• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان عورت کے سر کے بالوں کے احکام و مسائل

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
مسلمان عورت کے سر کے بالوں کے احکام و مسائل از ابن بشیر الحسینوی

(١)عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹواسکتی کیونکہ اس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہے ، لہٰذامنع ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لعن اللہ المشتبھین من الرجال بالنساء والمشتبھات من النساء بالرجال))
اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور (اللہ لعنت کرے)ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔(صحیح البخاری:٥٨٨٥)
آج کی جدت پسند عورت ہر کام میں اپنے آپ سے مردوں کو حقیر سمجھتی ہے۔ اللہ نے عورت کوجو مقام دیا ہے وہ اس سے زیادہ کی اُمنگ لیے ہوئے ہے اسی لیے وہ ذلیل بنتی جارہی ہے ۔یاد رہے عورت کی عزت اورمقام اسی میں ہے کہ و ہ مردوں کی مشابہت بالکل اختیار نہ کرے ۔
اللہ کی لعنت کی مستحق ہے وہ عورت جو اپنے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کے لیے سرکے بالوں کو کٹواتی ہے۔

(٢)حج اور عمر ہ کے موقع پر جب عورت احرام کھولے تو سر کے بالوں کو(آخر سے تقریباً ایک انچ تک) کتروانا چاہئے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
((لیس علی النساء الحلق إنما علی النساء التقصیر))
(حج یا عمر ہ سے احرام کھولنے کے بعد )عورتوں پر سر منڈوانا نہیں بلکہ بال کتروانا ہے۔ '' (ابو داود١٩٨٥،الدارمی:١٩١١وسندہ حسن،وحسنہ ابن حجرفی التلخیص الحبیر٢/٢٦١)
(٣)عورت کا اپنے سر کے بال منڈوانا حرام ہے۔ دلیل کے لئے دیکھئے فقرہ سابقہ:٢

(٤)عورت مجبور ی(شدید بیماری) کی حالت میں اپنے سر کے بال منڈوا بھی سکتی ہے ۔

(٥)فوت شدہ عورت کے بالوں کو تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دینا چاہئے ۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی وفات پاگئیں ۔۔۔۔۔۔ ''ہم نے (غسل دینے کے بعد )اس کے بال تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دیئے ۔'' (صحیح البخاری:١٢٦٣)

(٦)جنبی عورت کا غسل جنابت میں اپنے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں بلکہ اسی طرح اپنے سر پر تین چلوپانی ڈالے۔(صحیح مسلم :٣٣٠)

(٧)اگر عورت نے حیض (ماہواری کا خو ن)یا نفاس (وہ خون جو بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک جاری رہتا ہے ) کے ختم ہونے پر غسل کرنا ہے تو پھر سر کے بالوں کا کھولنا ضروری ہے ۔(صحیح البخاری:٣١٧)
فائدہ: نفاس اور حیض کا ایک ہی حکم ہے دیکھیں صحیح البخاری(٢٩٨)

(٨)حیض (یانفاس)سے نہاتے وقت بالوں میں گنگھی کرنی چاہئے۔(صحیح البخاری:٣١٦)

(٩)نماز پڑھتے وقت بالغ عورت اپنے سر کے بالوں کو چادر سے ڈھانپ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہیں ہوتی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
((لا یقبل اللہ صلاۃ حائض إلابخمار))
جس عورت کو حیض آتا ہے (جو بالغہ ہے )اللہ تعالیٰ اس کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں کرتا۔
(ابو داود:٦٤١،الترمذی:٣٧٧،ابن ماجہ ٦٥٥المعجم لابن الاعرابی ٢/٣٢٥،٣٢٦ح١٩٩٦وھوحدیث صحیح)
تنبیہ : اگر سر پر اتنا باریک کپڑا ہے جس سے سر کے بال نظر آرہے ہیں تو اس میں بھی نماز صحیح نہیں ہوگی کیونکہ عورت کو سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔

