• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان کا مسلمان کو کافرو مرتد قرار دینا !!!!

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یقیناً کسی مسلمان کا مسلمان کو کافر ومرتد قرار دینا اور اسے قتل کرنا گناہ کبیرہ اور فتنہ عظیم ہے۔ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسی طرح کسی مسلمان کی خارجیوں کی طرف نسبت کرنا کیا ہے؟ ابوبصیر صاحب آپ بتانا پسند کریں گے؟ یہ سوال میں نے آپ سے کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ سے متعدد بار یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ مجاہدین کی کسی تحریر اور تقریر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مجاہدین نے عامۃ المسلمین کی تکفیر کی ہو۔مگر آپ ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ جو لوگ قاعدۃ الجہاد اور تحریک طالبان کے مجاہدین پر اس قسم کی تہمت عائد کرتے ہیں وہ پکے بہتان باز اور کذاب ہیں یہ لوگ آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی ان شاء اللہ کرسکیں گے۔ کیونکہ مجاہدین کی قیادت سے ہم نے کبھی بھی کسی تقریر اور کسی بھی تحریر میں اس بات کو نہیں پایا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی مجاہدین کو تکفیری اور خوارج قرار دیتا ہے وہ خود ہی تکفیریوں اور خارجیوں میں سے ہے۔آپ نے ایک پوسٹر اسی فورم پر اپ لوڈ کیا تھا جس میں آپ نے دیوبندیوں سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے خلاف سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۴۴ کو کوڈ کرتے ہوئے ان کی تکفیر کی تھی ۔ جس پر میں نے آپ کو کہا تھا یہ کھلی تکفیر آپ نے کی ہے دیوبندیوں کی جس پر آپ نے چپ سادھ لی اور کوئی جواب نہیں دیا میرے پوسٹ کا ۔ ابھی تک آپ کے پاس میرے کسی پوسٹ کا جواب نہیں بن سکا ہے۔ حالانکہ آپ نے اپنے معاونین کو بھی اس فورم پر طلب کیا لیکن الحمد للہ باطل باطل ہی ہوتا ہے اور وہ حق کے سامنے کسی طور ٹھہر نہیں سکتا۔اس طرح آپ نے دیوبندیوں کی تکفیر کرکے اپنے تکفیری ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے جو کہ اسی فورم پر موجود ہے۔اور آپ تکفیری ہونے کا بہتان مجاہدین پر تھوپتے ہو۔ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ کہ تکفیر مسلمانوں کی آپ خود کررہے ہو ۔اور بدنام مجاہدین کو کررہے ہو۔
اور اس حدیث کو پیش کرکے آپ طاغوتی حکمرانوں کو بچانہیں سکتے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ اگر حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف خروج واجب ہوجاتا ہے۔اس بارے میں ہم کچھ احادیث نقل کئے دیتے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے کیونکہ عصر حاضر میں خوارج نماتکفیری مرجئوں نے تلبیس کرتے ہوئے احادیث کو اپنے من مانی تاویلات کا شکار بنایا ہوا ۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ ان تاویلات کے ذریعے سے اپنے طواغیت کی بچت کرسکیں۔
رسول اللہ ﷺنے امام جائر یعنی ظالم حکمران کے بارے میں فرمایا:
(( ان شرالرعاء الحطمة،فایاک ان تکون منھم ))
''بدترین حاکم رعایاپر''ظلم ''کرنے والے ہیں ،پس تم اس بات سے بچو کہ تم ان میں سے ہو''۔
صحیح البخاری ومسلم ،رواہ البزار،مجمع الزوائدج:5ص:239.
((وان شرالناس منزلة یوم القیمة امام جائرخرق))
''اورلوگوں میں بدترین قیامت کے دن درجے کے اعتبار سے جھوٹا ظالم حکمران ہوگا''۔
شعب الایمان ج:6ص16،رقم الحدیث7371.
''بے شک''ظالم ''حکمران قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور اس کے شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگا''۔
((عن سعید الخدریقال قال رسول اللّٰہ ﷺاشد الناس عذابا یوم القیمة امام جائر))
المعجم الاوسط ج:5ص:239رقم الحدیث5196،معجم ابی یعلی ج:1ص:129رقم الحدیث 192.
'' قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں ''ظالم''حکمران مبتلا کیا جائے گا ''۔
((وعن ابن مسعودقال قال رسول اللّٰہﷺان اشد اھل النارعذابا یوم القیامة من قتل نبیا أو قتلہ نبی أو امام جائر(وفی روایة )وامام ضلالة))
''حضرت ابن مسعود ﷛فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اہل جہنم میں سب سے زیادہ عذاب روزِ قیامت اس کو ہوگا جس نے قتل کیا نبی کویا نبی کے ہاتھوں قتل ہوا اور ''ظالم حکمران''(ایک روایت میں ہے کہ )گمراہ کرنے والا حکمران''۔
الطبرانی،مجمع الزوائد ج:5ص:236،مسند البزارورجالہ ثقات.
((وعن عبداللّٰہ بن عمرو ان النبیﷺقال ثلاثةلاینظراللّٰہ الیھم یوم القیامة ولایزکیھم ولھم عذاب الیم رجل اتی قوما علی اسلام دامج فشق عصاھم حتی استحلواالمحارم وسفکوالدماء وسلطان جائر))
