• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان اور کرسمس از شیخ حامد کمال الدین

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
ب۔ حدیث سے:
۱۔ حدیثِ انسؓ:
عَنْ أنَسٍص قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَہُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْہِمَا فَقَالَ: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِنْہُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔
(رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث ۲۰۲۱)
روایت انس ؓ سے، کہا: نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر۔
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپ ا نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں‘‘۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے، جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے پچھلی چیز کا ترک کرانا خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انسؓ کی حدیث میں جن دو جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبی ﷺکے یہ فرمادینے کے بعد ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے رونما ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہوار یکسر نابود ہوجاتے ہیں! ان کا کوئی ادنیٰ ترین تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے چلی آتی ایک چیز معاشرے میں ختم ہوکر رہ جائے، یہ کوئی آسان بات نہیں۔ ’تہوار‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر خود سوچو، اہل مدینہ نے نبی ﷺکے الفاظ ’’إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا‘‘ سے اگر ’’ممانعت‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ ورنہ ایسا معجزہ ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ صرف شریعت سے ہی ناواقف نہیں سماجیات سے بھی نابلد ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک اور چیز سمجھ لو۔ مسلم معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بے شک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے لگیں۔
۲۔ حدیثِ ثابت بن ضحاکؓ:
عَنْ ثَابِتٍ بْنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ، فَأتیٰ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَ ﷺ: فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: أوْفِ بِنَذْرِکِ، فَإنَّہٗ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وِلا فِیْمَا لا یِمْلِکُ ابْنُ آدَمَ۔ (رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ)
ثابت بن ضحاکؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ا کے عہد میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر کچھ اونٹ ذبح کرے گا۔ تب وہ نبی ا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے نذر مان لی ہے کہ بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں اُن کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ انے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو؛ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا (اسلام میں) نہیں جو اللہ کی معصیت میں ہو، یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو
(البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)، خود امام ابن تیمیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: اِس حدیث کی اصل صحیحین میں ہے، اور یہ اسناد صحیحین کی شرط پر پوری اترتی ہے، اس کی اسناد میں سب راوی ثقہ اور مشہور ہیں، یہ متصل ہے اور اس کی سند میں کوئی عنعنۃ نہیں)
(اِس کے بعد امام ابن تیمیہ انہی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ پر مبنی کچھ دیگر روایاتِ حدیث بھی لے کر آتے ہیں، مگر ہم نے ایک ہی روایت کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے)
اِس حدیث میں وجہِ دلالت:
رسول اللہ ﷺ اس شخص کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جو دو سوال پوچھتے ہیں، وہ اِس موضوع پر فیصلہ کن ہیں۔ ایک یہ دریافت فرمایا کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ دوسرا یہ کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ جب دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا تو آپ ا نے اُس کو وہاں اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔ اور پھر جو الفاظ آپﷺ نے بولے وہ بھی قابل غور ہیں: فإنہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ یعنی ’’نذر میں خدا کی معصیت ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں‘‘۔ پس واضح ہوا جاہلیت کی عید اور تہوار خدا کی معصیت میں آتا ہے۔ حالانکہ نذر کو پورا کرنے کی بابت رسول اللہ ﷺکہاں تک گنجائش دیتے ہیں، اس کا اندازہ ایک دوسری حدیث سے کیجئے:
عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، أنَّ امْرأۃً أتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أضْرِبَ عَلیٰ رَأسِکَ بِالدُّفِّ۔ قَالَ: أوْفِیْ بِنَذْرِکِ۔ قَالَتْ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا کَذَا _ مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیْہِ أہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ _ قَالَ: لِصَنَمٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: لِوَثَنٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: أوْفِیْ نَذْرَکِ۔ (أبو داود، رقم الحدیث ۳۳۱۲، وأحمد۔صححہ الالبانی فی صحیح أبی داود ۲۸۳۳)
عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اور ان کے والد ان کے دادا (عبد اللہ بن عمروؓ) سے روایت کرتے ہیں: ایک عورت نبی ﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ میں نے نذر مان لی کہ (اللہ آپ کو بہ سلامت غزوہ سے واپس لے آئے تو) میں آپ کے سرہانے دف بجاؤں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ کہنے لگی: میں نے نذر مان لی ہے کہ میں فلاں مقام پر جانور ذبح کرو، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اہل جاہلیت اپنے جانور ذبح کر لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی صنم (بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی وثن (غیر مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ۔۔۔: ایک عورت رسول اللہ ﷺکے سرہانے کھڑی ہو کر دف (ہلکی ڈھولکی قسم کی چیز) بجانے کی نذر مان لیتی ہے تو آپ ﷺ اُس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں (اِس عمرو بن شعیب والی حدیث میں)۔ جبکہ (ثابت بن ضحاک والی حدیث میں) جاہلیت کے تہوار کی جگہ پر جا کر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے اُس صحابی نے معاذ اللہ کوئی غیر اللہ کے نام پر تو اونٹ ذبح نہیں کرنے تھے۔ مگر جاہلی تہوار کی شناعت ایسی بری ہے کہ خدا کے نام کی مانی ہوئی ایک نذر بھی وہاں پر ممنوع ٹھہرے گی۔
اب ذرا سوچو۔۔۔ جاہلی تہوار کے لیے مخصوص ایک جگہ کی یہ شناعت ہے تو خود اس تہوار ہی کی کیسی شناعت ہوگی؟ خود اُس تہوار ہی میں جا شرکت کرنا شنیع کیوں نہ ہوگا؟ اس تہوار کی مناسبت سے جو اعمال مختص سمجھے جاتے ہیں اُن میں سے بعض اعمال کا ارتکاب کر لینا شریعت میں کیوں مذموم نہ ہوگا؟
پھر ایک اور بات پر غور کرو۔۔۔ حدیث کے الفاظ ہیں فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ ’’کیا وہاں اہل جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار (منایا جاتا) تھا‘‘۔ یعنی آپ ﷺ ماضی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں نہ کہ حال کے بارے میں۔ حدیث کے بعض دیگر طرق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے نبی ا سے یہ سوال حجۃ الوداع کے موقع پر کیا تھا۔ یعنی وہ وقت جب جزیرۂ عرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا اور وہاں کے سب جاہلی تہوار موت کی نیند سلائے جا چکے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کا سوال تب ماضی ہی کی بابت ہو سکتا تھا۔ مراد یہ کہ اب تو کسی جاہلی تہوار کا سوال ہی کہاں رہ گیا، یہ بتاؤ کیا ماضی میں بھی وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو نہیں منایا جاتا تھا؟ پس واضح ہوا کہ ماضی میں بھی اگر کہیں پر جاہلی تہوار منعقد ہوتا تھا تو ایسے مقام کی یہ شناعت ہے۔جب ایسا ہے تو پھر ایک حاضر باش جاہلی تہوار میں شرکت کرنے چل پڑنا کیوں شنیع نہ ہوگا؟
اندازہ کر لیجئے، ایک خطہ پوری طرح اسلام کے زیرنگیں آجاتا ہے اور جاہلیت کا سب کچھ وہاں پر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر بھی آپ ﷺ یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ مبادا کسی جاہلی عمل یا جاہلی مظہر کو مسلم معاشرے میں ازسرنو زندگی مل جائے۔
پھر جبکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس تہوار کی بابت آپﷺ دریافت فرما رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی میلہ قسم کی چیز ہوگا، جہاں عربوں کا کھیل تماشا ہو جاتا ہوگا۔ خود مدینہ کے جو دو تہوار تھے (جن کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا) اُس میں بھی انصارؓ نے آپﷺ کے دریافت فرمانے پر کسی بت یا کسی عبادت کی مناسبت ذکر نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ اس دن ہم اپنا کھیل تماشا کر لیتے تھے (کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ)۔ یعنی اس کی کوئی مذہبی مناسبت ہمیں نہیں ملتی(۶) ۔ یہ تو رہا مدینہ والے تہوار کا معاملہ۔ پھر اِس (بوانہ والے) مسئلے کی بابت تو آپ دیکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ ’’بت‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا بوانہ کے مقام پر جاہلیت کا کوئی بت تو نصب نہ تھا) اور پھر ’’تہوار‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو نہ تھا)۔ یہ واضح دلیل ہوئی کہ جاہلیت کے تہواروں کے ساتھ مختص اشیاء میں سے کسی بھی شےء کو کسی بھی انداز میں کرنا شدید منع ہے۔
مزیدبرآں، پچھلی حدیث کے ضمن میں ہم نے ایک بات خاص مدینہ کے حوالے سے ذکر کی تھی۔ مگر اب یہاں غور کرو کہ پورے جزیرۂ عرب میں ہی عیدین سعیدین کے سوا کوئی تہوار باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ کیا تم اِس میں ہرگز کوئی دلالت نہیں دیکھتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ کتنے ان گنت تہوار ہوں گے جو جزیرۂ عرب میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیے گئے۔ ایک پوری قوم کی زندگی سے، اُس کے صدیوں سے چلتے آئے تہواروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ بغیر ’’شدید ممانعت‘‘ کے اتنی بڑی چیز کہاں ختم ہونے والی تھی؟ اِس پر ذرا تدبر کرو، تو کوئی شک ہی نہیں رہ جاتی کہ امام المتقین ﷺنے __ میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں __ اِن سب جاہلی رسوم اور تہواروں کو جزیرۂ عرب کے اندر باقاعدہ ختم کروایا تھا۔
جیساکہ کتاب کے شروع میں بھی یہ بات گزری ہے۔۔۔ رسول اللہﷺ تو اُن نیکیوں یا اُن مباحات کے معاملہ میں جو دوملتوں کے مابین کسی وجہ سے ’’مشترک‘‘ ہیں، کچھ نہ کچھ ایسے ’’فرق‘‘ جاری فرما دیتے ہیں کہ جہاں اشتراک ہے وہاں بھی ایک فاصلہ قائم ہو جائے۔ اور یہ بات تم شریعت میں جابجا دیکھو گے۔ تو پھر جس شریعت میں اِس بات پر پورا زور صرف کردیا گیا ہو کہ اشتراک والی جگہوں پر بھی ’’فرق‘‘ کو نمایاں کرکے رکھا جائے وہ اُن امور میں ’’موافقت‘‘ کی روادار کیسے ہوسکتی ہے جن میں ہے ہی مخالفت؟! بات نہایت واضح ہے؛ شریعتِ اسلام نے تمہاری ایک ضرورت کا شدید خیال رکھا ہے: تمہارے اور اصحابِ دوزخ کے مابین فاصلہ جتنا زیادہ رہے گا اُتنا ہی تمہارا، اصحابِ دوزخ کے اعمال میں جاپڑنا، دُور از امکان رہے گا۔
۳۔ حدیثِ عائشہؓ:
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ أبُوْ بَکْرٍ ص وَعِنْدِیْ جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِیْ الأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِہٖ الأنْصَارِ، یَوْمَ بُعَاثٍ۔ قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ۔ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ أبِمَزْمُوْرِ الشَّیْطَانِ فِیْ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ؟ وَذٰلِکَ یَوْمُ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَا أبَا بَکْرٍ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَہٰذَا عِیْدُنَا (متفق علیہ)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: ابوبکر ؓ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو انصاری لڑکیاں تھیں جو گا رہی تھیں اُن رجزیہ اشعار پر جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر گائے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: یہ دونوں کوئی (باقاعدہ) گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکرؓ بولے: کیا اللہ کے رسولﷺ کے گھر میں شیطان کے راگ؟ جبکہ یہ عید کا دن تھا۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہماری عید ہے۔
اِس حدیث میں وجہِ دلالت تین پہلوؤں سے ہے:
۱۔ ہر قوم کی عید اپنی اپنی۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً اِس حدیث کے الفاظ اور اِن دو قرآنی آیتوں کے الفاظ کے مابین مماثلت پر ذرا غور کرو: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا (البقرۃ: ۱۴۸) ’’ہر کسی کی کوئی سمت ہے جس کی طرف اُس کو رخ کرنا ہوتا ہے‘‘۔ اور لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر کسی کے لیے ہی ہم نے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرا دیا ہے‘‘ اول الذکر آیت، قبلہ سے متعلق ہے اور لِکُلّ کا لفظ بول کر ہر امت کا الگ الگ اختصاص واضح کیا گیا ہے، اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر یہ بھی فرمایا گیا: وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ (البقرۃ: ۱۴۶) ’’اور تم اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں‘‘۔ چنانچہ اِن دو آیتوں کی طرح حدیث (لِکُلِّ قَومٍ) میں بھی لام اختصاص کا آیا ہے۔ یعنی جس طرح از روئے آیت قبلہ میں شرعی اختصاص ہے (ہر امت کا اپنا اپنا قبلہ) ویسے ہی از روئے حدیث عید میں شرعی اختصاص ثابت ہوتا ہے؛ یعنی یہود کی اپنی عید، نصاریٰ کی اپنی، اور مسلمانوں کی اپنی۔ جب اختصاص ہے تو کوئی کسی دوسرے کے قبلہ کی طرف جائے گا اور نہ دوسرے کی عید کی طرف۔
