْْنَاہُم بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوا فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّہُمْ لَن یُغْنُوا عَنکَ مِنَ اللَّہِ شَیْئاً وإِنَّ الظَّالِمِیْنَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَاللَّہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ (الجاثیۃ ۱۶۔۱۹)
اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی اُن کو ہم نے عمدہ سامانِ زیست سے نوازا اور، دنیا بھر کے لوگوں پر اُنہیں فضیلت عطا کی اور دین کے معاملہ میں اُنہیں واضح ہدایات دے دیں پھر جو اختلاف اُن کے مابین رونما ہوا وہ (ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، اللہ قیامت کے روز اُن معاملات کا فیصلہ فرمادے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد اب اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہِ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے‘‘۔ (مودودی)
یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دی جانے والی دین و دنیا کی نعمتوں کا ذکر فرمادینے کے بعد اُن کے انحراف کا حال بتایا؛ یعنی علم آجانے کے بعد دین میں اختلاف کرنا اور اس کا سبب اُن کی آپس کی دھینگا مشتی۔
پھر فرمایا کہ اب اُس نے محمد ﷺ کو شاہراہِ شریعت پر قائم کیا ہے۔ اِس راستہ میں آپ ا کو ایک حکم دیا کہ: آخر تک اسی کی پیروی کرتے چلے جانا ہے۔ اور ایک خبردار رہنے کی بات بتا دی: نادانوں کی اھواء و خواہشات کی پیروی سے بچنا ہے۔ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون ’’نادانوں‘‘ میں وہ سب لوگ آتے ہیں جو شرعِ محمد ﷺ کی مخالفت کریں۔ اور اُن کی اھواء: ان کے نفوس کی خواہشات اور فرمائشیں، اور وہ شکل و ہیئت جس پر مشرکین ہیں، اور جوکہ اُن کے دینِ باطل کے موجبات ہیں یا اس سے برآمد ہونے والی اشیاء۔ اور اس میں اُن سے موافقت اختیار کر لینے سے مراد ہے: اُن کے نفوس کی اُن خواہشات اور فرمائشوں کو پورا کر بیٹھنا۔ چنانچہ تم ہمیشہ دیکھو گے کہ جب بھی مسلمان کسی چیز میں کافروں کی موافقت یا مشابہت کریں وہ خوشی سے بے حال ہونے لگتے ہیں۔ مسلمان اُن کے پیچھے لگے نظر آئیں، اس کے لیے وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں تو گویا کم ہے! یہی وجہ ہے کہ تم شریعت کا عمومی رجحان یہ پاؤ گے کہ اہل کتاب کی موافقت کی اجازت دینا تو درکنار، اُن کی مخالفت کروانا ہی کسی ایک لمحہ کے لیے شارع کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کی مخالفت کروا دینے سے اُن کی امیدوں پر جو پانی پڑتا ہے اُس سے شرعِ محمدﷺ کی ایک نہا یت عظیم غایت پوری ہوتی ہے ؛ یعنی اہلِ صراطِ مستقیم کو منسوخ شدہ شرائع کے پیروکاروں سے ہر لحظہ ممیز رکھنا؛ یوں کہ وہ اِس شاہراہ کے آس پاس نظر تک نہ آئیں (اور آئیں تو اپنا وہ راستہ چھوڑ کر آئیں)۔ چنانچہ اُن کی مخالفت کروا دینے کی صورت میں اُن کی موافقت کا مادہ ہی ختم کر کے رکھ دینا شارع کا باقاعدہ مقصود نظر آتا ہے، کہ یہی طریقہ اِن دو راستوں کو خلط سے بچانے کے لیے کارگرترین ہے؛ وگرنہ آدمی ایک خطرناک لکیر کے آس پاس رہے تو پیر کسی وقت اندر جا سکتا ہے۔
۲۔ آیات سورۃ الرعد:
وَالَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ بَعْضَہُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّہَ وَلا أُشْرِکَ بِہِ إِلَیْہِ أَدْعُو وَإِلَیْہِ مَآبِ وَکَذَلِکَ أَنزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ وَاقٍ (الرعد: ۳۶ ۔ ۳۷)
جنہیں ہم نے کتاب دی تھی، وہ تو اُس چیز سے جو تم پر اتاری جاتی ہے، بڑے خوش ہیں۔ اور گروہوں میں ایسے بھی ہیں جو اِس کے ایک حصے پر معترض ہیں۔ تم صاف کہہ دو: مجھے تو حکم ہے کہ عبادت کروں اللہ کی بغیر اس کا کوئی شریک کیے۔ پس میں تو اُسی کی طرف دعوت دوں گا اور اُسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔ اِسی شان کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل فرمایا ہے، اب اگر اِس علم کے آجانے کے بعد بھی تم اُن لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتے ہو تو اللہ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ بچانے والا۔