''حضرت عبدا للہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا تین آدمیوں کی طرف اللہ تعالیٰ روزِ قیامت نہ تو نظر کرم فرمائے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو شدید عذاب دے گا۔ایک شخص جو کسی قوم میں داخل ہوا پکے اسلا م کی حالت میں پھر ان کے گناہ اس پر حاوی ہوگئے یہاں تک کہ اس نے حرام کردہ چیزوں کو حلال جان لیا اورجس نے خون بہایااور''ظالم''حکمران''۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط،مجمع الزوائدج:5ص:237،وفیہ ابراھیم بن بشارالرمادی وھوصدوق کثیر الوھم وبقیة رجالہ ثقات.
یہ تو تھی ظالم حکمرانوں کے بارے وعیدوں کا بیان جو کہ ہم نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جوکہ اہل علم اور اہل بصیرت کے لئے کافی وشافی ہوگا ان شاء اللہ ۔ اب ہم ذیل میں ان ظالم حکمرانوں کے کے بارے میں سلف وصالحین کا ذاتی طرز عمل بیان کرتے ہیں۔
امام سفیان ثوری ﷫فرماتے ہیں:
''ان دعوک لتقرا علیھم :قل ھو اللّٰہ احد ،فلا تأ تھم
''اگر(ظالم )حکمران تمہیں اس لئے بلائیں کہ تم انہیں (قل ھو اللّٰہ احد)پڑھ کر سناؤ تو پھر بھی نہ جانا ''۔
بھیقی.
امام سفیان ثوری﷫مزید فرماتے ہیں:
''ان فجار القراء اتخذوا الی الدنیا فقالوا: ندخل علی الأمراء نفرج عن مکروب ونکلم فی محبوس''
''فاجر علماء نے دنیا تک (رسائی کے لئے)ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہتے ہیں :ہم حکمرانوں کے یہاں جائیں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کو نجات دلائیں اور کسی قیدی کی سفارش کریں''۔
امام قرطبی ﷫فرماتے ہیں :''کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کاکام ترک نہ کردے جیسا کہ عبادہ ﷛سے مروی حدیث میں ہے:الایہ کہ تم اما م میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو''۔ قرطبی:2/115-116.
کفر و ارتداد کے مرتکب حکمران کے بارے میں سلف کا متفقہ فیصلہ :
ابن تیمیہ ﷫فرماتے ہیں :
''اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی ﷺکی رحلت کے بعد کسی اور کو حلال حرام قرار دینے کا حق ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا ۔یاکسی حد کولازمی قرار دے جو نبی ﷺکے زمانے میں نہیں تھی یا ایسا شرعی قانون بناتا ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا تو وہ شخص کافر مشرک ہے اس کی جان ومال کا حکم مرتد کا ہے''۔مجموع الفتاوی:28/524.
حافظ ابن حجر﷫فرماتے ہیں:
''خلاصہ ٔ کلام یہ کہ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ حکمران کفر کی بناءپر (ازخود)معزول ہوجاتاہے اور ہر مسلمان پر اس کے خلاف خروج میں حصہ ڈالنا واجب ہوجاتاہے ۔پھر جو اس کی قدرت رکھے اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو وہ ثواب کا مستحق ہوگا،اور جو کوئی (قدرت کے باوجود)مداہنت و مصالحت کا رویہ اپنائے وہ گناہ گار ٹھرے گا اور جو کوئی اس کافر حکمران کے خلاف اٹھنے کی قدرت نہ رکھے ،اس پر واجب ہے کہ وہ اس سرزمین سے ہجرت کرجائے''۔فتح الباری،13/123.
ملا علی قاری ﷫فرماتے ہیں:
''اجمعوا علی ان الامامة لا تنعقد لکافر ولو طرأ علیہ الکفر انعزل وکذا لوترک اقامة الصلوات والدعاء الیھا وکذا البدعة''
''اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کوئی کافر مسلمانوں کا حاکم نہیں بن سکتا اور حاکم بننے کے بعد کفر کا ارتکاب کرے تو معزول قرار پائے گا ۔اسی طرح اگر وہ نماز قائم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا چھوڑ دے یا بدعت جاری کرے تب بھی اس کو یہی حکم ہے''۔ مرقاة المفاتیح؛ج:11،ص:303.
قاضی عیاض﷫فرماتے ہیں:
''اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ کوئی کافر مسلمانوں کا امام (حکمران )نہیں بن سکتا اور اسی طرح اگر امام بننے کے بعد کوئی حاکم (قولی یا فعلی کفر و ارتداد کی وجہ سے)کافر ہوجائے تب بھی فوراًمعزول ٹھیرے گا ۔نیز اگر وہ نماز قائم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا چھوڑ دے تب بھی معزول قرار پائے گا ''۔ شرح النووی﷫ علی مسلم ؛ج:6،ص:314.
قاضی عیاض ﷫مزید فرماتے ہیں:
''اگر کوئی حکمران کفر کا ارتکاب کرے ،یا شریعت میں کوئی ردوبدل کرے ،یا کوئی بدعت جاری کرے تو وہ بطور حکمران باقی نہیں رہتا ،اس کی اطاعت''ساقط ''ہوجاتی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہوجاتاہے کہ اگر وہ قدرت رکھتے ہوں تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسے ہٹاکر اس کی جگہ کوئی عادل حکمران مقرر کریں ۔نیز اگر پوری امت میں سے محض کوئی ایک گروہ یہ قدرت رکھتا ہو تو اس گروہ پر واجب ہوگا کہ وہ اس کافر حاکم کو اس کے منصب سے ہٹائے ۔یہ تو کافر حکمران کا معاملہ تھا ،رہا بدعتی حکمران کو ہٹانا،تو تبھی واجب ہوگا جب اس بات کا غالب امکان ہو کہ اس پر غلبہ پالیاجائے گا ۔اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ مسلمان(بدعتی حکمران کے خلاف)اتنی قدرت بھی نہیں رکھتے تو ایسے حکمران کے خلاف خروج واجب نہیں ہوگا ۔ایسی صورت میں ایک مسلمان کا فرض بنتاہے کہ اور وہ اپنے دین کو بچاتے ہوئے اس سرزمین سے نکل جائے''۔شرح النووی﷫ علی مسلم ؛ج:6،ص:314.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی﷫ فرماتے ہیں :
''اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط مکمل طور پر نہیں پائی جاتیں تو اسکی مخالفت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے اس لئے کہ اس مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے فسادات پیدا ہوں گے جو کہ ملک و قوم کے مصلحت کے خلاف ہے بلکہ بہت زیادہ بگاڑ کاسبب بنیں گے لیکن اگر حکمران نے کسی اہم ''دینی امر''کی مخالفت کی تو اس کے خلاف قتال جائز ہوگا بلکہ واجب ہوگا ۔ اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کر دی ہے اور قوم کے لئے مزید'' فساد و بگاڑ'' کا سبب بن رہا لہٰذا اس کے خلاف قتال ''جہاد فی سبیل اللہ'' کہلائے گا۔'' حجة اللّٰہ البالغة،ج:2ص:399.
رسول اللہﷺنے فرمایا:
((عن طلحة بن عبید اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہﷺ یقول:ألا أیھا الناس لایقبل اللہ صلاة امام حکم بغیر ماأنزل اﷲ))
''حضرت طلحہ بن عبید اللہ﷛فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :آگاہ ہوجاؤ!اللہ اُس امام کی نماز قبول نہیں کرتاجوکہ اللہ کی نازل کردہ (شریعت )کے سوا فیصلے جاری کرے''۔مستدرک الحاکم للصحیحین،ج:16ص:330رقم :7108۔ ھذا حدیث صحیح الاسنادولم یخرجاہ.
اور ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں:
((لا یقبل اﷲ صلاة امام حکم بغیر ماأنزل اﷲ ولایقبل اﷲ صلاة عبد بغیر طھور ولاصدقة من غلول))
''اللہ اُس امام کی نماز قبول نہیں کرتاجوکہ اللہ کی نازل کردہ (شریعت )کے سوا فیصلے جارے کرے(جیسے )اللہ قبول نہیں کرتا کسی بندے کی بغیر طہارت کے نماز اور وہ صدقہ جو غبن کئے ہوئے مال میں سے دیا جائے ''۔کنز العمال ،ج:6ص:40رقم:14762.
مندرجہ بالا عبارات میں صاف طور پر احادیث اور سلف کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے کہ ظالم فاسق اور کافر حکمران کے خلاف خروج واجب ہوجاتا ہے۔چنانچہ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی اسی پر دال ہے:
کہ رسول اللہ ﷺنے ایسے حکمران جو کھلم کھلا کفرکا حکم نہیں بلک صرف اس کاارتکاب کر بیٹھیں ، تو ان سے اطاعت کا ہاتھ کھینچ لینے اور ان سے تلوار سے نمٹنے کا حکم دیا ہے اور اسی بنیاد پر امت کے فقہا ءایسے حکمرانوں کے خلاف خروج کوہر مسلمان پر لازم اور''فرضِ عین''قرار دیتے ہیں۔عبادہ بن صامت﷛سے مروی روایات کے الفاظ یوں ہیں ۔وہ کہتے ہیں:
((دعانا رسول اللّٰہ ﷺفبایعناہ فکان فیما اخذ علینا ان بایعنا والطاعة فی منشطناومکرھنا وعسرنا ویسرنا علینا وان لا ننازع الامر اھلہ قال الا ان تروا کفرا بواحاعندکم من اللّٰہ فیہ برھان))[1]
''ہمیں بلایا رسول اللہ ﷺ نے ۔پس آپ نے ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم سنیں گے اطاعت کریں گے چاہیں حالات سخت ہوں یا سازگار ،خوشی ہو یا غمی، ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے پھر بھی اور ہم اہل حکومت سے اختیارات واپس نہ لیں سوائے اس صورت کے کہ ان سے ایسا ''واضح کفر ''سرزد ہوجائے جس کے کفر ہونے پر اللہ کے دین میں صریح دلیل موجود ہو''۔
درج بالا حدیث کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو رسول اللہﷺنے''کفر بواح''کے صرف ارتکاب پرحاکم کو واجب العزل قرار دے دیا۔اسی طرح بعض احادیث کے مطابق اگروہ کھلم کھلا معصیت کا ''حکم ''بھی دینا شروع کردے جس کو فقہاء نے ''فسق متعدی''سے تعبیر کیا ہے اور اس کا حکم بھی ''کفر بواح''کا ہی ہے۔احادیث مبارکہ یوں ہیں:
((عن عبادة بن الصامت عن رسول اللّٰہ ﷺ ثم مثل ذلک قال مالم یأمروک باثم بواحا))[2]
''حضرت عبادہ بن صامت﷛سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اسی طرح بیعت لی ۔اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا :سوائے اس کے کہ وہ تمہیں کھلم کھلا گناہ کا حکم دے''۔
((الاان یأمرک باثم بواحاعندک تأویلہ من الکتاب))[3]
''سوائے اس کے کہ وہ حکم دے تم کھلے گناہ کا جس کی دلیل تمہارے پاس کتاب(و سنت)سے ہو''۔
((عبادة ابن صامت یقول: قال رسول اللّٰہ ﷺ! ثم یا عبادة،قلت لبیک،قال اسمع واطع فی عسرک ویسرک ومکرھک واثرة علیک اون اکلوامالک وضربواظھرک الا ان تکون معصیة اللّٰہ بواحا)) [4]
''حضرت عبادہ بن صامت﷛کہتے ہیں۔رسول اللہﷺنے فرمایا:اے عبادۃ!انہوں نے کہا حاضرہیں۔ آپﷺ نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو چاہے تمہیں آسان لگے یا مشکل اور چاہے تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور چاہے وہ تمہارے مال لے لے اور تمہاری پیٹھوں پر مارے سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا نافرمانی کا حکم دے''۔
[1] صحیح مسلم ج:3ص:1470.
[2] مسند احمدج:5ص:321،رقم الحدیث22789.
[3] مسند الشامین ج:1ص:141،رقم الحدیث225.
[4] صحیح ابن حبان ج:10ص:428،رقم الحدیث4566.

