• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان عورتوں کا بال کٹانا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
مسلمان عورتوں کے لئے سر کے بال مکمل رکھنا واجب ہے اور بلاضرورت اسے مونڈوانا حرام ہے۔
سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں:
"عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
( نَهَی رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا) (سنن النسائي:۵۰۵۲(
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سر مونڈنے سے منع کیا ہے۔
احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے، اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔ملا علی قاری "المرقاة شرح مشکوٰة" میں فرماتے ہیں :
عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔ (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم :۲/۴۹(
اس طرح عورتوں کے لئے سرکے بال بلا ضروت کٹوانا بھی جائز نہیں ہے چاہے شوہر ہی کا حکم کیوں نہ ہو،رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے بال پورے ہوتے تھے اور چھوٹے بالوں والی عورتیں وصل سے کام لیتی تھیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان پر لعنت بھیجی۔
لعنَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ الواصلةَ والمستَوصلةَ ، والواشمةَ والمستَوشمةَ(صحيح البخاري:5940)
ترجمہ: نبی صلی الله علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اورگدوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تو عورتوں کے لئے بال رکھنا اور نہ کٹانا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔
لہذا عورتوں کابلاضرورت سرمنڈوانا، یا بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔ حج و عمرہ میں عورت کا انگلی کے پور کے برابر بال کٹانے کا حکم ہے، اور اگر عورت کوکسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال کٹانے کی ضرورت پڑجائے تو اس صورت میں جائز ہوگا۔
نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق مسلم شریف میں ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
وكان أزواجُ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- يَأخذْنَ مِن رؤوسِهنَّ حتى تكونَ كالوَفْرَةِ (صحيح مسلم:320)
ترجمہ: بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔
اس حدیث کی بناپر بعض علماء نے عورتوں کو بال کٹانے کی رخصت دی ہے حالانکہ یہ حدیث ازواج مطہرات کے ساتھ ہی خاص ہے ، انہوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد ترک زینت کے طور پرایسا کیاتھا۔ اگر کوئی عورت ضرورتا کٹانا چاہے تو اس کی اجازت ہے مگر فیشن کے طورپریا مغربی تہذیب کی نقالی کی خاطر یا مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کی غرض سے عورت کا سرکے بال کٹاناان صورتوں میں حرام ٹھہرے گا۔
دیکھاجاتا ہے خواتین بالوں کے متعلق بہت سارے جرائم کا شکار ہیں مثلا ہمیشہ اور ہرجگہ بال کھلا رکھنا، بالوں میں وگ لگانا، بالوں میں مردوں کی طرح تراش وخراش کرنا اور اس حالت میں بازاروں یا اجنبی مردوں کی جگہوں پہ آناجانا ۔یہ سارے عیوب مردوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی وجہ سے ہیں اور اجنبی مردوں کو مائل کرنے والی عورتوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ یہ میلان کپڑوں سے ہو، اداؤں سے ہو، آوازسے ہویا بالوں سے ہو۔
اس لئے مسلم خاتون کو چاہئے کہ وہ اپنے بالوں کی حفاظت کرے اور اس سے متعلق اسلامی احکام کی پاسداری کرے اور ان تمام کاموں سے بچے جن سے عزت وآبرو پہ آنچ آتی ہو۔

واللہ اعلم
 
Top