یہاں أَہْوَاء ہُم میں ضمیر __ اللہ اعلم __ اس سے پہلے گزرنے والے لفظ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ بَعْضَہ کی طرف جاتی ہے۔ یعنی گروہوں میں سے ایسے جو شرعِ محمد ﷺ کے ایک حصے پر معترض ہیں۔ چنانچہ اِس میں یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کی وہ تمام اصناف آ جاتی ہیں جو قرآن کے کسی ایک حصے پر معترض ہوں۔ یہاں؛ نہیں فرمایا کہ تم نے اُن کے دین کے پیچھے نہیں چلنا؛ بلکہ کہا کہ تم نے ان کی خواہشوں اور فرمائشوں کی ہی پیروی نہیں کرنی۔
۳۔ آیات سورۃ البقرۃ:
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْرٍ (البقرۃ: ۱۲۰)
اورہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہ یہود اور نہ یہ عیسائی یہاں تک کہ تو ان کی ملت ہی کی پیروی نہ کر لے۔ صاف کہہ دو: اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اگر تو نے ان کی اھواء کی پیروی کر لی بعد اس کے علم تیرے پاس آچکا ہے تو اللہ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی اور نہ مددگار۔
یہاں دو چیزوں پر ذرا غور کرو: خبر دی تو بولا: مِلَّتَہُمْ ’’اُن کی ملت‘‘۔ ممانعت فرمائی تو بولا: أَہْوَاء ہُم ’’اُن کی اھواء‘‘۔ یعنی اُدھر وہ قوم راضی تب تک نہ ہوگی جب تک تم اُن ملت کے مطلق پیروکار نہ ہو جاؤ۔ جبکہ اِدھر ممانعت کہ اُن کی اھواء کو ہی سرے سے گھاس نہیں ڈالنی۔ تھوڑا نہ زیادہ، اُن کی فرمائشوں پر چلنا ہی نہیں۔ اور یہ تو واضح ہے کہ اُن کے دین کا کوئی جزء جس کے وہ پیروکار ہیں اُس میں ان کی متابعت کرنا اُن کی اھواء کے ایک حصے میں ان کی متابعت کرنے میں آتا ہے، یا اُن کی اھواء کی اتباع کے قائم مقام ہے۔
وَلَءِنْ أَتَیْتَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ بِکُلِّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَکَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم مِّن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ أَیْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ
(البقرۃ: ۱۴۵ ۔ ۱۵۰)
اور اگر تم اِن کتابیوں کے پاس ہر نشانی لے آؤ تو بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے۔ اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہو، اور نہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اب اگر تم ان کی خواہشات کے پیچھے چلے بعد اس کے کہ تمہیں علم مل چکا، تو تم ضرور ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اِس (نبی) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور بے شک اُن میں ایک فریق جان بوجھ کر حق چھپاتا ہے۔ اور ہر ملت کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر اُسے (عبادت کے لیے) رخ کرنا ہوتا ہے۔ پس تم نیکیوں میں اوروں سے آگے نکل جاؤ۔ جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کر لے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کر؛ بے شک وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کر۔ اور تم جہاں ہوا کرو اپنا منہ اسی کی طرف پھیر لیا کرو۔ تاکہ لوگ تم پر کوئی حجت نہ رکھیں، سوائے وہ جو ظالم ہیں
سلف کی ایک بڑی تعداد نے لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ ’’تاکہ لوگ تم پر کوئی حجت نہ رکھیں‘‘ کی تفسیر میں کہا ہے: تاکہ یہود تمہارے اوپر یہ حجت نہ رکھیں کہ دیکھا انہوں نے ہمارے ہی قبلے کی موافقت کی، اور پھر کہیں کہ قبلے میں یہ ہماری موافقت کی راہ پر ہیں تو ہمارے دین کے بھی موافق ہو ہی جائیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے قبلے میں اُن کی مخالفت کروا کر اُن کی اس حجت کو کاٹ کر پھینک دیا۔ کیونکہ ’’حجت‘‘ ہر اُس چیز کو کہیں گے جس سے ایک آدمی کی جیت ہو، خواہ یہ جیت حق میں ہو یا باطل میں۔ جبکہ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ ’’سوائے وہ جو ظالم ہیں‘‘ کی تفسیر ’’قریش‘‘ سے کی۔ یعنی ہاں اب یہ ہیں جو کہیں گے کہ: ہمارے قبلے کی طرف تو لوٹ آئے، ہوتے ہوتے ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ ہی آئیں گے۔