اب قارئین کرام خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں وہ سب کچھ بیان کردیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو کہاں خروج کرنا اور کہاں خروج سے رکنا ہے۔ اگر ہم بے بصیرت لوگوں کی تفسیر پر عمل کرنے لگ جائیں جو اپنی خواہشات کی بنیاد پر حدیثوں کی غلط تاویل کرتے ہیں تاکہ اپنے اپنے طاغوتی حکمرانوں کو مسلمانوں کے خروج سے بچاسکیں۔تو اس طرح زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔اب کوئی بتائے ان حکمرانوں اس امت پر کتنے ہی ظالم ڈھائے ہیں ۔ انہوں مسلمانوں کی ولایت کو مجاہدین سے ختم کرکے فرعون عصر امریکہ کی طرف کردی ۔ لہٰذا اسی بناء پر پاکستان کی حکومت اور اس کی فوج نے افغانستان میں قائم امارت اسلامیہ سے ولایت کا سلسلہ توڑ کر مجاہدین سے براءت کرتے ہوئے اپنے ولاء کو امریکہ اور اس کے صلیبی لشکر ناٹو سے جوڑلیا۔اور ان کے صف اول کے اتحادی بن کر افغان مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ۔ اگر کسی کو اس بات میں کوئی شک ہے تو وہ یوٹیوب پر افغان جنگ سے متعلق فلموں میں اس خوفناک بمباری کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرسکتا۔ کس نے مجاہدین کے ٹھکانوں سے امریکہ کو مطلع کیا آپ کے حکمرانوں اور آپ کی فوج نے ۔ کس نے نے افغانستان میں مجاہدین کے خفیہ معسکرات کی نشان دہی امریکہ کو کی آپ کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے ۔ حتیٰ کہ آپ کے حکمرانوں نے تمام سفارتی آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے امارت اسلامیہ کے سفیر کو بھی امریکیوں کے حوالے کردیا اور اس کے بدلے میں امریکیوں سے ڈالر وصول کئے ۔ کتنے جرائم آپ کے حکمرانوں اور آپ کی فوج نے کیے اگر ایک انسان ان کو لکھنے بیٹھ جائے تو دفتر کے دفتر کے درکار ہوں گے۔
اور حیرت ہے کہ ایسے حکمرانوں کے بارے میں آپ امت کے نوجوانوں کو یہ درس دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔ ہم نے احادیث اور سلف وصالحین کے اقوال سے آپ کے اس باطل نظریے کو تارعنکبوت کی مانند کرکے رکھ دیا ہے۔ ان شاء اللہ اس امت کے نوجوان اب تمہاری تلبیس کا شکار نہیں ہوں گے۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ابن تیمیہ ﷫فرماتے ہیں :
''اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی ﷺکی رحلت کے بعد کسی اور کو حلال حرام قرار دینے کا حق ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا ۔یاکسی حد کولازمی قرار دے جو نبی ﷺکے زمانے میں نہیں تھی یا ایسا شرعی قانون بناتا ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا تو وہ شخص کافر مشرک ہے اس کی جان ومال کا حکم مرتد کا ہے''۔مجموع الفتاوی:28/524
جناب اس کی زد میں تو آپ کی تمام حنفی پارٹی آجاتی ہے۔
بتاؤ پھر۔۔۔۔۔قتال شروع کریں؟ھاھھاھاھ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کلمہ توحید لاالٰہ الااﷲ کے دوایسے بنیادی رکن ہیں۔ جن میں ایک دوسرے کے بغیر کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کی گواہی کو مکمل کرنے کے لیے دونوں ارکان کی موجودگی لازمی ہے:
پہلا رکن ہے نفی یعنی ''لاالٰہ''کوئی معبود نہیں :دوسرا رکن ہے اثبات ''الااﷲ'' قرآن کے الفاظ میں جنہیں کفر بالطاغوت اورایمان باﷲکہاگیا ہے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی )البقرہ:(265
''جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اﷲپر ایمان لے آیا اس نے مضبوط کڑا تھام لیا ۔''