۲۔ رسول اللہﷺ کا فرمانا: وَإنَّ عِیْدَنَا ہٰذَا الیَوم ’’اور ہماری عید آج ہے‘‘، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے تہوار اِن دو مواقع کے اندر محصور ہیں۔ الیَوم پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے؛ جیسے فرمایا: تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ ’’نماز کی تحریم، تکبیر ہے اور تحلیل، تسلیم‘‘۔ (تکبیر پر ال کا فائدہ یہ ہوا کہ: تکبیر ہی سے نماز کی تحریم ہوگی۔ اور تسلیم پر ال کا فائدہ یہ کہ: سلام سے ہی نماز کی تحلیل ہوگی۔ یعنی ایسا نہیں کہ تکبیر سے بھی تحریم ہوجاتی ہو البتہ تکبیر کے علاوہ کسی چیز سے بھی تحریم ہو جاتی ہو، یا یہ کہ سلام کے علاوہ کسی لفظ سے بھی نماز کی تحلیل ہو جاتی ہو۔ یہ فائدہ ہوا استغراق کے ’’ال‘‘ کا)۔ جبکہ لفظ ہٰذا سے رسول اللہ ﷺ کا اشارہ روزِ عید کی جنس کی طرف ہے نہ کہ عین کی طرف؛ لہٰذا عید الفطر کے ساتھ عید الاضحیٰ ( اپنے پورے ایام کے ساتھ) خود بخود شامل ہوگی؛ جیساکہ ابوداود اور نسائی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأیَّامُ مِنیٰ عِیْدُنَا أہْلِ الإسْلَامِ، وَہِیَ أیَّامُ أکْلٍ وَشُرْبٍ ’’یومِ عرفہ، یومِ قربان، اور منیٰ کے ایام ہم اہل اسلام کی عید ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
۳۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً کے الفاظ نبی ا نے بچیوں کے گانے وغیرہ پر رخصت دینے کے سیاق میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پس یہ رخصت اِس مناسبت سے ہوگی کہ یہ ’’مسلمانوں کی عید‘‘ ہے۔ کسی اور ’’عید‘‘ کے لیے یہ احکام ہی نہ ہوں گے۔ ورنہ ایک بات کی اگر ہر وقت ہی گنجائش ہے تو خاص یہ لفظ بول کر کہ ’’ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے‘‘ کوئی خصوصی گنجائش بتانے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
۴۔ ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما کی (ہفتہ وار عید والی) حدیث سے ایک اہم استدلال:
عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ ؓ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ: نَحْنُ الآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، بَیْدَ أنَّہُمْ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ ثُمَّ ہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہٗ، فَالنَّاسُ لَنَا فَیْہِ تَبْعٌ: الْیَہُوْدُ غَداً وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ (متفق علیہ)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے سنا: ’’ہم (دنیا میں) میں آخری ہیں اور قیامت کے روز پہلے۔باوجود اس کے کہ اُن کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہمیں اُن کے بعد، دن اُن کا بھی یہی (جمعہ) تھا جو اُن پر فرض کیا گیا، تو اُنہوں نے اس کے معاملے میں اختلاف کر لیا، تب اللہ نے ہمیں اس کی راہنمائی کردی۔ پس لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے، یہود کل، تو نصاریٰ پرسوں‘‘
وَفِیْ حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَؓ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمْعَۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلنَّصَاریٰ یَوْمُ الأحَدِ، فَجَاءَ اللّٰہُ بِنَا فَہَدَانَا لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالأحَدَ، وَکَذٰلِکَ ہُمْ تَبْعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أہْلِ الدُّنْیَا، وَالأوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِیُّ لَہَمْ _ وِفِیْ رِوَایَۃٍ بَیْنَہُمْ _ قَبْلَ الْخَلَاءِقِ (رواہ مسلم)
حدیثِ حذیفہؓ: فرمایا رسول اللہ ا نے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو روزِ جمعہ سے بھٹکا دیا، چنانچہ یہود کا ہفتہ ہوا، نصاریٰ کا اتوار۔ تب اللہ ہمیں لایا اور ہم کو روزِ جمعہ کی ہدایت فرما دی اور (ترتیب) رکھی: جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ ایسے ہی وہ قیامت کے روز ہم سے پیچھے ہوں گے۔ دنیا میں ہم آخری ہیں مگر قیامت کے روز ہم مخلوق میں وہ پہلے لوگ ہوں گے جن کے مابین فیصلہ کیا جائے گا‘‘
یہاں؛ آپ دیکھتے ہیں ہفتہ وار تہوار کے معاملہ میں امتوں کا اختصاص باربار کس وضاحت سے بیان ہوتا ہے۔ (لامِ اختصاص کی تکرار پر ذرا غور کرو)۔ یعنی یہود کا، ہفتہ۔ عیسائیوں کا، اتوار۔ مسلمانوں کا، جمعہ۔ لغت میں: اگر تم کہو: ’یہ کپڑا رہا زید کا، یہ رہابکر کا، اور یہ رہا عمرو کا‘۔۔۔ تو اس سے زید، بکر اور عمرو تینوں میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ ایک کپڑا ہونے کا معنیٰ لازم آئے گا۔ اِسی کو اختصاص کہا جاتا ہے۔ لہٰذا؛ اہل جمعہ کا، اہل سبت یا اہل اتوار کے ساتھ ’’شامل‘‘ ہونا آپ سے آپ باطل ہو جاتا ہے ورنہ اِس حدیث کا کوئی معنیٰ باقی نہ رہے گا۔ تو پھر اگر ہفتہ وار عید (۷)کا یہ معاملہ ہے تو سالانہ عید کا یہ معاملہ کیوں نہ ہوگا، بلکہ سالانہ عید کے لیے تو امتوں کا جوش و خروش کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
۵۔ حدیثِ ام سلمہ ؓ :
عن کریبٍ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: أرسلنی ابن عباس وناسٌ من أصحاب النبی ﷺ إلی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا، أسألہا: أیُّ الأیَّامِ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ أکْثَرَہَا صِیَاماً؟ قَالَتْ: کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَیَوْمَ الأحَدِ أکْثَرَ مَا یَصُوْمُ مِنَ الأیَّامِ، وَیَقَوْلُ: إنَّہُمَا یَوْمَا عِیْدٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ فَأنَا أحِبُّ أنْ أخَالِفَہُمْ۔ (رواہ أحمد والنسائی وابن أبی عاصم... وصححہ بعض الحفاظ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابن عباسؓ اور کچھ دیگر صحابؓ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی ﷺکونسے دنوں کا روزہ سب سے زیادہ رکھا کرتے تھے؟ ام المومنینؓ نے جواب دیا: سب سے زیادہ آپ ﷺہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے اور فرماتے: یہ دونوں مشرکین کی عید کے ایام ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میں اُن کی مخالفت کروں
یہ حدیث بھی اِس بات پر نص ہوئی کہ اہل کتاب کی مخالفت، چاہے کسی وقت ازراہِ استحباب ہو، شریعت کے مقاصد اور اعتبارات میں بہرحال شامل ہے.. اور یہ کہ اہل کفر کے تہواروں پر کوئی کام کرنے کا ہے تو وہ یہ ان کی مخالفت کی جائے نہ کہ اُن کی موافقت۔ اِس حدیث کے حوالے سے جو کئی سارے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دوسری حدیث میں سبت کا روزہ منع ہے (البتہ علت وہاں بھی یہی بیان ہوئی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے، لہٰذا مقصد کے لحاظ سے صومِ سبت سے منع کرنا بھی وہی فائدہ دیتا ہے جو یہ حدیثِ ام سلمہؓ یہاں دے رہی ہے) اور یہ کہ.. آیا سبت کا روزہ مطلق منع ہے یا مفرد طور پر (یعنی بغیر کوئی دن ساتھ ملائے)۔۔۔ تو ان فقہی سوالوں(۸) کا جواب ہم کتاب میں آگے چل کر دیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لو کہ سبت کے روزہ پر علماء کا جو بھی اختلاف ہے، اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ سبت کے معاملہ میں یہود کی مخالفت کرنا مستحسن ہے۔ جو عالم اُس دن روزہ کا قائل ہے وہ اِس اعتبار سے کہ یہ اُن کی عید کی مخالفت ہے۔ اور جو اِس سے ممانعت کرتا ہے وہ اِس اعتبار سے کہ اِس روز کوئی خصوصی عبادت کر لینے سے یہود کی مخالفت ایسا ایک مقصدِ دین متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علمائے اسلام کے فریقین میں جو بھی فقہی اختلاف ہو، ہمارے بیان کردہ اِس (اہل کتاب کی مخالفت والے) مبحث کی ہردو جانب سے تائید ہی ہوتی ہے۔
ج۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کا اپنا تعامل:
یہ تصور کرنا درست نہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ ؓکے آس پاس یہود و نصاریٰ کہیں پائے ہی نہیں گئے اور آج پہلی بار ہمیں ہی یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آس پاس پائے جانے والے یہودونصاریٰ کے اِن تہواروں پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے! یہ درست ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے محارب یہودونصاریٰ سے جنگیں کیں، مگر غیر حربی یہودونصاریٰ کے ساتھ بھی اُن کو ہرہر شہر اور ہر ہر ملک میں واسطہ رہا ہے۔ تو پھر اگر نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کو بھی یہودونصاریٰ کے ساتھ (اُن کے تہواروں سمیت) واسطہ پیش آیا ہے تو کیا سب سے بڑھ کر یہ ضروری نہیں کہ ہم دیکھیں اِس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اصحاب ثدین اسلام پر کس طرح عمل پیرا ہوئے؟
خوب جان لو: سرزمین عرب میں زمانۂ اول سے لے کر آج تک یہودونصاریٰ پائے گئے ہیں۔ یہود حضرت عمرؓ کے دور تک جزیرۂ عرب میں موجود رہے یہاں تک کہ خلیفۂ دوم نے انہیں جزیرہ سے نکالا۔ نبی ﷺکے عہد مبارک میں یہود کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپﷺ نے اُن سے ایک معاہدہ بھی فرمایا یہاں تک کہ اُن کی طرف سے پے در پے عہدشکنی ہوئی جس کے بعد اُن کی بڑی تعداد مدینہ سے نکال دی گئی پھر بھی اُن کے کچھ لوگ باقی رہے۔ آپﷺ نے رحلت فرمائی تو زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس ہی رہن تھی۔ یمن یہودیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نجران میں عیسائیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ بحرین میں فارسیوں کی بہتات تھی۔ اور یہ دورِ نبوت کی بات ہے۔ اور یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ اِن سب ملتوں کے تہوار بھی ہوتے تھے!
اب یہاں ایک قاعدہ ازبر کرلو: ایک چیز کا قوی محرک نبیﷺ کے سامنے باقاعدہ انداز میں پیش آیا مگر آپ ا نے اس کو اختیار کرنے سے احتراز ہی فرمائے رکھا۔۔۔ تو اُس چیز کو اختیار نہ کرنا ہی دین ہوگا۔
تو پھر؛ نبی ﷺاور اصحاب ؓ کی جانب سے کسی بھی انداز کی شرکت اپنے ’ہم وطن‘ اہل کفر کے تہواروں میں اگر مروی نہیں ہے۔۔۔ کیا اِس قضیہ کا فیصلہ کردینے کے لیے یہی ایک بات کافی نہیں؟
اور جہاں تک معاشرہ میں اِس کے لیے داعیہ پائے جانے کی بات ہے۔۔۔ تو کیا یہ تصور ہوسکتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے تہوار منارہے ہوں،اچھے اچھے پکوان، زرق برق لباس، رنگارنگ اشیاء، باجے، بھنگڑے، نفیریاں، کھیلیں اور کبڈیاں سب چل رہی ہوں۔۔۔ اور ادھر معاشرے کے عام بچوں، عورتوں اور فارغ طبقوں کو اُس کی طرف توجہ اور میلان تک نہ ہو!
اب جس شخص کو سیرت پر کچھ بھی اطلاع ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ عہدِ نبوت میں مسلمان، کافروں کی ایسی کسی بات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ کفار کے تہواروں کی خاطر اپنا کوئی ایک بھی معمول نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہ ا اور صحابہ ث کے لیے کفار کا تہوار ہر ہر پہلو سے باقی دنوں جیسا ہی ایک دن تھا؛ اِن دنوں کے لیے اُن کے ہاں کسی ایک چیز کا اہتمام نہ ہوتا۔ ہاں کچھ اہتمام تھا تو ان عیدوں کی مخالفت کے حوالہ سے، مثل روزہ وغیرہ!
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ وہ دین ہی جسے دورِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے سیکھا اور سمجھا تھا اِس امر میں شدید مانع ہو۔۔۔ (حتیٰ کہ اِس ممانعت کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہوتی)۔۔۔ تو عہدِ اول کے مسلمانوں کی ایک تعداد تو ضرور ہی ایسی ہوتی جو اِن چیزوں میں بدستور شرکت کر رہی ہوتی! کیونکہ ایک چیز کا محرک صحابہؓ کی زندگیوں میں قوی طور پر موجود تھا؛ اِس حقیقت پر عقل، منطق، تاریخ سب شاہد ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معلوم امر ہے کہ کافر ملتوں کے تہوار بہت پیچھے سے چلے آرہے تھے اور قوموں کا جوش وخروش اپنی عیدوں اور تہواروں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتا!
خلفائے راشدین کا پورا عہد، یہی دستور رہا۔
عہدِ اول میں اِس حوالہ سے جو زیادہ سے زیادہ بے قاعدگی پائی گئی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ازراہِ تجسس و تماشا ان کے میلوں کی رونق دیکھنے چلے جاتے۔ اس کا ذکر ضرور ملتا ہے.. اور اِس پر عمر ؓ کی سرزنش بھی! چنانچہ حضرت عمرؓ اور دیگر علمائے صحابہؓ سے اِس بات کی ممانعت ملتی ہے کہ مسلمان، ذمیوں کے میلوں کا تماشا وغیرہ دیکھنے مت جائیں (جس کی کچھ تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے)۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں حضرت عمر ؓ تو اُن کے تہواروں کی خالی سیر کرلینے سے ہی مسلمانوں کو روکتے ہوں جبکہ اُن تہواروں میں سیدھی سیدھی شرکت کر آنے میں حرج کی بات ہی نہ ہو! حضرت عمر ؓ نے اِس معاملہ میں جتنی بے قاعدگی دیکھی اُتنا نوٹس لیا، یعنی مسلمانوں کو وہاں تفریح سے ہی روک دیا۔ لیکن کیا خیال ہے کوئی مسلمان اُن اعمال اور تقریبات ہی میں ہی باقاعدہ شریک ہو کر آتا، اس کو حضرت عمر ؓ چھوڑ دیتے؟!
یہاں تک دیکھ لو کہ جب بعض مسلمانوں کے ہاں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ کفار کے تہواروں کے دن روزہ رکھیں گے اور جبکہ اس سے اُن کے پیش نظر کفار کی مخالفت کرنا ہی تھا.. تو فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛ کیونکہ اِس سے بھی مسلمانوں کے یہاں کفار کے تہواروں کی ایک خصوصی حیثیت بن جانے کا اندیشہ پیدا ہورہا تھا۔ کیا اِن حقائق سے یہ چیز واضح نہیں ہوجاتی کہ عہدِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے جو دین لیا اُس میں کفار کے تہواروں میں ’’شریک‘‘ ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں؟

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
د: اجماع سے:
جہاں تک اجماع کی بات ہے تو وہ کئی پہلوؤں سے ہے:
اول۔ عہدِ اول کا متفقہ طرزِ عمل:
جس کی جانب میں ابھی اشارہ کر آیا ہوں: یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، سب ذمی اقوام مسلم خطوں میں شروع سے آج تک پائی گئی ہیں۔ جوکہ جزیہ دیتی رہیں اور اس کے مقابلے میں ان کو مکمل امان حاصل رہی۔ اِن کو اپنے دین پر چلنے کی آزادی تھی، جس میں اِن کے تہوار بھی آتے ہیں۔ معاشرے میں جب کسی ایک قوم کا تہوار ہو تو باقی اقوام میں یا کم ازکم ان کے ایک طبقے میں اس کی جانب میلان اور شرکت کا محرک ضرور پیدا ہوتا ہے، جیساکہ پیچھے ہم واضح کر چکے۔ مگر سابقین ؓکے عہد میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ملتا جو اہل ذمہ کے تہواروں میں شرکت کرکے آتا ہو۔ ایک ایسے دلچسپ اور رنگ برنگے تہوار میں شرکت کی جانب نفوس کا میلان طبعی بات ہے۔ پورا معاشرہ اِس سے رکا رہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’مانع‘‘ اِس سے بھی قوی تر ہو؛ جوکہ شریعت ہی ہوسکتی ہے۔ کافر تہواروں کے لیے مسلم نفوس میں اگر داخلی کراہت ہے اور وہ اُن کو اُس طرف رخ کرنے نہیں دے رہی تو اس کراہت کے پیچھے شریعت ہے۔ اور اگر ویسے اس کو ’’منع‘‘ سمجھتے ہوئے اِس سے دور رہتے ہیں تو اِس ’’منع‘‘ کے پیچھے شریعت ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ ایک چیز کا محرک قوی ہو اور مانع کوئی نہ ہو پھر وہ چیز عمل میں آنے سے مسلسل رکی رہے۔ لامحالہ یہ مانع شریعت ہے؛ جو ایک پورے معاشرے کو برس ہا برس بلکہ صدیوں ایک عمل سے روکے رکھتی ہے باوجود اس کے کہ ماحول میں اس کے محرکات پوری طرح موجود ہیں۔
عہدِ اول میں ہمیں اِسی ایک طرز عمل پر یکسوئی ملتی ہے۔ کوئی اختلاف ہوتا تو نہ صرف سامنے آجاتا بلکہ (نفوس میں) اِتنے قوی محرکات پائے جانے کے باعث ’دوسری رائے‘ کے پیروکار اُن تہواروں میں شرکت فرماتے بھی نظر آتے۔