(١٠) عورت کے لیے حرام ہے کہ وہ اپنے بال غیر محرموں کے سامنے کھلے چھوڑے کیونکہ غیر محر م سے عورت کا پردہ کرنا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
(یٰۤاَ یُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ َونِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ طذٰلِکَ اَدْنٰیۤ اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا)
اے نبی!اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ،رحم کرنے والا ہے ۔ (الاحزاب:٥٩)
اما م ابن سیرین ؒنے( یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ)کی تفسیر کے متعلق عبیدہ السلمانیؒ سے سوال کیا تو انھوں نے اپنا چہر ہ اور سر ڈھانپ لیا اور اپنی بائیں آنکھ ظاہر کی ۔ (تفسیر ابن جریر ٢٢/٣٣وسندہ صحیح،من طریق ابن عون عن محمد بن سیرین بہ )

یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ اگر انگریز کافر عورت کی طرح پردہ کو مسلمان عورت نے بھی دور کر دیا تو کل قیامت کے دن انھی کافر عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گی ۔

(١١)درج ذیل مسئلوں میں عورت کے سر کے بالوں کے احکام مرد کی طرح ہیں مثلاً:
(١)بال پاک ہیں
(٢)بالوں کی خریدوفروخت کرنا ناجائزہے
(٣)بالوں کو کنگھی کرنا
(٤)کنگھی دائیں سے شروع کرنا
(٥)مانگ تالو سے نکالنا
(٦)بالوںمیں تیل لگانا
(٧)بالوں کو گوند کر یا چوٹی بنا کر نماز نہ پڑھنا
(٨)بالوں کو کسی چیزسے چپکانا
(٩) سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے
(١٠)سفید بالوں کوکالے رنگ کے علاوہ مہندی یا زرد رنگ یا کسی اور رنگ سے رنگنا
(١١)مصنوعی بال (وِگ)لگانا حرام ہے
(١٢)وضومیں سر کا مسح کرنا
(١٣)غسل جنابت کے وضومیں سر کا مسح کرنے کے بجائے تین چلو ڈالنا -یا مسح کرنا
مذکورہ تما م احکام کی تفصیل (مسلما ن مرد کے بالوں کے احکام ) میں گزر چکی ہے ۔

٢: ابرؤوں (ابرواں )کے بالوں کے احکام (یہ احکام عورت کے ساتھ خاص ہیں )
ابرؤوں کے بال اتارنا یا باریک کرنا حرام ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
'' گودنے والی اور خوبصورتی کے لئے ابرؤوں کے بال اتارنے والی ( یا باریک کرنے والی ) دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی اس کی کنیت ام یعقوب تھی وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی :مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے ایسی ایسی عورت پر لعنت کی ہے؟ انھوں نے کہا: بے شک میں تو ضرو ر اس پر لعنت کروں گا جس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اُس پر لعنت آئی ہے ۔وہ عورت کہنے لگی: میں نے تو سارا قرآ ن جو دوتختیوں کے درمیان ہے پڑھا ہے اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تو قرآن کو (غوروفکر اور سمجھ کر )پڑھتی تو ضرور یہ مسئلہ پالیتی کیا قرآن میں تو نے یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تم کو حکم دے اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کرے اس سے باز رہو؟اس نے کہا :جی ہاں یہ آیت تو قرآن میں ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع کیا ہے ۔وہ عورت کہنے لگی:تمھاری بیوی بھی تو یہ کرتی ہے، انھوں نے کہا :جادیکھ جب وہ گئی وہاں کوئی بات نہ پائی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی ۔''(صحیح البخاری :٤٨٨٦)
اللہ تعالیٰ ہماری مسلمان ماؤں اور بہنوں کو اس لعنت کے مستحق عمل سے محفوظ فرمائے ۔
فائدہ1: چہرے کے بالوں کو نوچنا خوبصورتی کے لیے حرام ہے ۔
یہ عورتوں کے ساتھ خاص ہے ۔دلیل (ابرؤوں کے بالوں کے احکام میں گزر چکی ہے )
فائدہ2: عورت کا اپنے چہرے کے غیر عادی بالوں (داڑھی یا مونچھیں )کو زائل کرنا درست ہے ۔
حافظ ابن حجرؒ نے امام نوویؒ کا قول نقل کیا ہے کہ''چہرے سے بال نوچنے سے داڑھی ، مونچھیں یا بچہ داڑھی مستثنیٰ ہیں عورت کا انھیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے ''۔
پھر حافظ ابن حجر ؒنے کہا کہ''اس قول کو مفید کہا جائے گا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے اجازت لے کہ میں اپنی داڑھی یا مونچھیں یا بچہ داڑھی زائل کر لوں یا اسے اس کا علم ہونا چاہئے ورنہ خاوند کو دھوکا رہتاہے۔ ''(فتح الباری ١٠/٤٦٢)
شیخ محمد بن الصالح العیثمین ؒ لکھتے ہیں :''ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اُگ آئیں جہاں عادتاً بال نہیں اُگتے مثلاً عورت کی مونچھیں اُگ آئیں یا رخساروں پر آجائیں تو ایسے بالوں کے اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلافِ عادت اور چہرے کے لیے بدنمائی کا باعث ہیں ۔''(فتاویٰ برائے خواتین :ص٣٤٢-٣٤٣)