چنانچہ اللہ رب ا لعزت نے ایک قبلہ کو منسوخ فرما کر مسلمانوں کو دوسری جانب قبلہ رخ کیا تو وہاں صرف حکم نہیں دیا، باقاعدہ حکمت بھی بیان فرمائی۔ کافروں کی مخالفت ہی نہیں کروائی بلکہ مقاصدِ شریعت کا ایک طویل بیان بھی عین وہیں پر عنایت فرمایا۔ جس کا لب لباب یہ کہ اہل باطل کی فرمائشیں جو وہ ملتِ اسلام سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنے پندار کی تسکین پاتے ہیں، اس کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی جائے اور اِس امت کا مستقل بالذات ہونا اور اِس کی ملت کا ممیز، بے مثال اور ناقابل قیاس ہونا اظہر من الشمس بنادیا جائے۔ تحویل قبلہ کے اِس موقع پر یہ جو ایک اصولی بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی۔۔۔ ظاہر ہے یہ بات ہر موافقت اور ہر مخالفت کے معاملہ میں ہی پائی جائے گی۔ کیونکہ کسی بھی مسئلہ میں آپ کی جانب سے جب کافر کی موافقت اور پیروی ظاہر ہوگی تو صورتحال وہی یا اُس سے قریب ہوگی جو قبلہ کے معاملہ میں یہود کو اسلام پر ایک قسم کی حجت فراہم کر رہی تھی۔
۴۔ آیت سورۃ آل عمران:
وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (آل عمران: ۱۰۵)
اور نہ ہونا اُن لوگوں کی طرح کا جنہوں نے تفرقہ کیا اور اختلاف میں پڑے، بعد اس کے کہ اُن کے پاس بینات آچکی تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو بڑا عظیم عذاب ہونے والا ہے۔
یہ لوگ کون ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اُن کی طرح کا نہ ہونا؟ ظاہر ہے یہود اور نصاریٰ؛ جو ستر ستر فرقے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے خاص تفرقہ اور اختلاف کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کی متابعت سے منع فرمایا، باوجود اس کے کہ آپﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرما دی تھی کہ خود آپ ﷺ کی امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔ لغت میں جب آپ کسی کو کہتے ہیں ’فلاں کی طرح کا مت ہو جانا‘ تو اس سے جو لفظی یامعنوی مفہوم نکلتا ہے اس سے اُس شخص کی مماثلت سے ایک عمومی نفی ثابت ہوتی ہے۔ آیت سے اگر یہ مفہوم نہ بھی لیا جائے تو یہ مفہوم تو بہرحال نکلتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بطورِ جنس اور ان کی مشابہت کو ترک کرنا بطورِ جنس ایک مشروع امر ہے۔ اور یہ اس چیز پر دلالت ہے کہ وہ چیزیں جو ہمیں بیان نہیں کر کے دی گئیں ان میں بھی آدمی جتنا اُن کی مشابہت سے دور رہے اتنا ہی اُس کا ممنوعہ مشابہت سے دور ہونا قوی تر ہوگا۔ اور یہ دین کی ایک جلیل القدر مصلحت ہے۔ اِسی اسلوب کی یہ آیات ہیں: موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو دی جانے والی ہدایات: فَاسْتَقِیْمَا وَلاَ تَتَّبِعَآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُون (یونس: ۸۹) ’’پس حق پر قائم رہو اور ہرگز اُن لوگوں کی راہ نہ چلنا جو نادان ہیں‘‘ وَقَالَ مُوسَی لأَخِیْہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(الأعراف: ۱۴۲) ’’موسیٰ نے ابنے بھائی ہارون سے کہا: قوم میں میرے جانشین ہو، اور اصلاح کرتے رہنا اور شریروں کا راستہ نہ چلنا‘‘ وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ (النساء: ۱۱۵) ’’جو شخص راہِ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی پیغمبر کا خلاف کرے اور مومنوں کی راہ کے ماسوا کے پیچھے چلے، تو ہم اُسے اُسی رخ پر چلا دیں گے جس رخ پر وہ چل گیا ہے اور اُس کو جہنم میں داخل کریں گے‘‘