دوم: صحابہ ؓ کا اتفاق کہ اہل ذمہ اپنے تہوار کھلے عام نہ منائیں گے:
شروطِ عمریہ میں یہ بات باقاعدہ درج ہے، اور جوکہ اکیلے حضرت عمر ؓ کا فیصلہ نہیں بلکہ صحابہؓ نے ا س پر اتفاق کیا اوراس کے بعد سب فقہاء کا اِس پر اتفاق چلا آیا ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ ہمارے اہل ذمہ بنتے ہیں وہ دار الاسلام میں اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ فقہاء کے ہاں ان تہواروں کے نام ذکر ہوئے مثلاً شعانین اور باعوث وغیرہ۔ اب اگر مسلمان اس پر متفق ہیں کہ کافر اِن تہواروں کو اپنی چاردیواریوں کے اندر رکھیں گے اور مسلمانوں کے مابین لے کر نہ آئیں گے تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ مسلمان خود وہ افعال کرنے لگیں؟ کافر کی نسبت ایک مسلمان کا کھلم کھلا وہ افعال کرنے لگنا کیا اس سے کہیں زیادہ سنگین نہیں؟
سوم: صحابہؓ اور سلف کا اِن تہواروں میں تفریح سے ممانعت کرنا:
۱۔ ابو الشیخ اصفہانی کی عطاء بن یسار (یا ابن دینار) سے روایت کہ حضرت عمر ؓنے ہدایت فرمائی تھی : إیاکم ورطانۃ الأعاجم وأن تدخلوا علی المشرکین یوم عیدہم فی کنائسہم ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں اُن کی عید کے روز مت جاؤ‘‘۔
۲۔ امام بیہقی نے باب باندھا ہے: باب کراہۃ الدخول علی أہل الذمۃ فی کنائسہم والتشبہ بہم یوم نیروزہم ومہرجانہم ’’اس بات کی کراہت کا بیان کہ اہل ذمہ کے گرجوں میں داخل ہوا جائے اور ان کے نوروز یا مہرجان کے دن اُن کی مشابہت کا کوئی کام کیا جائے‘‘۔ اس کے تحت بیہقی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت لاتے ہیں عن سفیان الثوری، عن ثور بن یزید، عن عطاء بن دینار: قال: قال عمر: لا تعلموا رطانۃ الأعاجم وأن تدخلوا علی المشرکین یوم عیدہم فی کنائسہم، فإن السخطۃ تنزل علیہم حضرت عمر ؓ کی ہدایت: ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں اُن کی عید کے روز مت جاؤ؛ کیونکہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘
۳۔ بیہقی کی روایت: عن الثوری، عن عوف، عن الولید عن عبد اللہ بن عمر، قال: من بنیٰ ببلاد الأعاجم فصنع نیروزہم ومہرجانہم وتشبہ بہم حتیٰ یموت وہو کذلک حشر معہم یوم القیامۃ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی تنبیہ: ’’جو شخص عجمیوں کے دیس میں تعمیرات کرے، ان کا نوروز اور مہرجان منانے لگے اور ان کی مشابہت اختیار کرے، یہاں تک کہ اس کو موت آلے، روزِ قیامت اس کا حشر اُنہی کے ساتھ ہونے والا ہے‘‘
۴۔ بیہقی ایک روایت امام بخاریؒ سے کرتے ہیں کہ: مجھ کو خبر دی ابن ابی مریم نے، اُس کو نافع بن یزید نے، اُس نے سنا سلمان بن ابی زینب اور عمرو بن الحارث سے، اُس نے سعید بن سلمہ سے، اُس نے ابان سے: کہ اُس نے امیر المومنین عمر بن الخطاب ؓ کو فرماتے سنا: اجتنبوا أعداءَ اللہ فی عیدہم ’’اللہ کے دشمنوں سے دور رہو اُن کی عید کے روز‘‘۔
۵۔ بیہقی ابو اسامہ کی سند سے، عن حماد بن زید، عن ہشام، عن محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں: کہ نوروز کے دن حضرت علی ؓ کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کیا گیا تو آپؓ نے پوچھا: یہ کیا؟ عرض کی گئی: اے امیرالمومنینؓ یہ نوروز کا دن ہے۔ آپؓ نے فرمایا: یہ فیروز روزانہ کیوں نہیں کر لیتے۔ ابو اسامہ (راوی) کہتے ہیں: حضرت علی ؓ نے ناگوار جانا کہ نوروز کا نام بھی سیدھا لیں (چنانچہ نوروز کو عمداً فیروز کہا)۔
اس کے علاوہ کچھ روایات ابن تیمیہ صحابہ کے اقوال سے لے کر آتے ہیں، اس کے بعد فرماتے ہیں:
اب حضرت عمر ؓاہل ذمہ کے گرجوں میں اُن کے تہواروں کے موقع پر جانے سے ممانعت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ اب اگر اُن کے تہوار خدا کے غضب کا محل ہیں لہٰذا آدمی کا اُس روز وہاں صرف پایا جانا اتنی بری چیز ہے تو اس تہوار کے کسی حصے میں ہی شریک ہوجانا کیوں خدا کے غضب کا موجب نہ ہوگا۔
اس کے بعد تابعین و تبع تابعین کے اقوال بھی لے کر آتے ہیں۔
اہل کفر کے سب تہوار ایک ہی جنس ہیں
کفار خواہ کتابی ہوں یا اُمی، دین اسلام میں ان سب کی عیدیں ایک ہی جنس ہیں؛ بعینہٖ جس طرح ان سب کا کفر اپنے حرام اور ناپسندیدہ ہونے میں ایک ہی جنس ہے۔ بے شک کسی ایک ملت کا کفر دوسری کے کفر کے مقابلے میں شدیدتر ہو مگر اپنے حکم کے اعتبار سے مسلمان کے لیے یکساں ہیں۔ تاہم یہ درست ہے کہ اہل کتاب کو اُن کے دین پر چھوڑ دیا گیا، جبکہ اُن کے دین میں اُن کی عیدیں اور اُن کے تہوار بھی آتے ہیں۔ لیکن اُن کے ساتھ دورِ عمرؓ میں (ازروئے صغار: آیت ۲۹ سورۃ توبہ) شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنے شعائر دین کو ظاہر باہر نہ کریں گے۔ جبکہ امیوں کو (جزیرۂ عرب میں) سرے سے نہ رہنے دیا گیا۔
تاہم یہ بات بھی مدنظر رہے کہ امیوں کے جن تہواروں کو ختم کیا گیا وہ عموماً لوک میلوں کی صورت میں پائے جاتے تھے جبکہ اہل کتاب کے تہوار وہ ہیں جن کو وہ دین سمجھ کر مناتے ہیں۔ اِس لحاظ سے کفارِ اہل کتاب کے تہوار اُمی کافروں کے لوک میلوں کی نسبت کہیں سنگین تر ہیں۔ ایک شخص خدا کی حرام کردہ اشیاء کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات پوری کرتا ہے تو وہ اتنا سنگین نہیں جتنا وہ شخص جو خدا کی حرام کردہ اشیاء کو خدا کے تقرب کا ذریعہ بنائے بیٹھا ہے۔ اول الذکر بات امیوں کے میلوں پر زیادہ صادق آتی ہے تو ثانی الذکر اہل کتاب کے تہواروں پر۔ یہی وجہ ہے کہ شرک زنا سے بڑا گنا ہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب سے جہاد کرنا بت پرستوں کے خلاف جہاد کرنے کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ نیز جس مسلمان کو اہل کتاب شہید کریں اُس کو دہری شہادت کا اجر ملتا ہے۔
اب جب یہ واضح ہے کہ شارع نے بت پرستوں کے تہواروں کو سرے سے ختم کرکے رکھ دیا، باوجود اس کے کہ (حدیث کی رو سے) شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ جزیرۂ عرب میں بت پرستی کا دور دورہ کروادے۔۔۔ تو پھر کتابی کفار کے شعائر سے چوکنا رہنا تو اور بھی ضروری ہے۔ پھر جبکہ رسول اللہ ا نے جو پیشین گوئی فرمائی ہے وہ یہ نہیں کہ مسلمان اُمی کفار کی پیروی کرنے لگیں گے بلکہ یہ پیشگوئی فرمائی کہ مسلمان کتابی کفار کے راستے چلنے لگیں گے۔ (۴۲۶ ۔ ۴۶۱)
المختصر
۔ عیدیں، ایک امت کی شرع اور اس کے مناسک کا حصہ ہیں؛ بعینہٖ جس طرح اُس کی نماز اور روزہ اور قربانی۔ آپ نے اُس کی عید میں شرکت کر لی یا اُس نماز میں یا قربانی میں، ایک برابر ہے۔ اُس کی عید پر موافقت ظاہر کرنا اُس کے باقی شعائر پر موافقت ظاہر کرنے ہی کی مانند ہے۔ بلکہ عیدیں اُن نہایت خاص اشیاء میں آتی ہیں جن کے دَم سے ایک شریعت اپنے ماسوا شرائع سے ممیز ہوتی ہے۔ اس لیے؛ کسی کافر قوم کی عید پر موافقت ظاہر کرنا شرائع کفر کی اخص الخاص اشیاء پر موافقت کے مترادف ہے؛ اور کچھ خاص صورتوں میں یہ فعل کفر تک جا سکتا ہے۔
۔ اُن کے تہواروں کی ایک ایک چیز معصیت ہے۔ اُس کی جو بہترین سے بہترین صورت فرض کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ: وہ اُن کے ہاں شروع زمانہ سے چلی آرہی ہو۔ یہ بھی شرعِ محمدی کے ہاتھوں اب منسوخ ہے؛ اور اُن کا اُس کو تقربِ خداوندی کا ذریعہ سمجھ کر جاری رکھنا خدا کی معصیت۔ پس اُن کی کسی عید یا کسی دینی شعار کی جو اچھی سے اچھی صورت ہو سکتی ہے __ جبکہ اُس میں کوئی اچھائی نہیں __ تو وہ یہ کہ ایک مسلمان بیت المقدس رُخ ہو کر خدا کی عبادت کرلے!
۔ عید اصل میں دین ہے۔ رہ گیا اُس کا عادات والا (کلچرل) پہلو، جیسے پکوان، پہناوے، تفریح اور تماشے تو وہ اپنے اصل کے تابع ہے۔ (عید حق ہے تو اُس کے رنگ میلے مستحسن ہیں، اور عید باطل ہے تو اُس کے رنگ میلے گناہ)
۔ کفار کی عیدوں کے حوالے سے مسلم معاشروں میں ایک بار دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے؛ باقی کام خودبخود ہونے لگتا ہے۔ معاشرے کا ایک کم علم آدمی جب تک ایک راستے سے ہی واقف نہیں، بس وہ تب تک ہی اُس سے دور ہے۔ اس کے بعد تو منکرات جس طرح بند توڑتے ہیں اور نصاریٰ کی سنتیں ہمارے جاہل طبقوں کے ہاں جس طرح مقبولیت پانے لگتی ہیں اُس کا اندازہ مشکل ہے۔
۔ جب ایک چیز معاشرے میں کچھ دیر چل لیتی ہے تو وہ خود روایت بن جاتی ہے؛ یہاں تک کہ لوگوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ چیز ان کی اپنی شریعت میں کہیں نہیں آئی۔ اسی عمل نے، اور اہل علم کی اِسی خاموشی نے، ہم سے پہلے پوری کی پوری امتوں کی لٹیا ڈبوئی ہے۔
۔ عیدیں مخلوق کے دین اور دنیا ہردو کے حق میں نہایت عظیم منفعت رکھتی ہیں۔ اِس لیے ہر شریعت نے اپنے پیروکاروں کے لیے جہاں نماز اور زکوٰۃ اور حج وغیرہ ایسی اشیاء کو جاری کیا وہاں اپنے پیروکاروں کے لیے عیدیں بھی جاری کیں۔ وَلِکُلِّ أمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُو اللّٰہَ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الأنْعَامِ۔
۔ قوموں کے مابین مشابہت اور مماثلت ایک طرح کی محبت اور مودت پیدا کراتی ہے۔ مسلمان کی کافر سے قربت اختیار کرنا اس کے اپنے دین کا نقصان ہے۔ (۴۷۱ ۔ ۴۹۰)
عَنْ عَدِیٍّ بْنِ حَاتِمٍؓ ، قَالَ فَأتَیْتُہٗ فَإذَا عِنْدَہٗ امْرَأۃً وَصِبْیَانٌ، وَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنَ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: فَعَرَفْتُ أنَّہٗ لَیْسَ بَمْلِکِ کِسْریٰ وَلا قَیْصِرَ۔ فَقَالَ: ( یَا عَدِیُّ مَا أفَرَّکَ؟ أنْ یُقَالَ لا إلٰہَ الا اللّٰہُ؟ فَہَلْ مِنْ إلٰہٍ إلا اللّٰہُ؟ مَا أفَرَّکَ أنْ یُقَالَ اللّٰہُ أکْبَرُ؟ فَہَلْ شَیْءٌ أکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ ) قَالَ: فَأسْلَمْتُ، فَرَأیْتُ وَجْہَہٗ اسْتَبْشَرَ وَقَالَ: إنَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْہِمْ: الْیَہُوْدُ وَإنَّ الضَّالِّیْنَ: النَّصَاریٰ (اابن کثیر: رواہ أحمد والترمذی، وقد روی من طرق ولہ ألفاظ کثیرۃ یطول ذکرہا)
روایت عدی بن حاتم ؓ سے:
کہا میں (بوقت قبول اسلام) آپ ا کے پاس جاضر ہوا اور آپ کے پاس ایک عورت اور کچھ بچوں کو موجود پایا جو آپ ﷺ کے بہت قریب تھے، جس سے میں نے جانا یہ کوئی کسریٰ اور قیصر جیسا بادشاہ نہیں ہے۔ آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا: اے عدی کیا چیز تمہیں ہم سے فرار اختیار کروانے کا موجب بنی؟ کیا اس لیے کہ یہ کہنا پڑجائے گا ’’نہیں کوئی الٰہ سوائے اللہ کے؟ تو کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اس لیے بھاگ لیے کہ کہنا پڑجائے گا: اللہ سب سے بڑا ہے، تو کیا ہے کوئی شے جو اللہ سے بڑی ہو؟ عدی کہتے ہیں تب میں نے اسلام قبول کر لیا۔ تب میں نے آپؐ کے چہرہ مبارک کو دیکھا کہ کھل اٹھا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: مغضوب علیہم بے شک یہود ہیں۔ اور ضالین یقیناًنصاریٰ ہیں
نوٹ: کتاب کے جس نسخے سے ہم نے استفادہ کیا ہے وہ شیخ حامد الفقی مرحوم کا تحقیق شدہ نسخہ ہے، جس کو بعدازاں شیخ ناصر عبد الکریم العقل نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع بنایا ہے ۔ ہر قطعہ کے اختتام پر، ہم نے اصل کتاب کے صفحات نمبر کا حوالہ دیا ہے اور یہ صفحات نمبر شیخ ناصر کی تحقیق ومراجعہ پر مبنی نسخہ کے مطابق ہیں۔ سرخیاں اور حواشی ہمارے دیے ہوئے ہیں۔
اصل عربی کتاب کا ویب لنک: http://www.islamhouse.com/p/102361
ادارہ ایقاظ اس پوری کتاب کا اردو استفادہ پیش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اس کتاب کا جو واحد (ہمارے علم کی حد تک) اردو ترجمہ \ اختصار مارکیٹ میں دستیاب ہے اس میں کتاب کے اصل مباحث تقریباً ناپید ہیں۔

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
(۱) اشارہ ہے صحیح مسلم کی اس حدیث کی طرف:
وَإنَّ اللّٰہَ نَظَرَ إلیٰ أہْلِ الأرْضِ فَمَقَتَہُمْ عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُمْ إلَّا بَقَایَا مِنْ أہْلِ الْکِتَابِ وَقَالَ إنَّمَا بَعَثْتَکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَأبْتَلِیَ بِکَ، وَأنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَاباً لا یَغْسِلُہٗ الْمَاءِ تَقْرَؤُہٗ نَاءِماً وَیَقَظَانَ۔
(رواہ مسلم، عن عیاض بن حمار المجاشعی، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا۔۔ رقم: ۲۸۶۵)
اللہ تعالی نے اہل زمین پر نگاہ فرمائی تو ان کے سب عرب و عجم سے بیزار ہوا، سوائے کچھ بچے کھچے اہل کتاب (شرح نووی: یعنی اہل کتاب کے وہ معدودے چند لوگ جو اپنے اصل دین حق پر بغیر تبدیلی کے باقی تھے) اور فرمایا (اے محمدؐ) میں نے تجھے مبعوث فرمایا ہے اس لیے کہ تجھے آزماؤں اور تیرے ذریعے آزماؤں۔ اور تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے پانی نہ دھو سکے (شرح نووی: یعنی جو سینوں میں محفوظ ہوگا اور تغیراتِ زمانہ ا س کو مٹا نہ سکیں گے) جس کو تو سوتا جاگتا پڑھے گا۔
فَمَقَتَہُمْ عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُم لفظ مقت کے معنیٰ میں امام نوویؒ کہتے ہیں: أشَدُّ الْبُغْضِ۔ یہی لفظ قرآن میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ غافر (آیت ۱۰) میں: لَمَقْتُ اللّٰہِ أکْبَرُ مِنْ مَقْتِکُمْ لِأنْفُسٍکُمْ ، یہاں پر بیشتر اردو تراجم میں اس کا معنیٰ ’’بیزاری‘‘ کیا گیا ہے۔
ابن تیمیہ کتاب کی عین ابتداء میں یہ مبحث لائے ہیں کہ: چودہ سو سال پہلے ہی جملہ اہل زمین سے اللہ رب العزت کی بیزاری ہو چکی ہے؛ پوری انسانیت خدا کے ہاں ردّ disapproved تھی اورہے، سوائے اُن خوش بختوں کے جو (بصورتِ اسلام) محمد ﷺکے ذریعے دی جانے والی آزمائش میں پورا اتریں اور خدا کے ہاں سرخرو ہوں۔ گلوبلائزیشن کی دہلیز پر قدم رکھنے کے لیے پہلا سبق!
(۲)"اسلام میں سنتِ جاہلیت کا چلن کروانے‘‘ کے حوالے سے اشارہ ہے اس حدیث کی جانب:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما أن النبی ﷺ قال:
أبْغَضُ النَّاسِ إلَی اللّٰہِ ثَلَاثَۃٌ: مُلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِی الإسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِیئ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُہْرِیْقَ دَمَہٗ
(البخاری، کتاب الدیات، باب من طلب دم امرئ بغیر حق رقم الحدیث: 6468)
روایت عبد اللہ بن عباس سے، فرمایا رسول اللہ نے:
تین آدمی اللہ کو سب سے زیادہ برے لگتے ہیں: حرم میں الحاد کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کی سنت کا چلن چاہنے والا، اور جو کسی شخص کا ناحق خون کروانے کے درپے ہے۔
(۳)کیک کی بابت کیا خیال ہے ؟!
(۴)جبکہ ’’کرسمس‘‘ اسی صنف میں آتا ہے، بلکہ یہ اپنی اصل origin میں ایک رومن تہوار ہے، جس کا اعتراف عیسائی محققین بھی کرتے ہیں۔ مسیح ؑ اور آپؑ کے حواری کسی کرسمس اور سانٹا کلاز سے واقف تک نہ تھے۔ یہ تصور بھی درست نہیں کہ امتِ مسیحؑ کے بعض دیندار طبقوں نے اپنے اندازے سے اس کو مسیحؑ کا یوم پیدائش جان کر، اور اپنے نبی کے لیے فرطِ عقیدت میں آکر یہ بدعت گھڑ لی ہو۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بت پرست رومنز پہلے سے ہی اپنے ’بڑے دنوں‘ میں یہ تہوار مناتے چلے آرہے تھے۔ اپنے عیسائی دور میں اِسی عید کو وہ مسیحؑ کے نام سے منانے لگے!