جس نے ان دونوں ارکان کو نہیں تھاما تو اس نے مضبوط کڑے کو بھی نہیں تھاما ۔اور جس نے مضبوط کڑے کو نہیں تھاما تو وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگیا اس لیے کہ وہ موحدین کے زمرے میں نہیں ہے بلکہ مشرکین یا کافروں میں شمار ہوگا ۔اب یہ جو حکام ہیں انہوں نے اﷲکے ساتھ شریک بنارکھے ہیں جو ان کے لیے شریعت بناتے ہیں اگر ہم ان کے دفاع کرنے والوں کی بات تسلیم کرلیں کہ یہ حکام مؤمن ہیں تویہ حکام دائرہ توحید میں داخل نہیں ہوسکتے )صرف دعویٰ کی بنیاد پر(اس لیے کہ ایک رکن ابھی باقی ہے جس کو اﷲ نے ایمان سے ذکرکیا ہے اور وہ کفر بالطاغوت ہے۔کفر بالطاغوت کے بغیر ان کا ایمان اﷲپرایسا ہی ہے جیسا کہ قریش کا ایمان تھا وہ بھی اﷲپر ایمان رکھتے تھے مگر اپنے طاغوتوں کا انکارنہیںکرتے تھے ۔جبکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہے کہ ان کے اس طرح ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا نہ ان کی جان محفوظ رہی نہ مال جب تک کہ اس کے ساتھ انہوں نے طاغوت کا انکار اور اس سے بیزاری کا اعلان نہ کردیا اس سے پہلے ان کا وہ ایمان جو کہ ظاہری شرک کے ساتھ مخلوط تھا اس نے انہیں نہ دنیاوی معاملات میں فائدہ دیا نہ آخرت کے لیے کارآمد تھا ۔
اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے:

وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاﷲِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْن )یوسف:(106
''ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے مگر مشرک ہوتے ہیں۔''

شرک ایمان کے منافی اور اعمال کو برباد کرنے والا ہے ۔
لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن)زمر:(65
''اگر آپ صل الله علیہ وسلم نے بھی شرک کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔''

جبکہ یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ یہ حکام مشرق ومغرب کے طاغوتوں کا انکارنہیں کرتے نہ ہی ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔بلکہ یہ تو ان طاغوتوں پر ایمان لاتے ہیں ان سے دوستی کرتے ہے اپنے معاملات واختلافات کے فیصلے ان کے پاس لے جاتے ہیں ان کے کفریہ احکام کو پسند کرچکے ہیں ان کے ملکی قوانین کو تسلیم کرچکے ہیں اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے یا اقوام متحدہ کے نام پر اس کے پلیٹ فارم پرہوچکا ہے اور ان کے کفریہ عدالتوں میں بھی یہی قوانین رائج ہیں ۔اسی طرح عرب طاغوت بھی ہیں ان کے معاہدات بھی کافر بے دین اقوام کی طرح ہیں یہ بھی تمام طاغوتوں کے دوست اورحمایتی بلکہ ان کے غلام ہیں نہ ان سے کنارہ کشی کرتے ہیں نہ ان کی مدد وحمایت سے دست کش ہوتے ہیں نہ ہی ان کے شرک کے اظہار سے اجتناب کرتے ہیں تاکہ وہ شرک سے نکل آئیں اورانہیں مسلمان کہا جاسکے ۔اگر کسی کو عرب طاغوتوں کے بارے میں شک ہو تو اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے آدمی کی نظر ختم ہوچکی ہے ۔اس لیے کہ یورپ ہو یا مشرق کے نصاریٰ کمیونسٹ ہویا ہندو ان سب کا کفر توکسی اندھے سے بھی مخفی نہیں اور حکمران اور ان کے حواری ان کے ساتھ دوستیاں رکھتے ہیں بلکہ محبت اوربھائی چارے کے تعلقات رکھے ہوئے ہیں ان کے درمیان اقوام متحدہ کی صورت میں رابطہ موجود ہے جو کہ ایک کفریہ مجلس ہے ۔تنازعات کے وقت یہ لوگ اپنے فیصلے اسی اقوام متحدہ کی کفریہ عدالت کے پاس لے جاتے ہیں۔ان لوگوں نے توحید کارکن اول ثابت نہیں کیا جو کہ اہم رکن ہے یعنی کفر بالطاغوت، ایسا کرتے تومسلمان کہلاتے ۔اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ انہوں نے دوسرے رکن )ایمان باﷲ(کو ثابت کردیا ہے تو اس کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے جبکہ یہ خود طاغوت بنے ہوئے ہیں اور اﷲ کے علاوہ ان کی عبادت کی جاتی ہے یہ لوگوں کے لیے شریعت )قانون(بناتے ہیں جس کی اجازت اﷲنے نہیں دی لوگوں کو )اس شریعت وقانون کی طرف(دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو اسی قانون کی طرف لے جاتے ہیں اورانہیں پابند کرتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے قوانین باطلہ پرعمل کریں ۔