٣: رخساروں کے بالوں کے احکام (یہ مردوں کے ساتھ خاص ہیں )
اللحیۃ (داڑھی )کی تعریف لغت میں ہے کہ ''دونوں رخساروں اورٹھوڑی کے بال'' (القاموس الوحید ص١٤٦٢)
فائدہ : بچہ داڑھی بھی داڑھی میں شامل ہے ۔
''عنفقہ''(نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان کے بال) بھی داڑھی میں شامل ہے جو اسے خارج سمجھتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ جو بال نیچے کے چپاڑے پر ہیں ان کے داڑھی میں داخل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ (فتاویٰ اہل حدیث ١/٢٧٣بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ١/٥٧)
فائدہ: گھنڈی اور گر دن کے با ل داڑھی میں شامل نہیں،ان کولیناجائز ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ :١/٧٨٢)

٤: داڑھی کے احکام
(١)داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
((عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ))
دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔(صحیح مسلم :٢٦١)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
((خالفوا المشرکین وفروا اللحٰی واعفو ا لشوارب))
مشرکوں کی مخالفت کر و داڑھیوں کو بڑھا ؤ اور مونچھوں کو پست کرو۔ (صحیح البخاری:٥٨٩٢،صحیح مسلم :٢٥٩)
صحیح بخاری(٥٨٩٣)میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ
((انھکوا الشوارب واعفوا اللحٰی))
داڑھیوں کو بڑھاؤاور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے کہا :اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
تم مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ۔
(مسند احمد :٥/٢٦٤وسندہ حسن،حسنہ ابن حجر فتح الباری١٠/٣٥٤)
معلوم ہوا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔

حافظ عبد المنان نور پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
''کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ بنایا ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے ،فرض نہیں۔عام لوگوں کا یہ ذہن ہے اس کو سنت سمجھتے ہیں ۔یہ نظریہ بھی غلط ہے ۔داڑھی رکھنا بڑھانا سنت نہیں بلکہ فرض ہے ،واجب ہے اورداڑھی کٹانا فرض اور واجب کی خلاف ورزی ہے ،نافرمانی ہے،حرام ہے اور گناہ ہے۔'' (مقالات نور پوری:ص٢٧٨)
(٢)'' مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنا بالکل غلط ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی جاتی ہے وہ ان کا اپنا عمل ہے اور ان کا عمل دین میں دلیل نہیں بنتا ۔صحابی کا اپناقول اور اپنا عمل دلیل نہیں بنتا صحابی رضی اللہ عنہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب تقریر بیان کریں تو وہ دلیل ہے صحابی کا اپنا عمل اور قول دلیل نہیں جب یہ دلیل نہیں تواس سے گنجائش کیسے ملی؟ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایاہے:
(اِتَّبِعُوْا مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلَاتَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖۤ اَوْلِیَآئَط قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ)
جو کچھ رب تعالیٰ کی طر ف سے ناز ل کیاگیا ہے اس کا اتباع کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کااتباع نہ کرو تم بہت ہی تھوڑی نصیحت حاصل کرتے ہو ۔(الاعراف:٣)
نصیحت حاصل کرو(مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ )یہ حجت ہے یہ دلیل ہے قرآن مجید ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث ہو یہ دلیل ہیں موقوفات اور بزرگوں کے اقوال یہ دین میں دلیل نہیں بنتے ۔'' (مقالات نور پوری:ص٢٦٤،٢٦٧)تفصیلی بحث مفصل کتاب میں دیکھیں ۔