(۵)برصغیر کے اردو تراجم میں اِس آیت کے تحت زیادہ تر یہی معنیٰ بیان ہوا ہے ۔ یعنی جھوٹی شہادت۔ جس کو امام ابن تیمیہؒ محل نظر ٹھہراتے ہیں اور آگے اس کی دلیل دیتے ہیں۔
(۶)یہاں وہ حضرات غور فرمائیں جو کرسمس کو عیسائیوں کا ایک سماجی تہوار قرار دے کر جائز کرنے کے چکر میں ہیں۔ اپنی اِسی ’دلیل‘ کی رو سے ابھی شاید یہ ’’دیوالی‘‘ پر بھی ہاتھ صاف کریں!
(۷)بلاشبہ حدیث میں ’’جمعہ‘‘ کو مسلمانوں کی عید کہا گیا ہے (یعنی ہفتہ وار عید)۔ اور اس دن نہانے دھونے اور خصوصی اہتمام کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: قال رسول اللہ ﷺ: إنَّ ہٰذَا یَوْمُ عِیْدٍ جَعَلَہُ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِیْنَ، فَمَنْ جَاءَ إلَی الْجُمُعَۃِ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإنْ کَانَ طِیْبٌ فَلْیَمَسَّ مِنْہُ، وَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاکِ (رواہ ابن ماجۃ کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیہا رقم الحدیث ۱۰۹۸، البانی نے اسے حسن کہا ہے، دیکھئے: البانی کی صحیح ابن ماجہ رقم الحدیث ۹۰۱، نیز مشکاۃ پر البانی کی تخریج رقم ۱۳۹۸ ) ’’ابن عباس ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (جمعہ) اللہ نے مسلمانوں کے لیے روزِ عید بنایا ہے۔ پس جو شخص جمعہ کو آئے اُسے چاہئے کہ غسل کرے، خوشبو ہو تو وہ لگائے۔ اور دانت بھی ضرور صاف کرو‘‘۔
کسی نے ابن عباس ؓ کی یہ حدیث نہ بھی سنی ہو، اسلامی زندگی میں جمعہ کی مرکزی حیثیت ایک جاہل سے جاہل انسان کو بھی معلوم ہے۔ عالم اسلام میں صلیب کی پیش قدمی کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ عشرہ پیشتر یہاں کے ایک ’رائٹ ونگ وزیر اعظم‘ کی جانب سے مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل، جمعہ سے شفٹ کر کے اتوار پر لے جانا چرچ کی عالمی مہم برائے تنصیر campaign for Christianizing the world کے لیے ایک تاریخ ساز قدم تھا۔ یہ اقدام اِس ظالم شخص نے قوم سے اپنے پہلے ہی نشریاتی خطاب میں کیا، ساتھ (علمائے دربار کے تلقین کردہ) کچھ ’شرعی دلائل‘ سے بھی قوم کو مستفید فرمایا۔ یہی ’دلائل‘ بعد ازاں اُس کی اتحادی مذہبی جماعتوں کے پیروکاروں سے جگہ جگہ سنے گئے کہ ’قرآن حدیث سے دلیل دو کہ جمعہ کو چھٹی کرنی چاہئے‘! نیز یہ کہ سورۃ الجمعۃ میں تو یہ کہا گیا ہے کہ نماز پڑھ لو تو تلاشِ روزگار کے لیے زمین میں نکل کھڑے ہو‘۔ لہٰذا یہاں تو ’’کام کرنے‘‘ کا ذکر ہے
’’چھٹی‘‘ کا ذکر کہاں ہے‘؟ گویا دین کی اصل روح اِنہوں نے ہی سمجھی ہے! بہت خوب! تو پھر قرآن حدیث میں تو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی چھٹی کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے؛ لہٰذا یوں کرو کہ ’’قرآن حدیث‘‘ کی اِس سپرٹ کو صحیح صحیح قائم کرنے کے لیے عیدین کی چھٹی ختم کر کے ’’کرسمس‘‘ کی چھٹی رائج کردو!
ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے: یہ مقامی واقعات، تیزی کے ساتھ جاری ایک عالمی عمل کی بازگشت ہیں۔ عین اِس جگہ پر مسئلہ کو قرآن حدیث سے ’تعطیل‘ ثابت ہونے یا نہ ہونے کی طرف لے جانا ایک شاطرانہ ’مذہبی‘ حربہ ہے اور اپنی اصل کے اعتبار سے صرف علمائے یہود کو زیب دیتا ہے۔
صاف سی بات ہے، اپنے اِس دُوررَس اقدام سے اِس شخص نے ملتِ اسلام کے قلب میں صلیب کا اتنا بڑا خنجر گھونپا ہے کہ ’’تہذیبوں کے گھمسان‘‘ میں دشمن کو صدیوں کے حساب سے پیشرفت دلوادی گئی۔ اِن اشیاء کو سرسری لینا ظلم ہے۔ یہ شخص (بمعہ اپنے علمائے دربار) اگر اپنے اِس جرم کا دھونا نہیں دھوتا یا کم از کم اس کے لیے پریشان اور سرگرم نظر نہیں آتا تو دعا ہے کہ اللہ اس سے پوری ملتِ اسلام کا انتقام لے جس کو باندھ کر اور اس کے تہذیبی وجود کو بے بس کرکے اِس وقت ملتِ صلیب کے آگے ڈالا جارہا ہے۔
اب آئیے آیتِ سورہ جمعہ کی اصل دلالت کی جانب۔۔۔ آپ کو یاد ہو تو شروع کتاب میں امام ابن تیمیہ نے ’’مقاصدِ شریعت‘‘ کے حوالے سے یہ نکتہ بیان فرمایا تھا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے احکام میں جہاں ظاہری اشتراک ہو، وہاں بھی شریعت کی جانب سے کچھ نہ کچھ فرق کروا دیا جاتا ہے تاکہ دو ملتوں کے مابین لکیر کو گہرے سے گہرا کیا جائے۔ اب مثلاً؛ حیض کی حالت میں نماز روزہ اور مباشرت سے اجتناب ہردو شریعت کے اندر موجود ہے، مگر یہود کی سخت شریعت کے مقابل اسلام کی نرم شریعت میں یہ فرق کروایا گیا کہ یہود عورت کو حالت حیض میں بالکل الگ تھلگ کر دیتے ہیں مگر تم مسلمان گھل مل سکتے ہو، صرف حالت نماز و روزہ یا صریح مباشرت وغیرہ سے پرہیز ہے۔ بعینہٖ اسی طرح؛ جمعہ میں نماز کی پکار لگ جانے کے بعد سب اعمالِ دنیا کو معطل ٹھہرا دینا سورۃ جمعہ میں فرض ٹھہرا دیا گیا۔ ظاہر ہے یہود بھی اپنے سبت کو یہی حیثیت دیتے ہیں۔ یہ ایک ’’اشتراک‘‘ ہوا۔ لہٰذا اگلی آیت میں ہر دو شریعت کے مابین ایک ’’فرق‘‘ کروا دیا گیا اور وہ
یہ کہ یہود کے ہاں سبت کا پورا دن اعمالِ دنیا سے پرہیز کرنا ازروئے شریعت ضروری ہے (قرآن میں سبت کو مچھلیاں پکڑنے والوں پر عذاب کا ذکر تک آتا ہے)۔ مگر مسلمانوں پر یہ چیز پورا دن فرض نہیں ہے۔ اصولِ فقہ میں ایک معروف قاعدہ ہے کہ صیغۂ اَمر اگر ممانعت کے بعد آئے تو وہ اِباحت (جواز) کا فائدہ دیتا ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں اذانِ جمعہ ہوتے ہی ہرکام معطل کر دینے کا حکم ہوا، اب یہاں اعمالِ دنیا کی اجازت دے کر باقی دن کے لیے مسلمان کو آزاد کر دیا اور یہود کی شریعت سے امتیاز بھی۔ پس یہ ایک تخفیف کا ذکر ہے، نیز یہود کی شریعت سے ہماری شریعت کا ایک فرق۔ خصوصاً جبکہ آغازِ سورت میں ’’امیوں‘‘ اور ’’یہودیوں‘‘ کے مابین کچھ نہایت عظیم الشان فرق بیان کیے گئے ہیں۔
خود اِسی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم) میں ایک جگہ امام ابن تیمیہؒ اِس بات کو مذموم ٹھہراتے ہیں کہ یہود کی دیکھا دیکھی بعض مسلمان بھی یہود کے سبت کی طرح اپنے جمعہ کو دنیوی کام کاج کے لیے معیوب اور متروک بنانے لگے ہیں اور جوکہ ’’مشابہت‘‘ میں آتا ہے جبکہ ہماری شریعت نے صراحت کے ساتھ اِس مسئلہ پر یہود کی شریعت سے فرق کروایا ہے۔
یہ ہے حقیقت آیاتِ جمعہ میں اعمالِ روزگار کے اول ممنوع اور بعد از نماز جائز ہونے سے متعلق احکام کی۔ جس کی ایک بہت بڑی بنیاد اہل کتاب سے مشابہت ختم کرنا بھی ہے۔ کوئی اِس سپرٹ کو شدید حد تک قائم کرنے کے لیے ’’ہفتہ وار تعطیل‘‘ ہی کے تصور پر تنقید کرے تو بات سمجھ آتی ہے، کہ اِس شخص کو اہل کتاب سے مشابہت اِس حد تک ناگوار ہے۔ البتہ ’’تعطیل کا تصور‘‘ تو وہ ویسے کا ویسا لے کر چلے، مگر اُسے اہل اسلام کے خصوصی دن (اہل اسلام کی ہفتہ وار عید) سے اٹھاکر عیسائیوں کی ہفتہ وار عید پر لے جائے، تو ایسے ہی شخص کے لیے عربی میں بولا جاتا ہے فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَقَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا‘‘۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیچھے کوئی فقہی استدلال نہیں، بلکہ دنیائے حقیر کے بدلے آیاتِ خداوندی کو بیچنا ہے۔ دین سے نابلد ایک پرائم منسٹر کو سورۃ الجمعۃ سے دلیل سجھانے والے، اِس آیت پر پہنچنے سے پہلے اِسی سورت کے اِس مقام سے بھی گزرے ہوں گے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً
(۸)اِس مختصر اردو اِستفادہ میں ہم اِن فقہی تفاصیل کا ذکر نہیں کر سکیں گے


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
عقیدہ الولا ء والبراء
شیخ عبد العزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ
الولاء والبراء کا مطلب ہے:
۔ محبت اور موالات؛ جوکہ مومنوں کے ساتھ ہو
۔ بغض اور معادات؛ جوکہ کافروں کے ساتھ ہو
۔ نیز ایک کھلی برأت جوکہ کافروں سے اور کافروں کے دین سے کر دی گئی ہو
یہ ہے: الولاء والبراء۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے سورۃ الممتحنۃ میں فرمایا ہے:
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَء اؤا مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ (الممتحنۃ: ۴)
تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ ہم نے تم سے کفر کیا۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ
البتہ اِس بغض و عداوت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان پر ظلم کریں یا ان کے ساتھ زیادتی کرنے لگیں؛ اِلا یہ کہ وہ ہمارے خلاف محارب ہوں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بطور مسلمان آپ ان سے ایک دلی نفرت اور عداوت رکھیں۔ وہ ہرگز آپ کے دوست نہ ہوں۔ اس کا یہ مفہوم بہرحال نہیں کہ تم ان کو ایذاء پہنچاؤ، یا ان کا کوئی نقصان کر کے آؤ یا اُن پر ظلم ڈھانے لگو! اگر وہ سلام کریں تو تم اس کا جواب دو۔ ان کو نصیحت اور آموزش کرو اور خیر کی راہ دکھاؤ؛ جیساکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ (العنکبوت: ۴۶)
اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر اس طریقے سے جو عمدہ ترین ہو، سوائے ان میں کے وہ لوگ جو ظلم و ناانصافی پر اتر آئیں
اِس آیت میں اہل کتاب کا ذکر ہوا ہے، جس سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں۔ یہی حکم اُن دیگر کفار کا ہو گا جن کو ہمارے یہاں سے کوئی امان یا عہد یا ذمہ حاصل ہے۔ ہاں اُن میں سے کوئی ظلم کرے تو اس ظلم کا بدلہ ان کو دیا جائے گا۔ بصورتِ دیگر اُن سے عقیدہ کا جھگڑا اور اختلاف محض اور محض عمدہ طریق سے ہی کیا جائے گا۔ جھگڑے میں عمدہ طریق اختیار کرنا مسلمان کے ساتھ بھی ہے اور کافر کے ساتھ بھی؛ باوجود اس کے کہ کافر کے ساتھ وہ بغض بھی برقرار رہے گا جس کا ذکر پیچھے آیتِ کریمہ کے اندر گزرا ہے۔ نیز اللہ رب العزت کا یہ فرمان:
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۵)
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ حکمت کے ساتھ اور عمدہ فہمائش کے ذریعے۔ اور ان سے جھگڑو صرف اُس طریقے سے جو عمدہ ترین ہو
چنانچہ باوجود اس کے کہ آدمی اُن کے ساتھ خدا واسطے کا بغض اور بیر رکھتا ہو گا (از روئے آیت سورۃ الممتحنۃ ۴) مگر ان پر کوئی ظلم اور تعدی پھر بھی نہیں کرے گا۔ مسلمان کے لیے یہی مشروع رہے گا کہ وہ ان کو اللہ کے راستے کی طرف بلاتا رہے۔ ان کو رشد و ہدایت کی تعلیم دیتا رہے کہ کیا بعید اللہ کسی دن ان کو راہ حق پر آنے کی توفیق عطا فرما دے ۔ اس چیز میں بھی شریعت کے اندر کوئی مانع نہیں کہ آدمی اُن کے ساتھ صدقہ و احسان کرے؛ از روئے فرمانِ الٰہی:
لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنۃ: ۸)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتل بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا ۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
مزید برآں، صحیحین میں یہ حدیث ثابت ہے کہ نبی ا نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ (مکہ سے آئی ہوئی) اپنی ماں کے ساتھ صلہ کا برتاؤ کرے، اور یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب نبی ا اور اہل مکہ کے مابین متارکۂ جنگ کا ایک معاہدہ (صلح حدیبیہ) ہو چکا تھا۔

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
وَتَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ‘‘

ہر دور اپنے ساتھ مخصوص فکری اَھواء intellectual whims لے کر آتا ہے جو عقول پر وائرس کا اثر رکھتی ہیں(۱) ۔ اِس میں سب سے پہلے آپکی نگاہ متاثر ہوتی ہے اور پھر ہر چیز اپنے زمانے کے مخصوص رنگوں میں نظر آنے لگتی ہے؛ اور کسی کسی وقت تو کتاب و سنت کے مدلولات میں بھی آپ ’اپنے زمانے کے تقاضے‘ پڑھنے لگتے ہیں!
یہ سب ہولناک وبائیں اِس بہتات سے ہمارے ہی دور میں کیوں پھوٹ پڑیں؟
اس کا جواب بہت سادہ ہے: ہمارے گھر کی جو ایک دیوار تھی اُس کے تھوڑے تھوڑے حصے تو بڑی دیر سے منہدم ہو رہے تھے مگر اب دو ڈھائی صدی ہونے کو ہے یہ دیوار ہی دھڑام سے آگری ہے؛ جس سے اِس کی چھت بھی جاتی رہی۔ اب ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جہاں ہر طرح کے موسمی حالات ہم پر حملہ آور ہونے کا سو فیصد موقع پاتے ہیں؛ جس کا سب سے زیادہ اثر ہمارا دانشور طبقہ قبول کرتا ہے۔ اِس مسئلہ کی اصل تشخیص بس اتنی ہے۔ باقی سب کچھ؛ اِس کی علامات symptoms کہئے۔ کتاب و سنت میں ہر طرف ’سوشل ازم‘ کا نظر آنا، پورا دینِ اسلام ’جمہوریت‘ کی دہائی دیتا نظر آنا، جگہ جگہ ’سیکولر ازم‘ کے دلائل دکھائی دینا، نصوصِ شریعت میں جابجا تقاربِ ادیان Interfaith Rapproachment کے ثبوت نظر آنا اور قرآن کے ذکرکردہ ’’کلمۃٌ سواءٌ‘‘ (۲)کو بھی اُسی ’مذہبی ہم آہنگی‘ والی تفسیر میں دیکھنا جو مستشرقین کے ڈیسک پر تیار ہوئی۔۔۔ یہ سب کچھ اِس مریض کی کچھ دکھتی ہوئی جگہیں ہیں۔ یہ اِس جان لیوا عارضہ کی محض کچھ علامات ہیں۔ اصل روگ پیچھے ہے اور وہ یہ کہ اِس امت کا گھر ڈھ گیا ہے اور فی الوقت یہ کھلے آسمان تلے بیٹھی ہے؛ جہاں کوئی ادنیٰ ترین موسمی تبدیلی بھی اِس پر اثرانداز ہوکر رہتی ہے۔۔۔ جس کا اثر آپ کبھی ایک صورت میں دیکھتے ہیں تو کبھی دوسری صورت میں!