ان کا ایک کفر یہ بھی ہے کہ اﷲکے دین کا مذاق اڑاتے ہیں:
انہوں نے دین کا مذاق اڑانے والے ہر شخص کو اس کام کی اجازت دے رکھی ہے کہیں صحافت کی آزادی کے نام پر کہیں آزادی رائے کے نام پر اورٹیلی ویژن کو ہر قسم کی فحاشی اورکفریات عام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ اسے قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ اَبِاﷲِ وَاٰیتِہٖ وَ رَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْْن لَاتَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ)التوبۃ:(65
''کیا اﷲاور اس کے رسول اور اس کی آیتوں کے ساتھ تم استہزاء کرتے ہو ؟معذرت مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو ۔''

یہ آیات ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو مسلمان تھے ۔نمازیں پڑھتے ہیں ۔روزے رکھتے تھے ۔زکاۃ دیتے تھے اسلام کے بعد سب سے بڑے غزوہ میں مسلمانوں کے ساتھ جاچکے تھے مگر اس کے باوجو د اﷲنے انہیں کافر قرار دیا اس لیے کہ ان سے کچھ ایسے کلمات صادر ہوگئے تھے کہ جن میں کتاب اﷲحفظ کرنے والوں کا مذاق اڑایا گیا تھا ۔اب ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو اﷲکے دین کا خیال نہیں کرتے اسے انہوں نے کھلونا بنارکھاہے ہر شخص اس کا مذاق اڑاتا ہے اسے انہوں نے پس پشت ڈال رکھا ہے ان سب باتوں سے بڑھ کر )ا ن کاگناہ یہ ہے کہ (انہوں نے دین اسلام کو اپنے خودساختہ قوانین کے برابر ٹھہرایا ہوا ہے ۔دینی احکام پر اعتراضات کرتے ہیں اس کے بارے میں مشاورت کرتے ہیں اس کے اوامر ونواہی پربحث کرتے ہیں)کہ قابل عمل وقابل نفاذ ہیں یا نہیں ؟(اس معاملے میں یہ )نام نہاد مسلمان(لادین لوگوں کے ساتھ نصاریٰ اور ملحدین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس سے بڑھ کر دین کی توہین اور اس کے ساتھ تمسخر اورکیا ہوگا؟

ان کاکفر یہ بھی ہے کہ انہوں نے مغرب ومشرق کے مشرکین کے ساتھ دوستی کررکھی ہے اور موحدین کے خلاف ان کاساتھ دے رہے ہیں:

مشرکوں کے ساتھ ان کاتعاون (باہمی امن معاہدے کے نام پرہوتا ہے جس میں انہوں نے موحدین کو دہشت گرد یا بنیاد پرست قراردیا ہے ۔اور آپس میں) یہ مسلم ومشرک حکومتیں (موحدین کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتی رہتی ہیں۔اس طرح یہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ) مسلمانوںمیں (موحدین) دہشت گرد (یا بنیاد پرست کہہ کر) بدنام کریں اور ان کے خلاف کاروائی کریں
اﷲتعالیٰ کافرمان ہے:
وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُم)المائدہ:(51
''تم )مسلمانوں(میں سے جو )ان کفار(کے ساتھ دوستی کرے گا تو و ہ انہی میں سے ہے ہوگا۔''
اسی وجہ سے شیخ محمدبن عبدالوہاب نے کہا ہے کہ اسلام کے منافی امور میں سے مشرکین کا ساتھ دینا اورموحدین کے خلاف ان کی مدد کرنا بھی ہے ۔

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھۡلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَ اﷲُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْن )الحشر:(11
''کیا آپ نے منافقوںکو نہیں دیکھا؟کہ اپنے اہل کتاب کافربھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلاوطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور رتمہاری بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اوراگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے،لیکن اﷲگواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں۔''