عین یہی معنیٰ دینے والی نصوص قرآن کے اندر بے شمار ہیں، خصوصاً سورۃ مائدۃ اور سورۃ توبہ کے اندر، (اصل کتاب میں سورۃ توبہ کی آیات پر نہایت طویل اور فائدہ مند کلام کیا گیا ہے) مگر ہم فی الحال اِنہی قرآنی نصوص پر اکتفا کریں گے۔
خلاصہ یہ کہ:
شریعت کا یہ مقصود کہ اہل کفر خصوصاً اہل کتاب کی عمومی امور میں مخالفت ہمارے حق میں باعثِ صلاح ہے، تو یہ سبھی آیات یہ دلالت دینے میں نہایت واضح اور صریح ہیں۔ رہ گیا اُن کی مخالفت کرنے کا وجوب، تو اِس پر کچھ آیات کی دلالت ہوگی تو کچھ کی نہیں ہوگی۔ ہم نے اِن آیات سے جو بات ثابت کی ہے وہ یہ کہ اہل کتاب کی مخالفت بالجملہ مشروع ہے، اور یہی بات واضح کرنا یہاں پر مقصد ہے۔ ہاں یہ بات کہ کہاں دلالت وجوب کا فائدہ دیتی ہے اور کہاں غیر وجوب (صرف مستحب یا مستحسن ہونے) کا فائدہ دیتی ہے، تو وہ یہاں ہمارا موضوع نہیں۔ ہمیں اِس باب میں دین کا ایک عمومی مقصود واضح کرنا تھا، اور وہ ہم نے کر دیا۔ یہاں ہمارے پیش نظر اِس باب میں آنے والے تمام مسائل کا احاطہ کرنا نہیں، ہاں ہم یہ مسئلہ بیان کریں گے کہ اُن کی عیدوں اور تہواروں میں اُن کی مشابہت اختیار کرنا حرام امور میں آتا ہے۔ اور اس ایک مسئلہ کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری سمجھا گیا کہ وہ قاعدہ کلیہ بھی بیان کر دیں، اور جوکہ نہایت عظیم فائدہ کا حامل ہے۔
(ص ۸۴ ۔ ۹۱ )

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
دین کا ظہور اور غلبہ۔۔۔ ایک خوبصورت استشہاد
یہ وجہ ہے کہ ہردو عبادت (قبول ہونے والی عبادت مسلمانوں کی، اور ردّ ہونے والی عبادت یہود ونصاریٰ کی) کے مابین فرق کروادینا شارع کا ایک بڑا مقصد ہے۔ (یہاں امام صاحبؒ احادیث سے اس کے بے شمار شواہد ذکر کرتے ہوئے، ایک جگہ لکھتے ہیں:) اب ذرا سنن ابو داود کی ایک حدیث ہی دیکھ لو:
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، عن النبی ﷺ، قال:
( لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِراً مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لأنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ یُؤَخِّرُوْنَ )
’’دین اسلام چھایا رہے گا جب تک لوگ اِفطار میں جلدی کریں گے؛ کیونکہ یہود اور نصاریٰ اِفطار کو مؤخر کرتے ہیں‘‘
یہاں نبی ا کے الفاظ پر غور فرماؤ: لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِراً مراد یہ کہ دین کا غلبہ اور ظہور کافر ملتوں کی مخالفت میں مضمر ہے۔ اور جبکہ ہم جانتے ہیں دین خداوندی کو جملہ ادیان پر ظہور و غلبہ دلوانا ( لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ )رسولوں کی بعثت کی ایک باقاعدہ غایت ہے۔ لہٰذا کفار کے شعائر کے خلاف چلنا آپ اپنی ذات میں دین کو ظاہر و غالب کرنے کا معنیٰ رکھے گا اور بعثتِ نبوی کے اہم ترین مقاصد میں شمار ہوگا۔
(ص ۱۸۶ ۔ ۱۸۷)
سنتِ جاہلیت کیا ہے؟
سنتِ جاہلیت(۲) کیا ہے؟ وہ سب روایات جو اہل جاہلیت کے یہاں چلتی آئی ہیں۔ سنت ایک ایسے معمول کو کہیں گے جو کسی قوم کے ہاں باربار دہرانے میں آتا ہو، یا وہ راستہ جو ان کے ہاں تسلسل کے ساتھ چلا جاتا ہو؛ خواہ وہ اس کو عبادت گنتے ہوں یا غیرعبادت۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ (آل عمران: ۱۳۷) ’’تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ میں آچکے ہیں‘‘ اور نبیﷺ نے فرمایا: لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ ’’تم اپنوں سے پہلوں کے طور طریقے اپناکر رہوگے ‘‘ اِس حدیث میں لفظ آئے ہیں لَتَتْبَعُنَّ ’’اتباع‘‘ دو معنوں کے اجتماع سے بنتا ہے: ایک اقْتِفَاء یعنی ’’کسی کے پیچھے آنا‘‘ اور دوسرا اسْتِنَان یعنی ’’اس کو طریقے اور دستور کے طور پر لینا‘‘۔ بنابریں جو شخص کفار کے معروف طریقوں میں سے کسی طریقے پر عمل پیرا ہوگا وہ ایک جاہلی سنت کی اتباع کرے گا۔ اب نبی ﷺ کا برسبیلِ مذمت یہ فرمانا کہ : لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ ایک جامع نص ہے جوکہ جاہلیت کی سنتوں میں آنے والی جملہ اشیاء کی اتباع کو مذموم اور ممنوع ٹھہرانے کا فائدہ دیتی ہے۔ خواہ یہ اُن کے تہوار ہوں یا کچھ اور۔ (ص ۲۶۶ ۔ ۲۲۷)