یہ اصل روگ جب تک باقی ہے، مریض کا ایک کافی شافی علاج کر دینا تو سمجھئے کسی کے بس میں نہیں۔ ’حفاظتی تدابیر‘ نارمل حالات میں کارگر رہتی ہیں۔ البتہ اگر آپ کو پہلے سے ہی ایک غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے تب تو ایک بڑی آفت اپنا اثر دکھاکر رہتی ہے۔
حالات انتہائی نارمل ہوں تو بھی آپ کو ’’تحفظ‘‘ کی ہر صورت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ البتہ جب آپ ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوں، پھر تو یہ چیز ناقابل تصور ہوتی ہے کہ آپ اپنی ذات یا اپنے پیاروں کے تحفظ سے لاپروا ہو جائیں۔ البتہ جہاں تک موسمی وباؤں سے ’’تحفظ‘‘ immunization کا سوال ہے، تو وہ ایک ہی ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جس کا پیش لفظ أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار ایسے سرمدی الفاظ سے عبارت ہے۔ یعنی ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتی بات پر شدید درجے کا چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ یہ ایک ایسا کمال کا تحفظ immunization ہے کہ ’موسم‘ خواہ کتنا ہی بے رحم ہو لے، اور کیسی ہی مہلک وبائیں کیوں نہ پھوٹ لیں، استشراق کی لیب سے کیسے ہی خطرناک وائرس تیار ہوکر کیوں نہ نکل آئیں.. جس جس نے یہ حفاظتی عمل immunization کروارکھا ہو وہ اللہ کے فضل سے مکمل طور پر محفوظ رہتا ہے اور ’زمانے کے اثرات‘ اِس چٹان سے ٹکرائیں تو اپنا ہی سر پھوڑتے ہیں۔ پس کچھ عجب نہیں کہ یہ حفاظتی نسخہ immunization آپ کو ہر خطبے اور ہر مجلس میں دیا جائے اور اہل اسلام کی ہر تقریب اس کے بغیر ادھوری سمجھی جائے!
اِس وقت جو فتنہ کالی آندھی کی طرح چڑھا آرہا ہے وہ ہے مسلمان کی زندگی میں ’’دین‘‘ کی مرکزیت کو ختم کر دینا۔ سیکولرازم ہے تو وہ اس فتنہ کا محض ایک شیڈ shade ہے۔ نیشنلزم ہے تو وہ اسی فتنہ کا ایک دوسرا شیڈ ہے۔ اور اب یہ ’مذہبی ہم آہنگی‘ Inter-faith Harmony کی عالمی رَو ہے جوکہ بڑی تیزی کے ساتھ عالم اسلام کا رخ کر رہی ہے۔۔۔ تو یہ عین اسی فتنہ کا ایک تیسرا شیڈ ہے۔ یہاں ایک ایسی دنیا تعمیر کی جارہی ہے جہاں ’’دین‘‘ رہے تو اپنی ایک حاشیائی حیثیت میں اور معاشرے کے کونوں کھدروں میں پڑا رہنا قبول کرتے ہوئے۔ ’’دین‘‘ نہ تو انسان کی دوستی دشمنی میں جھلکے ، نہ ’’دین‘‘ انسان کی مرکزی ترین اجتماعی شناخت ہو، نہ ’’دین‘‘ انسان کے قومی و اجتماعی سیٹ اپ کا اساسی جوہر ہو، اور نہ ’’دین‘‘ انسان کی اجتماعی زندگی میں شریعت اور قانون کا درجہ پا کر رہے۔ مالکِ کائنات کی آسمانوں میں جو بھی شان ہے اور عبادت خانوں میں اُس کا جوبھی مقام ہے، برسرزمین __ معاذ اللہ __ اُس کی یہ حیثیت نہیں کہ دنیا اِس بنیاد پر تقسیم ہو کہ کون اُس کا مومن ہے اور کون اُس کا کافر؛ کون اُس کو معبودِ لاشریک مان کر اپنی پوری دنیا کو اُس کے آگے جھکادینا قبول کرتا ہے اور کون اُس کی زمین میں اُس کے ہمسر اور اُس کے مدمقابل لا کھڑے کرتا ہے۔ سب رشتوں اور بندھنوں کا سرچشمہ اُسی کی ذات ہو اور انسانی اجتماعیت اُسی کے لیے محبت اور اُسی کے لیے بغض، اُسی کے لیے دوستی اور اُسی کے لیے دشمنی کا دم بھرے، اُسی کے لیے ٹوٹنے اور اُسی کے لیے جڑنے کے قاعدہ و اصول پر استوار ہو اور صرف اُسی کی شریعت پر قائم۔۔۔ ایسے ’’دین‘‘ کے لیے اُن کے اِس مجوزہ جہان میں کوئی جگہ نہیں۔ اس کو ہمارے یہاں سے رخصت کروا دینے کے لیے اب وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور اِس جنگ میں ہر حد سے گزر جانے پر آمادہ ہیں۔
دوسری جانب، انبیاء ہمیں جس ’’دین‘‘ کا پتہ دے گئے وہ اُس وقت تک وجود میں ہی نہیں آتا جب تک آدمی ملتِ کفر سے بیزاری نہ کر دے اور جب تک اللہ لاشریک کی عبادت کو اور اُس کے رسول سے اٹوٹ وابستگی اور اُس کی شریعت کے مطلق اتباع کو اپنی زندگی اور اپنے اجتماع کی واحد بنیاد نہ مان لے:
’’انبیاء‘‘ کی بعثت کے ساتھ ہی جہان میں دو ملتیں وجود میں آجاتی ہیں اور دونوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی عداوت۔ سب دوریاں اور ہجرتیں اِسی ایک چیز کی پیداکردہ ہوتی ہیں؛ کوئی ’حقوق‘ کا مسئلہ اور نہ ’محرومیتوں‘ کی کہانی۔ صرف اور صرف۔۔۔ ’’عبادۃُ اللہ وحدہٗ‘‘ اور ’’عبادتِ غیر اللہ‘‘ کا مسئلہ اِن دونوں کے بیچ ایک لکیر کھینچتا ہے اور پھر یہ لکیر تاقیامت انمٹ ہوتی ہے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، یہ لکیر اپنی جگہ رہتی ہے۔ توحید کی قاموس نسلِ آدم کے مابین ’’سرحد‘‘ کا کوئی معنیٰ اور مفہوم بتلاتی ہے تو وہ بس یہی۔ ’’سرحد‘‘ کا یہ وہ تصور ہے جو آج ایک بڑی سطح پر غائب ہے (کیونکہ توحید کا مجرد علم ہی ایک بڑی سطح پر آج مفقود ہے) اور جوکہ باقی سب لکیروں کو ملیامیٹ کر دینے کے بعد ہی اَذہان میں جگہ پاتا ہے۔ ’’نبی کی بعثت‘‘ ایک باہم شیروشکر قوم کی زندگی میں ایسے ہی ایک ’’نئے‘‘ واقعے کو جنم دے ڈالنے کا نام ہے: ایک ہی قوم، ایک ہی دھرتی کے فرزند، ایک ہی سانجھی معیشت اور معاشرت اور مشترکہ مفادات کے حامل ’ہم وطن‘۔۔۔ نبی کی بعثت کے ساتھ ہی دو متوازی ملتوں میں بٹ جاتے ہیں؛ ان میں ہمیشہ کے لیے جدائی پڑ جاتی ہے اور دونوں کے مابین ایک کھلے بیر اور عداوت کا رشتہ جنم لے لیتا ہے۔۔۔ تاآنکہ اِس عمل کے نتیجے میں ایک بالکل نیا اور یکسر مختلف جہان وجود میں آتا ہے جس کو ’’دار الاسلام‘‘ (اسلام کے گھر) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی وطن تھا سو وہ بدلا۔ قومیت تھی سو وہ کچھ سے کچھ ہو گئی۔ اجتماعی شناخت تھی سو وہ بالکل اور ہو گئی۔ شریعت تھی سو اَب وہ بالکل اور ہے۔ دستور تھا سو وہ دفن ہوا (۳)اور اب بالکل ایک نیا دستور ہے اور ان دونوں میں نام کو بھی کوئی خلط نہیں۔ اِس نئی اجتماعیت میں دوسری ملت کے لیے کوئی گنجائش ہے تو وہ ’’ذمی‘‘ کی حیثیت میں؛ ایک ایسی ’کیٹگری‘ جو آج کفار کو ہی نہیں بہت سے مسلمانوں بلکہ داعیانِ اسلام کو حیرت زدہ کرتی ہے! اِس نئی اجتماعیت کو دَارِ اسلام کہتے ہیں.. اور دَورِ اسلام بھی۔ اِسی کو اسلامی کیلنڈر اور اسلام کی حیاتِ اجتماعی کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے، جبکہ اِس سے ماقبل جو اجتماعیت پائی جاتی تھی اُس کے لیے صرف ایک لفظ ہے: دَورِ جاہلیت۔ اور اِس سے باہر جو اجتماعیت ابھی تک پائی جا رہی ہے اُس کا صرف ایک وصف ہے: دَارِ جاہلیت۔ محمد ا کا جہان میں مبعوث ہونا ایک مسلمان کے لیے یہ سب دلالتیں ساتھ لے کر آتا ہے؛ اور اِن دلالتوں کو مانے بغیر اپنے آپ کو محمد ا کا حلقہ بگوش جاننا اور محض آپ ا کی سیرتیں اور نعتیں پڑھ آنے کو آپ ا سے وابستگی کے لیے کافی خیال کرنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ملتِ شرک سے بیزاری دکھانا.. نہ صرف بتوں سے بلکہ بتوں کی عبادت کرنے والوں سے نہ صرف عداوت کرنا بلکہ اِس عداوت کو باقاعدہ ریکارڈ پر لے کر آنا اور اس کے مقابلے میں صرف اہل توحید سے اپنی وفاداری اور وابستگی کو ہی اپنی پہچان اور اپنی اجتماعیت کی بنیاد ماننا۔۔۔ یہی ملتِ ابراہیم ؑ ہے؛ یعنی ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ کے اس طریقے سے جو اُس ؑ نے خدا کی فرماں برداری میں ملتِ شرک کے مدمقابل اختیار کیا تھا بے رغبتی برتنے والے ’نیکوکار‘ جو خدا کو محض ایک ’مجموعۂ عقائد‘ اور ایک ’مجموعۂ اَخلاق‘ اور ایک ’مجموعۂ عبادات‘ کے ذریعہ سے ہی راضی کرلینے پر مصر ہوں، اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔
وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ (البقرۃ: ۱۳۰)
’’اور کون ہے جو ملت ابرہیم ؑ سے اعراض کرے، سوائے یہ کہ اپنے آپ ہی کو بے وقوف بنائے‘‘
قَالَ أَفَرَءَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُمُ ٱلْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّۭ لِّىٓ إِلَّا رَبَّ ٱلْعَلَمِينَ ٱلَّذِى خَلَقَنِى فَهُوَ يَهْدِينِ وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ ‏وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ ‏وَٱلَّذِىٓ أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِى خَطِيٓـَٔتِى يَوْمَ ٱلدِّينِ
(الشعراء: ۷۵ ۔ ۸۲)
ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔ جو مجھ کو کھلانے اور پلانے والا ہے اور جب بیمار پڑوں تو مجھ کو شفایاب کرنے والا۔ اور جو مجھ کو مارنے اور جِلانے والا ہے۔ اور جس سے میری یہ طمع وابستہ ہے کہ روزِ جزا وہ میری خطائیں بخش دے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِ إِنَّنِیْ بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَإِنَّہُ سَیَہْدِیْنِ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ
(الزخرف: ۲۶۔۲۸)
جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا: میں بیزار ہوا ان تمام ہسیتوں سے جنہیں تم پوجتے ہو، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے۔ اِسی چیز کو ابراہیم ؑ اپنے پیچھے باقی رہنے والا کلمہ بناگیا، تاکہ وہ (بعد والے) اس کی طرف لوٹ آتے رہیں۔
وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ وَأَدْعُو رَبِّیْ عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاء رَبِّیْ شَقِیّاً (مریم: ۴۸)
میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اُنہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا (ترجمہ جوناگڑھی)
قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ہَدَانِ (الانعام: ۷۸۔۸۰)
ابراہیم ؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! میں بیزار ہوا ان سب چیزوں سے جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں اپنا رخ سونپتا ہوں اُس ہستی کو جس نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دیا، ایک اُسی کا ہو کر، اور اب میں مشرکوں کا حصہ نہیں۔ یہاں؛ اُس کی قوم اُس سے الجھ پڑی۔ ابراہیم ؑ نے کہا: کیا تم مجھ سے الجھتے ہو اللہ رب العزت (کے حق) کے بارے میں؟ حالانکہ اُس نے مجھے راہِ راست دکھلا دی ہے..
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌۭ فِىٓ إِبْرَهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ
(الممتحنۃ: ۴)
تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ کفر کیا ہم نے تم سے۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ (۴)
بہت کم حجاجِ کرام ہوں گے جو پورے شعور کے ساتھ خدا کے اُس ’’گھر‘‘ کا طواف کر کے آتے ہوں جس کی تعمیر کی کہانی میں ایک ’’بت خانے‘‘ کے ڈھائے جانے کا ذکر اِس گھر کی تعمیر سے پہلے آتا ہے! وہ حجاجِ کرام جو ہزاروں میل کا سفر توحید کے اُس قدیم ترین مرکز کی زیارت کے لیے اختیار کرتے ہوں اور اس میں پائی جانے والی ایک ایک یادگار (مشاعر) پر مناسک ادا کرکے آتے ہوں جو شرک کی ایک دنیا کو خیرباد کہہ دینے کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا.. اور جوکہ ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ ایسے کچھ کلمات کا ہی ایک زندہ اور جیتا جاگتا ترجمہ تھا۔ اور پھر اس سے تین سو میل کے فاصلے پر ایک اور مقدس شہر: جس کی تاسیس کا کوئی اور سبب بیان ہونے میں نہیں آتا سوائے توحید اور شرک کی اُس لڑائی کے جو سید البشرﷺ کے اپنی قوم، قبیلہ، ملک اور دھرتی سے ناطہ توڑ لینے.. اور اُس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ایک پردیس کو ہی اپنا دیس قرار دے لینے.. نیز اِسی ’’پردیس‘‘ کو اپنے ملکی وقومی رشتہ داروں کے خلاف جہاد کا بیس کیمپ بنا لینے کا موجب ہوئی تھی۔۔۔؛ وہ زائرین جو اِس شہر سے جس کو ’یثرب‘ کہنا متروک ہوچکا، ’’مدینہ‘‘ اور ’’تمدن‘‘ اور ’’اجتماع و عمران‘‘ کے کچھ برگزیدہ آسمانی مفہومات لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں!
*****
آج ہمارے ہاتھ سے ہماری اُس قیمتی ترین متاع کو جو ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوتی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں انبیاء کے کیمپ کا بلاشرکتِ غیرے وارث اور امین بناتی اور ہمیں معیتِ خدواندی کا استحقاق دیتی اور نصرتِ خداوندی کا امیدوار ٹھہراتی ہے، ہمارے ہاتھ سے چھین لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ اِس ہدف کو مختصرترین وقت میں حاصل کرنے کے لیے ناقابل اندازہ وسائل جھونک دیے گئے ہیں۔ ’تعلیم‘، ’ابلاغ‘، ’ذہن سازی‘ اور ’تہذیبی روّیوں کی تشکیلِ نو‘ کے نام پر آج ہمارے گھر میں ہزاروں چور گھس آئے ہیں۔ (۵)آپ ہی سوچئے، اِس گھر کے پاسبان ہمارے اہل علم و دانش کے سوا کون ہو سکتے تھے جو قرآنی ہتھیاروں سے کام لے کر ہمارے گھر میں ہونے والی اِس ابلیسی واردات کے آڑے آتے؟ کسے معلوم نہیں، ہمارے یہ پاسبان اگر جاگ رہے ہوتے تو چور یہاں پر کامیابیوں کے جھنڈے نہ گاڑتے۔ ہمارے حاملینِ قرآن چاہے کچھ نہ کرتے اپنی پرہیبت آواز سے ماحول کو صرف خبردار رکھتے تو چوروں کو یہاں ایک حیران کن مزاحمت ملتی۔ یہ بیدار ہوتے تو امت بیدار ہوتی اور تب ہر چوک اور چوراہے پر یہاں چوروں کی شامت آئی ہوتی۔ اِس عظیم الشان امت کو کمی ہے کس چیز کی، سوائے ’’جاگتے رہو‘‘ کی گونج دار آوازوں کے؟! حق تو یہ ہے کہ خود چور ہی جوکہ حد سے بڑھ کر سمجھدار ہیں اور ’شماریات‘ میں طاق، اِس گھر کا رخ نہ کرتے اگر اُن کی اپنی ’تحقیقات‘ نے اُن پر واضح نہ کر دیا ہوتا کہ اِس گھر کے محافظ خوابِ خرگوش میں مست ہیں؛ ایک ایسا نایاب و ناقابل یقین موقع جو اِس بابرکت گھر میں نقب زنوں کو شاید ہی کبھی نصیب ہوا ہو!
