• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید

وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُوْ لُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ [متفق علیه]
’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مسلمان کو گالی دینا فسوق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘
تشریح:
1مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے، مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
2 اگر کوئی گالی دینے میں ابتدا کرے تو اس سے بدلا لینا جائز ہے، اگرچہ بہتر صبر ہے۔
﴿وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ﴾ [الشوری:41]
’’ جو شخص ظلم کیے جانے کے بعد بدلا لے لے تو لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘
﴿وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ [الشوری: 41]
’’ اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقینا یہ ہمت کا کام ہے۔‘‘
3 بدلا لینے میں شرط یہ ہے کہ صرف اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے ، زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو ، اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی ابتدا کرنے والے پر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِئِ مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ [مسلم: 2587]
’’ دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔‘‘
اگر دونوں ہی ایک دوسرے پر جھوٹ باندھیں تو دونوں گناہ گار ہیں اگر چہ پہل کرنے والا پہل کا مجرم بھی ہے ، عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ المستبان شیطانان یتہا تران ویتکاذبان‘‘ [صحیح ابن حبان: 5696]
’’ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ‘‘
4 ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو گالی دے سکتا ہے خصوصا جب وہ محارب (حالت جنگ میں) ہو، اس وقت اسے ذلیل کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے، جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے اردگرد ادھر ادھر لوگ جمع ہیں، جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:
امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ [ بخاری: 15]
’’ (جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو، کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔؟‘‘
5۔ ’’ اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘
لڑائی کرنا گالی دینے سے سخت ہے، اس لیے اس پر حکم بھی سخت ہے۔
6۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا:
لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ [ بخاری: 43]
’’میرے بعد دوبارہ کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘
خارجی لوگ کا یہی موقف ہے اور اسی بنا پر انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی لوگوں کو بزعم خویش کبیر کا مرتکب ہونے کی بنا پر کافر قرار دیا ، مگر ان احایث سے یہ مطلب نکلانا درست نہیں، بلکہ شریعت کے قواعد اور قرآن وحدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔
7 حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں کفر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک وہ کفر ہے جس سے مراد خروج عن الاسلام ہے اور جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہے، یہ کفر جحود اور بڑا کفر ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دینا۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات واقعی اللہ تعالی نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اس انکار کو درست سمجھنا۔
کفرکی دوسری اقسام امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے کفر دون کفر ’’بڑے کفر سے کم تر کفر قرار دیا ہے۔‘‘ یعنی اسلام میں رہ کر کفر کے کسی کام کو ارتکاب کرنا، اس کفر کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق
’’ ايمان كی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر نا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ [صحیح مسلم: 16]
ایمان کی ان تمام شاخوں کی ضد جتنے کام ہیں سب کفر کے کام ہیں، مگر کفر کے ہر کام کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا، مثلاً اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لینے، توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے ، نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے اور عملی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو جانے کے بعد کسی گناہ مثلا قتل، زنا، چوری وغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے ، مگر ان کاموں کو جائز نہیں سمجھتا ، نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تویہ شخص گناہ گار مسلم ہے یہ نہ اسلام سے خارج ہے نہ ابدی جہنمی۔ ہاں! اس نے جو گناہ کیا ہے وہ کفر ہے اور جاہلیت کا کام ہے ، اس لیے اس کے متعلق اگر کہیں کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی بھی کفر ہے کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے ، یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہےاور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کے بخشش کی صورت نہیں، اس تفصیل کی دلیل کے لئے چند آیات و احادیث پر غور کریں:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ [النساء: 4/48]
’’ یقینا اللہ تعالی اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ چیزیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک جو شرک پر فوت ہو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ہاں مومن کے گناہ اللہ چاہے گا تو بخش دے گا ، چاہے سزا دے کر جہنم سے نکال لے گا۔
ب) شفاعت کی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ملت اسلام کا فرد ہے اور اسے اللہ چاہےگا تو شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا اور چاہے تو محض اپنے فضل وکرم سے بغیر کسی شفاعت کے جہنم سے نکال دے گا۔
ج) اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا﴾ [الحجرات: 94/ 9]
’’ اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔‘‘
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ﴾ [الحجرات: 49/ 10]
’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائیں، اسی طرح قصاص کی آیات میں قاتل کو اور مقتول کے وارثوں کو بھائی قرار دیا ۔ فرمایا:
﴿فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ:2/ 178]
’’ تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے، احسان کے ساتھ۔‘‘
معلوم ہوا کہ قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی ، یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان یا طلحہ ، زبیر، عائشہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان جو جنگیں ہو ئیں، اپنے بالمقابل لڑنے والے کسی شخص کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کافر قرار نہیں دیا نہ ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنایا نہ ان کے مال کو مال غنیمت ، اگر وہ انہیں کافر قرار دیتے تو مسیلمہ کذاب کے پیرو کاروں کی طرح ان کے اموال کو غنیمت بناتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بناتے۔
ان آیات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے ، یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
8 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی صحابہ سے قتل، زنا، چوری، بہتان، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں کا صدور ہوا ، آپ نے ان پر اللہ کی مقرر کردہ حدیں لگائیں مگر نہ کسی کو کافر قرار دیا نہ ملت اسلام سے خارج قرار دیا، نہ ہی کسی کو مرتد قرار دے کر اس پر ارتداد کی حد (قتل) لگائی۔
9 مسلمان کو گالی دینے کو فسق اور اس سےلڑنے کو کفر قرار دینے سے ان گناہوں کی قباحت اور شناعت صاف ظاہر ہے ، اہل ایمان کو فسق اور کفر کا ارتکاب کسی طور پر زیب نہیں دیتا۔
0 بعض علماء نے ’’ مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اسے مجازا کفر قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمت، اس کےاحسان کی ناشکری اور اخوت اسلامی کی بے قدری ہے، یہ وہ کفر نہیں جو ایمان سے انکار پر لازم آتا ہے ، اسے کفر اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس گناہ میں بڑھتے بڑھتے دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑے کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ (اعاذنا اللہ منہ!)
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ان آیات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے ، یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
لیکن اگر کوئی ایسا برائے نام اسلامی ملک(جس میں کفار کا قانون چلتا ہو ، ) جو حربی کفارکی رضا حاصل کرنے اور چند ڈالر حاصل کرنے کے لیے ان سے مل کر مسلمانوں کو قتل کرے ؟
 
Top