نبی ﷺ کا فرمان: ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ أمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ ’’خبردار رہو، جاہلیت کے دستور کی ہر شےْ منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے‘‘ اس میں وہ سب کچھ آتا ہے جس پر اہل جاہلیت چلتے آئے تھے، خواہ وہ رواج ہوں یا عبادات۔ مثلاً اُن کے نعرے کہ فلاں کی جے اور فلاں کی جے۔ نیز اُن کے تہوار۔ اور اسی طرح کے دیگر امور جو ان کی پہچان ہوں۔
اِس میں وہ اشیاء نہیں آئیں گی جن پر اہل جاہلیت رہے تو ہیں البتہ اسلام نے ان کو برقرار رکھا۔ مثل: حج کے بہت سے مناسک، مقتول کی دیت سو اونٹ، قسم ڈالنا، وغیرہ۔ کیونکہ لفظ جاہلیت کا جو مفہومِ عام استعمال ہے وہ اُن اشیاء کے لیے ہے جن پر اہل جاہلیت تھے اور اسلام نے ان کو برقرار نہیں رکھا۔ہاں اگر کوئی چیز جاہلیت میں تھی تو وہ اسی ممنوعہ زمرے میں ہی رہے گی اگرچہ اسلام نے خاص معین کر کے اس چیز کو نہ بھی روکا ہو۔
(ص ۳۰۵ ۔ ۳۰۶)
دار الاسلام میں شعائرِ کفر کا کھلے عام ہونا
چنانچہ عمرؓ نے اتفاق فرمایا تھا، جس میں عمرؓ اکیلے نہ تھے بلکہ سب مسلمان اُن کے ساتھ تھے، پھر اسی پر بعد کے جملہ مسلمان علماء کا اتفاق رہا، نیز جن جن والیوں اور حکمرانوں کو خدا نے توفیق بخشی اُن کاعمل بھی اِسی پر رہا کہ: کہ ذمیوں کو اس بات سے روکا جائے گا کہ دار الاسلام کے اندر وہ کسی ایسی شےء کو کھلے عام کریں جو اُن کے امتیازی امور میں آتی ہو۔ جس سے اس بات کو آخری حد تک یقینی بنانا مقصود تھا کہ دارالاسلام میں مشرکین کے امتیازات ظاہر وباہر نہ ہوں۔ تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ مسلمان ہی ان اشیاء کا ارتکاب بھی کریں اور ان کو ظاہر وباہر بھی کریں! (ص ۳۳۰)
جبکہ اہل کوفہ تو اِس معاملہ میں بہت آگے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب نے ایسے شخص کے کافر ہوجانے کی بابت گفتگو کی ہے جو کفار کے ساتھ اُن کے پہناوے یا اُن کے تہواروں کے معاملہ میں مشابہت کا ارتکاب کرتا ہے۔
اور جبکہ امام مالکؒ کے بعض اصحاب اِس قول تک چلے گئے ہیں کہ: جو شخص کفار کے تہواروں پر کوئی ایک تربوز (۳)کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کردیا ہے۔
جبکہ شافعیؒ کے اصحاب نے بھی اِسی اصل کا اپنے بے شمار مسائل کے اندر ذکر کیا ہے، اور جوکہ آثار و مرویات میں وارد ہوئے ہیں۔ ایسی ہی بات دیگر علماء نے بھی بیان کی ہے۔ جیساکہ یہ علماء نبیﷺ کی یہ حدیث ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ ﷺ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت نماز سے ممانعت فرماتے ہیں، یہ توجیہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جب مشرکین سورج کو سجدہ کرتے ہیں، جیساکہ حدیث ہی میں ایک جگہ یہ صراحت ہوئی ہے۔ مراد یہ کہ کفار کی مشابہت ایسی مکروہ چیز ہے کہ نماز تک کی بابت کہا گیا کہ اس گھڑی ٹھہر جاؤ۔
امام احمدؒ نے بھی کفار سے موافقت اور مشابہت کو حرام ٹھہرانے کے معاملہ میں نہایت شدید کلام کیا ہے۔
(ص ۳۵۴ ۔ ۳۵۶)

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کفار کے اعمال کی بابت ایک جامع بیان
جان لو کہ کفار کے اعمال تین اقسام بنتے ہیں:
۱۔ وہ اعمال جو ہمارے دین میں مشروع ہیں، جبکہ وہ ان کی شریعت میں بھی مشروع تھے، یا یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اعمال اُن کی شریعت میں تھے البتہ اِس وقت وہ کرتے ہیں۔
۲۔ وہ اعمال جو کبھی مشروع تھے مگر قرآن کی شریعت نے ان کو منسوخ کر دیا۔
۳۔ وہ اعمال جو کبھی مشروع نہ تھے، بلکہ انہوں نے گھڑ لیے ہیں۔
اعمال کی یہ تینوں اقسام یا تو عباداتِ محضہ میں آئیں گی۔ یا عاداتِ محضہ میں یعنی آداب وغیرہ۔ یا وہ ایسے اعمال ہوں گے جن میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ جمع ہوں گے۔ تین ضرب تین: یہ کل نو اقسام بنیں۔
اعمال کی پہلی قسم: وہ اعمال جو ہماری شریعت میں ہیں اور ان کی بھی شریعت میں ہیں یا وہ یہ اعمال کرتے ہیں۔