مگر حق یہ ہے کہ یہ ’’موقع‘‘ جو اُن کو آج دستیاب ہے، اِس سے کہیں بڑھ کر گھناؤنا اور تشویشناک ہے۔۔۔
اِس سے پہلے بھی شاید بہت بار ایسا ہوا ہو کہ ہمارے مسلم داعی اور ہماری اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مضمحل اور غیرفعال ہو گئی ہوں اور نتیجتاً؛ وقت کے چیلنج پر پورا نہ اتر پارہی ہوں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ہمارے مسلم داعی اور مسلم تحریکیں بیرونی حملہ آوروں کے ایجنڈا میں ہی ’’اپنے لیے مخصوص جگہ‘‘ تلاش کرنے نکل کھڑی ہوئی ہوں۔ ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کا ترجمان طبقہ ہی باطل کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہونے لگا ہو۔۔۔ آج ہمارا بحران درحقیقت اِس حد کو چھو چکا ہے۔
پس یہ ایک دہرا نہیں بلکہ تہرا چیلنج ہے۔ صرف اتنا نہیں کہ آپ یہاں کے اُن طبقوں کو جگائیں جنہیں قوم کو جگانا تھا؛ آج نوبت یہاں پہنچی ہوئی ہے کہ۔۔۔: وہ طبقے جنہیں اِس قوم کو جگانا تھا، پہلے آپ انہیں باطل کے نظریاتی چنگل سے آزاد کروائیے! ایک عرب موحد عالم نے بڑی دیر پہلے یہ دکھ بھرا جملہ کہا تھا کہ: آج ہمارا داعی طبقہ ہی سب سے بڑھ کر دعوت کا ضرورت مند ہے!
وائے ناکامی!
تو پھر آج یہ صورت حال ہے کہ: اِس گھر کے بہت سے محافظ، وارثانِ دین و دانش خود اِس واردات ہی کا حصہ بنائے جا چکے۔ دین اسلام کی حقیقت پر مٹی ڈالنے کا کام یوں بھی ان کی مدد اور تعاون کے بغیر عالم اسلام کے اندر کیونکر تکمیل پاسکتا ہے۔۔۔؟
ایسی انہونی واردات ہم نے اپنی پوری تاریخ میں بھلا کب دیکھی تھی!
*****
دنیا جانتی ہے، نظریاتی سطح پر اِس وقت عالم اسلام میں دشمن کے دو بڑے پراجیکٹ ہیں:
ایک: دین اسلام کی حقیقت کو دھندلا کرنا، خاص طور پر کفر و اسلام کے فرق کو ملیامیٹ کرنا؛ (وہ جانتے ہیں، یہاں سے بے شمار مسائل کا خود ہی گھونٹ بھرا جائے گا، خصوصاً مسلمانوں کے تصورِ جہاد کا)۔ ’’بین الملل رواداری‘‘ کی تحریک سمجھئے اس کا ہراول ہے۔ اس سے پچھلی صف میں ’’فکرِ ارجاء‘‘ کے تہہ در تہہ غول کھڑے ہیں جو کچھ نہایت ’علمی بنیادوں‘ پر مسئلہ ایمان و کفر کو ’خوارج‘ کا کھڑا کیا ہوا ایک فتنہ ثابت کریں گے (ورنہ صوفیہ نے کہاں کبھی ’’مسلم‘‘ اور ’’کافر‘‘ کا فرق کیا تھا!)، پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!
دوسرا: مسلمانوں کو ان کے عقائدی و فقہی مسلمات سے برگشتہ کرانا۔ شریعت کے فہم و تعبیر کے سلسلہ میں مسلمان جس طرح قدم قدم پر ’’پیچھے‘‘ مڑ کر دیکھتا ہے.. ’آئین نو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پہ اڑنے‘ کی ایک ذہنیت جو اِس میں خواہ مخواہ کہیں سے آکر بیٹھ گئی ہے، اس سے عالم اسلام کو اب نجات دلوانا۔ اِس ’اینلائٹنمنٹ‘ کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں اب وہ ہر کسی کو سمجھ آتے ہیں: کچھ علمی پیمانے اور فقہی دستور جو مسلمانوں کے یہاں چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور اُن کے مجوزہ ’جہانِ نو‘ کی راہ میں ہمالیہ کی طرح حائل ہیں، اب ناقابل برداشت ہیں؛ اور ان کو لازماً متروک ٹھہرایا جانا ہے۔ (عالم اسلام میں اصل تصرف!) البتہ وہ دیدہ دلیر طبقے ابھی یہاں بہت تھوڑے ہیں جو منہ پھاڑ کر کہہ دیں کہ اپنے فقہاء و محدثین کے ہاں اگر کچھ اصول اور قواعد طے پا گئے اور صدیوں چلتے رہے تو بھی ان کی کیا حیثیت ہے ہم تو دین کے ہر ہر مسئلہ کا فائل ہی آج ازسرنو کھولیں گے اور اس کے لیے سب اصول ہم خود ہی وضع کریں گے (اپنے فقہی ورثے کو چیلنج کرنے والا طبقہ) اور جبکہ دشمن کی اصل امیدیں ہمارے اِسی دیدہ دلیر طبقے سے وابستہ ہیں، البتہ اِس ہونہار بروا کے جوان ہونے کا انتظار مشکل ہوا جاتا ہے۔ تاہم ایک بڑی تعداد یہاں ایسی ہے جو اپنی فقہی روایات کے ساتھ ’’تصادم‘‘ کی بجائے ان کو ’’نظرانداز‘‘ کر دینے کی روش پر ہے؛ لہٰذا اِس طبقہ کے ذریعے بھی فی الحال یہ کام نکالا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسے جدید نظائر new precedents یہاں پر جاری کروا لیے جائیں اور کچھ ایسے بے نظیر رجحانات unprecedented trends اور انوکھی روایات first-time practices کو فروغ دلوا لیا جائے جن سے یہ امت چودہ سو سال ناواقف رہی ہے، جبکہ یہ سب جدید نظائر اور یہ سب بے نظیر رجحانات اور یہ سب انوکھی روایات اُن کے اس مجوزہ جہان کی ہی تشکیل کررہی ہوں!۔۔۔ ہاں، البتہ اُس فریق کے ساتھ ایک کھلی جنگ.. جو ہر قول کے لیے متقدمین کے نظائر ڈھونڈتا پھرے ، جو امت میں پہلے سے طے شدہ مسائل کے فائل آج نئے سرے سے کھولنے پر معترض ہو، اور جو امت کو قرونِ سلف سے چلے آنے والے علمی دساتیر کی پابندی کروائے.. اور سب سے بڑھ کر؛ جو دنیا کو ’’کفر اور اسلام‘‘ کا فرق بتائے۔ یہ طبقہ تو بلاشبہ گردن زدنی ہے! ’’وھابیت‘‘ اور ’’سَلَفِیت‘‘ سے بڑھ کر بھلا اِس دور میں کیا جرم ہوسکتا ہے!
آپ تسلیم کریں گے۔۔۔ یہ دونوں پراجیکٹ ایسے ہیں جن میں دینی طبقوں کا پورا پورا تعاون درکار ہے! صرف عدمِ مزاحمت نہیں۔۔۔ بلکہ باقاعدہ تعاون! سیاستدان، ڈپلومیٹ، تعلیم کار، میڈیا، سب اپنی اپنی جگہ اہم ہوں گے مگر ’مذہبی قیادتوں‘ کی اپنی ایک برکت ہے؛ اور یہ ’مذہبی خانہ‘ کسی اور کے پر کرنے کا نہیں!
آپ اس بربادی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اندھادھند وسائل کے مالک ادارے، این جی اوز اور قونصل خانے آج ہمارے مولویوں اور مذہبی پیشواؤں کی قدرافزائی کی جانب متوجہ ہو جائیں!
حضرات! یہ واقعہ عملاً ہو چکا ہے اور مسلسل رُو بہ ترقی ہے۔ آنے والے سالوں میں اب آپ اِس کے ثمرات دیکھنے والے ہیں!
فاللّٰہم لا تقتلنا بغضبک، ولا تہلکنا بعذابک، وعافِنا قبل ذٰلک۔
*****
یہ منظرنامہ اگر آپ پر واضح ہے۔۔۔ تو اِس وقت یہاں مقبول کروایا جانے والا ایک ایک ’’نیا رجحان‘‘ اہم ہو جاتا ہے۔ ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا آپ کے حق میں نہایت کافی اور کاری ہوتا ہے؛ کہ کیا بعید دشمن وہاں سے جو راستہ بنائے وہ آپ کے باقی سب محاذ الٹ کر رکھ دے۔ وہ کوئی انتہائی ناعاقبت اندیش سپہ سالار ہو گا جو یہ طرزِفکر رکھے کہ ’صرف ایک محاذ چلا جانے سے کیا فرق پڑتا ہے‘! اور یوں وہ اپنے سب محاذ ’ایک ایک‘ کر کے دشمن کو دیتا چلا جائے! (ذرا دو سو سال پیچھے نگاہ دوڑا کر دیکھئے؛ آپ کیا کیا کچھ دے آئے ہیں؛ اور اپنے ’ہنوز دلی دور است‘ والے اس طرزِ فکر کا جائزہ لیجئے، جس کی رُو سے ہر بار ’’اِتنا سا‘‘ دے دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہوتا! اور جس کی رُو سے کسی ایک ہی ایشو کو ’’بڑھا چڑھا دینا‘‘ ایک معیوب روّیہ ہے!)۔۔۔ جہاں آپ کو ایسے سپہ سالار نصیب ہوں وہاں دشمن شدید بے وقوف ہوگا اگر سب کچھ آپ سے ایک ہی بار طلب کرے؛ جبکہ ہمارا دشمن بے وقوف نہیں ہے! وہ ایک ہنڈیا کو دھیمی آنچ پر پکانا خوب جانتا ہے اور اگر آپ نظر اٹھاکر دیکھیں تو وہ یہاں اپنے پکوانوں کا ایک عظیم بازار سجا چکا ہے۔ جبکہ ہم اپنے اُسی منہج پر قائم کہ ہم اِن بدیسی اشیاء کو ایک پیکیج کے طور پر کبھی نہ لیں گے بلکہ pick & chose کا وہ ’زریں اصول‘ ہی لاگو رکھیں گے جس نے چند عشروں میں اِس گھر کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’حکومتی اقدامات‘ کا رونا اب بہت پیچھے رہ گیا؛ یہاں ہمارا وہ سماجی فیبرک تار تار ہو چکا جس سے آج تک ہم نے اپنا تن ڈھانپا تھا! کہاں وہ وقت جب اِس گھر کے گر جانے پر ہمارا آہ و گریہ نہ تھمتا تھا؛ اور کہاں یہ وقت کہ اپنی تن برہنگی کا رونا رونا خبط اور انتہاپسندی ہے! فإلی اللہ المشتکیٰ
اِس پر دشمن سے زیادہ اپنے اس منہج کو داد دینا بنتا ہے جو اپنی تہہ میں ’مرحلہ در مرحلہ پسپائی‘ کا پورا ایک پروگرام رکھتا ہے اور جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ’’شکست‘‘ کے ہر بیدارکن جھٹکے سے یہ قوم کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے!
*****
ایک ایک محاذ پر ڈٹ جانے کی رِیت البتہ ہمیں آج بھی زندہ کر سکتی ہے؛ خصوصاً عقیدہ کے محاذوں پر؛ جوکہ ہماری زندگی کا اصل راز ہے اور دشمن کو مات دینے کا اصلی اور یقینی نسخہ۔ اور اب تو ہمای جنگ کا اصل میدان۔ جس میں اگر ہم ثابت قدم رہ کر دکھا دیں تو ان شاء اللہ ہماری فتح یقینی ہے:
ادْخُلُواْ عَلَیْہِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ
’’عقیدہ‘‘ کے محاذوں پر رباط(۶) آج سب سے بڑھ کر ضروری ہے۔ جس کا ایک ایک مورچہ اِس وقت خطرے میں ہے؛ اور جس کا ایک ایک میدان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے!
اِس محاذ پر مسلسل پسپائی آج ہمیں اِس مقام پر لا چکی ہے کہ شرک کے تہواروں پر صرف کیک ہی نہیں کاٹے جارہے، بلکہ اِس پورے معاملے میں ہمیں اپنے چودہ سوسالہ دستور سے ہٹ کر ایک ’نئے اجتہاد‘ کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی ہے، بلکہ کچھ لوگ ہمت کر کے گول مول الفاظ میں ’’لا حَرَج‘‘ کے راگ الاپنے بھی لگے ہیں؛ کہ جانتے ہیں باطل کو اپنا آغاز کرانے کے لیے ایک گول مول اسلوب ہی بہت کافی ہوتا ہے؛ ’وقت‘ ایک ایسا بے رحم فیکٹر ہے کہ ہر ’گول مول‘ خودبخود ’’سپاٹ‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابھی یہ رونا ’جدت پسندوں‘ کا نہیں بلکہ روایات کے محافظ طبقوں کا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ’پیچ ڈھیلے کرنے‘ کا کام کس سطح پر جا پہنچا ہے!
*****
ہر راستہ اپنے کھلنے کے لیے ایک جہاد اور ایک اجتہاد چاہتا ہے۔ اِس کے لیے درکار عملی محنت کو آپ ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں اور ذہنی محنت کو ’’اجتہاد‘‘۔ آپ راہِ حق میں ہوں تو ’جہاد‘ اور ’اجتہاد‘ آپ کی ضرورت ہوتے ہیں راہِ باطل میں ہوں تو یہ ہردو آپ کی ضرورت رہتے ہیں۔ یعنی، یہ آپ پر ہے کہ کس راستے میں آگے بڑھنے کے لیے آپ کو ’جہاد‘ اور ’اجتہاد‘ کرنا ہے۔ یہ ’’سعی‘‘ کی دنیا ہے؛ جہاں اِس ہردو محنت کے بغیر نہ حق راستہ کھل کر دیتا ہے اور نہ باطل۔
یہاں سے آپ پر اُس ’اجتہاد‘ کی حقیقت کھلتی ہے جس کا تقاضا اِس وقت آپ کا ’’دین‘‘ نہیں بلکہ ’حالات‘ اور ’ضرورتیں‘ کروا رہی ہیں۔۔۔ اور جس میں آگے بڑھتے وقت آپ ہربار ایک داخلی خلجان سے گزرتے ہیں!
آپ کی الجھن آج یہ ہوگئی ہے کہ: وہ راہ ہی جس پر آپ قدم رکھ چکے (۷)اپنی انتہائی صورت میں باطل کے گھر جاتا ہے ۔ آپ کی اِس راہ کو بند کرنے والا خود آپ کا دین ہے۔ پس یہاں آپ کو جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین اجتہاد ہے۔ یعنی آپ کا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار آپ پر بند کرے گا اور آپ کو ’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا!
اِس کا پائیدار حل یا تو یہ ہے کہ آپ اُس راستے سے جان چھڑا لیں جو اپنی انتہائی صورت میں آپ کو باطل کا پیروکار بناتا ہے۔۔۔ اور یا پھر اِس دین سے جان چھڑا لیں جو اُس راستے کو آپ پر باربار بند کرتا ہے!
اور یہی آپ کا اصل مخمصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام ہے! ’حالات‘ مسلسل زور لگا رہے ہیں مگر اُن کی فرمائش کا ’اجتہاد‘ عالم اسلام سے ہو کر نہیں دیتا۔ پورا جہان اِس کے لیے چیخ چیخ کر رہ گیا، مگر ہمارا یہ ’اجتہاد‘ ہے کہ سامنے آنے سے مسلسل جھجک رہا ہے! اِس میں رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمدﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے حدوحساب رکھ دیا ہے اور مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً(۸) کی ہمت یہاں کسی کسی روسیاہ کو ہوتی ہے ۔ محسوس وہ بھی کر رہے ہیں کہ قرآن پڑھنے والا یہ معاشرہ نہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال کی پروردہ امت‘‘۔
یہاں سے؛ یہ مخمصہ بے اندازہ بڑھ جاتا ہے!
اور اگر صاحب بصیرت داعیوں کی کوئی باصلاحیت جماعت آج میدان میں اترآتی ہے اور اُن مقامات پر جہاں اس دین کی قوت پوشیدہ ہے اپنی پورا زور دے لیتی ہے۔۔۔ تو یہ ’مخمصہ‘ دلچسپ بھی بے اندازہ ہے!