(٣) سفید داڑھی کو رنگنا بھی چاہئے۔سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
''میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے اپنے سر کے بالوں کو مہندی لگائی ہوئی تھی۔''
(مسند احمد٤/١٦٣ح١٧٤٩٨وسندہ صحیح)

٥: مونچھوں کے احکام

(١) مونچھون کو ترشوانا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
(( عشر من الفطرۃ قص الشارب ...))
دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں( جن میں ) مونچھیں تراشنا بھی ہیں۔ (صحیح مسلم: ٢٦١)
٢: مونچھوں کو ترشوانے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
''وقت لنا فی قص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ''
ہمارے لیے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم مونچھوں کو ترشوانا ،ناخنوں کو اتارنا ،بغلوں کے بال نوچنا اور زیر ناف بال مونڈھنے کو چالیس دنوں سے زیادہ تاخیر نہ کریں۔(صحیح مسلم:١/١٢٩ ح٢٥٨)
ساری مونچھوں ( یا بعض مونچھوں ) کو قینچی سے کاٹنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من لم یأخذ من شاربہ فلیس منا ))
جو شخص مونچھوں میں سے نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائی: ٩٢٩٣ وسندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مونچھیں اتنی کاٹتے کہ ان کی ( سفید) جلد نظر آتی تھی۔( صحیح البخاری قبل ح٥٨٨٨ تعلیقاً ، رواہ الاثرم کما فی تغلیق التعلیق ٥/٧٢ وسندہ حسن ، الطحاوی فی معانی الآثار ٤/ ٢٣١ وسندہ صحیح)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے تھے۔ ( دیکھئے کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد ١/٢٦١ ح١٥٠٧ وسندہ صحیح)
امام مالک ؒکی بھی باریک سروں والی لمبی مونچھیں تھیں۔ ( حوالہ مذکورہ :١٥٠٧وسندہ صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی لمبی مونچھوں کو مسواک سے کاٹا( یا کٹوایا )تھا۔ (دیکھئے سنن ابی داود : ١٨٨ وسندہ صحیح )

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے ( ایک دفعہ) اپنی مونچھوں کو اُسترے سے منڈوایا تھا۔ دیکھئے التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ (ص ١٦٠ ح ٣١١ وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ مونچھیں کاٹنا اور منڈانا دونوں طرح جائز ہیں تاہم بہتر یہی ہے کہ مونچھیں استرے کے بجائے قینچی سے کاٹی جائیں۔
٦: بغلوں کے بالوں کے احکام
(١)بغلوں کے بالوں کو نوچنا بھی فطرت سے ہے ۔ (صحیح مسلم :٢٦١)
جو شخص بغلوں کے بال اکھاڑنے پر قادرنہ ہو تو وہ انھیں مونڈ سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
( فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)
اللہ سے ڈروجتنی طاقت رکھتے ہو۔ ( التغابن : ١٦)
نیز دیکھئے کتاب الترجل (ص١٥٠) والمجموع (١/٢٨٨)

(٢)بغلوں کے بالوں کو نوچنے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔ (صحیح مسلم :١/١٢٩ح٢٥٨)
فائدہ:مونچھوں کو کٹوانا افضل ہے اور منڈوانا بھی جائز ہے تفصیل کے لیے دیکھیں ۔ (زادالمعاد :١/١٧٨-١٨٢)