مثلاً صومِ عاشوراء، بلکہ جنسِ نماز و روزہ وغیرہ۔ یہاں اگر جنس میں اشتراک ہے تو صفت اور ہیئت میں مخالفت کروا دی گئی۔ مثلاً عاشوراء کے ساتھ تاسوعاء کا روزہ سنت ٹھہرا دیا گیا۔ افطار اور نمازِ مغرب میں عجلت کا حکم دے دیا گیا تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔ سحری تاخیر سے کرنے کی ہدایت فرما دی گئی تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو۔ جوتوں سمیت نماز پڑھ لینے کو مشروع ٹھہرایا تاکہ یہود کی مخالفت ہو۔ عبادات میں جابجا اس کے شواہد ملیں گے۔ عادات میں مثال کے طور پر: میت کو دفن کرنا شرائع کے مابین مشترک ہے مگر یہاں ہیئت میں فرق کروا دیا گیا۔ فرمایا: اللَّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا ’’لحد ہمارے لیے اور شق دوسروں کے لیے‘‘۔ اس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ ہے۔ جوتوں سمیت نماز عبادات میں آتی ہے تو لباس کے باب سے اس کا تعلق عادات سے بھی بنتا ہے جبکہ موسیٰ ؑ کی شریعت میں نماز کے وقت جوتا اتارنا ہوتا تھا۔ اسی طرح حالتِ حیض کے احکام میں ایک مشابہت ہے تو اس کی ہیئت میں کچھ فرق کروا دیا گیا جس پر یہود نے تعجب بھی کیا۔ غرض کسی چیز میں اگر اصل دو شریعتوں میں مشترک ہے بھی تو وصف کے اندر فرق کر دیا گیا۔
دوسری قسم: وہ اعمال جو اُن کی شریعت میں تھے مگر ہمارے ہاں منسوخ ہیں:
مثلاً سبت کی تعظیم۔ یا کسی نماز یا روزہ وغیرہ کو اپنے اوپر فرض ٹھہرا لینا۔ یہاں؛ ان کی موافقت سے کھلی ممانعت ہے۔ چاہے وہ چیز ان پر واجب تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عبادات میں آئے گی۔ اور چاہے وہ ان پر حرام تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عادات میں آئے گی۔ اب مثلاً جہاں تک عادات کی بات ہے تو آج کسی مسلمان کے لیے یہ روا نہ ہوگا کہ وہ از راہِ نیکی و دینداری چربیوں یا ناخن والے جانور کے گوشت سے پرہیز کرے۔ یا پھر جس چیز میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ مجتمع ہو مثلاً اُن کی وہ عیدیں جو اُن کے لیے مشروع تھیں؛ کیونکہ عید جو مشروع ہوتی ہے اُس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے یعنی نماز یا ذکر یا صدقہ یا قربانی وغیرہ جو اس موقع پر کی جائے گی، جبکہ اسی میں عادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے اور وہ ہے اس دن اچھے اچھے کپڑے پہننا، اعلیٰ پکوان کھانا، جشن میلہ کرنا، روزمرہ کے بہت سے اعمال چھوڑ لینا، اور کچھ ایسے طبقوں کا جو اس میں دلچسپی رکھتے ہوں کھیل اور گانا وغیرہ کر لینا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ابوبکر ؓنے جب نبی ﷺ کے گھر میں ان دو لڑکیوں کو ڈانٹنا شروع کیا جو عید کے دن گارہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر اِن کو رہنے دو؛ کیونکہ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔ نیز حبش کے لوگوں نے عید کے روز نیزوں کا ایک کھیل پیش کیا تھا، جسے نبی ا بھی دیکھ رہے تھے۔ غرض عیدیں جو مشروع ہوں ان میں یا تو ازراہِ وجوب یا ازراہِ استحباب ایسی عبادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جو دیگر ایام میں نہیں ٹھہرائی جاتیں۔ اسی طرح عیدوں پر ازراہِ جواز یا ازراہِ استحباب یا ازراہِ وجوب ایسی عادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جن میں نفوس کو لطف اور مزہ آتا ہو، اور یہ عادات اِن عیدوں کے علاوہ ایام میں نہیں ٹھہرائی جاتیں۔ مثلاً عیدین میں افطار کو واجب رکھا۔ دونوں عیدوں پر نماز کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ ایک تہوار پر صدقہ (فطر) کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ دوسرے تہوار پر قربانی کو مشروع ٹھہرا دیا۔ اب فطرانے کا صدقہ بھی اور قربانی کا ذبیحہ بھی دونوں معاشرے کے اندر کھانے پینے کو وافر بناتے ہیں جس سے لوگ خوب مزہ کرتے ہیں۔