*****
مسئلہ کی یہ سنگینی اگر آپ پر واضح ہو جاتی ہے تو قوم کو خبردار کرنے کا کوئی ایک بھی موقع ضائع جانا آپ کو گوارا نہ ہونا چاہئے۔۔۔
ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا کافی اور کاری ہوسکتا ہے۔۔۔ تو کسی ایک محاذ پر دشمن کو پسپا کر دینے میں کامیاب ہونا ایک پوری جنگ جیت جانے کے لیے بنیاد بھی بن سکتا ہے!
اور یہ تو عقیدہ کا مسئلہ ہے جو اہل ایمان کے ہاں ہمیشہ سنجیدگی کا متقاضی رہا ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ ہمارے نظریاتی وجود کا ہی دوسرا نام ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے لیے حساس نہیں ہوتی۔ اِس پر کوئی مصلح خاموش کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔:
دورِ عمرؓ میں نصارائے شام کے ساتھ جو صلح نامہ دستخط کیا جاتا ہے اُس کی ایک باقاعدہ شق یہ ہے کہ وہ اپنے شعائرِ دینی اپنے عبادت خانوں میں بند رہ کر انجام دیں گے اور ان کو اپنے عبادت خانوں سے باہر لا کر مسلم معاشرے کے لیے باعث اذیت نہ بنیں گے (رب العالمین کے ساتھ شرک اور شرکیہ شعائر سے بڑھ کر کونسی چیز مسلم معاشرے کے لیے باعثِ اذیت ہو سکتی ہے؟)۔ ’’شروط عمریہ‘‘ کے عنوان سے یہ چیز نہ صرف کتب تاریخ میں جابجا مذکور ملتی ہے بلکہ فقہ کی بے شمار کتب میں اِس سے استدلال و استشہاد کیا گیا بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک مسلم معاشرے میں وہ بخوشی رہیں البتہ اپنے شرکیہ شعائر کو مسلمانوں کے سامنے نہ لائیں؛ کیونکہ مسلم سرزمین میں کفر کا کلمہ ظہور کا مجاز ہے اور نہ علو کا۔ اِسی وجہ سے ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اہل اسلام کا کفر کے تہواروں میں جاکر شریک ہونا تو رہی دور کی بات، اِن کفریہ شعائر کا اہل اسلام کے سامنے ظاہر ہونا ہی کب جائز تھا؟ مگر آج عام اہل اسلام کی بات چھوڑ دیجئے، فاسق فاجر حکمرانوں اور بے دین سیاستدانوں کی بات بھی بہت پیچھے رہ گئی؛ اہل شرک کے نخرے اور فرمائشیں اب اِس سے کہیں آگے جا چکیں؛ آج یہ حال ہے کہ عمامے اور جبے ہی جب تک رونق افزائی نہ کریں تب تک اُن کی ’’کرسمس‘‘ ادھوری اور بے مزہ رہنے لگی ہے! یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بتوں اور صلیبوں کو جہان بھر میں توڑ کر آنے والی اِس امتِ بیضاء کی تاریخ میں اِس بڑی سطح پر پہلی بار رونما ہو رہا ہے اور اگر آپ خبروں اور تجزیوں سے کچھ بھی سروکار رکھتے ہیں تو آنے والے دنوں اور سالوں میں اب یہ رجحان ناقابل اندازہ ترقی کرنے والا ہے۔ آج آپ دیکھنا چاہیں تو ’علمائے کرام‘، ’وارثانِ علومِ نبوت‘ کو جوق درجوق ’سفارت خانوں‘ کا رخ فرماتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ہوٹلوں اور گرجوں کے اندر اِن تہواروں کے لیے منعقد تقریبات میں (العیاذ باللہ) ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کی نمائندگی فرماتا دیکھ سکتے ہیں۔ ’علمبردارانِ شریعتِ مصطفوی ﷺ اور عبادِ صلیب کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر ’کرسمس کیک‘ کاٹتا اور مسکراہٹوں سے ایک دوسرے پر فدا ہوتا ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اپنی مسجدوں اور تراویح میں خوش الحانی کے ساتھ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ أَفَلاَ یَتُوبُونَ إِلَی اللّہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ مَّا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأُمُّہُ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَأْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّی یُؤْفَکُونَ قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَہْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ کَثِیْراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ تَرَی کَثِیْراً مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَبْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہ والنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَاء وَلَکِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُمْ فَاسِقُون (۹)کی تلاوت کرنے والے اِس عیدِ شرک پر البتہ صرف ’گلے ملنے‘ اور ’تہنیت دینے‘ کے روادار ہیں! یعنی قرآنی آیات کی صورت میں اہل کفر کو جہنم کی وہ سب وعیدیں، اُن پر کفر کی وہ سب فردہائے جرم اور اُن پر خدا کی وہ سب لعنتیں ہماری مسجدوں میں، بغیر شرح و تفسیر.. جبکہ مبارکبادیں اور تہنیتیں اور قربت و محبت کی مکرر یقین دہانیاں اُن کے گرجوں اور اُن کی عید تقریبات کے لیے، واضح الفاظ میں اور پورے شدومد کے ساتھ!
کیا یہ عجیب نہیں: ہماری عبادات اور ہماری تراویح اُن کو مغضوب علیہم اور ضالین کہے اور اُن پر ’’خدا کے غضب‘‘ اور ’’قہر‘‘ اور ’’لعنت‘‘ کا ذکر کئے بغیر نامکمل.. جبکہ اُن کے شعائر اور کرسمس ہماری ’’نیک تمناؤں‘‘ اور ہماری ’’مبارکبادوں‘‘ کے بغیر نامکمل!
*****
حضرات! آنے والے سالوں میں آپ یہاں جو کچھ دیکھنے جارہے ہیں فی الحال اس کا تصور ہی ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہاں ایسے ایسے فکری طاعون اور سماجی وبائیں پھوٹنے والی ہیں کہ خدا ہی بچائے ورنہ بڑی خلقت کا ’لقمہ اجل‘ بننا یقینی ہے۔ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِناً وَیُمْسِی کَافِراً، أوْ یُمْسِی مُؤمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا خدا سے سلامتی مانگئے(۱۰)۔ ’’حفاظتی تدبیر‘‘ جس کا ابتدا میں ذکر ہوا اور جوکہ یقینی اثر رکھنے والی ہے، صرف ایک ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جوکہ أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار کے الفاظ میں باربار بیان ہوتا ہے۔ یہ نسخہ آپ پر کہاں تک اثر کرتا ہے، اِس کا بہت آسان چیک ہے: ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتی بات پر شدید درجے کا چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ کوئی چیز ان شاء اللہ آپ کا بال بیکا نہ کرسکے گی۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ
___________
(۱) وَإنَّہ سَیَخْرُجُ فِیْ أمَّتِیْ أقْوامٌ تُجَارِیْ بِہِمْ تِلْکَ الأھْوَاءُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ لِصَاحِبِہ، لا یَبْقیٰ مِنْہُ عِرْقٌ وَلا مِفْصَلٌ إلَّا دَخَلَہ
(رواہ أبو داود وابن أبی عاصم عن معاویۃ بن أبی سفیان ص، وحسنہ الألبانی، انظر صحیح أبی دواد، رقم الحدیث 3843 )
’’اور میری امت میں ایسی اقوام رونما ہوں گی جن میں اَھواء (فکری ٹیڑھ) یوں سرایت کریں گے جیسے کتے کے کاٹے کا اثر؛ آدمی کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس کی تاثیر سے سلامت نہیں رہتا‘‘
(۲)کَلِمَۃٌ سَوَاء: وہ بات جس پر آنے کے لیے قرآن نے اہل کتاب کو کھلی دعوت دی ہے اور جوکہ سب انبیاء اور شریعتوں کا پڑھایا ہوا بنیادی ترین سبق ہے، یعنی خالص توحید۔ آل عمران: ۶۴ میں جہاں یہ لفظ ملتا ہے وہاں اسی آیت کے اندر اس کا نہایت واضح بیان بھی ملتا ہے، یعنی شرک کی کھلی نفی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ’بین المذاہب مکالمہ‘ کی مارکیٹنگ کرنے والے مسلمان پوری آیت کو سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں اس پر علیحدہ سے ایک تحریر بھی دی جارہی ہے۔
(۳)نبیﷺ کے ان زندہ جاوید کلمات میں جو آپ ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخ ساز موقع پر فرمائے، ہمارے غوروفکر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے: ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ أمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ
(صحیح مسلم کتاب الحج، عن جابربن عبد اللہ، باب حجۃ النبی ﷺ رقم الحدیث: 1218 )
’’خبردار رہو، جاہلیت کے دستور کی ہر شےْ منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے ‘‘
(۴)ابراہیم ؑ اور اُن کے اصحاب کایہ رویہ جس کو اہل کفر کے مدمقابل اپنانے کے حوالہ سے قرآن ہمارے لئے ’’اسوۃُ حسنۃٌ‘‘ قرار دیتا ہے (بحوالہ سورۃ الممتحنہ آیت ۴)، اس کی بابت آپ کو یہاں کچھ عجیب و غریب توجیہات سننے کو ملیں گی:
۱۔ مثلاً یہ اشکال کہ: یہ اعلانِ عداوت تو ابراہیم ؑ اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے اُس وقت کیا گیا جب اُن کی قوم کا ظلم و تعدی حد سے بڑھ گیا۔ مراد یہ کہ اگر وہ اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑ رہے ہوتے (اور ’بین المذاہب قربت و ہم آہنگی‘ کی وہ پیش کش کھلی رکھتے جوکہ آج زوروں پر ہے!) تو اِس اعلانِ عداوت کی ضرورت ہی سرے سے پیش نہ آتی! حالانکہ اس کا جواب اِسی آیت کے اندر موجود ہے: ابراہیم ں اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے یہ اظہارِ عداوت محض قوم کے ظلم و ستم کے باعث ہوتا تو اُن کو حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ یعنی ’’تاوقتیکہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ‘‘ کی بجائے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ’تاوقتیکہ تم اپنا یہ ظلم و ستم نہ چھوڑ دو اور ہمیں حریتِ فکر یا حریتِ اظہار سے بہرہ مند نہ ہو جانے دو‘! جبکہ حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ کے الفاظ واضح دلیل ہیں کہ یہ عداوتِ دینی ہے جوکہ اہل توحید اور اہل شرک کے بیچ ہوتی ہے نہ کہ محض ’مذہبی تشدد‘ کا کوئی رونا۔
۲۔ ایک اور اشکال یہ کہ: یہ آیت فتح مکہ سے ماقبل منظرنامے سے متعلق ہے جب دو فریقوں کے مابین ویسے ہی تلواریں نکل آئی ہوئی تھیں اور ہوتے ہوتے یہ جنگ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس کا جواب بھی خود اِسی آیت کے اندر موجود ہے۔ جو نمونہ اِس عداوت کے معاملہ میں آیت کے اندر واجب الاتباع ٹھہرایا گیا وہ ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں کا ہے، جن کی زندگیوں میں ’تلواریں نکل آنے‘ کی صورت ہی سرے سے پیش نہیں آئی! پس یہ کوئی ’جنگی حالت‘ سے متعلقہ ہدایات نہیں بلکہ اُس عداوت کا بیان ہے جو اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین منجانبِ خداوندی رکھ دی گئی ہے اور جس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو توحید کی ابجد سے ناواقف ہے۔ٓ
(۵)مزید تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیے ہمارا پمفلٹ ’’مسلم معاشرے پڑھے لکھے بھیڑیوں کے نرغے میں‘‘
(۶)’’رباط‘‘: یعنی محاذ پر پایا جانا یا اُن خطوں میں ہوشیار اور چوکنا حالت میں موجود رہنا جو دشمن کے حملوں کا ہدف ہو سکتے یا جہاں سے اہل ایمان دشمن پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
(۷)’’آپ‘‘ سے مراد: یہاں کا وہ دینی طبقہ جو باطل کے ساتھ مفاہمت اور قربت کی راہ اختیار کرتا ہے
(۸)وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً (النحل: ۱۰۶) ’’ بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے‘‘ (جالندھری)
(۹)(المائدۃ: ۷۲- ۸۱) یقیناًکافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مریم کا بیٹا مسیح درحقیقت اللہ ہے۔ جبکہ مسیحؑ صاف کہہ گیا: ’’اے اولادِ اسرائیل عبادت کرو ایک اللہ کی جو میرا پروردگار ہے اور تمہارا پرودگار ہے؛ خبردار! جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر ڈالی اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور نہیں ہے ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار‘‘۔یقیناً کافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ حالانکہ نہیں کوئی خدا مگر ایک ہی خدا۔ اگر یہ اپنی اِس جسارت سے باز نہیں آتے تو اِن میں سے جتنوں نے اِس کفر کا ارتکاب کیا ہے وہ سب عذاب پا کر رہیں گے۔ آخر کیوں یہ خدا کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اُس سے اپنے اِس پاپ کی معافی نہیں مانگ لیتے اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔مسیح بن مریم کچھ نہیں سوائے یہ کہ رسول ہے۔ اور رسول اس سے پہلے بھی ہو گزرے ہیں۔ اور اس کی ماں ایک راستباز عورت تھی۔ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔دیکھ لو کس طرح ہم ان کے سامنے نشانیاں واضح کیے جاتے ہیں اور پھر دیکھ لو وہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں۔ کہو: کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا، جبکہ اللہ سننے جاننے والا ہے۔ کہو: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُن لوگوں کے تخیلات کی پیروی مت کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے۔ بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر لعنت فرمائی گئی داود ؑ اور عیسی بن مریم ؑ ہر دو کی زبان سے۔ یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا۔ وہ جو برے کام کرتے اس پر ایک دوسرے کو روکتے ٹوکتے نہ تھے؛ بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ تم ان میں بہت کو دیکھو گے کہ کفار سے دوستی کرتے ہیں؛ بہت برا ہے جو ان کے نفس ان کے لیے آگے بھیجتے ہیں؛ یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ دائمی عذاب میں رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ ایمان لائے ہوتے اللہ پر اور نبی پر اور اس پر اترنے والی (ہدایت) پر تو ہرگز دوستی نہ کرتے کافروں سے، مگر ان کے اکثر نافرمان ہیں۔
(۱۰)’’آدمی صبح مسلمان ہوگا تو شام تک کافر، یا شام کو مسلمان ہوگا تو صبح تک کافر، دنیوی مفاد کے عوض اپنا دین بیچ ڈالے گا‘‘
(صحیح مسلم، عن أبی ہریرۃ: کتاب الایمان، باب الحثِّ علی المبادرۃ بالأعمال قبل تظاہر الفتن، رقم الحدیث: 118 )




Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کافر ملتوں سے بیزاری ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے اور لا الٰہ الا اللہ کا ایک براہِ راست تقاضا۔ البتہ اِس گلوبل بستی میں شہریت پانے کے لیے مسلم اقوام پر شرط عائد ہو چکی کہ کافر سے بیزاری تو سوچیں بھی نہیں، خود اِس عقیدہ سے ہی بیزار ہوکرآئیں۔ اُن کی اِس مجوزہ بستی میں ہمارے لیے اپنے عقیدہ ’’ناموسِ رسالت‘‘ کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے اور نہ عقیدہ ’’ردِّ کفر‘‘ کے ساتھ۔ ہم اِس سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تو بھی ان کو منظور نہیں؛ یہ عقیدہ ہم سے لازماً چھینا جائے گا جس کے لیے ہزارہا انتظامات کر ڈالے گئے ہیں؛ یہاں تک کہ ’شرعی فتاویٰ‘، اور ٹھیٹ ترین پس منظر کی مالک مذہبی شخصیات کے صادر کردہ ’این او سی‘، بلکہ اصحابِ جبہ و دستار کی شرکت ہائے بابرکات؛ جس کے لیے سفارت خانے دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔
ایک طوفان ہے جو ہمارے گھر پر دستک دے رہا ہے۔
درمندانِ قوم!