٧: زیر ناف بالوں کے احکام
(١)زیرناف بالوں کو مونڈنا فطرت سے ہے۔ (صحیح مسلم :ـ٢٦)
(۲)زیر ناف بالوں کو مونڈھنے میں چالیس دن سے تاخیرنہ کرے (صحیح مسلم :١/١٢٩ح٢٥٨)
فائدہ: فوت شدہ کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنا بھی درست ہے اور نہ مونڈھنا بھی دونوں طرح کے آثار سلف صالحین سے مروی ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ح:١٠٩٤٥،١٠٩٥٤،١٠٩٤٧،الاوسط:٥/٣٢٨،٣٢٩ مسائل احمد لابی داود:ص١٤١)
لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ بال نہ مونڈے جائیں۔
٨: (کانوں کے اندرونی )سینہ ،کمر، بازؤوں ،پشت ،ٹانگوں ،رانوں ،ہاتھوں اور پاؤں پر اُگے ہوئے بالوں کے احکام
جسم پر اُگے ہوئے بالوں کی بعض اقسام کے احکام قرآن وحدیث نے بیان کردیئے ہیں اور بعض کے نہیں بیان کئے یعنی ان سے خاموشی اختیار کی ہے جس چیز سے شریعت نے خاموشی اختیا ر کی ہو(اور دوسرے قرائن سے اس کی نفی بھی نہ ہو رہی ہو تو) اس کا کرنا جائز ہوتا ہے معلوم ہوا کہ سینہ، کمر اور بازؤوں کے بال کاٹنا اور مونڈنا جائز ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب

٩:ناک میں اُگے ہوئے بالوں کو اکھیڑنا
اس کے متعلق بھی شریعت خامو ش ہے ان کا اکھیڑنا بھی جائز ہے ۔
نوٹ: اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو فضول نہیں بنایا ناک میں اُگے ہوئے بالوں اور اس سے پہلی قسم کے بالوں کے اگانے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں جو شاید ہم پر ( علم نہ ہونے کی وجہ سے )مخفی ہیں لہٰذا ان کو اپنی حالت میں چھوڑنا ہی بہتر ہے۔واللہ اعلم بالصواب

١٠: کنپٹی کے بالوں کے احکام
1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹی کے چند بال سفید تھے۔ (صحیح البخاری: ٣٥٥٠ وصحیح مسلم: ٢٣١)
2 جس روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کنپٹیوں کا مسح کیا تھا۔ (سنن ابی داود: ١٢٩ وسنن الترمذی: ٣٤)
اس کی سند عبداللہ بن محمد بن عقیل ( ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
محترم ابن بشیر بھائی،
آپ نے مضمون کا عنوان ’عورتوں کے سر کے بالوں کے احکام‘ رکھا ہے۔ جبکہ مضمون میں تو عورتوں اور مردوں اور سر کے علاوہ ابروؤں، بغلوں، زیرناف، کنپٹی، ناک وغیرہ کے بالوں کے احکام بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں موضوع کا عنوان ’مردوں اور عورتوں کے بالوں کے احکام‘ یا ایسا ہی کچھ رکھ دینا چاہئے۔ ازراہ کرم عنوان آپ تجویز کر دیں تو ہم یہاں سے عنوان کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
باقی مضمون تو آپ کی دیگر پوسٹس کی طرح بہت ہی عمدہ ہے ماشاءاللہ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
محترم ابن بشیر بھائی،
آپ نے مضمون کا عنوان ’عورتوں کے سر کے بالوں کے احکام‘ رکھا ہے۔ جبکہ مضمون میں تو عورتوں اور مردوں اور سر کے علاوہ ابروؤں، بغلوں، زیرناف، کنپٹی، ناک وغیرہ کے بالوں کے احکام بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں موضوع کا عنوان ’مردوں اور عورتوں کے بالوں کے احکام‘ یا ایسا ہی کچھ رکھ دینا چاہئے۔ ازراہ کرم عنوان آپ تجویز کر دیں تو ہم یہاں سے عنوان کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
باقی مضمون تو آپ کی دیگر پوسٹس کی طرح بہت ہی عمدہ ہے ماشاءاللہ۔
واقعی عنوان میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔
 
Top