یہ جو قسم ہے، یعنی وہ اشیاء جو ان کی شریعت میں تھیں مگر ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئیں، یہاں ان کی موافقت کرنا خواہ وہ عبادات میں ہو یا عادات میں یا ان اشیاء میں جو عبادت و عادت ہردو معنیٰ رکھتی ہوں، یہ پہلی قسم والے اعمال میں اُن کی مشابہت سے کہیں قبیح تر ہے۔ کیونکہ وہاں؛ چیز کی اصل مشروع تھی صرف ہیئت تبدیل ہوئی تھی؛ مگر یہاں اصل ہی منسوخ ہے لہٰذا یہاں مشابہت حرام ہے۔ جبکہ اول الذکر میں ہو سکتا مشابہت صرف مکروہ ہو یا اس سے بھی کم۔
تیسری قسم: وہ اعمال جو ان کے من گھڑت ہیں اور کبھی بھی مشروع نہ تھے:
خواہ یہ عبادات ہوں، یا عادات، یا وہ چیز جو ہردو معنیٰ کو شامل ہے۔ یہ تو بدتر سے بدترین ہے۔ یعنی یہ وہ چیز ہے جو کافروں کی خالص اختراع ہے اور کسی نبی اور کسی شریعت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے (۴)۔
(ص ۴۲۲ ۔ ۴۲۴)
کفار کے تہواروں کا حکم:
اہل کفر سے مشابہت کی بابت جب یہ اصول طے ہوگئے، تو اب ہم کہیں گے کہ تہواروں کے معاملہ میں ان سے موافقت حرام ہے، اور یہ دو بنیادوں پر:
پہلی بنیاد:
جیساکہ پیچھے بیان ہوا، یہ چیز اہل کتاب کی موافقت بنتی ہے ایک ایسے عمل میں جو نہ ہمارے دین میں آیا اور نہ ہمارے پہلوں کا دستور رہا۔ کفار کے ساتھ ایسی موافقت دین کی مفسدت ہے اور اس میں اُن کی مخالفت دین کی مصلحت۔ یہ تہوار اگر ہمارے ہاں اتفاقیہ ہوتے (ہمارے ہی کچھ لوگوں نے گھڑ لیے ہوتے) اور ان کفار سے نہ لیے گئے ہوتے تو ہمارے دین کی ہدایت ہوتی کہ ہم اِن تہواروں کی مخالفت کریں، کیونکہ ایسی مخالفت ہمارے دین کا تقاضا ہے اور ایک باقاعدہ شرعی مصلحت، جیساکہ پیچھے ہم اِس جانب اشارہ کر آئے۔ اس میں جو ان کی موافقت کرتا ہے وہ اپنے حق میں یہ شرعی مصلحت فوت کرلیتا۔ تو پھر ایسے تہوار کی بابت کیا خیال ہے جو لیا ہی کفار سے گیا ہو؟
نیز نبی ﷺ کا فرمان ہے: خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ ’’مشرکوں کے خلاف کرو‘‘۔ علاوہ کتاب و سنت کے ان تمام دلائل کے جو ہم پر مغضوب علیہم اور ضالین کا راستہ چلنا حرام ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ ان کا تہوار اُن کے سبیل (راستے) کا حصہ ہیں۔
یہ کیونکہ عمومی اصول ہیں اس لیے ان کی عمومی دلالت ہی اس عمل کو ہمارے لیے حرام ٹھہرا دیتی ہے۔
دوسری بنیاد:
یہ کہ ہم خاص اِس عمل ہی کے حرام ہونے پر اپنے شرعی مصادر سے دلائل لے کر آئیں۔ اب یہاں قدرے وضاحت سے اِن خصوصی دلائل کا بیان کیا جاتا ہے:
الف۔ قرآن سے:
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (الفرقان: )
اور وہ لوگ جو ’’زُور‘‘ پر حاضر نہیں ہوتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو تو وقار اور متانت کے ساتھ گزرتے ہیں
آیت میں لفظ ’’زُور‘‘ پر سلف کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے:
ابو بکر خلالؒ نے اپنی جامع میں پورے اسناد کے ساتھ تابعی محمد بن سیرینؓ سے اس کی تفسیر نقل کی، کہا: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ میں (نصاریٰ کا تہوار ’’شعانین‘‘ آتا ہے۔
پھر مجاہدؒ سے نقل کیا، کہا: اس سے مراد ہے مشرکین کے تہوار۔ ربیع بن انسؒ سے نقل کیا، کہا: مشرکین کے تہوار۔
اسی معنیٰ میں عکرمہؓ سے روایت ہوئی، کہا: یہ ایک جشن تھا جو وہ زمانہ جاہلیت میں منایا کرتے تھے۔ قاضی ابو یعلی نے اس کو مسئلۃ فی النہی عن حضور أعیاد المشرکین کے تحت بیان کیا۔
ابو الشیخ اصفہانی ’’شروط أھل الذمۃ‘‘ میں اپنی باقاعدہ اِسناد کے ساتھ، ضحاکؒ سے روایت کرتے ہیں کہ وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ والی آیت کی تفسیر ہے: عید المشرکین۔ نیز اپنے اِسناد کے ساتھ عن ابی سنان عن الضحاک ، کہا: اس سے مراد ہے شرک کی بات۔ نیز اِسناد کے ساتھ عن جویبر عن الضحاک، کہا: مراد ہے اعیاد المشرکین۔ نیز اپنے اِسناد سے عن عمرو بن مرۃ، کہا: مراد ہے: نہیں شامل ہوتے مشرکین کے ساتھ اُن کے شرک میں اور نہ اُن کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں۔ نیز اپنے اِسناد سے عن عطاء بن یسار، کہا: فرمایا عمر ؓ نے: ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجوں سے بچو اور خبردار رہو مشرکین کے ہاں جانے سے اُن کے تہوار کے دن اُن کے گرجوں میں‘‘۔