اپنے اصولِ دین سے چمٹ کر دکھانا آج کا عظیم ترین چیلنج ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے یہ اصولِ دین (جدید زبان میں ہماری نظریاتی بنیادیں) خود ہم پر اور ہماری قوم پر واضح ہوں۔ اصولِ اسلام کا بیان اِس وقت کا ایک بڑا فریضہ ہے۔ ہماری اِس تالیف کا مقصد اسلامی عقیدہ کے اُن جوانب کو واضح کرنا ہے جو ’’ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ‘‘ سے متعلق ہیں اور جن کو جانے بغیر ’’ ٱالصِّرَطَ ٱلْمُسْتَقِيمَ ‘‘ اور ’’ صِرَطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ‘‘ کا مفہوم ہی سراسر اَدھورا رہتا ہے۔ ’’ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضَّآلِّينَ کا صراط‘‘ جس سے ہمیں ہر ہر رکعت میں پناہ مانگنے کی ہدایت کر رکھی گئی ہے، اِس میں اُن کا عقیدہ بھی آتا ہے اور دستور بھی، اُن کی عبادات بھی اور اُن کے شعائرِ دین بھی۔ اُن کے ’’صراط‘‘ سے دوری اور بیزاری کا یہ سبق ہمیں ہرنماز میں ازبر کرایا جاتاہے؛ جس کو ہمیں بھلا دینے، بلکہ دفن کروا ینے کے لیے آج ہزاروں انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔
ہمارا یہ عقیدہ جو ہمارا کلمہ اور ہماری نماز ہمیں صبح شام ہمیں ازبر کراتی ہے، یعنی مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ض ضَّآلِّينَ کے مذہب سے بیزاری۔۔۔ اِس کتاب کا موضوع ہے۔ اِس کے سب مباحث ہم کتاب و سنت اور متقدمینِ امت کے ذخیرہ سے لے کر آپ کے سامنے رکھیں گے۔ فیصلہ آپ پر ہے، لیکن اگر آپ جانیں کہ ہمارے عقیدہ کا یہ ایک نہایت اہم باب ہے جو اِس نام نہاد گلوبلائزیشن کے پاؤں تلے روندا جارہا ہے اور جس میں خود ہمارے مذہبی طبقوں کی ایک تعداد استعمال ہورہی ہے.. تو حضرات! آئیے خاموشی کاقفل توڑیں اور قوم کو اس فتنہ سے آگاہ کریں۔ یہ قوم جس کے گھر میں ہزاروں نقب لگ چکے، جس کے صحن میں ہزاروں بھیڑیے گھس آئے، اِس گھر کو بچائیے اور اِس قوم کا ہاتھ تھامئے، آپ کے سوا آج اِس کا کوئی نہیں۔
وما علینا إلا البلاغ..
حامد کمال الدین

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جاہلیت کے تہوار بطور ’ کلچر ‘ .. اور حدیثِ انس ﷜

ہماری نئی تالیف

عَنْ أنَسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا فَقَالَ: مَا ھٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بھِمَا خَیْراً مِنْھُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔
(أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم 1134۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم 1556، وأحمد رقم 13622، وصححہ الألبانی فی تخریج مشکاۃ المصابیح رقم 1439، وصحیح أبی داود رقم 1039 )
روایت انس ﷜ سے، کہا: نبیﷺ مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر۔
(یہ بات نوٹ کی جائے: حدیث میں اہلیانِ مدینہ نے اپنے ان دو تہواروں کی کوئی ’ مذہبی ‘ مناسبت religious significance سرے سے ذکر نہیں کی؛ بلکہ بتایا: یہ ان کے کھیل تفریح کے کچھ مخصوص ایام جدی پشتی چلے آئے ہیں۔ جدید زبان میں کہیں تو: ایک ’ کلچرل ‘ تہوار۔ بقیہ گفتگو اس حدیث پر اب ہم ابن تیمیہ﷫ سے سنتے ہیں):
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پورا اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپﷺ نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِھِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں ‘‘ ۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے، جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے پچھلی چیز کا ترک خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انس﷜ کی حدیث میں جن دو جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبیﷺکے یہ فرمادینے کے بعد ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہواروں کا یکسر نابود ہو جانا! ان کا کوئی ادنیٰ تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے چلی آتی ایک چیز معاشرے میں یوں ختم ہوکر رہ جائے، کیا کوئی آسان بات ہے؟ ’ تہوار ‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال اس کا انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر سوچو، اہل مدینہ نے نبیﷺکے الفاظ إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِهِمَا سے اگر ’’ ممانعت ‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ (یعنی نفوس میں ان جاہلی اشیاء کی بابت ایک قطعی ناگواری پیدا کرا دینے کا ہی نتیجہ ہو سکتا تھا)؛ ورنہ ایسا معجزہ ایک معاشرے میں بیٹھےبٹھائے یوں ہو جانا تو ممکن ہی نہیں۔ اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی، تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ نہ صرف شریعت سے ناواقف اور مقاصدِ شریعت سے نابلد ہے بلکہ سماجیات سے بھی بالکل بےبہرہ ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک چیز اور سمجھ لو۔ مسلم معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بےشک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے لگیں۔
یہود و نصاریٰ کی سنتیں یعنی انکے امتیازی طورطریقے (یہود و نصاریٰ کی تہذیب " طَرِيْقَتُكُمُ الْمُثْل ٰ ى " ) اور ان کے شعائر۔ ساری تنبیہ تو (احادیث میں) اس سے ہوئی ہے!
(اقتضاء الصراط المستقیم، از ابن تیمیہ۔ کتاب کے صفحات 432 تا 436)

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
میری کرسمس.. ’مقاصدِ شریعت‘ یا قربِ قیامت؟

تنقیحات

قربِ قیامت کیا کیا واقعات نہ ہوں گے!
وَسَيَـعُـــودُ كَمَـــــــــا بَدَأَ غَرِيبًا.. فَطُوبى لِلْغُرَبَاء!!!
فقہاء کے مواقف کو استہزاء کا نشانہ بنانا ایک معمول کی بات۔ کسی ایک آدھ فقیہ نہیں؛ اکٹھے مذاہبِ اربعہ کو!
کون صاحب لتاڑ رہے ہیں فقہائے مذاہبِ اربعہ کو؟ ’کوئی‘ ہونا اس کےلیے کیا ضروری ہے؛ جو بھی کالم لکھ سکتا ہو!
مذاہبِ اربعہ کی غلطی ویسے نکالی کس حوالے سے جا رہی ہے؟ کسی معمولی بات یا کوئی جزئی دلیل مِس miss کر جانے پر نہیں؛ بلکہ مقاصدِ شریعت ہی کو نہ سمجھ پانے کی بنا پر!
آپ کو معلوم ہے، شریعت کے دلائل یا شواہد کو دو اقسام کیا جاتا ہے: ایک جزئیات اور ایک کلیات۔ جزئیات جیسے ایک خاص مسئلے یا واقعے میں وارد ہونے والی کوئی دلیل۔ یہ کوئی متعین نص ہو سکتی ہے۔ یا شریعت میں وارد کسی متعین واقعے پر قیاس ہو سکتا ہے۔ فقہاء کےلیے اس سے دلیل پکڑنا زیادہ آسان ہوتاہے۔ البتہ کلیات بےشمار ادلہ اور وقائع کے استقراء یا تتبع سے حاصل کیے جاتے ہیں؛ اور یہاں فقیہ کا خوب زور لگتا ہے۔ آپ جانتے ہیں، ’مقاصدِشریعت‘ کا تعلق اسی دوسری صنف سے ہے۔ یعنی یہ ’’کلیات‘‘ میں آتی ہے۔ حق یہ ہے کہ ’مقاصدِ شریعت‘ میں کلام کرنے والے فقہاء بہت کم ہوئے ہیں۔ وجہ یہ کہ اس کےلیے نہایت اعلیٰ علمی پایہ درکار ہے؛ یہ عام فقیہ کے بس کی بات نہیں۔ متاخرین میں سے غزالیؒ، شاطبیؒ، ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہؒ وغیرہ ایسے کچھ ہی نام ملیں گےجنہوں نے اس مشکل وادی میں چل کر دکھایا ہے۔ زیادہ لوگوں نے، باوجود بڑے فقہاء ہونے کے،ادھر کا بہت زیادہ رخ نہیں کیا؛ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اتنے پانی میں نہ سمجھتے تھے۔ رَحِمَ اللہُ امۡرَءًا عَرَفَ قَدۡرَ نَفۡسِہٖ۔
یہ واقعہ صرف قربِ قیامت کےلیے باقی تھا کہ ایک کالم نگار فقہائے مذاہبِ اربعہ کی غلطی اور وہ بھی کسی معمولی بات پر نہیں بلکہ ’مقاصدِ شریعت‘ کو نہ سمجھ پانے کی بنیاد پر نکال کر دکھائے گا... اور اس کا وہ مضمون دھڑادھڑ ’شیئر‘ اور ’ٹیگ‘ ہو رہا ہو گا!
ظاہر ہے اس سے بڑا لطیفہ ہم کریں گے اگر ہم اس کو جواب دینے چل پڑیں اور مقاصدِشریعت سے اس کے ’استدلال‘ کی غلطی کو زیربحث لائیں۔
رَحِمَ اللہُ امۡرَءًا عَرَفَ قَدۡرَ نَفۡسِہٖ۔
کالم نگار کا کہنا ہے، یہ فقہائے (مذاہبِ اربعہ) جو اپنے وقت کے شرکیہ مذاہب اور ان کے مذہبی شعارات سے بیزاری پر مبنی یہ فتاوىٰ دیتے چلے گئے ہیں، یہ فقہاء اپنے اِس عمل سے دراصل اس بات کے ذمہ دار ہوئے ہیں کہ دنیا میں دینِ اسلام نہ پھیل سکے! ورنہ اگر فقہاء اُس دور میں نمازیوں کو بتلاتے کہ اپنا ’’قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ... لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ‘‘ اور ’تبرأتُ من الشرک والکفر‘ کا پڑھنا ذرا موقوف کر کے خدا کا بیٹا کہنے والوں کے ساتھ اُس مزعومہ ’خدا کے بیٹے‘ (معاذاللہ) کا برتھ ڈے کیک کاٹ کر آئیں تو آج اسلام دنیا میں چہار دانگ پھیل چکا ہوتا! اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کالم نگار کی رائے میں، فقہائے مذاہبِ اربعہ کا یہ وتیرہ خود اُن کے دور میں بھی تکبر اور غرور میں آتا تھا؛ البتہ وہ لوگ جو آج غربتِ اسلام کے دور میں بھی فقہاء کے اسی دستور پر باقی ہیں وہ خدا کے ہاں ان تین مبغوض ترین لوگوں میں آئیں گے جن میں – ازروئےحدیث – ایک وہ شخص ہے جو تنگدست ہونے کے باوجود تکبر کرتا ہے!
کالم نگار کے خیال میں فقہاء کی نظر نجانے کیوں اس طرف نہ جا سکی کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’’تحیۃ‘‘ (آداب تسلیمات) سے متعلق جو ایک بات آئی ہے اس میں (کالم نگار کے مطابق) شرک کا ایک شعار منانے والوں کو اُن کے اِس شرکیہ شعار پر مبارکباد دے کر آنا بھی باقاعدہ طور پر شامل ہے! (قاعدہ اگر یہی ہے کہ اس آیت میں کوئی کافر ہو یا مسلم، اس کے ہر قسم کے فعل اور تقریب پر مبارکباد دینے کا وجوب یا استحباب آتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس فعل کا تعلق کیسے ہی شرک یا معصیت سے کیوں نہ ہو... قاعدہ اگر یہی ہے تو معلوم نہیں کالم نگار کا فتوى شراب کی کسی گرینڈپارٹی میں جانے والوں کو مبارکباد پیش کرآنے کی بابت کیا ہو گا؟ حضرت صاحب آیت کے عموم سے شراب پارٹی پر مبارکباد کے وجوب یا استحباب کو کس دلیل سے مستثنىٰ کریں گے!)۔ چونکہ فقہاء کو سورۃ نساء میں مذکور اِس ’’تحیہ‘‘ کے دائرہ کی سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں تک جاتا ہے (یا جا سکتا ہے!) لہٰذا اللہ کے بندوں (فقہاء) نے اتنی بڑی غلطی کی کہ ایک شرکیہ تہوار پر مبارکباد کو حرام قرار دے کر آیت کے مقصود کو معطل کر بیٹھے!
علاوہ ازیں، سورۃ الممتحنۃ کی آیت 8 (لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا‘‘)۔ اس آیت میں مذکور ’’بھلائی اور انصاف کا سلوک‘‘ کو فقہاء ظاہر ہے دنیوی معاملات پر محمول کرتے رہے، یعنی غیرحربی کفار کے ساتھ عام خوشی غمی، تحفہ تحائف، آنا جانا، میل جول اور معمول کا رہن سہن رکھنا اور ان سب معاملات میں ان کے ساتھ ایک نہایت اچھا اور مہربانی کا معاملہ کرنا۔ اور یہ وہ حسن سلوک ہے جو صحابہؓ کے وقت سے لے کر مابعد ادوار تک مسلم معاشروں میں غیرحربی کافروں کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور جس سے متاثر ہو کر اللہ کا شکر ہے ڈھیروں کے ڈھیروں کافر اسلام قبول کرتے رہے، اور آج بھی ہم بجا طور پر ان کے ساتھ وہ حسن سلوک رکھنے کے داعی ہیں جو سورۃ الممتحنۃ میں ذکر ہوا... کالم نگار کے نزدیک فقہاء کا اِس ’بھلائی اور حسن سلوک‘ کو دنیوی معاملات تک محدود رکھنا اور اُن کے اعمالِ دین تک کھینچ نہ لے جانا غلط ہے! یہاں ہمارے دین کے عمومی اصول کہ جہاں تک کفار کے دین اور اعمالِ دین کا تعلق ہے تو ان سے ہمیں بہرحال بیزاری ہی رکھنی ہے (اگر کوئی حسن سلوک ہے، اور یقیناً ہے، تو اس کا تعلق عام دنیوی امور سے ہی رہے گا)... ہمارے دین کی یہ عمومی ہدایات کہ کفر کے اعمال اور شعارات سے ہماری علیحدگی اور بیزاری برقرار رہے، ’ہیومن ازم‘ کی بھاری خوراکیں لے چکے ذہنوں سے چونکہ محو ہیں... لہٰذا کالم نگار کے نزدیک الممتحنۃ کی اس آیت میں مذکور یہ ’’بھلائی اور مبنی بر انصاف سلوک‘‘ اُس وقت تک مکمل نہیں ہونے کا جب تک ہم دینِ کفر کے کسی مذہبی شعار پر ہی اپنی خوشی ظاہر کر کے نہ آئیں! یہ وجہ ہے کہ ان کے خیال میں فقہائےمذاہبِ اربعہ کا وہ مشہور فتویٰ جس میں وہ اہل کفر کے تہواروں پر تہنیت کو حرام ٹھہراتے ہیں، سورۃ الممتحنۃ میں مذکور ’’حسن سلوک‘‘ کے حکمِ شرعی کے ساتھ متصادم ہے!
اپنے صحافیوں کے ایک طبقے کا گویا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کے ہاں کفار کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے کی نوبت آنے سے جو رہ گئی (معاذاللہ) تو اغلباً اس لیے کہ صحابہؓ کو پالا ہی ایسے کافروں سے پڑا رہا جو حربی (اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے) تھے! ورنہ کم از کم کچھ کافر اگر صحابہؓ کے دور میں اور ان کے زیراقتدار خطوں میں ایسے بھی پائے جاتے جو امن کے ساتھ صحابہؓ کے جوار میں رہائش پزیر ہوتے تو آپ دیکھتے صحابہؓ کس طرح (سورۃ الممتحنۃ کی آیت نیز مقاصدِشریعت پر عمل کرتے ہوئے) ان کے مذہبی تہواروں کو رونق بخش بخش کر آتے ہیں! بس یہ (’میری کرسمس‘ کا) واقعہ اس وجہ سے ہونے سے رہ گیا کہ صحابہؓ کے دور میں غیرحربی کافر کہیں دستیاب ہی نہ ہو سکے تھے! اور جب تک دستیاب ہوئے تب تک مذاہبِ اربعہ رونما ہو گئے تھے! سو سورۃ الممتحنۃ کی اِس آیت پر اکیسویں صدی تک عمل معطل رہا؛ اب کہیں جا کر آپ کو یہ ’حکم شرعی‘ بحال ہوتا ہوا نظر آتا ہے جب ہمارے کچھ جبہ بردار چرچ جا کر پادری کے ساتھ کھڑے کرسمس کاٹنے کی تصویر بنوا کر آتے ہیں! یہ ہے شریعت کی روح کو زندہ کرنا!
ظاہر ہے ہم کالم نگار کو کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔ اور نہ دینا بنتا ہے۔ البتہ یہ تجویز کریں گے کہ وہ اپنے ’مقاصدِشریعت‘ اور اپنے فہمِ سورۃ الممتحنۃ کے ساتھ تصادم کو مذاہبِ اربعہ تک محدود نہ رکھیں۔ بیہقی، مصنف عبدالرزاق اور دیگر کتب میں حضرت عمرؓ کا یہ حکم نامہ آتا ہے کہ مسلمان کفار کے گرجوں میں ان کے تہواروں کے موقع پر نہ جائیں کیونکہ یہ خدا کے غضب کا محل ہیں۔ (یہاں بھی یہی نظر آتا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا حسن سلوک اپنی جگہ حق ہے مگر اس کا مطلب اُن کے مذہبی اعمال کےلیے قربت ظاہر کرنا نہیں ہے)۔ لہٰذا حق بنتا ہے کہ کالم نگار بحق ہیومن ازم دورِصحابہؓ تک کی خبر لیں! اس اصلاح اور نظرثانی کا دائرہ خاصا وسیع کرنا پڑے گا!

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 
Top