اس آیت کے بارے میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پوتے شیخ سلیمان بن عبداﷲ اپنے رسالہ حکم موالاۃ اہل الاشراک میں لکھتے ہیں:یہ آیات ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو بظاہر مسلمان تھے اور انہیں دنیاوی معاملات کی حد تک مسلمان ہی سمجھا جاتا رہا ان سے مسلمانوں والا سلوک کیا جاتا رہا اس لیے کہ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ظاہر کودیکھیں لیکن جب ان لوگوں نے یہودیوں کے ساتھ موحدین کے خلاف مدد کرنے کا معاہدہ کرلیا )حالانکہ اﷲکومعلوم تھا کہ وہ لوگ اس اتفاق کے اظہار میں بھی جھوٹے ہیں(ان کے اور اہل کتاب کے درمیان یہ جو بھائی چار ے کاوعدہ ہوا تو اس کی بناپر اﷲنے ان کو اہل کتاب کا بھائی اورکافر قراردیا ۔اب اس پر کیاحکم لگائیں گے جو موحدین کے خلاف مشرکین کے ساتھ معاہدے کرتا ہے ان کے ساتھ اتفاق کرتا ہے اورمشرق ومغرب )پوری دنیا(کے بنائے ہوئے قوانین کاغلام ہے موحدین سے لڑتا ہے اورانہیں پکڑ پکڑ کر کافر حکومتوں کے حوالے کرتا ہے؟یہ بغیر کسی شک وشبہ)کفر( کے اس حکم میں داخل ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
کسی نے ٹائٹل غلط لکھا ہوا ھے حالانکہ یہ پاکستان میں تمام جہادی تنظیموں کے والد کہلائے جاتے تھے اور اس کا قتل۔​
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اسی ویڈیو میں شہید اعظم امیر حکیم اللہ محسود رحمہ اللہ نے اس منافق کرنل امام کے جرائم کی چارج شیٹ بیان کی ہے۔کہ اس نے کس قدر منافقت کی ہے۔جس کی پاداش میں اس منافق کو قتل کرکے واصل جہنم کیا گیا ہے۔
یہاں آپ کمزور ہیں اس لئے اسے رہنے دیتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔

شہید اعظم امیر حکیم اللہ محسود رحمہ اللہ جنت میں ہیں ان شاء اللہ۔
آپ نے شائد لکھا تھا کہ کوئی ایک معاملہ بتا دیں تو وہ دکھا دیا، باقی معاملوں پر بحث سے بہتر ھے کام کی بات کرتے ہیں، آپکے پاس ایسی کونسی چیز ھے جو آپ جس کو چاہیں وہ جنت اور جس کو چاہیں وہ جہنم میں جانے کی بشارت کر رہے ہیں صرف اس کا ہی جواب عنایت فرما دیں؟

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن ناصرالدین حقانی پاکستان کے نامعلوم مقام پر قتل

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن ناصرالدین حقانی کو پاکستان میں نامعلوم مقام پر قتل کر دیا گیا ہے جس کی تصدیق تحریک طالبان نے کر دی ہے ۔ طالبان ذرائع کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے چوتھے بیٹے ناصرالدین حقانی کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ تین بیٹے پہلے ہی امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں ۔ طالبان کے مطابق ناصرالدین حقانی کی نماز جنازہ منگل کی شام چار بجے میرانشاہ میں ادا کی جائے گی ۔ ذرائع نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایاکہ ناصرالدین حقانی کو پاکستان میں ہی قتل کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق رات گئے اسلام آباد میں دو موٹر سائیکل سواروں نے ناصرالدین حقانی کی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ مارے گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ ناصرالدین حقانی اپنے نیٹ ورک کے مالی معاملات کو بھی دیکھتے تھے جبکہ اُن کے تین بھائی پہلے ہی امریکیوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ جلال الدین حقانی سعودی یونین اور امریکہ کے خلاف لڑے تھے اور امریکہ نے اُن کے اثاثے بھی منجمد کر رکھے ہیں ۔

11 نومبر 2013 (14:39)
 
شمولیت
نومبر 24، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
38
پاکستان کی حکومت اور ایجنسیوں نے یہ بہت برا کیا خود اپنے لئے یہ خودی ایک گڑھے میں گرے چلے جارہے ہیں۔
 
Top