اب یہاں ایک اصولی مسئلہ واضح کرتے چلیں: تابعین کا اِس آیت کی تفسیر کے تحت یہ کہنا کہ یہ ’’مشرکوں کے تہوار ہیں‘‘، تابعین ہی کی ایک دوسری تفسیر سے متعارض نہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے شرک یا جاہلیت کے بت، یا ان کی ایک دوسری تفسیر کہ یہ ناچ اور مجرے کی جگہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف کا یہ معمول ہے (کہ تفسیر میں ایک ہی حقیقت کے انطباق میں جو تنوع ہو، وہ مثالوں کی صورت بیان کردیں) ۔ سامع کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی وقت وہ پوری جنس کا ذکر کر دیں گے اور کسی وقت اس کی محض ایک نوع کا۔
ہاں ایک جماعت نے اس آیت میں ’’زُور‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد ہے جھوٹی شہادت(۵) ۔ اور یہ البتہ محل نظر ہے۔ کیونکہ قرآن نے لفظ بولے ہیں: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ۔ یہ نہیں بولے: لا یشہدون بالزور ۔ جبکہ ’’گواہی دینے‘‘ والا معنیٰ ’’ب‘‘ کے صلے کے بغیر بنتا۔ ’’ب‘‘ کے صلے کے بغیر عرب جب بھی بولیں گے مثلاً کہیں کہ شہدتُ کذا تو اس سے مراد وہاں حاضر ہونا اور موجود ہونا ہوگا نہ کہ گواہی دینا۔ گواہی دینے کے معنیٰ میں جب بھی بولیں گے تو کہیں گے: شہدتُ بکذا۔ اب مثلاً ابن عباسؓ کا قول: شہدتُ العید مع رسول اللہ ﷺ ’’میں رسول اللہ ا کے ساتھ عید میں حاضر ہوا‘‘۔ یا حضرت عمرؓ کا قول: الغنیمۃ لمن شہد الوقعۃ ’’غنیمت اس کے لیے جو معرکے میں حاضر ہوا‘‘۔
البتہ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ تابعین کی یہ تفسیر، لفظ ’’زُور‘‘ کے معنیٰ سے کیا مناسبت رکھتی ہے؟ دراصل ’’زُور‘‘ کا مطلب ہے کہ حقیقت کچھ ہو اور دکھایا کچھ جائے۔ ملمع اور جعلسازی۔ باطن میں غلاظت ہو اور ظاہر میں اس کو حسن کا لبادہ اوڑھایا جائے۔ اب ظاہر ہے یہ باطل کا خاص الخاص وصف ہے۔ باطل ہمیشہ اپنے آپ کو خوب سے خوب لبادے میں پیش کرتا ہے اور اِس ترکیب سے اپنی گندگی میں ایک کشش پیدا کر لیتا ہے ؛ کبھی ’’شبہات‘‘ سامنے لاکر تو کبھی ’’شہوات‘‘ کی چادر تان کر؛ جس سے ایک خلقت اُس کے پیچھے ہو لیتی ہے اور کوئی خاص صاحبِ نظر ہی اِس شبہات اور شہوات والے ’چہرہ روشن‘ سے گزر کر اُس کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا باطل اور باطل کے وہ جملہ مظاہر جو لوگوں کے لیے باعثِ کشش ہوں، اس پر ’’زُور‘‘ کا لفظ نہایت فٹ بیٹھتا ہے۔ تابعین کی تفسیر ان سب معانی کو خوب واضح کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کی تفسیر ’’شرک‘‘ سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ باطل کے اٹھائے ہوئے ’’شبہات‘‘ میں آتا ہے اور اگر اِس کی تفسیر باطل کے ’’ناچ مجروں ‘‘ سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ اس کو پرکشش بنانے والی ’’شہوات‘‘ ہیں۔ اور جہاں تک یہ تفسیر ہے کہ اس سے مراد ’’مشرکوں کی عیدیں اور تہوار‘‘ ہیں تو اس عیدِ مشرکین میں ’’شبہات اور شہوات‘‘ ہر دو آتے ہیں، اور اس کو باطل ٹھہراتے ہیں۔ رب العزت کے دین کے لیے اس میں کوئی منفعت نہیں۔ لذتِ عاجلہ ہے تو انجام، المِ دائمی۔ لہٰذا یہ اِس پہلو سے بھی ’’الزُّوْر‘‘ ہوئی۔اور اس میں شریک ہونا ’’لَا یَشْہَدُون‘‘۔ اب اگر اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں عباد الرحمن کا یہ وصف بیان فرمایا ہے اور اس کو باقاعدہ سراہا ہے کہ یہ وہاں پیر دھرنے کے روادار نہیں؛ یعنی نہ ان کی آنکھ اُس کو دیکھنے کی روادار اور نہ اِن کے کان اُس کو سننے کے.. تو پھر اس بابت کیا خیال ہے کہ آدمی وہاں حاضر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ شریک ہونے چل پڑے اور اس پر اپنی موافقت دکھائے؟

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 
Top